Surat ul Fatah

Surah: 48

Verse: 28

سورة الفتح

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾

It is He who sent His Messenger with guidance and the religion of truth to manifest it over all religion. And sufficient is Allah as Witness.

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کرے ، اور اللہ تعالٰی کافی ہے گواہی دینے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ ... He it is Who has sent His Messenger with guidance and the religion of truth, with beneficial knowledge and righteous good deeds. Indeed, the Islamic Shari`ah has two factors, knowledge and deeds. The true religious knowledge is by definition true, and the accepted Islamic acts are by definition accepted. Therefore, t... he news and creed that this religion conveys are true and its commandments are just, ... لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ... that He may make it superior to all religions. i.e. all the religions of the people of the earth, Arabs and non-Arabs alike, whether having certain ideologies or being atheists or idolators. ... وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا And All-Sufficient is Allah as a Witness. that Muhammad is His Messenger and that He will grant him victory. Allah the Exalted and Most Honored has the best knowledge.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے تاہم دنیاوی اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولی اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انہیں غلبہ حاصل رہا اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان مسلمان بن جائیں (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُ... مْ مُّؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :139) ۔ یہ دین غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اس آیت کی تشریح کے لئے سورة توبہ کی آیت نمبر ٣٣ کا حاشیہ نمبر ٣٣ ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی …: اس سے پہلی آیت :(لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق) اور یہ آیت :(ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق) دونوں آیتوں میں ” رسولہ “ کا لفظ واضح کر رہا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام میں امن و اطمینان کے ساتھ داخل ہونے کا خواب سچا د... کھایا ہے، بلکہ اس نے اپنے رسول کو ہدیات اور دین حق دے کر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ صرف مکہ نہیں بلکہ دین کو پوری زمین پر اور صرف جزیرہ عرب کے ادیان یہودیت، نصرانیت اور بت پرستی پر نہیں بلکہ دنیا کے تمام دینوں پر غالب کر دے اور یقیناً آپ امن و اطمینان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوں گے، مکہ اور جزیرہ عرب فتح ہوگا، پھر زمین کے مشرق و مغرب پر اللہ کا یہ دین چھا جائے گا۔ تفسیر قاسمی میں ہے، ابن تیمیہ نے فرمایا :” بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو علم، حجت اور بیان کے ساتھ ہر دین پر غالب فرما دیا، جیسا کہ اسے وقت، نصرت اور تائید کے ساتھ غالب فرمایا اور پوری زمین اس دین سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے مشرق و مغرب تک بھر گئی۔ اہل اسلام کی سلطنت دائمی ہے، کوئی اسے اس طرح ختم نہیں کرسکتا جس طرح یہود کی سلطنت ختم ہوگئی اور ان کے بعد کتنی ہی قوموں کا اقتدار زمین کے بہترین علاقوں سے مٹ گیا۔ “ یہ آیت اس سے پہلے سورة توبہ (٣٣) میں گزر چکی ہے، وہاں اس کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ تیسری بار سورة صف (٩) میں آئے گی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ (He is the One who has sent His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with Guidance and the religion of truth, so that He makes it prevail over all religions....48:28). In the preceding verses, promises were made about conquests and spoils of war; reference was made to the special merits of the participants of Hudaibiyah and general mer... its of all the noble Companion (رض) ; and