Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 1

سورة الحجرات

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾

O you who have believed, do not put [yourselves] before Allah and His Messenger but fear Allah . Indeed, Allah is Hearing and Knowing.

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو ۔ یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا ، جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of making a Decision in advance of Allah and His Messenger; ordering Respect towards the Prophet In these Ayat, Allah the Exalted teaches His faithful servants the good manners they should observe with the Messenger, which are respect, honor and esteem. Allah the Exalted and Most Honored said, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لاَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَر... َسُولِهِ ... O you who believe! Make not (a decision) in advance before Allah and His Messenger, meaning, do not rush in making decisions before him, rather, follow his lead in all matters. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, commented; لاَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ (Make not (a decision) in advance before Allah and His Messenger), "Do not say anything that contradicts the Qur'an and Sunnah." Qatadah commented, "We were told that some people used to say, `Revelation should be sent down about such and such matters,' and, `such and such practices should be rendered allowed.' Allah the Exalted disliked this attitude." Allah said, ... وَاتَّقُوا اللَّهَ ... and have Taqwa of Allah. meaning, `in what He has ordered you;' ... إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ ... Verily, Allah is Hearing, (your statements), ... عَلِيمٌ Knowing. (your intentions). Allah said,   Show more

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اپنے نبی کے آداب سکھاتا ہے کہ تمہیں اپنے نبی کی توقیر و احترام عزت و عظمت کا خیال کرنا چاہیے تمام کاموں میں اللہ اور رسول کے پیچھے رہنا چاہیے ، اتباع اور تابعداری کی خو ڈالنی چاہیے حضرت معاذ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرما... یا اپنے احکامات کے نفاذ کی بنیاد کسے بناؤ گے جواب دیا اللہ کی کتاب کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا سنت کو فرمایا اگر نہ پاؤ ؟ جواب دیا اجتہاد کروں گا تو آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول خوش ہو ( ابو داؤد و ترمذی ابن ماجہ ) یہاں اس حدیث کے وارد کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ حضرت معاذ نے اپنی رائے نظر اور اجتہاد کو کتاب و سنت سے مؤخر رکھا پس کتاب و سنت پر رائے کو مقدم کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنا ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف نہ کہو ۔ حضرت عوفی فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے سامنے بولنے سے منع کر دیا گیا مجاہد فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو حضرت ضحاک فرماتے ہیں امر دین احکام شرعی میں سوائے اللہ کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے تم کسی اور چیز سے فیصلہ نہ کرو ، حضرت سفیان ثوری کا ارشاد ہے کسی قول و فعل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پہل نہ کرو امام حسن بصری فرماتے ہیں مراد یہ ہے کہ امام سے پہلے دعا نہ کرو ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں اگر فلاں فلاں میں حکم اترے تو اس طرح رکھنا چاہیے اسے اللہ نے ناپسند فرمایا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حکم اللہ کی بجاآوری میں اللہ کا لحاظ رکھو اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور تمہارے ارادے جان رہا ہے پھر دوسرا ادب سکھاتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز بلند کریں ۔ یہ آیت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بارے میں نازل ہوئی ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ قریب تھا کہ وہ بہترین ہستیاں ہلاک ہو جائیں یعنی حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ان دونوں کی آوازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند ہوگئیں جبکہ بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا تھا ایک تو اقرع بن حابس کو کہتے تھے جو بنی مجاشع میں تھے اور دوسرے شخص کی بابت کہتے تھے ۔ اس پر حضرت صدیق نے فرمایا کہ تم تو میرے خلاف ہی کیا کرتے ہو فاروق اعظم نے جواب دیا نہیں نہیں آپ یہ خیال بھی نہ فرمائیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن زبیر فرماتے ہیں اس کے بعد تو حضرت عمر اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نرم کلامی کرتے تھے کہ آپ کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر فرماتے تھے قعقاع بن معبد کو اس وفد کا امیر بنائیے اور حضرت عمر فرماتے تھے نہیں بلکہ حضرت اقرع بن حابس کو اس اختلاف میں آوازیں کچھ بلند ہوگئیں جس پر آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ Ǻ۝ ) 49- الحجرات:1 ) نازل ہوئی اور آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 49- الحجرات:5 ) ، مسند بزار میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ Ą۝ ) 49- الحجرات:2 ) ، کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی اب تو میں آپ سے اس طرح باتیں کروں گا جس طرح کوئی سرگوشی کرتا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کئی دن تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نظر نہ آئے اس پر ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی بابت آپ کو بتاؤں گا چنانچہ وہ حضرت ثابت کے مکان پر آئے دیکھا کہ وہ سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ پوچھا کیا حال ہے ۔ جواب ملا برا حال ہے میں تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرتا تھا میرے اعمال برباد ہوگئے اور میں جہنمی بن گیا ۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ سنایا پھر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ایک زبردست بشارت لے کر دوبارہ حضرت ثابت کے ہاں گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جاؤ اور ان سے کہو کہ تو جہنمی نہیں بلکہ جنتی ہے مسند احمد میں بھی یہ واقعہ ہے اس میں یہ بھی ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ ثابت کہاں ہیں نظر نہیں آتے ۔ اس کے آخر میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں ہم انہیں زندہ چلتا پھرتا دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ۔ یمامہ کی جنگ میں جب کہ مسلمان قدرے بد دل ہوگئے تو ہم نے دیکھا کہ حضرت ثابت خوشبو ملے ، کفن پہنے ہوئے دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں مسلمانو تم لوگ اپنے بعد والوں کے لئے برا نمونہ نہ چھوڑ جاؤ یہ کہہ کر دشمنوں میں گھس گئے اور بہادرانہ لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آپ نے جب انہیں نہیں دیکھا تو حضرت سعد سے جو ان کے پڑوسی تھے دریافت فرمایا کہ کیا ثابت بیمار ہیں ؟ لیکن اس حدیث کی اور سندوں میں حضرت سعد کا ذکر نہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت معطل ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے اس لئے کہ حضرت سعد بن معاذ اس وقت زندہ ہی نہ تھے بلکہ آپ کا انتقال بنو قریظہ کی جنگ کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں ہو گیا تھا اور بنو قریظہ کی جنگ سنہ ٥ ہجری میں ہوئی تھی اور یہ آیت وفد بنی تمیم کی آمد کے وقت اتری ہے اور وفود کا پے درپے آنے کا واقعہ سنہ ٩ ہجری کا ہے واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں ہے جب یہ آیت اتری تو حضرت ثابت بن قیس راستے میں بیٹھ گئے اور رونے لگے حضرت عاصم بن عدی جب وہاں سے گزرے اور انہیں روتے دیکھا تو سبب دریافت کیا جواب ملا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل نہ ہوئی ہو میری آواز بلند ہے حضرت عاصم یہ سن کر چلے گئے اور حضرت ثابت کی ہچکی بندھ گئی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنی بیوی صاحبہ حضرت جمیلہ بنت عبداللہ بن ابی سلول سے کہا میں اپنے گھوڑے کے طویلے میں جارہا ہوں تم اس کا دروازہ باہر سے بند کر کے لوہے کی کیل سے اسے جڑ دو ۔ اللہ کی قسم میں اس میں سے نہ نکلوں گا یہاں تک کہ یا مر جاؤں یا اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے رضامند کر دے ۔ یہاں تو یہ ہوا وہاں جب حضرت عاصم نے دربار رسالت میں حضرت ثابت کی حالت بیان کی تو رسالت مآب نے حکم دیا کہ تم جاؤ اور ثابت کو میرے پاس بلا لاؤ ۔ لیکن عاصم اس جگہ آئے تو دیکھا کہ حضرت ثابت وہاں نہیں مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو گھوڑے کے طویلے میں ہیں یہاں آکر کہا ثابت چلو تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد فرما رہے ہیں ۔ حضرت ثابت نے کہا بہت خوب کیل نکال ڈالو اور دروازہ کھول دو ، پھر باہر نکل کر سرکار میں حاضر ہوئے تو آپ نے رونے کی وجہ پوچھی جس کا سچا جواب حضرت ثابت سے سن کر آپ نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم قابل تعریف زندگی گزارو اور شہید ہو کر مرو اور جنت میں جاؤ ۔ اس پر حضرت ثابت کا سارا رنج کافور ہو گیا اور باچھیں کھل گئیں اور فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اللہ تعالیٰ کی اور آپ کی اس بشارت پر بہت خوش ہوں اور اب آئندہ کبھی بھی اپنی آواز آپ کی آواز سے اونچی نہ کروں گا ۔ اس پر اس کے بعد کی آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ Ǽ۝ ) 49- الحجرات:3 ) الخ ، نازل ہوئی ، یہ قصہ اسی طرح کئی ایک تابعین سے بھی مروی ہے ۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آواز بلند کرنے سے منع فرما دیا امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب نے دو شخصوں کی کچھ بلند آوازیں مسجد نبوی میں سن کر وہاں آکر ان سے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ؟ پھر ان سے پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو ؟ انہوں نے کہا طائف کے آپ نے فرمایا اگر تم مدینے کے ہوتے تو میں تمہیں پوری سزا دیتا ۔ علماء کرام کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس بھی بلند آواز سے بولنا مکروہ ہے جیسے کہ آپ کی حیات میں آپ کے سامنے مکروہ تھا اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح اپنی زندگی میں قابل احترام و عزت تھے اب اور ہمیشہ تک آپ اپنی قبر شریف میں بھی باعزت اور قابل احترام ہی ہیں ۔ پھر آپ کے سامنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح عام لوگوں سے باآواز بلند باتیں کرتے ہیں باتیں کرنی منع فرمائیں ، بلکہ آپ سے تسکین و وقار ، عزت و ادب ، حرمت و عظمت سے باتیں کرنی چاہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۭ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63؀ ) 24- النور:63 ) اے مسلمانو! رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں اس بلند آواز سے اس لئے روکا ہے کہ ایسا نہ ہو کسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں اور آپ کی ناراضگی کی وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے اور تمہارے کل اعمال ضبط کر لے اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ چلے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص اللہ کی رضامندی کا کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتا ہے ۔ کہ اس کے نزد یک تو اس کلمہ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ کو وہ اتنا پسند آتا ہے ۔ کہ اس کی وجہ سے وہ جنتی ہو جاتا ہے اسی طرح انسان اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے کہ اس کے نزدیک تو اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ اسے اس ایک کلمہ کی وجہ سے جہنم کے اس قدر نیچے کے طبقے میں پہنچا دیتا ہے کہ جو گڑھا آسمان و زمین سے زیادہ گہرا ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے سامنے آواز پست کرنے کی رغبت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرتے ہیں انہیں اللہ رب العزت نے تقوے کے لئے خالص کر لیا ہے اہل تقویٰ اور محل تقویٰ یہی لوگ ہیں ۔ یہ اللہ کی مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم کے لائق ہیں امام احمد نے کتاب الزہد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر سے ایک تحریراً استفتاء لیا گیا کہ اے امیرالمومنین ایک وہ شخص جسے نافرمانی کی خواہش ہی نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی اس نے کی ہو وہ اور وہ شخص جسے خواہش معصیت ہے لیکن وہ برا کام نہیں کرتا تو ان میں سے افضل کون ہے ؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ جنہیں معصیت کی خواہش ہوتی ہے پھر نافرمانیوں سے بچتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاری کے لئے آزما لیا ہے ان کے لئے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر و ثواب ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو ، بلکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ا... یمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] آپ کا ادب و احترام :۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ اگر ابھی تک اللہ اور اس کے رسول نے کسی امر کا فیصلہ نہیں کیا تو اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہ کرو۔ اور اگر فیصلہ کردیا ہے تو اسی کی اطاعت کرو۔ اس کے علاوہ دوسری راہیں نہ سوچو۔ خ اجتہاد صرف اس وقت جائز ہے جب ... نص نہ ہو :۔ اس آیت سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جب کسی بات کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی حکم مل جائے تو اس کے بعد اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اجتہاد صرف انہی امور میں ہوسکتا ہے کہ جب کتاب و سنت میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یا یھا الذین امنوا : رازی نے فرمایا :” اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مکارم اخلاق کا سبق دیا ہے، ان کا تعلق یا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں ہوگا یا اس کے رسول کے ساتھ یا فاسق لوگوں کے ساتھ یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو حاضر ہوں یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو غائب ہوں اور پانچوں قسمو... ں میں سے ہر ایک کی ابتداء ” یا یھا الذین امنوا “ کے ساتھ کی ہے۔ “ (٢) لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ :” لاتقدموا “ باب تفعیل ہے، جس کا مجرد ” قدم یقدم “ (ن) آتا ہے، جس کا معنی ”’ دوسرے کے آگے چلنا “ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے متعلق فرمایا :(یقدم قومہ یوم القیمۃ) (ھود : ٩٨)” وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہوگا۔ “ (تقدم یتقدم “ (تفعل) کا معنی بھی ” آگے بڑھنا “ ہے۔ باب تفعیل کے لحاظ سے اس کا معنی ” آگے کرنا “ ہوگا، یعنی اپنی کوئی بات یا کوئی فعل اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ کرو۔ بعض اوقات ” قدم “ ” تقدم “ کے معنی میں بھی آجاتا ہے، یعنی وہ آگے بڑھا، جیسے ” کانہ قدم نفسہ “ ” گویا اس نے اپنے آپ کو آگے بڑھا لیا۔ “ اس صورت میں آیت کا معنی ہوگا :” اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔ “ اور یہاں یہی معنی راجح ہے۔ اسی سے ” مقدمۃ الجیش “ (لشکر کا سب سے اگلا حصہ ) ہے۔ باب تفعیل باب تفعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے ” وجہ ای توجہ “ اور ” بین ای تبین “ آیت میں اس شخص کو جو اللہ اور اس کے رسول کی اجازت یا حکم کے بغیر کوئی کام یا بات کرتا ہے اس شخص کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کسی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر اس سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ (ابن عاشور) (٣)” لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ “ میں اللہ اور اس کے رسول کو اکٹھا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول سے آگے بڑھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ سے آگے بڑھنا ہے، کیونکہ رسول وہی کہتا اور کرتا ہے جس کی وحی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، فرمایا :(وما ینطق عن الھوی، ان ھو الا وحی یوحی ) (النجم : ٣، ٣)” اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔ “ (٤) اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا بنیادی تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کو اپنا رب اور رسول کو اپنا ہادی اور رہبر مانتے ہو تو پھر ان کے پیچھے چلو، آگے مت بڑھو ! اپنے فیصلے خود ہی نہ کرلو، بلکہ پہلے یہ دیکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم سورة احزاب میں م وجود حکم سے بھی ایک قدم آگے ہے، فرمایا :(وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امراً ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ و رسولہ فقد ضل ضلاً مبیناً (الاحزاب : ٣٦)” اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومت عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لئے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا ، واضح گمراہ ہونا۔ “ یعنی سورة احزاب میں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو کسی ایمان والے مرد یا ایمان والی عورت کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار بقای نہیں رہتا اور یہاں فرمایا کہ ایمان والوں کو پہل کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود نہیں کرلینے چاہئیں، بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم مسلمانوں کے انفرادی معاملات میں بھی ہے اور اجتماعی معاملات میں بھی۔ کسی بھی شخص کو خواہ وہ کوئی عالم ہو یا امام یا پیر فقیر، یہ حق حاصل نہیں اور نہ ہی کسی جماعت یا پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ اپنی طرف سے شریعت بنائے، کسی کام کو حلال یا حرام کہے، یا باعث ثواب یا گناہ قرار دے۔ اگر کوئی کسی کو یہ حق دیتا ہے تو وہ اسے اپنا رب بناتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة توبہ کی آیت (٣١): (واتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ) کی تفسیر۔ (٥) اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت سے آگے مت بڑھو، ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ چناچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کی تفسیر نقل فرمائی ہے :(لاتقدموا بین یدی اللہ ورستولہ) یقول لاتقولوا خلاف الکتاب والسنۃ) (طبری :31928) یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی بات نہ کہو۔ بعض مفسرین نے اس آیتل کی شان نزول رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا بیان کی ہے اور بعض نے عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے قربانی کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تمام کام اس آیت کے مضمون میں شامل ہیں البتہ یہ بات ثابت نہیں کہ یہ آیت خاص ان کے بارے میں اتری ہے۔ (٨) واثقوا للہ ان اللہ سمیع :” ان “ تعلیل یعنی پہلی بات کی وجہ بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر کام ک جاننے والا ہے، خواہ وہ سب کے سامنے کیا جائے یا چھپ کر عمل، میں آچکا ہو یا دل میں اس کا ارادہ ہو ، اگر تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھو گے تو اس سے تمہارا جرم چھپا نہیں رہے گا اور وہ تمہیں اس کی سزا دے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Background of Revelation According to Qurtubi, there are six narratives cited as the background of revelation of these verses. Qadi Abu Bakr Ibn ` Arabi confirms that all the narratives are correct, because they all are included in the general meaning of the verses. One of the narratives, reported by Bukhari, is that once some people from the tribe of Tamim came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ ... وآلہ وسلم) . During their stay, one of the issues under discussion was to appoint someone as a ruler of this tribe. Sayyidna Abu Bakr (رض) suggested the name of Qa` qa& Ibn Ma&bad, while Sayyidna ` Umar (رض) proposed the name of Aqra& Ibn Habis. Both of them discussed the issue for a while during which the voices of both became loud. These verses were revealed in this background. لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ (...do not proceed ahead of Allah and His Messenger - 49:1) The phrase بَینَ الیَدَین literally, means |"between the two hands|", but in Arabic usage it means &in front of or &ahead of. It means: do not go ahead of or in front of Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The Qur&an does not say in what matter they are prohibited from preceding him. It would appear that the general prohibition includes preceding by word or deed. Wait for the Messenger&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) reply unless he himself appoints someone to reply. Likewise if he is walking, no one should overtake him. If they are sitting in a dining session, no one should start eating before him. If there is a clear indication or strong evidence that he himself wants to send someone forward, this would be possible, for example some people used to be asked to go on a journey or war ahead of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Respect for Islamic Scholars and Religious Leaders Some of the scholars have ruled that Muslims should observe the same rule in respect of Islamic scholars and spiritual masters as enjoined by the Qur&an, because they are the heirs of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .One day the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw Sayyidna Abud-Darda& (رض) walking in front of Sayyidna Abu Bakr (رض) ، he reprimanded him saying: |"you are walking in front of a person who is better than you in this world and in the hereafter|". Then he added: |"The Sun did not rise or set on any man better than Abu Bakr (رض) in the world besides the Prophets (علیہم السلام) . (Ruh-u1-Bayan on the authority of Kashf-ul-Asrar). Therefore, scholars have ruled that teachers and spiritual guides should be treated with similar respect.  Show more

