Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 116

سورة المائدة

وَ اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالَ سُبۡحٰنَکَ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اَقُوۡلَ مَا لَیۡسَ لِیۡ ٭ بِحَقٍّ ؕ؃ اِنۡ کُنۡتُ قُلۡتُہٗ فَقَدۡ عَلِمۡتَہٗ ؕ تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۱۶﴾

And [beware the Day] when Allah will say, "O Jesus, Son of Mary, did you say to the people, 'Take me and my mother as deities besides Allah ?'" He will say, "Exalted are You! It was not for me to say that to which I have no right. If I had said it, You would have known it. You know what is within myself, and I do not know what is within Yourself. Indeed, it is You who is Knower of the unseen.

اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالٰی فرمائے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں ، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کو کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں ، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا ، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا ۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

`Isa Rejects Shirk and Affirms Tawhid Allah says; وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ ... And (remember) when Allah will say (on the Day of Resurrection): Allah will also speak to His servant and Messenger, `Isa son of Maryam, peace be upon him, saying to him on the Day of Resurrection in the presence of those who worshipped `Isa and his mother as gods besides Allah, ... يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ ... O `Isa, son of Maryam! Did you say unto men: `Worship me and my mother as two gods besides Allah!' This is a threat and a warning to Christians, chastising them in public, as Qatadah and others said, and Qatadah mentioned this Ayah as evidence, هَذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ "This is a Day on which the truthful will profit from their truth." (5:119) Allah's statement, ... قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ... He will say: "Glory be to You! It was not for me to say what I had no right (to say)... contains Allah's direction for `Isa to utter the perfect answer. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said, "`Isa will be taught his argument in reply to what Allah will ask him, وَإِذْ قَالَ اللّهُ يَاعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ مِن دُونِ اللّهِ (And (remember) when Allah will say (on the Day of Resurrection): "O `Isa, son of Maryam! Did you say unto men: `Worship me and my mother as two gods besides Allah!')." Abu Hurayrah then narrated that the Prophet said that Allah taught `Isa to say, سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ Glory be to You! It was not for me to say what I had no right (to say)... Ath-Thawri narrated this Hadith from Ma`mar from Ibn Tawus from Tawus. `Isa's statement, ... إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ... Had I said such a thing, You would surely have known it. means, had I said it, You, my Lord, would have known it, for nothing escapes Your knowledge. Rather, I have not said these words nor did the thought even cross my mind, this why he said, ... تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّمُ الْغُيُوبِ

روز قیامت نصاریٰ کی شرمندگی جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی ، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے؟ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں ۔ حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت ( هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ) 5 ۔ المائدہ:119 ) سے استدلال کر تے ہیں ۔ سدی فرماتے ہیں یہ خطاب اور جواب دینا ہی کافی ہے ، امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا ، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے ، دوسری دلیل آیت ( ان تعذبھم ) ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں ، پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے والے ہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے ، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے ، دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السلام کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برات ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں ، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے ، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو حضرت قتادہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہو