Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 22

سورة محمد

فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ ﴿۲۲﴾

So would you perhaps, if you turned away, cause corruption on earth and sever your [ties of] relationship?

اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ ... So would you perhaps, if you turned away, meaning, from Jihad and you withdrew from it. ... أَن تُفْسِدُوا فِي الاَْرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ spread corruption on earth, and sever your ties of kinship. which means, would you then go back to your old practices of the time of ignorance: shedding blood and severing kinship ties Allah then says, أُوْلَيِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 ایک دوسرے کو قتل کر کے یعنی اختیار و اقتدار کا غلط استعمال کرو امام ابن کثیر نے تولیتم کا ترجمہ کیا ہے تم جہاد سے پھر جاؤ اور اس سے اعراض کرو یعنی تم پھر زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤ اور باہم خون ریزی اور قطع رحمی کرو اس میں فساد فی الارض کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت اور اصلاح فی الارض اور صلہ رحمی کی تاکید ہے جس کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ زبان سے عمل سے اور بذل اموال کے ذریعے سے اچھا سلوک کرو احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید اور فضلیت آئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] منافقوں سے کسی بھلائی کی توقع محال ہے :۔ منافقوں کو جہاد صرف اس لیے ناگوار تھا کہ وہ اسلام اور اس کے مفادات کے مقابلہ میں اپنی جان اور مال کو عزیز تر سمجھتے تھے۔ یعنی ان کا اولین مقصد مال کا حصول اور اپنی جان کو بچانا تھا۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں دنیا میں حکومت مل بھی جائے تو ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں جاسکتی یہ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ملک میں فتنہ و فساد ہی برپا کریں گے۔ اور اس سلسلہ میں اپنے رشتہ داروں کے گلوں پر چھری پھیرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اور اگر تَوَلَیْتُمْ کا معنی پھرجانا اور اعراض کرنا لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر تم جہاد سے بدک کر اسلام سے پھر جاؤ تو تمہارے متعلق یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم پر پھر اسلام سے ماقبل کی حالت عود کر آئے۔ انہی پہلی سی قبائلی جنگوں میں تم پڑجاؤ جن سے نکلنے کی تمہیں کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی تم وہی پہلی سی لوٹ مار، قتل و غارت اور فتنہ و فساد کرنے لگو گے۔ خ قطع رحمی & ام ولد کی خریدو فروخت کی ممانعت :۔ اس آیت نیز قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قطع رحمی بہت بڑا گناہ کبیرہ ہے۔ اسی آیت کے حکم کو مدنظر رکھ کر سیدنا عمر نے اپنی مجلس شوریٰ کے مشورہ سے ام الولد کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا تھا۔ چناچہ سیدنا بریدہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن سیدنا عمر کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ محلہ میں یکایک ایک شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جارہی ہے جبکہ اس لونڈی کی لڑکی کھڑی رو رہی ہے۔ سیدنا عمر نے اسی وقت یہ مسئلہ اپنی شوریٰ میں پیش کردیا تاکہ دیکھیں پوری شریعت میں ایسی قطع رحمی کا کوئی جواز نظر آتا ہے ؟ سب نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی قطع رحمی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ماں کو اس کی بیٹی سے جدا کردیا جائے ؟ اس وقت آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس مسئلہ کی روک تھام کے لیے آپ جو مناسب سمجھیں اختیار فرمائیں۔ چناچہ آپ نے سارے بلاد اسلامیہ میں یہ فرمان جاری کردیا کہ جس لونڈی سے مالک کی اولاد پیدا ہوجائے وہ اسے فروخت نہیں کرسکتا۔ اس روایت کو اگرچہ بعض مفسرین نے درج کیا ہے مگر اس کا حوالہ مذکور نہیں۔ علاوہ ازیں یہ روایت ویسے بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ ام الولد کی فروخت کی تحریم سنت نبوی سے ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ && جس شخص نے اپنی لونڈی سے مباشرت کی۔ پھر اس سے اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو وہ لونڈی اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوگی && (احمد۔ ابن ماجہ۔ بحوالہ نیل الاوطار ج ٦ ص ٢٣١) ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے پاس ام ابراہیم (ماریہ قبطیہ) کا ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا : && اس کا بچہ اس کی آزادی کا سبب بن گیا && (ابن ماجہ، دارقطنی بحوالہ ایضاً ) ٣۔ سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی نے اولاد والی لونڈیوں کو بیچنے سے منع فرمایا اور کہا کہ وہ نہ بیچی جاسکتی ہیں نہ ہبہ کی جاسکتی ہیں اور نہ ترکہ میں شمار ہوسکتی ہیں۔ جب تک ایسی لونڈی کا مالک زندہ ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جب وہ مرجائے تو وہ لونڈی آزاد ہے && (موطا امام مالک، دارقطنی بحوالہ ایضاً ) ان احادیث میں موطا امام مالک اول درجہ کی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ ابن ماجہ درجہ دوم اور دارقطنی درجہ سوم میں۔ تاہم یہ سب احادیث ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں اور مرفوع ہیں۔ اور اس مسئلہ کے جملہ پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں یعنی ایسی لونڈی کا مالک خود بھی اپنی زندگی میں اسے نہ فروخت کرسکتا ہے اور نہ ہبہ کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فھل عسیتم ان تولیتم …:” ھل “ کے معنی کی تحقیق کے لئے دیکھیے سورة دہر کی پہلی آیت :(ھل اتی علی الانسان حین من الدھر) کی تفسیر۔ یہاں یہ ” قد “ (یقیناً ) کے معنی میں ہے۔” عسیتم “ تم قریب ہو، تم سے امید ہے۔ ” تولیتم “ یا تو ” تولی الولایۃ “ سے ہے، حاکم یا صاحب اقتدار ہونا، یا ” تولی عنہ “ سے ہے، منہ موڑنا، اعراض کرنا۔ اگر حاکم ہونے سے ہو تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ طاعت اور قول معروف اختیار کرو، کیونکہ اگر تم اسی نفاق کی حالت میں حکومت پر متمکن ہوجاؤ تو یقینا تم قریب ہو کہ ایمان سے خالی ہونے کی وجہ سے اسلام سے پہلے والی حالت کی طرف پلٹ جاؤ گے، اپنی خواہشات نفس پوری کرنے کے لئے زمین میں فساد کرو گے اور اپنی رشتہ داریاں بری طرح قطع کر دو گے۔ اور اگر ” تولیتم “ کا معنی اعراض اور منہ موڑنا ہو تو مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ جب جہاد کا حکم قطعی اور لازمی ہوجائے تو اپنا صدق ثابت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، کیونکہ اگر تم نے جہاد سے منہ موڑا تو ہرگز امن و امان سے نہیں رہو گے، بلکہ نافرمانی اور قطع رحمی کرو گے، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی ، نافرمانی اور لوٹ مار کی وہی حالت لوٹ آئے گی جو سالام سے پہلے تھی۔ تقطعوا “ (تفعیل) میں مبالغہ ہے، یعنی تم اپنی رشتہ داریاں بری طرح قطع کرو گے، یا بالکل قطع کر دو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْ‌حَامَكُمْ (So, [ O hypocrites,] do you not apprehend that, in case you turn away (from Jihad), you will spread disorder in the land, and will sever your ties of kinship? 47:22). The word تَوَلّیٰ &tawalla& used in the text lexically has two senses: it could mean I&rad that is, |"turning away|" and it could also mean to be placed in authority over the people. Some of the commentators of the Qur&an assigned the first meaning to this word in the context of this verse, and Abu Hayyan in his Al-Bahr-ul-Muhit prefers this interpretation, (and the translation given above is based on it.) From this point of view the meaning of the verse would be: If you turned away from Jihad [ struggling in the cause of Allah ] and other injunctions of Shari` ah, you would return to the ancient system of ignorance which Islam has abolished. In the Pre-Islamic Days, according to the practices of jahiliyyah, corruption and severed ties of kinship. For example, they practised injustice; they cut each other&s throat; one tribe attacked another tribe; they committed carnage and massacre; and they buried alive their daughters with their own hands. Islam abolished and wiped out all these and other heinous practices of the Days of ignorance. In these heinous crimes of those days, Islam enjoined Jihad which apparently seems to be bloodshed, but in reality it is analogous to amputation of the diseased limb of a body, so that the rest of the body may remain healthy. Jihad establishes justice and equity and maintains ties of kinship and relationship. Ruh-ul-Ma’ ani, Qurtubi and others take the second meaning of the word tawalli in this context, that is, to be placed in authority over people. From this point of view, the meaning of the verse would be: if your ambitions of being placed in authority over people and the affairs of the world are entrusted to you whilst you are morally unhealthy, you would cause corruption in the land and cut off ties of kinship and relationship. Strict Maintenance of Kinship Ties The word اَرحَام &arham& is the plural of رَحَم &rahim& (womb). This is a receptacle or repository in the mother where the young humans are conceived, held, protected and developed before birth. Because that is the source of all relationships and kinship, it is idiomatically used in the sense of human relationship and kinship. Tafsir Ruh-ul-Ma’ ani, on this occasion, has explained in detail the relations covered by the term dhawil arham or arham. Islam has laid great stress on fulfilling the rights of relationship. Bukhari records a Hadith on the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) and two other Companions (رض) to the effect that whoever maintains good relations with the kith and kin Allah will keep good relations with him, but whoever severs his bonds of kinship, Allah too will sever His relations with him. This Hadith indicates how important it is to treat relatives kindly in terms of words, deeds and wealth. In the same Hadith, Abu Hurairah (رض) refers to the verse under discussion [ 47:22] and says |"Read it if you wish to|". In another Tradition, the Holy Prophet is reported to have said that there is a sin for which one will be punished, not only in the Hereafter, but also in this world, that is, ... breaking kinship bonds. In Thawban (رض) Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: |"Whoever wishes to have his life prolonged and his sustenance blessed should treat his relatives kindly.|" We come across the following Hadith in Bukhari: لیس الواصل بالمکافی ولٰکِنّ الواصل الذی قطعت رحمہ وصلھا |"The person who perfectly maintains the ties of kinship is not the one who does it because he gets recompensed by his relatives for being kind and good to them, but the one who truly maintains the bonds of kinship is he who treats his kinsmen fairly, even though others have severed the ties of kinship with him.|" (Ibn Kathir)

