Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 112

سورة المائدة

اِذۡ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾

[And remember] when the disciples said, "O Jesus, Son of Mary, can your Lord send down to us a table [spread with food] from the heaven? [Jesus] said," Fear Allah , if you should be believers."

وہ وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Sending Down the Ma'idah This is the story of the Ma'idah, the name of which this Surah bears, Surah Al-Ma'idah. This is also among the favors that Allah granted His servant and Messenger, `Isa, accepting his request to send the Ma'idah down, and doing so as clear proof and unequivocal evidence. Allah said, إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ ... (Remember) when Al-Hawaryun said... the disciples of `Isa said, ... يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَأيِدَةً مِّنَ السَّمَاء ... O `Isa, son of Maryam! Can your Lord send down to us a Ma'idah from heaven! The Ma'idah is the table that has food on it. Some scholars said that; the disciples requested this table because they were poor and deprived. So they asked `Isa to supplicate to Allah to send a table of food down to them that they could eat from every day and thus be more able to perform the acts of worship. ... قَالَ اتَّقُواْ اللّهَ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ `Isa said: "Have Taqwa of Allah, if you are indeed believers." `Isa answered them by saying, `Have Taqwa of Allah! And do not ask for this, for it may become a trial for you, but trust in Allah for your provisions, if you are truly believers.'

نبی اسرائیل کی ناشکری اور عذاب الٰہی یہ مائدہ کا واقعہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس سورت کا نام سورہ مائدہ ہے یہ بھی جناب مسیح علیہ السلام کی نبوت کی ایک زبر دست دلیل اور آپ کا ایک اعلی معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے آسمانی دستر خوان اتارا اور آپ کی سچائی ظاہر کی ۔ بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ اس کا ذکر موجودہ انجیل میں نہیں عیسائیوں نے اسے مسلمانوں سے لیا ہے ، واللہ اعلم ، حضرت عیسیٰ کے ماننے والے آپ سے تمنا کرتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا طلب کیجئے ایک قرأت میں آیت ( هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ ) 5 ۔ المائدہ:112 ) یعنی کیا آپ سے یہ ہو سکتا ہے؟ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ؟ مائدہ کہتے ہیں اس دستر خوان کو جس پر کھانا رکھا ہوا ہو ، بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے بوجہ فقر و فاقہ ، تنگی اور حاجت کے یہ سوال کیا تھا ، جناب مسیح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور رزق کی تلاش کرو ، ایسے انوکھے سوالات نہ کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ ہو جائے اور تمہارے ایمان ڈگمگا جائیں ۔ انہں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ہم تو کھانے پینے سے تنگ ہو رہے ہیں محتاج ہو گئے ہیں اس سے ہمارے دل مطمئن ہو جائیں گے کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی روزیاں آسمان سے اترتی خود دیکھ لیں گے ، اسی طرح آپ پر جو ایمان ہے وہ بھی بڑھ جائے گا ، آپ کی رسالت کو یوں تو ہم مانتے ہی ہیں لیکن یہ دیکھ کر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اس پر خود ہم گواہ بن جائیں گے ، اللہ کی قدرت اور آپ کے معجزہ کی یہ ایک روشن دلیل ہو گی جس کی شہادت ہم خود دیں گے اور یہ آپ کی نبوت کی کافی دلیل ہو گی ، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گزار نے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لئے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لئے کافی وافی ہونا ہے ، حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں یا اللہ یہ تیری قدرت کی ایک نشانی ہو گی اور میری سچائی کی بھی کہ تو نے میری دعا قبول فرما لی ، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں انہیں پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے ، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما تو تو بہترین رازق ہے ، اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو ، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمیں سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو ، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تمیں سخت تر عذاب میں داخل ہو جاؤ ، اور جیسے منافقوں کے لئے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہو گا ، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعد انکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو ، اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اللہ کے لئے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا انہوں نے تیس روزے پورے کر کے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے حضرت عیسیٰ نے پہلے تو انہیں سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا ، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں ، جہاں یہ تھے وہیں وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اٹھے ، ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لئے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی ، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا ، جس کی سزا میں وہ بندر بن گئے حضرت عمار فرماتے ہیں اس میں جنت کے میوے تھے ، آپ فرماتے ہیں اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کر دیں ، پھر سخت عذاب کئے گئے ، اے عرب بھائیو! