Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 3

سورة محمد

ذٰلِکَ بِاَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا اتَّبَعُوا الۡبَاطِلَ وَ اَنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الۡحَقَّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ اَمۡثَالَہُمۡ ﴿۳﴾

That is because those who disbelieve follow falsehood, and those who believe follow the truth from their Lord. Thus does Allah present to the people their comparisons.

یہ اس لئے کہ کافروں نے باطل کی پیروی کی اور مومنوں نے اس دین حق کی اتباع کی جو ان کے اللہ کی طرف سے ہے اللہ تعالٰی لوگوں کو ان کے احوال اسی طرح بتاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ ... That is because those who disbelieve follow falsehood, meaning, `We only invalidate the deeds of the disbelievers and overlook the sins of the righteous, and amend their affairs, because those who disbelieve follow false- hood.' Meaning, they choose falsehood over the truth. ... وَأَنَّ الَّذِينَ امَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِن رَّبِّهِمْ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ لِلنَّاسِ أَمْثَالَهُمْ while those who believe follow the truth from their Lord. Thus does Allah set forth for the people their parables. Thus He makes the consequence of their actions clear to them, and He shows them where they will end in their next life -- and Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 ذلک یہ مبتدا ہے یا خبر ہے مبتدا محذوف کی ای الامر ذلک یہ اشارہ ہے ان وعیدوں کی طرف جو کافروں اور مومنوں کے لیے بیان ہوئے۔ 3۔ 2 تاکہ لوگ اس انجام سے بچیں جو کافروں کا مقدر ہے اور وہ راہ حق اپنائیں جس پر چل کر ایمان والے فلاح ابدی سے ہمکنار ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] کفار کی نیکیاں برباد گناہ لازم جبکہ مومنوں کی حالت ان کے بالکل برعکس ہے :۔ اللہ تعالیٰ حق کی پیروی کرنے والوں اور باطل کی پیروی کرنے والوں کی ٹھیک ٹھاک مثالیں بیان کرتا ہے۔ حق کی پیروی کرنے والوں کی صورت حال یہ ہوگی کہ ان کی نیکیاں برقرار رہیں گی اور گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ اور باطل کی پیروی کرنے والوں کی صورت حال یہ ہوگی کہ ان کی نیکیاں برباد اور گناہ لازم و برقرار رہیں گے۔ کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلک بان الذین کفروا اثبعوا الباطل …: یعنی کفار کے اعمال برباد کرنے اور ایمان والوں کے گناہ دور کرنے اور ان کا حال دسرت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کفار نے باطل کی پیروی اختیار کی اور اس کے پیچھے چل پڑے، جبکہ ایمان والے اس حق پر چلتے رہے جو ان کا اپنا طے کردہ نہیں تھا، بلکہ ان کے رب کی طرف سے نازل کیا ہوا تھا۔ دونوں کے راستے مختلف تھے، اس لئے ان کا انجام بھی مختلف ہوا۔ (٢) کذلک یطرب اللہ الناس امثالھم ” امثال “ ” مثل “ کی جمع ہے، اس کا معنی مثال بھی ہے اور کسی چیز کا حال اور وصف بھی، جیسا کہ آگے آرہا ہے : فرمایا :(مثل الجنۃ التی وعد المتقون ، فیھا انھر من مآء غیر اسن) (محمد : ١٥)” اس جنت کا حال اور وصف جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس میں کئی نہریں ایسے پانی کی ہیں جو بگڑنے والا نہیں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے ہی سب لوگوں کے احوال بیان فرماتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ وَاَنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّہِمْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللہُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَہُمْ۝ ٣ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اب اللہ تعالیٰ اس چیز کو واضح فرما رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے کافروں کا کام ضائع اور مسلمانوں کے اعمال درست ہوئے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ ان کے اعمال تو ان کے کفر و شرک کی وجہ سے برباد ہوئے اور اہل ایمان نے قرآنی صحیح راستہ کو اختیار کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ ذٰلِکَ بِاَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا اتَّبَعُوا الْبَاطِلَ } ” یہ اس لیے کہ جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے باطل کی پیروی کی “ { وَاَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ رَّبِّہِمْ } ” اور جو لوگ ایمان لائے انہوں نے حق کی پیروی کی ‘ جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ “ { کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَہُمْ } ” اسی طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ “ اگلی آیت مشکلات القرآن میں سے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ الفاظ کی وہ تقدیم و تاخیر ہے جو ہمیں قرآن کی آیات میں بعض جگہ نظر آتی ہے۔ جیسا کہ کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے ‘ الفاظ کی یہ تقدیم و تاخیر قرآن کا خاص اسلوب ہے اور اس کا مقصد کلام کی روانی میں ایک خاص ردھم اور آہنگ کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں جہاں کہیں بھی ایسا معاملہ ہو وہاں مفہوم کے درست ادراک کے لیے الفاظ کی اصل ترتیب کے بارے میں گہرے غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ اس آیت کے مطالعے کے لیے بھی خصوصی توجہ درکار ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 That is, "He makes both the parties aware of their positions. One party insists on following falsehood; therefore, Allah has brought all its endeavors to naught: and the other party has adopted obedience of the Truth; therefore, AIIah has purified it of its evils and corrected its condition."

