Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 19

سورة الفتح

وَّ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً یَّاۡخُذُوۡنَہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۹﴾

And much war booty which they will take. And ever is Allah Exalted in Might and Wise.

اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And abundant spoils that they will capture. And Allah is Ever All-Mighty, All-Wise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یہ وہ غنیمتیں ہیں جو خیبر سے حاصل ہوئیں یہ نہایت زرخیز اور شاداب علاقہ تھا اسی حساب سے یہاں سے مسلمانوں کو بہت بڑی تعداد میں غنیمت کا مال حاصل ہوا جسے صرف اہل حدیبیہ میں تقسیم کیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] یعنی حدیبیہ کے مقام پر جنگ نہ ہونے میں اور بہرحال صلح ہوجانے میں اللہ کی بیشمار حکمتیں تھیں لہذا اس نے وہی کام ہونے دیا جو اسے منظور تھا۔ رہا بیعت کرنے والوں کی جانثاری کا صلہ تو وہ غنائم خیبر کی صورت میں انہیں مل جائے گا۔ اور اللہ کے ہاں ان کے لئے جو صلہ ہے وہ تو بہت زیادہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ومغانم کثیرۃ یاخذونھا : اس سے مراد خیبر اور یہود کی دوسری بستیاں ہیں جو کسی خاص مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کو حاصل ہوئیں۔ صفی الرحمٰن مبارک پوری لکھتے ہیں :” خیبر مدینہ سے شمال کی طرف اسی (٨٠) میل کے فاصلے پر ایک بہت بڑا شہر تھا ، جس میں کئی قلعے اور بہت سے باغات تھے۔ ابن اسحاق نے فرمایا، رسول اللہ...  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ سے واپس آکر مدینہ میں ذوالحجہ اور محرم کا کچھ حصہ ٹھہرے، پھر محرم کے باقی دنوں میں خیبر کی طرف نکلے۔ “ (الرحیق المختوم) ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں :(افتحنا خبیر ولم نعنم ذھبا ولا فضۃ ، انما غنمنا البقر و الابل والمتاع والحوائط) (بخاری المغازی، باب غزوۃ خبیر، 2323)” ہم نے خیبر فتح کیا اور ہمیں سونا چاندی غنیمت میں نہیں ملا ہمیں صرف گائے بیل، اونٹ، سامان اور باغات غنیمت میں ملے۔ “ خیبر کی فتح کے نتیجے میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی غنیمتوں کا اندازہ ابن عمر (رض) کی ایک روایت سے ہوتا ہے، انہوں نے فرمایا :(ماشبعنا حتی فتحنا خبیر) (بخاری، المغازی، باب غزوۃ خیر :2323)” ہم نے سیر ہو کر نہیں کھایا حتیٰ کہ خیبر فتح کیا۔ “ اور عائشہ (رض) نے فرمایا :(لما فتحت خیبر فلنا الا ن تشع من التمر) (بخاری، المغازی، باب غزوۃ خبیر :2323)” جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا، اب ہم کھجوریں پیٹ بھر کر کھائیں گے۔ “ الرحیق المختوم میں ہے :” اس فتح کے نتیجے میں مہاجرین کے حصے میں اتنی زمین اور باغات آئے کہا نہوں نے کھجوروں کے وہ درخت انصار کو واپس کردیئے جو انصار نے مدینہ میں انہیں دے رکھے تھے۔ (٢) وکان اللہ عزیزاً حکیماً : چونکہ کافر کی تعداد اور ساز و سامان کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے پیش نظر یہ بات ممکن نظر نہیں آتی تھی، اس جملے کے ساتھ اس فتح و غنیمت کا سبب بیان فرمایا۔ بقاعی نے فرمایا :” اس واؤ کے ساتھ مقدر جملے پر عطف ہے : ای بعزۃ اللہ و حکمۃ و کان اللہ عزیاً حکیماً “ یعنی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عزت و حکمت کی بدولت ہوا اور اللہ تعالیٰ مہیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ نہ اس پر کوئی غالب آسکتا ہے، نہ اس کی تدبیر میں کسی خطا کی نشاندہی کرسکتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَغَانِمَ كَثِيرَ‌ةً يَأْخُذُونَهَا (and many spoils that they would receive...48:19) This clause refers to the great booty that fell into the hands of Muslims during the conquest of Khaibar.

