Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 111

سورة المائدة

وَ اِذۡ اَوۡحَیۡتُ اِلَی الۡحَوَارِیّٖنَ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِیۡ وَ بِرَسُوۡلِیۡ ۚ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ اشۡہَدۡ بِاَنَّنَا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۱۱﴾

And [remember] when I inspired to the disciples, "Believe in Me and in My messenger Jesus." They said, "We have believed, so bear witness that indeed we are Muslims [in submission to Allah ]."

اور جبکہ میں نے حواریین کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے اور آپ شاہد رہئے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ امِنُواْ بِي وَبِرَسُولِي ... And when I (Allah) Awhaytu Al-Hawariyyin to believe in Me and My Messenger. This is also a reminder of Allah's favor on `Isa, by making disciples and companions for him. It is also said that Awhaytu in the Ayah means, `inspired', just as in another Ayah, Allah said; وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ And We inspired the mother of Musa (saying): Suckle him... (28:7) Allah said in other Ayat, وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلِى مِن كُلِّ الثَّمَرَتِ فَاسْلُكِى سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلً And your Lord Awha (inspired) the bee, saying: "Take habitations in the mountains and in the trees and in what they erect. Then, eat of all fruits, and follow the ways of your Lord made easy (for you)." (16:68-69) Al-Hasan Al-Basri commented about the Hawariyyun, "Allah inspired them", As-Suddi said, "`He put in their hearts," and the Hawariyyun said, ... قَالُوَاْ امَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ they said: `We believe. And bear witness that we are Muslims.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 حَوَارِیِّیْنَ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار ہیں جو ان پر ایمان لائے ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد 21 بیان کی جاتی ہے۔ وحی سے مراد وہ وحی نہیں ہے جو بذریعہ فرشتہ انبیاء (علیہ السلام) پر نازل ہوتی تھیں بلکہ یہ وحی الہام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کے دلوں میں کردی جاتی تھی، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اسی قسم کا الہام ہوا جسے قرآن نے وحی سے ہی تعبیر کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٠] عیسائیوں کے مختلف نام۔۔ حواری کون تھے ؟ یہ حواری ہی دراصل سیدنا عیسیٰ کی امت تھے جنہوں نے اپنے آپ کو مسلمان کہا۔ عیسائی یا ناصری یا مسیحی نہیں کہا۔ یہ الفاظ بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ اور ان کیلئے یہ نام ان کے دشمنوں یعنی یہود نے ان کیلئے تجویز کیے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) ناصرہ بستی میں پیدا ہوئے اور یہ بستی فلسطین کے ضلع گلیل میں واقع تھی۔ اس لحاظ سے یہود انہیں ناصری یا گلیلی بدعتی فرقہ کہتے تھے اور مسیحی بھی دشمنوں کا رکھا ہوا نام تھا جسے بعد میں عیسائیوں نے نہ صرف گوارا کرلیا بلکہ بعد میں اس نسبت پر فخر کرنے لگے اور آج تک مسیحی کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلمان یا انصار یا نصاریٰ کے ناموں سے ذکر کیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ ۔۔ : یہ بھی اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ (علیہ السلام) پر احسان تھا کہ حواریوں کو ان کا مخلص ساتھی اور مددگار بنادیا۔ حواری کے قریب قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار کے ہیں۔ یہاں ” اوحینا “ کا معنی انبیاء والی وحی نہیں بلکہ الہام ہے، جو غیر انبیاء کو بھی ہوتا ہے اور اس پر بھی وحی کا لفظ بول دیا جاتا ہے، جیسے فرمایا : (وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى) [ القصص : ٧ ] ” اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی۔ “ حالانکہ قرآن مجید میں صاف آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا (کوئی عورت نبی نہیں ہوئی) ۔ دیکھیے سورة انبیاء (٧) اسی طرح فرمایا : (وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ ) [ النحل : ٦٨ ] ” اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی فرمائی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور جب کہ میں نے حواریین کو (انجیل میں تمہاری زبانی) حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول (عیسیٰ علیہ السلام) پر ایمان لاؤ انہوں نے (جواب میں تم سے) کہا کہ ہم (خدا اور رسول یعنی آپ پر) ایمان لائے اور آپ شاہد رہئے کہ ہم (خدا کے اور آپ کے) پورے فرمانبردار ہیں، وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے جب کہ حواریین نے (حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے) عرض کیا کہ اے عیسیٰ ابن مریم (علیہم السلام) کیا آپ کے رب ایسا کرسکتے ہیں (یعنی کوئی امر مثل خلاف حکمت ہونے وغیرہ کے اس سے مانع تو نہیں) کہ ہم پر آسمان سے کچھ کھانا (پکا پکایا) نازل فرمادیں آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو (مطلب یہ کہ تم تو ایمان دار ہو اس لئے خدا سے ڈرو اور معجزات کی فرمائش سے کہ بےضرورت ہونے کی وجہ سے خلاف ادب ہے بچو) وہ بولے کہ (ہمارا مقصود بےضرورت فرمائش کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک مصلحت سے اس کی درخواست کرتے ہیں وہ یہ کہ) ہم (ایک تو) یہ چاہتے ہیں کہ (برکت حاصل کرنے کو) اس میں سے کھائیں اور (دوسرے یہ چاہتے ہیں کہ) ہمارے دلوں کو (ایمان پر) پورا اطمینان ہوجاوے اور (مطلب اطمینان کا یہ ہے کہ) ہمارا یقین اور بڑھ جاوے کہ آپ نے (دعویٰ رسالت میں) ہم سے سچ بولا ہے (کیونکہ جس قدر دلائل بڑھتے جاتے ہیں دعوے کا یقین بڑھتا جاتا ہے) اور (تیسرے یہ چاہتے ہیں کہ) ہم (ان لوگوں کے سامنے جنہوں نے یہ معجزہ نہیں دیکھا) گواہی دینے والوں میں سے ہوجاویں (کہ ہم نے ایسا معجزہ دیکھا ہے تاکہ ان کے سامنے اثبات رسالت کرسکیں، اور ان کی ہدایت کا یہ ذریعہ بن جاوے) عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے (جب دیکھا کہ اس درخواست میں ان کی غرض صحیح ہے تو حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے) دعا کی کہ اے اللہ ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرمائیے کہ وہ (مائدہ) ہمارے لئے یعنی ہم میں جو اوّل (یعنی موجودہ زمانہ میں) ہیں اور جو بعد (کے زمانہ میں آنے والے) ہیں، سب کے لئے ایک خوشی کی بات ہوجاوے (حاضرین کی خوشی تو کھانے سے اور درخواست قبول ہونے سے اور بعد والوں کی خوشی اپنے سلف پر انعام ہونے سے، اور یہ غایت تو خاص ہے مؤمنین کے ساتھ) اور (میری پیغمبری پر) آپ کی طرف سے ایک نشان ہوجائے، (کہ مؤمنین کا یقین بڑھ جاوے اور منکرین حاضرین یا غائبین پر حجت ہوجاوے اور یہ مقصد مؤمنین وغیرہ سب کے لئے عام ہے) اور آپ ہم کو (وہ مائدہ) عطا فرمائیے، اور آپ سب عطا کرنے والوں سے اچھے ہیں (کیونکہ سب کا دینا اپنے نفع کے لئے اور آپ کا دینا مخلوق کے نفع کے لئے ہے، اس لئے ہم اپنے منافع کو پیش کرکے آپ سے مائدہ کی درخواست کرتے ہیں) حق تعالیٰ نے (جواب میں) ارشاد فرمایا کہ (آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) میں وہ کھانا (آسمان سے) تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد (اس کی) ناحق شناسی کرے گا (یعنی اس کے حقوق واجبہ عقلاً و نقلاً ادا نہ کرے گا) تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا (اس وقت کے) جہان والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيِّيْنَ اَنْ ٰاٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ۝ ٠ۚ قَالُـوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ۝ ١١١ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے حوَّارَى والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل : کانوا قصّارین «1» ، وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] . عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) اور جس وقت میں نے حواریین کو جن کو تعداد بارہ تھی، ایمان لانے کا حکم دیا کہ ہم پر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آؤ اور آپ اے عیسیٰ (علیہ السلام) اس پر گواہ رہیے اور ان میں سے بھی ایک نے ایک پر شہادت دی کہ ہم کامل مومن اور فرما نبردار ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ ) (اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ ج ) ان کے دل میں ڈال دیا ‘ الہام کردیا ‘ ان کی طرف وحی کردی۔ یہ وحئ خفی ہے۔ ظاہر ہے حواریوں کی طرف وحی جلی تو نہیں آسکتی تھی جو خاصۂ نبوت ہے۔ لیکن جیسا کہ شہد کی مکھی کے لیے وحی کا لفظ آیا ہے (النحل : ٦٨) یا جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو وحی کی (فصلت : ١٢) یہ وحئ خفی کی مثالیں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

127. Jesus is being told that the faith of the disciples in him was also the result of God's grace and succour, for he, himself, did not have the power to produce even one man of faith in that land of disbelief. It is also made clear that the true religion of the disciples of Jesus was Islam.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :127 یعنی حواریوں کا تجھ پر ایمان لانا بھی ہمارے فضل اور توفیق کا نتیجہ تھا ، ورنہ تجھ میں تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اس جھٹلانے والی آبادی میں ایک ہی تصدیق کرنے والا اپنے بل بوتے پر پیدا کر لیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضمناً یہاں یہ بھی بتا دیا کہ حواریوں کا اصل دین اسلام تھا نہ کہ عیسا ئیت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:111) الحواریین۔ حواری جمع کا صیغہ اس کا مفرد حواری ہے جو حور سے مشتق ہے۔ جس کے معنی سپیدی کے ہیں۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب کا خطاب ہے ان کو سپیدی سے نسبت اس لئے دی گئی کہ ان کے کپڑے سفید تھے یا بقول بعض وہ دھوبی تھے اور کپڑے دھو کر صاف کیا کرتے تھے اور حواری نبطی زبان میں دھوبی کو کہتے ہیں۔ اوحیت۔ یہاں وحی سے مراد الہام ہے یعنی میں نے بذریعہ الہام ان کے دلوں میں ڈالا۔ اذاوحیت ۔۔ الایۃ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب ہم نے حواریوں کے دل میں بذریعہ الہام یہ بات ڈال دی کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر دل سے ایمان لے آویں تو (انہوں نے تمہاری دعوت الی الحق سنکر اسے قبول کرلیا۔ اور تمہیں) کہنے لگے۔ ہم ایمان لے آئے ہیں اور (اے پیغمبر) تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 حواریوں کے قریب وہی معنی ہیں جو ہمارے ہاں انصار کے ہیں اور ان سے مراد حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے والے ہی ان کی تعداد بارہ تھی بائیبل میں عموما ان کے لیے لکھا ہے کہ یہ بھی بنی تھے اس صورت میں وحی کا لفظ معروف معنی میں استعمال ہوا ہے اور اگر یہ مان لیں کہ اوہ نبی نہیں تھے تو وحی کا لفظ صرف الہام کے معنی میں ہے جو غیر انبیا کو بھی ہوتا رہتا ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 111 تا 115 لغات القرآن : اوحیت (میں نے وحی کی) ۔ الحواریین (الحواری) ۔ مددگار۔ دوست۔ صحابی) ۔ امنوابی (مجھ پر ایمان لاؤ) ۔ اشھد (تو گواہ رہنا) ۔ مسلمون (مسلم) ۔ فرماں بردار) ۔ ھل یستطیع (کیا طاقت ہے ؟ ) ۔ مآئدۃ (دستر خوان (جس میں ہر طرح کے کھانے ہوں) ۔ ناکل (ہم کھائیں گے) ۔ تطمئن (اطمینان ہوجائے گا) ۔ صدقت (تو نے سچ کہا) نکون (ہم ہوجائیں گے) ۔ الشھدین (گواہی دینے والے) ۔ اللھم (اے میرے اللہ) ۔ انزل (اتاردے۔ نازل کر دے) ۔ عید (خوشی کا دن) ۔ ارزقنا (روزی دے دے) ۔ خیر الرازقین (بہترین رزق دینے والا) ۔ انی منزل (میں اتارنے والا ہوں) ۔ من یکفر (جو ناشکری کرے گا) ۔ اعذب (میں عذاب دوں گا۔ سزا دوں گا) ۔ احد (کوئی ایک) ۔ تشریح : صرف وعظ و نصیحت اور تبلیغ سے ایمان پیدا نہیں ہوتا جب تک اس کے لئے مسلسل عملی جدوجہد نہ کی جائے جس طرح دوا اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ شفا ضرور ہوگی۔ مگر تدبیر اور اعلیٰ سے اعلیٰ تدبیر فرض ہے۔ کسی کے دل میں ایمان اتارنے کیلئے کیا کیا تدبیریں اختیار کی جائیں، کس کے دل میں ایمان اترے گا اور کون پھر بھی بد نصیب رہے گا وغیرہ وغیرہ۔ ان سارے سوالات کا جواب یہ ہے۔ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔ تبلیغ ، محنت، جدوجہد کسی کی بھی ہو، بےکار نہ جائے گی۔ جب تک اللہ ہی کسی کے دل میں القانہ کر دے۔ جب اللہ ہی نے توفیق دی تب ہی حواریین ایمان لائے۔ ایمان صرف خفیہ احساس یا جذبے کا نام نہیں ہے جس طرح نکاح کا اعلان عام ہے اسی طرح ایمان کا بھی اعلان عام ہے۔ اور وہ اعلان ہے کلمہ شہادت یعنی ڈنکے کی چوٹ، پکار اور للکار کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانتے اور ہم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور کی نبوت اور شریعت کو نہیں مانتے۔ جس طرح حواریین نے کہا۔ اے اللہ گواہ رہ کہ ہم حلقہ اسلام میں داخل ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ ایمان کیا ہے ؟ زبان سے اقرار اور قلب کی تصدیق۔ جب ایک بار تصدیق ہوگئی تو بات ختم ہوئی۔ اب تصدیق دو تصدیق بےمعنی ہے۔ تصدیق کا سلسلہ ایمان کے منافی ہے۔ اللہ اور رسول سے خصوصی فرمائشیں اور خصوصی دلائل مانگنا نہ صرف انتہائی بدتمیزی ہے بلکہ کفر کے قریب ہے۔ اللہ کا جلال حرکت میں آسکتا ہے۔ یہاں پر بتایا جا رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم نے وہ جرات کی تھی کہ کفر قریب تھا اور میرا غیض و غضب حرکت میں آسکتا تھا ۔ لیکن میں نے اپنے غصہ کو روکا، تم پر خاص رحمت کی، تمہاری درخواست قبول کی مگر اس تہدید کے ساتھ کہ اس آخری تصدیق کے بعد بھی اگر تم میں سے کوئی کافر رہا تو میں ایک مثالی سزا دے کر رہوں گا۔ یہاں پر یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ! میرے احسانات عظیم کی فہرست میں یہ بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہاری دعا قبول کی اگرچہ مومن تو مومن پیغمبر تک کو ایسا سوال نہیں کرنا چاہئے۔ آپ کو اپنی امت سے صاف کہہ دینا چاہئے تھا کہ معجزہ وہی ہے جو نبی اللہ کے حکم سے دکھائے نہ کہ کسی کی فرمائش پر دکھائے۔ اور کسی مومن کو اللہ اور رسول سے خرق فطرت کی فرمائش نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ کی طرف سے رزق عطا کرنے کے دروازے بیشمار کھلے ہوئے ہیں۔ کیا وہ کافی بلکہ وافی نہیں ہیں کہ الگ سے اس قسم کا مطالبہ ہو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا میں لفظ & عید & آیا ہے یعنی ملی جشن کا دن۔ چونکہ یہ لفظ خوان اور رزق کے سلسلے میں اور اللہ تعالیٰ کی رزاقی کا واسطہ دے کر آیا ہے۔ اسلئے عید کے دن خوشی منانا، کھانا پینا اور کھلانا پلانا عبادت تھا۔ ممکن ہے عید کے سالانہ دن کی ابتدا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں پڑگئی ہو جسے ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاص تاریخ دے دی، اسے امیروں غریبوں کی عید الفطر اور عید الاضحیٰ بنایا اور کھلانا پلانا خصوصی انداز قرار پایا۔ حاجیوں کے لئے بھی اور غیر حاجیوں کیلئے بھی۔ چونکہ حضرت عیسیٰ کی دعا میں یہ بھی ہے ” یہ خوان آپ کی طرف سے ایک نشانی ہوجائے۔ اسلئے امت مسلمہ کیلئے عیدین شعائر اللہ ہیں اور خواہ میٹھی سوئیاں خواہ قربانی کا گوشت ، کیا یہ اللہ کی طرف سے تمام امت مسلمہ کیلئے خصوصی خواب نعمت نہیں ہیں۔ اور کہا اس جشن عیدین میں تمام چھوٹے بڑے، مردوزن، پچھلی اور اگلی نسلیں شامل ہیں کیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا تمام مومنوں کیلئے اس عجیب طریقے سے منظور نہیں ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرے احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی یاد کرایا جائے گا۔ اس فرمان کا پس منظر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب یہودیوں کی سازشوں اور پروپیگنڈہ کی بنا پر کوئی شخص بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر خاص کرم فرماتے ہوئے کچھ لوگوں کے دل ہدایت کے لیے کھول دیے۔ جس کو بیان کرتے ہوئے ” اَوْحَیْتُ “ کے الفاظ استعمال فرمائے کہ اے عیسیٰ ! اللہ ہی نے تمہارے حواریوں کے دل میں القا کیا کہ آگے بڑھ کر عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ اور اس کے دست وبازو بن جاؤ۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حواریوں کا سوال کرنا کہ مائدہ نازل ہو یہ پانچ آیات ہیں ان میں سے ایک آیت میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ پاک نے بذریعہ وحی عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو یہ حکم دیا کہ اللہ پاک پر ایمان لائیں اور اس کے رسول پر۔ ان لوگوں نے کہ ہم ایمان لائے اور آپ ہمارے فرمانبردار ہونے کے گواہ ہوجائیں۔ لفظ اَوْحَیْتَ سے کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ وحی تو حضرات انبیاء کرام ( علیہ السلام) پر آتی تھی پھر حواریوں پر کیسے وحی آئی جو نبی نہ تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی کا اصل معنی ہے دل میں ڈال دینا جیسا کہ شہد کی مکھی کے لئے بھی لفظ اَوْحٰی وارد ہوا ہے۔ اَوْحَیْتَ کا معنی اگر یہ لیا جائے تو بنی اسرائیل کے دلوں میں اللہ نے یہ بات ڈالی کہ ایمان قبول کریں ایمان پر جمے رہیں تو درست ہے اس بات میں کوئی استبعاد نہیں۔ اور اَوْحَیْتَ کے اگر یہ معنی لئے جائیں کہ اللہ نے اپنے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ پیغام بھیجا تو یہ بھی صحیح ہے۔ اس کے بعد چار آیات میں سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے حواریوں کا ” مائدہ “ یعنی خوان اترنے کا سوال کرنا پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ان کو جواب دینا اور پھر اللہ جل شانہ سے مائدہ کا سوال کرنا مذکور ہے۔ حضرت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) جو معجزے دکھاتے تھے (جن کا ذکر عنقریب ہی گذرا ہے) وہ معجزے ایک سمجھدار آدمی کے لئے کافی تھے لیکن حواریوں نے مزید سوال کئے اور سوال بھی عجیب کیا اور وہ یہ کہ آسمان سے خوان نازل ہوجائے جس میں پکا پکایا کھاناہو، طرز سوال بھی مناسب نہ تھا۔ انہوں نے یوں نہیں کہا کہ آپ اللہ سے عرض کریں کہ مائدہ نازل فرما دے بلکہ یوں کہا کہ کیا تمہارا رب یوں کرسکتا ہے کہ آسمان سے خوان نازل فرما دے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا سوال اور طرز سوال نا گوار ہوا اور فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ ) کہنے سے ان کا مقصد اللہ کی قدرت میں شک کرنا نہیں تھا بلکہ مطلب یہ تھا کہ آپ اگر سوال کریں تو آپ کا یہ سوال پورا فرما دے گا یا نہیں لیکن ان کے الفاظ نامناسب تھے اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مؤاخذہ میں شدت نہیں فرمائی۔ بلکہ (اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) فرما کر ناگواری کی طرف اشارہ فرما دیا اور اس میں یہ بھی بتادیا کہ اپنی طرف سے معجزات کی فرمائشیں کرنا مومنین کا کام نہیں۔ بعض سابقہ امتوں نے ایسی فرمائشیں کیں پھر ان کی فرمائشوں کے مطابق معجزہ ظاہر ہوا تب بھی ایمان نہ لائے۔ قوم ثمود نے سوال کیا کہ پہاڑ سے اونٹنی نکل آئے اونٹنی پہاڑ سے نمودار ہوگئی تب بھی اسلام قبول نہ کیا۔ بالآخر عذاب میں گرفتار ہوئے اور برباد ہوئے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو تو وہ کہنے لگے کہ ہمارا تو یہ مقصد ہے کہ اس خوان سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان ہوجائے اور عین الیقین کے طریقہ پر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے فرمایا وہ سب سچ ہے اور یہ اطمینان قلبی حاصل ہونے کا ارادہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے (رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی) کی دعا کر کے (لِیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ) کہا تھا۔ حواریین نے یہ بھی کہا کہ اس مائدہ کے نازل ہونے کا یہ بھی فائدہ ہوگا کہ جن لوگوں نے اس کو نہیں دیکھا ہوگا ہم ان کے لئے گواہی دینے والوں میں سے بن جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول مائدہ کے لئے سوال کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملنا الحاصل حضرت سید نا عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ پاک کے حضور میں آسمان سے مائدہ اتارے جانے کی درخواست پیش کردی اور عرض کیا کہ اے اللہ ! آسمان سے مائدہ نازل فرما دیجئے جو ہمارے اس زمانہ کے لوگوں کے لئے عید ہو اور ہمارے بعد والے لوگوں کے لئے بھی۔ اللہ جل شانہ ارشاد فرمایا کہ میں تم پر دستر خوان اتارنے والا ہوں اس کے اتر جانے کے بعد تم میں سے جو شخص نا شکری کرے گا اس کو وہ عذاب دوں گا جو جہانوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا۔ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ مائدہ نازل نہیں ہوا۔ لیکن قرآن مجید کا سیاق یہی بتاتا ہے کہ مائدہ نازل ہوا اور بعض احادیث میں بھی مائدہ نازل ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ تفسیر در منثور ج ٢ ص ٣٤٨ میں بحوالہ ترمذی وغیرہ حضرت عمار بن یاسر (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آسمان سے مائدہ نازل کیا گیا تھا اس میں روٹی اور گوشت تھا ان کو حکم تھا کہ خیانت نہ کریں اور کل کے لئے نہ رکھیں لیکن ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور ذخیرہ بھی بنا کر رکھا۔ لہٰذا وہ بندروں اور سؤروں کی صورتوں میں مسخ کردیئے گئے۔ (حدیث مرفوع لکن قال الترمذی الوقف اصح) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی نا شکری بہت بری چیز ہے اس کا بڑا وبال ہے نا شکری کرنے سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں جن کا ذکر جگہ جگہ قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ سورۂ ابراہیم میں فرمایا (لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزْیْدَنَّکُمْ وَ لَءِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ) (اور جب تیرے رب نے اعلان فرما دیا کہ یہ بات ضروری ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو اور زیادہ دوں گا۔ اور اگر نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب سخت ہے) قوم سبا کی بربادی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِمَا کَفَرُوْا وَ ھَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ ) کہ ہم نے ان کو بدلہ دیا اس وجہ سے کہ انہوں نے نا شکری کی اور ہم نا شکری کرنے والوں ہی کو بدلہ دیا کرتے ہیں) ۔ سورۂ نحل میں ایک بستی کا ذکر فرمایا جسے خوب زیادہ نعمتیں مل رہی تھیں (فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ) گوشت کے خراب ہونے کی ابتداء بنی اسرائیل سے ہوئی جن لوگوں نے نزول مائدہ کی فرمائش کی تھی ان لوگوں نے بھی نافرمانی کی یعنی باوجود ممانعت کے کل کے لئے اٹھا کر رکھ دیا۔ اور نافرمانی بہت بڑی نا شکری ہے۔ ان لوگوں سے پہلے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی ایسی حرکت کرچکے تھے ان سے فرمایا تھا کہ من وسلویٰ جو نازل ہوتا ہے اس کو بعد کے لئے اٹھا نہ رکھنا لیکن انہوں نے اس پر عمل نہ کیا لہٰذا وہ گوشت سڑ گیا اور ہلاک ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے گوشت کے سڑنے کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لولابنو اسرائیل لم یخبث الطعام ولم یخنز اللحم ولولاحواء لم تخن انثی زوجھا الدھر (راوہ مسلم ج ١ ص ٤٧٥) یعنی اگر بنی اسرئیل نہ ہوتے تو کھانا خراب نہ ہوتا اور گوشت نہ سڑتا۔ اور اگر حواء نہ ہوتی تو کوئی عورت کبھی بھی اپنے شوہر کی خیانت نہ کرتی۔ بنی اسرائیل سے گوشت سڑنے کی ابتداء ہوئی اور حضرت حواء سے شوہر کی خیانت کی ابتداء ہوئی۔ شراح حدیث نے لکھا ہے کہ ان کی خیانت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے شوہر حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس درخت کے کھانے پر آمادہ کیا جس کے کھانے سے منع فرمایا گیا تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

111 اور جب میں نے تیرے مخلص معتقدوں کو حکم دیا کہ مجھ پر اور میرے فرستادوں پر ایمان لائو یعنی انجیل میں یہ حکم دیا اور یا تیری زبانی ان کو کہلاتا اور یا ان کے دل میں توفیق ڈالی تو ا ن حواریوں یعنی مخلص شاگردوں نے کہا ہم ایمان لائے اور اے خدا تو ہمارا گواہ رہ کر ہم پورے فرمانبردار ہیں۔