Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 27

سورة محمد

فَکَیۡفَ اِذَا تَوَفَّتۡہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ﴿۲۷﴾

Then how [will it be] when the angels take them in death, striking their faces and their backs?

پس ان کی کیسی ( درگت ) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سرینوں پر ماریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How (will it be) when the angels will take their souls at death, striking their faces and their backs? That is, how their situation will be when the angels come to take their lives, and their souls cling to their bodies, causing the angels to extract them by force, harshness, and beating. This is similar to Allah's saying, وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمَلَـيِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَـرَهُمْ If you could but see when the angels take away the lives of the disbelievers, striking their faces and their backs. (8:50) And His saying, وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّـلِمُونَ فِى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَـيِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ If you could but see when the wrongdoers are in the agonies of death, while the angels extend their hands? (6:93) meaning, to beat them. أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ ءَايَـتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (saying): "Deliver your souls! This day you will be recompensed with the torment of degradation because of what you used to utter against Allah other than the truth, and because you used to arrogantly reject His signs." (6:93) Because of the above, Allah says, ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یہ کافروں کی اس وقت کی کیفیت بیان کی گئی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ روحیں فرشتوں سے بچنے کے لئے جسم کے اندر چھپتی اور ادھر ادھر بھاگتی ہیں تو فرشتے سختی اور زور سے انہیں پکڑتے، کھنچتے اور مارتے ہیں یہ مضمون اس سے قبل (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْهِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :93) (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا ۙ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ ) 8 ۔ الانفال :50) میں بھی گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] موت سے فرار ناممکن ہے اور عذاب قبر کا ثبوت :۔ یعنی آج تو جہاد سے گریز کی راہ اختیار کرکے اپنی جانوں کو بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں مگر اس دن اپنے آپ کو کیسے بچا سکیں گے جب فرشتے ان کی جان نکالنے کے لیے آئیں گے اور لوہے کے گرزوں سے انہیں خوب مار رہے ہوں گے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہیں جن سے عذاب قبر یا عذاب برزخ ثابت ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عذاب قیامت کے دن کے عذاب سے پہلے ہوگا۔ قیامت کے عذاب کی نسبت سے ہلکا ہوگا اور مرنے کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فکیف اذا توقنھم الملئکۃ …: یعنی دنیا میں تو انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد کفار کا ساتھ اس لئے دیا کہ کفر و اسلام کی جنگ میں دونوں جانب سے مفادات حاصل کرسکیں ، اپنے آپ ک جنگ کے نقصانات اور خطرات سے بچائیں اور اپنے چہروں اور پیٹھوں کو تیر و تلوار کی مار سے بچائے رکھیں، مگر مترے وقت ان کے چہروں اور پیٹھوں کو فرشتوں کی مار سے کون بچائے گا ؟ (٢) فاحبط اعمالھم : یعنی وہ تمام اعمال جو مسلمان بن کر وہ انجام دیتے رہے، مثلاً ان کی نماز، ان کے روزے، زکواۃ اور تمام عبادتیں جو بظاہر نیکیاں تھیں، اللہ تعالیٰ نے برباد کردیئے، کیونا کہ یہ سب کچھ تب قبول ہوتا جب وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے ہوتا۔ جب اسلام اور مسلمانوں سے بےوفائی اور غداری کر کے وہ چل ہی اسے راستے پر پڑے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہی پسند نہ رہا تو ان کے نماز روزے، صدقات اور دوسری نیکیوں سے کیا حاصل۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ۝ ٢٧ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف/ 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ ضرب الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا [ الزخرف/ 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الكهف/ 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] . والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ : ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها . ( ض ر ب ) الضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف/ 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف/ 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو یہ یہودی اس وقت کیا کریں گے جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوں گے اور ان کے مونہوں پر اور پشتوں پر لوہے کے گرز مارتے ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ { فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ } ” تو کیا حال ہوگا (ان کا اس وقت) جب فرشتے ان کی جانیں قبض کریں گے ضربیں لگاتے ہوئے ان کے چہروں پر اور ان کی پیٹھوں پر۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 That is, "In the world they adopted this attitude so that they may safeguard their interests and may protect themselves from the dangers of the conflict between Islam and infidelity, but how will they escape Allah's wrath after death? At that time no device of theirs will prove helpful for them to remain safe from the punishment by the angels. " This verse also is one of those verses that point to the torment of barzakh (i.e. torment 'of the grave). It clearly shows that the unbelievers and hypocrites start being afflicted with the torment right from the time of death, and this torment is different from the punishment which they will get on Resurrection after their cases will have been decided by Allah. (For further explanation, see An-Nisa': 97: AI-An'am: 93-94; AI-Anfal: 50: An-Nahl: 28, 32; AI-Mu'minun: 99-100; Ya Sin: 26-27 and E.N.'s 22, 23; AI-Mu'min: 4b and E. N. 63) .

