Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 33

سورة محمد

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ لَا تُبۡطِلُوۡۤا اَعۡمَالَکُمۡ ﴿۳۳﴾

O you who have believed, obey Allah and obey the Messenger and do not invalidate your deeds.

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O you who believe! Obey Allah and obey the Messenger and do not invalidate your deeds. This made them fear that some sins could nullify their deeds." It has also been reported from Ibn Umar, may Allah be pleased with him, that he said, "We, the Companions of Allah's Messenger, used to think that good deeds would all be accepted, until Allah revealed, أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلاَ تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (Obey Allah and obey the Messenger and do not invalidate your deeds). So we asked each other: `What is it that can nullify our deeds' So we said, `The major sins, great offenses that require admission into the Fire and immoral sins.' But then Allah revealed, إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَأءُ Verily, Allah does not forgive joining partners with Him in worship, but He forgives except that to whom He wills. (4:48) After this was revealed, we ceased saying that. We thereafter continued to fear for those who committed great sins and immoral sins and to have hope for those who did not." Then, Allah commands His believing servants to obey Him and His Messenger, which would result in their happiness in this worldly life and the Hereafter. He also prohibits them from apostasy, because that would result in the nullification of their deeds. Thus He says, وَلاَ تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (and do not invalidate your deeds.) meaning, by apostasy. Thus, Allah says after this, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی منافقین اور مرتدین کی طرح ارتداد ونفاق اختیار کر کے اپنے عملوں کو برباد مت کرو یہ گویا اسلام پر استقامت کا حکم ہے بعض نے کبائر و فواحش کے ارتکاب کو بھی حبط اعمال کا باعث گردانا ہے اسی لیے مومنین کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بڑے گناہ اور فواحش سے بچتے ہیں (النجم) اس اعتبار سے کبائر و فواحش سے بچنے کی اس میں تاکید ہے اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی عمل خوانہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اگر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہے تو رائیگاں اور برباد ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] اعمال کو برباد کرنے والے کام :۔ یعنی تم جو کام بھی کرو وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جذبہ سے اور اس کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہونے چاہئے۔ مثلاً جہاد سے اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کے کلمہ کی سربلندی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی اور جذبہ کے تحت مثلاً شہرت اور ناموری کی غرض سے یا قبائلی عصبیت کی وجہ سے یا مال غنیمت کے حصول کی بنا پر جہاد کرے گا تو اس کا ایسا نیک عمل بھی مقبول نہ ہوگا۔ پھر اسے یہ بھی چاہئے کہ اپنے نیک عمل کی حفاظت کرے اور کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے جس سے اس کے عمل کے برباد ہونے کا خطرہ ہو۔ مثلاً ارتداد، شرک، اپنے کئے ہوئے کام پر فخر کرنا یا صدقہ کی صورت میں احسان جتلانا ایسے کام ہیں جو نیک اعمال کو برباد کردیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوالرسول…: یعنی اعمال کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند رہے۔ اگر کوئی شخص اطاعت سے نکل کر مخالفت پر اتر آئے اور دشمنوں کے ساتھ ساز باز شروع کر دے تو اس کے سارے اعمال باططل ہیں، خواہ وہ اپنے خیال میں کتنے اچھے عمل کرتا رہے، جیسا کہم نافقین تھے کہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اور عہد اطاعت کے بعد مخالفت کا راستہ اختیار کیا۔ یہاں آیت سے یہی مراد ہے، کیونکہ اس سے پہلے بھی منافقین کا ذکر ہے اور بعد میں بھی۔ گویا آیت کا مطلب یہ ہوا :” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی طرح اپنے اعمال باطل مت کرو جن کے اعمال ان کے کفر اور اللہ کے راستے سے روکنے اور رسول کی مخالفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے برباد کردیئے۔ “ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آدمی کسی نافرمانی یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو اس کے پہلے تمام اعمال باطل ہوگئے، کیونکہ یہ اس آیت کے خلاف ہے :(ان اللہ لایعفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشآء ومن یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیماً ) (النسائ :83)” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جوا س کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔ “ ہاں، آیت کا یہ مطلب ضرور ہوسکتا ہے کہ ہر عمل جس میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ ہو اور وہ ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ ہو وہ باطل ہے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لئے اخلاص اور اتباع سنت شرط ہے، جیسا کہ عائشہ (رض) نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو ود) (مسلم ، الافضیۃ ، باب نقض الاحکام الباطلۃ و رد محمد ثات الامور :1818/18)” جو شخص وہ عمل کرے جس پر ہمارا عمل نہیں وہ مردود ہے۔ “ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ بات نکالی ہے کہ کوئی نفلی عمل، نماز ہو یا روزہ یا کوئی اور اگر شروع کرے، تو اسے پورا کرنا واجب ہے، کیونکہ اگر اسے پہلے چھوڑ دے گا تو اس نے عمل باطل کردیا مگر یہ بات درست نہیں نہ آیت ہے اس کا کوئی تعلق ہے۔ نفل پہلے بھی نفل ہوتا ہے بعد میں بھی۔ جس کا شروع کرنا واجب نہیں اسے پورا کرنا بھی واجب نہیں۔ تفصیل امہات الکتب میں دیکھیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ۝ ٣٣ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولا تبطلوا اعمالکم ۔ اور تم اپنے اعمال کو باطل نہ کرو) اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جو شخص کوئی عبادت شروع کرلے تو جب تک اسے مکمل نہ کرلے اس وقت تک اسے اس عبادت سے باہر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں اس کے عمل کا ابطال لازم آئے گا۔ مثلاً نماز، روزہ اور حج وغیرہ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو ظاہری طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو (کیونکہ آپ بھی اطاعت خداوندی کا حکم دیتے ہیں) اس لیے خفیہ طریقہ پر رسول اکرم کی اطاعت کرو اور اپنی نیکیوں کو نفاق بغض و عداوت اور مخالفت و رسول سے باطل مت کرو اور کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو جن چیزوں کا خود اللہ تعالیٰ نے یعنی فرائض و صدقات وغیرہ کا حکم دیا ہے ان میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور جن کاموں کا بذریعہ نبی اکرم تمہیں حکم دیا ہے یعنی جہاد اور سنت نبویہ اس میں رسول اکرم کی اطاعت و فرمانبرداری کرو اور ریا و شہرت سے اپنے اعمال کو برباد مت کرو۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ (الخ) ابن ابی حاتم اور محمد بن نصر مروزی نے کتاب الصلوۃ میں ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ اصحاب رسول اکرم سمجھتے تھے کہ کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہونے کے بعد کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچاتا جیسا کہ شرک کی حالت میں کوئی نیکی کارگر نہیں ہوتی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تب صحابہ کرام ڈرے کہ کہیں گناہ کے ارتکاب سے نیکیاں برباد نہ ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ } ” اے اہل ِایمان ! تم لوگ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور کہیں اپنے اعمال ضائع نہ کر بیٹھنا۔ “ اب تک تو تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر ” آمَنَّا وَصَدَّقْـنَا “ کہتے آئے ہو اور اللہ کے دین کے لیے جان و مال کی قربانیاں بھی دیتے آئے ہو۔ لیکن اب قتال کا جو نیا اور مشکل مرحلہ آرہا ہے اس مرحلے میں تم لوگوں سے اب مزید قربانیوں کا مطالبہ ہے۔ چونکہ ایمان کا اولین تقاضا تو یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جس وقت جو حکم ہو اس کی تعمیل کی جائے ‘ اس لیے دیکھنا ! اس مرحلے میں تم سے کہیں کوئی کوتاہی سرزد نہ ہونے پائے۔ اگر خدانخواستہ اس مرحلے پر تم لوگوں نے پیٹھ دکھا دی تو اس سے تمہارے تمام گزشتہ اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 In other words, the deeds' being beneficial and yielding of good results depends wholly on one's obedience to Allah and His Messenger. After one has turned away from obedience, no deed remains a good deed so that one may deserve any reward for it.