glad tidings were given to them. Now at the conclusion of the Surah all these themes are summarized and emphasized. Because these blessings were showered and the glad tidings were given as a result of accepting and obeying the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the verse lays further stress on strengthening the acceptance and obedience of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It also denounces those who reject the messenger-ship of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and allays suspicions of those Muslims who were dissatisfied with the terms and provisions of the Treaty of Hudaibiyah. The verse in addition confirms the messenger-ship of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and, giving glad tidings, makes a very bold prophecy to the effect that not only would Islam prevail in Arabia but would also eventually triumph over all other religions.  Show more

(آیت) هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ ، سابقہ آیات میں جو فتوحات اور غنائم کے وعدے اور اہل حدیبیہ کے خصوصاً اور تمام صحابہ کے عموماً فضائل اور بشارتیں مذکور ہوئے ہیں اب خاتمہ سورت میں ان مضامین کی تلخیص و تاکید ہے اور چونکہ یہ سب نعمتیں اور بشارتیں رسول اللہ (صلی اللہ...  علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور تصدیق کی بنا پر ہوئیں اس لئے اس تصدیق و اطاعت کی مزید تاکید کے لئے نیز منکرین رسالت محمدیہ پر رد کرنے کے لئے اور صلح حدیبیہ کے وقت جو بعض مسلمانوں کے دلوں میں کچھ شکوک پیدا ہوگئے تھے ان کے ازالہ کے لئے ان آیات میں آپ کی رسالت کا اثبات بلکہ تمام دنیا کے دینوں پر آپ کے دین کو غالب کرنے کی بشارت دی گئی ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝ ٠ ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝ ٢٨ ۭ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، ... وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ ظَهَرَ ظاهر هونا الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] . ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ اللہ ایسا ہے جس نے رسول اکرم کو توحید یا یہ کہ قرآن کریم اور سچا دین یعنی کلمہ شہادت کلمہ لا الہ الا اللہ دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔ چناچہ جب تک روئے زمین پر کوئی مسلمان موجود رہے گا قیامت قائم نہ ہوگی اور اللہ کافی گواہ ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں اور محمد ... اللہ کے رسول ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } ” وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر “ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوع انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے : ؎ نوعِ انساں را پیام آخریں ح... امل اُو رحمۃ ٌللعالمین ! (اقبالؔ) مزید برآں ان کو سچا اور کامل دین بھی عطا فرمایا ہے ‘ جو عادلانہ نظام زندگی کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } ” تاکہ وہ غالب کر دے اسے ُ کل کے کل نظام زندگی پر۔ “ گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت ٢ اور آیت ٢٠ میں جس سیدھے راستے (صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا) کا ذکر ہے وہ راستہ ” اظہارِ دین حق “ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورة الشوریٰ کی آیت ١٣ میں اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَکے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو ! پھر سورة الشوریٰ کی آیت ٢١ میں جھوٹے معبودوں کے ابطال کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ” الدِّیْن “ (نظامِ زندگی) کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کے یہ الفاظ : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُط } ” کیا ان کے لیے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟ “ یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے ‘ تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے ؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ہی ” اظہارِدین حق “ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ اس ” الدِّین “ کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } ” اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔ “ عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ” گواہ “ کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ” مددگار “ ہوگا۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢٣ میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے ‘ جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا : { وَادْعُوْا شُہَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ بلا لو اس کام کے لیے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا۔ ” شَھِدَ یَشْھَدُ “ کے معنی کسی موقع یا وقوعہ پر حاضر ہونے کے ہیں۔ ” گواہی “ کے معنی اس لفظ میں اسی حاضری کے مفہوم کی وجہ سے آئے ہیں ‘ کیونکہ کسی واقعے کی صحیح گواہی کا اہل تو وہی شخص ہوسکتا ہے جو وہاں اس وقت موقع پر حاضر ہو۔ جبکہ اسی ” حاضری “ کی وجہ سے اس لفظ میں ” مددگار “ کے معنی بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے آپ کی مدد وہی شخص کرسکے گا جو آپ کے ساتھ موجود ہوگا۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جو آپ کا بہت اچھا دوست ہو ‘ آپ کے ساتھ مخلص بھی ہو ‘ مگر جب آپ کو مدد کی ضرورت ہو اس وقت آپ کے پاس موجود ہی نہ ہو تو وہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ چناچہ سیاق وسباق کے اعتبار سے یہاں لفظ شھید کے معنی مددگار کے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 The reason why this thing has been mentioned here is that when at Hudaibiyah the peace treaty was going to be written down, the disbelievers had objected to the use of the words Rasul-Allah (Messenger of Allah) with the name of the Holy Prophet, and on their insistence the Holy Prophet himself had wiped off these words from the document. At this Allah says: "Our Messenger's being a Messenger is...  a reality which remains unaffected whether someone believes in it or not. If some people do not believe in it, they may not, for "AIIah is enough for a witness" over it. Their denial will not change the reality, but the Guidance and the true Faith which this Messenger has brought from Us, shall prevail over all religion, no matter how hard the deniers try to obstruct its progress." "All religion" implies alI those ways of life which include the nature of din (religion). We have explained it fully in E.N. 3 of Surah Az-Zumar and E.N. 20 of Surah Ash-Shura above. Here what Allah has stated in clear words is: The purpose of the Holy Prophet's appointment as a Prophet was not merely to preach this Religion but to make it prevail over all others. In other words, he did not bring this Religion so that it might survive in a limited compartment of life which is allowed it by the dominant religion, while the rest of the spheres of life, by and large, should remain under the relentless control of some false religion. But he had brought it so that it should be the dominant Religion of life and any other religion should survive, if at all it survives, only within the limits in which it allows it to survive. (For further explanation, sec E.N. 48 of Surah Az-Zumar).  Show more

سورة الْفَتْح حاشیہ نمبر :51 اس مقام پر یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ میں جب معاہدہ صلح لکھا جانے لگا تھا اس وقت کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ لکھنے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے اصرار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود معاہدے کی تحریر میں سے ... یہ الفاظ مٹا دیے تھے ۔ اس پر اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ ہمارے رسول کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس میں کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ اس کو اگر کچھ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں ۔ اس کے حقیقت ہونے پر صرف ہماری شہادت کافی ہے ۔ ان کے انکار کر دینے سے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی ، بلکہ ان کے علی الرَّغم اس ہدایت اور اس دین حق کو پوری جنس دین پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا جسے لے کر یہ رسول ہماری طرف سے آیا ہے ، خواہ یہ منکرین سے روکنے کے لیے کتنا ہی زور مار کر دیکھ لیں ۔ پوری جنس دین سے مراد زندگی کے وہ تمام نظام ہیں جو دین کی نوعیت رکھتے ہیں ۔ اس کی مفصل تشریح ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زمر ، حاشیہ 3 ، اور تفسیر سورہ شوری حاشیہ 20 میں کر چکے ہیں ۔ یہاں جو بات اللہ تعالی نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام نظامات زندگی پر غالب کر دینا تھا ۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ دین اس لیے نہیں لائے تھے کہ زندگی کے سارےشعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین ان حدود کے اندر سکڑ کر رہے جن میں دین غالب اسے جینے کی اجازت دے دے ۔ بلکہ اسے آپ اس لیے لائے تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جیے بھی تو ان حدود کے اندر جیے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القران ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زمر ، حاشیہ48 ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(48:28) ھو : ضمیر شان۔ جو اللہ کی طرف راجع ہے جملہ مابعد اس کی تفسیر ہے۔ دین الحق۔ دین اسلام ۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ دین الحق ای بدین الحق۔ لیظھرہ۔ لام تعلیل کا۔ ہظھر مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) واحد مذکر غائب۔ اظھار (افعال) مصدر۔ بمعنی غالب کرنا۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب جو دین الحق کی طرف...  راجع ہے ۔ کہ اس (دین حق یعنی دین اسلام) کو غالب کردے۔ علی الدین کلہ : ای علی الادیان کلہا۔ یعنی تمام (دوسرے) دینوں پر۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ تمام مذاہب پر غالب کر دے۔ جو مذہب (گذشتہ زمانے میں) حق تھے۔ یعنی اللہ کی طرف آئے تھے) ان کو منسوخ کردینے کے لئے اور جو مذہب باطل تھے ان کے غلط ہونے کو دلائل اور براہین سے ثابت کرنے کے لئے یا کبھی نہ کبھی کسی زمانہ میں مسلمانوں کو ان پر غلبہ عطا کرنے کے لئے۔ وکفی باللّٰہ شھیدا۔ واؤ عاطفہ کفی ماضی واحد مذکر غائب کفایۃ (باب ضرب) مصدر۔ کفایۃ کے معنی اس عمل کے ہیں جس میں کسی کی حاجت روائی اور مقصد رسانی کی گئی ہو۔ اس کا استعمال متعدی بھی ہوتا ہے اور لازم بھی کبھی متعدی بیک مفعول ہوتا ہے۔ جیسے کفانی قلیل من المال (مجھے تھوڑا سا مال کافی ہوگیا۔ اور کبھی متعدی بدو مفعول ہوتا ہے ۔ جیسے وکفی اللّٰہ المؤمنین القتال (33:25) اور اپنے اوپر لے لی اللہ نے مومنوں کی جنگ یا۔ اور اللہ مومنوں کو لڑائی کے بارے میں کافی ہوا۔ یعنی مسلمانوں کو غزوہ احزاب میں مشرکین کے مقابلہ میں عمومی طور جنگ کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم ہی ایسے اسباب پیدا کر دئیے جو کفار کی ہزیمت اور بےنیل و مرام واپسی کا سبب بنے۔ اور جب کفی لازم مستعمل ہو تو خلاف قیاس فاعل پر تاکید اتصال اسنادی کے لئے یاء کا اضافہ کیا جاتا ہے اور ایک اسم صفت فاعل سے حال کے طور پر اس عمل سے مشتق کرکے جس کے متعلق کفایت کا اثبات مقصود ہولے آیا جاتا ہے۔ خواہ فاعل خالق ہو یا مخلوق ! جیسے کفی باللّٰہ شھیدا (آیت زیر مطالعہ 48:14) آج تو اپنا آپ ہی محاسب کافی ہے۔ شھیدا فاعل (اللہ) سے حال ہے۔ مطلب یہ کہ فتح مکہ کے وعدہ حق ہونے پر۔ یا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر اللہ کی شہادت کافی ہے۔ یہ مسجد حرام میں داخلے کے وعدہ کی تاکید ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ہوا یہ کہ حدیبیہ روانہ ہونے سے پہلے مدینہ منورہ آنحضرت نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ سمیت اطمینان سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور عمرہ کے ارکانب جا لا رہے ہیں۔ کوئی حلق کر رہا ہے اور کوئی تقصیر یعنی بال ترشوارہا ہے پیغمبر کا خوب چونکہ جھوٹا نہیں ہوسکتا اس لئے مسلمان خوش ہوئے اور عموماً یہ سم... جھے کہ اسی سال مکہ میں داخلہ ہوگا لیکن جب مکہ میں داخل ہوئے بغیر حدیبیہ سے پلٹے تو دلوں میں تردد پیدا ہوا اور منافقوں کو یہ طعنہ دینے کا موقعہ ملا کہ پیغمبر کا خواب غلط نکلا۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے واضح فرمایا کہ پیغمبر کو یہ خواب ہم نے دکھایا اور وہ سچا ہے جو یقینا پورا ہوگا۔ چناچہ اس کے مطابق اگلے سال مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور اطمینان سے عمرہ کر کے واپس آئے۔ خود خواب میں اس کے پورا ہونے کا وقت نہیں بتایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے طور پر یہ سمجھ لیا تھا کہ شاید اسی سال مکہ معظمہ میں داخلہ ہوگا۔ چناچہ روایات میں ہے کہ حدیبیہ سے واپسی پر حضرت عمر نے آنحضرت سے عرض کی ” کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہو کر طواف کرینگے “ آپ نے جواب دیا۔ ” ہاں لیکن کیا میں نے تم سے یہ کہا تھا کہ تم اسی سال مسجد حرام میں دخل ہو گے ؟ اور یہی جواب حضرت عمر کو حضرت ابوبکرصدیق نے بھی دیا تھا۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ باعتبار حجت و دلیل کے تو ہمیشہ اور باعتبار شوکت و سلطنت اہل اسلام کے بشرط صلاح اہل دین کے اور چونکہ یہ شرط صحابہ میں پائی جاتی تھی اس لئے یہ آیت اثبات رسالت کے ساتھ بشارت بھی ہوگئی، صحابہ کے لئے فتوحات عامہ کی، چناچہ ایسا ہی واقع ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت، مکہ کی فتح اور دیگر فتوحات اس لیے عطا فرمائیں تاکہ اللہ کا دین غالب آجائے۔ قرآن مجید نے تین مقامات پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ” اللہ “ نے اپنا رسول ہدایت اور دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے تاکہ دین اسلام تمام باط... ل ادیان پر غالب آجائے۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے حق غالب کرنے پر قادر ہے اور اس کی گواہی اپنے رسول اور دین کے بارے میں کافی ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ دین کے غلبے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ دین اسلام کا کوئی قانون اور مسئلہ ایسا نہیں جسے دلائل کی بنیاد پر جھوٹا یا ناقابل عمل ثابت کیا جاسکے۔ دین ہمیشہ دلائل اور حقائق کی بنیاد پر ہر دور کے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور رہے گا۔ البتہ مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی غلبے کے لیے شرط یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک ہی غالب رہیں گے جب تک یہ دین کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے۔ ” بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ “ کے الفاظ مفہوم کے لحاظ سے آپس میں مترادف ہیں۔ جس ہدایت کے ساتھ ” اللہ “ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے اس کی تشریح دین ہے اور اس کی اساس ” اللہ “ کی توحید ہے۔ دین کا مقصد ہدایت اور راہنمائی کرنا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی کو صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ (الفاتحہ : ٥) ” بِالْھُدیٰ “ سے مراد وہ راہنمائی اور بصیرت ہے جس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دین سمجھایا اور اس کا نفاذ فرمایا۔ جہاں تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین حق کے غلبہ کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور دین کو جزیرۃ العرب جو موجدہ جغرافیہ کے مطابق سعودی عرب، یمن، کو یت، بحرین، مسقط، سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات کا پورے رقبہ پر مشتمل تھا، اس پر غالب فرمایا۔ اس سیاسی، اخلاقی، جہادی اور دینی غلبہ کے اثرات تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کی طرف پیش قدمی فرمائی تو رومی جو اس دور کی واحد سیاسی قوت تھے وہ آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے۔ (ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) (الصف : ٩) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دوسرے ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ “ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) (التوبہ : ٣٣) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کردے، خواہ مشرک لوگ برا سمجھتے رہیں۔ “ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًا) (الفتح : ٢٨) ” وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ “ (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) (المجادلہ : ٢١) ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔ “ ” یہ تو محض تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے ہے ورنہ مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو غالب، حکمت والا ہے۔ “ (آل عمران : ١٢٦) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دین آسان ہے کوئی شخص اسلام پر غالب نہیں آسکتا بلکہ دین ہی غالب ہوگا۔ اجروثواب کا راستہ اور میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کو خوشخبریاں دو ، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہو۔ “ (رواہ البخاری : باب الدین یسر) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلَمُوْ وَلَا یُعْلیٰ ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔ “ اس غلبے کے نتیجے میں مسلمان دنیا میں تقریباً ایک ہزار سال تک سیاسی، اخلاقی اور علمی طور پر غالب رہے۔ مسائل ١۔ اللہ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ دین حق تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے۔ ٢۔ رسول اور دین اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور دین کو غالب فرمایا : ١۔ وہ ذات جس نے رسول کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح : ٢٨) ٢۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خالصتاً اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ : ١٩٣) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ کتنی قلیل جماعتیں جو ” اللہ “ کے حکم سے کثیر جماعتوں پر غالب آئیں۔ ( البقرۃ : ٢٤٩) ٦۔ ” اللہ “ کا وعدہ ہے کہ میں اپنے رسولوں کو ضرور غالب کروں گا۔ (المجادلہ : ٢١) ( المومنوں : ٥٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب سچا ہوئی۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور اگلے سال فتح مکہ بھی ہوگیا اور اللہ کا دین مکہ پر بھی غالب ہوگیا۔ اور اس کے بعد پورے جزیرہ العرب میں غالب ہوگیا اور اب آخری خوشخبری یوں پوری ہوئی : ھو الذی ارسل ۔۔۔۔۔ باللہ شھیدا (٤٨ : ٢٨) “ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول (... صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دین حق کے سا تھ بھیجا ہے تا کہ اس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے ”۔ دین اسلام صرف جزیرۃ العرب ہی میں غالب نہ ہوا بلکہ پوری دنیا میں غالب ہوا۔ اور یہ عمل صرف نصف صدی کے اندر اندر پورا ہوگیا۔ یہ دین کسریٰ کی پوری مملکت پر غالب ہوگیا اور قیصر کی مملکت کے بھی بڑے حصے کو فتح کرلیا۔ ہند اور چین میں بھی غالب ہوگیا ۔ پھر جنوبی ایشیاں اور ملایا میں غالب ہوا اور انڈونیشیا میں غالب ہوا اور یہی دنیا تھی جو اس دور میں آباد تھی۔ یعنی چھٹی صدی اور ساتویں صدی عیسوی میں۔ لیکن اللہ کا دین آج تک تمام ادیان پر غالب ہے۔ اگرچہ دنیا کے ان حصوں میں جہاں مسلمانوں کو سیاسی غلبہ حاصل تھا ، مسلمان پسپا ہوگئے۔ خصوصاً یورپ اور بحر ابیض کے جزائر سے۔ اور مسلمان مشرق و مغرب میں اٹھنے والی نئی قوتوں کے مقابلے میں پسپا ہوگئے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دین حق یعنی دین اسلام بحیثیت دین آج بھی تمام ادیان پر غالب ہے۔ یہ دین اپنی ذات ، اپنی ماہیت اور اپنی ذاتی صلاحیتوں اور خوبیوں کی وجہ اپنے ماننے والوں کی مدافعت بغیر تلوار کے کرتا ہے اور بغیر کسی سیاسی قوت کی پشت پناہی کے یہ دن آگے بڑھ رہا ہے ۔ کیونکہ اس دین کی فطرت میں نوامیس فطرت کے ساتھ ہم رنگی ہے اور قوانین فطرت اس کائنات میں اللہ کے ودیعت کردہ حقیقی اصول ہیں۔ پھر اس دین میں عقل ، روح اور جسم سب کی ضروریات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ انسانی تعمیر و ترقی ، سوسائٹی کی ضرورت ، فرد کی ضروریات سب کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ ایک جھونپڑی کے باشندے اور ایک محل اور کوٹھی کے باشندے سب کی ضرورت کو اس دین میں پورا کیا گیا ہے۔ دوسرے مذاہب کے پیرو کار اگر اس دین پر تعصب سے پاک نظروں کے ساتھ غور کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ بہت بڑی قوت والا دین ہے۔ اور یہ آج بھی انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے اور اس ترقی یافتہ دور میں کسی بھی ترقی سوسائٹی کی ضروریات کو یہ دین نہایت ہی استقامت کے ساتھ پوری کرسکتا ہے۔ وکفی باللہ شھیدا (٤٨ : ٢٨) ” اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے “۔ غرض بعث نبی کے بعد ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ اللہ کا یہ وعدہ سیاسی لحاظ سے سچا ثابت ہوگیا اور یہ دین تمام دنیا پر غالب ہوگیا اور اپنی ذات کے اعتبار سے یہ اب بھی تمام ادیان پر غالب ہے۔ بلکہ تمام دوسرے ادیان دنیا سے ختم ہوگئے اور یہی ایک دین ہے جو اپنی ذاتی صلاحیت کی وجہ سے قائم و دائم ہے اور اپنی عملیت کے لحاظ سے یہ ہر وقت قابل عمل ہے۔ آج صرف اس دین کے ماننے والے اس حقیقت کے ادراک سے محروم ہیں کہ یہ دین اسلام اپنی ذات کے اعتبار سے غالب ہے۔ جبکہ اس دین کے دشمن اس بات کو جانتے ہیں اور اس سے بہت ڈرتے ہیں اور اپنی سیاسی پالیسی میں دین اسلام کی اس خطرناکی کو پیش نظر رکھتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کردے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ پورا فرما دیا اس مضمون کی آیت سورة التوبہ میں بھی گزر چکی ہے وہاں تفسیر اور تشریح دیکھ ل... ی جائے۔ ﴿وَ كَفٰى باللّٰهِ شَهِيْدًاؕ٠٠٢٨﴾ (اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اللہ تعالیٰ کا گواہ ہونا کافی ہے) مشرکین نے صلح نامہ میں جو ھٰذا ما صالح علیہ محمد رسول اللّٰہ لکھنے سے انحراف کیا تو اس کی وجہ سے آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ (تفسیر قرطبی ٢٩٢ ج ١٦)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” ھو الذی “ جواب شبہہ کے بعد توحید اور اتباع رسول کی ترغیب۔ ” الہدی “ توحید۔ ” دین الحق ‘ دین اسلام (مدارک) ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغام توحید اور دین اسلام دے کر بھیجا ہے تاکہ توحید اور دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب و فائق کرے۔ اور اللہ تعالیٰ اس وعدے پ... ر خود شاہد ہے اور وہ اس وعدے کو ضرور پورا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا اور اس کی جھلک خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی زندگی میں دیکھ لی۔ دین اسلام نے گذشتہ ادیان کو منسوخ کردیا، اسلام کو علمی اور دلائل کے اعتبار سے باقی دینوں پر غالب فرمایا اور جس غیر مسلم قوم نے مسلمانوں سے ٹکر لی اسے مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب و مقہور کردیا۔ لعلیہ علی جنس الدین کلہ بنسخ ماکان حقا و اظہار فساد ماکان باطلا او بتسلیط المسلمین علی اھلہ اذا ما من اھل دین الا وقد قہرہم المسلمون (بیضاوی) ۔ دین اسلام کو اللہ نے اس اعتبار سے بھی باقی تمام دینوں پر غالب فرمایا کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں مثلا عبادت، معاشرت، معیشت سیاست، حکومت، عدالت وغیرہ کے مسائل کا جو حل اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہر لحاظ سے باقی تمام ازموں کے پروگرام سے بہتر اور سب پر فائق ہے۔ اسلامی نظام حیات کی باقی نظامہائے زندگی پر برتری اور فوقیت عقل و تجربہ کی روشنی میں ثابت ہوچکی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین کے ساتھ اور ہدایت ودین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین حق کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کردے اور اللہ تعالیٰ کافی ہے گواہی دینے والا اور اللہ تعالیٰ بس ہے حق ثابت کرنے والا۔ ہدایت یعنی قرآن۔ دین حق یعنی اسلام، غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان ... مروجہ کا ناسخ ہے یا دلیل کے اعتبار سے ہر دین غالب ہے اور شوکت وقوت کے اعتبار سے بھی غالب ہے اگر مسلمانوں کی عملی حالت درست اور صحیح ہو۔ بعض علما نے فرمایا یہ غلبہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوگا اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا یعنی اس بات پر جو وعدہ فرمایا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے یا یہ مطلب ہے کہ اگ رکافر تیری رسالت اور تیری صداقت کی گواہی نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ گواہی دینے کو کافی ہے کہ تو اس کا رسول ہے اور دین حق لے کر آیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس دین کو اللہ نے ظاہر میں بھی سب سے غالب کردیا ایک مدت اور دلیل سے غالب ہے ہمیشہ۔  Show more