Surat Muahammad

Surah: 47

Verse: 7

سورة محمد

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ ﴿۷﴾

O you who have believed, if you support Allah , He will support you and plant firmly your feet.

اے ایمان والو! اگر تم اللہ ( کے دین ) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O you who believe! If you support (the cause of) Allah, He will support you and make your foothold firm. This is similar to His saying, وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ Indeed, Allah will surely support those who support Him (His cause). (22:40) That is because the reward is comparable to the type of deed that is performed. Thus, Allah says here, وَيُثَبِّتْ أَقْدَا... مَكُمْ (and make your foothold firm). Allah then says,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح و غلبہ عطا کرتا ہے جیسے صحابہ کرام رضوان ا... للہ علیہم اجمعین اور قرون اولی کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے نہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ولینصرن اللہ من ینصرہ۔ الحج۔ اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔ 7۔ 2 یہ لڑائی کے وقت تثبیت اقدام یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصرو معونت سے بعض کہتے ہیں اسلام یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ یقیناً جہاد میں ان کی مدد فرمائے گا اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دے گا۔ بندہ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اقامت دین کے لیے کمر بستہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے...  ہمکنار کرے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یایھا الذین امنوا ان تنصروا اللہ : اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین اور اللہ کے دوستوں کی مدد کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں فرمایا :(ولو یشآء اللہ لانتصرمنھم) (محمد : ٣)” اور اگر اللہ چاہے تو ضرور ان سے اتنقام لے لے۔ “ اللہ کے...  دین کی مدد اس کی راہ میں جہاد اور جان و مال کی قربانی سے بھی ہوتی ہے اور اس کے دشمنوں پر دین حق کے دلائل وبراہین قائم کرنے کے ساتھ بھی۔ (٢) ینصرکم : اللہ تعالیٰ کی مدد دو طرح سے آتی ہے، ایک یہ کہ وہ ہمیں دنیا میں دشمنوں پر فتح اور غلبہ عطا فرما دے ۔ مگر ایسا کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ وہ ہمیں آخرت عطا فرما دے، خواہ دنیا میں کسی موقع پر شکست سے بھی دوچار ہونا پڑے ۔ (٣) ویثنت اقدامکم : یعنی وہ تمہیں دین پر قائم رکھے گا کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہونے دے گا، جنگ میں ثابت قدمی عطافرمائے گا کبھی فرار کا خیال تک نہیں آنے دے گا، خواہ دشمن کتنی زیادہ تعداد میں ہوں اور قیامت کے دن ” صراط “ پر تمہارے قدم جمائے رکھے گا اور پھسلنے اور جہنم میں گرنے سے محفوظ رکھے گا ، جب سب لوگ ” اللھم سلم سلم “ (اے اللہ ! سلامت رکھنا، سلامت رکھنا) کہہ رہے ہوں گے۔ (دیکھیے بخاری :6583)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝ ٧ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قي... ل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ انْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ وَالانْتِصَارُ والاسْتِنْصَارُ : طلب النُّصْرَة وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] ، وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] ، وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] ، فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] وإنما قال :«فَانْتَصِرْ» ولم يقل : انْصُرْ تنبيهاً أنّ ما يلحقني يلحقک من حيث إنّي جئتهم بأمرك، فإذا نَصَرْتَنِي فقد انْتَصَرْتَ لنفسک، وَالتَّنَاصُرُ : التَّعاوُن . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] لا نتصار والانتنصار کے منعی طلب نصرت کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَصابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ [ الشوری/ 39] اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو مناسب طریقے سے بدلہ لیتے ہیں ۔ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ [ الأنفال/ 72] اور اگر وہ تم سے دین کے معاملات میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرتی لا زم ہے ۔ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ [ الشوری/ 41] اور جس پر ظلم ہوا ہو وہ اگر اس کے بعد انتقام لے ۔ فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ [ القمر/ 10] تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ ( بار الہ میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں ان سے ) بدلہ لے ۔ میں انصر کی بجائے انتصر کہنے سے بات پر متنبہ کیا ہے کہ جو تکلیف مجھے پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ذات باری تعالیٰ پہنچ رہی ہے وہ گویا تجھے ( ذات باری تعا لی پہنچ رہی ہے کیو ن کہ میں تیرے حکم سے ان کے پاس گیا تھا لہذا میری مدد فر مانا گو یا یا تیرا اپنی ذات کے لئے انتقام لینا ہے ۔ لتنا صر کے معنی باہم تعاون کرنے کے ہیں ۔ چنا نچہ قرآن میں ہے : ما لَكُمْ لا تَناصَرُونَ [ الصافات/ 25] تم کو کیا ہوا کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ قدم ( پاؤں) القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، ( ق د م ) القدم انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو ! اگر تم دشمن کے ساتھ لڑائی میں رسول اکرم کی مدد کرو گے تو دشمن پر غلبہ اور فتح نصیب کر کے تمہاری مدد کرے گا اور لڑائی میں تمہارے قدم جما دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ } ” اے اہل ِایمان ! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت اہم قانون ہے۔ اگر تم لوگ اللہ کے فرماں بردار بندے بن کر رہو گے ... ‘ اسی سے مدد مانگو گے ‘ اسی پر توکل ّکرو گے اور اس کے دین کے غلبے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لوگے تو وہ تمہیں بےسہارا اور بےیارومددگار نہیں چھوڑے گا ‘ بلکہ ایسی صورت میں ہر جگہ ‘ ہر گھڑی اس کی مدد آپ لوگوں کے شامل حال رہے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر تم لوگ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائو گے ‘ ان کی وفاداریوں کا دم بھرو گے ‘ انہیں اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھو گے ‘ تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دے گا۔ پھر تم اللہ سے رو رو کر بھی دعائیں کرو گے تو اس کے حضور تمہاری شنوائی نہیں ہوگی۔ اس کی عملی مثال ١٩٧١ ء کی پاک بھارت جنگ میں سامنے آئی تھی۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کی کامیابی کے لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر تو اتر کے ساتھ قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ مگر عین اسی وقت ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ تھی کہ وہ مدد اور حمایت کے لیے اللہ کے دشمنوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ان کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ یعنی دعائیں تو اللہ سے مانگی جا رہی تھیں لیکن بھروسا امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے پر تھا۔ لہٰذا دنیا نے دیکھ لیا کہ حرمین شریفین کے اندر مانگی گئی دعائیں بھی اللہ کے حضور درجہ قبولیت حاصل نہ کرسکیں اور سقوط ڈھا کہ کا بدترین سانحہ رونما ہو کر رہا۔ اس صورت حال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ قومی و ملکی سطح پر اتنی بڑی ہزیمت اور ذلت اٹھانے کے بعد بھی ہم نے اپنی روش تبدیل نہیں کی۔ چناچہ آج بھی ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نے بدستور اللہ کے باغیوں کے سامنے مدد کے لیے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں۔ ہمارے حکمران آج بھی انہی کو اپنا سرپرست سمجھتے ہیں اور انہیں کی مدد پر بھروسا کیے بیٹھے ہیں۔ ادھر پورے ملک کی معیشت ہے کہ بڑے دھڑلے ّسے سود پر چل رہی ہے۔ گویا ملک کے اندر ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھلم کھلا اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں بھلا کیونکر سنے گا اور کیونکر اس کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی ؟ بہر حال آیت زیر مطالعہ میں اس حوالے سے ہمارے لیے راہنمائی بھی ہے اور خوشخبری بھی کہ اگر تم اللہ کی اطاعت میں مخلص رہو گے ‘ اس کے دین کے جھنڈے کو تھامے رکھوگے اور اقامت دین کی جدوجہد میں اپنا تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ رہو گے تو وہ تمہاری مدد کے لیے ہر جگہ تمہارے ساتھ موجود ہوگا اور تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہارے قدم جمائے رکھے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 "If you help AIIah": "If you participate in the work of raising Allah's Word with your life and wealth." But this has a deeper meaning too, which we have explained in E. N. 50 of Surah Al-`Imran above.