چنانچہ ایک مرفوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے ، جسے حافظ ابن عساکر رحمتہ اللہ علیہ ابو عبداللہ مولی عمر بن عبدالعزیز کے حالات میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر حضرت عیسیٰ بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں جتلائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے ، انہیں یاد کر ، پھر فرمائے گا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا ، آپ اس کا بالکل انکار کریں گے ، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں گے ، ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا ، اسی لیے حضرت عیسیٰ کے سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے ، جنہیں لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی ، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا ، جناب عیسیٰ کے جواب کو دیکھئے کہ کس قدر باادب اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے ، آپ کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ آپ فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا ، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے ، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں ، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے ، جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبیلغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم و کاست میں نے ان سے کہدیا تھا ۔ جا کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو ، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے ، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیھکتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے ، ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک واعظ میں فرمایا اے لوگو تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر ، ننگے بدن ، بےختنہ جمع ہونے والے ہو ، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لوٹائیں گے ، سب سے پہلے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لائے جائیں گے جنہیں بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں ، کہا جائے گا ، آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے ، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ جب تک میں ان میں رہا ، ان کے اعمال پر شاہد تھا ، پس فرمایا جائیگا کہ آپ کے بعد یہ تو دین سے مرتد ہی ہوتے رہے ۔ اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اسکی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے ، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کر سکتا اور وہ ہر ایک سے باز پرس کرتا ہے ، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے ، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے ، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے ، جس میں ہے کہ پوری ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے ، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے ، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے ، وہ آیت یہی ہے صبح کو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ نے اسی ایک آیت میں گزاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی ، آپ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفات کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا ، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہو گی ، انشاء اللہ تعالیٰ ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے حضرت جرہ بنت دجاجہ عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں جب ربذہ میں پہنچتنی ہیں تو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ نماز میں مشغول ہیں تو آپ اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے ، جب جگہ خالی ہو گئی اور صحابہ چلے گئے تو آپ واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آ گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا ، میں دائیں جانب آ گیا ، پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آ کر بائیں جانب کھڑے ہو گئے ، اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کر رہے تھے اور حضور علیہ السلام کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی ، بار بار اسی کو پڑھ رہے تھے ، جب صبح ہوئی تو میں نے حضرت ابن مسعود سے کہا کہ ذرا حضور سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اگر حضور خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھو گا ، اب میں نے خود ہی جرات کر کے آپ سے دریافت کیا کہ حضور پر میرے ماں باپ فدا ہوں ، سارا قرآن تو آپ پر اترا ہے اور آپ کے سینے میں ہے پھر آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا ، آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا ، میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا ؟ آپ نے فرمایا اتنا اچھا ، ایسا پیارا ، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں ، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوش خبری پہنچا دوں؟ آپ نے اجازت دی ، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اگر یہ خبر آپ نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بےپرواہ نہ ہو جائیں تو آپ نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت ( ان تعذبھم ) الخ ، تھی ابن ابی حاتم میں ہے حضور نے حضرت عیسیٰ کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے میرے رب میری امت اور آپ رونے لگے ، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ، حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ کہدو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور آپ بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے ، مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ہی نہیں یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ آئیں گے ہی نہیں ، پھر آپ تسریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئی ہو؟ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تیری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام ہیں تجھے اختیار ہے ، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا اے نبی میں آپ کو آپ کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا ، سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں ، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لئے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے ، چنانچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا ، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا ، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا ، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں ، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب مغلوب ہو جائیں گے ، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے ، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے ، مجھے اس نے عزت ، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہینہ بھر کی راہ پر چلتا ہے ، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا ، میرے اور میری امت کے لئے غنیمت کا مال حلال طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں رکھی گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

116۔ 1 یہ سوال قیامت والے دن ہوگا اور مقصد اس سے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنالینے والوں کی زجر و توبیخ ہے کہ جن کو تم معبود اور حاجت روا سمجھتے تھے، وہ تو اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت مریم (علیہا السلام) کو بھی اللہ (معبود) بنالیا ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ من دون اللہ اللہ کے سوا معبود وہی نہیں ہیں جنہیں مشرکین نے پتھر یا لکڑی کی مورتیوں کی شکل میں بنا کر ان کی پوجا کی جس طرح کہ آج کل کے قبر پرست علماء اپنے عوام کو یہ باور کرا کے مغالطہ دیتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے نزدیک بندے بھی من دون اللہ میں شامل ہیں جن کی لوگوں نے کسی بھی انداز سے عبادت کی جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم کی عیسائیوں نے کی۔ 116۔ 2 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرما رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٦] مریم کی خدائی کی آغاز کب ہوا ؟ سیدہ مریم کو خدائی مقام عطا کرنا اور اس کی پوجا پاٹ کا عقیدہ، عقیدہ تثلیث سے بھی بعد کی پیداوار ہے۔ عقیدہ تثلیث میں خدا یہ تھے۔ اللہ، عیسیٰ اور روح القدس اور یہ عقیدہ چوتھی صدی عیسوی میں سرکاری طور پر رائج ہوا۔ جبکہ سیدہ مریم کے خدا ہونے کا عقیدہ پانچویں صدی عیسوی کی ایجاد ہے۔ سیدہ مریم کو مادر خدا ہونے کے لقب سے نوازا گیا اور یہ عقیدہ اتنا عام ہوا کہ پہلے تین خداؤں پر چھا گیا۔ سیدہ مریم کو دیوی کا درجہ دے کر ان کے مجسمے اور تصویریں بنائی گئیں جو آج تک عیسائیوں کے گرجوں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور عیسائی حضرات اس کے آگے سر نیاز خم کرتے ہیں۔ عیسائی حکومتوں کے قومی جھنڈے پر سیدہ مریم کی تصویر بنائی جاتی۔ دور نبوی میں جو ہرقل شاہ روم تھا اس کے جھنڈے پر بھی یہ تصویر موجود تھی اور جنگ کے دوران اسی کے وسیلہ سے فتح و نصرت کی دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ [١٦٧] قیامت کے دن سیدنا عیسیٰ سے ان کی الوہیت کے متعلق تین سوال :۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو مذکورہ بالا احسانات یاد دلانے کے بعد ان سے یہ پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے بجائے مجھے اور میری ماں کو الٰہ بنا لینا اور اپنی تمام حاجات ہم سے طلب کرنا۔ کیا میرے احسانات کا یہی بدلہ تھا ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) نہایت عاجزی سے جواب دیں گے کہ یا اللہ میں ایسی بات کیوں کر کہہ سکتا تھا جو میرے لیے سزاوار ہی نہ تھی علاوہ ازیں تو تو چھپی اور علانیہ سب باتوں کو خوب جانتا ہے اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو یقینا تیرے علم میں ہوتی۔ واضح رہے کہ قیامت کے دن کا یہ مکالمہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہوجائے بلکہ یہ سیدنا عیسیٰ کے ان پیرو کاروں کی تہدید اور سرزنش کے لئے بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے آپ کے بعد انہیں اور ان کی والدہ کو الٰہ بنا لیا تھا تاکہ ان کے خلاف ان کے رسول ہی کی شہادت قائم ہوجائے جس کی وہ پرستش کرتے رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ۔۔ : اس کا تعلق اوپر کی آیت : (اِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِيْ ) کے ساتھ ہے، گویا پہلے بطور تمہید عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے انعامات شمار کیے اور اب اصل مقصد شروع ہو رہا ہے۔ یہ سوال قیامت کے دن ہوگا، کیونکہ آگے چل کر آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : (هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ ) اس خطاب سے مقصود عیسیٰ (علیہ السلام) کو ڈانٹنا نہیں ہوگا، بلکہ ان کو ڈانٹنا مقصود ہوگا جنھوں نے مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو معبود بنا لیا۔ تاکہ وہ جان لیں کہ انھوں نے جس مسیح اور اس کی ماں کو معبود اور حاجت روا بنایا وہ تو خود اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے اور امت کے شرک کی وجہ سے ان سے باز پرس ہوگی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نصرانیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی والدہ کو بھی معبود بنا لیا، تیسری یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ بھی ” ِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ ( اللہ کے سوا) ہیں، صرف پتھر یا لکڑی یا کسی دھات کے بنے ہوئے بت ہی ” ِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ نہیں، جنھیں پکارنے سے آدمی مشرک ہوجاتا ہے، جیسا کہ آج کل کے قبر پرست لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ نہیں، ان سے مرادیں مانگنا اور فریاد کرنا جائز ہے، یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ ” ِمِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ میں مسیح (علیہ السلام) ، ان کی والدہ ماجدہ اور تمام انبیاء و صلحاء شامل ہیں، ان میں سے کسی کو حاجت روا، مشکل کشا اور خدائی اختیارات کا مالک سمجھنا صاف شرک اکبر ہے، جس کی اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی ہے ہی نہیں۔ سُبْحٰنَكَ : تو ہر شریک سے پاک ہے، پھر میں اور میری والدہ تیرے شریک کیسے ہوسکتے ہیں۔ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ ۔۔ : یعنی میں تو تیرے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں، پھر بندے کی کیا مجال کہ اپنے آقا کے مقابلے میں خدائی کا دعویٰ کرے۔ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ۭ: یعنی بالفرض میں نے ایسی کوئی بات کہی بھی ہو تو تجھے ضرور اس کا علم ہوگا، کیونکہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ ۔۔ : جب تو میرے دل کی بات جانتا ہے تو زبان سے نکالی ہوئی کیوں نہ جانے گا ؟ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے نفس ثابت ہوتا ہے۔ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ : تیرے سوا کسی کو علم غیب نہیں، جس بندے کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب تیرا ہی عطا کردہ ہے، کسی اور کا علم تیرے علم کے مقابلے میں اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی سمندر کے مقابلے میں پانی کا ایک قطرہ اور جسے اتنا ہی علم ہو جو اسے بتایا گیا ہے وہ عالم الغیب نہیں، عالم الغیب تو وہ ہے جو کسی کے بتائے بغیر سب کچھ جانتا ہے اور وہ فقط تیری ذات پاک ہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Important Notes 1. In the first verse (116), the question asked and the answer given by Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) establishes that Allah alone has the full knowledge of everything, therefore, He is not asking Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) because He does not know. In fact, the purpose is to admonish his people who call them Christians that the one they are taking to be god is himself confessing to his servitude quite contrary to the belief they hold - and that he is free of all their accusations. (Ibn Kathir) 2. About the sentence: فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّ‌قِيبَ عَلَيْهِمْ (And when You picked me up You were the One watching over them) in verse 117, a de-tailed discussion of the subject of the ` death& or ` having been raised to-ward Allah& has appeared in the Commentary on Surah Al-&Imran un¬der verse 3:55: إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَ‌افِعُكَ (I am to take you in full and lift you towards Me). It may be seen there [ Ma` ariful-Qur&an, English Translation, Volume II, pages 76-81]. As for using the verse 117 : فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ` falamma