Surat Muahammad
Surah: 47
Verse: 5
سورة محمد
سَیَہۡدِیۡہِمۡ وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ ۚ﴿۵﴾
He will guide them and amend their condition
انہیں راہ دکھائے گا اور ان کے حالات کی اصلاح کر دے گا ۔
سَیَہۡدِیۡہِمۡ وَ یُصۡلِحُ بَالَہُمۡ ۚ﴿۵﴾
He will guide them and amend their condition
انہیں راہ دکھائے گا اور ان کے حالات کی اصلاح کر دے گا ۔
سَيَهْدِيهِمْ ... He will guide them, meaning, He will guide them to Jannah. This is similar to Allah's saying, إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمُ الاٌّنْهَـرُ فِي جَنَّـتِ النَّعِيمِ Indeed, those who have believed and done righteous good deeds, their Lord will guide them because of their Faith: beneath them rivers will flow in the Gardens of Pleasure. (10:9) Allah says, ... وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ and amend their condition. meaning, their situation and affairs. وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ
5۔ 1 یعنی انہیں ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن سے ان کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجائے گا۔
سیھدیھم ویصلح بالھم : یعنی اللہ تعالیٰ ان کی محنت ٹھکانے لگائے گا، انہیں جنت کے راستے پر لے جائے گا اور آخرت میں پیش آنے والے تمام مراحل میں ان کی حالت کو درست رکھے گا۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یعفر للشھید کل ذنب الا الذین) (مسلم، الامار ١ ۃ باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطاباء الا الدین :1886)” قرض کے سوا شہید کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ “ شہادت اور شہداء کے مزید بہت سے فضائل کی تفصیل کے لئے تب احادیث میں سے جہاد کے ابواب ملاحظہ فرمائیں۔
سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ (He will guide them, and will set aright their state of affairs - 47:5). This sentence refers to two of Allah&s bounties: First, He will steer them by His guidance; and secondly, He will improve their conditions. The word |"state of affairs|" includes the conditions of both the worlds - those of this world and those of the Hereafter. Even if a Muslim did not acquire the glorious privilege of a martyr in this world, he too will receive the reward of a martyr; and in the Hereafter he will be spared the torment of the grave and the anxiety of resurrection. If he violated the rights of some human beings, Allah will take upon Himself the responsibility of vindicating him and clearing him of all blame. Steering them by His guidance through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) means causing them to reach their desired destination which is the Paradise. The Qur&an says that the inmates of Paradise, having entered the gardens of Paradise, will show their gratitude to Allah by saying: الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَـٰذَا |"All praise to Allah who has led us unto this. [ 7:43].
(آیت) سَيَهْدِيْهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ ، اس میں شہید فی سبیل اللہ کے لئے دو نعمتوں کا ذکر ہے ایک یہ کہ اللہ ان کو ہدایت کر دے گا۔ دوسرے ان کے سب حالات درست کر دے گا۔ حالات سے مراد دنیا و آخرت دونوں جہان کے حالات ہیں۔ دنیا میں تو یہ کہ جو شخص جہاد میں شریک ہوا اگرچہ وہ شہید نہ ہوا سلامت رہا وہ بھی شہید کے ثواب کا مستحق ہوگیا، اور آخرت میں یہ کہ وہ قبر کے عذاب سے محشر کی پریشانی سے نجات پائے گا اور اگر کچھ لوگوں کے حقوق اس کے ذمہ رہ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ اصحاب حقوق کو اس سے راضی کر کے اس کی خلاصی کرا دیں گے (کما ورد حدیث ابی نعیم و البزار والبیہقی، مظہری) اور موت کے بعد ہدایت کردینے سے مراد ان کی منزل مقصود یعنی جنت پر پہنچا دینا ہے جیسا کہ قرآن میں اہل جنت کے متعلق آیا ہے کہ جنت میں پہنچ کر کہیں گے (آیت) الحمدللہ الذی ہدنالھذا۔
سَيَہْدِيْہِمْ وَيُصْلِحُ بَالَہُمْ ٥ ۚ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ بال البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال : قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] [ طه/ 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم . ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي . ( ب ی ل ) البال اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه/ 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔
(٥۔ ٦) اور ان کو نیک اعمال کی توفیق دے گا اور ان کی حالت و نیت کو درست رکھے گا یا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آخرت میں نجات دے گا اور قیامت کے دن ان کے اعمال کو قبول فرمائے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی ان کو پہچان کرا دے گا کہ وہ جنت میں اس طرح چلے جائیں گے جیسا کہ دنیا میں اپنے مکانات میں چلے جایا کرتے تھے۔
آیت ٥ { سَیَہْدِیْہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ } ” وہ ان کی راہنمائی کرے گا اور ان کے احوال کو سنوار دے گا۔ “
(47:5) سیھدیہم س مضارع پر د اکل ہو کر اسے مستقبل قریب کے لئے خاص کردیتا ہے یھدی کی ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب الذین قتلوا فی سبیل اللہ کی طرف راجع ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھے راستہ پر چلائے گا۔ ویصلح بالہم۔ وائو عاطفہ یصلح مضارع واحد مذکر غائب اصلاح (افعال) مصدر۔ ان کی حالت درست کر دے گا۔
7۔ یعنی قبر میں اور حشر میں اور صراط پر اور تمام مواقع آخرت میں۔
سیھدیھم ویصلح بالھم (٤٨ : ٥) ویدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (٤٨ : ٦) “ وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ان کا حال درست کرے گا اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کرا چکا ہے ”۔ ان کے اعمال ضائع نہ کرے گا ۔ یہ اس بات کے بالمقابل ہے جو کفار کے معاملے میں کہی گئی کہ ان کے اعمال ضائع ہوں گے۔ اس لیے کہ مومنین کے اعمال مضبوط اور اصل درخت سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ درخت ہے سچائی کا درخت۔ یہ اعمال اس حق اور سچائی سے صادر ہوتے ہیں۔ یہ اعمال حق کی حمایت میں ہوتے ہیں۔ حق کی سمت میں ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ باقی ہوتے ہیں اور دوام کی صفت رکھتے ہیں کیونکہ حق لازوال ہے۔ شہداء کی حقیقت قابل غور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے دوسری جگہ میں فیصلہ دے دیا ہے۔ ولا تقولوا لمن ۔۔۔۔۔۔ لا تشعرون “ اور جو اللہ کے راستے میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ”۔ لیکن یہاں ان کو ایک دوسرے پہلو سے پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جس راستے میں متاع حیات قربان کی اس راستے میں وہ مسلسل آگے ہی بڑھ رہے ہیں۔ وہ ہدایت خلوص ، صفائی اور اطاعت کی راہ ہے۔ سیھدیھم ویصلح بالھم (٤٧ : ٥) “ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے گا اور ان کا حال درست کر دے گا ”۔ وہ اپنے رب اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ، وہ اب بھی ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔ یعنی شہادت کے بعد بھی وہ درجات عالیہ طے کر رہے ہیں اور ان کے حالات درست کئے جا رہے ہیں اور ان کی روح زمین کی آلودگیوں سے پاک ہو رہی ہے۔ ان کو ملاء اعلیٰ میں جو مقام حاصل ہے ، اس مقام کی مناسبت سے ان کو مزید تربیت دی جارہی ہے۔ اور وہ صاف و شفاف بنائے جارہے ہیں۔ یہ ایک مسلسل زندگی ہے۔ صرف اہل زمین کی نظروں میں یہ منقطع ہوگئی ہے۔ اہل زمین شہادت کے درجات کو دیکھ نہیں پاتے اس زاویے سے اندھے ہیں ، جب کہ یہ شہداء حضرات عالم بالا میں بدستور درجات بلند کے مدارج طے کر رہے ہیں۔ ہدایت ، صفائی ، اشراق اور شفافی میں مزید انوار ربی حاصل کر رہے ہیں۔۔۔۔ اور سب سے آخر میں !
﴿سَيَهْدِيْهِمْ وَ يُصْلِحُ بَالَهُمْۚ٠٠٥ ﴾ (اللہ انہیں منزل مقصود تک پہنچا دے گا اور ان کا حال درست فرمائے گا) قبر، حشر اور تمام مواقع میں ان کا حال درست فرما دے گا
6:۔ ” سیہدیہم “ شہداء کے لیے بشارت اخرویہ۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو وہ جنت کی راہ دکھائیگا بقرینہ ویدخلہم الجنۃ الخ، کیونکہ شہید ہوجانے کے بعد ہدایت کا معروف معنی تو مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ منکر و نکیر کے سوال کے وقت درست جواب تلقین فرمائے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا جہاں ہر ایک کو اپنا اپنا مقام معلوم ہوگا۔ ہر آدمی کسی سے پوچھے بغیر ہی اپنی منزل میں چلا جائے گا گویا وہ اپنے اس گھر کو پہلے ہی سے جانتا ہے (سیہدیہم) الی طریق الجنۃ او الی الصواب فی جواب منکر و نکیر (ویصلح بالہم) یرضی خصماءھم ویقبل اعمالہم (مدارک ج 4 ص 114) ۔