Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 6

سورة محمد

وَ یُدۡخِلُہُمُ الۡجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمۡ ﴿۶﴾

And admit them to Paradise, which He has made known to them.

اور انہیں اس جنت میں لے جائے گا جس سے انہیں شناسا کر دیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And (He will) admit them to Paradise, which He has made known to them. It means that He has acquainted them with Paradise and guided them to it. Mujahid said: "The people of Paradise will be guided to their houses and dwellings and whatever sections Allah has ordained for them in it. They will not make mistakes in this, nor will they ask anyone for directions to their dwellings -- as if they had dwelt in it from the time they were first created." Al-Bukhari recorded from Abu Sa`id Al-Khudri, may Allah be pleased with him, that Allah's Messenger said, إِذَا خَلَصَ الْمُوْمِنُونَ مِنَ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ يَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتْى إذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ أَحَدَهُمْ بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ أَهْدَى مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ الَّذِي كَانَ فِي الدُّنْيَا After the believers securely pass the Fire (on the Day of Judgement), they will be held back upon a bridge between Paradise and the Fire. There, they will have any acts of injustice that they committed against one another in the life of this world rectified. After they are completely purified and cleansed (from injustice), they will be admitted into Paradise. By the One in Whose Hand is my soul, each one of them will find his way to his dwelling in Paradise better than he found his way to his dwelling in the worldly life. Support Allah's Cause, He will then support You Allah then says: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی جسے وہ بغیر راہنمائی کے پہچان لیں گے اور جب وہ جنت میں داخل ہونگے تو از خود ہی اپنے اپنے گھروں میں جا داخل ہونگے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک جنتی کو اپنے جنت والے گھر کے راستوں کا اس سے زیادہ علم ہوگا جتنا دنیا میں اسے اپنے گھر کا تھا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاتے ہیں اس کا صرف یہی فائدہ نہیں کہ وہ قومی زندگی کا سبب بنتے ہیں۔ بلکہ خود ان کی ذات کو بھی کئی فائدے پہنچتے ہیں۔ خواہ وہ دنیوی لحاظ سے بظاہر کامیاب نظر نہ آتے ہوں۔ مثلاً یہ کہ اللہ ان کی صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرماتا ہے اور ان کی سرگرمیوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ دوسرے یہ کہ ان کے دلوں سے ہر قسم کی کدورت دور کرکے اور ان کی حالت کو درست کر دے گا۔ پھر انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ [٨] عرف کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کے تین مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسے باغوں میں داخل ہوں گے جن کا انہیں کتاب و سنت کے ذریعہ تعارف کرایا جاچکا ہے اور اس کی صفات کو سب جنت میں داخل ہونے والے جانتے ہوں گے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر جنتی جنت میں اپنے مکان اور مسکن کو پہچانتا ہوگا۔ چناچہ صحیح بخاری کتاب بدأ الخلق میں مذکور ہے کہ جنتی اپنے مکانوں اور رہائش گاہوں کو اس سے زیادہ پہنچانتے ہونگے جتنا وہ دنیا میں اپنے گھروں کو پہچانتے ہیں۔ یعنی انہیں اپنی رہائش گاہ پہچاننے میں نہ کوئی الجھن پیش آئے گی اور نہ راستہ بھولیں گے اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عَرَفَکے معنی پہچاننا اور عَرَّفَ کے معنی پہچان کرانا ہے اسی طرح عَرَفَ کے معنی خوشبو لگانا اور عَرَّفَ کے معنی معطر کرنا اور خوشبو چھوڑ دینا بھی ہے۔ (مفردات القرآن) اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لیے جنت کو خوشبو سے بسا دیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ویدخلھم الجنۃ عرفھا لھم : یعنی اللہ تعالیٰ انہیں اس جنت میں داخل کرے گا جس کی پہچان اس نے قرآن کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی بہت اچھی طرح کروا دی ہے۔ اس سورت کی آیت (١٥) میں بھی اس کی کچھ شناخت آرہی ہے۔ جب وہ اس جنت میں جائیں گے تو وہ ان کے لئے اجنبی نہیں ہوگی، بلکہ عین اس وعدے اور شناخت کے مطابق ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے انہیں کروا رکھی ہے۔ ” عرفھا لھم “ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی جنتی کو جنت میں اپنے گھر جانے کے لئے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (یخلص المومنون من النار، فیحبسون علی قنطرۃ بین الجنجۃ والنار، فیقص لبعضھم من بعض مظالم کانت بینھم فی الدنیا، حتی اذا ھذبوا ونقوا اذن لھم فی دخول الجنۃ فوالذی نفس محمد بیدہ ! لاخذھم اھدی بمنزلہ فی الجنۃ منہ بمنزلہ کان فی الدنیا) (بخاری، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ :6565)” مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انہیں ایک پل پر روک لیا جائے گا جو جنت اور آگ کے درمیان ہے، پھر انہیں ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص دلایا جائے گا جو دنیا میں ہوئیں، یہاں تک کہ جب وہ خوب صاف ستھرے ہوجائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ سو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے اس میں سے ہر ایک کو جنت میں اپنے گھر کا راستہ اس سے زیادہ معلوم ہوگا جتنا اسے دنیا میں اپنے گھر کا راستہ معلوم تھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّ‌فَهَا لَهُمْ (and will admit them to the Paradise He has identified for them. - 47:6). This is the third bounty of Allah. He will not only admit them into Paradise but will identify for them the gardens of bliss and will make them familiar with such bounties as houris and mansions in a way that it would seem to them that they have been living there since eternity. If such an acquaintance was not made, Paradise would have seemed a strange world. It would have taken them time to find their abode, to accustom themselves with the new environment, and they would not overcome the sense of unfamiliarity for a period of time. Abu Hurayrah (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"By Him who sent me with the religion of Truth! As you are closely familiar with your wives and homes in this world, so you will know your abode and your wives of Paradise - rather even better. Some reports of Hadith tell us that an angel will be appointed for every single inmate of Paradise who will introduce them to their abode and wives in Paradise. Allah knows best.

(آیت) وَيُدْخِلُهُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ ، یہ ایک تیسرا انعام ہے کہ ان کو صرف یہی نہیں کہ جنت میں پہنچا دیا جائے گا بلکہ ان کے دلوں میں خود بخود جنت کے اپنے اپنے مقام اور اس میں ملنے والی نعمتوں حور و قصور سے ایسی واقفیت پیدا کردی جائے گی جیسے وہ ہمیشہ سے انہی میں رہتے اور ان سے مانوس تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو جنت ایک نیا عالم تھا اس میں اپنا مقام تلاش کرنے میں وہاں کی چیزوں سے مناسبت اور تعلق قائم ہونے میں وقت لگتا، اور ایک مدت تک اجنبیت کے احساس سے قلب مطمئن نہ ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے دین حق دے کر بھیجا ہے کہ تم دنیا میں جس طرح اپنی بیبیوں اور گھروں سے واقف اور مانوس ہو اس سے بھی زیادہ اپنے جنت کے مقام اور وہاں کی بیبیوں سے واقف اور مانوس ہوجاؤ گے (رواہ ابن جریر و طبرانی و ابویعلی و البیہقی۔ مظہری) اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک فرشتہ ہر ایک جنتی کے لئے مقرر کردیا جائے گا جو ان کا اپنے مقام جنت اور وہاں کی بیبیوں سے تعارف کرائے گا واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيُدْخِلُہُمُ الْجَــنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ۝ ٦ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ } ” اور داخل کرے گا انہیں جنت میں جس کی ان کو پہچان کرا دی ہے۔ “ یعنی جنت اور اس کی نعمتوں کا قرآن میں تفصیلی تعارف کرا دیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 This is the profit that the martyrs falling in the way of Allah will gain. Its three grades have been stated: (1) That AIlah will guide them; (2) that He will set their condition right; and (3) that He will admit them to the Paradise with which He has acquainted them beforehand. Guidance here obviously implies guiding to Paradise; setting the condition right implies that before their entry into Paradise, AIlah will adorn them with robes of honour and remove every filth which had polluted them in the life of the world; and the third stage means that even in this world they have been told through the Qur'an and the Holy Prophet what kind of Paradise it is that has been prepared for them; when they enter that Paradise they will enter a place with which they will already be familiar and they will come to know that they have been blessed precisely with the same that had been promised to them in the world.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :11 یہ ہے وہ نفع جو راہ خدا میں جان دینے والوں کو حاصل ہوگا ۔ اس کے تین مراتب بیان فرمائے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے گا ۔ دوسرے یہ کہ ان کا حال درست کر دے گا ۔ تیسرے یہ کہ ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ پہلے ہی ان کو واقف کرا چکا ہے ۔ رہنمائی کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اس مقام پر جنت کی طرف رہنمائی کرنا ہے ۔ حالت درست کرنے سے مراد یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالی ان کو خلعتوں سے آراستہ کر کے وہاں لے جائے گا اور ہر اس آلائش کو دور کر دے گا جو دنیا کی زندگی میں ان کو لگ گئی تھی ۔ اور تیسرے مرتبے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں پہلے ہی ان کو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے بتایا جا چکا ہے کہ وہ جنت کیسی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے ۔ اس جنت میں جب وہ پہنچیں گے تو بالکل اپنی جانی پہچانی چیز میں داخل ہوں گے اور ان کو معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کے دینے کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہی ان کو دی گئی ہے ، اس میں یک سرمو فرق نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں اپنے پیغمبروں کے ذریعے مسلمانوں کو جنت کا تعارف کرادیا ہے، یہ جنت اسی تعارف کے مطابق ہوگی، اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے اور زیادہ تر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ ہر جنتی کو جنت میں اپنی جگہ تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پہچان کرانے کا ایسا آسان انتظام کر رکھا ہے کہ ہر جنتی اپنی مقررہ جگہ پر کسی دشواری اور تفتیش کے بغیر بے تکلف پہنچ جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:6) عرفھا لہم۔ عرف ماضی واحد مذکر غائب تعریف (تفعیل) مصدر اس نے اس سے تعارف کرا دیا۔ اس نے اس کی پہچان کرائی۔ اس نے اس کی تعریف کی۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الجنۃ کی طرف راجع ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ عرفہ کے معنی خوشبودار کرنے کے بھی آتے ہیں جنت کے بارے میں جو یہ ارشاد ہو رہا ہے عرفھا لہم اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ حق تعالیٰ نے جنت کو اہل جنت کے لئے خوشبودار اور مزین کردیا ہے۔ فائدہ :۔ سیھدیہم ۔ ان کو سیدھے راستے پر چلائے گا۔ اس میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو اب کس بات کی ہدایت ہوگی ؟ مختلف مفسرین نے مختلف طریقے پر اس کی تفسیر کی ہے۔ صاحب تفسیر حقانی لکھتے ہیں ! اس کا جواب یہ ہے کہ :۔ ہاں ہوگی ! منکر ونکیر کے سوال و جواب کی ۔ سعادت اور دار الخلد کے منازل طے کر کے حقیقی منزل تک پہنچنے کی، مدارک التنزیل میں بھی یہی آیا ہے۔ ضیاء القران میں ہے :۔ یعنی جنت اور رضائے الٰہی کی ذی شان منزل تک انہیں رسائی حاصل ہوجائے گی ! راہ کی روکاوٹیں دور کردی جائیں گی۔ فاصلے سمٹ کر رہ جائیں گے۔ سیھدیہم : یعنی ان کے منزل مقصود تک پہنچنے تک ہر قدم پر ان کی راہنمائی اور دستگیری ہوتی رہے گی۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں : ۔ رہنمائی کرنے سے مراد ظاہر ہے کہ اس مقام پر جنت کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 چناچہ ہر جنتی جنت میں اپنا ٹھکانہ پہچان لے گا۔ حدیث میں ہے کہ اہل جنت میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے زیادہ پہچان لیگا۔ “ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ویدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (٤٨ : ٦) “ وہ ان کو اس جنت میں داخل کر دے گا جس سے وہ ان کو واقف کرچکا ہے ”۔ احادیث میں شہداء کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو جنت میں ان کی جائے قیام دکھائی جاتی ہے۔ امام احمد نے روایت فرمائی ہے ، زید ابن نمرد مشفی سے انہوں نے ابو ثوبان سے ، انہوں نے اپنے والد ثوبان سے انہوں نے مکحو سے انہوں نے کثیر ابن مرہ سے انہوں نے قیس جذامی اور انہوں نے ایک ایسے شخص سے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت حاصل تھی وہ فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شہید کا خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اسے چھ درجات حاصل ہوجاتے ہیں ، اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، وہ دیکھ لیتا ہے کہ جنت میں اس کی جائے قیام کیا ہے ، خوبصورت آنکھوں والی حوریں اس کے نکاح میں دے دی جاتی ہیں۔ وہ قیامت کے عظیم خوف سے محفوظ ہوگا۔ عذاب قبر سے مامون ہوگا۔ اور اسے ایمان کا جامہ پہنایا جائے گا۔ یہ حدیث صرف امام احمد نے نقل کی ہے۔ ایک دوسری حدیث اسی مفہوم کی بھی مروی ہے۔ اس میں بھی تصریح ہے کہ شہید اپنی جائے قیام کو پہلے ہی دیکھ لے گا (ترمذی) ۔ یہ ہے اہل جنت کے لئے ان کی جائے قیام کی معرفت اور یہی ان کے لئے رہنمائی ہے اور یہی ان کا اصلاح حال ہے۔ اس جہاں کو چھوڑ کر وہ نہایت ہی بلند زندگی گزارتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ يُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ ﴾ اور انہیں جنت میں داخل فرما دے گا جو ان کی منزل مقصود ہے ﴿عَرَّفَهَا لَهُمْ ٠٠٦ ﴾ (اللہ نے انہیں جنت کی پہچان کرا دی) یعنی دنیا میں اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعہ انہیں اس کی پہچان کرا دی ہے جنت کی پہچان کرانے کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب جنت میں داخل ہونے لگیں گے تو اپنے اپنے مقرر کردہ مقام کو وہ اس طرح جانتے ہوں گے جیسے اپنے دنیا والے گھروں میں اس کو پہچانتے تھے بلکہ ان سے زیادہ اپنی جنت والی مقررہ جگہ کے راستے کو پہچانتے ہوں گے۔ (كما فی الحدیث)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اور ان کو اس جنت میں داخل کردے گا جس کی تعریف ان سے کردی گئی ہے اور ان کو وہ بہشت معلوم کرادی ہے۔ ہم متعدد بار عرض کرچکے ہیں کہ جہاد یا قتال کا منشاء اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ملک میں شرارت بند ہو اور امن قائم رہے۔ اسی لئے جن سے شرارت اور بدامنی کا وقوع نہیں ہوتا ان کو جہاد میں بھی قتل کا حکم نہیں۔ مثلاً عورتیں، بچے ، بوڑھے وغیرہ۔ یہاں بھی یہی حکم ہے کہ جب کبھی دشمنوں سے بھڑ جائو تو پھر گردنوں کا مارنا ہے یعنی قتل کرنا چونکہ عام طور پر گردن کاٹنے سے قتل واقع ہوجاتا ہے اس لئے سبب کا بیان فرمایا ورنہ قتل اعدا جس طرح بھی ہوا اسے حاصل کیا جائے پھر جب دشمن کی قوت ٹوٹ جائے اور وہ مغلوب ہوجائے تو پھر قید کرنا ہے قید کے بعد پھر اختیار ہے چاہے احسان رکھ کر چھوڑ دو اور ان کے ممنون احسان بنالو چاہے کچھ فدیہ لے کر رہا کردو فدیہ چاہے مال کی شکل میں ہو یا جو قیدی مسلمان کافروں کے قبضے میں ہوں ان کی رہائی کے بدلے میں ہو لڑائی کا ہتھیار رکھ دینا یہ کہ اہل حرب اور شرارت پسند لوگ مغلوب ہوکر جنگ کو بند کردیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) قتادہ، ضحاک اور مجاہد اس کے قائل ہیں کہ یہ آیت سورہو برات کے حکم سے منسوخ ہوچکی اب سوائے قتل اور استرقاق کے دوسری بات نہیں چونکہ سورة برات سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعد میں نازل ہوئی ہے اس لئے سورة برات کی آیت اتتلوالمشرکین حیث وجدتموھم کو ناسخ قرار دیا ہے۔ یہی قوال امام ابوحنیفہ (رح) اور زاعی کا بھی ہے ، دوسرے ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ نہیں اب بھی امام کو اختیار ہے کہ مناسب سمجھے تو قتل کرے مناسب سمجھے تو استرقاق کرے اور مناسب سمجھے تو من اور فدیہ لے کر چھوڑ دے۔ یہ مسلک ہے عبداللہ بن عمر (رض) حسن اور عطا اور اکثر صاحبہ اور ثوری اور شافعی اور احمد (رح) اور اسحاق کا ۔ آخر میں اس قتال کی ایک حکمت بھی بیان فرمائی کہ اگر اللہ تعلایٰ چاہے تو اپنا انتقام خود بھی لے سکتا ہے جیسا کہ بعض اقوام متشددہ سے لیا گیا ۔ لیکن وہ تمہارے بعض کا بعض کے ذریعے امتحان لیتا ہے اس لئے جہاد اور قتال تمہاری آزمائش اور امتحان کی ایک شکل ہے۔ پھر شہدا کی فضیلت اور ان کے اجر بیان فرمائے کہ ان کو مقصد تک پہنچایا جائے گا اور اس جنت میں داخل کئے جائیں گے جس کا تعارف ان کو حاصل ہے اور جس کی تعریف بار بار سنتے رہتے ہیں اب آگے پھر مسلمانوں کو خطاب ہے اور ان کی ثابت قدمی کے لئے وعدہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب تک کافر کا زور نہیں ٹوٹتا تب تک قتل ہی چاہیے اور جب زور ٹوٹ چکا تب قید بھی کفایت ہے تاڈر کر مسلمان ہوں یا احسان کر کرچھوڑئیے تو ہمیشہ احسان مانیں اور دین محبت آوے یا چھڑوائی لے کر چھوڑے تو دو فائدے اب اختلاف ہے کہ کافر قید میں آئے تو اس کو پھر اپنے گھر جانے دیجئے یا نہیں اگر چھوڑئیے تو اس طرح کہ رعیت ہوکر رہے۔