Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 21

سورة محمد

طَاعَۃٌ وَّ قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ ۟ فَاِذَا عَزَمَ الۡاَمۡرُ ۟ فَلَوۡ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ﴿ۚ۲۱﴾

Obedience and good words. And when the matter [of fighting] was determined, if they had been true to Allah , it would have been better for them.

فرمان کا بجا لانا اور اچھی بات کا کہنا پھر جب کام مقرر ہو جائے تو اگر اللہ کے ساتھ سچے رہیں تو ان کے لئے بہتری ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

طَاعَةٌ وَقَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ... But it was better for them, obedience and good words. which means that it would have been better for them to listen and obey in that present situation. ... فَإِذَا عَزَمَ الاْإَمْرُ ... When the matter (of fighting) is resolved. which means when the situation becomes serious and the time of fighting truly arrives. ... فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ ... if they had been true to Allah, meaning, by making their intentions sincerely for Him. ... لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ it would have been better for them. Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی جہاد کی تیاری مکمل ہوجائے اور وقت جہاد آجائے۔ 21۔ 2 یعنی اگر اب بھی نفاق چھوڑ کر، اپنی نیت اللہ کے لئے خالص کرلیں، یا رسول کے سامنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑنے کا عہد کرتے ہیں، اس میں اللہ سے سچے رہیں۔ 21۔ 3 یعنی نفاق اور مخالفت کے مقابلے میں توبہ و اخلاص کا مظاہرہ بہتر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] حالانکہ انہیں چاہئے یہ تھا کہ جب اسلام کا اقرار کرکے مسلمانوں میں شامل ہوچکے تھے تو اجتماعی کاموں میں دل و جان سے ان کا ساتھ دیتے۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے اطاعت کا جو انہوں نے پختہ عہد کیا تھا۔ اسے سچ کردکھاتے، اور اسی میں ان کی بہتری تھی تاکہ وہ دنیا میں بھی مسلمانوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا نہ ہوتے اور اخروی عذاب سے بھی بچ جاتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) طاعۃ وقول معروف : اس کا تعلق یا تو پچھلی آیت کے آخری لفظ ” فاولی لھم “ کے ساتھ ہے، جیسا کہ گزرا اور اگر اسے نیا جملہ سمجھا جائے تو اس کی ترکیب دو طرح سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر ” خیر لھم “ محذوف ہے، یعنی حکم ماننا اور اچھی بات کہنا ان کے لئے بہتر ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ مبتدا محذوف ” امرنا “ کی خبر ہے، یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام تو اطاعت کرنا اور اچھی بات کہنا ہے۔ (٢) فاذا عزم الامر قلو صدقوا اللہ…: یعنی کہتے تو وہ یہی ہے کہ ہمارا کام ” سمعنا واطعنا یعنی حکم ماننا اور اچھی بات کہنا ہے، مگر جب جہاد کا قطعی اور لازمی حکم آجائے تو وہ اپنی بات میں جھوٹے نکلتے ہیں، اگر وہ اس وقت اپنی بات میں اللہ سے سچے رہیں تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

طَاعَۃٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ۝ ٠ ۣ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ۝ ٠ ۣ فَلَوْ صَدَقُوا اللہَ لَكَانَ خَيْرًا لَّہُمْ۝ ٢١ ۚ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ صدق وکذب الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ الکذب یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { طَاعَۃٌ وَّقَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ} ” اطاعت لازم ہے اور کوئی بھلی بات کہی جاسکتی ہے۔ “ ان کے لیے پسندیدہ روش اطاعت اور قول معروف کی تھی۔ یہ لوگ جب ایمان کے دعوے دار ہیں تو ان پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت لازم ہے۔ ایمان کے دعوے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے خلاف دلیل بازی نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر کسی معاملے میں یہ لوگ معروف طریقے سے کوئی مفید مشورہ دینا چاہتے تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ { فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُقف فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ } ” تو جب کوئی فیصلہ طے پا جائے تو پھر اگر وہ اللہ سے (اپنے ایمان کے وعدے میں) سچے ثابت ہوں ‘ تبھی ان کے لیے بہتری ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١۔ ٢٤۔ ہجرت سے پہلے جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے تو اسلام کا کچھ زور نہ تھا اس واسطے جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خوبیاں جمائیں اور وہ اسلام لائے ان کا اسلام خالص دل سے تھا یہ بات نہیں تھی کہ ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہو ہجرت کے بعد جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے اور اسلام کا دن بدن زور اور غلبہ شروع ہوا تو مدینہ کے بہت سے لوگ اپنی عزت اپنا مال اپنی جان بچانے کی غرض سے اس طرح داخل اسلام ہوگئے تھے کہ ظاہر میں تو وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن دل سے وہ لوگ مسلمان نہ تھے اور جب موقعہ پاتے تھے درپردہ مسلمانوں کی بدخواہی کی باتیں کرتے تھے ان ہی لوگوں کو منافق کہتے ہیں یہ منافق لوگ اپنے دل میں جانتے تھے کہ ان کی درپردہ بدخواہی کا مسلمان جان نہ سکیں گے لیکن اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے جو بات یہ منافق لوگ پردہ کے طور پر مسلمانوں کی بدخواہی کی یا بناوٹ کے طور پر کرتے تھے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس کا ذکر فرما کر ان منافقوں کو رسوا اور فضیحت فرما دیتا تھا چناچہ غزوہ بنی مصطلق کے وقت ایک شخص مہاجر اور ایک انصار کا کچھ جھگڑا ہوگیا تھا اس پر عبد اللہ بن ابی منافقوں کے سردار نے درپردہ اپنے آپس کے لوگوں سے یہ کہا کہ آئندہ سے ہمارے جتھے کے لوگ ان مہاجروں سے سلوک کرنا بند کردیں تاکہ تنگ آ کر یہ لوگ ہماری بستی چھوڑ کر چلے جائیں اللہ تعالیٰ نے سورة منافقوں میں اس قصہ کا ذکر فرما کر منافقوں کو خوب رسوا کیا چناچہ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کی زید بن ارقم کی روایت میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے اسی طرح قرآن شریف میں منافقوں کی درپردہ باتوں اور ان کی رسوائی کا اکثر جگہ ذکر ہے اسی کو اللہ تعالیٰ نے آگے کی آیتوں میں فرمایا ہے کہ کیا ان منافق لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بد نیتی کو اپنے رسول اور مسلمانوں پر ظاہر نہ فرمائے گا اگر یہ لوگ اپنے منافق پنے سے باز نہ آئیں گے تو قرآن میں ان کی رسوائی کی آیتیں نازل ہونے کے علاوہ خود ان کے چہروں پر ایسی پھٹکار برسنے لگے گی کہ ان کی صورت ان کی باتوں سے ان کی پہچان ہوجائے گی حضرت انس (رض) فرمایا کرتے تھے آگے کی آیتیں نازل ہونے کے بعد مدینہ کا کوئی منافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چھپا نہیں رہا تھا نام بنام سب منافقوں کا حال اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا تھا ناقابل اعتراض سند سے مسند امام احمد بن حنبل میں ابو مسعود (رض) عقبہ بن عمرو کی روایت سے جو قصہ ہے اس قصہ سے حضرت انس (رض) کے قول کی تصدیق ہوی ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صحابہ کو جمع کرکے خطبہ پڑھا اور چھتیس شخص کا نام لے کر ان کو منافق فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اے لوگو تم میں منافق بھی شریک ہیں تم کو خدا سے ڈرنا اور اپنے اعتقاد اور عملوں کو درست کرنا چاہئے۔ حاصل یہ ہے کہ جب آیت کے اوپر کے ٹکڑے کے موافق مسلمانوں کی خواہش پر جہاد کا حکم نازل ہوا اور منافقوں کے دل پر اس حکم کا اثر جو کچھ پڑا اس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو اے رسول اللہ کے تم نے منافقوں کا حال دیکھا کہ قریب المرگ شخص کی طرح ان کی آنکھیں پتھرا گئیں اور ان کے چہروں پر مردنی چھا گئی۔ سورة قیامہ میں ١ ؎ نسائی وغیرہ کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی صحیح روایت آئے گی کہ ایک روز اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کی چادر کا پلو پکڑ کر یہ فرمایا تھا اولی لک جس کا مطلب یہ ہے کہ تیرے لئے خرابی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے کلام کی صداقت کے طور پر سورة قیامہ میں یہی لفظ چار دفعہ نازل فرمائے اس شان نزول کی بنا پر بعض سلف نے یہاں بھی فاولی لھم میں لفظ اولیٰ کو ویل سے لے کر آیت کے ٹکڑے فاولی لھم کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ جو لوگ دین کی لڑائی سے جی چراتے ہیں ان کے لئے بڑی خرابی ہے تینوں ترجموں میں یہی قول لیا گیا ہے اس قول کے موافق فاولی لھم پر پچھلا کلام ختم ہوجائے گا اور طاعۃ و قول معروف کی خبر الگ نکالنی پڑے گی مثلاً یوں کہا جائے گا کہ طاعۃ وقول معروف خیر لھم جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بجائے جی چرانے کے دین کی لڑائی کے حکم کو ماننا اور اچھی بات کا منہ سے نکالنا بہتر ہے بعض مفسروں نے فاولی لھم طاعۃ وقول معروف کو ایک ہی کلام شمار کرکے آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ بہتر ان لوگوں کے حق میں لڑائی کے حکم کو ماننا اور اچھی بات کا منہ سے نکالنا ہے اس قول کی بنا پر طاعۃ و قول معروف کی کوئی خبر الگ نہیں نکالنے پڑتی ایک روایت میں حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس سے بھی یہ آخری تفسیر آئی ہے ” فاذا عزم الامر “ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ منافق لوگ اگر لڑائی سے پہلے لڑائی کے حکم کے ماننے کا زبانی اقرار بھی کرلیتے ہیں تو عین وقت پر اس اقرار سے پھرجاتے ہیں اگر عین وقت پر یہ لوگ اپنے اقرار کو سچا کریں تو ان کے حق میں بہتر ہے سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ عبد اللہ بن ابی منافق احد کی لڑائی کے میدان میں سے تین سو آدمیوں کو بہکا کر مدینہ واپس لے آیا جس سے لشکر اسلام کی تعداد بجائے ہزار آدمیوں کے سات سو کی رہ گئی منافقوں کی ایسی باتوں کو فرمایا کہ یہ لوگ عین وقت پر دغا دیتے ہیں آگے فرمایا کہ جو لوگ قرآن کی نصیحت کے پورے پابند نہیں اور قرآن کے جہاد کے حکم کی تعمیل سے جی چراتے ہیں اگر دین کی لڑائی کے طفیل سے ایسے لوگوں کو کبھی حکومت مل گئی تو ان سے یہ بھی کچھ دور نہیں کہ حکومت کے غرور میں یہ لوگ اللہ کے ملک میں طرح طرح کے فساد ڈالیں اور اس فساد کے برپا کرنے میں رشتہ داری کا بھی کچھ پاس ولحاظ نہ رکھیں یہ قرآن کی ایک بڑی پیشن گوئی ہے یزید کی خلافت میں جو فساد برپا ہوئے اور ماموں رشید نے اپنے بھائی امین کو جو قتل کیا ان قصوں کو تاریخ کی