Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 3

سورة الحجرات

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾

Indeed, those who lower their voices before the Messenger of Allah - they are the ones whose hearts Allah has tested for righteousness. For them is forgiveness and great reward.

بیشک جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے ۔ ان کے لئے مغفرت اور بڑا ثواب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَيِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى .. Verily, those who lower their voices in the presence of Allah's Messenger, they are the ones whose hearts Allah has tested for Taqwa. whose hearts have been purified by Allah and made as a residence and dwelling for the Taqwa, ... لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ For them is forgiveness and a great reward. Imam Ahmad recorded in the Book of Az-Zuhd that Mujahid said, "Someone wrote to Umar, `O Leader of the faithful! Who is better, a man who does not feel the desire to commit a sin and does not commit it, or a man who feels desire to commit a sin, but does not commit it' Umar replied, `He who feels desire to commit a sin, but does not commit it, ... أُوْلَيِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ they are the ones whose hearts Allah has tested for Taqwa. For them is forgiveness and a great reward."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ نبی کا ادب و احترام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پہلے تقویٰ کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا امتحان دے چکے ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ نبی کا ادب و احترام کرنا ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں تقویٰ موجود ہے اور ان کے اس عمل سے اللہ ان کے تقویٰ کو مزید بڑھاتا چلا جائے گا۔ اس آیت اور مذکور بالا حدیث سے صحابہ کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان الذین یغضون اصواتھم …: اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم کا خیال رکھتے ہوئے آپ کے پاس اپنی آواز پست رکھتے تھے، جیسا کہ عمر (رض) کے متعلق گزرا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے تقویٰ کا امحتان کر کے دیکھ لیا کہ وہ پرہیز گاری کے امتحان میں پوری طرح کامیاب ہیں، جیسے سونے کو آگ میں ڈال کر دیکھا جاتا ہے اور وہ خالص نکلتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ہم نے اس کے خلاص ہونے کی آزمائش کرلی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آواز پست نہیں رکھتا اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے، پھر جو شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سننے کے بعد اس کے خلاف آواز اٹھائے وہ تقویٰ اور ایمان سے کس قدر دور ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰى۝ ٠ ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۝ ٣ غض الغَضُّ : النّقصان من الطّرف، والصّوت، وما في الإناء . يقال : غَضَّ وأَغَضَّ. قال تعالی: قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور/ 30] ، وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور/ 31] ، وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان/ 19] ، وقول الشاعر : فَغُضَّ الطّرفَ إنّك من نمیر فعلی سبیل التّهكّم، وغَضَضْتُ السّقاء : نقصت ممّا فيه، والْغَضُّ : الطّريّ الذي لم يطل مكثه . ( ع ض ض ) الغض ( ن ) کے معنی کمی کرنے کے ہیں خواہ نظر اور صور میں ہو یا کسی برتن میں سے کچھ کم کرنے کی صورت میں ہو قرآن میں ہے : ۔ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ [ النور/ 30] مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں ۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ [ النور/ 31] اور مومن عورتوں سے بھی کہدو ( کہ اپنی نگاہیں ) نیچی رکھا کریں وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ [ لقمان/ 19] اور بولتے وقت ) آواز نیچی رکھنا ۔ اور شاعر کے قول ( 328 ) فغض الطرف انک من نمیر نگاہ نیچی رکھ تو بنی نمیر سے ہے ) میں غض کا لفظ بطور نہي کم استعمال ہوا ہے غضضت السقاء میں نے مشک سے پانی کم کردیا اور غض ایسی تر اور تازہ چیز کو کہتے ہیں جس پر ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ محن المَحْن والامتحان نحو الابتلاء، نحو قوله تعالی: فَامْتَحِنُوهُنَ [ الممتحنة/ 10] وقد تقدّم الکلام في الابتلاء . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوى[ الحجرات/ 3] ، وذلک نحو : وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال/ 17] وذلک نحو قوله : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ الآية [ الأحزاب/ 33] . ( م ح ن ) المحن ۔ والامتحان کے معنی آزمانے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : فَامْتَحِنُوهُنَ [ الممتحنة/ 10] تو انکی آزمائش کرو۔ اور امتحان اور ابتلاء کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں چناچہ قرآن نے ایک مقام پر ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوى[ الحجرات/ 3] خدا نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزمالئے ہیں ۔ کہا ہے اور دوسرے مقام پر وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال/ 17] اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو ۔۔ اچھی طرح آز مالے ۔ فرمایا ہے اور یہاں بلاء اور امتحان کا وہی مفہوم ہے جو کہ آیت :إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ الآية [ الأحزاب/ 33] اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل دور کردے۔ میں جس کے دور کرنے کا ہے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اکرم کے سامنے نیچی رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقوی اور توحید کے لیے خالص کردیا ہے ان کے دنیوی گناہوں کے لیے مغفرت اور آخرت میں اجر عظیم ہے، یہ آیت بھی حضرت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی تعریف فرمائی ہے، کیونکہ انہوں نے ممانعت کے بعد آواز بالکل آہستہ کردی تھی۔ شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ (الخ) نیز محمد بن ثابت بن قیس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ نازل ہوئی تو حضرت ثابت بن قیس رستہ میں بیٹھ کر رونے لگے، حضرت عاصم بن عدی کا ان کے پاس سے گزر ہوا وہ بولے کیوں روتے ہو، حضرت ثابت نے جواب دیا مجھے یہ آیت مبارکہ رلاتی ہے کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی ہو اس لیے کہ میں بہت بولنے ولا اور بلند آواز آدمی ہوں۔ حضرت عاصم نے اس چیز کی رسول اکرم کو اطلاع دی آپ نے ان کو بلایا اور فرمایا کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ خوبیوں والی زندگی بسر کرو اور شہید ہو اور پھر جنت میں داخل ہو، حضرت ثابت کہنے لگے میں اس پر راضی ہوں اور میں کبھی بھی اپنی آواز رسول اکرم کی آواز کے سامنے بلند نہیں کروں گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی } ” بیشک وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ‘ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے جانچ پرکھ کر ُ چن لیا ہے تقویٰ کے لیے۔ “ پچھلی آیت میں جو حکم منفی انداز میں دیا گیا ہے اسی حکم کو اب شاباش کے لیے مثبت انداز میں دہرایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کا طرز عمل اس قدر پسند آیا ہے کہ اس بنیاد پر اس نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے نور سے خصوصی طور پر منور کرنے کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ { لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ } ” ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, "Only those people give due reverence to the Messenger of Allah, who have passed successfully through the tests and trials set by Allah and proved by their steadfastness that their hearts indeed possess tagva (piety). " From this it follows automatically that the heart which is devoid of reverence for the Holy Prophet is, in fact, devoid of tagva, and a person's raising his voice louder than the Holy Prophet's is not only an uncivilized act outwardly but also a sign of the absence of tagva in his heart.

