Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 31

سورة محمد

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ ﴿۳۱﴾

And We will surely test you until We make evident those who strive among you [for the cause of Allah ] and the patient, and We will test your affairs.

یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کرلیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ ... And We will surely try you, meaning, `We will surely test you with commands and prohibitions.' ... حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ until We know those who strive among you and the patient, and We will put to a test all your affairs. There is absolutely no doubt that Allah's knowledge precedes the occurrence of all events. In this Ayah, "until We know" means `until We know of its occurrence.' This is why Ibn Abbas said in regard to this and similar texts, "Except so that We may know, means, so that We may see."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 اللہ تعالیٰ کے علم میں تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔ یہاں علم سے مراد اس کا وقوع اور ظہورہے تاکہ دوسرے بھی جان لیں اور دیکھ لیں۔ اسی لئے امام ابن کثیر نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے کہ ہم اس کے وقوع کو جان لیں یا ہم دیکھ لیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] بدا یعنی اللہ کے حدوث علم کا گمراہ کا کن عقیدہ :۔ لِنَعْلَمَ کے لفظ سے بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حدوث علم کا شبہ ظاہر کیا۔ یعنی اللہ کو بھی کوئی واقعہ ہوچکنے کے بعد علم ہوتا ہے پہلے نہیں ہوتا۔ حالانکہ بیشمار آیات اللہ تعالیٰ کے ازلی اور کلی علم کی صراحت پیش کرتی ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے الفاظ صرف اس وقت استعمال فرماتے ہیں کہ جبکہ اس علم کا تعلق اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے دیکھنے سے ہو۔ یعنی جہاد کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ کفر کا سر توڑ کر مسلمانوں کی مدد کرسکتا تھا۔ لیکن اس طرح کسی کے صبر و استقلال اور ایمان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی۔ اور نہ ہی مختلف لوگوں کی مختلف طرح کی سرگرمیوں کا پتا لگ سکتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولنبلونکم حتی نعلم المھدین منکم…: یہ مسلمانوں سے عام خطاب ہے کہ منافقوں کے ذکر سے یہ خیال نہ کرنا کہ تم امتحان سے مستثنیٰ ہو۔ ہرگز نہیں، بلکہ ہم ہر حال میں مختلف احکام کے ساتھ تمہاری آزمائش کریں گے حتیٰ کہ تم میں سے جہاد کرنیو الوں اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمہارے حالات کی خوب جانچ پڑتال کرلیں۔ (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح گزشتہ اور موجودہ کاموں کا علم ہے، وہ ان کاموں کو بھی جانتا ہے جو آئندہ ہونے والے ہیں، پھر سا بات کا کیا مطلب کہ یہاں تک کہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جان لیں ؟ حافظ ابن کثیر نے فرمایا :” مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کا واقع ہونا جان لیں۔ اس لئے ابن عباس (رض) نے اس جیسے الفاظ کے بارے میں فرمایا کہ ” نعلم “ کا معنی ” نری “ ہے، یعنی حتی کہ ہم دیکھ لیں۔ “ (ابن کثیر) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ پہلے جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا، مگر یہ بات کہ وہ کام واقع ہوچکا ہے اس کے علم میں اسی وقت آتی ہے جب وہ کام واقع ہو اور اس وقت ہی وہ اس کے واقع ہونے کو جانتا اور دیکھتا ہے۔ جو کام واقع ہی نہیں ہوا اس کے متعلق کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ واقع ہوچکا ہے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٤٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ (...until We know those of you who carry out Jihad,... - 47:31) Allah&s knowledge of every person’ s works and deeds is all-encompassing and eternal. It may be noted here that knowledge is of two kinds: [ i ] a priori knowledge or fore-knowledge, knowledge about a thing before its occurrence; and [ ii ] a posteriori knowledge or –in Mariam knowledge, knowledge about a thing after it has actually happened. Here knowledge refers to the second category. Allah’ s knowledge of things is since eternity. In this context, the knowledge about things is a posterioi, after the occurrence of the events in the external world. (ibn kathir) (The purport of this part of the verse is that Allah has enjoined fighting on the believers so that sincere believers may become distinguished from the hypocrites who shrink in horror at the very thought of fighting). Allah knows best.

