Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 17

سورة الفتح

لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبۡہُ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۷﴾  10 النصف

There is not upon the blind any guilt or upon the lame any guilt or upon the ill any guilt [for remaining behind]. And whoever obeys Allah and His Messenger - He will admit him to gardens beneath which rivers flow; but whoever turns away - He will punish him with a painful punishment.

اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے ، جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرما نبرداری کرے اسے اللہ ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جس کے ( درختوں ) تلے نہریں جاری ہیں اور جو منہ پھیر لے اسے دردناک عذاب ( کی سزا ) دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَيْسَ عَلَى الاَْعْمَى حَرَجٌ وَلاَ عَلَى الاَْعْرَجِ حَرَجٌ وَلاَ عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ... No blame or sin is there upon the blind, nor is there sin upon the lame, nor is there sin upon the sick. Allah then mentions the legal reasons that allow one to be excused from joining the Jihad, such as blindness and being lame, and various illnesses that strike one and are remedied in ... few days. When one is ill, he is allowed to remain behind and will have a valid excuse to do so, until his illness ends. Allah the Exalted and Most honored then said, while ordaining joining the Jihad and obeying Allah and His Messenger, ... وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ وَمَن يَتَوَلَّ ... And whosoever obeys Allah and His Messenger, He will admit him to Gardens beneath which rivers flow; and whosoever turns back, (from joining the Jihad and busies himself in his livelihood), ... يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا He will punish him with a painful torment. i.e. in this life with humiliation and in the Hereafter with the Fire. Allah the Exalted has the best knowledge.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری۔ یہ دونوں عذر لازمی ہیں۔ ان اصحاب عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنٰی کردیا گیا ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں وہ عارضی عذر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] جہاد فرض عین نہیں :۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافق تو محض حیلے بہانے کرتے ہیں۔ اصل معذور لوگ جنہیں جہاد سے رخصت ہے وہ ہیں جو جسمانی طور پر تندرست نہ ہوں۔ مثلاً اندھے، لنگڑے، اپاہج، بیمار، نابالغ، بچے اور ضعیف و ناتواں بوڑھے بزرگ مجنون اور فاتر العقل قسم کے لوگ۔ علاوہ ازیں کچھ اور عذر بھی...  شریعت کی نگاہ میں مقبول ہیں۔ مثلاً غلام یا ایسا تندرست جو تنگدستی کی وجہ سے سامان جنگ بھی مہیا نہ کرسکتا ہو۔ یا مثلاً ایسا شخص جس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اپنے بیٹے کی خدمت کا محتاج ہو۔ واضح رہے کہ اگر والدین مسلمان ہوں تو کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر جہاد میں شامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر والدین کافر ہوں تو پھر ان سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ [٢٣] اگرچہ یہ آیت اور اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول کے سب فرمانبرداروں کو شامل ہے۔ تاہم ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ معذور لوگ بھی اگر ہمت کرکے کسی طرح جہاد میں شرکت کرسکیں تو ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ اور جو شخص امام وقت کے اعلان شمولیت اور کسی شرعی عذر کے نہ ہونے کے باوجود جہاد میں حصہ نہیں لیتا اسے اللہ تعالیٰ سخت سزا دے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لیس علی الاعمی حرج …: ان تینوں میں سے اندھے اور لنگڑے کا عذر دائمی ہے اور بیمار کا عارضی، جو بیماری ختم ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔ جہاد سے پیچھے رہنے والوں پر عتاب کے بعد فرمایا کہ نابینا، لنگڑا اور بیمار اگر جہاد کے لئے نہ نکلیں تو ان پر کوئی حرج نہیں۔ (٢) ومن یطع اللہ ورسولہ…: جو شخص واقعی عذر کی ... وجہ سے جہاد کے لئے نہ نکل سکے مگر خلوص دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کا مطیع اور خیر خواہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں۔ ایسے لوگ پیچھے رہنے کے باوجود جہاد میں شریک ہی سمجھے جائیں گے۔ مزید دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٩١):(ما علی المحسنین من سبیل) کی تفسیر میں مذکور حدیث۔ (٣) ومن یطع اللہ و رسولہ…: بقاعی نے اس کی فسیر یہ فرمائی ہے کہ واؤ عطف کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے :” ای فمن تخلف من الضعفاء فلا حرج علیہ ومن یطع اللہ ورسولہ…“ یعنی پھر اندھے، لنگڑے اور میرض میں سے جو شخ پیچھے رہ جائے اس پر کوئی حرج نہیں اور جوپ یچھے نہ رہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے عذر کے باوجود نکل پڑے تو اللہ تعالیٰ اسے ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور جو عذر کی وجہ سے نہیں بلکہ اطاعت سے جی چراتے ہوئے جہاد سے منہ پھیرے گا اللہ تعالیٰ اسے عذاب الیم دے گا۔ جہاد کے لئے نہ نکلنے کے بعض مقبول عذر اس سے پہلے سورة توبہ (٩١، ٩٢) میں بیان ہوچکے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَ‌جٌ (There is no blame on the blind, nor is there any blame on the lame, nor is there any blame on the sick...48:17) Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) reports that when some sincere Muslims who were physically unable to fight read the concluding clause of verse 16: وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا . “ And if you turn away, as ... you had turned away before, He will punish you with a painful punishment. [ 48:16] |" they expressed their concern about the warning. Verse [ 17] was revealed to exempt them from the injunction of jihad. These people included blind, lame or sick persons (Qurtubi). And Allah knows best!   Show more

(آیت) لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جب اوپر کی آیات میں جہاد کی شرکت سے ہٹنے والوں کے لئے عذاب کی وعید آئی (آیت) وَاِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا، تو کچھ معذور لوگ جو صحابہ کرام میں تھے ان کو فکر ہوئی کہ ہم تو شرکت...  جہاد کے قابل نہیں، کہیں ہم بھی اس وعید میں شامل نہ ہوں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اندھے، لنگڑے اور بیمار کو حکم جہاد سے مستثنیٰ کردیا گیا (قرطبی) واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ عَلَي الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَي الْمَرِيْضِ حَرَجٌ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّ يُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۝ ١٧ ۧ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقا... ل في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے حرج أصل الحَرَج والحراج مجتمع الشيئين، وتصوّر منه ضيق ما بينهما، فقیل للضيّق : حَرَج، وللإثم حَرَج، قال تعالی: ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء/ 65] ، وقال عزّ وجلّ : وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج/ 78] ، وقد حرج صدره، قال تعالی: يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام/ 125] ، وقرئ حرجا «1» ، أي : ضيّقا بکفره، لأنّ الکفر لا يكاد تسکن إليه النفس لکونه اعتقادا عن ظن، وقیل : ضيّق بالإسلام کما قال تعالی: خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وقوله تعالی: فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف/ 2] ، قيل : هو نهي، وقیل : هو دعاء، وقیل : هو حکم منه، نحو : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] ، والمُتَحَرِّج والمتحوّب : المتجنّب من الحرج والحوب . ( ح ر ج ) الحرج والحراج ( اسم ) کے اصل معنی اشب کے مجتع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اسلئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہاجاتا ہے قرآن میں ہے ؛۔ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً [ النساء/ 65] اور ۔۔۔ اپنے دل میں تنگ نہ ہوں ۔ وَما جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ [ الحج/ 78 اور تم پر دین ( کی کسی بات ) میں تنگی نہیں کی ۔ حرج ( س) حرجا ۔ صدرہ ۔ سینہ تنگ ہوجانا ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً حَرَجاً [ الأنعام/ 125] اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے ۔ ایک قرآت میں حرجا ہے ۔ یعنی کفر کی وجہ سے اس کا سینہ گھٹا رہتا ہے اس لئے کہ عقیدہ کفر کی بنیاد وظن پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کو کبھی سکون نفس حاصل نہیں ہوتا اور بعض کہتے کہ اسلام کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] سے مفہوم ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَلا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ [ الأعراف/ 2] اس سے تم کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے ۔ میں لایکن فعل نہی کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے اور ۔۔۔۔ جملہ دعائیہ بھی ۔ بعض نے اسے جملہ خبر یہ کے معنی میں لیا ہے ۔ جیسا کہ آیت کریمہ ۔ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ [ الشرح/ 1] سے مفہوم ہوتا ہے ،۔ المنحرج ( صفت فاعلی ) گناہ اور تنگی سے دور رہنے والا جیسے منحوب ۔ حوب ( یعنی گنا ہ) بچنے والا ۔ عرج العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر/ 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ، ( ع ر ج ) العروج کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر/ 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مرض الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان : الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] . والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة . نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام : «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین . ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے ).  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

چناچہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو یہ محتاج لوگ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اس جہاد سے پیچھے رہنے والے کو اللہ تعالیٰ نے دردناک عذاب سے ڈرایا ہے سو اب ہمارا کیا ہوگا ہم تو جہاد میں چلنے کی طاقت نہیں رکھتے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ جہاد میں عدم شرکت پر اندھے پر ک... وئی گناہ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے باقی جو شخص ظاہر و باطن میں حق تعالیٰ کی پیروی کرے گا اور دشمن سے قتال کے لیے نکلے گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جس کے درختوں اور بالاخانوں اور محلات کے نیچے سے دودھ شہد پانی اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی پیروی سے منہ موڑے گا اس کو دردناک سزا دے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ} ” ہاں کسی اندھے پر کوئی تنگی نہیں اور نہ ہی کسی لنگڑے پر اور نہ ہی کسی مریض پر کوئی تنگی ہے۔ “ اگر جسمانی لحاظ سے کوئی معذور شخص جہاد میں حصہ نہیں لیتا تو اس کی معذوری کے پیش نظر اس پر اس حوالے ... سے کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔ { وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ } ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ داخل کرے گا اس کو ان باغات مین جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔ “ { وَمَنْ یَّـتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًا } ” اور جو کوئی پیٹھ پھیر لے تو اسے وہ ایک دردناک عذاب سے دوچار کرے گا۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 That is, the one who has a genuine excuse for not joining Jihad is not accountable, but if the able-bodied, strong people make excuses for not joining it, they cannot be regarded as sincere with regard to AIIah and His Religion, and they cannot be given the opportunity to take advantage of the gains as members of the Muslim community, but when time comes for making sacrifices for Islam, they sh... ould lag behind and seek the safety of their lives and properties." Here, one should know that two kinds of the people have been exempted from Jihad duty by the Shari ah: (1) Those who are not physically fit for Jihad. e.g. young boys, women, the insane, the blind and such patients as cannot perform military duties, and such disabled people as cannot take part in war; and (2) those for whom it may be difficult to join Jihad for other sound reasons, e.g. the slaves, or those persons who may be ready for Jihad but may not afford weapons of war and other necessary equipment, or such debtors who may have to pay their debts at the earliest opportunity and the creditors may not be willing to allow them more time, or such people whose parents (or a parent) might be alive, who stand in need of the children's help. In this regard, it should also be known that the children should not join Jihad without the permission of their parents if they are Muslims, but if they are non-Muslims it is not permissible for a person to stay away from Jihad in case they refuse permission.  Show more

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :31 یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں ، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہیں مانا جا سکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فو... ائد تو سمیٹتے رہیں ، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کو وقت آئے تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں ۔ اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں ، مثلا کم سن لڑکے ، عورتیں ، مجنون ، اندھے ، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں ، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سےجنگ میں حصہ نہ لے سکیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو ، مثلا غلام ، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں ، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو ، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے ۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے ، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ اوپر بناوٹی عذر والوں کا ذکر تھا اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو حقیقت میں صاحب عذر ہیں جیسے اندھے لنگڑے اور بیمار کہ ان لوگوں کو دین کی لڑائی چھوڑ کر گھر میں بیٹھا رہنا جائز ہے ‘ بناوٹی عذر والوں کو سمجھانے کے بعد آخر فرمایا کہ جو کوئی اللہ اور رسول کے حکم پر چلے گا اس کے بدلہ میں جنت پائے...  گا اور جو کوئی اس کے برخلاف کرے گا تو سخت عذاب بھگتے گا۔ صحیح ٢ ؎ مسلم میں حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس سے اور صحیح ابن حبان وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن کم سے کم دوزخ کا عذاب یہ ہوگا کہ دوزخی شخص کے پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہنا دی جائیں گی جس سے اس شخص کا بھیجا پگھل کر گھڑی گھڑی نکلے گا اور پھر بدل دیا جائے گا اس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ جب کم سے کم عذاب کا یہ حال ہے تو جس عذاب کو سخت فرمایا اس کا کیا حال ہوگا اس واسطے صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم میں انس (رض) بن مالک کی جو روایت ہے اس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کے عذاب کا پورا حال اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے تو ان کو کبھی ہنسی نہ آئے بلکہ ہر وقت وہ روتے رہیں۔ (٢ ؎ صحیح مسلم باب شفاعۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لابی طالب الخ ص ١١٥ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب لو تعلمون ما اعلم الخ۔ ص ٩٦٠ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:17) اعمی : اندھا۔ عمی سے جس کے معنی بینائی کے مفقود ہوجانے کے ہیں صفت مشبہ کا صیغہ ہے بینائی دل کی جاتی رہے یا آنکھوں کی دونوں کے لئے عمی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ حرج۔ تنگی۔ مضائقہ۔ گناہ اصل میں تو حرج کے معنی کسی چیز کے مجتمع ہونے کی جگہ کے ہیں اور ایک جگہ جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ... ہے اس لئے تنگی اور گناہ کو حرج کہا جاتا ہے۔ لیس علی الاعمی حرج اندھے پر کوئی گناہ نہیں مطلب یہ کہ جو اندھا ہو (یا اسے کوئی اور صحیح عذر مانع ہو) تو اس کے لئے جہاد میں شریک نہ ہونے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ الا عرج۔ لنگڑا۔ ح ر ج مادہ۔ عروج (باب سمع) مصدر۔ بمعنی ہموار زمین پر ایسے چلنا جیسے کوئی شخص سیڑھیاں چڑھ رہا ہو۔ عرج یعرج مستقل طور پر لنگڑا ہونا۔ اسی مصدر سے باب نصر سے بمعنی اور چڑھنا آتا ہے جیسے تعرج الملئکۃ والروح الیہ (70:4) جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے چڑھتے ہیں۔ ومن ۔۔ ورسولہ جملہ شرط یدخلہ ۔۔ الانھر۔ جواب شرط۔ تجری من تحتھا الانھر : جنت کی تعریف ہے ومن یتول : واؤ عاطفہ۔ من یتول جملہ شرط ہے۔ یتول مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) واحد مذکر غائب تولی (تفعل) مصدر۔ اصل میں یتولی تھا۔ تعدیہ بہ عن مقدرہ ہے اور جو روگردانی کرے گا۔ یعذبہ عذابا الیمان جملہ جواب شرط ۔ اس کو وہ (اللہ) دردناک عذاب دیگا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی یہ وہ معذور لوگ ہیں جن پر جہاد میں شریک ہونا فرض نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں جہاد میں شمولیت نہ کرنے والوں کو اذّیت ناک عذاب کی وعیدسنائی گئی ہے۔ اب ان لوگوں کو مستثنیٰ قراردیا جاتا ہے جو جہاد کرنے سے معذور ہیں۔ اندھے، لنگڑے اور مریض پر جہاد فرض نہیں۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ج... ن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور قتال فی سبیل اللہ سے جان بوجھ کر اعراض کیا اللہ تعالیٰ اسے اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اس فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہر مسلمان پر فرض نہیں۔ اسی اصول کے پیش نظر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو قتال فی سبیل اللہ میں شمولیت کی اجازت نہیں دی تھی۔ شرعی مجبوری کی وجہ سے قتال فی سبیل اللہ سے محروم رہنے والے کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ جو بھی اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِيْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاسْتَاْذَنَہٗ فِی الْجِھَادِ فَقَالَ اَحَیٌّ وَالِدَاکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِےْھِمَا فَجَاھِدْ ۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَاے َۃٍ فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَےْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا۔ ) (رواہ البخاری : باب الجہاد بإذن الأبوین) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوکر جہاد کے لیے اجازت چاہی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا، جی ہاں ! آپ نے فرمایا پھر ان کی خدمت کرو۔ ایک روایت میں ہے واپس جا کر ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔ “ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے سال میں چودہ سال کا تھا، مجھے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے مجھے واپس کردیا۔ جنگ خندق کے سال میں پندرہ سال کا ہوا۔ آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت عطا فرمائی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے فرمایا یہ مجاہد اور کم عمر والوں کے درمیان فرق ہے۔ “ ( رواہ البخاری : باب إِذَا زَکَّی رَجُلٌ رَجُلاً کَفَاہُ ) مسائل ١۔ نابینا، لنگڑا اور مریض قتال فی سبیل اللہ سے مستثنیٰ ہیں ٢۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٣۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کی اور قتال فی سبیل اللہ کا انکار کیا اسے اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کن لوگوں کو اذّیت ناک عذاب ہوگا : ١۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ٧) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ١٠٤) ٣۔ اللہ کی آیات چھپانے اور فروخت کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ١٧٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الدہر : ٣١) ٥۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور انبیاء کو قتل کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ٢١) ٦۔ اللہ کے عہد اور قسموں کو فروخت کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ٧٧) ٧۔ ایمان کے بدلے کفر کو کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ١٧٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اندھا اور لنگڑا تو دائمی اعتبار سے معذور ہیں اور وہ جہاد کے لئے نہیں نکل سکتے اور بیمار وقتی طور پر معذور ہوتا ہے ۔ جب تک کہ وہ تندرست نہیں ہوتا ، وہ معذور رہتا ہے۔ اصل اور لنگڑا تو دائمی اعتبار سے معذور ہیں اور وہ جہاد کے لئے نہیں نکل سکتے اور بیمار وقتی طور پر معذور ہوتا ہے۔ جب تک کہ وہ تندرست نہ... یں ہوتا ، وہ معذور رہتا ہے۔ اصل بات تو اطاعت اور معصیت کی ہے اور جذبہ اطاعت اور نیت معصیت ایسے امور ہیں جن کا تعلق دل اور نفسیات سے ہے۔ ظاہری اشکال اور ظاہری عذرات سے نہیں ہے۔ جو شخص اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتا ہے اس کی جزاء جنت ہے اور جو منہ پھیرے گا اسے یاد رکھنا چاہئے کہ عذاب الیم اس کے انتظار میں ہے۔ ہر کسی کو چاہئے کہ وہ جہاد اور اس کی مشقتوں کو ، جہاد کے اجر کو پیچھے بیٹھے رہنے کو اور اس کی راحتوں کو تولے ، ان کا باہم موازنہ کرے اور اسے ان میں سے جو بات پسند ہو ، اسے اختیار کرے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معذوروں سے کوئی مواخذہ نہیں، فرمانبرداروں کے لیے جنت اور رو گردانی کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب ہے تفسیر قرطبی میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب آیت کریمہ ﴿ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا ٠٠١٦﴾ نازل ہوئی جس میں حکم جہاد سن کر رو گر... دانی کرنے والوں کے لیے عذاب کی وعید ہے تو جو لوگ اپاہج قسم کے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا کیا بنے گا ہم تو جہاد میں شرکت نہیں کرسکتے اس پر آیت کریمہ ﴿لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى ﴾ (آخر تک) نازل ہوئی جس میں یہ بتادیا کہ جو لوگ مجبوری کی وجہ سے جہاد میں نہ جاسکے مثلاً نابینا ہوں یا لنگڑے ہوں یا بیمار ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے یہ مضمون سورة التوبہ میں بھی گزرا ہے وہاں فرمایا ﴿ لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ﴾ (دیکھو انوار البیان جلد دوم) اس کے بعد ایک قاعدہ کلیہ فرما دیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے گا اللہ اسے جنت میں داخل فرما دے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رو گردانی کرے گا یعنی ہٹے گا اور بچے گا اللہ تعالیٰ اسے درد ناک عذاب دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” لیس علی الاعمی “ یہ لوگ معذوف ہونے کی وجہ سے زجر و عتاب سے مستثنی ہیں۔ اندھے، لنگڑے اور بیمار۔ جو لوگ پورے اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں ان کے لیے جنت کی دائمی اور ابدی نعمتیں ہیں اور جو اطاعت سے اعراض کریں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) ہاں اندھے اور نابینا پر کچھ گناہ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ مریض اور بیمار پر کوئی گناہ ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت وفرماں برداری کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایس بہشتوں اور باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جو شخص روگردانی کرے اور پ... لٹ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو درد ناک عذاب کی سزا دے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جہاد ان معذور لوگوں پر فرض نہیں۔  Show more