کتابوں میں دیکھا جائے تو قرآن کی اس پیشن گوئی کا ظہور اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے پھر فرمایا کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ کی رحمت سے وہ بالکل دور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نصیحت کی بات کے سننے کے لئے کان بھلا برا دیکھنے کے لئے آنکھیں ہم نے سب کچھ دیا اس پر بھی ان لوگوں نے بہرے اندھوں کے سے کام کئے پھر فرمایا کئے پھر فرمایا نافرمانی کے سبب سے ایسے لوگوں کے دلوں میں زنگ کے قفل لگ رہے ہیں اس لئے قرآن کے نصیحت ان کے دلوں پر کچھ اثر نہیں کرتی مسند امام احمد ترمذی ١ ؎ نسائی کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی معتبر روایت اوپر گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہ پر گناہ کرنے سے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اس زنگ کی سیاہی کو قرآن شریف میں کہیں دل کی مہر فرمایا ہے اور کہیں دل کا قفل رشتہ داروں کے ساتھ سلوک سے پیش آنے باب میں بہت سی صحیح حدیثیں آئی ہیں۔ (٢ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة اذا جاءک المنافقون ص ٧٢٧ ج ٢ و صحیح مسلم باب صفات المنافقین واحکامھم ص ٣٦٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٩٦ ج ٦۔ ) (١ ؎ تیرا ہذا جلد ہذا ص ٢٣٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:21) طاعۃ وقول معروف اوپر ملاحظہ ہو۔ فاذا عزم الامر۔ پھر جب بات پکی ہوگئی، یعنی جب کفار سے جہاد کی ٹھن گئی۔ عزم ماضی واحد مذکر غائب عزم (باب ضرب) مصدر سے ہے۔ بطور فعل لازم استعمال ہوا ہے۔ لیکن علی کے صلہ کے ساتھ بمعنی کسی کام کا پختہ ارادہ کرنا۔ فعل متعدی آتا ہے۔ اذا ۔ جب : اس وقت، ناگہاں، ظرف زمان ہے : زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے ۔ اور کبھی زمانہ ماضی کے لئے بھی آتا ہے جیسے وذا راوا تجارۃ او لھوا ن انفضوا الیھا (62:11) اور جب انہوں نے سودا بکتا یا تماشہ ہوتا دیکھا تو منتشر ہو کر اس کی طرف چل دئیے اور اگر اذا قسم کے بعد واقع ہو تو پھر زمانہ حال کے لئے آتا ہے۔ جیسے والنجم اذا ھوی ۔ (53:1) قسم ہے تارے کی جب وہ گرنے لگے۔ اذا اکثر وبیشتر تو شرط ہی ہوتا ہے مگر مفاجات یعنی کسی چیز کے اچانک پیش آجانے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فاذاھی حیۃ تسعی (20:20) اور وہ ناگہاں سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ فاذا عزم الامر فلو صدقوا اللہ لکان خیرا لہم۔ فاذا عزم الامر جملہ شرط ہے اس کا جواب فلو صدقوا اللہ لکان خیرا لہم جواب شرط ہے۔ جب جہاد کی بات پکی ہوگئی تو اگر یہ لوگ اللہ سے سچے رہتے (یعنی جہاد کی انتہائی رغبت کا جو انہوں نے اظہار کیا اگر وہ اس میں سچے ثابت ہوتے) تو ان کے لئے بہتر تھا۔ اس کی مثال : اذا جاء الشتاء فلو جئتنی لکسوتک۔ بعض کے نزدیک شرط کی جزا محذوف ہے اور تقدیر کلام یوں ہے فاذا عزم الامر کرھوا ۔ جب جہاد کی بات پکی ہوگئی (یعنی جب جہاد فرض ہوگیا اس کی تیاریاں شروع ہوگئیں اور مقابلہ ومقاتلہ کی بات ٹھن گئی) تو وہ حکم جہاد کو ناگوار سمجھنے لگے۔ اس صورت میں فلو صدقوا اللہ لکان خیرالہم ۔ علیحدہ کلام ہے۔ فلو صدقوا اللہ جملہ شرط ہے اور لکان خیرا لہم جواب شرط ہے۔ اگر وہ اللہ سے سچے رہتے (یعنی رغبت جہاد کو سچ کردکھاتے) تو ان کے لئے یہ الصدق (سچ کردکھانا) بہتر ہوتا۔ صدقوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ صدق (باب ضرب ) مصدر سے۔ انہوں نے سچ کر دکھایا (اگر وہ ) سچ کردکھاتے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی جہاد کا پختہ حکم آنے پر اس سے گھبرانے اور پیچھے رہنے کی بجائے اگر وہ خدا کے ساتھ سچے رہتے اور آگے بڑھ کر اس کی راہ میں اپنی جان اور مال پیش کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یعنی حکم شرع کو نہ ماننے سے کافر ہوجاتا ہے۔ اللہ کا حکم ہر طرح ماننا ہی چاہیے پھر رسول بھی جانتا ہے کہ نامردوں کو کیوں لڑوائے۔ ہاں بہت ہی تاکید آپڑے اس وقت لڑنا ضروری ہوگا، نہیں تو لڑنے والے بہت ہیں۔ (موضع)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 21 تا 28 : طاعۃ (کہا ماننا۔ اطاعت کرنا) ‘ عزم (ارادہ کرلیا) ‘ عسیتم (شاید کہ تم) ‘ تقطعو (تم کاٹ ڈالو) ارحام (رشتہ داریاں) ‘ اصم (بہرا کردیا) ‘ اعمی ابصارھم ( ان کی آنکھیں اندھی کردیں) ‘ لایتدبرون ( وہ غور نہیں کرتے) اقفال (قفل) تالے ‘ ارتدوا (الٹے پھرگئے) ‘ ادبار (دبر) پیٹھ۔ پیٹھیں ‘ سول ( اس نے برابر کیا۔ دھوکہ دیا) ‘ اسرار (سر) بھید۔ خفیہ باتیں) ‘ اسخط (ناراض کردیا) ‘ احبط (ضائع کردیا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 21 تا 28 : اس سے پہلی آیات میں بیان کیا جارہا تھا کہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے میں سنجیدہ ہیں وہی لوگ قرآن کریم کی روشنی سے ہدایت حاصل کریں گے اور جنہوں نے سچائیوں کو دیکھنے کے باوجود بےحسی اور بےتوجہی کا انداز اختیار کیا ان کو زندگی کے اندھیروں اور آخرت میں ناکامی کے سواکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ ایسے منافق لوگ اپنے ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں اور فرماں برداری کی باتیں کرنے میں بھی خوب چرب زبان ہوتے ہیں لیکن اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ زبان سے جس اطاعت و فرماں برداری کی باتیں کرتے ہیں وہ محض دکھاوا اور ریاکاری ہے جسے اللہ تو اچھی طرح جانتا ہے اور ان کی ڈھکی چھپی اور ظاہر حالت سے واقف ہے مومن بھی ان کی حرکتوں سے ان کے نفاق کو خوب پہچانتے ہیں چناچہ جب ایک طویل عرصے تک دشمنوں سے جنگ کرنے کی ممانعت تھی اس وقت تک تو منافقین اور اہل ایمان کو الگ الگ پہچاننا مشکل تھا کیونکہ نماز ‘ روزہ اور عبادات کو ایک ساتھ ہی ادا کیا جاتا تھا۔ جب اللہ کی طرف سے اہل ایمان کو جہاد کی اجازت دی گئی تب اہل ایمان تو خوش ہوگئے اور جس جاں نثاری کیلئے وہ تڑپ رہے تھے ان کو موقع مل گیا تھا لیکن نفاق کے روگی اور دل کے بیمار لوگ جہاد و قتال کے حکم سے بوکھلا کر رہ گئے اور ایسی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے جیسے کسی پر موت کے وقت بےہوشی سی طاری ہو کر آنکھیں حلقوں میں ڈولنے لگے ہیں۔ اس کیفیت کو سورة نساء میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا “ کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ وہ (دشمنوں کو قتل کرنے یا انتقام لینے سے) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھیں۔ نماز قائم کریں۔ زکوۃ ادا کرتے رہیں اور جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو ان میں کچھ لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ان (کفار) سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ (ڈرنا چاہیے تھا) وہ لوگ کہتے ہیں کہ اے اللہ آپ نے ہمیں قتال (جہاد) کا حکم کیوں دے دیا۔ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی جاتی۔ (النساء آیت نمبر 77) “۔ منافقین کے سامنے جہاد کا حکم آتے ہی ان کا پول کھل گیا۔ حالانکہ کفر و شرک کے خلاف قتال اور جہاد کا حکم انسانی فلاح و بہبود کے لئے ہے اسی لئے فرمایا اگر تم جہادکاحکم آنے کے بعد منہ پھیرا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم جاہلیت کے اسی پرانے رنگ ڈھنگ پر آجائو گے جیسے تم صدیوں سے جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے پر چڑھ دوڑتا تھا۔ ہر طرف قتل و غارت گری اور بدامنی کاراج تھا۔ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں ذبح کردیا کرتے تھے اسلام کی برکت سے اب یہ تمام باتیں ختم ہوچکی ہیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت برستی ہے جو دین کے بنیادی اصولوں سے منہ پھیر کر چلتے ہیں اور دین اسلام کی سچائیوں پر دھیان نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے سوال کیا ہے کہ تم اس قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے کیا تمہارے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں ؟ یہی لوگ یہود و نصاری کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ بعض باتوں میں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ اپنی دلی کیفیات کو دنیا سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ ان کے پوشیدہ رازوں تک سے واقف ہے۔ فرمایا کہ ان لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کو موت دہلیز پر لے آئیں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر گرز برسا رہے ہوں گے اور یہ کہتے ہوں گے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ تم ہمیشہ اس راستے پر چلے جو راستہ اللہ کو پسند نہیں تھا اور انہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی کو اہمیت نہیں دی اسی وجہ سے ان کا سب کیا کرایا غارت کردیا گیا جب وہ آخرت میں پہنچیں گے تو ان کے ہاتھ حسن عمل اور اسکے بہتر نتائج سے خالی ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی ابتداء میں اگر منافق تھے تو اخیر ہی میں نفاق سے تائب ہوجاتے، تب بھی ایمان مقبول ہوجاتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

طاعۃ وقول معروف (٤٧ : ٢١) “ وہ اطاعت کریں اور سیدھا رویہ اختیار کر کے بات کریں ”۔ اللہ کے احکام کو اب نفاق کے بجائے دل سے قبول کرلیں۔ اور اللہ پر یقین کر کے اس کے احکام کو مان لیں ۔ اور اس قسم کی باتیں کریں جو بچی ہوں اور سچے دل سے ہوں۔ اور پختہ ضمیر کے مطابق ہوں اور یہ ان کے لئے اب نئے حالات میں زیادہ مفید ہوگا جبکہ اب احکام قطعی ہوگئے ہیں۔ اب تو انہوں نے یا جہاد میں جانا ہے یا پیچھے رہنا ہے۔ لہٰذا عزیمت اور شعور کے ساتھ جہاد کرو۔ اس طرح ان کے دل مضبوط ہوں گے ، ان کا عزم پختہ ہوجائے گا۔ قدم مضبوط ہوں گے ، جہاد ان کو مشقت اور بیگار نہ نظر آئے گا۔ اور جنگ ان کے لئے ایک ایسی بلائے نا گہانی نہ ہوگی جس نے منہ کھولا ہوا ہے۔ جنگ میں گئے کہ اس بلا کے منہ میں پڑے نہیں۔ اگر سچے دل سے جہاد کریں گے تو دو بھلائیوں میں ایک بھلائی تو بہرحال ملے گی۔ یا تو خطرے سے نجات اور فتح ملے گی اور یا شہادت اور جنت ملے گی۔ اور یہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہوگی ۔ یہ ہے وہ زاد راہ یعنی حقیقی ایمان جس کے نتیجے میں عزائم جوان اور پاؤں مضبوط اور جزع و فزع مفقود ہوجاتے ہیں اور انسان کو اطمینان اور قرار ثبات ملتا ہے۔ اب ان کو نہایت سختی سے جہاد سے پیچھے رہنے کا انجام بتا یا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے اسلام سے منہ موڑ لیا تو انہیں معلوم ہے کہ اسلام سے قبل ان کی حالت کی تھی ۔ تم نے نفاق کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اس میں کتنے فائدے ہیں ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿طَاعَةٌ وَّ قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ ﴾ (یعنی منافقین کو چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نازل ہو تنگ دل ہونے کی بجائے کہیں کہ ہمارا کام تو فرمانبرداری کرنا اور اچھی بات کہنا یعنی دل سے اور زبان سے تسلیم کرنا ہے۔ قال صاحب معالم التنزیل : ای لو اطاعوا وقالو قولاً معروفًا کان امثل واحسن، ثم قال وقیل ھو متصل بما قبلہ واللام بمعنی الباء فاَولیٰ بھم طاعة اللّٰہ ورسولہ وقول و معروف بالا جابة وھذا قول ابن عباس فی روایة عطاء (صاحب معالم التنزیل فرماتے ہیں یعنی اگر وہ اطاعت کرتے اور اچھی بات کہتے تو بہت ہی درست اور بہتر ہوتا پھر کہا کہ بعض نے کہا ہے یہ جملہ ما قبل سے متصل ہے اور لام باء کے معنی میں ہے یعنی ان کے لائق یہی تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے اور قبول کرکے اچھی بات کہتے اور یہ عطاء کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول ہے۔ ) ﴿ فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ ١۫ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰهَ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْۚ٠٠٢١ ﴾ (پھر جب مضبوطی کے ساتھ حکم آگیا، یعنی جہاد کرنے کا واقعی حکم ہوگیا تو اس وقت یہ لوگ اپنے دعویٰ ایمان اور دعویٰ فرمانبرداری میں سچے ثابت ہوتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” طاعۃ “ معطوف مع معطوف علیہ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے ای طاعۃ وقول معروف خیر لہم او امثل (روح ج 26 ص 68، بحر ج 8 ص 81) ۔ ان کے لیے بہتر اور اچھا تو یہی تھا کہ وہ مخلصین کی طرح اطاعت کو اپنا شعار بناتے اور دل سے سچی بات کہتے اور زبانوں سے جہاد کی سچی آرزو کا اظہار کرتے۔ ” فاذا عزم “ یہ شرط ہے اور جملہ شرطیہ ” فلو صدقوا الخ “ اس کی جزا ہے۔ ” صدقوا “ سچ کہتے۔ صدق بمعنی راست گفتن وراست کردن (صراح) ۔ یعنی جب معاملہ پختہ ہوگیا اور جہاد کا اعلان ہوگیا تھا تو اس وقت اگر یہ لوگ قول و فعل میں راستبازی اختیار کرتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) فرماں برداری کرنا اور بھلی بات کہنی چاہیے پھر جب جہاد کا حکم لازم ہوجائے اور اس وقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے روبرو سچے ثابت ہوں تو یہ ان کے لئے بہت ہی بہتر ہو۔ طاعتہ وقول معروف کے کئی طرح معنی کئے گئے ہیں ایک تو یہ کہ پہلے کلام سے اس کو جدا رکھا جائے اور کلام مستانف سمجھ کر یوں ترجمہ کیا جائے طاعت اور بھلی بات اچھی ہے یعنی منافق قتال کے حکم سے پہلے کہا کرتے تھے۔ امرنا طاعۃ وقولمعروف۔ یعنی ہمارا کام تو فرمانبرداری اور بھلی بات کہنا ہے لیکن جب جہاد کا حکم آیا تو اس کہنے کی حقیقت ظاہر ہوگئی دوسرے بعض لوگوں نے یوں ترجمہ کیا کہ خدا اور رسول کی اطاعت ان کے لئے بہتر ہے اگر وہ کرتے بعض نے اور طرح بھی ترجمے کئے ہیں۔ بہرحال مطلب یہ ہے یعنی ظاہر میں یہ لوگ فرماں برداری کا اظہار کرتے ہیں اور زبان سے اسلام کا اقرار کرتے ہیں مگر کام کی بات یہ ہے کہ عملاً اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانیں اور بات اچھی اور معقول کہیں پھر جب جہاد لازم ہوجائے اور لڑائی کی بات آپڑے اس وقت اللہ تعالیٰ کے روبرو سچے ثابت ہوں تو ان کے لئے بہتر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حکم شرع کو نہ ماننے سے کافر ہو ہر طرح سے ماننا ہی چاہیے پھر رسول بھی جانتا ہے کہ نامردوں کو کیوں لڑائے اور جو بہت ہی تاکید آپڑے اسی وقت لڑنا ضروری ہوگا نہیں تو لڑنے والے بہت ہیں۔ خلاصہ : یہ ہے کہ اسلام کی بات مانیں اور بھلی باتوں کے پابند رہیں پھر جب جہاد کا موقع ہو اور جہاد فرض عین ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے سچے ثابت ہوں ورنہ اگر فرض کفایہ یہ تو ہر شخص کو لڑنا ضروری نہیں۔