(آیت) حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ ، اللہ تعالیٰ کو تو ازل سے ہر شخص کے اعمال و افعال کا علم محیط ازلی ابدی ہے۔ یہاں علم سے مراد ظہور و وقوع ہے یعنی جو چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے تھی اس کا وقوع و ظہور ہو کر واقعاتی علم ہوجائے۔ (ابن کثیر) واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ۝ ٠ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ۝ ٣١ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» . ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں خبر الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة «2» ، وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر «3» : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها . ( خ ب ر ) الخبر ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة/ 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد/ 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة/ 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ضرور اللہ تعالیٰ جہاد کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرے گا تاکہ اے گروہ منافقین وہ ظاہری طور پر بھی ان لوگوں کو نمایاں کرے جو اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور جو جہاد میں ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ اور تاکہ تمہاری خفیہ باتوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے دشمنی و مخالفت کو یا یہ کہ تمہارے نفاق کو ظاہر کردیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ { وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَلا وَنَبْلُوَا اَخْبَارَکُمْ } ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے یہاں تک کہ ہم ظاہر کردیں انہیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے ہیں اور ہم پوری تحقیق کرلیں تمہارے حالات کی۔ “ حَتّٰی نَعْلَمَ کا لفظی ترجمہ تو یوں ہوگا کہ ہم معلوم کرلیں ‘ لیکن اہل سنت کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کا علم قدیم ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو پہلے سے اس کے علم میں نہ ہو۔ اس لیے ان الفاظ کی ترجمانی یونہی ہوگی کہ ہم تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ ہم ظاہر کردیں اور سب کو دکھا دیں کہ تم میں سے مجاہدین کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ؟ یہ آیت پڑھتے ہوئے سورة البقرۃ کی اس آیت کو بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ } (آیت ١٥٥) ” اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے “۔ سورة البقرۃ کی اس آیت کے نزول کے وقت چونکہ قتال کا حکم نہیں آیا تھا اس لیے اس میں آزمائشوں اور سختیوں کا ذکر تو ہے لیکن قتال کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے یوں سمجھئے کہ آیت زیر مطالعہ گویا سورة البقرۃ کی مذکورہ آیت کی توسیع (extension) ہے ‘ جس میں قتال کے حوالے سے خصوصی طور پر فرمایا گیا ہے کہ اب ہم تم میں سے واقعتاجہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو چھان پھٹک کر الگ کرنا چاہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:31) ولنبلونکم : وائو عاطفہ لام تاکید کے لئے نبلون مضارع معروف تاکید بانون ثقیلہ۔ صیغہ جمع متکلم بلاء مصدر باب نصر۔ ہم ضرور آزمائیں گے۔ ہم ضرور جانچ کریں گے تمہاری کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ (تمہاری) ۔ نعلم ۔ مضارع منصوب بوجہ عمل حتی۔ جمع متکلم ۔ تاکہ ہم جان لیں۔ حتی نعلم کی وضاحت فرماتے ہوئے صاحب تفسیر مظہری رقمطراز ہیں :۔ یعنی جس طرھ وجود سے پہلے ہم کو معلوم تھا کہ آئندہ ایسا ہوگا۔ اسی طرح امتحان کے بعد ہم علم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یا نعلم کا معنی ہے نمیز ، یعنی ہم چھانٹ دیں۔ الگ الگ کردیں۔ (علم سبب ہے اور تمیز یعنی الگ الگ کردینا اس کا نتیجہ۔ سبب بول کر اس کی جگہ مسبب یعنی نتیجہ مراد لیا ہے) ۔ اخبارکم مضاف مضاف الیہ، تمہاری خبریں ۔ تمہارے احوال۔ تمہارے صحیح احوال نبلوا ہم تمہارے صحیح احوال کی جانچ کرلیں یا نبلو بمعنی نظھر۔ ہم تمہارے احوال کو ظاہر کردیں۔ فائدہ : اگرچہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم قبل از وجود ویسا ہی ہے جیسا کہ وجود کے بعد۔ لیکن جو علم قبل الوجود ہے اس پر احکام مرتب نہیں ہوتے اور امتحان کے بعد جو علم ہوتا ہے وہ حادث بھی ہے اور اس پر احکام بھی مرتب ہوتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولنبلوا نکم حتی ۔۔۔۔۔۔۔ اخبارکم (٤٧ : ٣١) “ ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں اور تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہے ”۔ اللہ تو تمام نفوس کے خفیہ خزانوں سے بھی واقف ہے۔ اور زیر زمین مع دنیا سے بھی واقف ہے۔ اور انسانوں کی خفیہ اور چھپائی ہوئی باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔ اور جو معاملات ہونے والے ہیں ، ان کو اس طرح جانتا ہے جس طرح وہ عملاً ہوچکے ہوں۔ اب اللہ مزید مجاہدین اور صابرین کو کس طرح جاننا چاہتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسانوں کے ساتھ اتنا ہی معاملہ کرتا ہے جس قدر ان کی قوت ، ان کی طبیعت اور ان کی استعداد کے مطابق کیا جاسکتا ہے۔ انسان اس طرح نہیں جانتے جس طرح اللہ جانتا ہے۔ لہٰذا یہ علم اور ظہور انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جانیں کہ مجاہدین اور صابرین کون ہیں ؟ اور پھر ان کو اس علم و ظہور سے نفع ہو۔ آزمائش خواہ مشکلات میں ہو یا خوشحالی میں ، نعمتوں میں ہو یا مشقتوں میں ہو ، ہاتھ کھلے کرنے میں ہو یا معیشت کی تنگی میں ہو ، خوشی میں ہو یا غم میں ہو ، اس آزمائش کی وجہ سے نفوس کے اندر کی خفیہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ آزمائش کی وجہ سے لوگوں پر صلاحیتوں کا اظہار ہوجاتا ہے۔ یہاں اللہ کے علم سے مراد وہ ظہور ہے جو لوگوں کو ابتلا میں ڈالنے سے ہوجاتا ہے۔ اور لوگوں کی صلاحتیں ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ (اللہ کے لئے یہ کوئی نیا علم نہیں ہوتا ، لوگوں کے لئے نیا ہوتا ہے) اور اسے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ابتلا کے بعد لوگوں کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آجاتی ہیں ۔ (اللہ کے لئے یہ کوئی نیا علم نہیں ہوتا ، لوگوں کے لئے نیا ہوتا ہے ) اور اسے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ابتلا کے بعد لوگوں کی قابلیت کا معلوم ہوجانا ، جسے لوگ سمجھ سکیں ، لوگوں کے شعور اور ان کی شخصیت پر اس کا اثر ہوتا ہے اور یوں اللہ کی حکمت اپنا کام کرتی ہے۔ لیکن اللہ کا حکم یہی ہے کہ انسان آزمائش طلب نہ کرے اور یہ دعا کرے کہ اللہ اپنی آزمائشوں سے بچائے اور عافیت اور رحمت میں رکھے۔ لیکن اگر آزمائش آجائے تو صبر کرے اور اس کو معلوم ہو کہ اس میں اللہ کی حکمت کام کر رہی ہے اور انسان اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی مشیت کے حوالے کر دے اور اللہ پر بھروسہ کرے کہ آزمائش کے بعد اللہ کی رحمت اور عافیت نصیب ہوگی۔ ایک بڑے عابد اور صوفی حضرت فضیل (رح) سے روایت ہے کہ جب ان پر یہ آیت پڑھی جاتی تھی تو وہ روتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے۔ الھم لا تبلنا فانک ان بلوتنا فضحتنا وھنکت استارنا وعذبتنا “ اے اللہ ، ہمیں آزمائش میں نہ ڈال ، اگر تو نے ہمیں آزمائش میں ڈالا تو ہمیں شرمندہ کر دے گا ، ہماری پردہ دری کر دے گا اور ہمیں عذاب میں مبتلا کر دے گا ”۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ ﴾ یعنی اعمال شرعیہ جہاد وغیرہ کے جو احکام نافذ کیے جاتے ہیں ان کے ذریعہ تمہاری آزمائش کی جاتی ہے ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے تاکہ مخلص مجاہدین اور صابرین کا ظاہری طور پر علم ہوجائے ﴿وَ نَبْلُوَاۡ اَخْبَارَكُمْ ٠٠٣١﴾ (اور تاکہ ہم تمہارے احوال کو جانچ لیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” ولنبلونکم۔ الایۃ “ ہم حکم جہاد سے تمہاری آزمائش کرنا چاہتے ہیں اور ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ کون تم میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتے ہیں کہ کون تم میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا اور راہ حق میں مصائب برداشت کرنا چاہتا ہے اور کون ایسا نہیں کرنا چاہتا اس سے بھی مخلص و منافق میں امتیاز ہوجائیگا اور مخلص و منافق کے عمل سے اس کی اندرون دل کیفیت ظاہر ہوجائیگی۔ یعنی انا نامرکم بالجھاد حتی یظہر المجاھد و یبین من یبادر منکم و یصبر علیہ من غیرہ (خازن ج 6 ص 184) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور ہم ضرور تم سب کی آزمائش کریں گے تاکہ ہم تم میں سے جو جہاد کرنے والے اور مصائب پر صبر کرنے والے اور تکالیف کو برداشت کرنیوالے ہیں ان کو جان لیں اور ظاہری طور پر ان مجاہدین اور صابرین کو دوسروں سے متمیز کردیں اور تاکہ ہم تمہارے دوسرے حالات کی جانچ کرلیں۔ یعنی جیسا کہ ابھی مذکور ہوا فھل عسیتم اسی سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ہم تمہارا امتحان اور تمہاری جانچ کریں گے تاکہ بزدل کمزور اور بہادر متمیز ہوجائیں اگرچہ ان کو سب کی حالت معلوم ہے اسی لئے مقصود اعلام نہیں بلکہ استعلام ہے تاکہ ہر شخص کی حالت معلوم ہوجائے اور منافق اور مومن معلوم ہوجائیں پھر فرمایا امتحان صرف جہاد پر ہی موقوف نہیں بلکہ اور بھی باتیں جانچنے کے لئے ہیں ان سے تمہارے حالات کا اظہار ہوجائیگا آگے پھر کفار کا ذکر فرماتے ہیں۔