Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 13

سورة الفتح

وَ مَنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ فَاِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَعِیۡرًا ﴿۱۳﴾

And whoever has not believed in Allah and His Messenger - then indeed, We have prepared for the disbelievers a Blaze.

اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو ہم نے بھی ایسے کافروں کے لئے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَن لَّمْ يُوْمِن بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ... And whosoever does not believe in Allah and His Messenger, Allah states here that whoever does not purify his actions outwardly and inwardly for Allah's sake, ... فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا then verily, We have prepared for the disbelievers a blazing Fire. then Allah the Exalted will punish him in the Blazing Fire, even if he pretends to show people that he follows the faith, contradicting his true creed. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے بدظنی رکھے یا مسلمان ہونے کے باوجود اس کی ہمدردیاں اسلام دشمن گروہ کے ساتھ ہوں وہ ایماندار نہیں رہتا بلکہ غیر مومن ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اسی آیت کا اگلا حصہ یہ وضاحت کر رہا ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے اور اسے آخرت میں کافروں جیسا ہی عذاب ہوگا۔ اگرچہ اس دنیا میں ایمانداروں میں ہی ملا جلا رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ومن لم یومن باللہ و رسولہ …: اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے متعلق براگمان رکھے، مسلمان ہونے کے باوجود مسلمانوں کے نقصان پر اور اپنی جان بچانے پر خوش ہو وہ مومن نہیں بلکہ کافر اور اللہ تعالیٰ نے ایسے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کلمہ اسلام کہنے اور مسلمانوں کے ساتھ مسلمان بن کر رہنے کی وجہ سے دنیوی احکام میں انہیں مسلمان ہی سمجھا جائے گا، مگر آخرت میں ان کے لئے کھلے کافروں سے بھی سخت عذاب تیار ہے، فرمایا :(ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار) (النسائ : ١٣٥)” بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا۝ ١٣ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شخص سچائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے گا سو ہم نے کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { وَمَنْ لَّمْ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَاِنَّـآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا } ” اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ رکھے تو ہم نے ان کافروں کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 Here, Allah in clear words is declaring alI such people disbelievers and devoid of the faith, who are not sincere with regard to AIlah and His Religion, who shirk endangering their interests, their lives and wealth for the sake of Allah's Religion when the time comes of their trial and test. But one should remember that this is not the .sort of disbelief on the basis of which somebody in the world may be regarded as excommunicated from Islam, but this is the disbelief because of which he will be declared a disbeliever in the Hereafter. The reason is that the Holy Prophet even after the revelation of this verse did not regard as outside Islam those people in respect of whom it was sent down, nor treated them like the disbelievers.