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑ تے تھے ، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے ، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں بتا دیا کہ عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہو جانا لیکن واللہ دن رات وہی ہیں اور تم وہ نہ رہے ، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے ، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پرے ، اسحق بن عبداللہ فرماتے ہیں جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہے تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہو جائے اور کل کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ رہے ، مجاہدہ سے مروی ہے کہ جب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ فرماتے ہیں گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا ، وہب بن منبہ فرماتے ہیں ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اتر تے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے ، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پر روٹیاں جو کی تھیں ، سعید بن جیبر فرماتے ہیں اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں اس پر چاول کی روٹی تھی ، حضرت وہب فرماتے ہیں کہ ان کے اس سوال پر حضرت عیسیٰ بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہو گا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے ۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی سے نشان طلب کیا تھا لیکن حواریوں نے حضرت عیسیٰ کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں آپ ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ اٹھے ، صوف کا جبہ اتار دیا ، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی ، وضو کر کے غسل کر کے ، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہو گئے ، دونوں پیر ملائے ، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی ، انگلیاں بھی ملا لیں ، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، نگاہیں زمین میں گاڑ لیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کر دی ، آنسو رخساروں سے بہ کر داڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہو گئی ، اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا ، جسے اتر تے ہوئے سب نے دیکھا ، سب تو خوشیاں ما رہے تھے لیکن روح اللہ کانپ رہے تھے ، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کر ے ، ذرا بے ادبی ہوئی تو مارے گئے زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا ، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں ، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں تو فیق عطا فرما ، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہمارے لئے سبب غضب نہ بنا ، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر ، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر ، یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور حضرت عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا ، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آ رہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی ، حضرت عیسیٰ اور آپ کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گر پڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے ، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اس دسترخوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے ، مسیح علیہ السلام نے فرمایا کون نیک بخت جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے؟ حواریوں نے کہا اے کلمتہ اللہ آپ سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے ؟ یہ سن کر حضرت عیسیٰ کھڑے ہوئے ، نئے سرے سے وضو کیا ، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بنا دیا جائے ، پھر واپس آئے اور بسم اللہ خیر الرازقین کہہ کر رومال اٹھایا ، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے ، جس کے اوپر چھلکا نہیں اور جس میں کانٹے نہیں ، گھی اس میں سے بہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں ، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے ، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں ، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں اور ایک پر پانچ انار ہیں ، شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا ؟ آپ نے فرمایا ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں ہوئے؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس پر تمہیں کوئی عذاب نہ ہو ، حضرت شمعون نے کہا اسرائیل کے معبود برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں پوچھ رہا ، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے! یقین ما نئے کہ میری نیت بد نہیں ، آپ نے فرمایا نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کر دیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے ، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے والا قادر اور قدر دان ہے ، شمعون نے کہا اے نبی اللہ ہم چاہتے ہیں کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں ۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں ؟ اچھا لو دیکھو یہ کہہ کر آپ نے اس مچھلی سے فرمایا اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی ، زندہ ہو جا ، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہو گئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی ، آنکھیں چمکنے لگیں ، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آ گئے ، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے ، آپ نے فرمایا دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لئے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے ، اسے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی ، ویسی ہی ہو جا ، چنانچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہو گئی ، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھا لیں گے ، آپ نے فرمایا معاذ اللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے ، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑ جائیں ، حضرت عیسیٰ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم یا کہ تم کھانا شروع کر دو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تماہرے نبی کی دعا سے اتری ہے ، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ تہیں مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہو گی تم بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور الحمد اللہ پر ختم کرو ، پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہو گئے وہ تمام بیمار تندرست ہو گئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے ، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے ، آپ فرماتے ہیں اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو بنی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا ، کیا بڑا ، کیا امیر ، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے ، یہ دیکھ کر باری مقرر ہو گئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا ، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے ۔ اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں ، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے ، خود بھی شک میں پڑ گئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک حضرت عیسیٰ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں ۔ جناب مسیح علیہ السلام سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آ گیا ، تم نے خود طلب کیا ، تمہارے نبی کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا ، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا ، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی ، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی آہ اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں ، مجھے تو ڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہو جاؤ گے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہو ۔ دن غروب ہوا اور یہ بے ادب ، گستاخ ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن و امان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آ گیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پا خانوں کی پلیدی کھا رہے تھے ، یہ اثر بہت غریب ہے ، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کر دیا ہے تاکہ سمجھ آ جائے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اغلم ۔ بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا ۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرما دیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مجاہد سے منقول ہے کہ جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہو گئے اور مطالبہ سے دستبردار ہو گئے ۔ حسن کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں ۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حضرت حسن اور حضرت مجاہد کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے واللہ اعلم ۔ لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ فرمان ربی آیت ( اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:115 ) میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے ۔ تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ بنی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المومنین ولید بن عبد الملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمین کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا تھا واللہ اعلم ، مسند احمد میں ہے کہ قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے ، آپ نے فرمایا بالکل سچا وعدہ ہے ، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا ۔ آپ نے دعا کی اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیتا ہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں ۔ آپ نے فرمایا یا اللہ معاف فرما ، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے ، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 مَائِدَۃً ایسے برتن (سینی پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لئے دسترخواں بھی اس کا ترجمہ کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے۔ حواریین نے مزید اطمینان قلب کے لیے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ 212۔ 2 یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا بن سکتی ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے وحی کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم نبی تھیں اس لئے کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے وحی آ‏ئی تھی صحیح نہیں۔ اس لئے کہ یہ وحی، وحی الہام ہی تھی جیسے یہاں اوحیت الی الحوارین میں ہے یہ وحی رسالت نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦١] یہ مکالمہ روز قیامت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ اس دنیا کا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے جسے موقعہ کی مناسبت سے اور جملہ معترضہ کے طور پر یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ [١٦٢] حواریوں کا خوان نعمت کا مطالبہ :۔ حواری جو اسلام لا چکے تھے وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ پوچھنے لگے کہ کیا تمہارے پروردگار میں اتنی قدرت ہے کہ ہم پر آسمان سے تیار شدہ کھانا نازل کرے اور اپنے اس مطالبہ کی انہوں نے تین وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ ہم فکر معاش کے دھندوں سے آزاد ہو کر یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کرسکیں۔ دوسرے یہ کہ ہمیں یہ یقین حاصل ہوجائے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل حقیقت ہے اور اللہ واقعی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور تیسرے یہ کہ جس دن اس دسترخوان کا نزول ہو ہم اس دن خوشی کا جشن اور عید منائیں اور آئندہ بھی اس دن عید مناتے رہیں۔ خ عیسوی عقائد ما بعد کی پیداوار ہیں :۔ حواریوں کے اس مطالبہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ عیسیٰ کے متبعین آپ کو الٰہ یا اللہ یا ابن اللہ یا تین خداؤں میں سے ایک خدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں محض اللہ کا بندہ اور اس کا رسول سمجھتے تھے ورنہ ان کے مطالبہ کا انداز یہ ہوتا کہ && کیا تم میں یہ قدرت ہے کہ ہمارے لیے آسمان سے دسترخوان اتار کر دکھاؤ۔ [١٦٣] عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا امتحان نہ لو۔ اس سے ڈرتے رہو اور اس کے فرمانبردار بن کر رہو۔ اور فرمانبردار کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے آقا کا امتحان لینا شروع کر دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ ۔۔ : حواری اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے تھے، جیسا کہ اوپر کی آیت میں مذکور ہے، اس لیے ان کا یہ سوال اللہ کی قدرت پر شک و شبہ کے طور پر نہ تھا، بلکہ دلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مردوں کو زندہ کرنے کے متعلق سوال کیا تھا۔ (ابن کثیر) اور یہ الفاظ کہ کیا تیرا رب یہ کرسکتا ہے، ان کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے، بلکہ مطلب یہ پوچھنا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تو نہیں، یا اس میں کوئی مانع تو نہیں ؟ ” مائدہ “ وہ بڑا تھال جس پر کھانا رکھا ہو۔ اب اس تھال اور کھانے دونوں پر مائدہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ (راغب) قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ ۔۔ : کیونکہ ایسے معجزات معین کر کے طلب کرنا حکم چلانے اور سرکشی کرنے کا معنی رکھتا ہے، اس لیے اللہ سے ڈرو اور ایسا سوال نہ کرو۔ (کبیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ڈرو اللہ سے “ یعنی بندے کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزمائے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں، اگرچہ مالک بہت زیادہ مہربانی کرے۔ “ (موضح) ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو اور اسے مائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ بناؤ، جیسے فرمایا : ( وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا، وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۭ ) [ الطلاق : ٢، ٣ ] ” اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔ “ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary A True Believer Should Not Demand Miracles When the disciples of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) asked him to make ` Ma&idah& (food-spread) come down from the heavens, he replied by saying: قَالَ اتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِين (Fear Allah if you are believers). This tells us that it does not behove a faith-bearing servant of Allah that he should test Him by making such requests. Rather than demand what is supernatural, he should seek things, like sustenance, through sources naturally ap¬pointed for him. The Better the Blessing, the Worse the Curse of Ingratitude From the words of the verse 115: فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ (I shall give him a punishment I shall not give to anyone in the worlds), we learn that in situations when the blessing of Allah is extra-ordinary and unique, the emphasis on the gratitude for it should be far above the ordinary.& As for the punishment of ingratitude, that too will be ex¬tra-ordinary and unique. Whether or not the ` Ma&idah& (food-spread) came down from the heaven is something commentators differ in. The majority of them hold that it did. Accordingly, it has been reported from Sayyidna ` Ammar ibn Yasir (رض) as in a Hadith of Tirmidhi, that ` Ma&idah& did come from the heavens which included bread and meat. It also appears in this Hadith that some of those people committed a breach of trust, and put it off for the next day as well. As a result, they were transformed into monkeys and swines. (May Allah keep us protected from His wrath). This very Hadith also tells us that they ate from it as they wanted to do as mentioned in the word, ` na&kulu& (we eat) - however, storing it for future use was prohibited. (Mayan al-Qur&an)

معارف و مسائل مومن کو معجزات کا مطالعہ نہیں کرنا چاہئے (قولہ تعالی) قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ جب حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے آسمان سے مائدہ کے اترنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ اگر تم ایمان دار ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان دار بندہ کو لائق نہیں کہ وہ اس قسم کی فرمائشیں کرکے خدا کو آزمائے، اور اس سے خرق عادت کی چیزوں کا مطالبہ کرے، بلکہ اس کو چاہئے کہ روزی وغیرہ کو انہی ذرائع سے طلب کرے جو قدرت نے مقرر کر رکھے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ہَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَاۗىِٕدَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ۝ ٠ۭ قَالَ اتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١١٢ عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ مائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان . المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ہم پر آسمان سے خواننازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) اور حواریوں نے یعنی شمعون نے کہا کہ آپ کی قوم کہتی ہے کہ کیا آپ پروردگار سے اس چیز کے بارے میں دعا کرسکتے ہیں کہ آسمان سے کچھ کھانا نازل ہوجایا کرے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سن کر شمعون سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اگر اللہ پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ تم اس نعمت کی شکر گزاری نہیں کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) مؤمنین کو ایسی دعائیں نہیں کرنی چاہئیں۔ ایسے مطالبات آپ لوگوں کو زیب نہیں دیتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