خلاصہ تفسیر ربط سورت و شان نزول : اس سے پہلی دو سورتوں میں جہاد کے احکام تھے جس سے اصلاح عام و آفاق مقصود ہے۔ اس سورت میں اصلاح نفس کے احکام و آداب مذکور ہیں، خصوصاً وہ احکام جو آداب معاشرت سے تعلق رکھتے ہیں اور قصہ ان آیتوں کے نزول کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ عل... یہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ بات زیر غور تھی کہ اس قبیلہ پر حاکم کس کو بنایا جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے قعقاع ابن معبد کی نسبت رائے دی اور حضرت عمر نے اقرع بن حابس کے متعلق رائے دی، اس معاملہ میں حضرت ابوبکر و عمر (رض) کے مابین آپ کی مجلس میں گفتگو ہوگئی اور گفتگو بڑھ کر دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (رواہ البخاری) اے ایمان والو ! اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کی اجازت) سے پہلے تم (کسی قول یا فعل میں) سبقت نہ کیا کرو (یعنی جب تک قرائن قویہ سے یا بالتصریح گفتگو کی اجازت نہ ہو گفتگو مت کرو جیسا کہ واقعہ مذکورہ جو سبب نزول ان آیات کا ہوا اس میں انتظار کرنا چاہئے تھا کہ یا تو آپ خود کچھ فرماتے یا آپ حاضرین مجلس سے پوچھتے بدون انتظار کے از خود گفتگو شروع کردینا درست نہیں تھا کیونکہ گفتگو کا جواز اذن شرعی پر موقوف تھا خواہ یہ اذن قطعی ہو یعنی صریح طور پر یا ظنی قرائن قویہ کے ذریعہ غلطی یہ ہوئی انتظار نہیں کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ (تمہارے سب اقوال کو) سننے والا (اور تمہارے افعال کو) جاننے والا ہے (اور) اے ایمان والو ! تم اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے آپس میں کھل کر ایک دوسرے سے بولا کرتے ہو (یعنی نہ بلند آواز سے بولو جبکہ آپ کے سامنے آپس میں کوئی بات کرنا ہو اور نہ برابر کی آواز سے بولو جبکہ خود آپ سے خطاب کرنا ہو) کبھی تمہارے اعمال برباد ہوجاویں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (اس کا مطلب یہ ہے کہ آواز کا بلند کرنا جو صورةً بےباکی اور بےپروائی ہے اور بلند آواز سے اس طرح باتیں کرنا جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بےتکلف باتیں کرتے ہیں یہ ایک قسم کی گستاخی ہے اپنے تابع اور خادم سے اس طرح کی گفتگو ناگوار اور ایذادہ ہو سکتی ہے اور اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا تمام اعمال خیر کو برباد کردینے والا ہے۔ البتہ بعض اوقات جبکہ طبیعت میں زیادہ انبساط ہو یہ امور ناگوار نہیں ہوتے اس وقت عدم ایذا رسول کی وجہ سے یہ گفتگو حبط اعمال کا موجب نہیں ہوگی، لیکن متکلم کو یہ معلوم کرنا کہ اس وقت ہماری ایسی گفتگو ناگوار خاطر اور موجب ایذا نہیں ہوگی آسان نہیں ہوسکتا ہے کہ متکلم تو یہ سمجھ کر کلام کرے کہ اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا نہیں ہوگی مگر واقع میں اس سے ایذا پہنچ جائے تو گفتگو اس کے اعمال کو حبط اور برباد کر دے گی اگرچہ اس کو گمان بھی نہ ہوگا کہ میری اس گفتگو سے مجھے کتنا بڑا خسارہ ہوگیا، اس لئے آواز بلند کرنے اور جہربالقول کو مطلقاً ممنوع کردیا گیا کیونکہ ایسی گفتگو کے بعض افراد اگرچہ موجب ایذا و حبط اعمال نہیں ہوں گے مگر اس کی تعیین کیسے ہوگی اس لئے مطلقاً جہر بالقول کے تمام افراد کو ترک کردینا چاہئے یہاں تک تو آواز بلند کرنے سے ڈرایا گیا ہے آگے آواز پست کرنے کی ترغیب ہے بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے (یعنی ان کے قلوب میں تقویٰ کے خلاف کوئی چیز آتی ہی نہیں، مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں یہ حضرات کمال تقویٰ کے ساتھ متصف ہیں کیونکہ ترمذی کی حدیث مرفوع میں کمال تقویٰ کا بیان ان الفاظ میں آیا ہے لایبلغ العبد ان یکون من المتقین حتی یدع ما لا باس بہ حذراً لما بہ باس، یعنی بندہ کمال تقویٰ کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ کچھ ایسی چیزوں کو بھی جن میں کوئی گناہ نہیں اس احتیاط کی بناء پر چھوڑ دے کہ یہ جائز کام کہیں مجھے کسی ناجائز کام میں مبتلا نہ کردے۔ مراد وہ مشتبہ امور ہیں جن میں گناہ کا خطرہ اور شبھہ ہو، جیسا کہ آواز بلند کرنے کی ایک فرد ایسی ہے جس میں گناہ نہیں، یعنی وہ جس میں مخاطب کو ایذا نہ ہو اور ایک فرد وہ ہے جس میں گناہ ہے یعنی جس سے ایذا پہنچے، تو کمال تقویٰ اس میں ہے کہ آدمی مطلقاً آواز بلند کرنے کو چھوڑ دے، آگے ان کے عمل کے اخروی فائدہ کا بیان ہے) ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے اور اگلی آیتوں کا قصہ یہ ہے کہ وہ ہی بنو تمیم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ باہر تشریف فرما نہ تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجرات میں سے کسی مکان میں تھے۔ یہ لوگ غیر مہذب گاؤں والے تھے باہر ہی سے کھڑے ہو کر آپ کا نام لے کر پکارنے لگے کہ یا محمد اخرج الینا، یعنی اے محمد ہمارے لئے باہر آئیے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (کذافی الدرا لمنثور بروایتہ ابن اسحاق عن ابن عباس) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں اکثروں کو عقل نہیں ہے (کہ عقل ہوتی تو آپ کا ادب کرتے اس طرح نام لے کر باہر سے پکارنے کی جرات نہ کرتے اور اکثرہم فرمانے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ بعض پکارنے والے فی نفسہ جری نہ ہوں گے، دوسروں کے ساتھ دیکھا دیکھی لگ گئے اس طرح ان سے بھی یہ غلطی ہوگئی اور یا اگرچہ سب ایک ہی طرح کے ہوں مگر اکثرہم کا لفظ فرمانے سے کسی کو اشتعال نہیں ہوگا کیونکہ ہر شخص یہ خیال کرسکتا ہے کہ شاید مجھ کو کہنا مقصود نہ ہو وعظ و نصیحت کا یہی طریقہ ہے کہ ایسے کلمات سے احتیاط کی جائے جن سے مخاطب کو اشتعال پیدا ہو) اور اگر یہ لوگ (ذرا) صبر (اور انتظار) کرتے یہاں تک کہ آپ خود باہر ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا (کیونکہ یہ ادب کی بات تھی) اور (اگر اب بھی توبہ کرلیں تو معاف ہوجاوے کیونکہ) اللہ غفور رحیم ہے۔ معارف و مسائل ان آیات کے نزول کے متعلق روایات حدیث میں بقول قرطبی چھ واقعات منقول ہیں اور قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا کہ سب واقعات صحیح ہیں کیونکہ وہ سب واقعات مفہوم آیات کے عموم میں داخل ہیں ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں بروایت بخاری ذکر کیا گیا ہے۔ (آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ، بین الیدین کے اصل معنے دو ہاتھوں کے درمیان کے ہیں مراد اس سے سامنے کی جہت ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تقدم اور پیش قدمی نہ کرو کس چیز میں پیش قدمی کو منع فرمایا ہے قرآن کریم نے اس کو ذکر نہیں کیا جس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ کسی قول یا فعل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش قدمی نہ کرو بلکہ انتظار کرو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جواب دیتے ہیں، ہاں آپ ہی کسی کو جواب کے لئے مامور فرما دیں تو وہ جواب دے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ چل رہے ہیں تو کوئی آپ سے آگے نہ بڑھے، کھانے کی مجلس ہے تو آپ سے پہلے کھانا شروع نہ کرے مگر یہ کہ آپ تصریح یا قرائن قویہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ آپ خود ہی کسی کو آگے بھیجنا چاہتے ہیں جیسے سفر اور جنگ میں کچھ لوگوں کو آگے چلنے پر مامور کیا جاتا تھا۔ علمائے دین اور دینی مقتداؤں کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے : بعض علماء نے فرمایا ہے کہ علماء و مشائخ دین کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ وہ وارث انبیاء ہیں اور دلیل اس کی یہ واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت ابوالدردا کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تم ایسے شخص کے آگے چلتے ہو جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے اور فرمایا کہ دنیا میں آفتاب کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہتر و افضل ہو (روح البیان ازکشف الاسرار) اس لئے علماء نے فرمایا کہ اپنے استاد اور مرشد کے ساتھ بھی یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہئے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ١ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ ... من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة/ 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص/ 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف/ 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي : موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء/ 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة . ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا، بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

#Deleted

