Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 19

سورة محمد

فَاعۡلَمۡ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَکُمۡ وَ مَثۡوٰىکُمۡ ﴿۱۹﴾٪  6

So know, [O Muhammad], that there is no deity except Allah and ask forgiveness for your sin and for the believing men and believing women. And Allah knows of your movement and your resting place.

سو ( اے نبی! ) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی اللہ تم لوگوں کی آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لاَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ... So know that La ilaha illallah, This is a declaration that there is no true God except Allah. It is not something that is easy for him to command the people to have knowledge of. That is why Allah connected it with, ... وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُوْمِنِينَ وَالْمُوْمِنَاتِ ... and ask forgiveness for your sin and for the believing men and women. In the Sahih, it is recorded that Allah's Messenger used to say, اللْهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِييَتِي وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي اللْهُمَّ اغْفِرْ لِي هَزْلِي وَجِدِّي وَخَطَيِي وَعَمْدِي وَكُلُّ ذلِكَ عِنْدِي O Allah, forgive my sin, my ignorance, my immoderation in my affairs, and all that You know better about my (faults) than myself. O Allah, forgive for me my joking, my seriousness, my unintended error, and my deliberate (mistakes) -- and I have done of all that. It is also reported in the Sahih that he used to say at the end of the prayer, اللْهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ إِلهِي لاَ إِلهَ إِلاَّ أَنْت O Allah, forgive for me what I have previously done, what I may commit in future, what I have committed secretly, what I have committed openly, what I have done excessively, and all sins that You know better than me. You are my God. There is no (true) God except You. It is also recorded in the Sahih that he used to say, يَاأَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى رَبِّكُمْ فَإِنِّي أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّة O people! Repent to your Lord! Verily, I ask Allah for forgiveness and repent to Him more than seventy times every day. Allah then says, ... وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ And Allah knows well your moving about, and your place of rest. means, He knows how you behave during the day, and where you settle at night. This is similar to His saying, وَهُوَ الَّذِى يَتَوَفَّـكُم بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ It is He Who takes your souls by night and knows all that you do by day. (6:60) And He says, وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ And there is no moving creature on earth but its provision is up to Allah, and He knows its dwelling place and its deposit (before birth and after death) -- all is in a clear register. (11:6)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی اس عقیدے پر ثابت اور قائم رہیں کیونکہ یہی توحید اور اطاعت الہی مدار خیر ہے اور اس سے انحراف یعنی شرک اور معصیت مدار شر ہے۔ 19۔ 2 اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یَا اّیُّھَا النَّاسُ ! تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَاِنِّی اَسْتَغْعِرُ اللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیہِ فِی الیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً (صحیح بخا ری) لوگو ! استغفار کیا کرو، میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ استغفار کرتا ہوں۔ بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ 19۔ 3 یعنی دن کو تم جہاں پھرتے اور جو کچھ کرتے ہو اور رات کو جہاں آرام کرتے اور استقرار پکڑتے ہو اللہ تعالیٰ جانتا ہے مطلب ہے شب وروز کی کوئی سرگرمی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] کوئی مومن جس درجے کا بھی وہ مومن ہو اسے اللہ کے حضور اپنے عجزو قصور کا اعتراف کرتے رہنا چاہئے۔ قصور کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جس قدر عبادت اور اطاعت کا ہم پر حق تھا وہ ہم پوری طرح نبھا نہیں سکے۔ اور ایسا اعتراف تمام انبیاء بھی کرتے آئے ہیں۔ حالانکہ انبیاء سے گناہ کا اور بالخصوص دیدہ دانستہ گناہ کا سرزد ہونا محالات سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسی ارشاد کے مطابق آپ ایک دن میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار فرمایا کرتے تھے۔ اور تمام مسلمان بھی اپنی نمازوں کے دوران اور نمازوں کے بعد بہ تکرار استغفار کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت میں رسول اللہ کو اپنے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ آپ کی دعا اللہ کی بارگاہ میں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مستجاب ہے۔ [٢٣] یعنی اللہ تعالیٰ تم سے ہر ایک شخص کی، خواہ وہ مومن ہے یا کافر، نقل و حرکت کو اور اس کی سرگرمیوں کو خوب جانتا ہے کہ وہ کس راہ میں صرف ہو رہی ہیں۔ پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مر کر دفن ہوگا اور مَثْوٰکُمْ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو مرنے کے بعد جنت یا دوزخ میں جو ٹھکانا ملے گا۔ اللہ اسے بھی خوب جانتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاعلم انہ لا الہ الا اللہ : اس فائک و فصیحہ (اظہار کرنے والی) کہتے ہیں، یعنی اس سے اس شرط کا اظہار ہوتا ہے جو گزشتہ کلام سے معلوم ہوتی ہے، اس آیت کا تعلق سورت کی گزشتہ تمام آیات کے ساتھ ہے، یعنی جب تم کفار اور ایمان والوں کا حال جان چکے اور یہ بھی کہ بھلائی اور کامیابی کا دار و مدار توحید اور اطاعت پر ہے اور برائی اور ناکامی کا دار و مدار شرک اور نافرمانی پر ہے تو یہ بات بھی جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (ابو السعود) ابو العالیہ اور ابن عینیہ نے فرمایا کہ اس کا تعلق اس سے پہلی آیت کے ساتھ ہے، یعنی جب ان کے پاس قیامت آگئی تو جان لو کہ اس کے قائم ہونے پر اللہ کے سوا بھاگنے یا پناہ حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں (کیونکہ معبود برحق وہی ہے۔ ) (بغوی) (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس حقیقت کو پہلے ہی جانتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان اتفاکم واعلمکم باللہ انا) (بخاری، الایمان، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ انا علمکم باللہ …٢٠)” یقیناً میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا علم رکھنے والا ہوں۔ “ پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ” جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی م عبود نہیں۔ “ اہل علم نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں اور وہ سب درست ہیں۔ ایک یہ کہ ” فاعلم “ کے مخاطب اگرچہ بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر خطاب امت کے ہر فرد کو ہے۔ دلیل اس کی آیت کے آخری الفاظ ہیں جن میں صراحتاً سب کو مخاطب فرمایا ہے :(واللہ یعلم متقلبکم ومثولکم)” اور اللہ تمہارے چلنے پھرنے کو اور تمہارے ٹھہرنے کو جانتا ہے۔ “ جیسا کہ طورہ طلاق کے شروع میں فرمایا :(یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن و احصوا العذۃ و اتقوا اللہ ربکم لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ (الطلاق : ١)” اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور عدت کو گنوا اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگر یہ ہ کوئی کھلی بےحیائی میں ) لائیں۔ “ دوسرا جواب یہ ہے کہ ” فاعلم “ کا معنی یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ کے علم پر ثابت اور قائم رہو، جیسا کہ فرمایا : یایھا الذین امنوا امنوا باللہ ورسولہ، والکتب الذی نزل علی رسولہ و الکتب الذی انزل من قبل (النبیائ : ١٣٦)” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے نازل کی۔ “ اکثر مفسرین نے یہاں ” فاعلم “ کا یہی معنی بیان فرمایا ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ کسی حقیقت کے علم کی ابتداء اس کی معرفت سے ہوتی ہے کہ دل اسے جان لے، پھر اس کے یقین کا مرتبہ آتا ہے اور اس علم کی تکمیل اس سے ہوتی ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرے۔ مطلب یہ ہے کہ ” لا الہ الا اللہ “ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل کرو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرو۔ ظاہر ہے کہ علم اور بقین کے بیشمار درجے ہیں اور عمل کے لحاظ سے درجنوں کا بھی کوئی شمار نہیں۔ ابراہیم کا قول :(ولکن لیطبین قلبی) (البقرہ : ٢٦٠) ” وقل رب زدنی علماً ) (طہ : ١١٣)” اور تو کہہ اے میرے رب ! مجھے علم میں زیادہ کر۔ “ اور کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے۔ چوں می گویم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ الہ را ” جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں ” لا الہ ‘ ‘ کی مشکلات کو جانتا ہوں۔ “ سورة نساء کی آیت (١٣٦) (یایھا الذین امنوا امنوا و رسولہ) کا ایک معنی یعہ بھی کیا گیا ہے کہ اپنے ایمان کے تاقضے کے مطابق عمل کرو۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہر لمحے ” لا الہ الا اللہ “ کی معفرت، اس کے معرفت، اس کے یقین اور اس پر عمل میں اضافے کی کوشش کرتے رہو۔ چوتھا یہ کہ ہر وقت اس حقیقت کو یاد اور نظر کے سامنے رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی عبارت کے لائق نہیں گویا ” اعلم “ بمعنی ” ادکر “ ہے۔ (ہ) اس اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ہر قول اور عمل سے پہلے علم کا حصول لازم ہے، جیسا کہ فرمایا (اعلموا لما الحیوۃ) الدنیا العب و لھم) (الحمد : ٢٠)” جان لو کہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل ہے۔ “ اس کے بعد فرمایا :(سابقوا الی مغفرۃ من ر ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السمآء والارض) (الحدید : ٢١)” اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے۔ “ اور امام بخاری رحمتہ اللہ نے صحیح بخاری میں فرمایا : ” باب العلم قبل القول والعمل لقول اللہ تعالیٰ : فاملم انہ لا الہ الا اللہ) (فبداء بالعلم “ (بخاری ، العلیہ ، قبلہ ح : ٦٨)” علم مقدم ہے قول اور عمل پر ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ( سورة محمد میں) فرمایا :” پس تو جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ “ اس آیت میں اللہ نے علم کو پہلے بیان کیا ہے۔ “ (٤) واستغفر لدنبک : قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے رہے اور امت کو بھی اس کی تاکید فرماتے رہے۔ چناچہ اس سے متعلق یہاں وہ احادیث نقل کی جاتی ہیں، ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے :(اللھم اغفرلی خطیتنی وجھلن و اسرافی فی امری وما انت اعلم بہ منی، اللھم اغفر لی جدی وھزلی وخطئی، وعمدی و کل ذلک عندی، اللھم اغفرلی ماقدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما انت اعلم بہ منی، انت المقدم وانت الموخر وانت علی کل شیء قدیر) (مسلم، الذکر والدعا، باب فی الادعیۃ :2819)” اے اللہ ! میری خطا کو میرے جہل کو، میرے کام میں میری زیادتی کو اور ان تمام گناہوں کو میرے لئے بخش دے جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ ! میرے سنجیدگی سے کئے ہوئے کاموں کو، میرے مذاق سے کئے ہوئے کاموں کو میرے بھول کر کئے ہوئے اور جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہوں کو میرے لئے بخش دے اور یہ سب میرے پاس موجود ہیں۔ اے اللہ ! تو مجھے وہ سب گناہ بخش دے جو میں نے پہلے کئے اور جو میں نے بعد میں کئے اور جو چھپا کر کئے اور جو چھپا کر کئے اور جو علانیہ کئے اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ تو ہی آگے کرنے والا ہے اور توہ ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا :(واللہ ! انی لاستغفر اللہ واتوب الیہ فی الیوم اکنز من سبعین مرۃ) (بخاری، الدعوات، باب استغفار النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الیوم واللیلۃ 6308)” اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر (٧٠) بار سے زیادہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ ‘ (٥) وللمومنین والمومنت : یہ حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہے اور امت کے تمام افراد کو بھی کہ وہ اپنے علاوہ دوسرے تمام ممون مردوں اور عورتوں کے لئے بھی استغفار کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والوں پر اپنے مومن بھائیوں کے لئے استغفار واجب ہے۔ پہلے جلیل القدر انبیاء (علیہ السلام) کا بھی یہی عمل رہا ہے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے دعا کی :(رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمومنین و المومنت ، ولا تزد الظلمین الاتباراً ) (نوح :28)” اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اس کو جو مومن بن کر میرے گھر میں داخل ہو اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو اور ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھا۔ “ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی :(ربنا اغفرلی ولوالدی واللمومنین یوم یقوم الحساب) (ابراہیم :31)” اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور ایمان والوں کو، جس دن حساب قائم ہوگا۔ “ (٦) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام ایمان والوں کو مومن مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کا جب خود حکم دیا تو یہ دلیل ہے کہ وہ اسے قبول بھی فرمائے گا۔ ظاہر ہے کہ ہر مومن، مرد ہو یا عورت، زندہ ہو یا فوت شدہ، استغفار کی ان دعاؤں میں شامل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر امت کے آخری آدمی نے ایمان والوں کے حق میں کی ہیں اور جس کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ تعالیٰ کے بیشمار مقبول بندوں کی مغفرت کی دعائیں ہوتی ہوں اس کی مغفرت سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لئے کسی بھی مومن کے متعق یہ کہنا درست نہیں کہ وہ جہنمی ہے، یا اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا، خواہ وہ کتنا زیادہ گناہگار ہو۔ شرط یہ ہے کہ وہ ایمان کی دولت اپنے دامن میں رکھتا ہو اور شرک کی نجاست سے آلودہ نہ ہو۔ (٧) واللہ یعلم متقلبکم مثولکم :” متقلب “ اور مثوی “ ” تقلب یتقلب “ (تفعل) اور ” توی یثوی “ (ض) سے مصدر میمی بھی ہوسکتے ہیں اور ظرف مکان بھی۔ پہلی صورت میں معنی ہے تمہارا چلنا پھرنا اور تمہارا ٹھہرنا اور دوسری صورت میں معنی ہے ” تمہارے چلنے پھرنے کی جگہ اور تمہارے ٹھہرے کے مقامات کو خوب جانتا ہے۔ اس میں کفار اور نافرمانوں کے لئے وعید ہے اور اللہ کے فرماں بردار بندوں کے لئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جائز یا ناجائز ہر حرکت و سکون سے واقف ہے اور واقف ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ فرماں بر داروں کو انعام دے گا اور نافرمانوں کو سزا دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In this verse the address is to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and he is, through an imperative verb, commanded to know that there is no object of worship besides Allah. It is quite obvious that every Muslim has the knowledge of this - let alone the leader of the Holy Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who should have its knowledge more profoundly. Then why is he enjoined to acquire this knowledge? There can be two responses to this question: it can either mean that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is enjoined to be steadfast in his worship of Allah or it could mean that he must fulfill the demands of his knowledge. Qurtubi cites the incident of Sufyan Ibn ` Uyaynah (رح) who was asked about the significance of knowledge, he replied: Did you not read verse 19 of Surah Muhammad: فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ وَاسْتَغْفِرْ‌ لِذَنبِكَ |" So know for sure (0 Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) that there is no god but Allah, and seek forgiveness for your fault. It is required in this verse that knowledge should be acquired before action. Similarly, on other occasions in the Qur&an, first it is enjoined to acquire knowledge and then to fulfill its corresponding demands. For example, in [ 57:20] the Holy Qur&an has said, اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ “ Know that the present life is but a sport and a diversion ... |" Then it was said, سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَ‌ةٍ مِّن رَّ‌بِّكُمْ |"Race to forgiveness from your Lord (57:21) |". In Surah Anfal, (verse) the Qur&an says: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ |"Know that your wealth and children are a trial...|" The demand of this knowledge is mentioned in Surah At-Taghabun (Verse 14): فَاحْذَرُ‌وهُمْ |"...so be fearful of Him.|". Thus on these occasions first the knowledge of different things are imparted, and then it is enjoined to fulfill the demands of that knowledge. In this context, although the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had prior knowledge of the Oneness of Allah, the injunction here is for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to fulfill the demand of this fundamental knowledge, that is, |" وَاسْتَغْفِرْ‌ لِذَنبِكَ and ask forgiveness for your faults (47:19) |". The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is infallible and immune from sin, and therefore the possibility that he would commit sins is unthinkable. Despite this, the possibility of Allah&s Holy Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) committing misjudgment in Ijtihad cannot be ruled out. But, according to the sacred law, such mistakes are not regarded as sins. In fact, they are rewarded, though the prophets (علیہم السلام) are told about the correct position, and keeping in view the high status of the prophets, such mistakes too are sometimes referred to as |"dhanb|" (fault or sin), as for instance in Surah ` Abasa [ 80] the Holy Prophets ] was criticized for his misjudgment. The details will be set out when discussing that Surah. The error of judgment referred to in that Surah was not really a sin. In fact, a reward was promised to him for that, but because it was not in conformity with his high status, Allah Ta` ala expressed His dislike. This type of |"dhanb|" (fault) is referred to in the current verse. Note Sayyidna Abu Bakr Siddiq (رض) reports that Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: Recite لا إلہ إلا اللہ la ilaha illallah and istighfar frequently because Iblis (Shaitan) says, &I got people involved in sins and destroyed them, but they destroyed me by reciting إلا اللہ illallah, so I got them involved in false and baseless thoughts and notions which they pursue as true, authentic and righteous, (for instance, the common religious innovations (bid&at), because they treat them as righteous,) hence, they do not feel any need to repent for their practice of innovations. مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ last line (your moving from place to place and your permanent abode.) The word متَقَلَّب mutaqallab lexically means |"turning around or turning over|". The word mathwa means |"permanent resting place |". It is open to several interpretations. As a result, the commentators have assigned different meanings to the phrase. As a matter of fact, all the meanings attached to the phrase are correct, sound, authentic and true, because human beings are confronted by two types of conditions: in the one case their invovement in something is temporary, and other case it is permanent. Likewise, in some places man’ s stay is “ temporary” and in other places it is permanent. In the concluding phrase of the current verse, the word مُتَقَلَّبَ mutaqallab has been used to describe “ temporary” and مثوٰی is used to describe |"permanent|". Thus this verse signifies that Allah is fully aware of all conditions of human beings.