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :7 اصل الفاظ ہیں کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللہُ لِلنَّاسِ اَمْثَالَھُمْ ۔ اس فقرے کا لفظی ترجمہ تو یہ ہے کہ اس طرح اللہ لوگوں کے لیے ان کی مثالیں دیتا ہے ۔ لیکن اس لفظی ترجمہ سے اصل مفہوم واضح نہیں ہوتا ۔ اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی اس طرح فریقین کو ان کی پوزیشن ٹھیک ٹھیک بتائے دیتا ہے ۔ ایک فریق باطل کی پیروی پر مصر ہے اس لیے اللہ نے اس کی ساری سعی و عمل کو لا حاصل کر دیا ہے ۔ اور دوسرے فریق نے حق کی پیروی اختیار کی ہے اس لیے اللہ نے اس کو برائیوں سے پاک کر کے اس کے حالات درست کر دیے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:3) ذلک ۔ یعنی کافروں کی گمراہی اور تکفیر اور مومنوں کی اصلاح احوال۔ بان۔ میں ب تعلیلیہ ہے ان حرف تحقیق۔ حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے ۔ الباطل جھوٹی بات، الحق دین حق، یا الباطل سے مراد شیطان اور الحق سے قرآن ہے۔ یضرب امثالہم (اللہ ) ان کی مثالیں بیان کرتا ہے ۔ ان کے حالات بیان کرتا ہے۔ یضرب ۔ مضارع واحد مذکر غائب ضرب مصدر سے جس کے معنی مارنا۔ ضرب لگانا۔ اور بیان کرنا کے ہیں۔ بیان کرنے کے معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ان اللہ لا یستحیی ان یضرب مثلا ما بعوضۃ فما فوقھا (2: 26) خدا اس بات سے عار نہیں کرتا کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کی مثال بیان فرمائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی توحید کی راہ اختیار کی جو حق ہے۔ 8 تاکہ ایک طرف حق پرستوں کی کامیابی و بامرادی کو دیکھ کر نیکی کی طرف رغبت پیدا ہو اور دوسری طرف باطل پرستوں کی ناکامی و نامردای دیکھ کر برائی سے نفرت ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ غلط راستہ کا موجب ناکامی ہونا اور صحیح رستہ کا سبب لئے وہ ناکام رہے اور یہ کامیاب ہوئے اور اگر اسلام کے صحیح رستہ ہونے میں کوئی شبہہ ہو تو من ربھم سے اس کا جواب ہوگیا کہ دلیل اس کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ وہ منجانب اللہ ہونا معجزات نبویہ بالخصوص اعجاز قرآنی سے ثابت ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القران ربط کلام : کفار کے اعمال ضائع کرنے کا سبب اور ایمانداروں کو جزادینے کا باعث۔ کفار کے اعمال اس لیے ضائع کردیئے جائیں گے کہ وہ دین کے مقابلے میں کفر، توحید کے بدلے شرک اور حق کی بجائے باطل کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہر حال میں اس حق کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حالات اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ کفر اور اسلام، توحید اور شرک، حق اور باطل، جھوٹے اور سچے کے درمیان فرق کرسکیں۔ باطل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ حق کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا بشرطیکہ حق والے حق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے منظم ہو کر کفار کا مقابلہ کریں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے بدر، اُحد، خندق، فتح مکہ اور تبوک کے موقع پر واضح طور پر ثابت کر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ نیک اور منظم لوگوں کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول کے منکر باطل کی پیروی کرتے ہیں۔ ٢۔ ایماندار لوگ ہمیشہ اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ حق کے پیچھے لگتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے واقعات اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن حق اور باطل کا امتیاز اور ان کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ (الرعد : ١٧) (بنی اسرائیل : ٨١) (الشوریٰ : ٢٤) (الانفال : ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک بان الذین ۔۔۔۔۔ من ربھم (٤٧ : ٣) “ اور یہ اس لیے کہ کفر کرنے والوں نے باطل کی پیروی کی اور ایمان لانے والوں نے اس حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے آیا ”۔ جہاں تک باطل کا تعلق ہے اس کی جڑیں اس کائنات کے اندر دور تک نہیں ہوتیں ، اس لیے وہ تباہ ہوجاتا ہے اور جو شخص بھی باطل کا پیرو ہوتا ہے یا باطل کا نتیجہ ہوتا ہے وہ ضائع ہونے والا ہوتا ہے اور کافر چونکہ باطل کے پیروکار ہوتے ہیں اس لیے ان کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور ان میں سے کوئی مفید چیز باقی نہیں رہتی۔ اور حق چونکہ مستقل ہوتا ہے ، آسمان و زمین بھی اس پر قائم ہیں ، اس کی جڑیں اس کائنات میں بہت دور تک چلی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ باقی ہوتا ہے اور مومن چونکہ اس کے پیرو کار ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو بھی دوام حاصل ہوتا ہے اور اللہ ان کی کوتاہیوں کو معاف کرتا ہے اور ان کی اصلاح حال فرماتا ہے۔ یہ ایک واضح اور طے شدہ معاملہ ہے اور متعین اصولوں پر اور متعین اسباب پر قائم ہے لہٰذا اس میں کوئی اتفاقی امر نہیں ہے یا محض تک پر مبنی نہیں ہے۔ کذلک یضرب اللہ الناس امثالھم (٤٧ : ٣) “ اسی طرح اللہ لوگوں کو اس کی ٹھیک ٹھیک حیثیت بتا دیتا ہے ”۔ یعنی ایسے اصول اللہ بتا دیتا ہے جس کے مطابق وہ اپنے نفس اور اعمال کو تولتے ہیں اور وہ ان معیاروں کو جانچتے ہیں جن کے مطابق وہ اپنے معاملات چلاتے ہیں اور قیاس اور پیمانوں میں خود مختار نہیں ہیں۔ یہ اصول تو پہلی آیت میں طے کردیا گیا ، اس کے بعد اہل ایمان کو ہدایت کردی گئی کہ وہ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں کیونکہ وہ حق کے پیروکار ہیں اور اس حق کا قیام اور غلبہ اس کرۂ ارض پر ضروری ہے۔ حق کی فطرت میں غلبہ ہے۔ اس نے لوگوں کی زندگی کے پیمانے طے کرنے ہیں ، لوگوں کی زندگی کو حق کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہے ، اور کافر چونکہ باطل پر ہیں ، اس لیے باطل اور اہل باطل دونوں کے آثار کا مٹنا ضروری ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر ارشاد فرمایا کہ یہ جو اہل کفر کی بدحالی ہوگی اور اہل ایمان کے حال کو اللہ تعالیٰ سدھار دے گا یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں نے باطل کا اتباع کیا اور اہل ایمان نے حق کا اتباع کیا، اتباع الحق کے ساتھ لفظ ﴿مِنْ رَّبِّهِمْ ﴾ بھی فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ حق وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو (اس نکتہ کو یاد رکھنا چاہیے) ﴿كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰهُ للنَّاسِ اَمْثَالَهُمْ ٠٠٣﴾ (اللہ تعالیٰ اسی طرح لوگوں کے لیے امثال بیان فرماتا ہے۔ ) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ امثال سے احوال مراد ہیں یعنی اللہ تعالیٰ مومنین اور کافرین کے احوال بیان فرماتا ہے مومنین کو حق پر بتاتا ہے اور اس کے نتیجے میں فلاح اور فوز کی بشارت دیتا ہے اور کافروں کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ باطل کا اتباع کرتے ہیں جس کا نتیجہ خیبت اور خسران ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” ذلک بان۔ الایۃ “ یہ بطریق لف و نشر مرتب ماقبل کی علت ہے۔ باء سببیہ ہے اور اس کا متعلق محذوف ہے یعنی مشرکین کی نیکیوں کا ضائع ہونا اس لیے ہے کہ انہوں نے حق سے اعراض کر کے باطل کا اتباع کیا اور مومنوں کے گناہوں کا معاف ہونا اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے باطل سے منہ موڑ کر حق کو قبول کیا اور اس کی پیروی کی۔ ای ذلک کائن بسبب اتباع الاولین الباطل، واتباع الاخرین الحق۔ (روح ج 26 ص 38) ۔ یا باء ” لتستیقنوا “ سے متعلق ہے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ یعنی تمہیں یقین ہوجائے کہ مختلف جزاء اس لیے دی جائے گی کہ کفار نے باطل کی پیروی کی اور مومنوں نے حق کا اتباع کیا۔ اس لیے کفار کے اعمال برباد اور مومنوں کے گناہ معاف ہوں گے اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھانے کے لیے فریقین (مومنین و کفار) کے احوال بیان فرماتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) یہ مختلف سلوک کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ منکر ہیں انہوں نے باطل اور غلط راہ کی پیروی کی اور جو لوگ اہل ایمان ہیں انہوں نے دین حق کی جو ان کے پروردگار کی طرف سے نازل ہواہی اس کی پیروی اختیار کی اللہ تعالیٰ اسی طرح لوگوں کے فائدے اور نفع کے لئے فریقین کے احوال بیان کرتا ہے۔ یعنی منکر باطل اور جھوٹ کی اتباع کرتا ہے اور ایمان دار اس حق کی پیروی کرتا ہے جو اس کے پروردگار کی جانب سے آیا ہے اس لئے دونوں کے انجام اور دونوں کے ساتھ سلوک بھی مختلف ہے اللہ تعالیٰ اسی طرح ان لوگوں کے احوال بیان فرماتا ہے اور فریقین کا ذکر کرتا ہے تاکہ لوگوں کو ترغیب وتہذیب ہو۔