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے پہلے تم کسی قول یا فعل میں سبقت مت کیا کرو اس وقت تک کہ رسول اکرم ہی تمہیں کسی چیز کا حکم دیں یا روکیں اور نہ کسی قتل میں اور یوم النحر میں قربانی کے جانور ذبح کرنے میں یا یہ کہ نہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کیا کرو اور نہ رسول اللہ کی یا یہ کہ نہ کتاب اللہ کی مخالف... ت کیا کرو اور نہ سنت رسول کی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ کہ کہیں تم کوئی قول و فعل بغیر حکم الہی اور حکم رسول کے کرو اور ڈرتے رہو اس بات سے کہ کہیں تم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی مخالفت کرو اللہ تعالیٰ تمہارے سب اقوال کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یہ آیت اصحاب رسول اکرم میں سے تین لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے اللہ اور رسول کی جانب سے پہلے بنی سلیم کے دو افراد کو جن سے رسول اکمر کی صلح ہوئی تھی مار ڈالا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے منع کردیا کہ بغیر اللہ اور رسول کی اجازت کے کچھ مت کرو اللہ تعالیٰ ان دونوں کی باتوں کو سننے والا ہے اور ان کے احوال سے واقف ہے اور ان کی باتیں یہ تھیں کہ اگر ایسا ہوگا تو ایسا ہوگا۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (الخ) امام بکاری نے ابن جریج عن ابن ابی ملیکہ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا ہے کہ بنی تمیم کے کچھ سوار رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت ابوبکر نے عرض کی کہ ان پر قعقاع بن معبد کو امیر بنا دیجیے، حضرت عمر نے کہا کہ بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنا دیجیے، ابوبکر صدیق نے کہا کہ تم میری مخالفت کرنا چاہتے ہو، عمر بولے میں نے تمہاری مخالفت کا ارادہ نہیں کیا، غرض کہ دونوں میں تیز کلامی ہوئی حتی کہ دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس بارے میں آیت نمبر ١ تا ٥ نازل ہوئیں۔ اور ابن منذر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ یوم النحر کو کچھ لوگوں نے رسول اکرم سے پہلے قربانیاں ذبح کرلیں، چناچہ ان کو دوبارہ قربانیاں ذبح کرنے کا حکم دیا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں ان الفاظ کے ساتھ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے نماز سے پہلے قربانی ذبح کرلی تھی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور امام طبرانی نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ مہینہ پہلے شروع کرلیتے تھے اور رسول اکرم سے پہلے روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے بیان کرتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ کچھ لوگوں نے کہا کاش ہم پر یہ حکم نازل ہوتا اس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ} ” اے اہل ِایمان مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقینا اللہ سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ یہ آیت گویا اسلام... ی ریاست کے آئین کی بنیاد ہے۔ اسلامی ریاست کے آئین کی پہلی شق یہ ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے اوراقتدارِ مطلق کا مالک صرف اکیلا وہ ہے۔ اس نظری و اعتقادی حقیقت کی تعمیل و تنفیذ کا طریقہ اس آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حدود قائم کردی ہیں ان حدود سے کسی بھی معاملے میں تجاوز نہیں ہوگا۔ اس آیت کے مفہوم کو پاکستان کے ہر دستور میں ان الفاظ کے ساتھ شامل رکھا گیا ہے : No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah ۔ یہ شق گویا اسلامی ریاست کے آئین کے لیے اصل الاصول کا درجہ رکھتی ہے۔ چناچہ آئین پاکستان میں اس شق کے شامل ہونے سے اصولی طور پر تو پاکستان ایک اسلامی ریاست بن گیا ‘ لیکن عملی طور پر اس ” ذمہ داری “ سے جان چھڑانے کے لیے کمال یہ دکھایا گیا کہ ان الفاظ کے ساتھ ایک ہاتھ سے آئین کے اندر اسلام داخل کر کے دوسرے ہاتھ سے نکال لیا گیا۔ آئین پاکستان کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل (Islamic Ideological Council) تشکیل دی گئی اور اسے بظاہر یہ اہم اور مقدس فریضہ سونپا گیا کہ وہ پارلیمنٹ کی ” قانون سازی “ پر گہری نظر رکھے گی اور اس ضمن میں کسی کوتاہی اور غلطی کی صورت میں حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا ‘ لیکن اس میں منافقت یہ برتی گئی کہ آئین کی رو سے حکومت کو نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ چناچہ کونسل نے اقتصادیات اور غیر سودی بینکاری کے حوالے سے بہت مفید سفارشات مرتب کی ہیں۔ بہت سے دوسرے معاملات میں بھی تحقیقاتی رپوٹیں حکومتوں کو بھجوائی ہیں۔ کونسل کی سفارشات جمع ہوتے ہوتے الماریاں بھر گئیں ‘ لیکن کسی حکومت نے ان میں سے کسی ایک سفارش کو بھی تنفیذ کے حوالے سے لائق اعتناء نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کونسل کی تمام تحقیقات اور سفارشات کلی طور پر لاحاصل مشق (exercise in futility) ثابت ہوئیں۔ بہر حال زیر مطالعہ آیت کی رو سے جب کسی ریاست کے آئین میں مذکورہ شق شامل کرلی جائے گی تو اصولی طور پر وہ ریاست اسلامی ریاست بن جائے گی۔ اس کے بعداس ریاست کے قانون ساز ادارے کو چاہے پارلیمنٹ کہیں ‘ مجلس ملی کہیں یا کانگرس کا نام دیں ‘ اس کی قانون سازی کا دائرئہ اختیار (legislative authority) قرآن وسنت کی بالادستی کے باعث محدود ہوجائے گا۔ یعنی اس ” قدغن “ کے بعد وہ مقننہ اپنے ملک کے لیے صرف قرآن و سنت کے دائرے کے اندر رہ کر ہی قانون سازی کرسکے گی۔ اس دائرے کے اندر جو قانون سازی کی جائے گی وہ جائز اور مباح ہوگی اور اس دائرے کی حدود سے متجاوز ہوتا ہوا کوئی بھی قانون ناجائز اور ممنوع قرار پائے گا ‘ چاہے اس قانون کو مقننہ کے تمام ارکان ہی کی حمایت حاصل کیوں نہ ہو۔ اسلامی مقننہ کی اس ” محدودیت “ کو اس مثال سے سمجھیں کہ کسی دعوت میں بلائے گئے مہمانوں کی تواضع روح افزا شربت سے کی جائے ‘ سیون اَپ سے یا دودھ سوڈا وغیرہ سے ‘ اس بارے میں فیصلہ تو کثرت رائے سے کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن تمام میزبان اپنے سو فیصد ووٹوں سے بھی مہمانوں کو کوئی ایسا مشروب پلانے کا فیصلہ نہیں کرسکتے جس کا پینا قرآن و سنت میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ اس نکتے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مثال کے ذریعے نہایت عمدگی سے واضح فرمایا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْاِیْمَانِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِیْ آخِیَّتِہٖ ، یَجُوْلُ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی آخِیَّتِہٖ …) (١) یعنی ” مومن کی مثال اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو اپنے کھونٹے کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ وہ گھومنے پھرنے کے بعد پھر اپنے کھونٹے پر واپس لوٹ آتا ہے…“ ظاہر ہے مومن تو وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتا ہے اور ان کے احکام کو مانتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے کھونٹے سے بندھ چکا ہے ‘ اب وہ اس کھونٹے کے گردا گرد ایک دائرے میں اپنی مرضی سے چرچگ ُ سکتا ہے ‘ لیکن اس دائرے کی حدود کا تعین اس کھونٹے کی رسی (حدود اللہ) کے اندر موجود گنجائش کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جو مادر پدر آزاد ہے۔ وہ نہ اللہ کو مانتا ہے ‘ نہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتا ہے اور نہ ہی ان کے احکام کو پہچانتا ہے ‘ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے ‘ جو چاہے کرے اور جس چیز کو چاہے اپنے لیے ” جائز “ قرار دے لے۔ چناچہ ایسے افراد اگر کسی ملک یا ریاست کے قانون ساز ادارے میں بیٹھے ہوں گے تو وہ کثرت رائے سے اپنی ریاست اور قوم کے لیے جو قانون چاہیں منظور کرلیں۔ وہ چاہیں تو ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیں اور چاہیں تو مرد کی مرد سے شادی کو قانونی حیثیت دے دیں۔ اب اس کے بعد جو چار آیات آرہی ہیں وہ اہل ایمان پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق کا تعین کرتی ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا جذبہ گویا ایک مسلمان معاشرے کی تہذیب اور اس کے تمدن کی بنیاد ہے۔ اس بارے میں ایک عمومی حکم { وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ } ہم سورة الفتح میں پڑھ آئے ہیں۔ اس حکم کی شرح گویا اب اگلی آیات میں بیان ہو رہی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 This is the foremost and basic demand of the Faith. If the person who regards Allah as his Lord and accepts Allah's Messenger as his guide and leader. is true in his belief, he can never have the attitude that he should give his own opinion and view precedence over the decision of AIIah and His Messenger, or -should adopt an independent opinion in the matters, and pass his own judgments without ... caring to find out whether Allah and His Messenger have given any guidance in those matters or not, and if they have given it, what it is. That is why it has been said "O believers, do not go `in advance' of AIIah and His Messenger. " That is, "Do not go ahead of them, but follow behind: Do not precede them, but be subordinate to them. " This Command is, in its application and effect, a step further to verse 36 of AI-Ahzab. There it was said: `It dces not behove a believing man and a believing woman that when AIIah and His Messenger have given their decision in a matter, they should exercise an Option in that matter of theirs", and here it is said that the believers should not decide their matters themselves by their own initiative, but should look for guidance in Allah's Book and His Prophet's Sunnah concerning those matters. This Command it not confined only to individual matters of the Muslims but it also applies to their collective affairs. This is in fact the fundamental article of the Islamic Law, which can neither be set aside or ignored by a Muslim government, nor by a Muslim court, nor by a parliament. A tradition has been reported in Musnad~Ahmad, Abu Da'ud, Tirmidhi and Ibn Majah, with authentic chains of transmitters, saying that when the Holy Prophet was sending Hadrat Mu'adh bin Jabal to the Yaman as a judge, he asked him: "By what will you decide the matters?" He submitted: "By the Book of AIIah. " The Holy Prophet said: "If you do not find the Command concerning a matter in the Book of AIIah, what will you turn to?" He replied "To the Sunnah of Allah's Messenger. " The Holy Prophet asked "If this also fails you?" He replied: "Then I shall exert and find out a solution by myself. " Thereupon the Holy Prophet placed his hand on Hadrat Mu'adh's chest and said: "Thank God Who has helped His Messenger's deputy to adopt the way that is approved by His Messenger. " This giving of precedence to the Book of AIlah and the Sunnah of His Messenger over one's own exercise to find out a solution and to turn to them first to obtain guidance is the Thing that marks the distinction between a Muslim judge and a non-Muslim judge. Likewise, in the matter of legislation also there is absolute consensus that the first and foremost source of the law is the Divine Book and after it the Sunnah of the Messenger of AIIah. Even the consensus of the entire Ummah cannot go against or remain independent of them, not to speak of the individual Muslims reasoning and endeavor to interpret the law. 2 That is, "If ever you adopted an attitude of independence as against Allah and His Messenger, or gave priority to your own opinion and view over their Command, you should know that you have to deal with that God Who is hearing whatever you utter and is even aware of your secret intentions. "  Show more

