Commentary The lexical item اشراط |"ashrat|" occurring in this passage means |"signs|". The portents of the last Hour starts with the very advent of Khatam-un-Nabiyyin (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ the Last of the Holy Prophets ] as the end of the Holy Prophethood is the sign of the approach of the last Hour. The miracle of the splitting of the moon by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been described thus in the Holy Qur&an [ 54:1]: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ |"The hour has drawn near and the moon has split.|" - indicating that this miracle is also one of the signs of the last Hour. These are initial portents of the Hour which appeared at the time of the revelation of the Qur&an. Besides, there are many other portents that have been predicted in authentic Ahadith, one of which is reported by Anas in which he says that I have heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) say: |"Among the signs of the last hour is the removal of knowledge, abundance of ignorance, the prevalence of fornication, the prevalence of wine-drinking, the small number of men and the large number of women so that fifty women will have one man to look after them|". (Bukhari and Muslim) A version has |"knowledge will dwindle and ignorance will be widespread.|" Abu Hurayrah (رض) reports Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as saying: |"When the spoils of war are taken as personal wealth, property given in trust is treated as spoil, zakah is treated as a fine, learning is acquired for other than religious purpose, a man obeys his wife and is undutiful towards his mother, brings his friend near and drives his father far off, voices are raised in the mosques, the most wicked member of a tribe becomes its ruler, the most worthless member of a people becomes its leader, a man is honored through fear of the evil he may do, singing-girls and stringed-instruments make their appearance, wines are drunk, and the last members of this community curse the earlier ones, look at that time for a violent wind, an earthquake, being swallowed up by the earth, metamorphosis, pelting rain, and signs following one another like bits of a necklace falling one after the other when its string is cut. (Tirmidhi)
خلاصہ تفسیر اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض آدمی ایسے ہیں (مراد منافقین ہیں) کہ وہ ( آپ کی تبلیغ وتعلیم کے وقت ظاہر میں تو) آپ کی طرف کان لگاتے ہیں (لیکن دل سے بالکل متوجہ نہیں ہوتے) یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ کے پاس سے (اٹھ کر مجلس سے) باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم (صحابہ) سے کہتے ہیں کہ حضرت نے ابھی (جب ہم مجلس میں تھے) کیا بات فرمائی تھی ( ان کا یہ کہنا بھی ایک قسم کا استہزاء ہی تھا کہ اس سے یہ جتلانا تھا کہ ہم آپ کی گفتگو کو قابل التفات نہیں سمجھتے، یہ بھی ایک شعبہ نفاق ہی کا تھا) یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے (ہدایت سے دور ہوگئے) اور اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں اور (انہی کی قوم میں سے) جو لوگ راہ پر ہیں (یعنی مسلمان ہوچکے ہیں) اللہ تعالیٰ ان کو (احکام سننے کے وقت) اور زیادہ ہدایت دیتا ہے (کہ وہ ان احکام جدیدہ پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی ان کی ایمانیات کی تعداد بڑھ گئی یا یہ کہ ان کے ایمان کو اور زیادہ قوی اور پختہ کردیتے ہیں جو عمل صالح کا خاصہ ہے کہ اس سے ایمان میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے) اور ان کو ان کے تقویٰ کی توفیق دے دیتا ہے (آگے ان منافقین کے لئے و عید ہے کہ یہ جو قرآن اور احکام الٰہیہ سن کر بھی متاثر نہیں ہوتے) سو (معلوم ہوتا ہے کہ) یہ لوگ بس قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر دفعتا آ پڑے (یہ بطور زجر و توبیخ کے فرمایا کہ اب بھی متاثر نہیں ہوتے تو کیا قیامت میں تذکر اور ہدایت حاصل کریں گے) سو (یاد رکھو کہ قیامت بھی نزدیک ہے چنانچہ) اس کی (متعدد) علامتیں تو آ چکی ہیں (چنانچہ از روئے حدیث خود خاتم النبیین کی بعثت و نبوت بھی علامات قیامت میں سے ہے اور شق قمر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہونے کے علاوہ قیامت کی علامات قیامت میں سے ہے۔ یہ سب علامات زمانہ نزول قرآن میں موجود ہوچکی تھیں، آگے اس کا بیان ہے کہ ایمان لانے اور ہدایت پانے میں قیامت کا انتظار کرنا محض جہالت ہے کیونکہ وہ وقت سمجھنے اور عمل کرنے کا نہیں ہوگا۔ فرمایا) تو جب قیامت ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی اس وقت ان کو سمجھنا کہاں میسر ہوگا (یعنی مفید نہیں ہوگا) معارف و مسائل اشراط، کے معنے علامات کے ہیں اور علامات قیامت کی ابتداء خود خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے ہوجاتی ہے کیونکہ ختم نبوت بھی قرب قیامت کی علامت ہے۔ اسی طرح شق قمر کے معجزہ کو بھی قرآن میں اقتربت الساعة کے ساتھ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ بھی علامات قیامت میں سے ہے۔ یہ تو علامات ابتدائیہ ہیں جو خود نزول قرآن کے وقت میں ظاہر ہوچکی تھیں دوسری علامات قریبہ احادیث صحیحہ میں ثابت ہیں ان میں سے ایک حدیث حضرت انس سے منقول ہے کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ علامات قیامت یہ ہیں۔ علم اٹھ جائے گا، جہل بڑھ جائے گا، زنا کی کثرت ہوگی، شراب خوری کی کثرت ہوگی، مرد کم رہ جائیں گے، عورتیں بڑھ جائیں گی، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا متکفل ایک مرد ہوگا اور ایک روایت میں ہے کہ علم گھٹ جائے گا اور جہل پھیل جائے گا (بخاری و مسلم ) اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مال غنیمت کو شخصی دولت سمجھ لیا جائے اور امانت کو مال غنیمت قرار دے لیا جائے (کہ حلال سمجھ کر کھا جائیں) اور زکوٰة کو تاوان سمجھا جائے (یعنی اس کی ادائیگی میں دل میں تنگی محسوس ہو) اور علم دین اغراض دنیوی کے لئے حاصل کیا جانے لگے، اور مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے، اور دوست کو اپنے قریب کرے اور باپ کو دور کر دے، اور مساجد میں شور و شغب ہونے لگے اور قوم کا سردار ان سب میں کا فاسق بدکردار آدمی ہوجائے، اور قوم کا نمائندہ ان سب میں کا رذیل ہوجائے، اور شریر آدمی کا اکرام صرف اس لئے کرنا پڑے کہ اس کا اکرام نہ کریں گے تو یہ ستائے گا اور گانے والی عورتوں کا گانا عام ہوجائے، اور مزامیر باجے گاجے پھیل جائیں اور شرابیں پی جانے لگیں، اور امت کے آخری لوگ اپنے اسلاف پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت تم لوگ انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور لوگوں کے زمین میں دھنس جانے کا اور صورتیں مسخ ہوجانے کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا اور دوسری علامات قیامت کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے موتیوں کی لڑی کو کاٹ دیا جائے اور موتی ایک ایک کر کے نیچے آ گرتے ہیں۔