128. Since the disciples have been mentioned here, the continuity of the subject is interrupted momentarily in order to introduce another incident connected with the disciples. This clearly shows that those who had been directly instructed by Jesus considered him merely a human being and a slave of God; they had no conception of their master either being God or a partner of God or the son of God. Jesus had, rather, presented himself to them as a slave of God with no claims to divine authority. One might feel inclined here to raise the question: What is the occasion for this parenthetical interjection in a conversation that is to take place on the Day of Judgement? This parenthesis, in my opinion, is not in fact part of such a conversation, but rather forms part of a discussion in this world regarding a conversation that will take place on the Day of Judgement. The conversation that will take place on the Day of Judgement is mentioned here precisely in order that the Christians may derive a lesson from it and direct themselves to the right way. Hence, the mention of this incident regarding the disciples - even though it seems to interrupt the continuity of narration - is in no sense out of place.That is, are Muslims - Ed.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :128 چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلہ کلام کو توڑ کر جملہ معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہ راست جن شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریک خدا یا فرزند خدا ہونے کا تصور نہ تھا ۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندہ بے اختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا ۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کے اندر اس جملہ معترضہ کا کونسا موقع ہو گا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ معترضہ اس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہو گی بلکہ اس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے ۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اس سے سبق ملے اور وہ راہ راست پر آئیں ۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملہ معترضہ کے آنا کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

77: یعنی ایک مومن کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے معجزات کی فرمائش کرے، کیونکہ ایسی فرمائشیں تو عام طور پر کافر لوگ کرتے رہے ہیں۔ البتہ جب انہوں نے یہ وضاحت کی کہ خدا نخواستہ اس فرمائش کا منشا ایمان کا فقدان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھ کر مکمل اطمینان کا حصول اور ادائے شکر ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دعا فرما دی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(112 ۔ 115) اوپر ان احسانات کا ذکر تھا جو احسانات عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی ماں مریم (علیہا السلام) پر اللہ تعالیٰ نے فرمائے انہی احسانات میں سے ایک احسان ان آیتوں میں ہے جو احسان اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر فرمایا جس کا حاصل یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ خواہش کی کہ وہ کھانے کا بھرا ہوا ایک خوان آسمان سے اترنے کی دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کریں۔ قرآن شریف میں جس قدر مطلب ہے وہ یہی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس شرط سے اس خوان کے اتارنے کا وعدہ فرمایا کہ خوان کے اترنے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی شکرگذاری پورے طور پر ان لوگوں سے ادا نہ ہوسکی تو ان لوگوں پر سخت عذاب آجاوے گا۔ تابعیوں میں سے مجاہد اور حسن بصری کا قول تو یہ ہے کہ اس شرط کو سخت جان کر پھر ان لوگوں نے خوان کے اترنے کی خواہش چھوڑ دی اس لئے وہ خوان نہیں اترا۔ باقی کے سب سلف کا یہ قول ہے کہ وہ خوان اترا ١ ؎۔ اس میں طرح طرح کے کھانے تھے اور یہ حکم تھا کہ ان کھانوں میں سے کوئی کھانا دوسرے دن کے لئے اٹھا کر نہ رکھا جاوے جن لوگوں نے اس حکم کی پابندی نہیں کی ان پر یہ عذاب آیا کہ ان کی اصلی صورت بدل کر سور اور بندر جیسی صورت ہوگئی اور پھر تین دن کے بعد وہ سب ہلاک ہوگئے۔ صحابہ کے قول تو اس خوان کے اترنے کے باب میں بہت ہیں لیکن ترمذی میں عمار بن یاسر (رض) کی ایک حدیث بھی اسی مضمون کی ہے جس کو عمار بن یاسر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچایا ہے۔ تفسیر میں حسن بن قزعہ کو صدوق لکھا ہے ٣ ؎ اس لئے حسن بن قزعہ کی روایت کو بالکل نامعتبر نہیں کہا جاسکتا۔ اس تفسیر کے مقدمہ میں بیان کیا جا چکا ہے کہ تفسیر کے باب میں صحابی کا قول بھی حدیث نبوی کے برابر ہے اس قرار داد کی بنا پر صحابہ کی ایک جماعت کے قول سے عمار بن یاسر (رض) کی حدیث کو اور بھی تقویت ہوجاتی ہے۔ اصلی انجیل کا تو پتہ نہیں انجیل کے ترجموں میں اس قصہ کا کہیں ذکر نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجاہد اور حسن بصری کے قول کی طرح نصرانی سلف کا خیال بھی یہی تھا کہ وہ خوان نہیں اترا اسی واسطے ترجموں میں انہوں نے اس کا ذکر چھوڑ دیا۔ یہ تو اوپر گذر چکا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری پکے ایماندار تھے اس لئے ان کی یہ خوان اترنے کی خواہش اس سبب سے نہیں تھی کہ ان کو اللہ کی قدرت میں یا عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت میں کچھ شک و شبہ تھا بلکہ حواریوں کی یہ خواہش اس قسم کی تھی جس طرح مردہ کے اپنی آنکھوں کے سامنے زندہ ہونے کی خواہش حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے کی تھی جس کا قصہ سورة بقرہ میں گذرچکا ہے لیکن ظاہر اسباب کو چھوڑ کر خلاف عادت اللہ کی قدرت کو آزمانا بندہ کو نہیں پہنچتا اسی لئے عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں کو ہدایت کی کہ اس خواہش سے پرہیز کرنا اور خدا کا خوف کرنا ایماندار آدمی کا شیوہ ہے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے قصہ میں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث گذرچ کی ہے ١ ؎ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حالت شک کا انکار فرمایا ٢ ؎ وہی حدیث حواریوں کی حالت کی گویا تفسیر ہے کیونکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حواریوں کی خواہش کی کچھ مذمت نہیں فرمائی اب یہ ظاہر ہے کہ ان کی خواہش قدرت الٰہی میں شک کے پیدا ہونے سے ہوتی تو بڑی مذمت کے قابل ایک حالت تھی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:112) ہل یستطیع ربک۔ کیا تیرا رب یہ کرسکتا ہے۔ یستطیع مضارع واحد مذکر غائب استنطاع استفعال مصدر۔ حواری تو قبل ازیں دل میں مسلمان ہوچکے تھے اس لئے ان کا یہ کہنا کہ کیا تیرا رب یہ کرسکتا ہے۔ کسی شک پر مبنی نہ تھا۔ بلکہ جیسا کہ کلام ما بعد وتطمئن قلوبنا سے واضح ہے۔ محض مزید اطمینان قلب اور تقویت ایمان کی خاطر انہوں نے مائدہ طلب کیا تھا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا۔ رب ارنی کیف تحی الموتی اور خدا تعالیٰ کے ارشاد اولم نؤمن پر فرمایا تھا۔ بلی ولکن لیطمئن قلبی (2:260) لیکن میں دیکھنا اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان حاصل کرے۔ مائدۃ۔ کھانا جو دستر خوان پر چنا ہوا ہو۔ یا وہ دستر خوان جس پر کھانا چنا ہوا ہو۔ اتقوا اللہ ۔ اللہ سے ڈرو (اور ایسے سوال مت کرو) جواب شرط ہے۔ ان کنتم تؤمنین شرط ہے۔ عموماً جواب شرط شرط کے بعد ہی آتا ہے۔ لیکن عربی ادب میں اور دیگر زبانوں میں بھی اکثر جواب شرط کو شرط سے قبل لایا جاسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 حواری اللہ و رسول پر ایمان رکھتے تھے جیسا کہ اوپر کی آیت میں مذکور ہے اس لیے ان کا یہ سوال اللہ کی قدرت پر شک کے طور پر نہ تھا بلکہ دلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا جیسا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے مردوں کو زندہ کرنے کے متعلق سوال کیا تھا (ابن کثیر)8 کیونکہ ایسے معجزات تعین کے ساتھ طلب کرنا تحکم اور تعنت کے مترادف ہے ( کبیر) یا یہ کہ اپنے اند تقویٰ پیدا کرو اور اسے مائدہ کے حصول کا ذریعہ بنا و جیسے فرمایا : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا (الطلاق) یعنی جو اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں فرمایا ڈرو اللہ سے یعنی بندہ کو چاہیے کہ اللہ کو نہ آزماوے کہ میرا کہا مانتا ہے یا نہیں اگرچہ خداوند (رب تعالی) بتیری مہربانی فرماتا ہے۔ ، ( از موضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ کہ تم تو ایماندار ہو اس لیے خدا سے ڈرو اور معجزات کی فرمائش سے کہ بےضرورت ہونے کی وجہ سے خلاف ادب ہے بچو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١٢ تا ١١٥۔ اس گفتگو سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا مزاج کیسا تھا اور ان میں سے مخلص لوگ کس مزاج کے تھے یعنی آپ کے حواری ۔ ان حواریوں اور ہمارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) اجمعین کے درمیان بہت بڑا فرق تھا ۔ ان حواریوں کے دلوں میں اللہ نے بطور الہام ایمان کا القاء کردیا تھا ۔ وہ ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ایمان پر گواہ ٹھہرایا ۔ ان حقائق کے ساتھ ساتھ اب دیکھئے کہ اس الہام اور معجزات کے دیکھے ہوئے وہ پھر ایک نئے معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ جان لیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں اور اب وہ عیسیٰ کے بعد اس دعوت کو پھیلائیں گے ۔ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حال یہ ہے کہ اسلام لانے کے بعد وہ آپ سے کوئی ایک معجزہ بھی طلب نہیں کرتے ۔ جونہی ان کے دلوں میں ایمان داخل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے ۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور اس تصدیق پر انہوں نے کسی برہان و دلیل کا مطالبہ نہیں کیا انہوں نے حقانیت رسول کی شہادت صرف قرآن کو پڑھ کر دے دی ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حورایوں کے درمیان یہ ایک عظیم فرق ہے ۔ وہ ایک سطح پر ہیں اور یہ دوسری سطح پر ہیں ۔ لیکن یہ بھی مسلمان ہیں اور وہ بھی مسلمان ہیں ۔ یہ بھی اللہ کے ہاں برگزیدہ ہیں اور وہ بھی برگزیدہ ہیں لیکن جس طرح اللہ نے چاہ دونوں کی سطح میں بہت ہی فرق رکھا بہت بڑا فرق ۔ ” کھانے کے اس خوان کا ذکر قرآن میں ہوا ہے لیکن نصاری کے لٹریچر میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ نہ ان اناجیل میں اس کا ذکر ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لکھی گئیں اگرچہ بہت بعد میں لکھی گئیں ۔ اس قدر طویل عرصے میں نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے اندر واقعات کی صحیح رپورٹنگ کی گئی ہوگی ۔ نیز ان اناجیل کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض علماء نے ان روایات کو نقل کیا ہے اور ان میں انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت کے واقعات نقل کئے ہیں ۔ اس لئے یہ روایات اس کلام پر مشتمل نہیں جو اللہ نے اتارا تھا اور اس کا نام انجیل رکھا تھا ۔ البتہ ان اناجیل میں اس خوان کے قصے کو دوسرے انداز میں نقل کیا ہے ” متی کی انجیل کے اصحاح ١٥ کے آخر میں آتا ہے ۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو بلایا اور کہا مجھے سب کے بارے میں اندیشہ ہے کیونکہ ان کے لئے صرف تین دن ہیں جو میرے ساتھ چلیں گے اور ان کے پاس خوراک بھی نہیں ہے ۔ اور میں یہ بھی نہیں کرسکتا کہ انہیں روزے کی حالت میں واپس کروں کیونکہ راستے میں ان کے پریشانی ہوگی ۔ ان میں سے اس کے تلامذہ نے کہا ہماری تعداد زیادہ ہے اور ہم کہاں سے کھانا پاسکتے ہیں ۔ ان سے یسوع نے کہا تمہارے پاس کس قدر روٹیاں ہیں ۔ انہوں نے کہا : سات روٹیاں اور کچھ چھوٹی مچھلیاں ۔ آپ نے سب سے کہا کہ وہ زمین پر سہارا لے کر بیٹھ جائیں ۔ آپ نے روٹی اور مچھلیاں لیں ۔ شکر ادا کیا اور انہیں توڑا ۔ انہوں نے یہ روٹیاں شاگردوں کو دیں اور انہوں نے سب کو کھلائی اور سب سیر ہوگئے اور جب روٹیاں اٹھائیں تو سات تھال بھرے ہوئے تھے اور کھانے والے چار ہزار تھے جن میں عورتوں اور بچوں کا شمار نہ کیا گیا تھا ‘ ایسی ہی روایات دوسری اناجیل میں بھی آئی ہیں ۔ بعض تابعین کا خیال ہے کہ یہ مائدہ نہیں اترا ۔ مجاہد اور حسن اس طرف گئے ہیں ‘ کیونکہ جب حواریوں نے یہ سنا ” میں اتارنے والا ہوں لیکن اس کے بعد جس نے کفران نعمت کیا تو اسے میں ایسی سزا دوں گا جیسی تمام جہان والوں میں کسی کو نہ دی گئی تھی ۔ “ تو وہ ڈر گئے اور انہوں نے اپنا یہ مطالبہ واپس لے لیا تھا ۔ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں ” لیث نے بذریعہ ابن سلیم مجاہد سے یہ روایت کی ہے کہ یہ ایک مثال تھی جو اللہ نے یہاں بیان کی ورنہ کوئی طعام اترا نہیں تھا ۔ “ ابن جریر نے حارث ‘ قاسم ‘ حجاج ابن جریج کے ذریعہ مجاہد سے یہ روایت کی ہے کہ یہ ایک دسترخوان تھا بعض کے اوپر کھانا ہو۔ انہوں نے اس مطالبے کو واپس لے لیا تھا جب انہیں بتایا گیا کہ ان پر عذاب آجائے گا اگر اس کھانے کے آنے کے بعد انہوں نے ناشکری کی ۔ انہوں نے ابو اللیث ‘ محمد ابن جعفر ‘ شعبہ ‘ منصور ابن زاذان کے واسطہ سے حسن سے یہ روایت کی ہے کہ مائدہ نازل نہیں ہوا تھا ۔ بشر ‘ نرید اور سعید کے واسطہ سے قتادہ کی یہ روایت ہے کہ حسن کہتے تھے کہ جب انہیں کہا گیا کہ اگر اس کے بعد انہوں نے کفران نعمت کیا تو انہیں ایسی سزا دی جائے جو عالمین میں سے کسی کو نہ دی گئی تھی تو انہوں نے ڈر کر کہا کہ ہمیں ایسے مائدہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس پر پھر یہ مائدہ نازل نہ ہوا۔ لیکن سلف صالحین میں سے اکثریت کی رائے یہ ہے کہ یہ کھانا نازل ہوا تھا ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے الفاظ یہ استعمال کیے ہیں۔ (آیت) ” انی منزلھا علیکم “ (٥ : ١١٥) (میں اسے تم پر نازل کرنے والا ہوں) یہ اللہ کی طرف سے ایک قسم کا وعدہ ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خود قرآن کریم کے الفاظ میں رائے کی تائید کرتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ یہی درست ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حشر کے میدان میں اپنی قوم کے سامنے ایک عظیم جلسہ میں یاد دلاتے ہیں کہ میں نے تم پر یہ یہ انعامات کئے ۔ (آیت) ” إِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ أَن یُنَزِّلَ عَلَیْْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ۔ (٥ : ١١٢) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا ” اے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے “۔ حواری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تلامذہ تھے ‘ غریب لوگ تھے اور آپ کے بارے میں زیادہ جانتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ آپ انسان ہیں ۔ جانتے تھے کہ آپ ابن مریم ہیں اور آپ کے بارے میں جو کچھ جانتے تھے وہی کہتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ رب نہیں ہیں بلکہ وہ رب کے پروردہ بندہ ہیں ۔ یہ کہ وہ ابن اللہ نہیں ہیں ‘ بلکہ ابن مریم اور اللہ کے بندے ہیں ۔ وہ جانتے تھے کہ رب وہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ان معجزات کا صدور کر رہا ہے ۔ وہ ان معجزات میں سے کوئی بات از خود صادر نہیں کرسکتے ۔ اپنی ذاتی قدرت مطالبہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے نہ کیا ۔ اس لئے کہ وہ بذات خود قدرت نہ رکھتے تھے بلکہ انہوں نے مطالبہ ان الفاظ میں کیا ۔ (آیت) ” یَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ہَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ أَن یُنَزِّلَ عَلَیْْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ۔ (٥ : ١١٢) اے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ۔ اب لفظ (آیت) ” ھل یستطیع “ ؟ میں مختلف تاویلات سامنے آتی ہیں ۔ سوال یہ تھا کہ ایمان اور کلمہ شہادت کے بعد وہ یہ سوال کرسکتے ہیں جبکہ وہ اپنے اسلام پر خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو شاہد ٹھہراتے ہیں ۔ ” یستطیع “ کا مفہوم یہ بھی بتایا گیا ہے ھل یقد ؟ لیکن مقصد وہ نتیجہ ہے جو اس قدرت اور استطاعت کے نتیجے میں آسکتا ہے یعنی آسمان سے خوان ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ طلب کر رہے تھے کہ اگر وہ طلب کریں تو کیا اللہ ان کے مطابلے کو پورا کرے گا ۔ ایک قرات (آیت) ” ھل تستطیع ربک “ یعنی کیا آپ کو یہ سوال کرنے کا اختیار ہے کہ آپ نزول مائدہ کا سوال کریں ۔ بہرحال مفہوم جو بھی ہو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں انہیں تنبیہ کی کہ وہ ایسے سوالات نہ کریں اور خدا سے ڈریں ۔ (آیت) ” قَالَ اتَّقُواْ اللّہَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (112) ” تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو “۔ لیکن حواریوں نے دوبارہ مطالبہ کیا ۔ اور انہوں نے اپنے مطالبے کی غرض وغایت بھی بتا دی : (آیت) ” قَالُواْ نُرِیْدُ أَن نَّأْکُلَ مِنْہَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُونَ عَلَیْْہَا مِنَ الشَّاہِدِیْنَ (113) ” انہوں نے کہا ” ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اس پر گواہ ہوں “۔ وہ بہرحال یہ مائدہ کھانا چاہتے تھے جس کی کوئی نذیر زمین پر نہ ہو اس لئے کہ ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور وہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ معجزہ ہوتے دیکھیں اور انہیں یقین ہوجائے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے سچ کہا ۔ پھر وہ خود اپنی باقی ماندہ قوم کے لئے گواہ ہوجائیں کہ یہ عظیم معجزہ سرزد ہوا ۔ یہ تمام امور اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کا مقام ومعیار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواریوں سے ذرا کم تھا ۔ اگر دونوں کرداروں کا موازنہ کیا جائے تو صحابہ محمد کا مقام نہایت ہی ممتاز نظر آتا ہے ۔ اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں : (آیت) ” قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ِ تَکُونُ لَنَا عِیْداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِّنکَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْْرُ الرَّازِقِیْنَ (114) اس پر عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) نے دعا کی ” خدایا ! ہمارے رب ‘ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر ‘ جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔ “ جیسا کہ سیاق کلام میں بار بار اس بات کو دہرایا جاتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا نہایت ہی مودبانہ ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ ایک مختار بندہ اپنے رب اور اپنے آقا کے ساتھ نہایت ہی رازدارانہ انداز میں بات کرتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ” اے اللہ “ ” اے ہمارے رب “ کے الفاظ کے ساتھ دعا شروع کرتے ہیں ۔ اے اللہ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمارے اوپر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ اور یہ خوان ایسا ہو کہ ہمارے لئے خوشی اور انبساط کا سبب بنے اور وہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لئے سامان فرحت ہو ۔ نیز یہ آپ کے خصوصی رزق سے ہو ۔ اور آپ رزق دینے والوں میں سے حقیقی رزاق ہیں ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جانتے ہیں کہ وہ بندے ہیں اور اللہ ہی رب العالمین ہے اور یہ اعتراف وہ ایک کھلی مجلس اور دربار میں کرتے ہیں ۔ یہ کھلی مجلس دربار قیامت میں ہے اور حضرت کی قوم کے سامنے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی دعا کو قبول کرلیا ۔ لیکن اس قبولیت دعا کو سنجیدگی کا عنصر بھی دے یا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے شایان شان تھا ۔ انہوں نے ایک معجزے کا مطالبہ کیا ۔ اللہ نے اسے قبولیت بخشی لیکن یہ شرط عائد کردی کہ اگر اس کے بعد کسی نے کفران نعمت کیا تو اسے شدید عذاب کا سامنا کرنا ہوگا ۔ اس قدر شدید جس کی کوئی مثال نہ ہو ۔ اور ایسا عذاب کبھی کسی قوم پر نہ آیا ہو ۔ (آیت) ” قَالَ اللّہُ إِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْْکُمْ فَمَن یَکْفُرْ بَعْدُ مِنکُمْ فَإِنِّیْ أُعَذِّبُہُ عَذَاباً لاَّ أُعَذِّبُہُ أَحَداً مِّنَ الْعَالَمِیْنَ (115) ” اللہ نے جواب دیا ” میں اس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو میں نے کسی کو نہ دی ہوگی۔ “ یہ سنجیدگی اللہ کی شان کے لائق ہے تاکہ معجزات کا مطالبہ ایک مذاق نہ بن جائے ۔ اور یہ بھی نہ ہو کہ جن لوگوں کے سامنے بین اور معجز دلائل پیش ہوں اور پھر بھی وہ کفر کریں تو انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنے کا خوف تو ہو ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جن اقوام نے معجزات طلب کئے ہیں اور پھر انہوں نے سچائی کو تسلیم نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ضرور ہلاک کیا ہے ۔ رہی آیت زیر بحث تو ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد دنیا کا عذاب ہو اور اگر یہاں نہ ہو تو آخرت کا عذاب ہو۔ اب اس تنبیہ اور تخویف کے بعد یہاں سیاق کلام خاموش ہے کہ آیا یہ خوان اترا یا نہیں اور روئے سخن اپنے اصل موضوع کی طرف پھرجاتا ہے ۔ یعنی الوہیت اور ربوبیت کے اصل موضوع کی طرف کیونکہ اس سبق کا اصل موضوع یہی ہے ۔ یہ عظیم دربار ابھی تک جاری ہے اور لوگ اس کا تماشا کر رہے ہیں ۔ چاہیے کہ ہم ذرا اس کی طرف لوٹیں اور براہ راست سوال و جواب سے لطف اندوز ہوں ۔ اب اللہ تعالیٰ اس دربار میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم کی الوہیت کے بارے میں سوال کرتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وہ پیروکار بھی موجود ہیں جنہوں نے ان کو اور ان کی والدہ کو الہ سمجھا تھا تاکہ وہ سنیں اور ان کے سامنے حضرت ان کے لغو عقائد سے برات کا اظہار کریں ۔ یہ جواب نہایت ہی خوفناک فضا پیدا کرتا ہے ۔ ذرا ملاحظہ ہو :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

178 یہ اِذْ اَیَّدْتُکَ سے بدل ہے یہاں سے لیکر رکوع 15 کے آخر تک نزول مائدہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کا ایک انعام تھا کیونکہ جب ان سے ان کی قوم نے آسمان سے دستر خوان اتارنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے اللہ دعا کی تو اللہ نے ان کی دعا قبول فرما کر معجزانہ طور پر آسمان سے دسترخوان نازل فرمایا۔ جن حواریین نے مائدہ کا مطالبہ کیا تھا وہ مخلص مومن تھے اور ازدیاد یقین اور عینی مشاہدے کی خاطر اس معجزے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 179 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر واقعی تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور اس معجزے کا مطالبہ نہ کرو کیونکہ جب طلبیدہ اور منہ مانگے معجزے کا انکار کیا جائے تو اس پر اللہ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔ قَالُوْا نُرِیْدُ الخ اس کے جواب میں انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سامنے آسمان سے دسترخوان اترے اور ہم اس میں سے کھانا تناول کریں تاکہ ہمارا یقین اور پختہ ہوجائے اور آپ کی صداقت کا ہمیں مشاہدہ ہوجائے اور ہم اس واقعہ کی ان لوگوں کے سامنے گواہی دیں جو اس وقت موجود نہ ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

112 اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ان حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) مریم کے بیٹے کیا تیرا رب ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے کھانے کا بھرا ہوا ایک خوان نازل فرمائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا اگر تم اہل ایمان ہو تو اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس قسم کی بےموقع فرمائشیں کرنے سے احتیاط بر تو۔