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :1 یہ ایمان کا اولین اور بنیادی تقاضا ہے ۔ جو شخص اللہ کو اپنا رب اور اللہ کے رسول کو اپنا ہادی و رہبر مانتا ہو ، وہ اگر اپنے اس عقیدے میں سچا ہے تو اس کا یہ رویہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اپنی رائے اور خیال کو اللہ اور رسول کے فیصلے پر مقدم رکھے یا معاملات میں آزادانہ رائے ... قائم کرے اور ان کے فیصلے بطور خود کر ڈالے بغیر اس کے کہ اسے یہ معلوم کر نے کی فکر ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معاملات میں کوئی ہدایت دی ہے یا نہیں اور دی ہے تو وہ کیا ہے ۔ اسی لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو ، یعنی ان سے آگے بڑھ کر نہ چلو ، پیچھے چلو ۔ مقدم نہ بنو ، تابع بن کر رہو ۔ یہ ارشاد اپنے حکم میں سورہ احزاب کی آیت 36 سے ایک قدم آگے ہے ۔ وہاں فرمایا گیا تھا کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا ہو اس کے بارے میں کسی مومن کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا ۔ اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو اپنے معاملات میں پیش قدمی کر کے بطور خود فیصلے نہیں کر لینے چاہئیں بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں ان کے متعلق کیا ہدایات ملتی ہیں ۔ یہ حکم مسلمانوں کے محض انفرادی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کے جملہ اجتماعی معاملات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ در حقیقت یہ اسلامی آئین کی بنیادی دفعہ ہے جس کی پابندی سے نہ مسلمانوں کی حکومت آزاد ہو سکتی ہے ، نہ ان کی عدالت اور نہ پارلیمنٹ ۔ مسند احمد ، ابوداؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں یہ روایت صحیح سندوں کے ساتھ منقول ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم عدالت بنا کر بھیج رہے تھے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کس چیز کے مطابق فیصلے کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کتاب اللہ کے مطابق ۔ آپ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے کا حکم نہ ملے تو کس چیز کی طرف رجوع کرو گے؟ انہوں نے کہا سنت رسول اللہ کی طرف آپ نے فرمایا اگر اس میں بھی کچھ نہ ملے؟ انہوں نے عرض کیا پھر میں خود اجتہاد کروں گا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا شکر ہے اس خدا کا جس نے اپنے رسول کے نمائندے کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق بخشی جو اس کے رسول کو پسند ہے ۔ یہ اپنے اجتہاد پر کتاب اللہ و سنت رسول کو مقدم رکھنا اور ہدایت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ان کی طرف رجوع کرنا ہی وہ چیز ہے جو ایک مسلمان جج اور ایک غیر مسلم جج کے درمیان وجہ امتیاز ہے ۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں یہ بات قطعی طور پر متفق علیہ ہے کہ اولین ماخذ قانون خدا کی کتاب ہے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ پوری امت کا اجماع تک ان دونوں کے خلاف یا ان سے آزاد نہیں ہو سکتا کجا کہ ِافرادِ امّت کا قیاس و اجتہاد ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :2 یعنی اگر کبھی تم نے اللہ کے رسول سے بے نیاز ہو کر خود مختاری کی روش اختیار کی یا اپنی رائے اور خیال کو ان کے حکم پر مقدم رکھا تو جان رکھو کہ تمہارا سابقہ اس خدا سے ہے جو تمہاری سب باتیں سن رہا ہے اور تمہاری نیتوں تک سے واقف ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: سورت کی یہ ابتدائی پانچ آیتیں ایک خاص موقع پر نازل ہوئی تھیں، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس عرب کے قبائل کے بہت سے وفد آتے رہتے تھے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کو آئندہ کے لئے قبیلے کا امیر مقرر فرمادیتے تھے، ایک مرتبہ قبیلہ تمیم کا ایک وفد آپ کی خدمت میں آیا،...  ابھی آپ نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تھا، اور نہ اس سلسلے میں کوئی بات کی تھی، لیکن آپ کی موجودگی میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) نے یہ مشورہ شروع کردیا کہ ان میں سے کس کو امیر بنایاجائے، حضرت ابوبکر نے ایک نام لیا اور حضرت عمر نے دوسرا، پھر ان دونوں بزرگوں نے اپنی اپنی رائے کی تائید اس طرح شروع کردی کہ کچھ بحث کاسا انداز پیدا ہوگیا، اور اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، اس پر پہلی تین آیتیں نازل ہوئیں، پہلی آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرنا ہو اور آپ نے ان کے بارے میں کوئی مشورہ بھی طلب نہ فرمایا ہو ان معاملات میں آپ سے پہلے ہی کوئی رائے قائم کرلینا اور اس پر اصرار یا بحث کرنا آپ کے ادب کے خلاف ہے، اگرچہ یہ پہلی آیت اس خاص واقعے میں نازل ہوئی تھی لیکن الفاظ عام استعمال فرمائے گئے ہیں تاکہ یہ اصولی ہدایت دی جائے کہ کسی بھی معاملے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنا مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے، اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنا ہو تو آپ سے آگے نہ بڑھنا چاہئیے، نیز آپ نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جو حدود مقرر فرمائے ہیں ان سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے، اس کے بعد دوسری اور تیسری آیتوں میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ آپ کی مجلس میں بیٹھ کر اپنی آواز آپ کی آواز سے بلند نہیں کرنی چاہیے، اور آپ سے کوئی بات کہنی ہو تو وہ بھی بلند آواز سے نہیں کہنی چاہئیے ؛ بلکہ آپ کی مجلس میں آواز پست رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٣۔ حضرت عبد اللہ ٤ ؎ بن عباس (رض) کے قول کے موافق یہ سورة مدنی ہے۔ صحیح بخاری ٥ ؎ میں عبد اللہ بن زبیر کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بنی تمیم میں کے کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے ان لوگوں میں سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک شخص کو...  قوم کا سردار ہونے کے قابل خیال کیا اور حضرت عمر (رض) نے دوسرے شخص کو اس بحث میں یہ دونوں صاحب بلند آواز سے چیخ چیخ کر باتیں کرنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا اے ایماندار لوگو جس طرح اللہ اور رسول کے حکم سے پہلے بنی تمیم میں کسی شخص کو سردار ٹھہرانے کی پیش قدمی کی گئی اور جس طرح اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں عام مجلسوں کی شان کے موافق چیخ چیخ کر باتیں ہوئیں یہ اللہ کو پسند نہیں اللہ تعالیٰ سب باتیں سننا جانتا ہے اس لئے ایسی باتیں منہ سے نکالتے وقت اللہ سے ڈرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ دین کے تمام احکام امت کے لوگوں کو اللہ کے رسول کی معرفت پہنچتے ہیں جس کے سبب سے امت کے لوگوں کو اللہ کے رسول کی بہت بڑی توقیر لازم ہے جو شخص اس توقیر میں خلل ڈالے گا اس کی بیخبر ی میں ایسے شخص کے نیک عمل رائیگاں ہوجائیں گے کیونکہ جس شخص نے نیک عملوں کے حاصل ہونے کے ذریعہ کی کچھ قدر نہ کی اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے نیک عملوں کی کچھ قدر نہ کرے گا پھر فرمایا جو لوگ اللہ کے رسول کی مجلس میں دبی آواز سے باتیں کرتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے پرہیز گاری کے لئے جانچا ہے کیونکہ جن باتوں کے کرنے کا حکم ہے ان کو کرنا اور جن کی مناہی ہے ان سے بچنا اسی کا نام پرہیز گاری ہے پھر فرمایا ایسے لوگوں کے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا اور ان کی نیکیوں کا بہت بڑا اجر ان کو ملے گا۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بعض وقت آدمی کے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نکل جاتا ہے جس سے آدمی دوزخی قرار پا جاتا ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیتوں میں جس کے کلموں کے زبان سے نکالنے کی مناہی ہے حدیث میں اس قسم کے کلموں کی سزا جتلائی ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب حفظ اللسان الخ ص ٩٥٩ ج ٢۔ ) (٤ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٨٣ ج ٦۔ ) (٥ ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة الحجرات ص ٧١٨ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:1) لا تقدموا۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر، تقدیم (تفعیل) مصدر بمعنی آگے بڑھنا۔ آگے بھیجنا تم آگے مت بڑھو، تم پہل مت کرو۔ بین : بیچ۔ درمیان، اسم ظرف مکان۔ جب بین کی اضافت ایدی۔ یا یدی کی طرف ہو تو اس کے معنی سامنے اور قریب کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آیت ہذا میں ہے ۔ بین مضاف یدی اللہ مضاف مضاف الیہ مل کر ... بین کا مضاف الیہ۔ اللہ کے دونوں ہاتھوں کے سامنے۔ اللہ کے سامنے۔ ورسولہ ۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ لا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ ۔ تم اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل مت کیا کرو۔ فائدہ : صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں کہ :۔ یہاں ایک چیز غور طلب ہے۔ وہ یہ کہ لا تقدموا متعدی ہے لیکن اس کا مفعول مذکور نہیں ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو ذکر کردیا جاتا تو صرف اس کے بارے میں خلاف ورزی ممنوع ہوتی۔ مفعول کو ذکر نہ کر کے بتادیا کہ کوئی عمل ہو کوئی قول ہو۔ زندگی کے کسی شعبہ سے اس کا تعلق ہو اس میں اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد سے انحراف ممنوع ہے۔ نیز اگر مفعول ذکر کردیا جاتا تو سامع کی توجہ ادھر ہی مبذول ہوجاتی، اس کو ذکر نہ کر کے بتادیا کہ تمہاری تمام تر توجہ لا تقدموا کے فرمان پر مرکوز ہونی چاہیے۔ واتقوا اللہ ۔ وائو عاطفہ اتقوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر، اتقاء (افتعال) مصدر بمعنی ڈرنا۔ پرہیز کرنا۔ اللہ مفعول۔ تم اللہ سے ڈرو۔ تم اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یا ” ان کے آگے پیش قدمی نہ کرو “ یعنی جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ارشاد سنوتو فوراً بسر و چشم مانل و اور آگے بڑھ کر باتیں مت بنائو، یا ان کے فیصلہ پر اپنی یا کسی کی رائے کو مقدم مت رکھو اور نہ کسی معاملہ میں ان کے فیصلہ سے بےنیاز ہو کر کوئی فیصلہ کرو کیونکہ یہ ان پر ایمان کا کم سے کم تقاضا ... ہے۔ نواب صاحب فرماتے ہیں جو شخص قرآن و حدیث کا معاوضہ رائے یا اجتہاد سے کرے وہ بھی اللہ و رسول کے سامنے بڑھ کر باتیں بناتا ہے۔ (فتح البیان) 8 یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی خلاف ورزی کرو گے تو اس سے تمہارا جرم چھپا نہ رہے گا۔ وہ تمہیں قرار واقعی سزا دیگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں :” یعنی مجلس میں کوئی کچھ پوچھے حضرت کی راہ دیکھو کیا فرما دیں تم اپنی عقل سے آگے جواب نہ دے بیٹھو۔ (موضع )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

