Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 34

سورة محمد

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ﴿۳۴﴾

Indeed, those who disbelieved and averted [people] from the path of Allah and then died while they were disbelievers - never will Allah forgive them.

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے اوروں کو روکا پھر کفر کی حالت میں ہی مر گئے ( یقین کرلو ) کہ اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, those who disbelieved and obstructed others from the path of Allah and then died as disbelievers -- never will Allah forgive them. This is similar to His saying, إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَأءُ Verily, Allah does not forgive joining partners with Him in worship, but He forgives except that to whom He wills. (4:48) Allah then addresses His believing servants by saying,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] یعنی ان کا جرم صرف یہی نہیں کہ انہوں نے خود اسلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ ان کے اصل جرائم تو ان کے وہ اعمال ہیں جو وہ اسلام کی راہ روکنے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے اور انہیں ایذائیں اور دکھ پہنچانے کے لیے سرانجام دیتے رہے۔ کفر و شرک جس پر وہ تادم مرگ اڑے رہے بذات خود ایسا جرم ہے جس کی معافی نہیں ہوسکتی۔ اور ان کے جرائم کی فہرست تو بڑی طویل ہے پھر ان کی معافی کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ بعض علماء کی رائے کے مطابق اس سے مراد وہ کافر ہیں جو بدر کے میدان میں قتل ہوئے اور بدر کے کنوئیں میں پھینکے گئے۔ تاہم اس آیت کے عموم کو صرف انہیں کافروں سے مختص نہیں کیا جاسکتا۔ ہر دور میں ایسی صفات رکھنے والے کافر موجود رہے ہیں اور آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ وہ سب اس عموم میں داخل ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان الذین کفروا و صدوا عن سبیل اللہ …: اس آیت میں کافر و منافقین کیلئے ترغیب ہے کہ کفر و نفاق اور اسلام کی مخالفت سے مرنے سے پہلے پہلے توبہ کرلو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گزشتہ گناہ معاف کر دے گا۔ ورنہ اگر اسی حالت میں موت آگئی تو تمہاری بخشش کی کوئی صورت نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں دہرائی ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (٩١) ، بقرہ (١٦١، ١٦٢، ٢١٧) اور سورة نساء (١٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ‌ (Those who disbelieve and prevent (others) from Allah&s way, Allah will never forgive them...- 47:34): verse [ 32] has a similar warning in similar words. The present verse [ 34] seems to repeat almost the same warning. But the difference is probably that verse 32 describes the loss of the infidels in this world, and the current verse describes their loss in the next world as indicated in the commentary. It is also possible that in the earlier verse the reference was to infidels in general which included those people who embraced Islam later on. The ruling regarding them was that all the good works which they had done in the state of disbelief would go to waste. Even after embracing Islam they would not be rewarded for them. The current verse refers in particular to those infidels who persisted in their disbelief and idolatry until their dying day. The ruling regarding them is that Allah will never forgive them in the next world. Allah knows best.

(آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ مَاتُوْا وَهُمْ كُفَّارٌ، انہیں الفاظ کے ساتھ ایک حکم ابھی پہلے آیا ہے، مکرر ذکر یا تو اس لئے ہے کہ پہلی آیت میں کفار کے خسارہ دنیوی کا بیان ہوا ہے اور اس آیت میں ان کا اخروی نقصان بتلانا منظور ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں نقل کیا گیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی آیت میں تو عام کفار کا ذکر تھا جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے ان کا حکم تو یہ آیا کہ جو اعمال صالحہ انہوں نے بحالت کفر کئے تھے وہ سب اکارت گئے اسلام لانے کے بعد بھی ان کا ثواب نہیں ملے گا اور اس آیت میں ایسے کفار کا خاص ذکر ہے جو مرتے دم تک کفر و شرک ہی پر جمے رہے کہ ان کا حکم یہ ہے کہ آخرت میں ان کی ہرگز مغفرت نہیں ہوگی واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ مَاتُوْا وَہُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ۝ ٣٤ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو لوگ کافر ہوئے یعنی بدر کے دن لڑنے والے اور انہوں نے دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کی پیروی سے روکا پھر وہ کفر ہی کی حالت میں مرگئے یا مار دیے گئے سو اللہ تعالیٰ ان کو کبھی نہیں بخشے گا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منکر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ { اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ مَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ } ” یقینا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور وہ اللہ کے راستے سے رکے رہے (اور دوسروں کو بھی روکتے رہے) پھر وہ مرگئے اس حالت میں کہ کافر ہی رہے تو ایسے لوگوں کو اللہ ہرگز نہیں بخشے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:34) وہم کفار جملہ حالیہ ہے۔ درآں حالیکہ وہ کافر ہی تھے۔ یعنی بحالت کفر۔ فلن یغفر اللہ لہم۔ ف عاطفہ ترتیب کے لئے ہے۔ لن یغفر مضارع منفی (منصوب) تاکید بلن تو اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی یہ مرنے سے پہلے کفر و شرک سے تائب نہ ہوئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ عدم مغفرت کے لئے کفر کے ساتھ صد عن سبیل اللہ شرط نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کا انجام بتلانے کے بعد مومنوں کو تسلی دی گئی ہے کہ دنیا میں تم ہی غالب رہو گے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور پھر اسی حالت میں مرجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ نہ صرف اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں معاف نہیں کرے گا بلکہ وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے۔ اے مسلمانوں تمہارا ان کے ساتھ مقابلہ ہو تو میدان جنگ میں نہ ہمت ہارنا اور نہ ہی کمزور بن کر صلح کی دعوت دینا ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس لیے تم ہی غالب رہو گے۔ مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے اور ان کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار مخاطب کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جس میں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں تمہیں ہمت نہیں ہارنا چاہیے اور نہ ہی تمہیں جھک کر کفار سے صلح کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ تم کفار پر غالب آنے والے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھی اور معاون ہے۔ اسی بات کو غزوہ احد کے موقع پر یوں بیان فرمایا کہ اے مسلمانو ! نہ ہمت ہارو اور نہ غم کھاؤ ! اگر مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (آل عمران : ١٣٩) مسلمانوں کو حالت جنگ میں کفار کے ساتھ جھک کر صلح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ جھک کر صلح کرنا اپنے آپ کو ذلیل کرنے اور موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی حالت جنگ میں دشمن کے سامنے جھک کر صلح کی نہ صرف اسے ذلیل کیا گیا بلکہ ان کا قتل عام بھی ہوا۔ یہاں مشرقی پاکستان کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ 1973 ء میں مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن نے انڈیا کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دیا اور وہ بنگلہ دیش کا پہلا وزیر اعظم بنا۔ جسے بعدازاں اس کی فوج کے چیف نے اس کے خاندان سمیت اسے قتل کردیا شیخ مجیب الرحمن کے کہنے پر جب انڈیا کی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کی حمایت اور دفاع کے لیے جنرل اے کے نیازی کی کمان میں مشرقی پاکستان جانے والی نوے ہزار (90, 000) فوج نے پلٹن میدان ڈھا کہ میں ہتھیار ڈال دیئے اور دنیا کو باور کروایا کہ ہم نے انڈیا اور مجیب الرحمن کے ساتھ باعزت معاہدہ کیا ہے۔ لیکن جوں ہی جنرل اے کے نیازی نے انڈیا کے جرنیل جنرل اروڑہ کے سامنے اپنا پسٹل پیش کیا اور اسے سلوٹ مارا تو نہ صرف اے کے نیازی کو گرفتار کرلیا گیا بلکہ نوے ہزار (90, 000) پاکستانی فوجیوں کو قیدی بنایا گیا اور فوج کی حمایت کرنے والے بنگلہ دیشیوں کو سرعام قتل کردیا گیا اور پاکستانی فوج کے ہتھیار پھینکنے کی پوری دنیا میں بار بار فلم دکھائی گئی۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو ایسی ذلت سے بچانے کے لیے یہ ہدایت کی ہے کہ اے مسلمانوں دشمن کے مقابلے میں تم ہی کامران اور سربلند ہوگے بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بدر، خندق، فتح مکہ، حنین اور تبوک کے میدان میں پورا کر دکھایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے یہ وعدہ کیا ہے کہ آپ اور اسلام غالب ہو کر رہیں گے۔ ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دوسرے ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ “ (الصف : ٩) ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔ “ (المجادلہ : ٢١) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے۔ “ (المومن : ٥١) مسائل ١۔ جو لوگ کفر کی حالت میں مریں گے اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف نہیں کرے گا۔ ٢۔ مسلمانوں کو حالت جنگ میں کفار کے مقابلے میں نہ ہمت ہارنا چاہیے اور نہ جھک کر صلح کرنی چاہیے۔ ٣۔ رب کریم کی دستگیری سے مسلمان ہمیشہ سربلند رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دنیا میں سربلند فرمایا : ١۔ ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرجائے۔ (ابراہیم : ١٣۔ ١٤) ٢۔ کفارنے حضرت نوح کو جھٹلایا ہم نے نوح اور اس کے ماننے والوں کو نجات دی۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (الشعرا : ٦٥) ٤۔ ہم نے شعیب اور ایمان لانے والوں کو نجات دی۔ (ہود : ٩٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی۔ ( الانفال : ٦٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اگلی آیت میں بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی کرتے ہیں اور آپ کی اطاعت سے دور ہوجاتے ہیں اور ایسے رویے پر اصرار کرتے ہیں اور اس دنیا سے کافر ہو کر مرجاتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا۔ ان الذین کفروا ۔۔۔۔۔ یغفر اللہ لھم (٤٧ : ٣٤) “ کفر کرنے والوں اور راہ خدا سے روکنے والوں اور مرتے دم تک کفر پر جمے رہنے والوں کو تو اللہ ہرگز معاف نہ کرے گا ”۔ مغفرت کے لئے اس دنیا میں ہر کسی کو مہلت دے دی گئی ہے۔ اور توبہ کا دروازہ کافروں اور گناہگاروں پر اس وقت تک کھلا ہے جب تک سکرات موت شروع نہیں ہوجائے۔ جب روح حلقوم تک آن پہنچے تو اس وقت خالص آخری لمحات میں تو بہ کا دروازہ بند ہوتا ہے اور اس وقت موقعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ ” ان الذین کفروا۔ الایۃ “ بیان حال مشرکین مع تخویف اخروی۔ جن لوگوں نے خود کفر و شرک اختیار کیا اور دوسروں کو اسلام سے روکا اور پھر اسی کفر و شرک کی حالت میں مرگئے تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہرگز معاف نہیں فرمائیگا اور وہ لامحالہ جہنم کے درائمی عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) بلا شبہ جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی اور کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکا پھر وہ کفر وشرک کی ہی حالت میں مرگئے یعنی کافر ہی مرے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز نہ بخشے گا اور ان کی مغفرت کبھی نہیں فرمائے گا۔ یعنی ایسے لوگوں کی کبھی بخشش نہیں ہوگی۔ آگے مسلمانوں کو پھر خطاب فرمایا۔