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :25 یہاں اللہ تعالی ایسے لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر اور ایمان سےخالی قرار دیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہ ہوں اور آزمائش کا وقت آنے پر دین کی خاطر اپنی جان و مال اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے سے جی چرا جائیں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ وہ کفر نہیں ہے جس کی بنا پر دنیا میں کسی شخص یا گروہ کو خارج از اسلام قرار دے دیا جائے ، بلکہ وہ کفر ہے جس کی بنا پر آخرت میں وہ غیر مومن قرار پائے گا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ، جن کے بارے میں یہ نازل ہوئی تھی ، خارج از اسلام قرار نہیں دیا اور نہ ان سے وہ معاملہ کیا جو کفار سے کیا جاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:13) ومن لم یؤمن باللّٰہ ورسولہ : من شرطیہ اور جملہ شرط ہے۔ لم یؤمن مجارع نفی جحد بلم صیغہ واحد مذکر غائب اور جو ایمان نہیں لایا اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ فانا اعتدنا للکفرین سعیرا۔ جملہ جواب شرط ہے ف جواب شرط کے لئے اعتدنا۔ ماضی کا صیغہ جمع متکلم اعتاد (افعال) مصدر ۔ ہم نے تیار کر رکھا ہے۔ سعیرا : بروزن فعیل بمعنی مفعول ہے دھکتی ہوئی آگ، دوزخ سعر (باب فتح) مصدر سے۔ بمعنی (آگ یا جنگ) بھڑکانا۔ فائدہ : آیت ان مخلفین کے متعلق ہے جو ایمان کا دعوی رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی بہانے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ عمرہ کے لئے نہیں گئے تھے۔ مولانا مودودی حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ :۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر اور ایمان سے خالی قرار دیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہ ہوں اور آزمائش کا وقت آنے پر دین کی خاطر اپنی جان و مال اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے سے جی چرائیں ۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ وہ کفر نہیں ہے جس کی بنا پر دنیا میں کسی شخص یا گروہ کو خارج از اسلام قرار دیا جائے بلکہ یہ وہ کفر ہے جس کی بناء پر آخرت میں وہ غیر مومن قرار پائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو جن کے بارے میں یہ نازل ہوئی تھی خارج از اسلام قرار نہیں دیا تھا۔ اور نہ ان سے وہ معاملہ کیا جو کفار سے کیا جاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 جیسا کہ تم نہیں لائے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن لم یومن ۔۔۔۔ للکفرین سعیرا (٤٨ : ١٣) وللہ ملک السموت ۔۔۔۔ غفورا رحیما (٤٨ : ١٤) “ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو لوگ ایمان نہ رکھتے ہوں ایسے کافروں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک اللہ ہی ہے ، جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے ، اور وہ غفور و رحیم ہے ” ۔ یہ لوگ اپنے اموال اور اہل و اولاد کا عذر پیش کرتے تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ جہنم جو کافروں کے لئے تیار رکھی ہوئی ہے ، اس میں مال و اولاد کیا فائدہ دیں گے ، اگر وہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے۔ غرض ترازو کے دو پلڑے ہیں۔ ایک ایمان کا دوسرا کفر و نفاق اور سوء ظن کا ، ان میں ان کو ایک کو قبول کرلینا چاہئے۔ اللہ جو تمہیں ڈراتا ہے وہ آسمانوں اور زمین کی قوتوں کا مالک ہے۔ وہ عذاب بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کرسکتا ہے۔ اللہ لوگوں کو جزا یا سزا ان کے اعمال پر دیتا ہے۔ لیکن اس کی مشیت مطلق و آزاد ہے۔ اس پر کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بات یہاں اس لیے بتا دی گئی کہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اعمال پر جزاء بھی اسی نے طے کی ہے۔ اللہ کی رحمت اور مغفرت سب کے لئے قریب ہے۔ مناسب ہے کہ لوگ اسے طلب کریں۔ قبل اس کے کہ اللہ کے عذاب کا فیصلہ صادر ہوجائے ، اور یہ فیصلہ ظاہر ہے انہی لوگوں کے لئے ہوگا جو اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائیں گے۔ اس کے بعد اللہ ان اموال غنیمت کی طرف اشارہ فرماتا ہے جو مومنین کے لئے مقدر ہوچکے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کی بدگمانیوں کے بالکل متضاد صورت حالات ہوگی اور انداز کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات بہت ہی قریب وقت میں رونما ہونے والے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد کافروں کے لیے وعید بیان فرمائی ﴿ وَ مَنْ لَّمْ يُؤْمِنْۢ باللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَعِيْرًا ٠٠١٣﴾ (اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے سو ہم نے کافروں کے لیے دوزخ تیار کیا ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” ومن لم یومن۔ الایۃ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ان پیچھے رہ جانے والوں کی طرفح جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائیں ان کے لیے ہم نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے کیونکہ وہ کفر ہیں اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ ” وللہ ملک السموات۔ الایۃ “ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کائنات میں وہی متصرف و مختار ہے۔ وہ ایمان والوں اور معافی مانگنے والوں کو معاف فرماتا اور کفار و مشرکین اور منافقین کو سزا دیتا ہے اور وہ ایسا مہربان ہے کہ توبہ کرنے والوں کو معاف فرما کر ان پر مزید مہربانیاں فرماتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) اورجوشخص اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے گا تو ہم نے ایسے منکروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کررکھی ہے۔