Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 26

سورة محمد

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لِلَّذِیۡنَ کَرِہُوۡا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ بَعۡضِ الۡاَمۡرِ ۚ ۖ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِسۡرَارَہُمۡ ﴿۲۶﴾

That is because they said to those who disliked what Allah sent down, "We will obey you in part of the matter." And Allah knows what they conceal.

یہ اس لئے کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہوں نے اللہ کی نازل کردہ وحی کو برا سمجھا یہ کہا کہ ہم بھی عنقریب بعض کاموں میں تمہارا کہا مانیں گے ، اور اللہ ان کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الاَْمْرِ ... That is because they said to those who hate what Allah sent down: "We will obey your in part of the matter.' means, they plotted secretly with them and gave them evil advice -- as is the common practice of the hypocrites who declare the opposite of what they conceal. Because of this, Allah says, ... وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ And Allah knows their secrets. whatever they hide and conceal, Allah is well-acquainted with it and He knows it. This is similar to His saying, وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ ...And Allah records all that they plot by night. (4:81) Allah then says, فَكَيْفَ إِذَا تَوَفَّتْهُمْ الْمَلَيِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 ' یہ ' سے مراد ان کا مرتد ہونا ہے۔ 26۔ 2 یعنی منافقین نے مشرکین سے یا یہود سے کہا۔ 26۔ 3 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین کی مخالفت میں۔ 2 6 ۔ 4 جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ( ۭ وَاللّٰهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُوْنَ ) 4 ۔ النساء :81) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] منافقین کا یہود سے درپردہ معاہدہ :۔ شیطان کی انہیں ایسی پٹی پڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی بن گئی کہ ان بدبخت منافقوں نے اندر ہی اندر یہود سے ساز باز کر رکھی تھی اور ان منافقوں نے یہود سے ان کے مطالبہ پر کچھ ایسے دعوے بھی کر رکھے تھے کہ وہ انہیں مسلمانوں کی نقل و حرکت اور ان کی جنگی سرگرمیوں سے مطلع کرتے رہیں گے۔ اور اگر جنگ ہوئی تو ہم تم سے لڑیں گے نہیں بلکہ مسلمانوں کو چکمہ ہی دیتے رہیں گے۔ اور جنگ کے دوران منافقوں نے ایسا ہی کردار ادا کیا تھا اور اس کے عوض یہود نے بھی ان سے کچھ وعدے کر رکھے تھے۔ گویا منافق یہودیوں کے لیے تو گھر کا بھیدی اور مسلمانوں کے حق میں مار آستین بنے ہوئے تھے۔ مگر اللہ تو ہر شخص کے دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو ان منافقوں کی کرتوتوں سے وقتاً فوقتاً مطلع کردیتا تھا تو یہ ذلیل اور ننگے ہوجاتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلک بانھم قالوا اللذین کرھوا مانزل اللہ :” للذین کرھوا مانزل اللہ “ سے مراد کفار ہیں، جیسا کہ اسی سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا :(ذلک بانھم کرھوا ما انزل اللہ فاحبط اعمالھم) (محمد : ٩)” یہ اس لئے کہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے اعمال ضائع کردیئے۔ “ (٢) سنطیعکم فی بعض الامر : بعض کاموں سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفتا ور عداوت ہے اور یہ کہ جب جنگ کا موقع آئے مسلمانوں کو دھوکا دیا جائے اور ہر طریقے سے ان کے دشمنوں کی مدد کی جائے۔ یعنی ان کے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر و ارتداد کی طرف پلٹنے، جہاد سے فرار اور منافقت اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مخلص مسلمانوں کی طرح وہ تمام کاموں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کو نپاسناد کرنے والے کفار سے کہا کہ ہم اسلام قبول کرنے اور مسلمانوں میں رہنے کی وجہ سیت مہاری ہر بات نہیں مان سکتے، نہ کھلم کھلا اپنے کفر کا اظہار کرسکتے ہیں، مگر ہم کچھ کاموں میں تمہاری اطاعت ضرور کریں گے۔ وہ اس طرح کہ جنگ کے موقع پر تمہاری مدد کریں گے، جیسا کہ رئیس المنافین عبداللہ بن ابی احد کے موقع پر عین میدان جنگ سے تین سو آدمیوں کو واپس لے گیا اور جس طرح منافقین نے بنو نضیر کے یہودیوں کو ہلا شیری دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ڈٹے رہو، اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ دیکھیے سورة حشر (١١) ۔ (٣) واللہ یعلم اسرارھم : اور اللہ تعالیٰ ان کی سرگوشیوں اور سازشوں کو جو وہ چھپ کر کرتے ہیں خوب جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں اس کی سزا ضرور دے گا۔ اس آیت کا مضمون سورة نساء کی آیت (٨١) میں بھی بیان ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اللہُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ۝ ٠ ۚ ۖ وَاللہُ يَعْلَمُ اِسْرَارَہُمْ۝ ٢٦ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا سرر (كتم) والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ ارتداد اس وجہ سے ہوا کہ ان یہودیوں نے منافقین سے جو ان احکام کو جو کہ بذریعہ جبریل امین نازل ہوئے ناپسند کرتے ہیں۔ کہا ہے کہ اے گروہ منافقین ہم رسول اکرم کے بعض احکامات میں یعنی زبانی کلمہ گو ہونے میں اگر یہ ہم پر غالب آگئے تمہارا کہنا مان لیں گے اور یہود جو منافقین سے خفیہ باتیں کرتے ہیں حق تعالیٰ ان کی خفیہ باتوں کو خوب جانتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ { ذٰلِکَ بِاَنَّـہُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِج وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِسْرَارَہُمْ } ” یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے ان لوگوں سے جنہیں اللہ کا نازل کیا ہوا (قرآن) ناپسند ہے ‘ کہا کہ ہم بعض امور میں تمہاری اطاعت جاری رکھیں گے۔ اور اللہ کو ان کی خفیہ باتوں کا خوب علم ہے۔ “ اللہ کے نازل کردہ قرآن کو ناپسند کرنے والے مشرکین اور یہود تھے ‘ جنہیں منافقین مسلسل اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتے رہتے تھے کہ ہم بظاہر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر مسلمانوں میں شامل تو ہوگئے ہیں مگر آپ لوگوں سے ہمارا رشتہ بدستور قائم رہے گا اور تمام اہم معاملات میں صلاح مشورہ ہم آئندہ بھی آپ لوگوں سے ہی کیا کریں گے۔ منافق تو کہتے ہی اس شخص کو ہیں جو اپنا رشتہ دونوں طرف جوڑنے کی کوشش میں رہے۔ سورة النساء میں منافقین کی اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : { مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَق لآَ اِلٰی ہٰٓؤُلَآئِ وَلآَ اِلٰی ہٰٓؤُلَآئِط } (آیت ١٤٣) ” یہ اس کے مابین مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں ‘ نہ تو یہ ان کی جانب ہیں اور نہ ہی ان کی جانب ہیں “۔ جبکہ سورة البقرۃ میں ان کے دوغلے پن کا پردہ ان الفاظ میں چاک کیا گیا ہے : { وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَ } ” اور جب یہ اہل ِایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان رکھتے ہیں ‘ اور جب یہ خلوت میں ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے تو ہم محض مذاق کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 That is, "In spite of professing the Faith and being counted among the Muslims, they went on conspiring secretly with the enemies of Islam and even pledged to support them in certain matters. "

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :36 یعنی ایمان کا اقرار کرنے اور مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو جانے کے باوجود وہ اندر ہی اندر دشمنان اسلام سے ساز باز کرتے رہے اور ان سے وعدے کرتے رہے کہ بعض معاملات میں ہم تمہارا ساتھ دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:26) ذلک : ارتداد ۔ جس کے متعلق اوپر مذکور ہوا۔ اس کی طرف اشارہ ہے نہ ہی املا اور نہ ہی تسویل کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کیونکہ اگلا آنے والا قول ان دونوں میں سے کسی کا بھی سبب نہیں بن سکتا۔ یہ مبتدا ہے اور اگلا جملہ خبر۔ بانہم میں باء سببیہ ہے ان حرف مشبہ بالفعل ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ قالوا کا فاعل منافقین ہیں جو مرتد ہوگئے تھے۔ مطلب یہ کہ اس ارتداد کی وجہ یہ ہے ہے کہ یہ منافقین لوگ (یعنی مرتدین) کہتے ہیں۔ للذین کرھوا ما نزل اللہ۔ الذین اسم موصول اور اگلا جملہ اس کا صلہ۔ ما نزل اللہ سے مراد القرآن ہے مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین مرتدین ان لوگوں سے جن پر حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کا نزول ناگوار گذرتا ہے۔ کہتے ہیں (ان کا رہین سے مراد یہودیوں کے قبائل بنو قریظہ اور نبو نظیر ہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر برحق نازل ہوا ہے ) ۔ حد کی آگ میں جل رہے تھے کہ یہ کلام ربانی ان میں سے کسی ایک پر کیوں نازل نہیں ہوا۔ سنطیعکم فی بعض الامر۔ یہ مقولہ ہے مرتدین کا۔ س مضارع قریب کے لئے ہے۔ نطیع مضارع جمع متکلم اطاعۃ (افعال) مصدر۔ فی بعض الامر۔ بعض باتوں میں مثلاً جنگ کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ عدم تعاون وغیرہ۔ اس کی تشریح ارشاد الٰہی سے ہوتی ہے۔ الم تر الی الذین نافقوا یقولون لاخوانہم الذین کفروا من اھل الکتب لئن اخرجتم لنخرجن معکم ولا نطیع فیکم احدا ابدا وان قوتلتم لننصرنکم (59:11) کیا تم نے ان منافقوں کو نہیں دیکھا : جو اپنے کافر بھائیوں سے جو اہل کتاب ہیں کہا کرتے ہیں کہ اگر تم جلاوطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ چل نکلیں گے اور تمہارے بارے میں کبھی کسی کا کہا نہ مانیں گے اور اگر جنگ ہوئی تو تمہاری مدد کریں گے۔ واللہ یعلم اسرارہم ۔ وائو عاطفہ اسرارہم مضاف مضاف الیہ اسرار بروزن افعال مصدر ہے بمعنی چھپانا۔ سرگوشیاں کرنا۔ کوئی بات چھپا کر کرنا۔ اور اللہ ان کے خفیہ باتیں کرنے کو جانتا ہے ، انہوں نے سنطیعکم فی بعج الامر خفیہ طور پر کہا لیکن اللہ ان کی خفیہ باتون کو جانتا ہے اور اس نے اسے فاش کردیا۔ الکشاف میں ہے قالوا ذلک سرا فیما بینہم فافشاہ اللہ علیہم انہوں نے یہ بات خفیہ طور پر ایک دوسرے سے کہی اللہ نے اسے ان پر راز کو فاش کردیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی مشرکوں اور یہودیوں سے۔ 