(آیت) فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ ۔ لفظ تولی کے لغت کے اعتبار سے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک اعراض دوسرے کسی قوم و جماعت پر اقتدار حکومت، اس آیت میں بعض حضرات مفسرین نے پہلے معنی لئے ہیں جس کا اوپر خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔ ابوحیان نے بحر محیط میں اسی کو ترجیح دی ہے اس معنے کے اعتبار سے مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر تم نے احکام شرعیہ الٰہیہ سے رو گردانی کی جن میں حکم جہاد بھی شامل ہے تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ تم جاہلیت کے قدیم طریقوں پر پڑجاؤ گے جس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد اور قطع رحمی ہے جیسا کہ جاہلیت کے ہر کام میں اس کا مشاہدہ ہوتا تھا کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر چڑھائی اور قتل و غارت کرتا تھا، اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں زندہ درگور کردیتے تھے، اسلام نے ان تمام رسوم جاہلیت کو مٹایا اور اس کے مٹانے کے لئے حکم جہاد جاری فرمایا جو اگرچہ ظاہر میں خونریزی ہے مگر درحقیقت اس کا حاصل سڑے ہوئے عضو کو جسم سے الگ کردینا ہے تاکہ باقی جسم سالم رہے، جہاد کے ذریعہ عدل و انصاف اور قرابتوں اور رشتوں کا احترام قائم ہوتا ہے، اور روح المعانی قرطبی وغیرہ میں اس جگہ تولی کے معنے حکومت و امارت کے لئے ہیں تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ تمہارے حالات جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تمہاری مراد پوری ہو، یعنی اسی حالت میں تمہیں ملک و قوم کی ولایت اور اقتدار حاصل ہوجائے تو نتیجہ اس کے سوا نہیں ہوگا کہ تم زمین میں فساد پھیلاؤ گے اور رشتوں قرابتوں کو توڑ ڈالوں گے۔ صلہ رحمی کی سخت تاکید : اور لفظ ارحام رحم کی جمع ہے جو ماں کے پیٹ میں انسان کی تخلیق کا مقام ہے چونکہ عام رشتوں قرابتوں کی بنیاد وہیں سے چلتی ہے اس لئے محاورات میں رحم بمعنی قرابت اور رشتہ کے استعمال کیا جاتا ہے تفسیر روح المعانی میں اس جگہ اس پر تفصیلی بحث کی ہے کہ ذوی الارحام اور ارحام کا لفظ کن کن قرابتوں پر حاوی ہے۔ اسلام نے رشتہ داری اور قرابت کے حقوق پورے کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ اور دوسرے دو اصحاب سے اس مضمون کی حدیث نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص صلہ رحمی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے قریب کریں گے اور جو رشتہ قرابت قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قطع کردیں گے جس سے معلوم ہوا کہ اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ اقوال و افعال اور مال کے خرچ کرنے میں احسان کا سلوک کرنے کا تاکیدی حکم ہے حدیث مذکور میں حضرت ابوہریرہ نے اس آیت قرآن کا حوالہ بھی دیا کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی ایسا گناہ جس کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں اس کے علاوہ، ظلم اور قطع رحمی کے برابر نہیں (رواہ ابوداؤد، والترمذی، ابن کثیر) اور حضرت ثوبان کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص چاہتا ہو کہ اس کی عمر زیادہ ہو اور رزق میں برکت ہو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے یعنی رشتہ داروں کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ احادیث صحیحہ میں یہ بھی ہے کہ قرابت کے حق کے معاملہ میں دوسری طرف سے برابری کا خیال نہ کرنا چاہئے اگر دوسرا بھائی قطع تعلق اور ناروا سلوک بھی کرتا ہے جب بھی تمہیں حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلھا یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو صرف برابر کا بدلہ دے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب دوسری طرف سے قطع تعلق کا معاملہ کیا جائے تو یہ ملانے اور جوڑنے کا کام کرے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَہَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ۝ ٢٢ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو اے گروہ منافقین اگر تم رسول اکرم کے بعد اس امت کے معاملہ سے کنارہ کش رہو تو تمہاری یہ خواہش ہے کہ تم قتل و گناہ اور فساد برپا کردو اور کفر کے ذریعہ آپس میں رشتہ داری ختم کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّـیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ } ” پس تم سے اس کے سوا کچھ متوقع نہیں ہے کہ اگر تم لوگوں کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچائو گے اور اپنے رحمی رشتے کاٹو گے۔ “ عام طور پر اس آیت کے دو ترجمے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ترجمے کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اگر تم لوگ قتال سے منہ موڑو گے تو تم سے یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ تم زمین میں فساد مچائو گے اور خونی رشتوں کے تقدس کو پامال کرو گے۔ اوپر آیت کے تحت جو ترجمہ اختیار کیا گیا ہے وہ شیح الہند (رح) کے ترجمے کے مطابق ہے اور مجھے اسی سے اتفاق ہے۔ شیخ الہند (رح) کے ترجمے کے اصل الفاظ یہ ہیں : ” پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو خرابی ڈالوملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں “۔ یعنی اس مرحلے پر جبکہ تم لوگوں نے تربیت کے ضروری مراحل ابھی طے نہیں کیے ہیں ‘ ابھی تم آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے گزر کر کندن نہیں بنے ہو اور تزکیہ باطن اور تقویٰ کے مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچے ہو ‘ ایسی حالت میں اگر تم لوگوں کو جزیرہ نمائے عرب میں اقتدار مل جائے تو اس کا نتیجہ ” فساد فی الارض “ کے سوا اور بھلا کیا نکلے گا ! اس آیت کے مخاطب دراصل مدینہ اور اس کے اطراف و جوانب کے وہ لوگ ہیں جو ہجرت کے فوراً بعد ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے ‘ انہوں نے ابتدائی دور کے اہل ایمان کی طرح اس راستے میں کڑی آزمائشوں کا سامنا نہیں کیا تھا اور اس لحاظ سے ان کے کردار و عمل میں ابھی مطلوبہ پختگی اور استقامت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کا عملی ثبوت غزوہ احد کے موقع پر اس وقت سامنے آگیا جب مسلمانوں کی صفوں سے ایک تہائی لوگ اچانک بہانہ بنا کر طے شدہ لائحہ عمل سے لاتعلق ہو کر اپنے گھروں میں جا بیٹھے۔ گویا اس وقت اہل ایمان کے اندر اتنی بڑی تعداد میں ضعیف الاعتقاد مسلمان اور منافقین موجود تھے۔ اس اہم نکتے پر آج ان تمام دینی جماعتوں کو بھی خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو اپنی دانست میں غلبہ دین کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اگر یہ جماعتیں اپنے کارکنوں کی مناسب تربیت پر توجہ نہیں دیں گی اور ان کے اندر اخلاص اور للہیت کے پاکیزہ جذبات پروان چڑھانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کریں گی تو انہیں اقتدار ملنے کے نتیجے میں اصلاح کی بجائے الٹا فساد پیدا ہوگا اور ایسی صورت حال دین اور غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے بدنامی کا باعث بنے گی۔ کیونکہ فاسق و فاجر قسم کے لوگوں اور لا دینی قوتوں کے پیدا کردہ فساد کو تو دنیا کسی اور زاویے سے دیکھتی ہے ‘ لیکن اگر کسی دینی جماعت کے اقتدار کی چھتری کے نیچے ” فساد فی الارض “ کی کیفیت پیدا ہوگی تو اس سے جماعت کی شہرت کے ساتھ دین بھی بدنام ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 Another translation of the words in the original can be; "If you became rulers over the people, " 34 Its one meaning is; 'If at this time you shirk supporting and defending Islam and refrain from fighting with your life and wealth for the cause of me great reformist revolution which the Holy Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) and his Companions are struggling to bring about, there will be no other consequence of this than that you would return to the same system of ignorance in which you have been cutting each other's throat since centuries, burying your children alive and filling God's earth with injustice and wickedness." Its other meaning is: 'You are a people of depraved character. You are not at aII sincere in your claim of having affirmed the Faith, because you are not prepared to make any sacrifice in its cause. Now, is AIIah gives you power in the land and entrusts the affairs of the world to you when morally you are unsound and unreliable, what else can be expected of you than that you would commit tyranny and mischief and resort to killing of your own near and dear ones. This verse clearly points out that Islam forbids severing of relations with the kindred. On the other hand, in positive terms also, at several places in the Qur'an, treating the relatives kindly and well has been enjoined and counted among the major virtues. (For instance, see AI-Baqarah: 83, 177: An-Nisa': 8, 36; An-Nahl: 90. Bani Isra'il: 26; An-Nur: 22). The word rahm in Arabic is used far kinship and relationship by blood metaphorically. AII the relations of a person, whether near or distant, are his kinsmen (dhwil-arham). The nearer the relationship the greater the right one has upon the other and graver the sin of severing the ties of blood. To treat the kindred well implies that one should do one's utmost in doing whatever good one possibly can to one's relative, should avoid doing any iII or harm to him. Reasoning from this very verse Hadrat 'Umar had forbidden as unlawful selling of the slave girl who had given birth to a child from her master, and the Companions had concurred with him in this. Hakim in his Musradrik has related on the authority of Hadrat Buraidah that one day when he was sitting among the audience of Hadrat 'Umar, suddenly a clamour arose in the street. On inquiring it was known that a slave girl was being sold and her daughter was crying, Hadrat 'Umar immediately got the Ansar and the Muhajirin together and put before them the question: °Do you find in the Religion that Muhammad (upon whom be Allah's peace) has brought any room for severing of relations between the blood relationships?" Everybody replied in the negative. Thereupon, Hadrat 'Umar said: Then, how is it that in your houses a mother is being separated from her daughter? Could there be a greater and more serious instance of the cutting of these relationships? Then he recited this verse. The people said: You may adopt whatever measure you deem fit to stop this practice. At this Hadrat 'Umar issued this decree for enforcement in all the Islamic territories: "No slave-girl who has given birth to a child from her master is to be sold because this is breaking of kinship ties which is not lawful."