١ تا ١٠۔ اسرار ومعارف۔ نیز اصلاح عالم کی جہاد کی غرض یہی ہے کہ پہلے اصلاح نفس کی ضرورت ہے جس کی بنیاد ادب واحترام نبوی پر ہے چہ جائیکہ کوئی اطاعت وغلامی میں پس وپیش کرے۔ حد ادب یہ ہے کہ کبھی کسی کام میں یا کسی بات میں رسول اللہ پر سبقت نہ کیا کرو کہ یہ ایسے ہے جیسے اللہ کی ذات پر کسی نے سبقت کی کہ آ... پ کا ارشاد ہی اللہ کا ارشاد ہے اور اس معاملے میں اللہ سے ڈرو کہ وہ سب کچھ سنتا ہے اور جانتا ہے ۔ اصلاح نفس کی بنیاد ادب ہے بارگاہ نبوی میں اس کی ضرورت قرآن نے بتادی علماء مشائخ وارث نبوت ہو کر ادب کے مستحق ہیں۔ نیز اپنی آواز کو پست رکھا کرو اور کبھی بھی نبی کریم کی آواز سے بلندآواز میں بات نہ کرو نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کھل کر بات کیا کرو جیسے تم لوگ آپس میں بےتکلفی سے کھل کر بات کرلیتے ہو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سب اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو یہاں بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے بےارادہ آواز بلند کرے اور اس کا پتہ بھی نہ چلے مگر وہ اعمال کی بربادی کا سبب بن جائے چونکہ برکات نبوی حقیقی اور علماء حق سے نیز نور قلبی اور کیفیات روحانی مشائخ کے واسطے سے پہنچتی ہیں تو ان کا ادب بھی ایسے ہی کیا جائے گا جہاں تک اعمال کے ضائع ہونے کا تعلق ہے تو حبط عمل تو اہل سنت کے نزدیک کفر سے ہوتا ہے اور کفر اختیاری فعل ہے جب تک کوئی جان بوجھ کر اختیار نہ کرے کافر نہ ہوگا ، جیسے ایمان بھی اختیاری ہے کہ اپنی مرضی سے قبول نہ کرے تو مسلمان نہیں ہوسکتا اس کا حل مولانااشرف علی تھانوی نے اس طرح فرمایا ہے کہ آپ پر پیش قدمی یا بےمحابابات چیت شان رسالت میں گستاخی اور بےادبی ہے اور ایذائے رسول کا سبب ہوسکتی ہے اگر قصدا نہ بھی ہو تو بھی ایذا اور بےادبی کا احتمال ہے لہذا اسے ممنوع قرار دیا کہ یہ ایسی معصیت ہے جو توفیق عمل سبب کرلیتی ہے اور بندہ گناہوں میں پھنس کر کفر تک جاپہنچتا ہے ۔ مفتی محمد شفیع مرحوم معارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے کسی صالح بزرگ کو اپنا مرشد بنایا ہو تو اس کے ساتھ بےگستاخی یا بےادبی کا یہی حال ہے کہ سلب توفیق کا سبب بن کر انجام کار متاع ایمان کو ضائع کردیتی ہے اور ایسے لوگ جو بارگاہ نبوی میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقوی کے لیے خاص کردیا ہے ۔ ان کے قلوب میں کوئی ایسی بات آتی ہی نہیں جو خلاف تقوی ہو ایسے لوگوں کے لیے اللہ کی بخشش اور اجر عظیم ہے۔ روضہ اطہر پہ یہی ادب شرط ہے۔ علماء حق کا ارشاد ہے کہ آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی وہی تعظیم واجب ہے جو حیات دنیا میں تھی اور روضہ اطہر کے سامنے بھی بلندآواز سے سلام و کلام خلاف ادب ہے یا جس طرح آپ کی احادیث پڑھی جارہی ہوں تو وہاں بھی شوروشغب ممنوع ہے اور بےادبی ہے اسی طرح اکابر علماء کی مجلس میں ادب سے بات کی جائے اور شوروشغب ممنوع ہے اور جو لوگ آپ کو حجرات مبارکہ کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں کی اکثریت عقل مند نہیں ہے۔ یہ بنوتمیم کے کچھ لوگ جو دیہات سے آئے تھے اور واپس اموال واموشی کے پاس جانے کی جلدی میں تھے انہوں نے آپ کو حجرہ مبارک کے باہر سے آواز دی۔ حجرات مبارکہ۔ امہات المومنین کے حجرات کھجور کی شاخوں کے چھت سے بنے ہوئے تھے اور دروازوں پر سیاہ رنگ کے موٹی اون کے پردے پڑے ہوئے تھے روضہ اقدس ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا حجرہ مبارک تھا ، دوسرے متصل محراب کی طرف تھے ۔ حضرت داؤد بن قیس سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے ا ن کی زیارت کی تھی کہ باہر کے دروازے سے کمرہ تک کا فاصلہ چھ سات ہاتھ یعنی نودس فٹ کا ہوگا اور حجرہ مبارکہ کا کمرہ دس ہاتھ یعنی تقریبا پندرہ فٹ کا اور اونچائی سات آٹھ ہاتھ ہوگی۔ یہ حجرات مقدسہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کردیے گئے۔ اگر وہ پکارنے والے صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی بات سننے کے لیے باہر تشریف لاتے تب اپنی گذارش پیش کرتے تو ان کے لیے باعث خیر ہوتا یہاں حتی تخرج الیھم سے مراد ہے کہ آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے تب وگرنی اگر کسی اور غرض سے باہر تشریف لاتے بھی تو پکار کر اپنی طرف متوجہ کرنا درست نہ ہوتا۔ یہ چونکہ دین حاصل کرنے آئے تھے مخلص مسلمان تھے اور دیہاتی ہونے کے باعث آداب سے ناواقف لہذا نہیں فرمادیا کہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ مگر ان کی سادگی بھی ساری انسانیت کے لیے بارگاہ رسالت کے آداب بیان کرنے کا سبب بن کر باعث رحمت بن گئی۔ نیز مسلمانوں کو کسی شریر آدمی کی اطلاع پر بھروسہ بھی نہ کرنا چاہیے ، جو خواہ مخواہ آپ کی توہین یا آپ کی اطاعت سے انکار کی شکایت کرے تو اس خبر کی تحقیق کرلی جائے ایسا نہ ہو کہ غلطی سے کسی کو نقصان پہنچادو اور پھر اپنے کیے پر ندامت ہو۔ قبیلہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار جن کی صاحبزادی حضرت میمونہ امہات المومنین میں سے تھیں خدمت عالی میں حاضر ہو کر ایمان لائے اور قبیلہ کو بھی مسلمان کرنے اور ادائے زکوۃ کا حکم پہنچانے کی اجازت حاصل کی اور عرض کیا کہ فلاں وقت آپ اپنا قاصد روانہ فرمادیں جو وصول کرکے لے آئے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وقت مقررہ پر جس صحابی کو قاصد کے طور پر روانہ فرمایا ان کی پہلے اس قبیلہ سے دشمنی تھی وہ قاصد جان کر استقبال کو نکلے یہ سمجھے مجھے مارنے آرہے ہیں چناچہ پلٹ گئے اور شکایت کی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں فوج کا دستہ روانہ فرمایا مگر وہ قبیلہ والے راہی مدینہ تھے چناچہ سب مل کرلوٹے اور بارگاہ عالی میں حاضر ہوکر غلط فہمی کا ازالہ کیا۔ فاسق کی شہادت۔ اس آیت سے علماء نے ثابت فرمایا ہے کہ فاسق کی خبر پر عمل درست نہیں جب تک دوسرے ذرائع سے اس کی تحقیق نہ ہوجائے تو فاسق کی شہادت ہرگز قبول نہ ہوگی ۔ تفصیل کتب فقہ میں ہے کہ بعض عام خبروں میں قابل قبول ہے جیسے یہ بتائے کہ یہ ہدیہ فلاں نے بھیجا ہے مگر اہم امور میں جیسے یہاں جنگ کا اندیشہ ہے جائز نہیں۔ موجودہ ووٹ کی صورت۔ موجودہ ووٹ کی صورت بھی ایسی شہادت کی ہے جس سے حکومتیں بنتی ہیں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کرتی ہیں کاش یہ اصول بھی یہاں اپنایاجائے جس کا اپنایاجانا شرعا ضروری ہے۔ عدالت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ یہ خبر جس پر ساری غلط فہمی کا مدار تھا ایک صحابی نے دی تو کیا ان سے بھی فسق ہوا جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں۔ علماء اہل سنت کا صحابہ کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ معصوم نہیں ان سے گناہ سرزد ہوسکتا ہے ان پر شرعی سزا بھی جاری ہوگی مگر نصوص قرآن وسنت کی بنا پر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہوگیا ہو اور جن محدوے چند حضرات سے خطا ہوئی تو ان کی توبہ مثالی ہے اور اللہ کا ارشاد ہے ، رضی اللہ عنھم ورضواعنہ۔ شاہد ہے کہ رضائے الٰہی گناہوں کی معافی پر اور خاتمہ ایمان اور رضائے حق پر تب ہی حاصل ہوسکتی ہے نیز صحابیت کا شرف عام ہے کسی کو زیادہ مدت یہ سعادت نصیب رہی یا کوئی لمحہ نصیب ہواسب صحابی ہیں۔ اور یاد رکھو کہ تمہارے اندر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہیں اس نعمت عظمی کا شکر ان کی غلامی کرکے ادا ہوسکتا ہے یہ نہ سوچا کرو کہ اپنی بات پیش کریں کہ اگر آپ تم لوگوں کی باتوں پہ چلیں تو بہت مشکل پڑے گی اور تمہارے لی باعث مضرت ہوگی جبکہ تمہارا آپ کی رائے پہ چلنا حصول رحمت کا باعث ہے ۔ مقام صحابہ۔ لہذا اطاعت رسول کے لیے اپنی رائے ختم کردو کہ شرف محبت رسول کے باعث اللہ نے تمہیں وہ عظمت عطا کی کہ تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور اسے تمہارے دلوں میں پیوست کردیا کہ صحابہ اجمعین ہی محبت وعشق کی کامل مثال ہیں اور کفر یا گناہ ونافرمانی کے لیے تمہارے دلوں میں نفرت پیدا کردی جس کے نتیجے میں تم ہر آن رسول اللہ کی خوشنودی کی جستجو میں رہتے ہو اور یہی مثال لوگ ہیں جو اللہ کریم کے کرم سے راہ راست پر ہیں کہ یہ راستی ان پر اللہ کا انعام ہے اور اس کی بہت بڑی نعمت ۔ آج بھی آپ ہی کی شریعت اور احکامات و ارشادات موجود ہیں اور نبوت آپ ہی کی ہے آج بھی وہی درجہ اطاعت مطلوب ہے جو صحابہ کرام سے تھا۔ اور یہ جو آپ کے صحابہ کی عظمت کی خبر یہ اللہ نے دی ہے جو ہر بات سے واقف اور حکیم ودانا ہے۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں تصادم ہوجائے تو ان کے درمیان اصلاح کی کوشش کرو اور صلح کرادی جائے اگر ان سے کوئی ایک دوسرے پر زیادتی سے باز نہ آئے تو اس سے لڑو تاآنکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع ہوا اور صلح پر آمادہ ہوجائے تو ان کے درمیان جو بات جنگ کا باعث بنی ہو اس کو شرعی طریقے سے اور انصاف سے طے کردو تاکہ آئندہ جھگڑے کا خطرہ نہ رہے اور اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور باہمی صلح اور انصاف کا حکم اس لیے ہے کہ تمام مسلمان ایکد وسرے کے بھائی ہیں اور یہ معنوی رشتہ دنیا کے رشتہ سے مضبوط تر ہے لہذا بھائیوں کے درمیان صلح ہی زیب دیتی ہے لہذا صلح کردیا کرو اور تمام معاملات میں جنگ کے ہوں یاصلح کے اللہ سے ڈرتے رہا کرو وہ تم پر رحم کرے اور درست فیصلہ کرنے کی توفیق بخشے۔ مشاجرات صحابہ۔ علماء حق کا ارشاد ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کی آپس میں تمام جنگوں کو شامل ہے خصوصا صحابہ کرام کی آپس کی آویزش کہ اگر قتال بھی ہواتوسب نے پورے خلوص کے ساتھ اجتہاد سے کام لیا اور سب کا مقصد رضائے الٰہی تھا لہذا بعدوالوں کو ان پر تنقید کرنے کا حق حاصل نہیں بلکہ ہمیشہ ان کا ذکر بہترین انداز میں کرنا ضروری ہے اس پر قرآن گواہ ہے اور بہت سی احادیث موجود ہیں تفاسیر میں اس پر بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (1 تا 5) ۔ لا تقد موا (تم آگے نہ بڑھو) ۔ لا تر فعوا (بلند مت کرو) ۔ اصوات (صوت) (آوازیں) ۔ لا تجھروا (چلاؤمت۔ شور مت کرو) ۔ تحبط (ضائع کرتا ہے) ۔ یغضون (دھیما کرتے ہیں۔ نیچی کرتے ہیں) ۔ امتحن ( امتحان لیا۔ آزمایا) ۔ ینادون (وہ آوازیں دیتے ہیں) ۔ وراء (پیچھے) ۔ الحجرات (الحجرۃ) ... (حجرے۔ کمرے) ۔ تشریح : آیت نمبر ( 1 تا 5 ) ۔” سورة الحجرات میں اہل ایمان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے اور آپ کی خدمت میں حاضری کے آداب و احکامات، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت اور اصلاح نفس کے بنیادی اصول سکھائے گئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و محبت سے دنیا اور آخرت کی تمام کامرانیاں حاصل ہو سکیں۔ اصل میں مدینہ منورہ کے آس پاس کی بستیوں میں رہنے والے نئے نئے مسلمان ابتداء میں بہت سے ان اصولوں سے واقف نہ تھے جو اللہ کے محبوب نبی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیض حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ تھے سادو اور بےتکلف معاشرہ تھا جس کی وجہ سے بعض قبیلوں کے سردار جب آپ کے پاس آتے اور آپ کو گھر سے باہر نہ دیکھتے تو رواج کے مطابق گھرکے باہر سے آپ کو آوازیں دیتے اور کہتے ” یا محمد اخرج الینا “ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے لئے باہرآئیے۔ اسی طرح جب آپ کسی مجلس میں کچھ ارشاد فرماتے یا آپ تشریف رکھتے تھے تو آپس میں اس طرح زور زور سے بالتے کہ جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز دب جاتی یا جب آپ چلتے تو لوگ آپ سے آگے چلتے یا بہت سی باتوں میں مشورہ مانگے بغیر اپنی رائے دیدیتے ۔ ان تمام باتوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچتی تھی اس لئے ان آیات میں اہل ایمان کی تربیت کے لئے چند بنیادی اصولوں کو بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلا اصول یہ ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی رائے مت چلاؤ۔ جب آپ کوئی فیصلہ فرما رہے ہوں تو اپنی رائے پیش نہ کرو۔ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ تمہاری ہر بات کو سنتا ہے اور تمہارے ہر معاملے کی پوری حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بات میں مشورہ طلب فرمائیں تو اپنی رائے اور مشورہ پیش کیا جائے اگر مشورہ نہ فرمائیں تو اپنی رائے سے کوئی بات نہ کریں۔ بعض علماء و مفسرین نے اس آیت کا مفہوم یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اس اصول کے تحت اپنے کسی بڑے اور بزرگ کے آگے آگے چلنا اور دوسرے معاشرتیآداب میں پہل کرنا مناسب نہیں ہے چناچہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ حضرت ابودردائ (رض) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے آگے چل رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اے ابو درداء (رض) تم ایسے شخص کے آگے چل رہے ہو جو دنیا اور آخرت میں تم سے بہتر ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں سورج کا طلوع و غروب کسی ایسے شخص پر نہیں ہوا جو انبیاء کے بعد ابوبکر سے بہتر و افضل ہو۔ (روح البیان) ۔ دوسرا ادب یہ سکھایا گیا کہ جب اہل ایمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھیں تو اپنی آواز کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچا اور بلند نہ کریں اور اس طرح بات نہ کریں جس طرح وہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔ ادب یہ سکھایا گیا کہ وہ جب آپ کی مجلس میں آئیں تو ادب و احترام کا پیکر بن کر آئیں۔ دھیمی آواز سے بات کریں اور شور نہ مچائیں۔ علماء مفسرین نے اس ادب کے ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے بزرگوں سے بات چیت اور گفتگو کرتے وقت ان کے مرتبے اور مقام کا لحاظ رکھا جائے اور گفتگو میں کوئی ایسا طریقہ اخیتار نہ کریں جس سے ان کے بزرگوں کو یا والدین کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ محتاط ہوگئے اور ایک دن عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم اب مرتے دم تک آپ سے اسی طرح بولوں گا جیسے کوئی سر گوشی کرتا ہے۔ (در منثور) ۔ سیدنا حضرت عمر فاروق کی آواز اس قدر اونچی تھی کہ اگر مکہ کے کسی پہاڑ پر گفتگو کر رہے ہوتے تو شہر مکہ تک آپ کی آواز پہنچتی تھی لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں اس قدر آہستہ بولنے لگے تھے کہ بعض صحابہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم ان سے پوچھتے کہ اے عمر (رض) تم نے ہم سے کچھ کہا ہے ؟ اسی طرح حضرت ثابت بن قیس (رض) کی آواز کافی بلند تھی وہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بہت روئے اور اپنی آواز کو بہت پست کرلیا۔ (درمنثور) ۔ صحابہ کرام (رض) کے اس ادب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضہء اقدس پر حاضری کے وقت آپ کی تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ پورے ادب و احترام کے ساتھ آہستہ آواز سے درود سلام پڑھا جائے۔ زور سے سلام پڑھنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اسی طرح جس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث پڑھی پڑھائی جارہی ہوں وہاں بھی آپ کے کلام کا ادب یہ ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے نرم اور دھیمی آواز سے بولتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ نے نیکی اور پرہیز گاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کی خطائیں معاف کردی گئی ہیں اور ان کے لئے بہت زیادہ اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کو تیسرا ادب یہ سکھایا گیا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آرام کا خیال بھی کھیں اگر آپ اپنے گھر کے اندر ہوں تو آپ کو باہر سے اس طرح آوازیں نہ دی جائیں جس طرح عام طور پر ایک دوسرے کو آوازیں دی جاتی ہیں بلکہ آپ کے احترام کا تقاضایہ ہے کہ جب آپ باہر تشریف لے آئیں تو آپ سے ادب و احترام کے ساتھ گفتگو کی جائے اور آپ کے باہر آنے کا انتظار کیا جائے۔ صحابہ کرام (رض) تہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیض صحبت سے ادب و احترام کا پیکربن چکے تھے لیکن جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ان کے سردار حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے رواج کے مطابق گھر کے باہر سے آوازیں دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ناسمجھ ہیں ان کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرنا چاہیے اسی میں ان کے لئے بہتری ہے بہر حال اگر ناسمجھی میں غلطی ہوگئی ہو تو اللہ مغفرت کرنے والا مہربان ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ حاصل مجموعہ اجزاء سورت کا بیان حقوق حضرت سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و حقوق اخوان فی الدین ہے۔ واقعہ ان آیتوں کے نزول کا یہ ہے کہ ایک بار بنی تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر (رض) میں باہم آپ کی مجلس میں اس امر میں گفتگو ہوگئی کہ ان لوگوں پر حاکم کس...  کو بنایا جائے، حضرت ابوبکر نے قعقاع بن معبد کی نسبت رائے دی، اور حضرت عمر نے اقرع بن حابس کی نسبت رائے دی اور گفتگو بڑھ کر دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں اس پر یہ حکم نازل ہوا۔ 4۔ یعنی جب تک قرائن قویہ یا تصریح سے اذن گفتگو کا نہ ہو گفتگو مت کیا کرو۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورت فتح کا اختتام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی جماعت کے اوصاف کے بیان پر ہوا۔ سورت الحجرات میں صحابہ پاک اور عظیم جماعت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب واحترام کرنے اور آپس میں رہنے کے آداب سکھلائے گئے ہیں۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے ک... ی کوشش نہ کرو۔ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ مفسرین نے ” لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ “ کے کئی معانی ذکر کیے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام و احترام کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا پہلا معنٰی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے اسے اپنے لیے کافی اور شافی سمجھاجائے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقے کو کافی نہیں سمجھتے اور ثواب کی غرض سے اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات اور طریقے میں نقص نکالنا اور اس کے مقابلے میں اپنی سوچ کو مقدم جاننا، یہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہے۔ ٤۔ جان بوجھ کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنا۔ ٥۔ قرآن و سنت سے مسئلہ ثابت ہوجانے کے باوجود اپنی فقہ کے مطابق عمل کرنا اور اسے مقدم سمجھنا۔ ٦۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے قانوں اور ضابطوں کو نافذ کرنے کی بجائے اپنی مرضی یا پارلیمنٹ کے فیصلے کو ترجیح دینا۔ حقیقت میں یہی اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہے جس کی کسی اعتبار سے بھی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے آیت کے آخر میں اس حقیقت کو انتباہ کے طور پر فرمایا ہے کہ ” اللہ “ ہر بات سننے والا اور ہر کسی کی نیت و عمل کو جاننے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) بیان فرماتے ہیں تین آدمیوں کا وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی عبادت کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ جب ان کو آپ کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے اس کو اپنے لئے معمولی سمجھا۔ وہ کہنے لگے ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھتا رہوں گا۔ دوسرا کہنے لگا کہ میں زندگی بھر روزہ رکھوں گا۔ تیسرا کہتا ہے کہ میں کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اور اس سے ڈرنے والا ہوں میں روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑتابھی ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھا ہے۔ پس جس نے میرے طریقے سے انحراف کیا اس کا میرے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ (رواہ البخاری : باب التَّرْغِیبُ فِی النِّکَاحِ ) (وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا) (الحشر : ٧) رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ ) (مشکوٰۃ : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے اس وقت تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔ “ مسائل ١۔ مسلمانوں کو کسی صورت اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ ہر بات کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے کا حکم : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (الانفال : ٤٦) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران : ١٣٢ ) ٣۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ : ٩٢) ٥۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول اور صاحب امر کی اطاعت کرو۔ (النساء : ٥٩ )  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورت کا آغاز ہی نہایت ہی محبوب آواز سے ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنوا (٤٩ : ١) ” اے ایمان والو “ یہ اللہ کی طرف سے پکار ہے ، ان لوگوں کو جو اللہ پر ایمان بالغیب لانے والے ہیں اور یہ پکار کر اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے دلوں کے اندر جوش و خروش پیدا فرماتا ہے ، کیونکہ اللہ سے مومنین کا تعلق ، تعلق ایمان...  ہے۔ اہل ایمان کے اندر یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں اور اس چھوٹے سے سیارے پر یہ لوگ اللہ کے بندے ، اللہ کے کارکن اور اس کی فوج ہیں اور ان کو اللہ نے یہاں کسی مقصد کے لئے بھیجا ہے اور اسی لیے اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کردی ہے اور ایمان کو ان کے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اس فوج میں اللہ نے ان کو بھرتی کر کے ان پر احسان کیا ہے ۔ لہٰذا ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ اس موقف پر کھڑے رہیں جہاں اللہ نے ان کے کھڑے کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ کے سامنے وہ یوں کھڑے ہوں جس طرح عدالت میں ایک شخص فیصلے کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے یا ایک ماتحت فوجی اپنے افسر سے ہدایات کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ وہی کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور اس کام کے لئے تیار ہوتا ہے جس کا اسے حکم دیا جاتا ہے۔ پوری طرح سر تسلیم خم کرتے ہوئے۔ یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ ان اللہ سمیع علیم (٤٩ : ١) ” اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو ، اور اللہ سے ڈرو ، اور وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے “۔ اے ایمان والو ، اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی مرضی کی تجاویز نہ پیش کرو ، نہ اپنے نفوس کے بارے میں نہ اپنے ماحول کی زندگی کے بارے میں اور اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کرنے سے قبل کسی معاملہ پر اپنا فیصلہ خود صادر نہ کرو ، اور کسی معاملے میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ہو تو اس میں اپنے فیصلے صادر نہ کرو۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ اپنی ان خواہشات اور تجاویز کا اظہار کرتے تھے کہ کیا ہی اچھا ہو کہ فلاں فلاں معاملے میں احکام آجائیں۔ اگر اس طرح ہوجائے تو بہت بہتر ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ان تجاویز کو ناپسند فرمایا۔ عوفی کہتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے باتیں کرنے سے روک دیا گیا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خواہ مخواہ فتویٰ نہ مانگا کرو ، خود اللہ جو چاہے نازل فرمادے۔ ضحاک کہتے ہیں ، اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصول دین اور قوانین شریعت کو چھوڑ کر اپنے فیصلے نہ کرو ، اور علی بن طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف نہ کہو۔ یہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں فکری اور نظریاتی آداب ہیں۔ اللہ سے ہدایات اخذ کرنے اور نافذ کرنے کے یہ آداب ہیں کہ جو حکم آئے اس کی تعمیل کرو اور باقی کے بارے میں خاموش رہو۔ یہی اصول دین اور شریعت کا بہترین رویہ ہے ۔ یہ خدا خوفی اور اس کی اس حقیقت پر مبنی ہے کہ اللہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ سب باتیں اس مختصر سی آیت میں بتا دی گئی ہیں۔ یوں مسلمانوں کا اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تعلق تھا۔ کوئی شخص اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی تجویز نہ دیتا تھا۔ کوئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کسی رائے کا اظہار نہ کرتا تھا۔ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رائے طلب نہ فرمائے۔ کوئی بھی کسی معاملے یا حکم میں فیصلہ کا اس وقت تک نہ کرتا تھا جب تک وہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کی طرف رجوع نہ لیتا ۔ امام احمد ، ابو داؤد ، اور ترمذی نیز ابن ماجہ نے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حضرت معاذ ابن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیج رہے تھے تو ان سے پوچھا کہ تم فیصلہ کس طرح کرو گے انہوں نے عرض کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ تو فرمایا کہ اگر اللہ کی کتاب میں حکم نہ ہو تو عرض کیا کہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر سنت میں بھی کوئی ہدایت نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنے رائے کے مطابق اجتہادی فیصلہ کروں گا۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سینے پر ضرب لگائی اور فرمایا خدا کا شکر ہے کہ اللہ نے رسول خدا کے نمائندے کو وہ توفیق دی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواش تھی۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھ رہے تھے کہ آج کون سا دن ہے جس میں تم ہو۔ اور وہ جگہ کون سی جہاں تم ہو ۔ وہ سب جانتے تھے لیکن وہ سب جانتے تھے لیکن وہ سب جواب دیتے ہیں کہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت زیادہ جانتے ہیں اور یہ وہ اس لیے کہتے تھے کہ کہیں ان کا قول اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیش قدمی نہ ہوجائے۔ ابوبکرہ نقیع ابن الحارث (رض) کی حدیث میں آتا ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا یہ کو مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور رسول اللہ زیادہ جانتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے اور ہم نے یہ خیال کیا شاید مہینے کا نام بدل گیا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی دوسرا نام لیں گے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے ہم نے کہا ہاں ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ذوالحجہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے کہا اللہ اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے اور ہمارا خیال ہوا کہ شاید حضور بلد حرام کا نام بدل گے۔ آپ نے فرمایا کیا یہ بلد حرام نہیں ہے ؟ تو ہم نے کہا کہ ہاں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے ؟ تو ہم نے کہا اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہوگئے اور ہم نے کہا کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا نام بدل دیں گے آپ نے فرمایا کیا یہ یوم الخر نہیں ہے ؟ ہم نے کہا ہاں۔۔۔ یہ تھی صورت حال جناب بنوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صحابہ کرام (رض) کے ادب اور احترام کی۔ نہایت احتیاط ، تقویٰ ، خشیت ۔ یہ آیات نازل ہونے کے بعد ان کے اندر یہ ادب اور احترام پیدا ہوا تھا ۔ کیونکہ ان آیات میں کہا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ سمیع وعلیم ہے۔ دوسرا ادب و احترام یہ تھا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گفتگو میں آداب نبوت کو ملحوظ رکھو۔ نہایت احترام سے اور دلی احترام سے بات کرو۔ تمہاری حرکات اور تمہاری آواز سے احترام ظاہر ہو۔ آپ کی شخصیت اور آپ کی مجلس اور گفتگو نہایت ہی ممتاز ہو۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی پسندیدہ انداز میں ان کو ڈراتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور خدمت عالیٰ میں حاضری کے احکام و آداب کی تلقین ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات جن گھروں میں رہتی تھیں انہیں حجرات سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ یہ گھر چھوٹے چھوٹے تھے اور پختہ عمارتیں بھی نہ تھیں کھجوروں کی ٹہنیوں سے بنا دی گئی تھیں چ... ونکہ اس سورت کے پہلے رکوع میں ان حجروں کا ذکر ہے اس لیے یہ سورت سورة الحجرات کے نام سے موسوم ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے توقیر اور احترام کی تلقین فرمائی اور اس سلسلے میں چند آداب ارشاد فرمائے ہیں۔ اول تو یہ فرمایا کہ اے ایمان والو تم اللہ اور رسول سے سبقت مت کرو یہ ﴿ لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ کا ترجمہ ہے ان الفاظ میں بڑی جامعیت ہے حضرات مفسرین کرام نے اس کے متعدد معنی لکھے ہیں حضرت مجاہد نے فرمایا کہ تم پہلے سے کوئی بات اپنی طرف سے نہ کہہ دو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرو وہ اپنے رسول کی زبانی جو فیصلہ فرما دے اس کے مطابق عمل کرو حضرت سفیان ثوری (رض) نے بھی تقریباً یہی مطلب بتایا ہے، حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو یوں کہا کرتے تھے کہ اس بارے میں کچھ حکم نازل ہوجاتا اور فلاں مسئلہ میں کوئی قانون نازل ہوجاتا تو اچھا تھا اللہ تعالیٰ کو ان کی بات پسند نہ آئی اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول سے سبقت نہ کرو۔ (معالم التنزیل ص ٢٠٩ ج ٤، ابن کثیر ص ٢٠٥ ج ٤) ساتھ ہی ﴿ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ١ؕ ﴾ بھی فرمایا کہ اللہ سے ڈرو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ٠٠١﴾ بیشک اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ حضرت امام بخاری (رض) نے عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے بواسطہ عبد اللہ بن الزبیر (رض) نقل کیا ہے کہ بنی تمیم کا ایک قافلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور انہوں نے عرض کیا کہ کسی شخص کو ہمارا امیر بنا دیجیے (ابھی تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ نہیں فرمایا تھا کہ) حضرت ابوبکر (رض) نے قعقاع بن معبد کو امیر بنانے کا مشورہ دیا اور حضرت عمر (رض) نے اقرع بن حابس کے امیر بنانے کی رائے پیش کی۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا تمہارا اس کے علاوہ کچھ مقصد نہیں ہے کہ میری مخالفت کرو، حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ میں نے آپ کی مخالفت کے طور پر اپنی رائے نہیں پیش کی، اس پر جھگڑا ہونے لگے جس سے دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، لہٰذا آیت کریمہ ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا ﴾ (آخر تک) نازل ہوگئی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ یا ایہا الذین امنوا لاتقدموا۔ الایۃ “ بشارت فتح کے بعد آداب وقوانین کا بیان ہے تاکہ نظم و نسق درست رہے۔ یہ پہلا قانون ہے جو باقی قوانین کی بنیاد اور اساس ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیشقدمی نہ کرو یعنی اللہ و رسول کے احکام کی مخالفت نہ کرو بلکہ ان کی اطاعت کرو۔ المراد النھی عن مخالفۃ الکتاب و... السنۃ (روح ج 26 ص 123) ۔ اور اللہ سے ڈرو یعنی اس کے احکام کی مخالفت نہ کرو اور اس کی اطاعت کرو۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے تمہارے اقوال وافعال سے وہ اچھی طرح باخبر ہے، وہ مطیع وعاصی کو خوب جانتا ہے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزاء اور سزا دے گا۔ یہ قانون تمام قوانین کا اصل الاصول ہے کیونکہ تمام قوانین اللہ و رسول کے احکام ہی تو ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) اے ایمان والو ! تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قول اور فعل میں سبقت اور پیش دستی نہ کیا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کے بغیر کسی کام میں آگے نہ بڑھ جایا کرو مسلمانوں کو یہ ادب ... سککھایا پیغمبر کی تعظیم کا۔ کہتے ہیں بعض لوگوں نے عیدالضحیٰ کی نماز سے پہلے قربانیاں کرلی تھیں بعض نے کہا یوم الشک کے روزے کی نہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں لا تقولوا خلاف الکتاب والسنۃ یعنی قرآن اور سنت کے خلاف کوئی بات نہ کہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مجلس میں کوئی کچھ پوچھے تو حضرت کی راہ دیکھو کہ کیا فرمادیں تم اپنی عقل سے آگے جواب نہ دے بیٹھو۔ خلاصہ : یہ کہ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ کسی کی بات میں دخل دے کر خود جواب دینے لگتے ہیں پیغمبر (علیہ السلام) کی مجلس میں بھی کسی نے ایسا کیا ہوگا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرنے والے کا جواب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے خود جواب دینا شروع کردیا ہوگا یہ بہت بڑے عیب کی بات ہے اور بالخصوص پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں یہ بڑی بےادی ہے اس لئے مسلمانوں کو اس قسم کی سبقت اور پیش قدمی اور آگے بڑھنے سے منع فرمایا۔  Show more