taw¬affaitani) to reject his ascension to heavens and to establish his natu¬ral death is not a sound inference, because the time of this conversa¬tion shall be the day of Qiyamah - and at that time, after he has descended down from the heaven, he would have had his natural and real death. Therefore, as reported by Ibn Kathir on the authority of a narration from Sayyidna Abu Musa al-Ash` ari (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: On the day of Qiyamah, the prophets and their communi¬ties will be summoned. Then, Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) will be called. Then, Allah Ta` ala will remind him of His blessings and drawing him closer, He will say, ` O ` Isa son of Maryam: اذْكُرْ‌ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ Remember My blessing upon you and upon your mother.& Then, in the end, He would say: يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ : ( O ` Isa son of Maryam, did you say to the people: Take me and my mother as gods beside Al¬lah?). Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) will deny it saying that he did not. Then, the ques¬tion will be asked from the Christians. They will say, ` yes, this is what he had ordered us to do.& After that, they will be driven towards Hell.

خلاصہ تفسیر اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ (قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کفار نصاریٰ کے سنانے کے لئے) فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ ابن مریم (ان لوگوں میں جن کا عقیدہ تثلیث کا تھا، یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہما السلام) کو شریک الوہیت مانتے تھے تو) کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو) اور میری ماں (حضرت مریم علیہما السلام) کو بھی علاوہ خدا کے معبود قرار دے دو تو عیسیٰ (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ (توبہ توبہ) میں تو (خود اپنے عقیدہ میں) آپ کو (شریک سے) منزّہ سمجھتا ہوں (جیسا کہ آپ واقع میں بھی منزّہ (پاک) ہیں ایسی حالت میں) مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں (نہ باعتبار اپنے عقیدے کے کہ میں موحّد یعنی ایک خدا کا قائل ہوں اور نہ باعتبار پیغامِ الٓہی پہنچانے کے کہ مجھ کو ایسا کوئی پیغام نہیں دیا گیا تھا، اور دلیل میری اس نہ کہنے کی یہ ہے کہ) اگر میں نے (واقع میں) کہا ہوگا تو آپ کو اس کا (یقینا) علم ہوگا (مگر جب آپ کے علم میں بھی میں نے نہیں کہا تو واقع میں بھی نہیں کہا اور کہنے کی صورت میں آپ کو اس کا علم ہونا اس لئے ضروری ہے کہ) آپ تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتے ہیں (تو جو زبان سے کہتا اس کا علم تو کیوں نہ ہوتا) اور میں (تو مثل دیگر مخلوقات کے اتنا عاجز ہوں کہ) آپ کے علم میں جو کچھ ہے اس کو (بدون آپ کے بتلائے ہوئے) نہیں جانتا (جیسے دیگر مخلوقات کا بھی یہی حال ہے پس) تمام غیبوں کے جاننے والے آپ ہی ہیں (سو جب اپنا اس قدر عجز اور آپ کا کمال مجھ کو معلوم ہے تو الوہیت میں شرکت کا دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں، یہاں تک تو اس بات کے کہنے کی نفی ہوئی، آگے اس کی نقیض کے کہنے کا اثبات ہے کہ) میں نے تو ان سے (اور کچھ نہیں کہا، صرف وہی بات) جو آپ نے مجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرو جو میرا بھی رب ہے، اور تمہارا بھی رب ہے، اور (یہاں تک تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی حالت کے متعلق عرض کیا، آگے ان لوگوں کی حالت کے متعلق عرض کرتے ہیں کیونکہ ءَاَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ میں گو تصریحاً تو سوال اس کا ہے کہ آپ نے ایسا کلمہ کہا ہے یا نہیں، لیکن اشارةً اس کا بھی سوال معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ تثلیث کہاں سے پیدا ہوا پس عیسیٰ (علیہ السلام) اس باب میں یوں عرض کریں گے کہ) میں ان (کی حالت) پر مطلع رہا جب تک ان میں (موجود) رہا (سو اس وقت تک کا حال تو میں نے مشاہدہ کیا ہے اس کے متعلق بیان کرسکتا ہوں) پھر جب آپ نے مجھ کو اٹھا لیا (یعنی اوّل بار میں تو زندہ آسمان کی طرف اور دوسری بار میں وفات کے طور پر) تو (اس وقت صرف) آپ ان (کے احوال) پر مطلع رہے (اس وقت مجھ کو خبر نہیں کہ ان کی گمراہی کا سبب کیا ہوا اور کیونکر ہوا) اور آپ ہر چیز کی پوری خبر رکھتے ہیں (یہاں تک تو اپنا اور ان کا معاملہ عرض کیا آگے ان کے اور حق تعالیٰ کے معاملات کے متعلق عرض کرتے ہیں کہ) اگر آپ ان کو (اس عقیدہ پر) سزا دیں تو (جب بھی آپ مختار ہیں، کیونکہ) یہ آپ کے بندے ہیں (اور آپ ان کے مالک، اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو ان کے جرائم پر سزا دے) اور اگر آپ ان کو معاف فرما دیں تو (جب بھی آپ مختار ہیں کیونکہ) آپ زبردست (قدرت والے) ہیں (تو معافی پر بھی قادر ہیں اور) حکمت والے (بھی) ہیں (تو آپ کی معافی بھی حکمت کے موافق ہوگی، اس لئے اس میں بھی کوئی برائی نہیں ہوسکتی، مطلب یہ ہے کہ دونوں حال میں آپ مختار ہیں میں کچھ دخل نہیں دیتا) (غرض عیسیٰ (علیہ السلام) نے معروض اوّل سُبْحٰنَكَ الخ میں اپنی تبرّی ان اہل تثلیث کے عقیدے سے اور اس کی تعلیم سے، دوسری عرض وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ الخ میں اپنی تبرّی ان کے اس عقیدہ کے مفصل سبب جاننے تک سے، اور عرض سوم اِنْ تُعَذِّبْهُمْ الخ میں اتنی تبرّی ان کے باب میں کوئی تحریک کرنے تک سے ظاہر کردی، اور یہی مقصود تھا حق تعالیٰ کا عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان مخاطبات سے، پس ان میں ان کفار کو پوری زجر اپنی نادانی پر اور حسرت اپنی ناکامی پر ہوگی) ۔ معارف و مسائل فوائد مہمہ قولہ تعالیٰ وَاِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الخ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والے ہیں، لہذا عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال اس لئے نہیں فرما رہے کہ ان کو معلوم نہیں ہے، بلکہ اس سے مقصود ان کی قوم نصاریٰ کی ملامت اور سرزنش ہے کہ جس کو تم الٓہ مان رہے ہو وہ خود تمہارے عقیدے کے خلاف اپنی عبدیت کا اقرار کر رہا ہے، اور تمہارے بہتان سے وہ بری ہے (ابن کثیر) فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی موت یا رفع الی السّماء وغیرہ کی بحث سورة آل عمران میں (آیت) انی متوفیک ورفعک کے تحت گزر چکی ہے، وہاں ملاحظہ کیا جائے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ اس آیت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت اور رفع الی السّماء کے انکار پر استدلال صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ یہ گفتگو قیامت کے روز ہوگی، اور اس وقت آسمان سے نزول کے بعد آپ کو موت حقیقی حاصل ہوچکی ہوگی، چناچہ ابن کثیر نے بروایت ابو موسیٰ اشعری ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب قیامت کا روز ہوگا تو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتیں بلائی جائیں گی، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، اور ان کو نزدیک کرکے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بیٹے مریم کے (آیت) اذکر نعمتی علیک وعلی والدتک۔ عیسیٰ (علیہ السلام) انکار کریں گے کہ پروردگار میں نے نہیں کہا ہے، پھر نصاریٰ سے سوال ہوگا تو یہ لوگ کہیں گے کہ ہاں اس نے ہم کو یہی حکم دیا تھا، اس کے بعد ان کو دوزخ کی طرف ہانکا جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ۝ ٠ۤ بِحَقٍّ۝ ٠ۭ۬ اِنْ كُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ۝ ٠ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ۝ ٠ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۝ ١١٦ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٦) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کفار نصاری کو سنانے کے لیے یہ فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) کیا تو نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود بنا لو تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کریں گے کہ میں تو شرک سے اپنے آپ کو پاک سمجھتا ہوں میرے لیے تو کسی بھی صورت میں یہ مناسب نہیں تھا کہ میں شرک کی ایسی بات کہتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب یہ اس پیشی کا آخری منظر ہے اور اس کا انداز بہت سخت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

130. The Christians were not content merely with deifying Jesus and the Holy Spirit. They even turned Mary, the mother of Jesus, into a full-fledged object of worship. The Bible does not contain even the remotest suggestion that Mary was in any way either divine or superhuman. During the first three centuries after the Messiah, such a concept was totally alien to Christian thinking. Towards the end of the third century of the Christian era, however, some theologians of Alexandria employed, for the first time, the expression 'Mother of God' in connection with Mary. Subsequently, belief in Mary's divinity and the practice of Mariolatry began to spread among Christians. Even then, however, the Church was not prepared to accord official approval to this belief and denounced the Mariolaters as heretics. It was not until the Council of Ephesus in 431 that the Church officially used the expression 'Mother of God' for Mary. The result was that Mariolatry began to spread fast within the Church itself, so much so that, by the time of the revelation of the Qur'an, Mary had become so important a deity that she obscured even the Father, the Son and the Holy Ghost. Statues of Mary adorned the cathedrals. She became the object of rites and worship. People addressed their prayers to her. She was regarded as the one who responded to people's supplications, who heeded people's grievances and complaints, who relieved them in distress, who provided