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :33 اصل الفاظ ہیں اِنْ تَوَلَّیْتُمْ ۔ ان کا ایک ترجمہ وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے ۔ اور دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم لوگوں کے حاکم بن گئے ۔ سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :34 اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کر رہے ہیں ، تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جاؤ جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو ، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو ، اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھرتے رہے ہو ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے ، اور اس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو ، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالی تمہیں اقتدار عطا کر دے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آ جائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے ۔ دوسری طرف مثبت طریقہ سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلح رحمی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ ، 83 ۔ 177 ۔ النساء ، 8 36 ۔ النحل ، 90 ۔ بنی اسرائیل ، 26 ۔ النور ، 22 ۔ رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ ایک شخص کے تمام رشتہ دار ، خواہ وہ دور کے ہوں یا قریب کے ، اس کے ذوی الارحام ہیں ۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے ۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتہ دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے ۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے ، یا جو بھلائی کرنا اس کے لیے ممکن ہو اس سے قصدا پہلو تہی کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے ام ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے اس سے اتفاق فرمایا تھا ۔ حاکم نے مسدرک میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلہ میں شور مچ گیا ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جا رہی ہے اور اس کی لڑکی رو رہی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جا رہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ لوگوں نے کہا آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہ اختیار فرمائیں ۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام بلاد اسلامیہ کے لیے یہ فرمان جاری کر دیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہو چکی ہو ، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: جہاد کا ایک مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے دنیا میں انصاف قائم ہو، اور غیر اسلامی حکومتوں کے ذریعے جو ظلم اور فساد پھیلا ہوا ہے، اس کا خاتمہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اگر تم جہاد سے منہ موڑ لوگ تو دنیا میں فساد پھیلے گا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کے نتیجے میں ظلم اور نا انصافی کا دور دورہ ہوگا جس کی ایک شکل یہ ہے کہ رشتہ داریوں کے حقوق پامال ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:22) فھل عسیتم خطاب الذین فی قلوبہم مرض سے ہے غائب سے حاضر کی طرف التفات، تشدید وتوبیخ کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں جو نفاق کا مرض ہے اس کی وجہ سے نہ صرف تم اللہ سے بلند بانگ دعووں میں سچے ثابت نہ ہوسکے بلکہ تم سے اس سے پست تر کردار کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھرگئے یا تم لوگوں کے حاکم بن گئے تو زمین میں فساد برپا کردو گے ۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے ! (تفہیم القرآن) ۔ ھل حرف استفہامیہ ہے۔ عسی بمعنی عنقریب ہے، شتاب ہے، ممکن ہے توقع ہے ، اندیشہ ہے۔ کھٹکا ہے۔ علامہ جلال الدین سیوطی (رح) اپنی تفسیر الاتقان فی علوم القران میں لکھتے ہیں عسی فعل جامد ہے غیر منصرف ہے اس کی گردان نہیں آتی (قرآن مجید میں عسی صیغہ واحد مذکر غائب وعسیتم صیغہ جمع مذکر حاضر استعمال ہوا ہے اور بس) ۔ اور اسی بناء پر ایک جماعت کا دعویٰ ہے کہ یہ حرف ہے اس کے معنی پسندیدہ بات میں ” امید “ کے اور ناپسند یدہ بات میں اندیشہ اور کھٹکے کے ہیں۔ اور یہ دونوں معنی اس آیت میں جمع ہیں۔ عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیئا وھو شرلکم (2: 216) اور توقع ہے کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں۔ اور خدشہ ہے کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ بری ہو تمہارے حق میں۔ ابن فارس کا بیان ہے کہ عسی قرب اور نزدیکی کے لئے آتا ہے جیسے کہ :۔ قل عسی ان یکون ردف لکم (27:72) تو کہہ کیا بعید ہے جو تمہاری پیٹھ پر پہنچ چکی ہو۔ اور کسائی نے کہا ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں قرآن مجید میں عسی خبر کے لئے آیا ہے بصیغہ واحد آیا ہے جیسا کہ آیت سابقہ میں اور اس کے معنی ہوں گے عسی الامر ان یکون کذا (یعنی توقع ہے کہ معاملہ یوں ہو) اور جہان استفہام کے لئے آیا ہے بصیغہ جمع ہوتا ہے جیسے فھل عسیتم ان تولیتم (آیت زیر مطالعہ) پھر تم سے یہ بھی اندیشہ ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے۔ (مزید بحث کے لئے ملاحظہ ہو لغات القرآن جلد چہارم) ۔ عسیتم : توقع ہے اندیشہ ہے۔ قاضی شوکانی لکھتے ہیں :۔ کہ اس پر حرف استفہام (یعنی ھل ) کو امر متوقع کے ثبوت کے لئے داخل کیا ہے۔ یعنی یہ بتلانا ہے کہ یہ بات ہو کر رہے گی۔ فھل عسیتم ۔ پھر تم سے یہ اندیشہ ہے کہ ۔ یا تم سے متوقع ہے کہ ۔۔ (عسیتم اہل حجاز کی لغنت کے مطابق ہو ورنہ بنی تمیم ضمیر کو عسی کے ساتھ نہیں ملاتے) ۔ اس کی خبر ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم ہے۔ شرط ان تولیتم جملہ معترضہ ہے ما بین عسی اور ان تفسدوا کے۔ تولیتم ماضی صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تولی (تفعل) مصدر۔ و ل ی مادہ کے حروف سے باب تفعل سے مندرجہ ذیل معانی میں آتا ہے۔ (1) دوستی کرنا۔ رفیق ہونا۔ جیسے کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ (22:4) جس کے بارہ میں لکھ دیا گیا ہے کہ جو بھی اسے دوست رکھے گا تو وہ اس کو گمراہ کر دے گا۔ (2) منہ پھیرنا۔ پیٹھ پھیرنا۔ اعراض کرنا۔ جیسے وان یتولوا یعذبہم اللہ عذابا الیما (9:74) اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو خدا ان کو دکھ دینے والا عذاب دے گا۔ اس معنی میں یہ اکثر عن کے صلہ کے ساتھ متعدی ہوگا۔ عن خواہ لفظوں میں مذکور ہو یا پوشیدہ ہو۔ (3) متولی ہونا۔ حاکم ہونا۔ والی ہونا۔ جیسے فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض۔ (آیت ہذا زیر مطالعہ 47:22) پھر تم سے یہ بھی اندیشہ ہے یا تم سے متوقع ہے کہ اگر تم حاکم ہوجائو تو ملک میں خرابی کرنے لگو۔ اور اگر عن مقدر مانا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا :۔ پھر تم سے یہ بھی اندیشہ ہے یا تم سے متوقع ہے کہ اگر تم (اسلام سے ) منہ موڑ گئے یا پھرگئے تو ملک میں خرابی کرنے لگو :۔ ان تفسدوا : ان مصدریہ ہے کہ تم (دنیا میں یا ملک میں) فساد مچائو۔ وتقطعوا ارحامکم۔ وائو عاطفہ ہے اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ ان تفسدوا پر ہے۔ اس آیت میں خطاب الذین فی قلوبہم مرض سے ہے یہ التفات ضمائر زجرو توبیخ کی تاکید کے لئے ہے۔ تقطعوا مضارع صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ نون اعرابی ان کے عمل سے گرگیا۔ تقطیع (تفعیل) مصدر۔ تم کاٹو گے ۔ تم توڑو گے۔ تم پارہ پارہ کرو گے۔ تم ٹکڑے ٹکڑے کرو گے۔ ارحامکم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ہے تقطعوا کا۔ تمہارے قرابت دار۔ تمہاری قرابتیں۔ ارحام رحم کی جمع ہے۔ رحم عورت کے پیٹ کی وہ جگہ ہے جس میں بچہ پیدا ہوتا ہے مجازا قرابت کے معنی میں مستعمل ہے کیونکہ اہل قرابت بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک ہی رحم سے پیدا ہوتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی تم ہرگز امن وامان سے نہ رہو گے بلکہ نافرمانی اور قطع رحمی کرو گے جس کے نتیجہ میں خانہ جنگی اور لوٹ مار کی وہی حالت عود کر آئے گی جو اسلام سے پہلے تھی۔ احادیث میں رشتے ناتے توڑنے اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے پر سخت وعید آئی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق قتال فی سبیل اللہ سے کَنّی کتراتے ہیں لیکن دنگا فساد کرنے میں تیز ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے منافق کی نشانیاں بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب ان لوگوں کو سمجھایا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو باز آنے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ اے مسلمانو ! آگاہ ہوجاؤ۔ یہ لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن حقیقت میں شعور نہیں رکھتے۔ (البقرۃ : ١١، ١٢) منافقین کی اسی روش کے باعث یہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر ان لوگوں کو ملک میں کچھ اختیارات حاصل ہوجائیں تو یقیناً یہ لوگ ملک میں فساد کریں گے اور رشتہ داریوں کو توڑ ڈالیں گے۔ ان کے اس کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے جس بنا پر یہ کانوں سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں قرآن مجید کے ارشادات اور ہدایات پر غور کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ قرآن مجید کی ہدایات سے اس طرح لاپرواہ ہوچکے ہیں جیسے ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہوں۔ قرآن مجید نے کفار، مشرکین اور منافقین کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے کہ ان کے دل ہیں مگر ان سے سوچتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے اور ان کے دل سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پاتے اور ان کے کان حقیقت سننے کی کوشش کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ (الحج : ٤٦) منافق کی دوسری بری عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر قطع تعلقی کرتے ہوئے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر کسی قسم کے تعلق اور رشتے کی پرواہ نہیں کرتا اس لیے فرمایا ہے کہ منافق زمین میں فساد کرتے ہیں اور رشتہ داریوں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس بات کا حکم دیا ہے کہ رشتہ داریوں کا خیال رکھا جائے۔ جو لوگ رشتہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے وہ دنیا وآخرت میں نقصان پائیں گے۔ ( البقرۃ : ٢٧) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بالْعَرْشِ تَقُوْلُ مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ ) (رواہ مسلم : باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں رحم عرش کے ساتھ لپٹ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹ ڈالے۔ “ اسلام میں رشتہ داریوں کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لونڈی اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَالِدَۃِ وَوَلَدِہَا وَبَیْنَ الأَخِ وَأُختِہِ ) (رواہ ابن ماجہ : بَاب النَّہْیِ عَنِ التَّفْرِیقِ بَیْنَ السَّبْیِ ) ” ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماں اور اس کے بیٹے، بہن اور اس کے بھائی کے درمیان تفریق کرنے والے پر لعنت فرمائی۔ “ مسائل ١۔ منافقین کو ملک میں اقتدار حاصل ہو تو وہ فساد برپا کرتے ہیں۔ ٢۔ منافقین اپنے مفاد اور عادت کے پیش نظر رشتہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین پر لعنت کی ہے جس وجہ سے ان کے کان بہرے اور ان کی آنکھیں اندھی ہوتی ہیں۔ ٤۔ بہرے اور اندھے ہونے کی وجہ سے منافقین کے دلوں پر تالے پڑچکے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے : ١۔ بےگناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت اور اسے اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء : ٩٣) ٢۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ان کو جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ : ٦٤) ٤۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پر لعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) ٥۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ (الفتح : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فھل عسیتم ۔۔۔۔۔ ارحامکم (٤٧ : ٢٢) “ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ تم الٹے منہ پھرو گے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے ”۔ یعنی تم سے تو یہی توقع ہے۔ ذرا سابقہ حالات کی روشنی میں دیکھو کہ اگر اسلام سے منہ موڑو گے تو سابقہ حالت کی طرف لوٹ کر ایک دوسرے کے اور اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹو گے جس طرح اسلام سے قبل تھے۔ اسلام سے روگردانی سے ڈرانے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے ، اگر یہ اپنی موجودہ پوزیشن پر ہی ڈٹے رہے جس طرح کہ نظر آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ ٠٠٢٢﴾ (سو کیا یہ صورت حال پیش آنے والی ہے کہ اگر تم والی بن جاؤ تو زمین میں فساد کرو اور آپس میں قرابت کے تعلقات کو قطع کردو۔ ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ منافقین کو خطاب ہے جسے استفہام کی صورت میں لایا گیا ہے اس میں ان کو توبیخ ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارے جو احوال معلوم ہیں یعنی دنیا پر حرص کرنا اور جہاد کی بات سے گھبرانا اور شرکت جہاد سے کترانا اس بات کو جاننے کے بعد کیا کوئی شخص تم سے سوال کرسکتا ہے کہ اگر تمہیں ولایت فی الارض مل جائے یعنی عامۃ الناس کے والی اور متولی بنا دئیے جاؤ اور تمہیں اقتدار سپرد کردیا جائے تو تم زمین میں فساد کرو گے اور رشتہ داروں کو کاٹ پیٹ کر رکھ دو گے یعنی تمہارا یہ فساد اتنا آگے بڑھے گا کہ تمہیں رشتہ داریوں کی پاسداری بھی نہ رہے گی اور آپس کے تعلقات کو ختم کر ڈالو گے یعنی تم سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے اور سائل کا یہ سوال کرنا درست ہے۔ قال صاحب الروح : فالمعنی انکم لما عھد منکم من الاحوال الدالة علی الحرص علی الدنیا حیث امرتم بالجھاد الذی ھو وسیلة الی ثواب اللّٰہ تعالیٰ العظیم کرھتموہ وظھر علیکم ما ظھر حقاء بان یقول لکم کل من ذاقکم وعرف حالکم یا ھٰولاء ما ترون ھل یتوقع منکم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض الخ (صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ مطلب یہ ہے دنیا پر تمہاری حرص کے جو حالات ظاہر ہوچکے ہیں کہ تمہیں جہاد کا حکم ہوا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب عظیم کا ذریعہ ہے تو تم نے اسے ناپسند کیا اور تمہاری جو حالت ہوئی سو ہوئی لہٰذا جو آدمی تمہیں جانتا ہو اور تمہارے حالات سے آگاہ ہو تو وہ تمہیں کہہ سکتا ہے کہ اے لوگو ! تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہیں والی بنایا جائے تو تم زمین میں فساد کرو گے۔ ) یہ ترجمہ اور تفسیر اس صورت میں ہے جبکہ تَوَلَّیْتُمْ کا ترجمہ والی اور صاحب اقتدار ہونے کا لیا جائے اور بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ اَعْرَضتْمُ لیا ہے، صاحب بیان القرآن نے اسی کو اختیار کیا ہے انہوں نے اس کو استفہام تقریری قرار دیا ہے اور مطلب یہ لکھا ہے کہ اگر تم جہاد سے کنارہ کش رہو تو تم کو یہ احتمال بھی چاہیے کہ تم دنیا میں فساد مچا دو گے اور آپس میں قطع قرابت کردو گے یعنی اگر جہاد کو چھوڑ دیا جائے تو مفسدین کا غلبہ ہوجائے گا اور کوئی انتظام باقی نہ رہے گا جس میں تمام مصلحتوں کی رعایت ہو اور ایسا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے فساد ہوگا اور حقوق کی اضاعت ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” فھل عسیتم “ خطاب منافقین سے ہے۔ جب تم پر جہاد فرض کردیا گیا جو بیشمار دینی فوائد رکھتا ہے مثلاً اللہ کے دین کی سربلندی، باطل کی شکست اور ثواب آخرت وغیرہ مگر اس سے تم نے اعراض کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم محض دنیا پرست ہو تو کیا پھر تم سے یہی توقع کی جائے کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں شر و فساد بپا کرو، رعایا کی حق تلفی کرو اور ان پر ظلم ڈھاؤ اور اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی پامال کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) پھر تم سے یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اگر تم کو اقتدار ہوجائے تو تم زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رشتے ناتوں کو منقطع کرڈالو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آرزو کرتے ہو جہاد کی جان سے تنگ ہوکر اور اگر اللہ تم ہی کو غالب کردے تو فساد نہ کرنا۔ یہ معنی اس تقدیر پر ہیں کہ تولیتم کے معنی غالب آنے اور حکومت مل جانے کے کئے جائیں جیسا کہ صاحب معالم نے پہلا قول یہی نقل کیا ہے البتہ صاحب مدارک اور صاحب جلالین نے دوسرا قول اختیار کیا ہے اور تقدیر پر۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے اعراض کرو گے تو دنیا میں امن اور انصاف قائم نہیں ہوسکتا اور جب امن و انصاف قائم نہ رہے گا تو فساد بدامنی وغیرہ کا زور ہوگا۔ یا یہ مطلب ہے کہ اگر تم ایمان لانے سے اعراض کرو گے تو زمانہ جاہلیت کی حالت پھر لوٹ آئے گی اور جو فساد اور خرابیاں اور قطع رحمی وغیرہ اس وقت میں ہوتی تھیں وہی پھر ہونے لگیں گی۔ یا منافقوں ہی سے خطاب ہو اور یوں کہا جائے کہ اگر اے منافقو تم جہاد سے اعراض کرو گے تو تم سے کچھ بعید نہیں کہ اپنی منافقانہ شرارتوں سے ملک میں دھوم مچائو گے اور مسلمان قرابتیوں سے رشتہ ناتا توڑ کر کافروں سے کھل کر مل جائو گے۔ بہرحال اور بھی کئی قول ہیں مگر ہم نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (رح) کے معنی کو ترجیح دی ہے اور اسی کو اختیار کرلیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب۔