Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 12

سورة الفتح

بَلۡ ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ یَّنۡقَلِبَ الرَّسُوۡلُ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِلٰۤی اَہۡلِیۡہِمۡ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ ظَنَنۡتُمۡ ظَنَّ السَّوۡءِ ۚ ۖ وَ کُنۡتُمۡ قَوۡمًۢا بُوۡرًا ﴿۱۲﴾

But you thought that the Messenger and the believers would never return to their families, ever, and that was made pleasing in your hearts. And you assumed an assumption of evil and became a people ruined."

۔ ( نہیں ) بلکہ تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعًا ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ أَبَدًا ... Nay, but you thought that the Messenger and the believers would never return to their families, `for your lagging behind was not an excusable act or just a sin. Rather, your lagging behind was because of hypocrisy and because you thought that the Muslims would be killed to the extent of extermination, their lives would be extinguished and none of them will ever come back,' ... وَزُيِّنَ ذَلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ ... and that was made fair seeming in your hearts, ... وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا and you did think an evil thought and you became a people Bur. (going for destruction), according to Abdullah bin Abbas, Mujahid and several others. Qatadah explained Bur to mean, corrupt and some said that it is a word used in the Arabic dialect of the area of Oman. Allah the Exalted then said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 اور وہ یہی تھا کہ اللہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ وہی پہلا گمان ہے، تکرار تاکید کے لئے ہے۔ 12۔ 2 بور، بائر کی جمع ہے ہلاک ہونے والا یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقدر ہلاکت ہے اگر دنیا میں یہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے تو آخرت میں تو بچ کر نہیں جاسکتے وہاں تو عذاب ہے ہر صورت میں بھگتنا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] منافقوں کا گمان کہ مسلمان بچ کر نہ لوٹ سکیں گے :۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نہ تمہارا اللہ پر اعتماد ہے اور نہ اس کے وعدوں پر۔ تمہارا بس یہ گمان تھا کہ یہ مٹھی بھر لوگ بچ کر واپس نہ آسکیں گے۔ اور تمہارا یہ گمان ہی نہ تھا تمہاری آرزو بھی یہی تھی۔ تمہیں اس بات پر مطلق شرم نہ آئی کہ تم اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے معاملہ میں کس قدر بدباطنی سے ایسی سوچ سوچ رہے تھے۔ پھر دوسرا جرم یہ کر رہے ہو کہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے بنا کر اور اللہ کے رسول سے استغفار کی التجا کرکے اپنی بدباطنی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہو۔ تمہارا یہ خبث باطن اور جھوٹ آخر تمہیں تباہ کرکے رہے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) بل ظنتم ان لن ینقلب الرسول والمومنون…: یعنی تمہارے پیچھے رہنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ تم نے سمجھا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان، جو احرام باندھ کر جا رہے ہیں، پورا اسلحہ بھی ساتھ لے کر نہیں جا رہے اور اس دشمن کے پاس جا رہے ہیں جس نے سینکڑوں میل دور سے آکر مدینہ میں ان کے کئی آدمی قتل کردیے اور سخت نقصان پہنچایا، یہ وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے، کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا۔ (٢) وزین ذلک فی قلوبکم، یعنی تمہیں اپنے پیچھے رہنے پر کوئی ندامت بھی نہ تھی، بلکہ دل میں خوش تھے کہ ہم نے بہت اچھا کیا کہ ساتھ نہیں گئے۔” یہ بات تمہارے دلوں میں مزین کردی گئی “ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے فعل مجہول ” زین “ کا لفظ استعمال فرمایا۔ مزین کس نے کیا، اس کی صراحت نہیں فرمائی، کیونکہ وہ متعدد چیزیں ہیں، مثلاً دنیا کی مرغوبات، آدمی کا نفس شیطان اور برے ساتھی وغیرہ۔ (٣) وکنتم قوماً بوراً :” بوراً “” بائر “ کی جمع ہے جو ” بار یبور بوراً “ (ن) سے اسم فاعل ہے، ہلاک ہونے والے یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم شروع سے اپنی نامردی اور بزدلی کی وجہ سے تھے ہی ہلاک ہونیو الے، کیونکہ بہادر مومن تو ایک دفعہ مرتا ہے جبکہ بزدل منافق ہر گھڑی مرتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یحسبون کل صیحۃ علیھم) (المنفاقون : ٣) ” ایسے بزدل ہیں کہ) ہر اونچی آواز کو اپنے آپ پر آنے والی (آفت) ہی سمجھتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓى اَہْلِيْہِمْ اَبَدًا وَّزُيِّنَ ذٰلِكَ فِيْ قُلُوْبِكُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ۝ ٠ ۚ ۖ وَكُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا۝ ١٢ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] بور البَوَار : فرط الکساد، ولمّا کان فرط الکساد يؤدّي إلى الفساد۔ كما قيل : كسد حتی فسد۔ عبّر بالبوار عن الهلاك، يقال : بَارَ الشیء يَبُورُ بَوَاراً وبَوْراً ، قال عزّ وجل : تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر/ 29] ، وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر/ 10] ، وروي : «نعوذ بالله من بوار الأيّم» ، وقال عزّ وجل : وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم/ 28] ، ويقال : رجل حائر بَائِر، وقوم حور بُور . وقال عزّ وجل : حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان/ 18] ، أي : هلكى، جمع : بَائِر . البوار ( ن ) اصل میں بارالشئ بیور ( ، بورا وبورا کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ مندا پڑنے کے ہیں اور چونکہ کسی چیز کی کساد بازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ کہا جانا ہے کسد حتیٰ فسد اس لئے بوار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر/ 29] اس تجارت ( کے فائدے ) کے جو کبھی تباہ نہیں ہوگی ۔ وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر/ 10] اور ان کا مکرنا بود ہوجائیگا ۔ ایک روایت میں ہے (43) نعوذ باللہ من بوارالایم کہ ہم بیوہ کے مندا پن سے پناہ مانگتے ہیں یعنی یہ کہ اس کے لیے کہیں سے پیغام نکاح نہ آئے ۔ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم/ 28] اور اپنی قوم کو تباہی کے گھرا تارا ۔ رجل جائر بائر مرد سر گشتہ خود رائے ۔ جمع کے لئے حور بور کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ ؛۔ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان/ 18] یہاں تک کہ وہ تیری یا د کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے ۔ میں بوبائر کے جمع ہے بعض نے کہا ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد و جمع دونوں کی صفت واقع ہوتا ہے جیسے ۔ رجل بورو قوم بور

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ یہ ہے کہ اے گروہ منافقین تم نے یہ سمجھا کہ رسول اکرم اور مومنین حدیبیہ سے مدینہ منورہ کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں پختہ ہوگئی تھی اسی وجہ سے تم پیچھے رہے اور تم نے یہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مدد نہیں کرے گا اور تم برباد ہی ہو کہ تمہارے دل فاسد اور سخت ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓی اَہْلِیْہِمْ اَبَدًا } ” بلکہ تم لوگوں نے یہ گمان کیا کہ اب رسول اور اہل ِایمان اپنے گھر والوں کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے “ تمہارا خیال تھا کہ ان لوگوں کا دماغ چل گیا ہے جو خود چل کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور یہ کہ قریش ِ مکہ انہیں جیتے جی کبھی واپس نہیں آنے دیں گے۔ { وَّزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ } ” اور یہ بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے بہت برا گمان کیا ۔ “ { وَکُنْتُمْ قَوْمًام بُوْرًا } ” اور تم ہو ہی تباہ ہونے والے لوگ۔ “ اس سے پہلے سورة محمد میں منافقین کے جس طرز عمل کا ذکر ہوا تھا وہ ٢ ہجری کا دور تھا جبکہ ابھی قتال کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا۔ اس دور میں وہ لوگ ” اقدام “ سے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکمت عملی کے مقابلے میں صلح جوئی اور امن پسندی کی باتیں کرتے تھے۔ اب ان آیات میں ان کی ٦ ہجری کے زمانے کی سوچ کی عکاسی کی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is,"You were delighted to think that you had saved yourselves from the danger into which the Messenger and his believing supporters were going. You thought you had done so by dint of your great wisdom; and you also did not feel any compunction in rejoicing at the thought that the Messenger and the believers would not return alive from their expedition. You did not feel uneasy in spite of your claim to the Faith but were pleased to think that you did not put yourselves in the danger by accompanying the Messenger. " 24 The word ba- ir (pl.bur in the original) has two meanings: (1) A sinful, perverted and evil-minded person, who is incapable of doing anything good; and (2) one who is doomed to an evil end, who is following the path of destruction,

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :23 یعنی تم اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ رسول اور اس کے ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے تم نے اپنے آپ کو بچا لیا ۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام تھا ۔ اور تمہیں اس بات پر بھی خوش ہوتے ہوئے کوئی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے ۔ ایمان کا دعوی رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا ۔ سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :24 اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ قَوْماً بُوْراً ۔ بور جمع ہے بائر کی ۔ اور بائر کے دو معنی ہیں ایک ، فاسد ، بگڑا ہوا آدمی ، جو کسی بھلے کام کے لائق نہ ہو ، جس کی نیت میں فساد ہو ۔ دوسرے ہالک ، بد انجام ، تباہی کے راستے پر جانے والا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: ان منافقین کا خیال یہ تھا کہ مسلمان چاہے عمرے کے ارادے سے جارہے ہوں ؛ لیکن جنگ ضرور ہوگی، اور قریش کی طاقت اتنی بڑی ہے کہ مسلمان وہاں سے زندہ واپس نہیں آسکیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:12) بل ظننتم : بل حرف اضراب ظننتم ماضی جمع مذکر۔ ظن (باب نصر) مصدر سے۔ تم نے خیال کیا۔ تم نے یقین جانا۔ بات صرف یہی نہیں تھی کہ تم کو تمہارے اموال و اہل و عیال نے مشغول رکھا۔ یا تم اہل مکہ سے لڑنے سے کراتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تم یہ یقین بھی کر رکھا تھا (کہ رسول اور اس کے ہمراہی مومن کبھی لوٹ کر اپنے گھروں کو نہیں آئیں گے) ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اہلیہم ابدا : ان مصدریہ ینقلب مضارع منفی تاکید بلن۔ صیغہ واحد مذکر غائب (یہاں جمع کے لئے استعمال ہوا ہے) منصوب بوجہ عمل لن۔ انقلاب (انفعال) مصدر بمعنی لوٹنا۔ وہ ہرگز نہیں لوٹے گا۔ ابدا ہمیشہ، زمانہ مستقبل غیر محدود۔ ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے۔ تاکید کے لئے آیا ہے۔ زین۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ تزیین (تفعیل) مصدر۔ وہ سنوارا گیا۔ مزین کیا گیا۔ وہ اچھا دکھایا گیا۔ تزیین سنوارنا۔ آراستہ کرنا۔ زینت دینا۔ ذلک : ای ظنہم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اہلیہم ابدا : ان کا یہ ظن کہ رسول اور اس کے ہمراہی مومن کبھی لوٹ کر اپنے گھروں کو نہیں آئیں گے۔ وظننتم ظن السوء اور تم نے بڑے بڑے گمان کئے تھے۔ یعنی تم نے خیال کیا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی مشرکوں کا لقمہ بن جائیں گے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق برے برے گمان کر رکھے تھے۔ وکنتم قوما بورا موصوف و صفت مل کر کان کی خبر۔ بورا ہلاک ہونے والے۔ بائر کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہلاک ہونے والے ہیں۔ جو شخص حیران و پریشان ہو کہ نہ کسی کا کہنا سنے نہ کسی کی طرف متوجہ ہو ایسے شخص کے لئے عرب بولتے ہیں رجل حائر بائر۔ اور ایسی قوم کو کہتے ہیں قوم حور بور۔ پس جیسے حور حائر کی جمع ہے ایسے ہی بور بائر کی جمع ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد اور جمع دونوں کی صفت میں بولا جاتا ہے چناچہ رجل بور اور قوم بور بولتے ہیں صاحب ضیاء القرآن حاشیہ میں فرماتے ہیں :۔ علامہ جوہری ” لفظ بور کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البور : الرجل الفاسد الھالک الذی لاخیر فیہ۔ یعنی بور اس شخص کو کہتے ہیں جو فاسد اور تباہ حال ہو جس میں نیکی اور بھلائی چناچہ عبداللہ بن العزبعری جب مشرف باسلام ہوئے تو بارگاہ رسالت میں عرض کیا :۔ یارسول الملیک ان لسانی راتق ما فتقت اذا نابور۔ یعنی اے مالک الملک کے رسول جب میں گمراہ اور تباہ حال تھا اس وقت میری زبان نے جو چاک کئے اب میں ان کو سینا اور رفو کرنا چاہتا ہوں “۔ یہ مؤنث کی صفت بھی واقع ہوتا ہے : کہتے ہیں امرأۃ بور تباہ حال عورت جمع کے لئے بھی قوم بور ای ہلکی۔ یعنی اجڑی ہوئی قسم۔ اس کے بعد جوہری لکھتے ہیں کہ بعض نے کہا ہے کہ بور جمع ہے اس کا واحد بائر ہے۔ مثل حائل و ھول لیکن اخفش نے اس کی تردید کی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی سب کے سب قریش کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور ایک یخص بھی زندہ بچ کر نہ آئے گا 4 یعنی شیطان نے تمہارے دلوں میں یہ خیال خوشنما بنا کر ڈال دیا تھا اور تم نے اسے قبول کرلیا۔ 5 یعنی یہ گمان کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی ہرگز مدد ہیں کرے گا۔ 6 یعنی اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کرلیں۔ یہ ’ دبائر “ ‘ کی جمع ہے اور ” بائر “ اس غلط کا کار آدمی کو کہتے ہیں جس میں کسی قسم کی خیر نہ ہو۔ اس لئے یہ لفظ نہایت شریر اور فسادی آدمی پر بھی بولا جاتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بل ظننتم ان لن ۔۔۔۔۔۔ قوما بورا (٤٨ : ١٢) “ بلکہ تم نے یوں سمجھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں ہرگز پلٹ کر نہ آسکیں گے اور یہ خیال تمہارے دل کو بھلا لگا اور تم نے بہت برے گمان کئے اور تم سخت بدباطن لوگ ہو ”۔ یوں اللہ ان لوگوں کو عریاں کر کے چھوڑ دیتا ہے۔ ان کی نیت اور دلوں کا حال ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے جو اندازے لگا رکھے تھے وہ بھی ان کو بتا دئیے گئے ۔ اللہ کے بارے میں ان کے دلوں میں جو سوئے ظن تھا وہ بھی بتا دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ اپنے ساتھیوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں ۔ لہٰذا مدینہ کو واپس آنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ان لوگوں کے منہ میں جا رہے ہیں جنہوں نے ان کے گھر میں آکر ان سے جنگ کی ہے اور انہوں نے مدینہ میں آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو قتل کیا ہے۔ ان کا اشارہ احد اور احزاب کی طرف تھا۔ ان لوگوں نے اللہ کی قوتوں اور اللہ کی مہربانیوں کا حساب نہ لگایا تھا کہ اللہ اپنے مخلص بندوں پر کیا کیا کرم کرتا ہے۔ نیز انہوں نے معاملات کو سیکولر طریقے سے سوچا تھا اور ان کے دل اسلامی نظریہ حیات سے خالی تھے ، ان کے نزدیک فرض اور ڈیوٹی تو کوئی چیز ہی نہ تھی۔ حالانکہ اسلامی نظریہ کے کچھ تقاضے تھے اور ان کے لئے ہر قربانی ہیچ سمجھی جانی چاہئے تھی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور آپ کی معیت کو نفع و ضرر ، نفع و نقصان کے حساب و کتاب سے برتر ہونا چاہئے تھا۔ یہ تو وہ فریضہ تھا جسے نتائج کی پرواہ کئے بغیر ان کو ادا کرنے چاہئے تھا۔ بہرحال انہوں نے بدگمانیاں کیں اور بدظنی اور بدگمانی ان کے لئے خوشنما بنا دی گئی۔ ان کو اس بدگمانی کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آتا تھا۔ انہوں نے اس بدظنی کے سوا کسی دوسرے واقعہ یا کسی دوسرے رخ کے بارے میں سوچا ہی نہیں ، اور یہی ان کی جانب سے سوء ظن تھا۔ یہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ ان کے دل برے تھے۔ ان کو یہاں “ قوم بور ” کہا گیا ہے۔ یہ عجیب انداز تعبیر ہے۔ “ بور ” اس زمین کو کہتے ہیں جو بنجر ہو اور اس میں کوئی روئیدگی نہ ہو۔ نہ کوئی درخت اور پھل ہوں ، نہ کوئی سنہری فصل ہو۔ جس دل میں حسن ظن کی سر سبزی نہ ہو ، پھر اللہ کے بارے میں پرامید نہ ہو اور اس کے اندر کوئی حسن ظن نہ ہو ، تو وہ بنجر ہے ، وہ مردہ ہے اور آخر کار اس نے برباد اور تباہ ہونا ہے۔ جماعت مومنہ کے بارے میں آج بھی بعض لوگ اس انداز سے سوچتے ہیں ، اس قسم کے لوگ جس طرح مدینہ کے اردگرد بستے تھے ، جن کے دل خشک تھے اور ان میں زندگی کی روح نہ تھی۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ باطل پرستوں کا پلڑا بھاری ہے اور دنیا کی زیادہ قوتیں اہل شر اور اہل باطن کے ساتھ ہیں۔ نیک لوگ تعداد میں بہت کم ہیں ، یا وسائل کے لحاظ سے غریب ہیں ، یا مرتبہ اور مال و دولت کے اعتبار سے کم ہیں۔ یہ دیہاتی ، بدوی اور اس قسم کے لوگ ہر زمان و مکان میں یہی کچھ سوچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ کچھ یوں ہوتی ہے کہ اہل ایمان یا اسلام کے چاہنے والوں کا مقابلہ چونکہ بڑی قوتوں سے ہے اور یہ قوتیں بظاہر بہت ہی پھولی ہوئی ہیں لہٰذا ان مٹھی بھر اسلام والوں کی خیر نہیں ہے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے۔ ایسے لوگ ہر وقت یہ توقع رکھتے ہیں کہ آج یا کل ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ اور یہ دعوت ہی ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ بطور احتیاط اس راہ سے جدا دوسرے راستے پر چلتے ہیں۔ لیکن اللہ اس قسم کے لوگوں کے سوء ظن کو ہمیشہ ناکام بنا دیتا ہے اور اللہ اپنے فضل و کرم کے حالات کو تبدیل فرماتا ہے اور اپنی تدابیر سے اپنے بندوں کے لئے راہ ہموار کردیتا ہے۔ اللہ اپنے پیمانوں سے ناپتا ہے ، جو حقیقی پیمانے ہیں۔ اور جو اللہ کے قوی ہاتھ میں ہیں۔ وہ بعض لوگوں کو گراتا ہے اور بعض کو اٹھاتا ہے اور کافرین ، منافقین اور اللہ کے بارے میں سوئے ظن رکھنے والوں کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا۔ اور اس قسم کے لوگ ہر دور اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ اصل ترازو ایمان کا ترازو ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بدوی مسلمانوں کو کہتا ہے کہ اس ترازو سے تولو ، اور اس ترازو کے مطابق ہی اعمال کی جزاء تجویز فرماتا ہے ، اللہ کی رحمت اس ترازو کے ساتھ ہے۔ فرصت کے لمحات قلیل ہیں ، اللہ کی رحمت اور مغفرت کو حاصل کرو اور فائدہ اٹھاؤ !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی جو جھوٹی عذر خواہی اور حیلہ بازی کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی ضرر یا نفع پہنچانا چاہے تو وہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے آنے والے کسی فیصلے کے بارے میں کچھ اختیار رکھتا ہو، جب اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنے کے لیے حکم ہوگیا تو ساتھ جانا ضروری تھا، آپ کے ساتھ نہ جانے کی صورت میں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرر پہنچ جائے تو اس کو کوئی بھی دفع نہیں کرسکتا بات وہ نہیں ہے جو بطور معذرت پیش کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی سب خبر ہے تم تو یہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی اہل ایمان جو سفر میں جا رہے ہیں یہ کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے دشمن ان کو بالکل ختم کردیں گے یہ بات تمہارے لیے شیطان نے مزین کردی اور تمہارے دلوں میں بیٹھ گئی اور تم نے برا خیال کرلیا کہ یہ لوگ ہلاکت کی راہ پر جا رہے ہیں اگر کسی کے جانے کا ارادہ بھی تھا تو تم نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ کہاں جا رہے ذرا انتظار کرو دیکھو ان کا کیا ہوتا ہے ؟ ﴿وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا ٠٠١٢﴾ اور تم اپنے اس گمان کی وجہ سے اور ساتھ نہ جانے کی وجہ سے بالکل تباہ و برباد ہوگئے۔ (معالم التنزیل) قولہ تعالیٰ وکنتم قوما بورا قال صاحب الروح ای ھالکین لفساد عقیدتکم وسوء نیتکم مستوجبین سخطہ تعالیٰ و عقابہ جل شانہٗ وقیل ای فاسدین فی انفسکم وقلوبکم ونیاتکم، ا ھ یقال قوم ” بور “ ھل کی وھو جمع بائر مثل حائل وحول وقدبار فلان ای ھلک وابارہ اللّٰہ ای اھل کہ ومنہ قولہ تعالیٰ تجارة لن تبور وقولہ تعالیٰ واحلوا قومھم دار البوار (راجع مفردات الراغب و تفسیر القرطبی) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ﴿ قَوْمًۢا بُوْرًا ﴾ کا مطلب ہے تم ہلاک ہونے والے تھے اپنے عقیدے کے فاسد ہونے اور اپنی نیتوں کے بد ہونے کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عتاب کے مستحق تھے بعض نے کہا تم اپنے نفسوں اور دلوں میں فاسد تھے، کہا جاتا ہے ” قوم بور “ یعنی ہلاک شدہ بور جمع ہے بائر کی جیسے حائل کی جمع حول ہے بار فُلانٌ کا معنی ہے ہلاک ہوگیا اور ابارہ اللہ کا معنی ہے اللہ اسے ہلاک کرے اور اسی سے ہے اللہ تعالیٰ کا قول ﴿تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ٠٠٢٩﴾ اور ﴿ وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ٠٠٢٨﴾

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” بل ظننتم۔ الایۃ “ یقولون بالسنتہم لخ کیلئے بمنزلہ تفسیر ہے۔ ان کے دلوں میں کچھ اور ہے لیکن زبانوں سے کچھ اور ہی کہتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ اس خیال کی بناء پر سفر عمرہ میں آپ کے ہمراہ نہیں گئے تھے کہ مشرکی کے تمام قبائل مل کر پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں کا وہیں خاتمہ کردیں گے اور ان میں سے کوئی بھی اپنے گھروں کو زندہ سلامت واپس نہیں آسکے گا۔ اس لیے اگر ہم بھی ان کے ہمراہ گئے تو وہیں مارے جائیں گے۔ اور اس خیال کو انہوں نے نہایت معقول سمجھا اور یہ بات ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگئی اور وہ اس بدگمانی میں مبتلا ہوگئے کہ اللہ پیغمبر (علیہ السلام) اور مسلمانوں کی مدد نہیں کرے گا۔ اصل میں یہ لوگ تباہ شدہ اور عذاب الٰہی کے مستوجب ہیں۔ یہ سارے شکوک ان کے فساد عقیدہ اور سوء نیت سے پیدا ہو رہے تھے۔ ” قوما بورا “ ھالکین لفساد عقیدتکم وسوء نیتکم مستوجبین سخطہ تعالیٰ و عقابہ جل شانہ (روح ج 26 ص 100) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) یہ بات نہیں ہے بلکہ تم نے یہ گمان کرلیا تھا کہ اب رسول اور ان کے ہمراہی مسلمان اپنے گھروں میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں آراستہ اور خوش نما کردی گئی ہے یعنی یہ گمان تم کو اچھا اور بھلا بھی معلوم ہوا کیونکہ دل کی خواہش کے مطابق تھا اور تم نے طرح طرح کی بدگمانیاں کیں اور برے برے گمان کئے اور تم لوگ ہوگئے ہلاک و برباد ہونے والے۔ یعنی اصل اقعہ یہ ہے کہ تم نے تو یہ سمجھ لیا تھا کہ اب پیغمبر اور مسلمان مکہ سے واپس آنے ہی کے نہیں کیونکہ وہاں جنگ ہوگی اور یہ وہاں سب کے سب کام آجائیں گے وہاں کفار کی تعداد زیادہ ہوگی اور یہ کم ہوں گے لہٰذا اب لوٹ کر آنے کا کوئی سوال نہیں اور برے برے گمان کررہے تھے۔ وزین ذلک فی قلوبکم۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ گمان دل کو بھلا لگ رہا تھا اور یہی گمان خوشنما اور دل کو بھارہا تھا کہ بس جی ایسا ہی ہوگا۔ اسی بدگمانی نے تم کو مستحق عذاب قرار دیا۔ اور تم ہلاک ہونے والے ہوگئے۔ گمان بدیہی کہ کافر غالب ہوں گے مسلمان مارے جائیں گے اور اسلام ختم ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ) وزین ذلک فی قلوبکم یعنی شیطان کی طرف سے اس گمان کو آراستہ کیا گیا۔