سورة مُحَمَّد حاشیہ نمبر :12 اللہ کی مدد کرنے کا ایک سیدھا سادھا مفہوم تو یہ ہے کہ اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کیا جائے ۔ لیکن اس کا ایک غامض مفہوم بھی ہے جس کی ہم اس سے پہلے تشریح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، تفسیر آل عمران ، حاشیہ 50 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ١٠۔ اوپر مسلمانوں کو حکم تھا کہ جب منکر شریعت لوگوں سے مقابلہ ہو تو خوب دل کھول کر لڑو ان آیتوں میں فرمایا ‘ اے ایماندار لوگو اگر تم اوپر کے حکم کے موافق عمل کرکے اللہ کے دین کو مدد دو گے تو اللہ تعالیٰ غیب سے ہر طرح تمہاری مدد کرے گا اور لڑائی کے وقت تمہارے دل میں ایسی جرأت پیدا کر دے گا جس سے ... تمہارے قدم میدان جنگ میں جم جائیں گے جس طرح بدر کی لڑائی میں آسمان سے فرشتے بھیج کر اس نے تمہاری مدد کی اور میدان جنگ میں تمہارے قدم جما دیئے۔ آگے فرمایا جو لوگ اللہ کے دین کے منکر اور اس کے کلام کو جادو بتاتے ہیں ان کے دل میں اللہ تعالیٰ لشکر اسلام کا رعب پیدا کر دے گا اس لئے میدان جنگ میں ان کے قدم نہیں جمیں گے بلکہ ایسے لوگ ہمیشہ ٹھوکریں کھاتے رہیں گے اور ان کی سب کوشش رائیگاں جائے گی تعس کے معنی ٹھوکر کھا کر اوندھے منہ گر پڑنے کے ہیں حاصل مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے منکر ہیں وہ اسلام کی مخالفت کی لڑائی میں اور اسی طرح ہر کام میں ٹھوکریں کھا کر گرتے اور ہلاک ہوتے رہیں گے یہ ویسا ہی خفگی کا ارشاد ہے جیسا عبس و تولی میں قتل الانسان ما اکفرہ فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ناشکرا انسان مارا جائے صحیح بخاری ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عقبیٰ سے غافل دنیا داروں کے حق میں تعس عبد الدینار والدراھم کے لفظوں سے خفگی کے طور پر بددعا فرمائی ہے جس کا مطلب یہ ہے اشرفی اور روپیہ کے ایسے غلام جن کو سوائے مال کے جمع کرنے کے دنیا میں اور کچھ کام نہیں ایسے وگ اوندھے منہ گر کر ہلاک ہوجائیں گے آگے فرمایا یہ خفگی ان لوگوں پر اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ اللہ کے کلام کے منکر ہیں اور ایسے لوگوں کے نیک کام شرک کے سبب سے رائیگاں جائیں گے پھر فرمایا ان لوگوں نے ملک شام کے سفر میں قوم ثمود اور قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں کیا نہیں دیکھیں اگر نہیں دیکھیں تو اب دیکھ لیں اور یہ یاد رکھیں کہ ان نافرمان قوموں کے قدم بقدم چلنے والوں پر وہی آفتیں آنے والی ہیں جو ان قوموں پر آچکی ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(47:7) ان تنصروا اللہ ینصرکم : ان شرطیہ ہے تنصروا مضارع مجزوم (بوجہ عمل ان ) جمع مذکر حاضر، اللہ مفعول فعل تنصروا کا ۔ ینصرکم جواب شرط۔ ینصر مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط۔ صیغہ واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکرحاضر۔ اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا، یعنی اگر تم اللہ کے دین اور...  اس کے رسول کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے دشمنون کے خلاف فتح دے گا اور دین ودنیا کے امور میں تمہاری مدد کرے گا :۔ ویثبت اقدامکم۔ وائو عاطفہ یثبت مضارع واحد مذکر غائب۔ تثبیت (تفعیل) مصدر۔ جمائے رکھے گا۔ ثابت قدم رکھے گا۔ اقدامکم مضاف مضاف الیہ۔ مل کر مفعول یثبت کا۔ اور وہ تم کو ثابت قدم رکھے گا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 چناچہ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ کے دین کی مدد کی وہ دنیا میں غالب و باعزت رہے اور جب انہوں نے اس کے دین کی مدد چھوڑ دی تو وہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے دشمن ان پر غالب آگئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 7 تا 11 اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے مومنو ! اگر تم نے اللہ کے دین کی مدد کی تو اللہ نہ صرف دنیا اور آخرت میں تمہاری مدد کرے گا تمہارے قدموں کو جما دے گا ۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر و انکار کی زندگی کو اپنا رکھا ہے وہ آج دنیا میں اپنے آپ کو بہت کامیاب سمجھ رہے ہیں ا... ور زندگی کی راہوں میں بڑی تیزی سے چلتے نظر آرہے ہیں لیکن وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب یہ ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گریں اور جن کاموں کو وہ زندگی کی کامیابی سمجھ رہے ہیں اور ان کے نزدیک بہتر عمل تھے وہ سب اس سے غائب ہوجائیں گے اور ان کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر اس بات کو جو اللہ کی طرف سے نازل کی جاتی تھی اس کو برا سمجھتے تھے۔ ان کی اس روش نے ان کے اعمال کو غارت کر کے رکھ دیا ۔ اگر وہ زمین میں چل بھ کر دیکھتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ان سے پہلے ایسے لوگوں کا کتنا برا انجام ہوا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کو ماننے سے انکار کیا۔ اللہ نے ان کو جڑ و بنیاد سے کھود کر رکھ دیا جاس میں کافروں کے لئے کھلی ہوئی عبرت و نصیحت موجود ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تو ایمان والوں کا مالک و مولیٰ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ اور ہمدرد نہیں ہے۔ غزوہ احد کے موقع پر ابو سفیان نے غرور تکبر کے ساتھ یہ کہا تھا کہ ۔ لنا عزی ولا عزی لکم ہمارے پاس عزی ہے تمہاری پاس کوئی عزی نہیں ہے۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نثار صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کہ اس کو جواب دو کہ اللہ مولنا الا مولی لکم اللہ ہمارا مدد گار اور حامی و ناصر کوئی بھی نہیں ہے۔ اس موقع پر آپ نے اسی آیات کی تلاوت فرمائی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ مطلب یہ کہ مجموع بمقابلہ مجموع کے خواہ ابتداء ہی سے خواہ انتہا میں ثابت قدم رہ کر کفار پر غالب آجائے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو جنگ کے دوران کفار کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ لڑنے کا حکم دینے کے بعد ان کی مدد کرنے کی یقین دہانی اور اس کی بنیاد۔ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہاری مدد فرمائے گا اور ہر میدان میں تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ یاد رکھو ! کہ کفار کے لیے ہلاکت ہے اور ... ان کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو قبول کرنا پسند نہیں کیا۔ اس لیے ان کے اعمال غارت کردیئے جائیں گے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مجاہدین کو اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی ہے اور دوسری طرف کفار کے اعمال ضائع کرنے اور ان کی کوششوں کو ناکام کرنے کی خوشخبری دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو اپنی مدد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ غور فرمائیں ! کہ ” اللہ “ وہ ہے جو کسی لحاظ سے کسی کی مدد اور تعاون کا محتاج نہیں اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی کی معاونت اور مدد کا محتاج ہے وہ پرلے درجے کافر اور مشرک ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو فرمایا کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو ” اللہ “ تمہاری مدد فرمائے گا۔ اس ارشاد میں یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ اے مسلمانو ! جب تم دین کی حمایت میں لڑنے اور کمزوروں کی مدد کرتے ہو۔ سمجھو کہ تم اللہ کی مدد کرتے ہو۔ یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ جس دین کی سربلندی کے لیے مجاہد لڑتے ہیں وہ دین ” اللہ “ نے ہی نازل فرمایا ہے، کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم بھی اسی نے دیا ہے۔ اس لحاظ سے دین اور کمزوروں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ اَیَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِےْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوْا ےَارَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلاَ الْجِھَادُ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ لَا الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الاَّرَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ ےَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیءٍ ) (رواہ الترمذی : باب ماجَاءَ فِی الْعَمَلِ فِیْ اَیَّامِ الْعَشْرِ ، قال البانی صحیح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں کہ اس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے دنوں سے زیادہ پسند ہو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اللہ کی راہ میں لڑ نا بھی اس کے برابر نہیں، فرمایا نہیں اللہ کی راہ میں لڑنا بھی اس کے برابر نہیں، مگر وہ مجاہد جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا، پھر ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں ہوا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے دین کی مدد کرنا ” اللہ “ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر میدان میں اپنے بندوں کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ ٣۔ کفار کے لیے ہلاکت ہے اور ان کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے کیونکہ وہ ” اللہ “ کے نازل کردہ حق کو نہیں مانتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور اپنے بندوں کی مدد فرمائی ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کے مخالفوں کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کے دشمن کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦، ٦٧) ٣۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ٥۔ ” اللہ “ نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات سے نوازا اور روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرمائی۔ (البقرۃ : ٨٧) ٦۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٤٠) ٧۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٨۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم : ٥) ٩۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کے اس اعزاز ، ان سے اللہ کی رضامندی ، ان کی اس نگہبانی اور بلند مقامات کی اس فضا میں اہل ایمان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے لئے یکسو ہوجائیں اور اسلامی نظام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے گا اور اللہ کے دشمنوں اور تمہارے ... دشمنوں کے لئے تو ہلاکت ہی مقدر ہے۔ یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔ اقدامکم (٧) والذین کفروا ۔۔۔۔۔ اعمالھم (٨) ذلک بانھم کرھوا۔۔۔۔ اعمالھم (٩) (٤٧ : ٧ تا ٩) “ اے لوگوں ، جو ایمان لائے ہو ، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے تو ان کے لئے ہلاکت ہے اور اللہ نے ان کے اعمال کو بھٹکا دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے ، لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ”۔ مومن اللہ کی مدد کسی طرح کرتے ہیں ؟ تا کہ وہ اپنی شرط پوری کردیں اور اللہ جواب میں ان کی نصرت کرے اور ان کو ثابت قدم کر دے۔ اللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے لئے مخلص ہوجائیں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، نہ ظاہری شرک اور نہ خفی شرک ۔ اور وہ اللہ کے مقابلے میں کسی شخص پر اور کسی شے پر بھروسہ نہ کریں اور اللہ ان کے لئے ان کی ذات اور تمام محبوب چیزوں سے محبوب ہوجائے اور انسان کی خواہشات ، میلانات ، مرغوبات ، اس کی حرکات و سکنات ، اس کے خلجانات اور اس کی تمام سرگرمیوں میں اللہ حاکم ہوجائے۔ یہ ہے نفوس انسانی کی طرف سے اللہ کی نصرت۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسانی زندگی کے لئے ایک شریعت اور نظام زندگی تجویز کیا ہے اور یہ نظام اس زندگی اور اس کائنات کے لئے ایک خاص تصور پر تشکیل پایا ہے۔ اللہ کی نصرت یوں ہوتی ہے کہ اس کے نظام کی نصرت کی جائے اور پوری زندگی میں انسان اس نظام کو نافذ کر دے۔ یہ ہے اللہ کی نصرت ہماری حقیقی زندگی میں۔ یہاں دو فقرے بہت ہی اہم ہیں ، ان پر غور ضروری ہے۔ والذین قتلوا فی سبیل اللہ “ جو اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ”۔ دوسرا یہ کہ ان تنصروا اللہ “ اگر تم اللہ کی مدد کرو ”۔ ان دونوں حالات میں ، یعنی قتل ہونے میں اور نصرت میں یہ ضروری ہے کہ یہ اللہ کی راہ میں ہو۔ یہ ایک نہایت ہی واضح قابل توجہ نکتہ ہے لیکن جب کسی نظریہ پر صدیاں گزر جاتی ہیں تو اس کی اصل صورت مسخ ہوجاتی ہے۔ لوگ شہادت اور جہاد کے الفاظ تو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا حقیقی مفہوم اور شرائط ان کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ کوئی جہاد نہیں ہے ، کوئی جنت نہیں ہے ، کوئی شہادت نہیں ہے۔ مگر صرف اس وقت کہ وہ صرف اللہ کے لئے ہو۔ اللہ کی راہ میں ہو۔ صرف اللہ کے لئے رکا وہ ، اللہ کے نظام کی مدد کے لئے مرتا ہو ، اور اس نظام کو اپنی ذات اور اپنے منہاج حیات میں نافذ کرنا ہو۔ کوئی جہاد ، کوئی شہادت اور کوئی جنت نہیں ، الا یہ کہ یہ سب کچھ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ہو اور اس لیے کہ اللہ کا نظام لوگوں کی زندگیوں میں غالب ہو۔ ان کے اخلاق و طرز عمل میں نافذ ہو ، ان کے احوال اور قوانین اور دستور میں نافذ ہو۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ہے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو نمائش شجاعت کے لئے لڑتا ہے ، یا حمیت جاہلیہ کے لئے لڑتا ہے یا ریا کاری کے لئے لڑتا ہے۔ کیا یہ فی سبیل اللہ ہیں۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے جنگ کی محض اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو صرف وہ فی سبیل اللہ ہے ” (شیخین و ترمذی اور نسائی) ۔ اسلامی جہاد کا نہ کوئی اور جھنڈا ہے ، نہ کوئی اور مقصد ہے۔ اللہ کے لئے جو لڑتا ہے وہ بس اللہ ہی کے لئے لڑتا ہے۔ اس لیے جو شہید ہوتا ہے ، وہ وہی ہے جو اسی کے لئے شہید ہوتا ہے۔ صرف ایسے شہداء کے لئے جنت کا وعدہ ہے۔ صرف یہی جھنڈا اور یہی مقصد مقبول ہے۔ وہ نہیں جو صدیاں گزرجانے کے بعد کوئی نئے جھنڈے بن گئے ، کچھ نئے مقاصد سامنے آگئے اور کچھ نئے نام رکھ لیے گئے ! داعیاں حق کو اس اس واضح بات کو سمجھ لینا چاہئے اور ہمارے معاشروں کے اندر جہاد و قتال کے تصور میں جو انحراف واقع ہوگیا ہے اس کا خیال رکھنا اور اسے درست کرنا چاہئے ۔ نئے بتوں اور ان کے نئے جھنڈوں کے لئے بھی جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے عقیدے اور جہاد کے مفہوم کو واضح اور شفاف رکھیں۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ جہاد صرف وہی ہے جو اللہ کے کلمے کے بلند کرنے کے لئے ہو۔ انسانی نفس میں کلمے کی بلندی ، انسانی ضمیر میں اس کلمے کی بلندی اخلاق اور طرز عمل میں اس کلمے کی بلندی ، نظم مملکت اور اداروں میں کلمے کی بلندی ، تعلقات اور روابط میں اللہ کے کلمے کی بلندی اور زندگی کے ہر موڑ اور ہر رخ میں کلمۃ اللہ کی بلندی اور سر بلندی ۔ اس کے سوا جو نعرہ ہے وہ اللہ نہیں ہے ، وہ شیطان کے لئے ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لئے نہ شہادت ہے ، نہ جنت ہے ، نہ اللہ کی نصرت ہے ، نہ ثابت قدمی ہے۔ محض دھوکہ اور فریب ہے۔ بچئے دور جدید کی بت گری سے اور آزدی سے۔ اگر دوسرے لوگوں کے لئے جو داعی الی اللہ نہیں اس قسم کا صاف ستھرا تصور جہاد و قتال مشکل ہے ، تو داعیان حق کو تو اپنے خیالات اور اپنا شعور ، ان غلط تصورات سے صاف کرنا چاہئے۔ داعیان اسلام کو تو دور جدید کے نعروں سے دور رہنا چاہئے جو ہدایتہ فی سبیل اللہ نہیں ہیں۔ ۔۔۔ تو یہ تو اللہ کی طرف سے ایک شرط ہے اپنے بندوں پر ، جسے اللہ کی جانب سے لازم کیا ہے ، تو اس کے مقابلے میں اللہ نے ۔۔۔۔ یہ لازم کیا ہے کہ وہ ایسے بندوں کی مدد کرے گا۔ وہ ان کے قدم مضبوط کر دے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا۔ اگر کچھ عرصے کے لئے بظاہر نصرت خدا وندی آتی ہوئی نظر نہ آئے تو اس کے بھی کچھ دوسرے اسباب ہوتے ہیں۔ نصرت اور قدم جمانے سے قبل ان کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ (مزید دیکھئے تفسیر ان اللہ یدافع ( سورة حج کی تشریح ) یہ اللہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا اس کے بندوں نے شرط پوری کردی ہے یا نہیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ ہم جواب شرط کے کلمات پر بھی غور کرلیں۔ ینصرکم ویثبت اقدامکم “ وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا ”۔ سب سے پہلے تو انسان کی سوچ ادھر جاتی ہے کہ نصرت سے پہلے ہی قدم جما دئیے جاتے ہیں۔ اور قدم جمانے کے بعد ہی نصرت آتی ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔ لیکن یہاں نصرت آنے کے بعد قدم جمانے میں ایک دوسری حالت اور ایک دوسرے مفہوم کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یعنی جب اللہ کی نصرت آجائے اور مومنین غالب ہوجائیں تو اس کے بعد قدم جمانا مطلب ہے۔ اور یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ کفرو ایمان کا معرکہ اللہ کی نصرت اور فتح آجانے کے بعد ختم نہیں ہوجاتا۔ حق و باطل کی کشمکش پھر بھی جاری رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذات اور عملی زندگی میں نصرت کی الگ ذمہ داریاں ہیں۔ کبرو غرور سے اجتناب ، سستی ، اور وھن (کمزوری) سے اجتناب بہت سے لوگ مشکلات برداشت کرتے ہیں لیکن نصرت اور فتح کے بعد کم لوگ قدم جما سکتے ہیں۔ اور یہاں شاید اسی کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم !  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مسلمانوں سے مدد کا وعدہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ٠٠٧﴾ اس میں یہ بتادیا کہ تم اللہ کی مدد کرو گے یعنی اس کے دین کی بلندی کے لیے کوششوں میں لگو گے (جس کا وہ محتاج نہیں ہے) تو وہ تمہاری مدد فرمائ... ے گا اور ثابت قدم رکھے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27: ” یا ایہا الذین۔ الایۃ “ بیان حال مؤمنین دشمن کے مقابلے میں ایمان والوں کی فتح و ظفر کا راز بیان فرمایا۔ اللہ کی مدد کرنے سے مجازاً اللہ کے دین اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنا مراد ہے (روح) اے ایمان والو ! اگر تم مال و جان سے اللہ کے دین اور اللہ کے سول کی مدد کروگے، اور محض...  رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد کروگے، تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا دشمن کے مقابلے میں تمہیں ثبات و استقلال عطا فرمائیگا اور فتح و ظفر سے تمہیں ہمکنار فرمائے گا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اے ایمان والو ! اگر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا یعنی تم کو دشمنوں پر غالب کرے گا اور میدان جہاد میں تم کو ثابت قدمی عطافرمائے گا۔