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :37 یعنی دنیا میں تو یہ طرز عمل انہوں نے اس لیے اختیار کر لیا کہ اپنے مفادات کی حفاظت کرتے رہیں اور کفر و اسلام کی جنگ کے خطرات سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں ، لیکن مرنے کے بعد یہ خدا کی گرفت سے بچ کر کہاں جائیں گے؟ اس وقت تو ان کی کوئی تدبیر فرشتوں کی مار سے ان کو نہ بچا سکے گی ۔ یہ آیت بھی ان آیات میں سے ہے جو عذاب برزخ ( یعنی عذاب قبر ) کی تصریح کرتے ہیں ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موت کے وقت ہی کفار و منافقین پر عذاب شروع ہو جاتا ہے ، اور یہ عذاب اس سزا سے مختلف چیز ہے جو قیامت میں ان کے مقدمے کا فیصلہ ہونے کے بعد ان کو دی جائے گی ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النساء ، آیت 97 ۔ الانعام ، 93 ۔ 94 ۔ الانفال ، 50 ۔ النحل ، 28 ۔ 32 ۔ المومنون ، 99 ۔ 100 ۔ یٰس ، 26 ۔ 27 ( مع حاشیہ 22 ، 23 ) المومن ، 46 ( مع حاشیہ ۔ 63 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:27) فکیف ۔ ف ترتیب کا ہے کیف حرف استفہام۔ یہ استفہام تعجبی ہے پس تعجب ہے ان کا کیا حال ہوگا اور بچنے کی یہ کیا تدبیر کریں گے۔ ای کیف حالہم او حیلتہم ۔ فکیف خبر ہے جس کا مبتدا محذوف حالہم ہے۔ اذا ۔ جب۔ اس وقت۔ ظرف زمان ہے۔ توفتہم الملئکۃ ۔ توفت ماضی واحد مؤنث غائب اس نے اٹھایا اس نے قبض کیا۔ توفی (تفعل) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اس (فرشتوں کی جمعت ) نے ان کو اٹھا لیا۔ یا ان کی جانیں قبض کرلیں۔ فکیف اذا توفتہم الملئکۃ ۔ پس کیا حال ہوگا ان کا جس وقت فرشتے ان کی جانیں قبض کریں گے۔ یضربون وجوہہم وادبارہم ۔ (در آں حالیکہ ) وہ ان کو ان کے چہروں اور پشتوں پر ضربیں لگا رہے ہوں گے۔ جملہ الملئکۃ سے حال ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی کیا انہیں فکر نہیں کہ اس وقت ان کی کیسی گت بنے گی ؟ (نیزد یکھیے سورة انفال آیت : 5 انعام 93)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ زندگی مختصر ہے اور آخر کار ہمارا لشکر جب پہنچے گا اور ان سے امانت حیات وصول کرے گا تو : فکیف اذا توفتھم الملئکۃ یضربون وجوھھم وادبارھم (٤٧ : ٢٧) “ پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے ؟ ” یہ نہایت ہی خوفزدہ کرنے والا اور توہین آمیز منظر ہے۔ جب ان کی موت کا قت ہوگا یہ بےبس ہوں گے۔ اس زمین پر سے رخصت ہو رہے ہوں گے اور دوسری حیات کا آغاز ہو رہا ہوگا۔ اور اس نئی زندگی کا آغاز یوں ہو رہا ہے کہ فرشتے ان کے منہ پر بڑی بےدردی سے تھپڑ مار رہے ہیں اور چوتڑوں پر ڈنڈے رسید کر رہے ہیں۔ حالانکہ بذات خود موت کا وقت نہایت ہی درد ناک ہوتا ہے۔ خوف اور کرب کا وقت ہوتا ہے۔ لیکن یہ چونکہ الٹے پاؤں پھرے ہیں اس لیے ان کو چوتڑوں پر سزا مل رہی ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

