Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 24

سورة الفتح

وَ ہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ﴿۲۴﴾

And it is He who withheld their hands from you and your hands from them within [the area of] Makkah after He caused you to overcome them. And ever is Allah of what you do, Seeing.

وہی ہے جس نے خاص مکہ میں کافروں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک لیا اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر غلبہ دے دیا تھا اور تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And He it is Who has withheld their hands from you and your hands from them in the midst of Makkah, after He had made you victors over them. And Allah is Ever the All-Seer of what you do. Allah the Exalted reminds His faithful servants of His favor when He restrained the hands of the idolators, and thereby, no harm touched the Muslims from the idolators. Allah restrained the hands of the believers and they did not fight the idolaters near Al-Masjid Al-Haram. Rather, Allah saved both parties from battle and brought forth a peace treaty that produced good results for the believers, in addition to, earning them the good end in this life and the Hereafter. We stated a Hadith from Salamah bin Al-Akwa` in which he narrated that when the Muslims brought forth those seventy idolator prisoners, they tied and paraded them before the Messenger of Allah, who looked at them and said, أَرْسِلُوهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْءُ الْفُجُورِ وَثِنَاه Release them, so that they earn the burden of starting hostilities and its infamy. Thereafter, Allah the Exalted and Most Honored sent down this Ayah about that incident, وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم (And He it is Who has withheld their hands from you and your hands from them...). Imam Ahmad recorded that Anas bin Malik said, "On the day of Hudaybiyyah, eighty armed men from Makkah went down the valley coming from Mount At-Tan`im to ambush the Messenger of Allah. The Messenger invoked Allah against them, and they were taken prisoners." Affan added, "The Messenger pardoned them, and this Ayah was later on revealed, وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ (And He it is Who has withheld their hands from you and your hands from them in the midst of Makkah, after He had made you victors over them)." Muslim, Abu Dawud in his Sunan and At-Tirmidhi and An-Nasa'i, in the Tafsir section of their Sunan, collected this Hadith.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے 80 آدمی، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اس نیت سے بھیجے کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ اکرام کے خلاف کاروائی کریں چناچہ یہ مسلح جتھہ جبل تغیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہوگیا اور انہوں نے ہمت کر کے تمام آدمیوں کو گرفتار کرلیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔ ان کا جرم شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی، صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی۔ جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] صلح حدیبیہ کی مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ : صبح کی نماز کے قریب آپ اور صحابہ تنعیم کے پہاڑ سے اترے۔ کافر لوگ یہ چاہتے تھے کہ آپ کو مار ڈالیں مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ پھر آپ نے ان سب کو آزاد کردیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ حدیبیہ کے مقام پر آپ کا معجزہ اور پانی کی مشکل کا حل :۔ مسور بن مخرمہ اور مروان دونوں روایت کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ مکہ سے نکلے۔ ابھی راہ میں ہی تھے کہ آپ نے فرمایا : خالد بن ولید دو سو سواروں کا ہر اول دستہ لئے غمیم تک آچکا ہے۔ لہذا تم داہنی طرف کا رستہ لو && خالد کو مسلمانوں کی آمد کی اس وقت خبر ہوئی جب اس نے سواروں کی گرد اڑتی دیکھی تو وہ قریش کو ڈرانے کے لئے دوڑا۔ جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ کو اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی قصواء اَڑ گئی۔ آپ نے فرمایا : قصواء کو اسی اللہ نے روکا ہے جس نے اصحاب الفیل کو روکا تھا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اہل مکہ مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیں جس میں اللہ کے حرم کی تعظیم ہو تو میں اسے مان لوں گا۔ چناچہ آپ وہاں سے مڑ کر گئے اور حدیبیہ کے پرلے کنارے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ وہاں ایک گڑھا تھا جس میں پانی بہت کم تھا۔ لوگوں نے آپ سے پیاس کا شکوہ کیا آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر صحابہ سے کہا کہ اسے گڑھے میں گاڑ دو تیر گاڑتے ہی پانی جوش مارنے لگا۔ پھر آپ کی وہاں سے واپس تک کسی کو پانی کی کمی کی شکایت نہیں ہوئی۔ خ صلح کی تفصیل :۔ اس دوران بدیل بن ورقاء خزاعی اپنے کئی آدمیوں سمیت وہاں پہنچا۔ وہ تہامہ والوں میں سے آپ کا خیرخواہ اور محرم راز تھا۔ وہ کہنے لگا کہ && کعب بن لوئی اور عامربن لوئی نے حدیبیہ پہنچ کر زیادہ پانی والے چشموں پر ڈیرہ ڈال دیا ہے اور وہ آپ سے لڑنا اور آپ کو مکہ جانے سے روکنا چاہتے ہیں && آپ نے فرمایا : && ہم لڑنے نہیں آئے صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش بھی لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو میں ایک مقررہ مدت تک ان سے صلح کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ دوسروں کے معاملہ میں دخل نہ دیں۔ اگر دوسرے لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو ان کی مراد برآئی۔ اور اگر میں غالب ہوا پھر اگر وہ چاہیں تو اسلام لے آئیں ورنہ اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے دین کے معاملہ میں لڑوں گا۔ یہاں تک میری جان چلی جائے اور اللہ ضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا، بدیل نے کہا :&& میں آپ کا یہ پیغام قریش کو پہنچا دیتا ہوں && بدیل بن ورقاء کا آپ کا پیغام پہنچانا اور اس کا جواب :۔ چناچہ بدیل قریش کے پاس آئے اور کہنے لگے :&& محمد نے ایک بات کہی ہے && اتنی بات کہنے پر ہی کچھ جلد باز بیوقوف کہنے لگے۔ ہمیں کوئی بات سننے کی ضرورت نہیں۔ مگر جو عقل والے تھے وہ کہنے لگے کہ بتاؤ تو سہی وہ کیا کہتے ہیں۔ چناچہ بدیل نے وہ سب کچھ بیان کردیا جو انہوں نے آپ سے سنا تھا۔ قریش کے پہلے سفیر عروہ بن مسعود کی رپورٹ :۔ یہ سن کر عروہ بن مسعود ثقفی قریش سے کہنے لگے۔ اگر مجھ پر اعتماد کرتے ہو تو محمد کے پاس جانے دو ۔ قریش نے کہا۔ اچھا جاؤ۔ عروہ آیا تو آپ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل کو کہی تھی۔ عروہ کہنے لگا :&& محمد اگر تم نے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی اور قریش غالب آگئے تو تمہارے یہ ساتھی تمہیں چھوڑ کر چلتے بنیں گے && اس بات پر ابوبکر صدیق (رض) غصہ میں آگئے اور عروہ کو کہا : && جا جاکر لات کی شرمگاہ چوس۔ کیا ہم آپ کو چھوڑ جائیں گے ؟ عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ && لوگوں نے کہا :&& ابوبکر صدیق (رض) &&! عروہ نے کہا && اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں تمہیں اس کا جواب دیتا && پھر عروہ باتیں کرتا تو آپ کی داڑھی تھام لیتا اور مغیرہ بن شعبہ تلوار کے دستے سے اس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیتے۔ پھر وہ آپ کے صحابہ کو بغور ملاحظہ کرنے لگا۔ پھر اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کہنے لگا : && میں بادشاہوں کے پاس کئی بار جا چکا ہوں۔ روم، ایران اور حبش کے بادشاہوں کے ہاں گیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے تھوکا تو کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا اور اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے۔ وہ کوئی حکم دیتا ہے تو لپک کر اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ وہ وضو کریں تو وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے قریب ہوتے تھے کہ لڑ مریں گے وہ بات کریں تو اپنی آواز پست کرلیتے ہیں اور از راہ ادب انہیں نظر بھر کر دیکھتے بھی نہیں۔ لہذا محمد نے جو بات کی ہے وہ تمہارے فائدے کی ہے۔ اس کو مان لو && خ دوسرے سفیر کی رپورٹ :۔ اب بنی کنانہ کا ایک شخص بولا && مجھے ان کے پاس جانے دو && لوگوں نے کہا : && اچھا جاؤ && جب وہ آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا : && اب جو شخص آرہا ہے۔ یہ بیت اللہ کی قربانی کی عظمت کرنے والوں سے ہے۔ لہذا قربانی کے جانور اس کے آگے کردو && چناچہ وہ جانور اس کے سامنے لائے گئے اور صحابہ نے لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ کہہ اٹھا && سبحان اللہ ایسے لوگوں کو کعبے سے روکنا مناسب نہیں && وہ واپس چلا گیا اور جاکر کہا :&& میں نے اونٹوں کے گلے میں ہار اور ان کے کوہان چرے خود دیکھے ہیں۔ میں تو انہیں بیت اللہ سے روکنا درست نہیں سمجھتا && خ تیسرا سفیر سہیل بن عمرو & اس کے اعتراضات اور صلح کی شرائط :۔ اس کے بعد قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو (سفیر بن کر) آیا۔ اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا : && اب تمہارا کام سہل ہوگیا && سہیل کہنے لگا : اچھا لائیے، ہمارے اور تمہارے درمیان ایک صلح نامہ لکھا جائے۔ آپ نے منشی (سیدنا علی (رض) کو بلایا اور فرمایا : && لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا : عرب کے دستور کے موافق && باسمک اللّٰھم && لکھوائیے۔ آپ نے کاتب سے فرمایا : اچھا && باسمک اللّٰھم && ہی لکھ دو ۔ پھر آپ نے لکھوایا :&& محمد اللہ کے رسول۔۔ && اس پر سہیل نے فوراً اعتراض کردیا اور کہا && محمد بن عبداللہ لکھوایا جائے && آپ نے فرمایا : && اچھا محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ اور لکھو محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی کہ تم لوگ انہیں بیت اللہ جانے دو گے ہم وہاں طواف کریں گے && سہیل نے کہا۔ && اگر ہم ابھی تمہیں جانے دیں تو سارے عرب میں چرچا ہوجائے گا کہ ہم دب گئے۔ لہذا تم آئندہ سال آؤ۔ (دوسری شرط) سہیل نے یہ لکھوائی۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص خواہ وہ مسلمان ہوگیا ہو تمہارے پاس (مدینہ) چلا جائے تو تم اس کو ہمارے پاس لوٹاد و گے && صحابہ کہنے لگے :&& سبحان اللہ ! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور اسے مشرکوں کے حوالے کردیا جائے ؟ && خ ابو جندل کا قصہ :۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندل (جو مسلمان ہوچکا تھا) پابہ زنجیر مکہ سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس جاپہنچا۔ سہیل کہنے لگا : محمد ! یہ پہلا شخص ہے جو شرط کے موافق واپس کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا : ابھی تو صلح نامہ پورا لکھا بھی نہیں گیا && سہیل کہنے لگا : اچھا تو پھر میں صلح ہی نہیں کرتا && آپ نے فرمایا : && اچھا خاص ابو جندل کی پروانگی دے دو && سہیل کہنے لگا : && میں کبھی نہ دوں گا && آخر ابو جندل کہنے لگے : میں مسلمان ہو کر آیا ہوں اور کافروں کے حوالہ کیا جارہا ہوں۔ دیکھو مجھ پر کیا کیا سختیاں ہوئی ہیں && خ سیدنا عمر کی دینی غیرت :۔ && سیدنا عمر کہتے ہیں کہ یہ صورت حال دیکھ کر میں آپ کے پاس آیا اور کہا آپ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں ؟ && آپ نے فرمایا، کیوں نہیں && میں نے کہا، کیا ہم حق پر اور دشمن ناحق پر نہیں ؟ && آپ نے فرمایا : && کیوں نہیں && میں نے کہا :&& تو پھر ہم اپنے دین کو ذلیل کیوں کریں && آپ نے فرمایا :&& میں اللہ کا رسول اور اس کی نافرمانی نہیں کرتا وہ میری مدد کرے گا && میں نے کہا : آپ نے تو کہا تھا کہ ہم کعبہ کے پاس پہنچ کر طواف کریں گے ؟ && آپ نے فرمایا : مگر میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ اسی سال ہوگا && اس کے بعد میں نے ابوبکر صدیق (رض) کے پاس جاکر وہی سوال کئے جو آپ سے کئے تھے اور انہوں نے بھی بالکل وہی جواب دیئے جو آپ نے دیئے تھے۔ اس موقعہ پر مجھ سے جو بےادبی کی گفتگو ہوئی اس گناہ کو دور کرنے کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے && خ صحابہ پر مایوسی کا عالم اور قربانی کرنے سے گریز && جب صلح نامہ پورا ہوگیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا : اٹھو اور اونٹوں کو نحر کرو اور سر منڈاؤ && آپ نے یہ کلمات تین بار کہے مگر صحابہ (اتنے افسردہ دل تھے کہ کسی نے اس پر عمل نہ کیا) یہ صورت حال دیکھ کر آپ نے ام سلمہ کے پاس جاکر ساری صورت حال بیان کی تو انہوں نے کہا :&& یارسول اللہ ! آپ کسی سے کچھ نہ کہئے۔ بلکہ اپنے اونٹ نحر کیجئے اور حجامت بنوالیجئے && چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا تو آپ کو دیکھ کر سب صحابہ نے بھی اپنے اونٹ نحر کئے اور ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے && خ ابو بصیر اور ابو جندل کا قصہ && آپ واپس مدینہ پہنچ گئے تو مکہ سے ایک شخص ابو بصیر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آگیا۔ قریش نے اسے واپس لانے کے لئے دو آدمی مدینہ بھیجے اور کہا کہ && معاہدہ کی رو سے ابو بصیر کو واپس کیجئے && آپ نے ابو بصیر کو ان کے حوالے کردیا۔ ابو بصیر نے راستہ میں ایک شخص کو تو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ نکلا اور بھاگ کر مدینہ آپ کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا : && اللہ کی قسم ! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی نہ بچوں گا && اتنے میں ابو بصیر بھی وہاں پہنچ گئے اور کہا : یارسول اللہ ! آپ نے اپنا عہد پورا کرتے ہوئے مجھے واپس کردیا تھا۔ اب اللہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے && آپ نے فرمایا : تیری ماں کی خرابی ہو اگر کوئی تیرا ساتھ دے تو تو لڑائی کو بھڑکانا چاہتا ہے && یہ سن کر ابو بصیر سمجھ گیا کہ آپ پھر اسے لوٹا دیں گے چناچہ وہ سیدھا نکل کر سمندر کے کنارے پہنچا اور ابو جندل بن سہیل بھی مکہ سے بھاگ کر ابو بصیر کے ساتھ آملا۔ اب قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر مکہ سے نکلتا وہ ابو بصیر کے پاس چلا جاتا یہاں تک ان کی ایک جماعت بن گئی اور قریش کا جو قافلہ شام کو جاتا اسے روک لیتے اور لوٹ مار کرتے۔ آخر قریش نے تنگ آکر آپ کو اللہ اور رشتہ ناطہ کی قسمیں دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ابو بصیر کو اپنے ہاں بلالیں اور آئندہ جو مسلمان آپ کے پاس آئے وہ ہمیں واپس نہ کریں۔ چناچہ آپ نے ابو بصیر کو اپنے پاس بلالیا && (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم …: جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) حدیبیہ میں تھے تو صلح کی بات چیت کے دوران اور صلح ہوجانے کے بعد بھی مشرکین نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہو سکے۔ ان کے متعدد گروہ چھپ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے خلاف کارروائی کے لئے آئے، مگر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ ہر مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں چھوڑ دیا، کیونکہ سزا دینے کی صورت میں جنگ ناگزیر ہوجاتی جب کہ مسلمانوں کی مصلحت صلح میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے اس احسان کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یہاں کفار کی ان کوششوں کے تین واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ (١) سلمہ بن اکوع (رض) کہتے ہیں، میں طلحہ بن عبید اللہ (رض) کے ساتھ رہتا تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا ، اس کی مالش کرتا، ان کی خدمت کرتا اور انھی کے ہاں کھانا کھایا کرتا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے اپنا اہل و مال چھوڑ آیا تھا۔ پھر جب ہماری اور اہل مکہ کی صلح ہوگئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ اہل مکہ میں چار مشرک میرے پاس آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بد زبانی کرنے لگے۔ میں ان سے نفرت کی وجہ سے ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا اور وہ اپنا اسلحہ درخت کے ساتھ لٹکا کر لیٹ گئے۔ اسی دوران وادی کے نیچے سے کسی نے آواز دی :” او مہاجرو ! ابن زینم کو ق تل کردیا گیا۔ “ میں نے اپنی تلوار لی اور انچ اورں پر حملہ کردیا، وہ سوئے ہوئے تھے، میں نے ان کا اسلحہ لے کر اپنی مٹھی میں اکٹھا کرلیا اور ان سے کہا :” قسم اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو عزت بخشی ہے ! تم میں سے جو بھی سر اٹھائے گا میں اس کا سر اڑا دوں گا جس میں اس کی آنکھیں ہیں۔ “ خیر میں انہیں ہانکتا ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا اور میرا چچا عامر عبلات میں سے ” مکرز “ نامی ایک مشرک کو کھینچتا ہوا لایا۔ یہاں تک ہم نے انہیں ستر (٧٠) مشرکین سمیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طسرف دیکھا اور فرمایا :(دعوھم یکن لھم بدء الفجور و ثناہ)” انہیں چھوڑ دو ، تاکہ عہد شکنی کی ابتدا اور دہرائی انھی کے ذمے رہے۔ “ غرض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم) (الفتح : ٢٣)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔ “ (مسلم الجھاد، باب غزوۃ ذی فرد وغیرھا :1808) (٢) انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے اسی (٨٠) مسلح آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آئے۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، مگر آپ نے انہیں زندہ سلامت گرفتار کرلیا۔ پھر انہیں زندہ ہی رہنے دیا تو اللہ عزو جل نے یہ آیت اتاری :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیھم) (الفتح : ٢٣)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔ “ (مسلم، الجھاد، باب قول اللہ تعالیٰ :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم ):1808 (٣) عبداللہ بن مغفل مزنی (رض) بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کے نیچے موجود تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ اس کی ٹہنیاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کمر سے لگ رہی تھیں اور علی بن ابی طالب (رض) اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) نے علی (رض) سے فرمایا :” لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ “ تو سہیل نے ملان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :” ہم نہیں جانتے رحمان کیا ہوتا ہے، ہمارے معاملے میں وہی لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ “ اس نے کہا : ” یہ لکھو :” باسمک اللھم۔ “ پھر انہوں نے لکھا :” یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے صلح کی ہے۔ “ تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :” اللہ کی قسم ! اگر آپ اللہ کے رسول ہوں تو ہم نے آپ پر ظلم کیا، ہمارے معاملے میں وہ لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” لکھو، یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے صلح کی ہے اور میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ “ یہ معاملہ ہو رہا تھا کہ تیس مسلح نوجوان نکل کر ہمارے سامنے آگئیا ور ہمارے سامنے آکر مشتعل ہوگئے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر بد دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا کردیا، ہم نے بڑھ کر انہیں گرفتار کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا :” کیا تم کسی کے عہد میں آئے ہو یا کسی نے تمہیں امان دی ہے ؟ “ انہوں نے کہا :” نہیں ! “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رہا کردیا، اس پر اللہ عزو جل نے یہ آیت نازل فرمائی :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم بب طن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم وکان اللہ بما تعملون بصیراً ) (الفتح : ٢٣)” اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پرف تح دے دی اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو ، ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔ “ (مسند احمد : ٣/٨٦، ٨٨، ح : ١٦٨٠٥) مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ (٢) یہاں بیت اللہ والے شہر کا نام ” مکہ “ بیان فرمایا ہے، جب کہ سورة آل عمران (٩٦) میں اس کا نام ” بکہ “ قرار دیا ہے، معلوم ہوا اس شہر کے دونوں نام ہیں۔ (٣) وکان اللہ بما تعملون بصیراً : یعنی اللہ تعالیٰ کفار کی سرا سر زیادتی اور تمہارے صبر اور اطاعت کو خوب دیکھ رہا تھا، اس کے باوجود اس نے بہت سی مصلحتوں کے پیش نظر ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary بِبَطْنِ مَكَّةَ (...in the valley of Makkah...) The Arabic word used here is batn which means &belly& and in relation to a city, it refers to its center. However, in the present context it is used for Hudaibiyah, because of its close proximity to Makkah. This supports the Hanafi view that some parts of Hudaibiyah are included in the حِرِم Haram. The relevant details may be found in our commentary on the verse 2:196.

معارف و مسائل بِبَطْنِ مَكَّةَ ، اس لفظ کے اصلی معنی عین مکہ کے ہیں مگر یہاں اس سے مراد مقام حدیبیہ ہے اس کو مکہ مکرمہ سے بہت متصل ہونے کی بناء پر بطن مکہ سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے جو حنفیہ نے اختیار کی ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم میں داخل ہے (آیت) ان یبلغ محلہ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محصر عن الحج و العمرہ یعنی جس کو احرام باندھنے کے بعد کسی وجہ سے دخول مکہ سے روک دیا گیا ہو اس پر باتفاق یہ تو لازم ہے کہ قربانی کر کے احرام سے حلال ہو لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ قربانی اسی جگہ ہو سکتی ہے جہاں وہ روک دیا گیا ہے، یا دوسری قربانیوں کی طرح اس کے لئے بھی حدود حرم کے اندر ہونا شرط ہے حنفیہ کے نزدیک اس کے لئے بھی حدود حرم شرط ہیں اس آیت سے ان کا استدلال ہے کہ یہاں اس قربانی کے لئے قرآن نے ایک خاص محل قرار دیا ہے جس سے کفار نے مسلمانوں کو روک دیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس قربانی کے لئے حدود حرم میں ہونا شرط ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ خود حنفیہ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ حدیبیہ کے بعض حصے حرم میں داخل ہیں تو پھر حرم سے روکنا کیسے ثابت ہوا، تو جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس قربانی کا حدود حرم میں کسی بھی جگہ کردینا شرعاً کافی ہے مگر اس خاص جگہ میں جو منیٰ کے اندر منحر کے نام سے موسوم ہے اس میں ہونا افضل ہے۔ کفار مکہ نے اس وقت مسلمانوں کو اس افضل مقام تک قربانی کا جانور لے جانے سے روک دیا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَہُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَكَّۃَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا۝ ٢٤ كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله : وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی. ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ مكك اشتقاق مكّة من : تمكّكت العظم : أخرجت مخّه، وامتکّ الفصیل ما في ضرع أمّه، وعبّر عن الاستقصاء بالتّمكّك وروي أنه قال عليه الصلاة والسلام : «لا تمكّوا علی غرمائكم» وتسمیتها بذلک لأنها کانت تمكّ من ظلم بها . أي : تدقّه وتهلكه قال الخلیل : سمّيت بذلک لأنها وسط الأرض کالمخّ الذي هو أصل ما في العظم، والمَكُّوك : ط اس يشرب به ويكال کالصّواع . ( م ک ک ) مکۃ یہ ایک مشہور شہر کا نام ہے اور تمککت العظم سے مشتق ہے جس کے معنی ہڈی سے گودا اور مغز نکالنے کے ہیں ۔ امتک الفصیل مافی ضر ع امہ اونٹ کے بچے نے اپنی ماں کے تھنوں سا را دودھ چوس لیا ۔ اسی سے تمکک بمعنی استقصا استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ حدیث میں ہے اپنے قر ضداروں سے مطالبہ میں اصرار نہ کرو ۔ اور مکۃ کو مکۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی حد دو کے اندر ظلم کرنے والوں کو ہلاک کردیتا ہے خلیل کا قول ہے کہ روئے زمین کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے مکہ کہا گیا ہے جیسا کہ مغز ہڈی کے درمیان میں ہوتا ہے ۔ المکوک ( والجمع مکا کی صواع کی طرح ایک ط اس جو پانی پینے اور غلہ ماپنے کے کام آتا ہے ( یہ صاع ہوتا ہے ) ظفر الظُّفْرُ يقال في الإنسان وفي غيره، قال تعالی: وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، أي : ذي مخالب، ويعبّر عن السّلاح به تشبيها بِظُفُرِ الطائرِ ، إذ هو له بمنزلة السّلاح، ويقال : فلان كَلِيلُ الظُّفُرِ ، وظَفَرَهُ فلانٌ: نشب ظُفُرَهُ فيه، وهو أَظْفَرُ : طویلُ الظُّفُرِ ، والظَّفَرَةُ : جُلَيْدَةٌ يُغَشَّى البصرُ بها تشبيها بِالظُّفُرِ في الصّلابة، يقال : ظَفِرَتْ عينُهُ ، والظَّفَرُ : الفوزُ ، وأصله من : ظَفِرَ عليه . أي : نشب ظُفْرُهُ فيه . قال تعالی: مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح/ 24] . ( ظ ف ر ) الظفر ( ناخن ) یہ لفظ انسان اور دوسرے جانوروں کے ناخن پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] تمام ناخن دار جانور میں ذی ظفر سے ذی مخلب یعنی پختہ دار شکار ی جانور مراد ہیں اور پرندہ کا ناخن چونکہ اس کا اوزار ہوتا ہے اس منا سبت سے ظفر کا لفظ سلاح یعنی ہتھیار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان کلیل الظفر فلاں کند ہتھیار یعنی کمزور ہے ۔ ظفر ہ فلان فلاں نے اس میں اپنے ناخن گاڑ دیئے ۔ الاظفر لمبے ناخن والا ۔ الظفرۃ ( ناخنہ چشم ایک قسم کی جھلی جو آنکھ کو ڈھانپ لیتی ہے اور ماخن کی طرح سخت ہوتی ہے ۔ ظفرت عینہ اس کی آنکھ پر ناخنہ چھا گیا ۔ الظفر : کامیاب ہونا یہ مفہوم دراصل ظفرہ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ناخن گاڑ دینے کے ہیں ۔ اطفرہ کامیاب کردینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ [ الفتح/ 24] اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح یاب کردیا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اسی نے مکہ والوں کے ہاتھ تمہارے قتل سے اور تمہارے ہاتھ مکہ والوں کے قتل سے عین مکہ مکرمہ کے نزدیک روک دیے، گو پتھر تو برسے بعد اس کے کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا یہاں تک صحابہ کرام نے ان کو مار کر بھگا دیا کہ وہ مکہ مکرمہ میں جا گھسے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ان کاموں کو دیکھ رہا تھا۔ شان نزول : وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ (الخ) امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ حدیبیہ کے دن رسول اکرم اور صحابہ پر اسی آدمیوں نے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر تنعیم پہاڑ کی طرف سے حملہ کیا وہ رسول اکرم کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ چناچہ ان سب کو پکڑ لیا گیا پھر آپ نے ان سب کو آزاد کردیا اسی کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے۔ اور امام مسلم نے اسی طرح سلمہ بن اکوع سے بھی روایت نقل کی ہے۔ امام احمد و نسائی نے عبداللہ بن مغفل سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ ابن اسحاق نے بھی ابن عباس سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ } ” اور وہی ہے جس نے روک دیے ان کے ہاتھ تمہاری طرف بڑھنے سے اور تمہارے ہاتھ ان کی طرف بڑھنے سے مکہ کی وادی میں “ { مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْہِمْ } ” اس کے بعد کہ اس نے تمہیں ان پر فتح دے دی تھی۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریش ِمکہ ّکے حوصلے پست کردیے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے لیے مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہ رہا اور انہوں نے اپنی تمام تر طاقت کے باوجود مسلمانوں کو اپنے برابر کا فریق تسلیم کرتے ہوئے ان سے صلح کرلی۔ اس صلح میں اگلے سال مسلمانوں کے عمرہ کرنے اور اس دوران مکہ شہر کو تین دن کے لیے مکمل طور پر خالی کردینے جیسی شرائط بھی شامل تھیں۔ دیکھا جائے تو قریش مکہ کے لیے مسلمانوں کو اپنا ہم ‘ پلہ ّسمجھتے ہوئے صلح کرنا اور پھر ایسی شرائط تسلیم کرلینا موت کا سامنا کرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ بہر حال اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندرونی طور پر اس قدر کمزور کردیا تھا کہ وہ یہ سب کچھ قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اس کے مقابلے میں وہ مسلمانوں سے صرف ایک یہ بات منوا سکے کہ اس سال عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں تاکہ وقتی طور پر ان کی ” ناک “ مکمل طور پر کٹنے سے بچ جائے۔ { وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا } ” اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: جب حضرت عثمان (رض) مکہ مکرمہ جاکر قریش کے لوگوں کو صلح کا پیغام دے رہے تھے، اس وقت مکہ مکرمہ کے کافروں نے پچاس آدمی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس غرض سے بھیجے تھے کہ وہ خفیہ طور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرکے (معاذاللہ) آپ کو شہید کردیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار کرادیا، دوسری طرف جب قریش نے ان آدمیوں کی گرفتاری کی خبر سنی تو انہوں نے حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو روک لیا، اس وقت اگر مسلمان ان پچاس آدمیوں کو قتل کردیتے تو جواب میں قریش کے لوگ حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرتے، اور مکمل جنگ چھڑ جاتی، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ان قیدیوں کو قتل نہ کریں، اور مسلمانوں کے ہاتھوں کو ان کے قتل سے روک دیا، حالانکہ وہ ان کے قابو میں آچکے تھے، اور دوسری طرف قریش کے ہاتھوں کو مسلمانوں سے لڑنے سے اس طرح روک دیا کہ ان کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ صلح پر راضی ہوگئے، حالانکہ حضرت عثمان (رض) سے وہ صاف انکار کرچکے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:24) بطن مکۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ بطن، بمعنی پیٹ۔ یہاں مراد وادی مکہ ۔ مکہ کے قریب، مکہ کی سرحد کے پاس ہے۔ من بعد ان اظفر کم علیہم : من حرف جر۔ ان مصدریہ۔ اظفر ماضی واحد مذکر غائب ۔ اظفار (افعال) مصدر۔ بمعنی کامیابی دینا۔ فتح مند کرنا۔ فیروز مند کرنا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اس نے تم کو ان پر ظفر یاب کرنے کے بعد کف ایدیہم عنکم وایدیکم عنہم۔ ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا تھا۔ ان اظفر کم علیہم۔ جملہ مضاف الیہ ہے بعد کا۔ بصیرا خبر ہے کان کی۔ اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کر رہے تھے دیکھ رہا تھا۔ فائدہ : صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ اگرچہ حدیبیہ کے مقام پر باقاعدہ لڑائی کی نوبت نہیں آئی تھی۔ لیکن کفار مکہ کے کئی جتھے اپنے بغض باطن سے مجبور ہوکر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے۔ حضرت انس (رض) سے مروی ہے کہ ایک دفعہ مکہ کے اسی شوریدہ سر پوری طرح مسلح ہوکر جبل تنعیم سے اترے۔ تاکہ بیخبر ی میں لشکر اسلام پر دھاوا بول دیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتے ہم نے ان کو محاصرہ میں لے لیا اور گرفتار کرلیا لیکن رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو معاف کردیا۔ اسی طرح ایک دفعہ عکرمہ بن ابی جہل نے پانچ سو آدمیوں کو ساتھ لے کر لشکر اسلام پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کا ایک دستہ ان کی سرکوبی کے لئے بھیجا لیکن وہ دم دبا کر بھاگ نکلے اور مکہ کی گلیوں میں جا کر پناہ لی۔ اس قسم کے کئی واقعات ہوئے جن سے جنگ کے شعلے بھڑک سکتے تھے اور صلح کی کوششیں ناکام ہوسکتی تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی صورت حال پیدا نہ ہونے دی اور کفار کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کردیں اور تمہیں بھی یہ حوصلہ بخشا کہ تم کو ان کی اشتعال انگیزیوں سے برافروختہ ہوکر ان پر حملہ نہ کردو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 حدیبیہ میں صلح کی گفتگو ہو رہی تھی کہ مشرکین مکہ میں سے ستر یا اسی آدمی مسلح ہو کر جبل تغیم سے اتر آئے کہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیا جائے مگر وہ گرفتار ہوگئے اور آنحضرت نے ان کو رہا کردیا۔ آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ (قرطبی) شاہ صاحب لکھتے ہیں اور نہ روکے لوگوں کے ہاتھ۔ “ یعنی لڑائی نہ ہونے دی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کے حالات پر تبصرہ جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے مقام پر جو حرم مکہ کے کنارے پر واقع ہے نہ صرف اہل مکہ کے ہاتھوں کو روکے رکھا بلکہ مسلمانوں کے ہاتھوں کو بھی کفار کی طرف بڑھنے سے روک لیا۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ وہی کافر ہیں جنہوں نے تمہیں مسجد حرام تک پہنچنے سے روک دیا اور جو قربانیاں تم اپنے ساتھ لائے تھے انہیں بھی حرم میں نہ جانے دیا۔ بیشک یہ دونوں جرائم اپنی جگہ پر بہت بڑے تھے لیکن اگر اہل مکہ کے ساتھ تمہاری مڈ بھیڑ ہوجاتی تو وہاں ایسے مومن اور مومنات بھی موجود تھیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے۔ لڑائی ہونے کی صورت میں اگر تم انہیں زخمی یا شہید کردیتے تو اس میں نہ صرف تمہیں نقصان پہنچتا بلکہ تمہاری عزت پر بھی حرف آتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں اس نقصان سے بچا لیا وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے دامن میں لے لیتا ہے۔ اگر کفار مسلمانوں سے الگ ہوتے تو ہم انہیں حرم سے روکنے کی وجہ سے تمہارے ہاتھوں سے شدید عذاب دیتے۔ اس آیت میں مرکزی طور پر دو مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ 1 ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روک کر نہ صرف اللہ کے قانوں کی خلاف ورزی کی بلکہ وہ بیت اللہ کی توہین کے مرتکب بھی ہوئے۔ کیونکہ بیت اللہ پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے جس سے کسی مسلمان کو روکا نہیں جاسکتااِلاَّ یہ کہ کوئی حرم کی توہین کرنے والا ہو یا اس سے تخریب کاری کا خطرہ ہو۔ اہل مکہ نے نہ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو حرم میں داخل ہونے سے روکا بلکہ قربانی کے جانوروں کو بھی حرم تک نہ جانے دیا۔ یاد رہے قربانی کے جانوروں سے مراد عید الاضحی کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور نہیں بلکہ عرب کے لوگ عمرہ کے وقت بھی اپنے ساتھ جانور لایا کرتے تھے تاکہ انہیں حرم کے زائرین اور اس کے مکینوں کے لیے ذبح کیا جائے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ للنَّاسِ سَوَآءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ) (الحج : ٢٥) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور مسجد حرام کی طرف آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں مقامی اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔ مسجد حرام میں جو بھی گمراہی اور ظلم کا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب دیں گے۔ “ 2 ۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اگر مکہ میں تمہاری اور کفار کی جنگ ہوجاتی تو اس سے ان مسلمان مردوں اور خواتین کو بھی نقصان پہنچتا جن کو تم نہیں جانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے وہ بھی مارے جاتے جس میں مسلمانوں کا افرادی نقصان بھی ہوتا اور کفار پراپیگنڈہ کرتے کہ مسلمان انتقام لینے پر آئیں تو اپنوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اس سے مسلمانوں کی نیک نامی میں فرق آتا۔ اس فرمان میں ایک اصول یہ واضح ہوا کہ مسلمانوں کو ہر ممکن ایسی لڑائی سے بچنا چاہیے جس میں وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پایا جائے۔ ان وجوہات کی وجہ سے فرمایا کہ اگر کفار مکہ میں رہنے والے مسلمانوں سے الگ تھلگ ہوتے تو حرم سے روکنے کی وجہ سے انہیں سخت سزا دی جاتی۔ ” رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے اس کو لوگوں نے حرام قرار نہیں دیا۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس میں کسی کا خون بہائے اور نہ ہی اس کا درخت کاٹا جائے۔ اگر کوئی شخص یہ بات کہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں قتال کیا تو تم کہو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کچھ دیر کے لیے اجازت دی تھی۔ تم میں سے کسی کو بھی یہ اجازت نہیں اور مجھے بھی چند گھڑیوں کے لیے اجازت دی گئی اس کی حرمت پہلے کی طرح ہی لوٹ آئی ہے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ دوسرے لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں۔ “ (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب یبلغ العلم الشاہد الغائب) مسائل ١۔ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا بڑے گناہ کا کام ہے۔ ٢۔ جنگ کے دوران وہاں کے مسلمانوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت میں شامل فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کیا ہے۔ ٥۔ حدیبیہ کا موجودہ نام شمیسی ہے جو موجودہ مکہ کے ساتھ مل چکا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت کے دامن میں لے لیتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٢۔ ” اللہ “ نیک لوگوں کو اپنی رحمت سے ہمکنار کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٧٥) ٣۔ ایمان میں پختہ رہنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٤۔ ” اللہ “ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (الشورٰی : ٨) ٥۔ ” اللہ “ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( الاعراف : ١٥٦) ٦۔ ” اللہ “ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٧۔ ” اللہ “ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبہ : ٩٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایک واقعہ تھا جو ہوچکا تھا اور سامعین اسے خوب جانتے تھے ۔ اللہ اس انداز میں اس کا ذکر فرما رہا ہے کہ بتائیں کہ جو واقعات بھی ہوئے ان میں اللہ کی تدبیر اور تقدیر کام کر رہی تھی ، اور اس سے قرآن مجید ان کے دلوں میں اس احساس کو گہرا کر رہا تھا کہ اللہ کا ہاتھ ان کے لئے تدبیر کر رہا ہے ، ان کی قیادت اللہ کے رسول کے ذریعہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اور اللہ ان کے میلانات کو بھی کنٹرول کرتا ہے تا کہ وہ اللہ کے لئے ہوجائیں۔ اپنے نفوس کو اللہ کے سپرد کردیں اور انہیں احکام الٰہی میں کوئی تردد نہ رہے۔ بالکل ادھر ادھر نہ دیکھیں اور پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اپنے احساسات ، اپنے جذبات ، اپنا رخ اور اپنی سرگرمیاں اللہ کے حوالے کردیں اور یہ یقین کرلیں کہ تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور یہ کہ خیر وہی ہے جسے اللہ اختیار کرے اور یہ کہ وہ اللہ کی قدرت اور مشیت کے مطابق چل رہے ہیں۔ چاہے وہ کوئی بات اختیار کریں یا اسے رد کردیں اور اللہ بہرحال مسلمانوں کی بھلائی چاہتا ہے ، تو اب اگر وہ اللہ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کردیں تو یہ بھلائی بڑی آسانی کے ساتھ حاصل ہوجائے گی۔ اللہ علیم وبصیر ہے۔ ظاہر اور پوشیدہ سب کو جانتا ہے وہ علم و بصیرت کے ساتھ ان کے لئے راہ تجویز کرتا ہے۔ وہ ان کو ہرگز برباد ہونے نہیں دیتا۔ نہ اللہ کسی ایسی چیز کو ان سے روکتا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ وکان اللہ بما تعملون بصیرا (٤٨ : ٢٤) “ اور جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ اسے دیکھ رہا ہے ”۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز رکھا علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں آیت بالا کا سبب نزول بتاتے ہوئے متعدد اقوال لکھے ہیں صحیح مسلم میں ایک واقعہ حضرت سلمہ بن اکوع (رض) سے اور دوسرا حضرت انس (رض) سے مروی ہے اور دونوں کو آیت بالا کا سبب نزول بتایا ہے حضرت سلمہ بن اکوع (رض) نے بیان کیا کہ جب ہمارے اور اہل مکہ کے درمیان صلح ہوگئی تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے ہٹا کر لیٹ گیا اس وقت اہل مکہ میں سے چار مشرکین وہاں پہنچ گئے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ناشائستہ کلمہ کہنے لگے مجھے برا لگا اور میں جگہ چھوڑ کر دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا ان لوگوں نے اپنے ہتھیار لٹکا دئیے اور لیٹ گئے میں نے اپنی تلوار لی اور ان چاروں آدمیوں کے ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا اور ان سے کہا کہ دیکھو قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزت بخشی ہے اگر تم میں سے کوئی شخص سر اٹھائے گا اس کا سر تن سے جدا کردوں گا اس کے بعد میں انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آیا اور میرے چچا ستر آدمی قید کرکے لائے جن کا نام عامر تھا اس کے گرفتار کردہ لوگوں میں مکرز نامی بھی ایک شخص تھا اس کے ساتھ اور افراد بھی تھے جو مشرکین میں سے تھے جن کی تعداد ستر افراد تھی آپ نے ان کو معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ﴾ (الآیۃ) نازل فرمائی۔ (صحیح مسلم) اور حضرت انس (رض) سے یوں روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اسی ٨٠ آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آگئے یہ لوگ ہتھیار پہنے ہوئے تھے ان کا ارادہ یہ تھا کہ غفلت کا موقع پاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ پر حملہ کردیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو پکڑ لیا وہ لوگ قابو میں آگئے تو اپنی جانوں کو سپرد کردیا آپ نے ان کو زندہ چھوڑ دیا اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت مذکوہ بالا نازل فرمائی (صحیح مسلم ١١٦ ج ٢) مفسر ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنے مومن بندوں پر احسان جتایا ہے کہ اس نے مشرکین کے ہاتھوں سے تمہیں محفوظ رکھا اور ان کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی اور مومنین کے ہاتھوں کو بھی مشرکین تک نہ پہنچنے دیا۔ اس کے بعد آیت کا ترجمہ دوبارہ پڑھ لیجیے اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں کہ کس کی کس طرح حفاظت فرمائے اور مخالف کے قبضہ ہونے کے بعد اس کے حملہ سے کس طرح بچائے اور قلوب کو جس طرح چاہے پلٹ دے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن لوگوں سے نرمی کا معاملہ فرمایا اور معاف کردیا عموماً وہ لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” وھو الذی کف۔ الایۃ “ بطن مکہ سے مقام حدیبیۃ مراد ہے اور یہ اہل مکہ کے ان ستر اسی آدمیوں کی طرف اشارہ ہے جو ہتھیار پہن کر مقام حدیبیہ میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ مسلمانوں نے ان کو پکڑ لیا، حضرت پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس حرکت سے درگذر فرمایا اور انہیں چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ یعنی اس میں بھی الہ تعالیٰ کی لطیف حکمت تھی کہ اس نے مقام ھدیبیہ میں لڑائی نہیں ہونے دی حالانکہ مشرکین حملہ آور ہوچکے تھے اور تم ان پر غلبہ و قبضہ بھی حاصل کرچکے تھے، کیونکہ اگر لڑائی ہوجاتی تو پھر صلح معرض وجود میں نہ آتی تجو بیشمار دینی برکات اور دنیوی منافع کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ یہ جنگ کو روکنے کی پہلی حکمت تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اور وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے مکہ کی سرحد میں اور شہر مکہ کے قریب ان منکروں پر قابو یافتہ ہونے کے باوجود ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا اور جو اعمال تم کرتے ہو وہ ان سب کو دیکھ رہا ہے۔ یعنی مکہ سے بالکل قریب پہنچنے کے بعد، بعد اس کے کہ تم کو ان پر فتحمند اور فیروزمند کردیا پھر بھی جنگ کرنے سے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکے رکھا۔ یہ بھی حضرت حق تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایک ایسے مقام پر پہنچ کر جہاں جنگ ناگزیر تھی اور جنگ کی حالت میں مسلمانوں کی فتح یقینی تھی پھر بھی جنگ سے روک دیا اور اس جنگ نہ ہونے سے جو فوائد ظہور پذیر ہوئے اور جس آسانی سے مکہ معظمہ فتح ہوا وہ بات مسلمانوں کو حاصل نہ ہوتی۔ بعض حضرات نے فرمایا یہ ان آدمیوں کی طرف اشارہ ہے جن کو مسلمانوں نے گرفتار کیا تھا اور ان کے بعد میں رہا کردیا۔ بہرحال جو کچھ ہوا وہ حق تعالیٰ کا احسان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہ اسی آدمی پکڑے بیچ شہر مکہ کے یعنی قریب شہر کے گویا شہر کا بیچ ہی ہے۔ اسی آدمیوں کا ذکر اوپر آچکا ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی غرض سے آئے تھے کہ اکا دکا حملہ کرکے مسلمانوں کو قتل کریں تمہارے کام جو تم کررہے تھے ان کو دیکھ رہا تھا اور ان کے اثرات سے واقف تھا۔