Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 115

سورة المائدة

قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾٪  5

Allah said, "Indeed, I will sent it down to you, but whoever disbelieves afterwards from among you - then indeed will I punish him with a punishment by which I have not punished anyone among the worlds."

حق تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں ، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دونگا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ اللّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ ... Allah said: "I am going to send it down unto you, but if any of you after that disbelieves..." by denying this sign and defying its implication, O `Isa, ... فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لاَّ أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ then I will punish him with a torment such as I have not inflicted on anyone among the Alamin. among the people of your time. Allah said in similar Ayat, وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُواْ ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ And on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): "Cause Fir`awn's people to enter the severest torment!" (40:46) and, إِنَّ الْمُنَـفِقِينَ فِى الدَّرْكِ الاٌّسْفَلِ مِنَ النَّارِ Verily, the hypocrites will be in the lowest depths of the Fire. (4:145) Ibn Jarir said that Abdullah bin `Amr said, "Those who will receive the severest torment on the Day of Resurrection are three: The hypocrites, those from the people of Al-Ma'idah who disbelieved in it, and the people of Fir`awn." Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said, "They said to `Isa, son of Maryam, `Supplicate to Allah to send down to us from heaven, a table spread with food.' He also said, `So the angels brought the table down containing seven fish and seven pieces of bread and placed it before them. So the last group of people ate as the first group did." Ibn Jarir recorded that Ishaq bin Abdullah said that; the table was sent down to `Isa son of Maryam having seven pieces of bread and seven fish, and they ate from it as much as they wished. But when some of them stole food from it, saying, "It might not come down tomorrow," the table ascended. These statements testify that the table was sent down to the Children of Israel during the time of `Isa, son of Maryam, as a result of Allah's accepting his supplication to Him. The apparent wording of this Ayah also states so, قَالَ اللّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ (Allah said: "I am going to send it down unto you...").