موت کے وقت کافر کی مارپیٹ پھر فرمایا ﴿ فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ﴾ (الآیۃ) اس میں منافقین کی موت کے وقت کی بدحالی کا بیان ہے مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا میں ان کو عذاب نہ ہوا تو یہ نہ سمجھیں کہ وہ عذاب سے محفوظ ہوگئے ہر کافر کو عذاب ہونا ہی ہے جو موت کے وقت سے شروع ہوجاتا ہے ارشاد فرمایا کہ ان منافقین کا کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کر رہے ہونگے اور ان کے چہروں اور پشتوں کو مار رہے ہوں گے، صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ دنیا میں یہ لوگ جہاد سے بچ رہے ہیں ان کا یہ بچاؤ کتنے دن چلے گا بالآخر مریں گے اور موت کے وقت سے ہی ان کی پٹائی شروع ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ جو کوئی بھی شخص گناہگاری کی حالت میں مرتا ہے فرشتے اس کی موت کے وقت اس کے چہرے پر اور پچھلے حصہ پر مارتے رہتے ہیں اس مارپیٹ کو حاضرین محسوس نہیں کرتے مگر ایسا ہوتا ضرور ہے جیسا کہ بزرخ کے احوال مرنے والے پر گزرتے ہیں اور دیکھنے والوں کو نظر نہیں آتے سورة الانفال میں فرمایا : ﴿وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا ١ۙ الْمَلٰٓىِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْ ١ۚ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ ٠٠٥٠ ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِۙ٠٠٥١ ﴾ (اور اگر آپ دیکھیں گے جب کہ فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہوئے ان کے مونہوں پر اور ان کی پشتوں پر مارتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ جلنے کا عذاب چکھ لو یہ ان اعمال کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” فکیف اذا “ یہ تخویف دنیوی ہے جب فرشتے ان کی جانیں قبض کریں گے تو ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں کو خوب پیٹیں گے اور جس موت اور مار سے بھاگے تھے اس کا خوب مزہ چکھیں گے۔ ” ذلک بانھم۔ الایۃ “ مرتے وقت یہ ہولناک سزا انہیں اس لیے دی جائیگی کہ انہوں نے کفر و شرک اور عصیان و طغیان کی ر اہ اختیار کی جو سراسر اللہ کے غضب اور اس کی ناراضی کا باعث تھی اور اللہ کی خوشنودی ورضا جوئی کا راستہ ترک کیا اس لیے ان کے سب اعمال بیکار کردئیے گئے آخرت کی زندگی میں ان کو ان سے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) پھر اس وقت ان مرتدین کا کیا حال ہوگا کہ جس وقت فرشتے ان کی جان قبض کرتے ہوں گے اور ان کے مونہوں پر اور ان کی پیٹھوں پر مارتے جاتے ہوں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تب موت سے کیونکر بچیں گے اور تب نفاق کا مزہ کافرچکھیں گے۔ خلاصہ : یہ کہ موت کے فرشتے مسلط ہوں گے وہ جان بھی نکال رہے ہوں گے اور مارتے بھی جاتے ہوں گے۔