support and succour to the helpless. For a devout Christian there could be no greater source of comfort and inner strength than the belief that he enjoyed the support and patronage of the 'Mother of God'. In the preamble of his code, Justinian had declared Mary to be the defender and supporter of his empire, and his general, Marses, sought Mary's guidance on the battlefield. Heraclius, a contemporary of the Prophet (peace be on him), had a picture of Mary on his standard and he was confident that by her grace the standard would never be lowered. Several centuries later the Protestants argued strongly against Mariolatry during the movement which led to the Reformation. The Roman Catholic Church has, nevertheless, managed so far to cling to Mariolatry in one form or another.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :130 عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح اور روح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ مسیح کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کو بھی ایک مستقل معبود بنا ڈالا ۔ حضرت مریم علیہا السلام کو اُلُوہیّت یا قُدُّوسیّت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائیبل میں موجود نہیں ہے ۔ مسیح کے بعد ابتدائی تین سو برس تک عیسائی دنیا اس تخیل سے بالکل ناآشنا تھی ۔ تیسری صدی عیسوی کے آخری دور میں اسکندریہ کے بعض علماء دینیات نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کے لیے ”اُمّ اللہ“ یا ” مادر خدا“ کے الفاظ استعمال کیے ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اُلُوہیّت مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا ۔ لیکن اول اول چرچ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا ۔ پھر جب نَسطُوریَس کے اس عقیدے پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جداگانہ شخصیتیں جمع تھیں ، مسیحی دنیا میں بحث و جدال کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کے لیے سن ٤۳۱ میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی ، اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کے لیے ”مادر خدا“ کا لقب استعمال کیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ، حتٰی کہ نزول قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس تینوں ان کے سامنے ہیچ ہوگئے ۔ ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں رکھے ہوئے تھے ، ان کے آگے عبادت کے جملہ مراسم ادا کیے جاتے تھے ، انہی سے دعائیں مانگی جاتی تھیں ، وہی فریاد رس ، حاجت روا ، مشکل کشا اور بکسیوں کی پشتیبان تھیں ، اور ایک مسیحی بندے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ اعتماد اگر کوئی تھا تو وہ یہ تھا کہ ” مادر خدا“ کی حمایت و سرپرستی اسے حاصل ہو ۔ قیصر جَسٹِینَن اپنے ایک قانون کی تمہید میں حضرت مریم علیہا السلام کو اپنی سلطنت کا حامی و ناصر قرار دیتا ہے ۔ اس کا مشہور جنرل نرسیس میدان جنگ میں حضرت مریم علیہا السلام سے ہدایت و رہنمائی طلب کرتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمعصر قیصر ہِرَقْل نے اپنے جھنڈے پر ”مادر خدا“ کی تصویر بنا رکھی تھی اور اسے یقین تھا کہ اس تصویر کی برکت سے یہ جھنڈا سرنگوں نہ ہوگا ۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں تحریک اصلاح کے اثر سے پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے مریم پرستی کے خلاف شدت سے آواز اٹھائی ، لیکن رومن کیتھولک کلیسا آج تک اس مسلک پر قائم ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

79: عیسائیوں کے بعض فرقے توحضرت مریم (رض) کو تثلیث کا ایک حصہ قرار دے کر انہیں معبود مانتے تھے اور دوسرے بعض فرقے اگرچہ انہیں تثلیث کا حصہ قرار نہیں دیتے تھے لیکن جس طرح ان کی تصویر کلیساؤں میں آویزاں کرکے اس کی پرستش کی جاتی تھی وہ بھی ایک طرح سے ان کو خدائی میں شریک قرار دینے کے مرادف تھی اس لئے یہ سوال کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(116 ۔ 120) ۔ یہاں سے آخر سوہ تک اللہ تعالیٰ نے نصاری کے الزام دینے اور قائل کرنے کو یہ آیتیں نازل فرمائی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا میں رہے نصاری کو توحید سکھاتے رہے اور نگرانی کرتے رہے کہ سوا توحید کے اور کوئی بدعت اور نئی بات ان کی امت میں پیدا نہ ہو ان کے آسمان پر چلے جان کے بعد تثلث اور شرک کی باتیں جو نصارٰی نے اپنے دین میں پھیلالیں اور ان باتوں کو اللہ کا حکم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم خیال کرتے ہیں اور باوجود یکہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کو دنیا میں اس قسم کی خرابیاں رفع کرنے کی غرض سے بھیجا اور نبی آخر الزمان نے نصاریٰ کے علماء اور بڑے بڑے پادریوں سے بحث کی اور ان کو قائل کیا اور باوجودیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وصیت تھی کہ ان کی امت کے سب لوگ نبی آخر الزمان کی پوری اطاعت کریں لیکن نصاریٰ نے نہ ان کفر کی باتوں کو چھوڑا جو حضرت