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

115۔ 1 یہ مَائِدَ ۃً (خوان طعام) آسمان سے اترا یا نہیں ؟ اس کی بابت کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں۔ اکثر علماء (امام شوکانی اور امام ابن ضریر طبری سمیت) اس کے نزول کے قائل ہیں اور ان کا استدلال قرآن کے الفاظ (اَنَّ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ ) سے ہے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقینا سچا ہے لیکن اس اللہ کی طرف سے یقینی وعدہ قرار دینا اس لئے صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ اگلے الفاظ فَمَنْ یَّکْفُرْ اس وعدے کو مشروط ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط سن کر کہ انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جس کے بعد اس کا نزول نہیں ہوا۔ امام ابن کثیر نے ان آثار کی اسانید کو جو امام مجاہد اور حضرت حسن بن بصری سے منقول ہیں صحیح قرار دیا ہے نیز کہا ہے کہ ان آثار کی تائید اس بات سے بھی ہوئی ہے کہ نزول مائدہ کی کوئی شہرت عیسائیوں میں ہے نہ اس کی کتابوں میں درج ہے۔ حالانکہ اگر یہ نازل ہوا ہوتا تو اسے ان کے ہاں مشہور بھی ہونا چاہیے تھا اور کتابوں میں بھی تواتراً ہوتا یا کم از کم آحاد سے نقل ہونا چاہیے تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٥] مطالبہ کے معجزہ کے بعد نافرمانی پر عذاب لازم آتا ہے :۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے نبی سے کسی خاص قسم کے معجزہ کا مطالبہ کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کا مطلوبہ معجزہ دکھا دے۔ لیکن یہ قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو پھر اس پر اسی دنیا میں کوئی انتہائی سخت عذاب نازل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ اس کی واضح مثال تو قوم ثمود کا اپنے نبی صالح (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ تھا کہ اس پہاڑ سے حاملہ اونٹنی نکلے جو ہمارے سامنے بچہ جنے تب ہم ایمان لائیں گے۔ اللہ نے یہ معجزہ دکھادیا۔ لیکن ثمود نے ایمان لانے کی بجائے پھر سرکشی کی روش اختیار کی اور اس اونٹنی کو بھی ہلاک کر ڈالا تو ان پر سخت قسم کا زلزلہ آیا اور ساتھ ہی بڑی شدید اور کرخت آواز پیدا ہوئی جس سے سب کے سب تباہ ہوگئے تھے اور دوسری مثال یہی مطالبہ ہے۔ اس کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ خ خوان نعمت کا مطالبہ کرنے والوں کا انجام :۔ عمار بن یاسر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ && جو دسترخوان آسمان سے اتارا گیا تھا اس میں روٹی اور گوشت تھا اور انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ اس میں نہ خیانت کریں گے اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں گے۔ پھر ان لوگوں نے خیانت بھی کی اور کل کے لیے بھی اٹھا رکھا۔ لہذا انہیں بندر اور سور بنادیا گیا۔ && (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت مذکورہ) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا دسترخوان صرف ایک دن نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک نازل ہوتا رہا مطالبہ کرنے والوں نے کہا تھا کہ اس دسترخوان سے غریب، نادار، معذور اور بےکس لوگ کھایا کریں گے مگر بعد میں کھاتے پیتے لوگ بھی اس دسترخوان میں شریک ہونے لگے۔ یہ ان کی خیانت تھی۔ علاوہ ازیں کل کے لیے سٹور بھی کرنا شروع کردیا اور ان کے بےجا طمع اور اللہ پر عدم توکل کی دلیل تھا اور اس سے انہیں روکا بھی گیا تھا۔ دیگر بھی کئی نافرمانیاں کیں جن کی پاداش میں ان میں اسی کے قریب آدمیوں کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور سور کی سی بنادی گئیں۔ امام ترمذی کی تصریح کے مطابق یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے اسی لیے بعض علماء نے اس واقعہ سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا معجزہ طلب کرنے سے ڈرایا تو وہ فی الواقع ڈر گئے اور اپنے مطالبہ سے باز آگئے۔ لہذا دسترخوان اترا ہی نہیں تھا لیکن ایسے اقوال کے علی الرغم ہم موقوف حدیث کو ہی ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ قرآن میں اسی انداز سے مذکور ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَال اللّٰهُ اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ ۔۔ : علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ دسترخوان اترا یا نہیں، اکثر علماء کا خیال ہے کہ وہ اترا، شوکانی، ابن جریر اور بہت سے علماء نے اسی کو صحیح کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تاکید کے ساتھ فرمانا : (اِنِّىْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۚ )” یقیناً میں اسے تم پر اتارنے والا ہوں۔ “ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اتارا۔ جامع ترمذی میں عمار بن یاسر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مائدہ آسمان سے گوشت روٹی کی صورت میں اترا اور انھیں حکم دیا گیا کہ وہ نہ خیانت کریں اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں، مگر انھوں نے خیانت کی اور ذخیرہ کیا اور کل کے لیے اٹھا رکھا تو انھیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دیا گیا۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة المائدۃ : ٣٠٦١ ] اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو کسی کو اختلاف کی مجال ہی نہ تھی، مگر شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے اس کے حدیث رسول ہونے یا عمار بن یاسر (رض) کا قول ہونے، دونوں باتوں کو ضعیف کہا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ بعد کے الفاظ : (فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ) یہ الفاظ سن کر وہ ڈر گئے اور انھوں نے دعا کا مطالبہ واپس لے لیا۔ یہ قول مجاہد اور حسن بصری کا ہے، ان کی سندوں کو ابن کثیر نے صحیح کہا ہے، مگر یہ بھی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا قول ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات بھی ثابت نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مائدہ اترا تھا، وہ اس کا ایک قرینہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلی آیات میں اللہ نے مسیح (علیہ السلام) پر اپنے احسان شمار کیے ہیں، ان کے ساتھ اس واقعہ کو بھی بطور احسان ذکر فرمایا ہے اور آخر میں ان سے سوال کیا ہے کہ کیا تم نے میرے اتنے احسانات کے باوجود لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لینا، اس لیے مائدہ کا اترنا بھی ایک احسان تھا۔ دوسرے حضرات کہہ سکتے ہیں کہ مائدہ نہ اتار کر انھیں امتحان سے بچا لینا بھی ایک احسان ہی تھا۔ بہرحال قرآن مجید کے الفاظ دونوں صورتوں کا احتمال رکھتے ہیں اور اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” شاید عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کا اثر ہے کہ اس کی امت میں مال کی آسودگی ہمیشہ رہی اور جو کوئی ان میں نا شکری کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پائے۔ “ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کا امتی وہی ہے جو اسلام قبول کرلے، دوسرے لوگوں کا اپنے آپ کو مسیح (علیہ السلام) کا امتی کہلانا سینہ زوری ہے، کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے واضح طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ اب تمام دنیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی امت ہے، خواہ وہ امت اجابت ہو یا امت دعوت۔ رہا دنیا کا مال تو وہ کبھی کسی کے پاس زیادہ ہوتا ہے، کبھی کسی کے پاس، اس کا ایمان و کفر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ ) [ بنی إسرائیل : ٢٠ ] ” ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے۔ “ اور فرمایا : (ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ ) [ آل عمران : ١٤٠ ] ” اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اللہُ اِنِّىْ مُنَزِّلُہَا عَلَيْكُمْ۝ ٠ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّىْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۝ ١١٥ۧ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٥) اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اپنی قوم سے کہہ دو کہ تیری درخواست پوری کرتا ہوں مگر جس نے اس کے نزول اور اس میں سے کھانے کے بعد میرا حق نہ پہچانا تو انہیں ایسی سزا دوں گا، کہ ویسی سزا دنیا جہاں والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا یعنی سور بنا دوں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (قَال اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ ج) (فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ) یعنی جب اس طرح کی کوئی خرق عادت چیز دکھا دی جائے گی ‘ کھلا معجزہ سامنے آجائے گا تو پھر رعایت نہیں ہوگی۔ گزشتہ قوموں کے ساتھ ایسے ہی ہوا تھا۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ابھی اس چٹان میں سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہوجانی چاہیے۔ وہ اونٹنی برآمد ہوگئی ‘ لیکن ساتھ ہی رعایت بھی ختم ہوگئی۔ ان سے واضح طور پر کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے لیے مہلت کے صرف چند دن ہیں ‘ اگر ان دنوں میں ایمان نہیں لاؤ گے تو نیست و نابود کردیے جاؤ گے۔ یہ بات سورة الشُّعراء میں بہت تفصیل سے آئے گی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ اب جو نشانیاں مانگ رہے ہیں تو ہم یہ ان کی خیر خواہی میں انہیں نہیں دکھا رہے ہیں۔ اگر ان کے کہنے پر ایسی نشانیاں ہم دکھا دیں تو پھر ان کو مزید رعایت نہیں دی جائے گی اور ان کی مہلت ابھی ختم ہوجائے گی۔ اس قسم کے معجزے دیکھ کر نہ کوئی پہلے ایمان لایا ‘ نہ اب یہ لوگ لائیں گے۔ ان کے اندر جو نیتّ کا فساد ہے وہ کہاں انہیں ماننے دے گا ؟ جیسے قوم صالح ( علیہ السلام) نے نہیں مانا ‘ حالانکہ اپنی نگاہوں کے سامنے انہوں نے ایسا کھلامعجزہ دیکھ لیا تھا۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے معجزوں کو یہودیوں نے نہیں مانا ‘ الٹا انہیں جادُو قرار دے دیا۔ تو اس قدر واضح معجزات دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ سوائے ان جادُوگروں کے جن کا فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ ہو اتھا۔ نہ تو خود فرعون ایمان لایا تھا نہ فرعون کے درباری اور نہ ہی عوام الناس۔ چناچہ معجزے کا ظہور در اصل متعلقہ قوم کے خلاف جاتا ہے۔ معجزے کے ظہور سے پہلے تو امید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ شاید اس قوم کو کچھ ڈھیل دے دے ‘ شاید کچھ اور لوگوں کو ایمان کی توفیق مل جائے ‘ لیکن معجزے کے ظہور سے مہلت کا وہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