خلاصہ تفسیر (جب آپ خدا تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار بندوں اور سرکشوں دونوں کا حال و مآل سن چکے) تو آپ اس کا ( اکمل طریقہ پر) یقین رکھئے کہ اللہ تعالیٰ کے اور کوئی قابل عبادت نہیں (اس میں دین کے تمام اصول و فروع آگئے، کیونکہ علم سے مراد علم کامل اکمل ہے اور علم کامل کے لئے لازم ہے کہ تمام احکام الٰہیہ پر پورا عمل ہو۔ حاصل یہ ہے کہ تمام احکام الٰہیہ پر مداومت رکھو) اور (اگر کبھی کوئی خطا سرزد ہوجائے جو آپ کی عصمت نبوت کی بناء پر درحقیقت گناہ نہیں بلکہ صرف ترک افضل ہی ہوگا مگر آپ کی شان ارفع کے اعتبار سے صورة خطا ہے اس لئے) آپ اپنی (اس ظاہری) خطا کی معافی مانگتے رہئے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کے لئے بھی (بخشش کی دعا مانگے رہئے) اور (یہ بھی یاد رہے کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور رہنے سہنے کی (یعنی سب اعمال و احوال کی) خبر رکھتا ہے۔ معارف و مسائل اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ سمجھ لیجئے کہ اللہ کے سوا اور کوئی قابل عبادت نہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ علم تو ہر مومن مسلمان کو بھی حاصل ہے سید الانبیاء کو کیوں حاصل نہ ہوتا پھر اس علم کے حاصل کرنے کا حکم دینا یا تو اس پر ثابت قدم رہنے کے معنی میں ہے اور یا اس کے مقتضیات پر عمل کرنا مراد ہے جیسا کہ قرطبی نے نقل کیا ہے کہ سفیان بن عیینہ سے کسی نے علم کی فضیلت کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کیا تم نے قرآن کا ارشاد نہیں سنا ، (آیت) فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ ، کہ اس میں علم کے بعد علم کا حکم دیا ہے اسی طرح دوسری جگہ فرمایا، (آیت) اعلموا انما الحیوة الدنیا لعب ولھو، اور پھر فرمایا، (آیت) سابقوا الی مغفرة من ربکم، اسی طرح انفال میں فرمایا، (آیت) واعلموا انما اموالکم و اولادکم فتنة اور تغابن میں فرمایا، فاحذروہم، ان سب مقامات میں اول علم پھر اس کے مقتضا پر عمل کی تلقین فرمائی گئی ہے یہاں آیت مذکورہ میں بھی اگرچہ یہ علم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے حاصل تھا مگر مقصود اس سے اس کے مقتضیٰ پر عمل ہے اسی لئے اس کے بعد، واستغفر، کا حکم دیا گیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بوجہ عصمت نبوت کے اس کے خلاف کرنے کا اگرچہ احتمال نہیں تھا مگر انبیاء (علیہم السلام) سے معصوم ہونے کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں خطا ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شرع میں گناہ نہیں بلکہ اس پر بھی اجر ملتا ہے مگر انبیاء (علیہم السلام) کو اس خطا پر متنبہ ضرور کردیا جاتا ہے اور ان کی شان عالی کے اعتبار سے اس کو لفظ ذنب سے بھی تعبیر کردیا جاتا ہے جیسا کہ سورة عبس میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک قسم کا عتاب نازل ہوا وہ بھی اسی خطاء اجتہادی کی ایک مثال تھی جس کی تفصیل سورة عبس میں آئے گی کہ وہ اجتہادی خطا اگرچہ کوئی گناہ نہ تھا بلکہ ایک اجر اس پر بھی ملنے کا وعدہ تھا مگر آپ کی شان عالی کے لئے اس کو پسند نہیں کیا گیا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ آیت مذکورہ میں اسی طرح کا ذنب مراد ہوسکتا ہے۔ فائدہ : حضرت صدیق اکبر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا الہ الا اللہ اور استغفار کی کثرت کیا کرو کیونکہ ابلیس کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو گناہوں میں مبتلا کر کے ہلاک کیا تو انہوں نے مجھے کلمہ لا الہ الا اللہ کہہ کر ہلاک کردیا، جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے ان کو ایسے خیالات باطلہ کے پیچھے لگا دیا جن کو وہ نیکی سمجھ کر کرتے ہیں جیسے عام بدعات کا یہی حال ہے۔ اس سے ان کو توبہ کی بھی توفیق نہیں ہوتی۔ (آیت) مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ ، متقلب کے لفظی معنی لوٹ پوٹ ہونے یا الٹ پلٹ ہونے کے اور مثویٰ کے معنی جائے قرار کے ہیں، اس کے مراد میں مختلف احتمالات ہو سکتے ہیں اسی لئے حضرات مفسیرین نے مختلف معنی بیان کئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ سب ہی مراد ہیں کیونکہ ہر انسان پر دو قسم کے حالات آتے ہیں، ایک وہ جن میں عارضی اور وقتی طور پر اشتغال ہوتا ہے دوسرے وہ جن کو وہ مستقل اپنا مشغلہ سمجھتا ہے، اسی طرح بعض مکانات میں انسان کا قیام عارضی ہوتا ہے بعض میں مستقل، تو آیت میں عارضی کو متقلب کے لفظ سے اور مستقل کو مثویٰ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس طرح تمام احوال کا اللہ تعالیٰ کے علم میں ہونا اس آیت کا مفہوم ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوٰىكُمْ۝ ١٩ ۧ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ تَقْلِيبُ الشیء : تغييره من حال إلى حال نحو : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب/ 66] وتَقْلِيبُ الأمور : تدبیرها والنّظر فيها، قال : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة/ 48] . وتَقْلِيبُ اللہ القلوب والبصائر : صرفها من رأي إلى رأي، قال : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، وتَقْلِيبُ الید : عبارة عن النّدم ذکرا لحال ما يوجد عليه النادم . قال : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف/ 42] أي : يصفّق ندامة . قال الشاعر کمغبون يعضّ علی يديه ... تبيّن غبنه بعد البیاع والتَّقَلُّبُ : التّصرّف، قال تعالی: وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء/ 219] ، وقال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل/ 46] . ورجل قُلَّبٌ حُوَّلٌ: كثير التّقلّب والحیلة «2» ، والْقُلَابُ : داء يصيب القلب، وما به قَلَبَةٌ «3» : علّة يُقَلِّبُ لأجلها، والْقَلِيبُ. البئر التي لم تطو، والقُلْبُ : الْمَقْلُوبُ من الأسورة . تقلیب الشئی کے معنی کسی چیز کسی چیز کو متغیر کردینے کے ہیں جیسے فرمایا : يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ الأحزاب/ 66] جس دن ان کے منہ آگ میں الٹائیں جائیں گے۔ اور تقلیب الامور کے معنی کسی کام کی تدبیر اور اس میں غوروفکر کرنے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ [ التوبة/ 48] اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دلوں اور بصیرتوں کی پھیر دینے سے ان کے آراء کو تبدیل کردینا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصارَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے ۔ اور تقلیب الید پشیمانی سے کنایہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ عام طور پر نادم آدمی کا یہی حال ہوتا ہے ( کہ وہ اظہار ندامت کے لئے اپنے ہاتھ ملنے لگ جاتا ہے ) قرآن پاک میں ہے : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ [ الكهف/ 42] تو ۔۔۔۔۔ و حسرت سے ) ہاتھ ملنے لگا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 358) کمغبون یعض علی یدیہ تبین غبتہ بعدالبیاع جیسے خسارہ اٹھانے والا آدمی تجارت میں خسارہ معلوم کرلینے کے بعد اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے ۔ اور تقلب ( تفعل ) کے معنی پھرنے کے ہیں ۔ ارشاد ہے : وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ [ الشعراء/ 219] اور نمازیوں میں تمہارے پھرنے کو بھی ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَما هُمْ بِمُعْجِزِينَ [ النحل/ 46] یان کو چلتے پھرتے پکڑلے وہ ( خدا کو ) عاجز نہیں کرسکتے۔ رجل قلب بہت زیادہ حیلہ گر اور ہوشیار آدمی جو معاملات میں الٹ پھیر کرنے کا ماہر ہو ۔ القلاب دل کی ایک بیماری ( جو اونٹ کو لگ جاتی ہے) مابہ قلبہ : یعنی وہ تندرست ہے اسے کسی قسم کا عارضہ نہیں ہے جو پریشانی کا موجب ہو القلیب۔ پراناکنواں جو صاف نہ کیا گیا ہو ۔ القلب ایک خاص قسم کا کنگن ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ تو اس کا یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نفع و نقصان پہنچانے والا اور دینے اور روکنے والا عزت اور ذلت دینے والا اور کوئی نہیں یا یہ مطلب ہے کہ آپ جان لیجیے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کے برابر اور کسی چیز کو فضیلت حاصل نہیں۔ اور آپ اپنی خطاء صوری کی معافی مانگتے رہیے (تاکہ امت کے لیے یہ طریقہ مسنون ہوجائے) اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہوں کی مغفرت کی بھی دعا کرتے رہیے اور حق تعالیٰ دنیا میں تمہارے چلنے پھرنے اور اعمال کرنے اور آخرت میں آنے اور آخرت میں تمہارے ٹھکانے کی پوری خبر رکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ } ” بس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی خطائوں کے لیے (اللہ سے) استغفار کرو “ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ کی ایک تاویل تو یہ ہے کہ یہ خطاب اگرچہ صیغہ واحد میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن حقیقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے یہ ہدایت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لیے ہے۔ البتہ بعض علماء نے اس اسلوب کی وضاحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ” تعلق مع اللہ “ کے حوالے سے بھی کی ہے۔ اگر کسی عام بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت سے چند لمحات کے لیے تعلق مع اللہ میں انشراح کی کیفیت نصیب ہوجائے تو اس کے لیے یہ کیفیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تو ظاہر ہے ہر وقت ہی انشراح کی کیفیت رہتی تھی اور اس کیفیت کی شدت (intensity) میں کسی ایک لمحے کے لیے ذرا سی بھی کمی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت بڑی کوتاہی سمجھتے تھے۔ چناچہ یہاں لفظ ” ذنب “ کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسی احساس کی طرف اشارہ ہے۔ گویا یہ ” حَسَنَاتُ الاَبْرَار سَیِّئاتُ المُقَرّبِین “ والا معاملہ ہے۔ یعنی بعض اوقات ایک عام مسلمان کے معیار کی نیکی کسی مقرب بارگاہ کے معیارِ عمل کے سامنے کوتاہی یا گناہ کے درجے میں شمار ہوتی ہے۔ بہر حال نہ تو مقربین بارگاہ کے تعلق مع اللہ کا معاملہ عام مسلمانوں کا سا ہے اور نہ ہی ان کے معاملے میں لفظ ” ذنب “ کی تعریف (definition) کا وہ مفہوم درست ہے جس سے عام طور پر ہم لوگ واقف ہیں۔ اس معاملے میں میری ایک ذاتی رائے بھی ہے جس کا ذکراگلی سورت یعنی سورة الفتح کی آیت ٢ کے ضمن میں بھی آئے گا۔ میری رائے میں یہاں پر لفظ ” ذنب “ کا تعلق اس ” اجتماعیت “ سے ہے جس کے سربراہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ پچھلے کئی برسوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اہل ایمان ساتھیوں کے ساتھ غلبہ دین کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ظاہر ہے اس اجتماعی جدوجہد میں شریک افراد سے کہیں کوئی غلطی بھی سرزد ہوجاتی ہوگی اور کسی معاملے میں کبھی کوئی کوتاہی بھی رہ جاتی ہوگی۔ اگرچہ ایسی غلطیاں اور کوتاہیاں دوسروں سے ہوتی ہوں گی مگر تحریک اور جدوجہد کے قائد چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اس لیے ان کا ذکر یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ جیسے جنگ میں پوری فوج حصہ لیتی ہے ‘ ایک ایک سپاہی لڑتا ہے لیکن فتح کا سہرا سپہ سالار کے سر بندھتا ہے ‘ اسی طرح اگر کسی فوج کو شکست سے دوچار ہونا پڑے تو بھی اس فوج کے کمانڈر ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ { وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ } ” اور اہل ِایمان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی (استغفار کریں) ۔ “ { وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ } ” اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے لوٹنے کی جگہ کو اور تمہارے مستقل ٹھکانے کو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 One of the morals taught to man by Islam is also this: However hard and sincerely may man be trying to serve and worship Iris Lord and fighting and struggling in the cause of His Religion, he should never be involved in the misunderstandingthat he has done and accomplished whatever he was required to do. Rather, on the contrary, he should have the feeling that he has not heen able to do full justice to what was expected of him by his Lord and Master. Therefore, he shouldconfess hIS errors COnStantly and pray tO AIIah. SayIng' 'Lord, forgive me for whatever fault and error I may have committed in Your service." 'this is indeed the essence of Allah's Command: 'O Prophet. ask forgiveness for your fault ..'' 'This does lint mean that God forbid. the Holy Prophet had actually committed an error wilfully, but its correct meaning is that it did not even behove the servant who was the greatest worshipper of his Lord that Ire should harbour even a tinge of the pride of accomplishment in his heart, but Iris true position also was that in spite of aII his great :end glorious services he should continue confessing his shortcomings before Iris Lord. It was under this state of the mind that the Holy Prophet often implored his Lord for forgiveness. According to Abu Da'ud and Nasa'i, the Holy Prophet is reported to have said: "I implore AIIah for forgiveness one hundred rimes every day.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :31 اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں ، اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں ، خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو ، اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کر دیا ہے ، بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کر سکا ہوں ، اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے درگزر فرما ۔ یہی اصل روح ہے اللہ تعالی کے اس ارشاد کی کہ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے قصور کی معافی مانگو ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذاللہ ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا ۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا ، اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کار نامے کے فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے ، بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے ۔ اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے ۔ ابوداؤد ، نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ میں ہر روز سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہوں سے معصوم تھے، آپ سے گناہ کا کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا تھا، لیکن آپ کی کسی کسی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کے مقام بلند کے مناسب نہیں تھی (مثلاً جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپ کا فیصلہ جس کا ذکر سورۃ انفال : 22، 23 میں گذرا ہے، نیز بشری تقاضے سے کبھی کبھی آپ سے نماز کی رکعتوں وغیرہ میں بھول بھی ہوئی۔ اسی قسم کی باتوں کو یہاں قصور سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اور در حقیقت اس میں آپ کی امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی جو گناہ نہیں ہیں، استغفار فرماتے ہیں تو امت کے لوگوں کو اپنے ہر چھوٹے بڑے گناہ پر اور زیادہ اہتمام کے ساتھ استغفار کرنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:19) فاعلم۔ پس آپ جان رکھیں۔ یا۔ یقین رکھیں۔ (ای محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ف سببیہ ہے۔ یعنی جب آپ کو مومنوں کا خوش نصیب ہونا اور کافرون کا بدنصیب ہونا معلوم ہوگیا ہے تو آپ کو اللہ کی وحدانیت اور نفس کی اصلاح احوال اور اعمال کا جو علم حاصل ہوگیا ہے اس پر جمے رہئے قیامت کے دن یہی علم آپ کے لئے مفید ہوگا۔ اعلم امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ علم باب سمع مصدر۔ تو جان لے۔ استغفر امر واحد مذکر حاضر، استغفار (استفعال) مصدر۔ تو بخشش مانگ۔ تو معانی مانگ۔ فائدہ : اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر گناہ سے معصوم تھے کسی گناہ کا ارتکاب آپ سے ممکن ہی نہ تھا۔ لیکن بندہ کی عبادت اللہ رب العزت کی جلالت و عظمت کے مقابلہ میں بہرحال قاصر ہے (عبادت کا حق کون ادا کرسکتا ہے ) اسی لئے حکم ہوا کہ اپنے کو حق عبادت ادا کرنے قاصر سمجھتے ہوئے استغفار کیجئے اور آپ کی امت کو بھی آپ کی پیروی کرنی چاہیے۔ وللمؤمنین والمؤمنات ۔ اور مؤمنوں کے لئے بھی اور مومنات کیلئے بھی۔ المؤمنت کا عطف مؤمنین پر ہے۔ ای وللمؤمنت ۔ متقلبکم ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اسم ظرف مکان۔ تقلب (تفعل) مصدر سے ۔ گھومنے پھرنے کی جگہ۔ یعنی مشاغل دنیوی میں جہاں جہاں تم گھومتے پھرتے ہو۔ مثوکم ۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے ٹھہرنے کا مقام۔ مثوی اسم ظرف مکان مثاوی جمع۔ ٹھکانا۔ مدت دراز تک ٹھہرنے کا مقام۔ فرودگاہ۔ ثوی یثوی (باب ضرب) ثواء ثوی ۔ مصدر۔ متعدی بنفسہ بھی ہے ای ثوی المکان اور ثوی بالمکان۔ دونوں کا مطلب وہ اس جگہ ٹھہرا ہوگا۔ مطلب : متقلبکم ومثوکم کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام احوال کو جانتا ہے تمہاری کوئی حالت اس سے پوشیدہ نہیں اس لئے اس سے ڈرتے رہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” لوگو ! اپنے رب کے حضور توبہ کرو اس لئے کہ میں اپنے رب کے حضور ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے تھے لیکن اس کے باوجود آنحضرت کے استغفار کرتے رہنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا زیادہ سے زیادہ شکر بجالایا جائے۔ جیسا کہ ایک موقع پر آنحضرت سے کثرت عبادت کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : افلا اکون عبدالشکورا کہ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (ابن کثیر) اور استغفار جیسے ان گناہوں سے ہوتا ہے جو انسان سے سر زد ہوچکے ہوں اسی طرح آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے بھی ہوتا ہے۔ (قرطبی) 3 یعنی انسان رات اور دن میں جو نقل و حرکت بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس میں دین کے تمام اصول و فروع آگئے کیونکہ علم سے مراد علم کامل اکمل ہے، اور علم کامل مستلزم ہے عمل بجمیع مابہ التعبد کو، حاصل یہ کہ جمیع اوامرو نواہی کے امتثال پر مداومت رکھو۔ 3۔ ذنب سے مراد ذنب مجازی ہے۔ 4۔ پس اس کے وعدہ کو امیدوار اور اس کی وعید سے خائف رہنا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القران ربط کلام : جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرنا چاہئیں کیوں کہ یہ کلمہ تمام نصیحتوں کا ترجمان اور مجموعہ ہے لیکن کفار اور منافقین اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کے کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ ہوا کرتا تھا جس کی قرآن مجید کے الفاظ سے اس طرح تصدیق ہوتی ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جتنے رسول آپ سے پہلے مبعوث ہوئے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیاء : ٢٥) ” اہل کتاب کو فرمائیں کہ آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ “ (آل عمران : ٦٤) اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے اور مومنوں کے گناہوں کے لیے استغفار کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کردیا ہے۔ (الفتح : ٢) لیکن یہاں آپ کو یہ حکم ہوا کہ آپ اپنے اور مومنوں کے گناہوں کے لیے اپنے رب سے معافی طلب کریں۔ مومنوں کے گناہوں کے بارے میں بات واضح ہے کہ ان سے غلطی ہوسکتی ہے لہٰذا آپ کو حکم ہوا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے معافی مانگتے رہیں۔ یہاں تک آپ کی ذات اقدس کا معاملہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے تھے۔ اس لیے اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم لیے ہیں۔ 1 ۔ بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انبیاء کرام کے سردار ہیں لیکن جو ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی تھی اس کا تقاضا تھا کہ آپ سے ادنیٰ سے ادنیٰ غفلت بھی نہ ہو پائے۔ بیشک آپ ارفع مقام پر فائز تھے لیکن بحیثیت انسان سستی کا امکان ہوسکتا تھا جس کی آپ اپنے رب سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی آپ کا استغفار تھا۔ جس پر جتنے ” اللہ “ کے احسانات ہیں اتنا ہی اس کے ذمہ شکر، عبادت اور عاجزی کرنا فرض ہوتا ہے۔ 2 ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی بجاآوری میں خواہ کتنی ہی کوشش کی جائے، انسان پر لازم ہے کہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا رہے اور یہ سمجھے کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ مجھ سے نہیں ہوسکا۔ منعم حقیقی نے جو بےپایاں احسانات مجھ پر فرمائے ہیں میں ان کا حق شکر ادا نہیں کرسکا۔ یہ تصور انسان کا کمال ہے نقص نہیں۔ 3 ۔ اس آیت کے ضمن میں امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت کی دو توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک توجیہہ یہ ہے کہ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد امت ہے، یہ توجیہہ درست نہیں کیونکہ مومنین کے لیے استغفار کا علیحدہ حکم ہے۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہاں ” ذَنْبٌ“ سے مراد گناہ یا نافرمانی نہیں بلکہ ترک افضل ہے، امام لکھتے ہیں۔ ” وحاشا من ذالک “ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات اس سے منزہ ہے کہ وہ افضل کو چھوڑ کر غیر افضل کریں۔ اس لیے امام رازی (رض) نے اپنی توجیہہ پیش کی ہے فرماتے ہیں ” اِنَّ الْمُرَادَ تَوْفِیْقُ الْعَمَلِ الْحَسَنِ وَ اِجْتِنَابِ الْعَمَلِ السَّیِّءِی “ اچھے کام کی توفیق اور برے کاموں سے اجتناب ہے کیونکہ استغفار کا معنٰی طلب غفران ہے اور غفران کا معنٰی کسی قبیح چیز کا ڈھانپ دینا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے ارتکاب سے ہی محفوظ رکھے جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ہے یا گناہ کے ارتکاب کے بعد اس کو ڈھانپ دے جس طرح کہ مومنین اور مومنات کا حال ہے۔ (ضیاء القرآن جلد چہارم) اس آیت مبارکہ کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ اس ارشاد کے بھی تین مفہوم لیے گئے ہیں۔ 1 ۔ آپ دشمنوں کی دشمنی سے بےفکر ہو کر ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کی دعوت دیتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا کیونکہ وہ آپ کے چلنے پھرنے اور قیام کرنے کی جگہوں کو جانتا ہے۔ 2 ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دنیا میں چلنے پھر نے کے مقامات اور آخری آرام گاہ کو جانتا ہے۔ 3 ۔ اللہ تعالیٰ نیک اور برے لوگوں کے جنت اور جہنم کے ٹھکانے کو جانتا ہے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ ) (رواہ مسلم : باب مایقال في الرکوع والسجود) ” اے اللہ ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کرسکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماجاء فی جامع الدعوات، قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، مسیح الدجال کے فتنے اور عذاب قبر سے پناہ چاہتا ہوں۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یٰأَ یُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ ) (رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ ) ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ “ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کے بنیادی طور پر چار تقاضے ہیں۔ 1 ۔ اچھی طرح سمجھ کر پڑھنا کہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کا معنٰی اور مفہوم کیا ہے ؟ 2 ۔ آخر دم تک اس پر استقامت اختیار کرنا۔ 3 ۔ اس کے مطابق اپنے عقیدہ، اخلاق اور کردار کو بنانا۔ 4 ۔ پوری محنت اور اخلاص کے ساتھ اس کا ابلاغ کرنا۔ (عَنْ عُبَادَۃَ ابْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَےْہِ النَّارَ ) ( رواہ مسلم : باب مَنْ لَقِیَ اللَّہَ بالإِیمَانِ وَہُوَ غَیْرُ شَاکٍّ فیہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحَرُمَ عَلَی النَّارِ ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جس نے توحید و رسالت کی گواہی دی اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔ “ مسائل ١۔ سب سے بڑا ذکر اور نصیحت ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کو سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ ٢۔ ہر ایماندار کو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے چلنے، پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہوں کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ کے تقاضے : ١۔ اللہ کے بندے اس کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : ١٤، حم السجدۃ : ٣٠) ٢۔ اللہ کے بندے اس پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٨٢) ٣۔ اپنے چہرے کو دین حنیف پر سیدھا کیے چلتے جاؤ۔ (الروم : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا تمہیں اسلام پر ہی موت آنی چاہیے۔ (البقرۃ : ١٣٢) ٥۔ سب سے بہترین دعوت توحید کی دعوت دینا اور اس کے تقاضے پورا کرنا ہے۔ (حم ٓ السجدۃ : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب روئے سخن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ہدایت یافتہ ، متقی اور متلاشیان ہدایت ساتھیوں کی طرف پھرجاتا ہے کہ وہ ہدایت کے لئے ایک دوسری راہ بھی اپنائیں۔ علم ومعرفت ، توبہ و استغفار ، اللہ کا خوف اور خشیت اختیار کریں اور آخری وقت کا انتظار کریں۔ اللہ تمہاری دنیا و آخرت کے انجام اچھی طرح واقف ہے۔ فاعلم انہ لا الہ ۔۔۔۔۔ ومثوکم (٤٧ : ١٩) “ پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لئے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بھی۔ اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سبے بھی واقف ہے ”۔ یہاں آپ کو اور مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ تمہاری ملت جس نظریہ پر قائم ہے اس کو سمجھو وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ، معبود اور حاکم نہیں ہے۔ فاعلم انہ لا الہ الا اللہ (٤٧ : ١٩) “ پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کے مستحق نہیں ”۔ اس حقیقت کو ذہن میں تازہ کرتے ہوئے پھر دوسری ہدایات یہ ہیں۔ واستغفر لذنبک (٤٧ : ١٩) “ اپنے قصور کے لئے معافی مانگو ”۔ حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف تھے ؟ لیکن ایک باشعور ، متقی اور حساس بندے کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنی مساعی کو کمزور سمجھتا ہے۔ اگرچہ وہ اطاعت الٰہی میں بہت جدو جہد کرتا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے تھے کہ استغفار اور ذکر ، شکر ہے اور اللہ کی مغفرت کا مزید شکر ہے۔ اور پھر آپ کے منصب و مقام پر بعد میں جو لوگ آنے والے تھے ، ان کے لئے یہ ہدایت ہے اور عام مسلمانوں کے لئے یہ رہنمائی ہے کہ جب حبیب خدا کو یہ ہدایت ہے کہ مغفرت طلب کرو ، جبکہ وہ بخش دئیے گئے ہیں تو دوسروں کو تو ہر وقت استغفار کرنا چاہئے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لیے اور مومنین و مومنات کے لئے استغفار کرتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کے دلوں میں محبت رسول کا شعور تازہ رہنا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ان پر اللہ کی رحمت ہو رہی ہے۔ اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین اور مومنات کے لئے مغفرت طلب کر رہے ہیں۔ پھر ان ہدایات کے سلسلے کی آخری بات۔ واللہ یعلم متقلبکم ومثوکم (٤٧ : ١٩) “ اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے ”۔ اس سے دل مومن کو اطمینان بھی نصیب ہوتا ہے اور اس کے دل میں یہ تصور بھی پیدا ہوتا ہے کہ اللہ ہماری چلت پھرت سے بھی واقف ہے اور انجام سے بھی واقف۔ اطمینان یہ کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور خوف یہ کہ اللہ ہر حالت میں ہم کو جانتا ہے ، اس سے چھپ کر ہم کوئی نافرمانی نہیں کرسکتے۔ یہ ہے اسلامی تربیت کہ اللہ کے بارے میں تیز احساس رکھو ، ہر وقت اس سے ڈرتے رہو اور ہر وقت انتظار میں رہو کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید پر جمے رہنے اور استغفار کرنے کی تلقین چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اپنے اس علم اور یقین پر جمے رہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کریں اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور آپ کے توسط سے دیگر اہل ایمان کو بھی، خلاف شان نبوت جو کوئی امر آپ سے صادر ہوگیا اسے ﴿ لِذَنْۢبِكَ ﴾ سے تعبیر فرمایا جیسا کہ خطاء اجتہادی سے کبھی ایسا واقع ہوا، معصیت حقیقت کا صدور انبیاء کرام علیہم اصلوٰۃ والسلام سے نہیں ہوسکتا۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں : امر بالاستغفار مع انہ مغفور لہ لیستن بہ امتہ (یعنی آپ کو استغفار کا حکم دیا گیا حالانکہ آپ کا سب کچھ بخشا جاچکا ہے تاکہ امت آپ کا اتباع کرے) آپ نے فرمایا ہے کہ بیشک میرے دل پر میل سا آتا ہے اور بیشک میں اللہ سے روزانہ سو دفعہ استغفار کرتا ہوں اور بعض روایت میں ہے کہ آپ ہر مجلس میں سو مرتبہ استغفار فرماتے ہیں۔ صاحب معالم التنزیل مزید لکھتے ہیں : ھذا اکرام من اللّٰہ تعالیٰ لھذہ الامة حیث امر نبیھم ان یستغفر لذنوبھم وھو الشفیع المجاب فیہ (یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کا اکرام ہے کہ ان کے نبی کو حکم فرمایا کہ ان کے گناہوں کے لیے استغفار کریں آپ کی ذات گرامی کو اللہ نے شفاعت کرنے والا بھی بنایا اور شفاعت قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمایا۔ ) (معالم التنزیل ص ١٨٣، ج ٤) مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ کی تفسیر مفسرین کرام نے اس کے متعدد معنی بیان کیے ہیں، پہلے ترجمہ غور سے پڑھیے (اور اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور رہنے سہنے کی خبر رکھتا ہے) یہ ترجمہ مفسر ابن جریر (رض) کے قول کے مطابق ہے جسے علامہ بغوی نے معالم التنزیل میں نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرما دیا کہ ﴿مُتَقَلَّبَكُمْ ﴾سے دنیاوی اعمال میں مشغول رہنا اور اس میں چلنا پھرنا مراد ہے اور ﴿وَ مَثْوٰىكُمْ﴾ سے ہر ایک کا آخرت کا ٹھکانہ مراد ہے اور حضرت عکرمہ (رح) نے فرمایا کہ ﴿مُتَقَلَّبَكُمْ ﴾ سے ارحام الامہات کی طرف منتقل ہونا اور ﴿وَ مَثْوٰىكُمْ﴾ سے زمین میں ٹھہرنا مراد ہے اور ابن کیسان (رض) سے نقل کیا ہے ﴿مُتَقَلَّبَكُمْ ﴾سے لیٹتے وقت پلٹیاں کھانا اور ﴿وَ مَثْوٰىكُمْ﴾ سے قبروں میں ٹھہرنا مراد ہے۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” فاعلم انہ “ بنیادی دعوی اور مسئلہ توحید کا ذکر ہے جس کی خاطر جہاد فرض ہے یعنی اس بات کا دل سے یقین کر اور اس یقین پر قائم رہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور الٰہ نہیں۔ اس کے سوا کوئی مالک و مختار، عالم الغیب اور دعا پکار کے لائق نہیں۔ ” واستغفر لذنبک “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ معصوم ہیں اس لیے استغفار سے یہاں گناہوں سے معافی مانگنا مراد نہیں بلکہ اس سے تواضع، کسرِ نفس کا اظہار اور قصور کا اعتراف مراد ہے۔ الاستغفار کنایۃ عن عما یلزمہ من التواضع و ھضم النفس والاعتراف بالتقصیر لانہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم او مغفور (روح ج 26 ص 55) ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ روزانہ سو بار استغفار کرتے تھے۔ جیسا کہ صحاح ستہ میں موجود ہے۔ وانی لاستغفر اللہ کل یوم مائۃ مرۃ (نسائی، ترمذی، ابو داؤود، ابن ماجہ) ۔ یا اس سے زلات (معمولی لغزشیں) اور امور خلاف اولی مراد ہیں جو حقیقت میں گناہ نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دنیوی انجام اور اخروی مقام کو خوب جانتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور تمہارا کوئی حال اس سے پوشیدہ نہیں، اس لیے ہر حال میں اس سے ڈرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) پس اے پیغمبر آپ اس کا یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ہے کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالیٰ اور اے پیغمبر آپ اپنی خطائوں کے لئے بخشش طلب کیجئے اور تمام مسلمان مردوں کے لئے اور مسلمان عورتوں کے لئے بھی بخشش طلب کیجئے اور اللہ تعالیٰ تمہارے آنے جانے اور چلنے پھرنے کی جگہ اور تمہارے رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس توحید کی آپ تبلیغ کرتے ہیں اور جس طرح آپ خود بھی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے وحدہ لاشریک ہونے پر ایمان رکھتے ہیں اسی پر قائم رہیے اور اگر کوئی آپ کی شان نبوت کے نامناسب فعل آپ سے صادر ہوجائے گو وہ آپ کی معصومیت کے منافی نہ ہو اور محض آپ کی شان ارفع اور اعلیٰ کے اعتبار سے صورتاً خطا ہو تو آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی معافی اور بخشش طلب کیا کیجئے اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے بخشش طلب کیا کیجئے کیونکہ عام مومنین اور مومنات سے گناہ کا سرزد ہونا ظاہرہی ہے آپ کا بخشش طلب کرنا اپنی امت کے لئے بہت زیادہ مفید اور سودمند ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے شہروں میں آنے جانے سے بھی بخوبی واقف ہے اور تمہارے رہنے سہنے کو بھی خوب جانتا ہے۔ یامثویٰ سے مراد آخری ٹھکانا ہے یعنی دنیوی بودوباش کو جانتا ہے اور آخری ٹھکانے کو بھی جانتا ہے کہ وہ دوزخ ہے یا جنت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جتنے شہروں میں پھروگے پھر بہشت یا دوزخ میں پہنچوگے اپنے گھر میں۔ بعض اہل علم نے فرمایا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے لئے بہت امید افزا ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ مومنین اور مومنات کے لئے بخشش طلب کرو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی یقینا تعمیل کی ہوگی اور جب اللہ تعالیٰ نے خود حکم دے کر ایسی دعا امت کے لئے کرائی ہوگی تو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ قبول نہ فرمائی ہو۔ پس امت کے گناہوں کی بخشش اس آیت سے ظاہر ہوئی اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر روز سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر مجلس میں آپ کا تکیہ کلام تھا کہ جب بات کرتے کرتے توقف فرماتے یا کسی مخاطب سے خطاب کو ختم کرتے تو فرماتے ۔ رب اغفرلی وتب علی انک انت التوب الغفور۔ یعنی میری خطائوں کو بخش دیجئے بیشک تو توبہ کا قبول کرنے والا اور گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ افضل الذکر لا الہالا اللہ و افضل الدعاء الا ستغفار ۔ یعنی تمام اذکار میں بڑھیا ذکر لا الہ اللہ ہے اور تمام دعائوں میں سب سے بڑھیا دعا استغفار ہے۔ اللھم اجعلنی من الذین اذاحسنو استبشر واواذا اسائو استغفروا۔ یا اللہ ! مجھے ان لوگوں میں کردیجئے کہ جب وہ کوئی نیکی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور جب کوئی برائی ان سے ہوجاتی ہے تو استغفار کرتے ہیں۔