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :40 بالفاظ دیگر اعمال کے نافع اور نتیجہ خیز ہونے کا سارا انحصار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے ۔ اطاعت سے منحرف ہو جانے کے بعد کوئی عمل بھی خیر نہیں رہتا کہ آدمی اس پر کوئی اجر پانے کا مستحق ہو سکے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:33) لا تبطلوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر، ابطال (افعال) مصدر تم ضائع نہ کرو۔ تم باطل نہ کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 معلوم ہوا کہ بسا اوقات معصیت سے نیک عمل ضائع ہوجاتے ہیں اور نیکی اسی صورت میں نفع دے سکتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمانبردار ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ اعمالکم (٤٧ : ٣٣) “ اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو ”۔ اس سخت ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت مسلمہ کے اندر بھی ایسے لوگ تھے جو مکمل اطاعت سے گریزاں تھے یا یہ کہ ان پر مکمل اطاعت ذرا بھاری تھی اور بعض قربانیاں ان کو حد سے زیادہ لگ رہی تھیں لیکن اس وقت ایک قوی دشمن کے مقابلے میں یہ ضروری تھیں جس نے اسلام کی راہ روک رکھی تھی۔ اور یہ قوتیں اس وقت ہر طرف سے اسلام پر حملہ آور تھیں۔ اور ان مسلمانوں کے ان قوتوں کے ساتھ تجارتی ، برادری اور رشتہ داری کے تعلقات بھی تھے۔ اور اس وقت ان سب تعلقات کو کاٹ دینا ان کو مشکل معلوم ہوتا تھا۔ جس طرح اسلامی دعوت اور نظریہ کا تقاضا تھا کہ اب یہ تمام تعلقات کٹ جائیں۔ سچے مسلمانوں پر ان ہدایات کا بڑا شدید اثر ہوا تھا ۔ وہ ایک بار تو ان دھمکیوں کے نتیجے میں کانپ اٹھے تھے اور وہ بروقت ڈرتے تھے کہ شاید ان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جس سے ان کے اعمال ہی اکارت جائیں۔ امام احمد ابن نصر المروزی نے کتاب الصلوٰۃ میں روایت کی ہے۔ ابو قدامہ سے ، انہوں نے وکیع سے ، انہوں نے ابو جعفر رازی سے انہوں نے ربیع ابن انس سے ، اور انہوں نے ابو العالیہ سے ، جو کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفقاء یہ خیال کرتے تھے کہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ لینے کے بعد کوئی گناہ مضر نہیں ہے جبکہ شرک کے ساتھ کوئی عمل مفید نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت ناز ہوئی۔ اطیعوا اللہ ۔۔۔۔ اعمالکم (٤٧ : ٣٣) “ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو ”۔ اس کے بعد وہ ڈرنے لگے کہ کوئی گناہ دوسرے اعمال کو برباد نہ کر دے۔ حضرت عبد اللہ بن المبارک سے منقول ہے کہ ، بکر بن معروف نے ، مقاتل ابن حیان سے ، انہوں نے نافع سے ، اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے ، روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں : “ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی یہ خیال کرتے تھے نیکیاں سب کی سب مقبول ہوں گی ، یہاں تک کہ آیت۔ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ولا تبطلوا اعمالکم (٤٧ : ٣٣) “ اطاعت کرو اللہ کی ، اور اطاعت کرو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو ” ۔ نازل ہوئی ، تو ہم نے سوچا کہ وہ کیا چیز ہے جو ہمارے اعمال کو ضائع کر دے گی۔ تو ہم نے کہا کہ کبائر اور موجبات اور فواحش ہوں گے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ان اللہ لا یغفر ۔۔۔۔۔۔ لمن یشاء “ اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے سوا کسی کے جو گناہ چاہے ، معاف کر دے ”۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے ایسا کہنا چھوڑ دیا تاہم کبائر گناہوں کے ارتکاب کرنے والوں کے انجام سے ڈرتے تھے۔ فواحش کے مرتکبین سے ڈرتے تھے اور جو ان سے بچتا ہو ، اس کے انجام کے بارے میں پر امید تھے۔ ان نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ سچے مسلمان ان نصوص کو کس طرح لیتے تھے۔ وہ کس طرح مضطرب اور چوکنے ہوجاتے تھے۔ وہ کس طرح کانپ اٹھتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے ، وہ کس طرح محتاط رہتے کہ وہ کہیں ان کی زد میں نہ آجائیں۔ وہ کس طرح ہر وقت سوچتے رہتے تھے کہ ان کی زندگی نصوص الٰہی کے مطابق ہو ، اور وہ اس تیز احساس کے ساتھ آیات الٰہیہ کو لیتے تھے ، اس لیے وہ اس انداز کے مسلمان تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں یہ حکم فرمایا کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرو، اعمال صالحہ سابقہ ایمان میں شک کرنے اور کفر و شرک اختیار کرنے اور بعض کبیرہ گناہوں کی وجہ سے باطل ہوجاتے ہیں یعنی ان کا ثواب ختم ہوجاتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ : لا تبطلوا بالریاء والسمعة (کہ ریا کاری اور شہرت کی طلب کے ذریعے اپنے اعمال کو باطل نہ کرو) آیت عام ہے اس کے مفہوم میں ہر وہ چیز داخل ہے جس سے اعمال باطل ہوجاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم یعنی صحابہ کرام (رض) یہ سمجھتے تھے کہ ہر نیکی ضرور مقبول ہوتی ہے جب آیت کریمہ ﴿ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ ٠٠٣٣﴾ نازل ہوئی تو ہم نے کہا کہ وہ کیا چیز ہے جو ہمارے اعمال کو باطل کرے گی پھر ہم نے سمجھ لیا کہ اس سے کبیرہ گناہ اور فواحش مراد ہیں یعنی ان سے اعمال صالحہ باطل ہوسکتے ہیں اس کے بعد جب ہم کسی کو دیکھتے تھے کہ کوئی گناہ یا فحش کام اس سے سرزد ہوگیا تو ہم کہتے تھے کہ یہ شخص تو ہلاک ہوگیا یہاں تک کہ آیت ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ﴾ نازل ہوگئی تو اس کے بعد ہمارا طریقہ یہ ہوا کہ جب کوئی شخص کبیرہ گناہ کرلیتا تھا تو اس کے بارے میں مواخذہ کا خوف رکھتے تھے (یعنی اس کا مواخذہ یقینی نہیں جانتے تھے) اور جس سے کبیرہ گناہ سرزد نہ ہوتا اس کے بارے میں بخشش کی امید رکھتے تھے۔ (ذكر صاحب الروح ص ٧٩ ج ٢٦) تیسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے روکا پھر حالت کفر میں مرگئے اللہ تعالیٰ ہرگز ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا ہاں اگر کسی کافر نے اسلام کی مخالفت کی اور اللہ کے دین سے روکتا رہا پھر توبہ کرلی یعنی اسلام قبول کرلیا پھر حالت اسلام ہی میں مرگیا تو اس کے زمانہ کفر کا سب کچھ معاف ہوجائے گا اسی بات کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمرو بن عاص (رض) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اَمَا عَلِمْتَ یَا عَمْرو اِنَّ الْاِسْلاَمَ یَھْدِمُ مَا كانَ قَبْلَہٗ ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١١٤ از مسلم) (اے عمرو ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہوں کو (جو زمانہ کفر میں کیے) ختم کردیتا ہے۔ ) نفلی نماز، روزہ فاسد کرنے کے بعد قضاء کا واجب ہونا حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نفل نماز یا نفل روزہ شروع کرکے توڑ دے تو اس کی قضا واجب ہے اس کے دلائل بھی لکھے ہیں ان میں سے آیت بالا کو بھی دلیل میں پیش کیا ہے تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے اعمال کو باطل نہ کرو جب کسی نے ایک رکعت پڑھ لی یا گھنٹہ دو گھنٹہ روزہ رکھ لیا پھر توڑ دیا تو اس سے وہ عبادت بیچ میں رہ گئی جس کو شروع کیا تھا پوری عبادت کرکے کسی عمل سے باطل کردے یا پوری کرنے سے پہلے ہی باطل کردے دونوں طرح سے ابطال کی ممانعت پر آیت کریمہ کی دلالت ہوتی ہے۔ شیخ ابن ہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں۔ قَال تعالیٰ : وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ وھو اعم من ابطالھا قبل اتمامھا بالا فساد او بعدہ بفعل ما یحبطہ ونحوہ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” یا ایہا الذین امنوا۔ الایۃ “ یہ تشجیع علی القتال ہے۔ امر جہاد میں اللہ اور رسول کے احکام کی پیروی کرو۔ جہاد میں اور راہ دین میں اپنی مرضی اور صوابدید پر نہ چلو، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات پر چلو اور ان کے احکام کی اطاعت کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر کے اور اپنی مرضی سے کام کر کے اپنی محنت اور اپنے عمل کو برباد نہ کرو۔ اس آیت سے فقہاء نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ اگر کوئی شخص نفلی نماز یا روزہ شروع کر کے توڑ دے تو ان کی قضاء لازم ہے۔ (مظہری وغیرہ) ۔ اگر صرف ” لاتبطلوا اعمالکم “ کے الفاظ سے یہ استنباط کیا جائے تب درست ہے۔ لیکن آیت کا سیاق وسباق اس کا متحمل نہیں۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لائو اور اپنے اعمال ضائع اور برباد نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لائو اور منافقوں کی طرح اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرکے اپنے اعمال بربادنہ کرو۔ یعنی تم بھی منافقین اور مرتدین کے گروہ میں شامل ہوجائو یا اپنے اعمال میں ریا اور دکھاوے کو دخل دے کر اپنے اعمال کو باطل کردو ایسا کرنے سے مسلمانوں کو حضرت حق تعالیٰ نے منع فرمایا آگے کفار کی برائی بیان فرمائی۔