Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 17

سورة محمد

وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ ﴿۱۷﴾

And those who are guided - He increases them in guidance and gives them their righteousness.

اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى ... And as for those who accept guidance, He increases them in guidance, which means that those who seek guidance, Allah facilitates it for them; He guides them to it, makes them firm on it, and gives them more of it. ... وَاتَاهُمْ تَقْواهُمْ and bestows on them their Taqwa. meaning, He inspires them to their righteous guidance. Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی جن کی نیت ہدایت حاصل کرنے کی ہوتی ہے تو اللہ ان کو ہدایت کی توفیق بھی دے دیتا ہے اور ان کو اس ثابت قدمی بھی عطا کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] یعنی وہی باتیں اور ارشادات نبوی جو ان منافقوں کے لیے ایک معمہ بن جاتے تھے وہی اہل ایمان کے لیے ہدایت میں اضافہ کا ذریعہ ہوتے تھے۔ اور ان میں مزید تقویٰ پیدا ہوجاتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

والذین اھتدوا زادھم ھدی…: یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چل پڑتے ہیں تو وہی باتیں ان کی ہدایت میں اضافے کا باعث بن جاتی ہیں جو منافقین کی سمجھ میں نہیں آتیں اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے انہیں مزید ہدایت عطا فرماتا ہے اور انہیں ان کا موں کی توفیق عطا فرماتا ہے جن کے ذریعے سے وہ جہنم کی آگ سے بچ جاتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى وَّاٰتٰىہُمْ تَقْوٰىہُمْ۝ ١٧ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو حضرات ایمان کے ذریعہ ہدایت پر ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کا خطبہ سننے سے انہیں امور دین میں اور زیادہ بصیرت اور سچائی عطا فرماتا ہے اور ان کو ان کے تقوی کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ یعنی ان کو ترک اور اجتناب محارم کی وجہ سے اعزازو سرفرازی عطا کرتا ہے یا یہ مطلب ہے کہ جو حضرات ناسخ پر قائم ہیں حق تعالیٰ منسوخ کی وجہ سے ان کی ہدایت کو بڑھاتا ہے اور ان کو ناسخ پر عمل کرنے اور منسوخ کو چھوڑنے کی وجہ سے سرفراز فرماتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًی وَّاٰتٰٹہُمْ تَقْوٰٹہُمْ } ” اور وہ لوگ جو ہدایت پر ہیں اللہ نے ان کی ہدایت میں اور اضافہ کردیا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرمایا ہے۔ “ جب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریک مرحلہ قتال میں داخل ہوئی ہے اہل ایمان کے جوشِ ایمانی ‘ ذوقِ شہادت اور تقویٰ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, the same revelations about which the disbelievers and hypocrites ask, "What was he (the Holy Prophet) saying just now ?" become a cause of further guidance for the rightly-guided people, and from the same assembly from which these unfortunate people rise without gaining anything, the fortunate ones return with a new treasure of knowledge and insight. 28 That is, Allah grants them the grace to develop in themselves the kind of piety (taqwa) that they have the capability to develop.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :27 یعنی وہی باتیں ، جن کو سن کر کفار و منافقین پوچھتے ہیں کہ ابھی ابھی آپ کیا فرما رہے تھے ، ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے مزید ہدایت کی موجب ہوتی ہیں ، اور جس مجلس سے وہ بد نصیب اپنا وقت ضائع کر کے اٹھتے ہیں ، اسی مجلس سے یہ خوش نصیب لوگ علم و عرفان کا ایک نیا خزانہ حاصل کر کے پلٹتے ہیں ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :28 یعنی جس تقوی کی اہلیت وہ اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں ، اللہ تعالی اس کی توفیق انہیں عطا فرما دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:17) اھتدوا ۔ ماضی جمع مذکر غائب اھتداء (افتعال) مصدر۔ انہوں نے ہدایت پائی۔ اھتدوا کا لفظ جہاں قرآن مجید میں آیا ہے وہاں امور اخرویہ میں ہدایت پانا مراد ہے اھتداء کا استعمال کبھی ہدایت طلب کرنے یا اس کے لئے کوشش کرنے نیز کسی ہدایت یافتہ کی پیروی کرنے کے متعلق بھی ہوتا ہے ۔ اس باب میں ہدایت حاصل کرنے کے لئے اپنے اختیار سے کوشش کرنا کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ لغت کے اعتبار سے ھدی اور ھدایۃ میں کوئی فرق نہیں مگر ھدی کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمانے کے لئے استعمال کیا ہے یعنی ہدایت کی جو نسبت اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے ہے اس کے لئے ھدی کا لفظ مخصوص ہے جیسے کہ قرآن مجید میں آیا ہے قل ان ھدی اللہ ھو الھدی (2:12) فرمادیجئے کہ خدا وند تعالیٰ کی ہدایت ہی (اصل) ہدایت ہے۔ زادہم : ماضی واحد مذکر غائب ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ زیادۃ (باب ضرب) مصدر۔ اس نے زیادہ دیا۔ اس نے بڑھا دیا۔ ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اس نے ان کو زیادہ دیا۔ اس نے ان کو بڑھایا۔ اس نے ان کو مزید ہدایت بخشی۔ واتہم تقوہم ۔ اور ان کو ان کے تقوی کی توفیق بخشی۔ یا تو فیق دیتا ہے۔ ہم ضمیر مفعول ہے۔ تقوہم مضاف مضاف الیہ۔ ان کا تقوی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی ان کے ایمان علم اور دینی بصیرت میں اضافہ فرماتا ہے اور انہیں ت قویٰ کے مقام پر پہنچاتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی مسلمان ہوچکے ہیں۔ 8۔ یعنی ایمان لانے کے بعد ان احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین اھتدوا زادھم ھدی واتھم تقوھم (٤٧ : ١٧) “ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے ، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے ”۔ اس آیت میں واقعات کی جو ترتیب ہے ، وہ قابل توجہ ہے ۔ جو ہدایت پر ہیں وہ خود ہدایت کی راہ لیتے ہیں تو اللہ ان کو مزید ہدایت کی توفیق دیتا ہے اور ان کو ہدایت میں مزید گہرائی بخشتا ہے۔ واتھم تقوھم (٤٧ : ١٧) “ اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا کرتا ہے ”۔ تقویٰ ایک قلبی حالت کا نام ہے جس کے نتیجے میں انسان ہر وقت اللہ سے ڈرتا رہتا ہے۔ اس کو شعور ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ کے غضب سے انسان ڈرتا ہے۔ اللہ کی رضا کا متلاشی ہوتا ہے۔ اور اس بات سے وہ اپنے آپ کو بچاتا ہے کہ اللہ اسے بری حالت میں دیکھے۔ یہ تیز احساس ہی تقویٰ ہے۔ یہ اللہ اس شخص کو عطا کرتا ہے جس سے اللہ راضی ہو اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان راہ ہدایت لینے میں رغبت رکھتا ہے۔ تو اللہ مزید ہدایت دے کر اسے تقویٰ کا مقام دیتا ہے غرض ہدایت کی خواہش ، پھر اللہ کی طرف سے مزید ہدایت اور پھر اللہ کا تقویٰ اور ڈر وہ مدارج ہیں جو نفاق ، غفلت اور خواہشات نفس کی پیروی کے بالمقابل ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں اہل ایمان کے انعام کا تذکرہ فرمایا کہ جن لوگوں نے ہدایت پائی اللہ تعالیٰ ان کو مزید ہدایت دیتا ہے (جیسے جیسے احکام نازل ہوتے ہیں وہ ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور عمل کرتے جاتے ہیں) اور اللہ ان کو ان کا تقویٰ نصیب فرماتا ہے (احکام پر بھی عمل کرتے ہیں اور جن افعال و اعمال سے منع فرمایا ہے ان سے بھی بچتے ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” والذین اھتدوا “ بیان حال مؤمنین۔ اور جو لوگ ہدایت قبول کرچکے ہیں جب وہ آپ کی خدمت میں حاجر ہو کر آپ سے کلام الٰہی اور آپ کا وعظ و نصیحت سنتے ہیں تو ان کی بصیرت اور ان کے علم و یقین کو تقویت ملتی ہے اور انہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطاء ہوتی ہے۔ زادھم ھدی ای بصیرۃ وعلما، (مدارک ج 4 ص 116) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور جو لوگ راہ یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت میں اور بڑھاتا ہے اور ان کو بچ کر چلنے کی اور ان کو ان کے تقویٰ کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ یعنی جو لوگ مسلمان ہیں ان کی ہدایت و رہنمائی میں ترقی ہوتی ہے یا کلام سن کر اور نئی باتیں معلوم کرکے ایمان اور تصدیق کے افراد باعتبار متعلقات کے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کے تقوے کی ان کو توفیق عطا فرمانا یہی کہ وہ نفسانی خواہشات سے بچتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت کے کلام سے اثر پایا اور گناہوں سے بچنے لگے۔ خلاصہ : یہ کہ اوپر کی آیت میں منافقوں کے متعلق دو باتیں فرمائی ہیں ایک قلوب پر مہر کہ حق بات دل میں اترہی نہ سکے۔ دوسری بات نفسانی خواہشات کی پیروی ان دونوں باتوں کے مقابلے میں مخلص مسلمانوں کی دو باتوں کو دیکھنا چاہیے قلب کی کشادگی کہ ہر وقت نئے نئے احکام کی وجہ سے ان کی تصدیق اور ایمان بڑھتا رہتا ہے۔ دوسرے نفسانی خواہشات کو پامال کرتے ہیں اور نفس کی خواہش کو پورا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ وہاں قلب پر مہر یہاں قلب حق قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار وہاں نفسانی خواہشات کی غلامی اور یہاں نفسانی خواہشات کی پامالی۔