129. The Qur'an is silent on the question of whether this meal was sent down in response to this prayer. There is also no other authoritative basis to help us arrive at a clear conclusion. It is possible that the repast was actually sent down. It is also possible that the disciples withdrew their prayer after hearing the stern warning in response to it.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :129 قرآن اس باب میں خاموش ہے کہ یہ خوان فی الواقع اتارا گیا یا نہیں ۔ دوسرے کسی معتبر ذریعہ سے بھی اس سوال کا جواب نہیں ملتا ۔ ممکن ہے کہ یہ نازل ہوا ہو اور ممکن ہے کہ حواریوں نے بعد کی خوفناک دھمکی سن کر اپنی درخواست واپس لے لی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

78: قرآن کریم نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ پھر وہ خوان آسمان سے اترا یا نہیں۔ جامع ترمذی کی ایک روایت میں حضرت عمار بن یاسر کا یہ قول مروی ہے کہ خوان اترا تھا، پھر جن لوگوں نے نافرمانی کی وہ دنیا ہی میں عذاب کے شکار ہوئے۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر حدیث نمبر 3-61) واللہ اعلم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 علما کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ خوان اترا یا نہیں ؟ اکثر علما کا قول یہ ہے کہ وہ اترا اور یہی بات صحیح بھی ہے۔ (شوکانی) لیکن نظم قرآن دونوں کو متحمل ہے کسی ایک معنی میں صاف نہیں رہی حدیث غمار جس میں ہے کہ مائدہ نازل ہوا سو اس کا وقف صحیح ہے۔ ترجمان) باقی رہے یہ کوائف کہ خوان کیسے اترا، کتنا بڑ تھا اور اس پر کون کون سے کھانے تھے تو اس بارے میں کوئی بات صحت کے ساتھ ثاتب نہیں (قرطبی)4 یہ عذاب دنیا میں بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت عمار کے حدیث میں ہے کہ خوان کے اتر نے کے بعد انہوں نے ناشکری اور خیانت کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر اور خنزیر بنادیا۔ (دیکھئے آیت 78) اور آخرت میں بھی جیسا کہ عبد اللہ بن عمر نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن سے سے سخت عذاب ہو (1) منافقین (2) اصحاب مائدہ میں سے جنہوں نے کفر کیا، اور (3) آل فرعون دیکھئے نسا آیت 145 (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب اپنے فوائد میں لکھتے ہیں شاید حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی اس دعا کا اثر ہے کہ اس کی امت آسودگی مال ہمیشہ رہی اور جوئی ان میں ناشکری کرے تو شاید آخرت میں سب زیادہ عذاب پاوے اس میں مسلمانوں کے لیے عبرت ہے کہ اپنا مد عا خرق عادت کی کی راہ سے طلب نہ کریں کیونکہ اس کی شکر گزاری بہت مشکل ہے اسباب ظاہری پر قناعت کریں تو بہتر ہے اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حرایت کی پیش نہیں جاتی۔ (ماخوذاز مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ناحق شناسی کرے گا یعنی حقوق واجب عقلا ونقلا ادا نہ کرے گا مجموعہ ان حقوق کا یہ تھا کہ اس پر شکر کیا جائے کہ عقلا بھی واجب اور اس میں خیانت نہ کریں اور اگلے دن کے لیے اٹھا نہ رکھیں چناچہ اس کا حکم ہونا ترمذی کی حدیث میں عمار بن یاسر سے منقول ہے اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ مائدہ آسمان سے نازل ہوا اس میں روٹی اور گوشت تھا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ان لوگوں یعنی بعض نے خیانت کی اور اگلے دن کے لیے اٹھا کر رکھا پس بندر اور خنزیر کی صورت میں مسخ ہوگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

115 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا یقینا میں تم پر وہ کھانے کا خوان اتارنے والا ہوں مگر دیکھو جو شخص اس نزول مائدہ کے بعد تم میں سے ناسپاسی اور ناشکری کا مرتکب ہوگا تو میں اس کو ایسی سخت سزا دوں گا اور ایسا عذاب کروں گا کہ ویسا عذاب اقوام عالم میں سے کسی اور کو نہ کروں گا۔