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :5 یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورے اترے ہیں اور ان آزمائشوں سے گزر کر جنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے دلوں میں فی الواقع تقویٰ موجود ہے وہی لوگ اللہ کے رسول کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں ۔ اس ارشاد سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ جو دل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام سے خالی ہے وہ درحقیقت تقویٰ سے خالی ہے ، اور رسول کے مقابلے میں کسی کی آواز کا بلند ہونا محض ایک ظاہری بد تہذیبی نہیں ہے ۔ بلکہ باطن میں تقویٰ نہ ہونے کی علامت ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:3) یغضون مضارع جمع مذکر غائب غض (باب نصر) مصدر۔ وہ نیچی رکھتے ہیں وہ پست رکھتے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے : قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ۔ (24:30) مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں۔ اولئک ۔ اسم اشارہ جمع مذکر ۔ ای الذین یغضون اصواتہم عند رسول اللہ۔ یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔ امتحن اللہ قلوبہم للتقوی ۔ امتحن ۔ ماضی واحد مذکر غائب امتحان (افتعال) مصدر۔ محن مادہ۔ اس نے جانچ لیا۔ اس نے آزما لیا۔ آزمانے کے معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے فامتحنوھن (60:10) تو تم ان کی آزمائش کرلو۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ اللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزما لئے ہیں : ترجمہ فتح محمد جالندھری۔ (1) اخفش لکھتے ہیں :۔ امتحان (باب افتعال) سے ہے اس کے لغوی معنی ہیں چمڑے کو کھلا کرنا۔ اس مفہوم کے پیش نظر آیت کا ترجمہ ہوگا کہ :۔ ہم نے ان کے دلوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کے لئے کشادہ اور وسیع کردیا ہے۔ (2) علامہ زمخشری لکھتے ہیں :۔ جب کوئی شخص کسی چیز کا خوگر اور عادی ہوجائے اور اسے اس کی خوب مشق کرالی جائے تو عرب کہتے ہیں امتحن فلان لا مرکذا (فلاں اس کا عادی یا خوگر ہوگیا ) یعنی اب وہ اس امر کو بآسانی سنبھال سکتا ہے اور اس میں کسی ضعف یا کمزوری کو محسوس نہیں کرتا۔ (3) عربی میں ہے :۔ امتحن الفضۃ ۔ اس نے چاندی کو تپا کر صاف کیا۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ اللہ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لئے خالص کرلیا ہے۔ لہم مغفرۃ واجر عظیم ۔ لام تخصیص کے لئے ہے۔ مغفرۃ واجر عظیم کی تنوین اظہار عظمت کے لئے ہے۔ یعنی بڑی مغفرت اور بہت بڑا اجر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی وہ پرہیز گاری کے امحتان میں پورے اترے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ متقی کامل ہیں۔ 2۔ اگلی آیتوں کا واقعہ یہ ہے کہ وہی بنی تمیم جب آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے آئے تو اس وقت آپ دولت خانہ میں تشریف رکھتے تھے، انہوں نے باہر سے بوجہ قلت تہذیب کے آپ کو نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونچی اور دور سے بلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے آہستہ اور قریب ہو کر بات کرتے ہیں ان کا مقام اور انعام۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے جو لوگ اپنی یا کسی کی آواز کو اونچا سمجھتے اور کرتے ہیں ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے اپنی آواز آہستہ رکھتے ہیں حقیقت میں وہی آپ کا ادب اور احترام کرنے والے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آواز کو نیچا رکھنے اور آپ کا ادب کرنے والوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے ساتھ آزمایا لیا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں انہی کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کے حکم کا احترام پایا جاتا ہے جس وجہ سے وہ اللہ کے رسول کی ذات اور بات کا احترام کرتے ہیں۔ جن کے دلوں میں نبی کریم کا احترام، اللہ کی ذات کا خوف اور اس کے حکم کا احترام ہوگا ان کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور انہیں اجر عظیم سے ہمکنار کیا جائے گا۔ اس خطاب میں سب سے پہلے صحابہ کرام (رض) کی جماعت مراد ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا خوف اور احترام اختیار کیا اور رسول محترم کے احترام کا حق ادا کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کردیا تھا۔ (الفتح : ٢٦) اور ان کا امتحان بھی لے لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں کی آواز سنتا اور ان کے اعمال دیکھتا ہے بلکہ وہ دلوں کے حال بھی جاننے والا ہے۔ جو شخص اپنے دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے اس کی زبان اور اس کے اعمال پر تقویٰ کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ تقویٰ ہی انسان کو صراط مستقیم اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات کا احترام سکھلاتا ہے۔ تقویٰ ہی تمام اعمال کا مقصود اور مطلوب ہے۔ جب تک نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں حیات اور موجود تھے اس وقت آپ کا احترام یہ تھا کہ آپ کی مجلس میں اونچی آواز سے نہ بولاجائے اب اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات اور ارشاد کو اپنی اور ہر بزرگ کی بات اور ذات سے اونچا سمجھا جائے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کے دلوں کو تقویٰ کے ساتھ آزمایا جس پر صحابہ پورے اترے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے تمام گناہ معاف فرمادیئے اور انہیں اجر عظیم سے سرفراز فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو معاف کرے گا اور انہیں اجر عظیم عنایت فرمائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین یغضون اصواتھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واجر عظیم (٤٩ : ٣) “ جو لوگ رسول خدا کے ہاں بات کرتے ہوئے اپنی آواز کو پست رکھتے ہیں وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے ۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے ”۔ تقویٰ اور خدا خوفی اللہ کی ایک عظیم بخشش ہے۔ اللہ ہی اس اعزاز اور نعمت کے لئے دلوں کا انتخاب کرتا ہے ۔ اس امتحان اور اختیار اور خلوص اور طہارت قلبی کے بعد پھر ان دلوں کو تقویٰ دیا جاتا ہے ، لہٰذا یہ نعمت انہی دلوں کو دی جاتی ہے جو اس کے لئے تیار ہوں اور یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دل تقویٰ کے مستحق ہیں اور جو لوگ اپنی آوازیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں نیچی رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو تقویٰ کے لئے منتخب کیا گیا اور اس انعام کے ساتھ یعنی تقویٰ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو مغفرت بھی دی جاتی ہے۔ انتہائی ڈراوے کے بعد یہ ایک گہری ترغیب ہے ۔ اس طرح اللہ اپنے مختار بندوں کے دلوں کو تربیت فرماتا ہے اور ان کو اس عظیم کام کے لئے تیار کرتا ہے اور اسی انداز تربیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے آغاز میں جماعت صحابہ کو تیار فرمایا تھا۔ یہ لوگ ہدایت پر تھے اور روشنی کے حامل تھے ۔ امیر المومنین عمر ابن الخطاب (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دو آدمیوں کی آواز سنی ، ان کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ وہ آئے اور انہوں نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم کہاں ہو ؟ اس کے بعد ان سے کہا تم کہاں سے آئے ہو ، انہوں نے کہا ہم اہل طائف سے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر (رض) نے فرمایا اگر تم اہل مدینہ سے ہوتے تو میں تمہاری خوب خبر لیتا۔ علمائے امت نے اس بات کو سمجھا اور فرمایا کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے پاس بلند آواز سے بات کرنا منع ہے جبکہ آپ کی زندگی میں مسجد نبوی میں اونچی آواز سے بات کرنا ممنوع تھی۔ ہر حال میں ممنوع تھا بوجہ احترام ۔ اس کے بعد ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا جو ٩ ہجری کو پیش آیا۔ فتح مکہ کے بعد ہر طرف سے وفود آ رہے تھے۔ بنی تمیم کا ایک وفد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے آیا۔ یہ لوگ خالص خشک دیہاتی تھے ۔ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرات کے سامنے جن میں ازواج مطہرات بھی تھیں ، کھڑے ہو کر پکارا ، محمد ؐ، ذرا باہر آئیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اس طریقے کو ناپسند فرمایا کیونکہ یہ طریقہ نہایت اجڈ اور پریشان کن تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اَمْتَحَنَ لفظ امْتحان سے ماضی کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ ” جانچ کرنا “ کیا گیا ہے۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں : اِمْتَحَنَ اَخْلَصَ کے معنی میں ہے جس طرح سونے کو پگھلا کر خالص کردیا جاتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے قلوب کو تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے ان کے قلوب میں تقویٰ ہی تقویٰ ہے۔ حضرات صحابہ (رض) کے آداب و احترام کو دیکھو اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کو اور مدح اور توصیف کو دیکھو اور شیعوں کے بغض اور دشمنی کو دیکھو وہ کہتے ہیں کہ تین چار صحابہ کے علاوہ سب کافر تھے۔ (العیاذ باللہ) فائدہ : حضرات علماء کرام نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر شریف کے سامنے بھی آواز بلند کرنا مکروہ ہے جیسا کہ آپ کی زندگی میں ایسا کرنا مکروہ تھا کیونکہ آپ کا احترام اب بھی واجب ہے اور آپ کو بزرخی حیات حاصل ہے۔ جب خدمت عالی میں سلام پیش کرنے کے لیے حاضر ہو تو دھیمی آواز میں سلام پیش کرے ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ ﴾ (الآیۃ) اس آیت کے سبب نزول میں صاحب معالم التنزیل نے متعدد قصے لکھے ہیں جو حضرت ابن عباس، حضرت جابر، حضرت زید بن الارقم (رض) سے مروی ہیں… حضرت زید بن ارقم (رض) کا بیان ہے کہ عرب کے کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آؤ آج اس شخص کے پاس چلیں جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اگر وہ واقعی نبی ہیں تو ہمیں سب لوگوں سے آگے بڑھ کر ان پر ایمان لاکر سعادت مند ہونا چاہیے اگر وہ نبی نہیں ہے بلکہ انہیں بادشاہت ملنے والی ہے تو ہمیں ان کے زیر سایہ زندگی گزارنی چاہیے (بہرحال ان سے تعلق قائم کرنے میں فائدہ ہے) اس کے بعد حاضر ہوئے تو یا محمد یا محمد کہہ کر آوازیں دینے لگے، اور حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے۔ کہ قبیلہ بنی عنبر کے آدمی دوپہر کے وقت آئے تھے انہوں نے پکارا : یا محمد اخرج الینا (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف نکلیے) دوپہر کا وقت تھا آپ آرام فرما رہے تھے ان لوگوں کی چیخ پکار سے آپ کی آنکھ کھل گئی اور حضرت جابر (رض) کی روایت میں ہے کہ یہ لوگ قبیلہ بنو تمیم کے تھے جنہوں نے دروازے پر کھڑے ہوکر آپ کو باہر آنے کے لیے پکارا اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ٠٠٤﴾ (بےشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے ہیں) ﴿ وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ١ؕ﴾ اور اگر وہ لوگ صبر کرلیتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف نکلتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا ﴿ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ٠٠٥﴾ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے جس کسی سے جو بھی کوئی خطا سرزد ہوگئی ہو توبہ کرکے معاف کرالے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” ان الذین یغضون “ یہ آواز پست رکھنے والوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ ” امتحن اللہ الخ “ اللہ نے ان کے دلوں کو امتحان و ابتلا میں ڈال کر غل و غش اور کھوٹ سے پاک اور کھرا کر کے ان کو تقوی اور خوف خدا کے لیے مخصوص کردای ہے۔ قال الفراء ای اخلصہا للتوقوی وقال ابن عباس طھرھم من کل قبیح، وجعل فی قلوھم الخوف من اللہ والتقوی (قرطبی ج 16 ص 308) ۔ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے سامنے آواز پست رکھتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ نے تقوی سے لبریز کردیا ہے اور آداب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے سامنے آواز پست رکھتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ نے تقوی سے لبریز کردیا ہے اور آداب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پاس اور لحاظ ان کے دلوں کی اسی قلبی کیفیت ہی کا نتیجہ ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے گناہوں کی معافی ہے اور ان کے لیے بہت بڑا اجر وثواب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) بے شک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو اپنی آوزوں کو پست رکھتے ہیں اور دبی آواز سے بولتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقوے کے لئے آزمالیا ہے اور نکھار لیا ہے اور خالص کردیا ہے ان کے لئے بڑی مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔ یہ آیت بقول بعض مفسرین سعد بن معاذ (رض) کے بارے میں اتری ہے اور بعض نے کہا کہ ابوبکر (رض) اور عمر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ جو لوگ رسالت مآب کی جناب میں دبی آواز سے گفتگو کرتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے نکھار کر خالص کرلیا ہے یعنی ان کے دلوں میں غیر تقوی نہیں ہے اور یہی وہ تقویٰ کا اعلیٰ درجہ ہے جس کو فرمایا۔ لا یبلغ العبد ان یکون من المتقین حتیٰ یدع ملا باس بہ حذرالمابہ باس۔ یعنی تقوی کے اعلیٰ درجہ پر جب پہنچ سکتا ہے جبکہ ان چیزوں کو اندیشہ سے جن میں خطرہ ہے ان چیزوں کو چھوڑ دے جن میں کوئی خطرہ نہ ہو۔ یہاں پر بھی رفع صوت جو پیغمبر کی ایذا کا موجب ہو اس میں خطرہ ہے اور جو ایذا کا سبب نہ ہو اس میں کوئی اندیشہ نہیں انہوں نے مطلقاً رفع صوت کو ترک کرکے تقویٰ کے اعلیٰ اصول پر عمل کیا یعنی خطرہ کے اندیشہ اور حبط عمل کے ڈر سے اتنی آواز بھی بلند نہ کی جو حبط کا موجب نہیں سبحان اللہ کیسا ادب ہے اور کیسا تقویٰ ہے۔ انہی کے لئے فرمایا تہم مغفرۃ واجر عظیم صحابہ کرام کے اتباع کا یہ حال تھا (رضوان اللہ علیہم اجمعین)