(آیت) وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَةً يَّاْخُذُوْنَهَا، مراد اس سے خیبر کا مال غنیمت ہے جس سے مسلمانوں کو سہولت اور فراغ بالی حاصل ہوئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّمَغَانِمَ كَثِيْرَۃً يَّاْخُذُوْنَہَا۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝ ١٩ غنم الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام/ 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا ... أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال/ 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال/ 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء/ 94] . ( غ ن م ) الغنم بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام/ 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال/ 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال/ 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء/ 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس فتح میں بہت سی غنیمتیں دیں جن کو یہ لوگ لے رہے تھے اور حق تعالیٰ دشمنوں کو سزا دینے میں زبردست اور رسول اکرم اور اپنے صحابہ کرام کو فتح و غنیمت عطا کرنے میں حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا } ” اور بہت سے اموالِ غنیمت جو وہ حاصل کریں گے۔ اور اللہ زبردست ‘ حکمت والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 The reference is to the conquest of Khaiber and its rich spoils and this verse expressly points out that AIlah had reserved this reward only for those People who had taken part in the Bai at Ridwan; apart from them no one else was entitled to take part in the victory and have a share in the spoils. That is why when the, Holy Prophet marched out to attack Khaiber in Safar, A.H. 7, he took only t... hose people with him. No doubt afterwards he gave some of the spoils of Khaiber to those emigrants also who returned from Habash and to some Companions from the Dus and Ash'ar tribes as well, but this was given either from Khums (one fifth of the spoils of war given into the public treasury), or with the approval of the Companions who had taken the pledge of Ridwan; no one else was given any share of it.  Show more

