Surat ul Hujraat

Surah: 49

Verse: 5

سورة الحجرات

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾

And if they had been patient until you [could] come out to them, it would have been better for them. But Allah is Forgiving and Merciful.

اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللہ غفور و رحیم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ... And if they had patience till you could come out to them, it would have been better for them. it would have earned them the better benefit of this life and the Hereafter. Allah, Worthy of all praise, then encourages them to turn to Him in repentance. ... وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ And Allah is Forgiving, Most Merciful. It was reported that this Ayah was revealed about Al-Aqra bin Habis At-Tamimi, may Allah be pleased with him, according to more than one source. Imam Ahmad recorded that Al-Aqra bin Habis said that he called the Messenger of Allah from behind his dwellings, saying, "O Muhammad! O Muhammad!" "O Allah's Messenger!" but the Messenger did not answer him, according to another narration, Al-Aqra` said, "O Allah's Messenger.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دینے میں جلدی نہ کرتے تو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔ 5۔ 2 اس لیے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لیے ادب و تعظیم کی تاکید بیان فرما دی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] گھر سے بلانے میں ادب کے تقاضے & نبی سے انداز گفتگو شائستہ ہونا چاہئے :۔ بنو تمیم کے کچھ لوگ عین دوپہر کے وقت آپ کے ہاں آئے جب آپ آرام فرما رہے تھے۔ اور زور سے چلانے لگے : یامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) باہر ہمارے پاس آئیے۔ ہماری بڑی اچھی شہرت ہے اور ہماری بڑائی بڑی ہے &&۔ ان کے پکارنے کے انداز سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بدو & غیر مہذب اور اجڈ قسم کے جنگلی لوگ تھے۔ جنہیں نہ گھر سے بلانے کا سیلقہ آتا تھا اور نہ گفتگو کرنے کا وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ہی بہت کچھ سمجھتے تھے۔ غالباً یہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے اور اپنے قبیلے کے لئے ایک سردار کی تقرری کی درخواست لے کر آئے تھے۔ جیسا کہ اسی سورة کے حاشیہ نمبر ٢ میں درج شدہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ پھر یہ بات صرف انہی لوگوں پر ہی موقوف نہ تھی۔ اکثر بدو لوگ اسی بھونڈے انداز میں آپ کو گھر سے بلاتے اور گفتگو کرتے تھے اور آپ اپنی طبعی شرم و حیا کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہتے تھے۔ ایسے ناشائستہ، ان گھڑ اور بیوقوف قسم کے انسانوں کو اس آیت کے ذریعہ تنبیہ کی گئی ہے کہ جب وہ رسول سے مخاطب ہوں تو اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ جس سے وہ بات کرنا چاہتے ہیں وہ ایک عام آدمی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور اس کا نمائندہ ہے۔ جس کی شان دنیا کے افسروں اور بادشاہوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اگر تم اس کی شان میں بےادبی یا گستاخی کرو تو تمہیں اپنے ایمان ہی کی خیر منانی پڑے۔ لہذا تم لوگوں کے لئے رسول کو گھر سے بلانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حجرہ کے باہر کھڑے ہو کر اندر اطلاع بھجواؤ یا مہذب طریقے سے آواز دو ۔ پھر کچھ انتظار کرو۔ ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں۔ پھر جب وہ باہر آئیں تو جو کہنا ہو مہذب طریقہ سے بات کرو۔ [٦] یعنی اگر تم آئندہ ان آداب کو ملحوظ رکھو گے تو اللہ تمہاری سابقہ خطائیں معاف فرما دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولم الھم صبروا حتی تخرج الیھم…: یعنی اگر وہ آوازیں دینے کے بجائے صبر کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کا انتظار کرتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا، کیونکہ اس صبر و اتنظار میں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب محلوظ رکھنے میں انہیں اجر و ثواب ملتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ خوش دلی کے ساتھ ان سے ملتے اور زیادہ بہتر طریقے سے ان کی ضرورتیں پوری فرماتے ۔ ظاہر ہے جس شخص پر پوری امت کی ذمہ داری کا بوجھ ہے اور وہ ہر وقت اسی فکر و عمل میں مصروف ہے، اگر اس وقت جب وہ گھر میں ہے یہ خیال کئے بغیر کہ اس وقت وہ آرام کر رہا ہے یا گھر کے کسی کام میں مصروف ہے، آوازیں دینا شروع کردیا جائے تو اس خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی جو صبر و انتظار کے ساتھ اس سے حاصل ہونا تھی۔ اس سے اساتذہ کرام، اہل علم اور مسلمانوں کے امراء و اکابر کے اکرام کی بھی تعیم ملتی ہے۔ (٢) واللہ غفور رحیم : یعنی حق تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو ان کی اس بےادبی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سزا ملتی، مگر چونکہ ان سے یہ فعل بےعقلی کی وجہ سے سر زد ہوا تھا، بدنیتی کی وجہ سے نہیں، اس لئے آخر میں اپنے غفور و رحیم ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی مغفرت کا اشارہ فرما دیا۔ (٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب زندہ تھے اور دیوار کے باہر سے آپ تک آواز بھی پہنچتی تھی اس وقت آپ کو آواز دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بےعقل قرار دیا تو اب جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوچکے اور یہ ممکن ہی نہ رہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری بات سنیں یا ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سنیں، جیسا کہ فرمایا :(ومن ورآئھم برزخ الی یوم یبعثون) (المومنوکن : ١٠٠)” اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائیں جائیں گے، ایک پردہ ہے۔ “ تو جو لوگ اب ہز اورں میل دور سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آوازیں دیتے ہیں اور آوازیں بھی اس مقصد کے لئے دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کرسکتا، تو ان کے ” لایعقلون “ (بےعقل) ہونے میں کیا شبہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْہِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّہُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٥ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ بنی عنبر کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی واقعہ یہ پیش آیا کہ رسول اکرم نے ان کی طرف ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا اور ان پر عیینہ بن حصن کو امیر بنایا، چناچہ جب یہ لشکر ان کے پاس پہنچا تو یہ سب اپنے اہل و عیال اور اموال چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چناچہ ان کی اولاد قید کر کے رسول اکرم کی خدمت میں لائی گئی تو یہ لوگ اس غرض سے مدینہ منورہ آئے کہ فدیہ دے کر اپنی اولاد کو چھڑالیں۔ چناچہ دوپہر آرام کے وقت جبکہ آپ آرام فرما رہے تھے آپ کو حجرے کے باہر سے پکارا کہ محمد ہمارے پاس آؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حرکت کی مذمت فرمائی اور فرمایا اگر یہ لوگ کچھ انتظار کرتے یہاں تک کہ آپ نماز کے لیے خود باہر آجاتے تو آپ خود ان کے بچوں اور عورتوں کو آزاد کردیتے، چناچہ حضور نے ان سے آدھے لوگوں کا فدیہ لیا اور ان کو آزاد کردیا اور اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اسی وجہ سے اس نے فورا سزا نہیں دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} ” اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس نکل کر آجاتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ بہرحال اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔ “ چونکہ یہ لوگ آداب معاشرت سے نا آشنا ہیں اور یہ خلافِ ادب حرکت وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے رہے ہیں اس لیے اپنے گزشتہ طرز عمل کے حوالے سے تو انہیں معافی کی توقع رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے ‘ لیکن آئندہ کسی سے ایسی کوئی حرکت سرزد نہیں ہونی چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 The people who in the blessed time of the Holy Prophet had received training in Islamic etiquette and manners under the Holy Prophet himself had a full regard for his person. They fully realized how busy he remained in performing the mission entrusted to him by Allah; they also understood full well that during those tiresome activities he must necessarily have some time for rest, time for his important occupations and also time for attending to his domestic affairs. Therefore, they would come to visit him only at the time when he was available outside his house, and if ever they did not find him outside his living quarters among his Companions, they would sit and await his emergence and would avoid giving him the trouble of coming out of his house unless there was a special need for it. But many a time it so happened that the people from far flung areas, who had had no opportunity to receive training in good manners, would come to visit the Holy Prophet with the idea that the one who invited others to AIIah and was working for the reformation of the people had no right to have rest at any time, and they had the right to visit and see him any time they pleased in the day or night and it was his duty that whenever they happened to arrive he should be ready to receive them. Some of these people who carne to see the Holy Prophet from different parts of Arabia were so uncouth and impolite that they would not take the trouble to inform him of their arrival through some attendant, but would start shouting from outside the apartments of his wives to call him out. Several such incidents have been reported by the Companions in the Hadith. This sort of behavior troubled him much, but he was tolerant on account of his natural clemency. At last, AIIah had to intervene, Who reproved the people for their uncivilized behaviour and gave this instruction: whenever they came to see the Holy Prophet and did not find him, they should wait for him patiently until he came out to them himself, instead of shouting to call him out, from the house. 7 This is, "Whatever had happened until then will be over-looked and forgiven by Allah and He will not hold those people accountable for the trouble they had been causing to His Messenger on account of His mercy and kindness, but they should not repeat such behaviour in the future.

سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :6 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جن لوگوں نے آپ کی صحبت میں رہ کر اسلامی آداب و تہذیب کی تربیت پائی تھی وہ تو آپ کے اوقات کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے ۔ ان کو پورا احساس تھا کہ آپ اللہ کے کام میں کس قدر مصروف زندگی بسر فرماتے ہیں ، اور ان تھکا دینے والی مصروفیتوں کے دوران میں لازماً کچھ وقت آپ کے آرام کے لیے اور کچھ وقت آپ کی اہم مشغولیتوں کے لیے اور کچھ وقت اپنی خانگی زندگی کے معاملات کی طرف توجہ کرنے کے لیے بھی ہونا چاہیے ۔ اس لیے وہ آپ سے ملاقات کے لیے اسی وقت حاضر ہوتے تھے جب آپ باہر تشریف فرما ہوں ، اور اگر کبھی وہ آپ کو مجلس میں موجود نہ پاتے تو بیٹھ کر آپ کے برآمد ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کسی شدید ضرورت کے بغیر آپ کو باہر تشریف لانے کی زحمت نہ دیتے تھے ۔ لیکن عرب کے اس ماحول میں ، جہاں عام طور پر لوگوں کو کسی شائستگی کی تربیت نہ ملی تھی ، بارہا ایسے اَن گھڑ لوگ بھی آپ سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے جن کا تصور یہ تھا کہ دعوت الیٰ اللہ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے کو کسی وقت بھی آرام لینے کا حق نہیں ہے ، اور انہیں حق ہے کہ رات دن میں جب چاہیں اس کے پاس آدھمکیں اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی وہ آجائیں وہ ان سے ملنے کے لیے مستعد رہے ۔ اس قماش کے لوگوں میں عموماً اور اطراف عرب سے آنے والوں میں خصوصاً بعض ایسے ناشائستہ لوگ بھی ہوتے تھے جو آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو کسی خادم سے اندر اطلاع کرانے کی زحمت بھی نہ اٹھاتے تھے بلکہ ازواج مطہرات کے حجروں کا چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے پھرتے تھے ۔ اس طرح کے متعدد واقعات احادیث میں صحابہ کرام نے روایت کیے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی ان حرکات سے تکلیف ہوتی تھی مگر اپنے طبعی حلم کی وجہ سے آپ اسے برداشت کیے جا رہے تھے ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مداخلت فرمائی اور اس ناشائستہ طرز عمل پر ملامت کرتے ہوئے لوگوں کو یہ ہدایت دی کہ جب وہ آپ سے ملنے کے لیے آئیں اور آپ کو موجود نہ پائیں تو پکار پکار کر آپ کو بلانے کے بجائے صبر کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت کا انتظار کریں جب آپ خود ان سے ملاقات کے لیے باہر تشریف لائیں ۔ سورة الْحُجُرٰت حاشیہ نمبر :7 یعنی اب تک جو کچھ ہوا سو ہوا ، آئندہ اس غلطی کا اعادہ نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ پچھلی غلطیوں سے در گزر فرمائے گا اور اپنے رحم و کرم کی بنا پر ان لوگوں سے کوئی مواخذہ نہ کرے گا جو اس کے رسول کو اس طرح اذیت دیتے رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(49:5) ولو انھم صبروا حتی تخرج الیہم لکان خیرا لہم : جواب شرط۔ واو عاطفہ ہے لو حرف شرط۔ حتی حرف جر ہے الیٰ کی طرح انتہاء غایت کے لئے آتا ہے ۔ بمعنی تک۔ ، جب تک۔ یہاں تک۔ یہ جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو ان مقدرہ کی وجہ سے مضارع منصوب ہوجاتا ہے جیسا کہ آیت ہذا میں ہے۔ (مضارع تخرج منصوب ہے) اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ لن نبرح علیہ عکفین حتی یرجع الینا موسیٰ (20:91) جب تک حضرت موسیٰ ہمارے پاس واپس نہیں آئیں گے ہم تو اس (کی پوجا) پر قائم رہیں گے۔ لکان میں لام جواب شرط کے لئے ہے۔ کان فعل ناقص الصبر اسم کان محذوف خیرا۔ خبر کان کی۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب وفد کے ارکان کی طرف راجع ہے جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باہر سے پکارا تھا۔ واللّٰہ غفور رحیم۔ اور اللہ بڑا غفور اور رحیم ہے اسی لئے اس نے (تم کو سزا نہیں دی بلکہ) صرف نصیحت کردی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم نہ کرنے والوں اور بےادبی کرنے والوں کو تنبیہ کردی کیونکہ یہ بےادب لوگ بےعقل اور جاہل ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور اگر یہ لوگ ذرا صبر کرتے اور صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ خود حجرے سے نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کے لئے بہترہوتا اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا بہت مہربان ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نبی تیمم آئے ملنے کو حضرت گھر میں تھے باہر سے لگے پکارنے چاہیے تھا کہ آدمی کی زبانی خبر کرتے۔ یہ بھی ایک ادب کی بات سکھائی کہ اگر کبھی پیغمبر کی خدمت میں آئو اور پیغمبر کسی ضرورت سے مکان میں تشریف رکھتے ہوں تو آپ کو یا محمد اخرج الیناکہہ کر پکارنا مناسب اور آپ کی شان کے خلاف ہے۔ اطلاع کے اور ذرائع بھی ہوسکتے ہیں یا یہ کہ صبر اور انتظار کرو یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی باہر تشریف لائیں تو اس وقت ملاقات کرلو۔ کیونکہ جو لوگ عوام سے رابطہ رکھتے ہیں وہ گھر میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے اکثر اس لئے کہا کہ شاید کچھ لوگوں نے اس کی ابتداء کی ہو اور کچھ نے دیکھا دیکھی یہ حرکت کی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیلو لے کا وقت ہوکیون کہ آپ گھر میں آرام فرماتے تھے اس لئے ان لوگوں کا ہر حجرے پر آواز دیتے پھرنا اور انتظار نہ کرنا خلاف تہذیب اور خلاف ادب قرار دیا گیا۔ آپ خود نکل کر ان کے پاس تشریف لے آتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتظار کرتے تو یہ بہتر ہوتا کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے آنے کی خبر نہ ہوتی لیکن بہرحال جب آپ باہر نکلتے خواہ ان کی ملاقات کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کام کو مکان سے باہر تشریف لاتے اور ان کو بیٹھے ہوئے دیکھتے تو ضرور ان سے دریافت کرتے اور ان سے ملاقات کرتے۔ اور یہ ان کے لئے بہتر ہوتا کیونکہ اس میں پیغمبر کی گستاخی اور بےادبی سے محفوظ رہتے۔ بہرحال اگر یہ لوگ توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑی مہربانی کرنے والا ہے ان کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کا ادب تعلیم کیا ہے اور بتایا ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جناب میں حاضر ہونے اور بات چیت کا طریقہ کیا ہونا چاہیے اور معصیت میں کیا نقصان پہنچتا ہے۔ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اہل سنت کے نزدیک معصیت حبط عمل کا موجب نہیں ہوتی۔ یہ مذہب تو معتزلہ وغیرہ کا ہے جیسا کہ ہم نہایت وضاحت کے ساتھ پہلے پارے میں آیت بلی من کسب سیئۃ کے تحت عرض کرچکے ہیں اور تسہیل میں تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ یہاں بھی ہم نے تیسیر میں اس طرف اشارہ کردیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی معصیت براہ راست حبط عمل کا سبب نہ بنتی ہو لیکن معصیت سے آئندہ نیکی کی توفیق سلب ہوسکتی ہے اور معاصی موجب الی الخذلان ہوسکتے ہیں اور خذلان منجرال الکفر ہوسکتا ہے اور کفر اختیاری سے تو بالاتفاق عمل کا حبط ہونا لازمی ہے تو رفع صوت بالجہر آہستہ آہستہ تم کو کفر تک پہنچا دے اور تمہارے تمام اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو کہ یہ سزا کون سے جرم کی پاداش میں دی گئی ذرا تامل کرنے سے تیسیر کی یہ بات سمجھ میں آجائے گی، لیکن اشارے کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا اس لئے میں نے صراحتہً عرض کردیا۔