11 ” بعض باتوں “ سے مراد آنحضرت کی مخالفت اور عداوت ہے اور یہ کہ جب جنگ کا موقعہ آئیتو مسلمانوں کو دھوکا دیا جائے اور ہر طریقہ سے ان کے دشمنوں کی مدد کی جائے۔ 1 یعنی ان کی سرگوشیوں اور سازشوں کو جنہیں وہ چھپ کر کرتے ہیں، خوب جانتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم نے ایمان لانے اور ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد ان کی جانب سے ایمان کو ترک کرنے کے عمل کو نہایت ہی حسی انداز میں پیش کیا ہے۔ یعنی واپسی اور الٹے پاؤں پھرنے کا عمل ، اور اس کے اسباب یہ بتائے ہیں کہ شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی کی اور ان کے لئے اس برے کام کو خوبصورت بنا دیا یعنی ظاہری حرکت کہ ایک شخص الٹے پاؤں پھر رہا ہے اور معنوی حرکت اس انداز تعبیر میں دونوں نظر آتی ہیں جبکہ یہ منافق اپنی جانب سے اپنے ان اعمال کو اچھی طرح چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیطان ان پر کس طرح مسلط ہوگیا اور کس طرح وہ ان کو مرتد بنانے میں کامیاب ہوگیا حالانکہ آغاز میں یہ لوگ ایمان لا چکے تھے ، تو وجہ یہ تھی : ذلک بانھم ۔۔۔۔۔ بعض الامر (٤٧ : ٢٦) “ اسی لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والوں سے کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری مانیں گے ” ۔ مدینہ میں یہودی تھے اور وہ نزول قرآن کے پہلے مخالف تھے کیونکہ ان کو توقع تھی کہ آخری رسول بھی یہودی ہوگا۔ رسالت کا خاتمہ ان پر ہوگا۔ یہ لوگ کافروں پر مکمل فتح کی توقع اس رسول کے دور میں کرتے تھے اور کافروں کو اس امر سے ڈراتے بھی تھے کہ جب نبی آخر الزمان آئے گا تو وہ پوری دنیا پر غالب ہوگا۔ اور پوری دنیا مین ان کو غلبہ حاصل ہوگا۔ اور پھر یہودیوں کی مملکت قائم ہوگی۔ لیکن اللہ نے آخری رسول ابراہیم (علیہ السلام) کی اس نسل سے بھیجا جو یہودی نہ تھی اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ ہجرت کر کے آئے تو انہوں نے اس ہجرت کو بھی پسند نہ کیا کیونکہ اس کی وجہ سے ان کا رہا سہا اثر رسوخ بھی ختم ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ اول روز سے یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جمع ہوگئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف خفیہ سازشوں کی جنگ شروع کردی تھی۔ کیونکہ بظاہر وہ میدان جنگ میں تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف نہ جنگ کرسکتے تھے اور نہ اس کا کوئی جواز تھا۔ اس طرح یہودیوں کے ساتھ ہر وہ شخص شامل ہوگیا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا تھا۔ تمام منافقین ان سازشوں میں شریک ہوگئے اور یہ جنگ ان کے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان چلتی رہی اور آخر کار حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جزیرۃ العرب سے جلا وطن کردیا۔ یہ منافقین جو ہدایت پانے کے بعد منافق ہوگئے تھے انہوں نے یہودیوں کو یہ یقین دہائی کرائی کہ۔ سنطیعکم فی بعض الامر (٤٧ : ٢٦) “ بعض معاملات میں ہم تمہاری اطاعت کریں گے ”۔ اور راجح بات یہ ہے کہ یہ یقین دہانی خفیہ سازشوں کے سلسلے میں تھی جو وہ اسلام اور رسول اللہ کے خلاف تیار کرتے رہتے تھے۔ واللہ یعلم اسرارھم (٤٧ : ٢٦) “ اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے ”۔ یہ نہایت ہی دھمکی آمیز تبصرہ ہے بلکہ دھکمی ہے کہ کریں یہ اپنی سازشیں ، ہم جانتے ہیں ان کا سب کچھ۔ اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اور اللہ کی قوت کے مقابلے کی کوئی قوت نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ﴾ اس میں ذٰلِكَ کا مشارٌ الیہ اور اَنَّھُمْ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے اور ﴿اَلَّذِیْنَ كرِھُوْا﴾ سے کون لوگ مراد ہیں اور ﴿بَعْضِ الْاَمْرِ﴾ سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین نے متعدد اقوال لکھے ہیں بِاَنَّهُمْ کی باکوسببیہ لینے کی صورت میں وہی قول قرین قیاس ہوگا جس سے ذٰلِكَ کا مشارٌ الیہ مسبب اور با کا مدخول سبب بن سکتا ہو علامہ قرطبی نے ذٰلِكَ کا مشارٌ الیہ ﴿اَمْلٰى لَهُمْ ﴾ کو قرار دیا ہے اور مطلب یہ بتایا ہے کہ شیطان کا انہیں لمبی عمر والی باتیں سمجھانا اس سبب سے ہے کہ انہوں نے یعنی منافقوں اور یہودیوں نے مشرکین سے کہا جن کو اللہ کا نازل کردہ فرمودہ ناگوار ہے کہ ہم بعض امور میں تمہاری اطاعت کرلیں گے یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں (مثلاً ) آپ سے دشمنی رکھنے میں اور جہاد میں شرکت نہ کرنے میں اور دین اسلام کو کمزور کرنے میں ہم تمہاری بات مان لیں گے تمہاری سب باتوں کی اطاعت کا وعدہ نہیں کرتے یہ لوگ کافر تو پہلے ہی سے تھے مزید صفات کفریہ کا اظہار اور اعلان بھی کردیا اس لیے شیطان کو انہیں ڈھیل دینے اور کفر میں آگے بڑھانے کا موقع مل گیا۔ (تفسیر قرطبی ٢٥٠ ج ١٦) معالم التنزیل میں بھی یہ تفسیر لکھی ہے لیکن ذٰلِك کا مشار الیہ متعین نہیں کیا صاحب روح المعانی اس سے متفق نہیں کہ ذٰلِك کا اشارہ ﴿ اَمْلٰى لَهُمْ ﴾ ہے لیکن احقر کے نزدیک تمام احتمالات میں یہی راجح ہے صاحب بیان القرآن نے ذٰلِك کا مشار الیہ ارتداد علی الادبار کو لیا ہے اور ﴿ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ ﴾ کا یہ مطلب لیا ہے کہ منافقین نے رؤسا یہود سے کہا کہ ہم عدم اتباع ظاہر کرنے کے بارے میں تمہارا حکم نہیں مانیں گے کیونکہ وہ ہماری مصلحت کے خلاف ہے اور عدم اتباع باطناً کا جو حکم دیتے ہو ہم اس میں تمہارا اتباع کرلیں گے کیونکہ ہم اس میں تمہارے ساتھ ہی ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” ذلک بانھم۔ الایۃ “ ” الذین کرھوا الخ “ سے یہود اور مشرکین مراد ہیں۔ منافقوں نے جب ظاہری طور پر اسلام قبول کرلیا تو انہوں نے یہود اور مشرکین کو یقین دلایا کہ اگرچہ بظاہر ہم مسلمان ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ مل کر تم سے نہیں لڑیں گے بلکہ جب موقع پائیں گے تمہاری مدد کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی ان سرگوشیوں اور خفیہ سازوں کو خوب جانتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) ان منافقوں کے اس ارتدادکا سبب یہ ہے کہ ان منافقوں نے ایسے لوگوں سے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کو ناپسند کرتے ہیں یوں کہا کہ ہم بعض باتوں میں تمہارے کہنے پر چلیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی رادارانہ اور خفیہ باتوں کو خوب جانتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں منافقوں نے کافروں سے کہا کہ ہم مسلمان ہوئے ہیں لیکن تم سے نہ لڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے نزل کردہ احکام سے بیزار اور ناپسند کرنے والے کافر ہیں خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرکین مکہ ہوں تو یہ لوگ ان سے ساز باز رکھتے ہیں اول نفاق پھر کافروں سے ساز باز یہ چیزیں ان کے ارتداد کا سبب ہوئیں اگرچہ یہ باتیں خفیہ ہوتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مشوروں کو ظاہر کردیا۔