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :34 یہ اشارہ ہے خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت کی طرف ۔ اور یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ انعام صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص فرما دیا تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے ، ان کے سوا کسی کو اس فتح اور ان غنائم میں شریک ہونے کا حق نہ تھا ۔ اسی بنا پر جب رس... ول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفر 7ھ میں خیبر پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو آپ نے صرف ان ہی کو اپنے ساتھ لیا ۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حبش سے واپس آنے والے مہاجرین اور بعض دوسی اور اشعری صحابیوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا ، مگر وہ یا تو خمس میں سے تھا ، یا اصحاب رضوان کی رضا مندی سے دیا گیا ۔ کسی کو حق کے طور پر اس مال میں حصہ دار نہیں بنایا گیا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩۔ اللہ کے نزدیک اس صلح میں بڑی مصلحتیں تھیں جن مصلحتوں کے سمجھنے سے انسان کی عقل قاصر ہے علاوہ اور مصلحتوں کے یہ کتنی بڑی مصلحت تھی کہ اس صلح کی جو باتیں ظاہر میں مسلمانوں کو شاق اور گراں معلوم ہوئیں آخر کو انجام ان باتوں کا مسلمانوں کے حق میں بہت اچھا ہوا چناچہ صلح حدیبیہ کی یہ شرط کہ جو شخص مشرک... وں کی طرف سے صلح کی مدت کے اندر مسلمان ہو کر مسلمانوں کی طرف چلا آئے گا وہ مشرکوں کے حوالہ کردیا جائے گا بڑی سخت اور ناگوار شرط مسلمانوں کو معلوم ہوتی تھی اور اس شرط کے موافق ابو جندل اور ابو بصیر کا مشرکوں کے حوالہ کرنا مسلمانوں کو ابتدا میں شاق گزرا لیکن جب ابو بصیر اور ابو جندل نے کچھ لوگ جمع کرکے مکہ اور شام کے راستہ میں ایک جنگل میں اپنا مقام ٹھہرا لیا اور قریش کے ملک شام جانے آنے والے قافلہ کو لوٹنا شروع کیا تو قریش بہت تنگ ہوئے اور ایک مدت تک ان کی تجارت بند ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح ابتدا میں مسلمان اپنے حق میں اس شرط کو سخت گنتے تھے اس طرح قریش نے اپنے حق میں اس شرط کو سخت اور مضر گنا اور بڑی منت سے اس شرط کو منسوخ کیا اسی طرح اس صلح کی اور مصلحتیں بھی ہیں جن کی تفصیل حدیث کی کتابوں میں ہے انہیں مصلحتوں میں سے ایک یہ مصلحت تھی کہ اس صلح کے سفر میں بیعت رضوان کا موقع پیش آیا جس بیعت سے اللہ تعالیٰ خوش ہوا اور اللہ کے رسول نے بیعت کرنے والے لوگوں کو جتنی فرمایا۔ صحیح ٤ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمیشہ آدمی کے دل پر رہتی ہے اگر خالص دل سے نیک کام کیا جائے تو وہ قابل اجر ٹھہرتا ہے ورنہ نہیں اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ تفسیر قرار پائی کہ بیعت کرنے والوں کے دلوں میں خالص دین کی مدد کا جوش تھا اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ مدد کی کہ ان کے دلوں میں تحمل پیدا کردیا جس سے وہ خلاف طبیعت شرائط صلح پر راضی ہوگئے اور ان کو اس صلح میں کچھ مال نہیں ملا تھا اس لئے اس کے معاوضہ میں خیبر کی فتح ہوجانے اور وہاں سے بہت سا لوٹ کا مال آنے کی تدبیر نکال دی ‘ آخر کو فرمایا اللہ اپنی حکمت اور تدبیر میں ایسا زبردست ہے جس سے تمام جہان کا کام چلتا ہے۔ اور کوئی اس کی تدبیر کے برخلاف کچھ کام نہیں کرسکتا۔ (٤ ؎ صحیح مسلم باب تحریم ظلم المسلم الخ ص ٣١٧ ج ٢۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب تحریم ظلم المسلم الخ ص ٣١٧ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:19) ومغانم کثیرۃ۔ واؤ عاطفہ۔ مغانم کثیرۃ موصوف و صفت مل کر مفعول ثانی اثاب کا۔ مغانم پر تنوین بوجہ غیر منصرب ہونے کے نہیں آئی (ملاحظہ ہو آیت متذکرۃ الصدر) منصوب بوجہ فتحا قریبا کے معطوف ہونے کے ہے اور بہت سی نعمتیں بھی دے گا جن کو وہ لیں گے (یاخذنھا۔ اس میں ضمیر فاعل مومنون کی طرف راجع ہے۔ اور ... ھا ضمیر واحد مؤنث غائب مغانم کثیرۃ کی طرف راجع ہے) ان مغانم سے مراد خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت ہیں ۔ (اور یہ انعام صرف ان مؤمنوں کے لئے مخصوص تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے) عزیزا حکیما : کان کی خبر۔ زبردست، حکمت والا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ومعالم کثیرۃ “ بدل من فتحاً قریباً والوائو مقحمۃ) چناچہ حدیبیہ کے تین اور بعد ہی رسول اللہ خیبر کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کرایا۔ بہت سا مال غنیمت مانوں کے ہاتھ آیا اور اس کے علاوہ بہت سے باغ بھی ملے اللہ تعالیٰ کا یہ انعام تھا ان مسلمانوں پر جنہوں نے حدیبیہ کی کٹھن مہم میں آن... حضرت کا ساتھ دیا تھا۔ (قرطبی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومغانم کثیرۃ یاخذونھا (٤٨ : ١٩) “ اور بہت سا مال غنیمت انہیں عطا کردیا جسے وہ عنقریب حاصل کریں گے ” یا تو فتح کے ساتھ یہ اموال ملے اگر مراد فتح خیبر ہو ، یا فتح کے بعد ملنے والے اموال غنیمت ۔ اگر ہم خود اس صلح ہی کو فتح قرار دیں کیونکہ اس مصالحت کی وجہ سے مسلمان کئی دوسری فتوحات کے لئے فارغ ہوگئے۔ ... وکاین اللہ عزیزا حکیما (٤٨ : ١٩) “ اور اللہ زبردست اور حکیم ہے ”۔ یہ تمام آیات کا نتیجہ ہے یعنی اللہ کی رضا ، فتح اور بیشمار اموال غنیمت کے وعدے میں اللہ کی قوت ، قدرت اور حکمت و تدبیر کار فرما ہے۔ اور قوت اور حکمت ہی سے اللہ اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔ اس اعلان کے بعد کہ اللہ کی ذات ان بیعت کرنے والوں سے راضی ہوگئی ہے ، اب بات کا رخ خود مومنین کی طرف مڑ جاتا ہے ، اب وہ مخاطب ہیں۔ صلح ، فتح ، ہدایت اور غنیمت ہر بات کی جاتی ہے جو انہیں دی جارہی ہے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اور بکثرت غنیمتیں بھی دیں جن کو یہ لوگ حاصل کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے۔