عیسیٰ کے بعد انہوں نے دین عیسوی میں ایجاد کرلی تھیں اور نہ نبی آخر الزمان کی اطاعت قبول کی اس لئے نصاریٰ کی اس غلطی کو تمام خلقت الٰہی پر ظاہر ہوجانے کی غرض سے تمام خلقت کے مجمع میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) کیا تم نے اپنی امت کے لوگوں کو اس تثلیث کی تعلیم دی تھی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صاف جواب دیں گے کہ میں نے تو ان کو توحید کی تعلیم دی تھی اور جب تک میں دنیا میں رہا ان کو توحید کی تاکید کرتا رہا میرے پیچھے انہوں نے یہ تثلیت ایجاد کرلی ہے اور بلا شک یہ فعل انکا لائق عذاب ہے اب یا اللہ تو مالک ہے کہ ان پر عذاب کرے یا اپنی رحمت سے ان کی مغفرت کردے اگرچہ اسماعیل سدی کبیر نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو زمین پر سے آسمان پر اٹھالیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد ان کی امت میں یہ تثلیث کا مسئلہ پھیلا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سوال حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے کیا تھا قیامت کے دن کا یہ سوال نہیں ہے لیکن قتادہ (رض) نے اس کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ان آیات میں آگے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” آج کے دن سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا “ یہ قیامت کے دن کا حال ہے ١ ؎ قتادہ اہل مدینہ میں ہیں اور سعید بن جبیر کے واسطے سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں اور سدی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے تفسیر میں روایت کی ہے اور سلف اہل تفسیر کے نزدیک یہ بات قرار پا چکی ہے کہ صحابہ میں سے عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول تفسیر کے باب میں بہ نسبت دوسروں کے زیادہ مقبول ہے اس واسطے قتادہ (رض) کے قول کو زیادہ ترجیح ہے مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ ایک رات آنحضرت صبح تک اس آیت کو نماز میں پڑھتے رہے { ان تعذبھم فانہم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم } ابوذر (رض) کہتے ہیں صبح کو میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ہی آیت کے نماز میں پڑھنے کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس آیت کو گھڑی گھڑی پڑھ کر میں نے اللہ سے شفاعت کی التجا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے میری التجا قبول کرلی ہے انشاء اللہ میری امت میں سے جو شخص بغیر شرک کی حالت کے مرے گا اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی ٢ ؎ دوسرے روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری التجا قبول کرنے میں مجھ کو وہ بشارت دی ہے کہ اگر لوگوں کو وہ بشارت معلوم ہوجاوے تو لوگ نماز روزہ چھوڑ کر اسی بشارت کو اپنے حق میں اپنی نجات کے لئے کافی سمجھیں ١ ؎ صحیح مسلم میں اسی مضمون کی ایک روایت عبد اللہ بن عمر (رض) کی ہے ٢ ؎ جس سے ان روایتوں کو پوری تقویت ہوجاتی ہے بعض نصرانی علماء نے ان آیتوں کے متعلق یہ اعتراض کیا ہے کہ نصرانی لوگ مریم (علیہا السلام) کے خدا ہونے کے قائل نہیں ہیں پھر معلوم نہیں کہ ان آیتوں میں نصرانیوں کا یہ اعتقاد کیوں بیان کیا گیا ہے علماء اسلام نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ یہ اعتراض دو حال سے خالی نہیں یا تو اعتراض کرنے والے نصرانی علماء نے اپنے مذہب کو چھپایا ہے یا ان کو اپنے مذہب کی کتابوں سے ناواقفی ہے کیونکہ ١٨١٨ ئ؁ تک عیسائی مذہب کی جو کتابیں چھاپی گئی ان میں حضرت مریم (علیہا السلام) کی تصویر کو سجدہ کرنے کا ذکر موجود ہے اسی طرح مذہب عیسائی میں ایک نماز جواب تک جاری ہے جس کا نام صلوۃ المریم ہے اس کے لفظ یہ ہیں کہ اے آسمان کی بادشاہ سب فرشتے تجھ کو سجدہ کرتے اور تیرے نام کی تسبیح پڑہتے ہیں اس لئے ہم تجھ کو سجدہ کر کے اپنی نجات چاہتے ہیں “ اب ان قرآن پر غور کرنے والے عیسائیوں سے یہ بات دریافت طلب ہے کہ ان سب باتوں کے بعد حضرت مریم ( علیہ السلام) کو خدا ٹھہرانے میں کسی اور بات کی کسر رہ گئی ہو تو وہ بیان کی جاوے انجیل متی کے تیسرے اور چوتھے باب کے حوالہ سے یہ تو ایک جگہ اس تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب شیطان نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بہکایا اور اپنے آپ کو سجدہ کرانا چاہا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس ملعون کو یہی جواب دیا کہ سجدہ اور عبادت سوا اللہ کی ذات کے اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے اب سمجھ میں نہیں آتا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس ہدایت کے برخلاف مریم (علیہا السلام) کی تصویر کو سجدہ بھی کیا جاتا ہے اور پھر حضرت مریم (علیہا السلام) کو خدا ٹھہرانے کا اعتقاد سن کر قرآن پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے آخر یہ ماجرا ہی کیا ہے کسی عیسائی کو یہ ماجرا تفصیل سے بیان کرنا چاہیے جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے سوال کا یہ سچا جواب دیا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس سچے جواب کو پسند فرما کر یہ فرمایا کہ آج قیامت کے دن وہ دن ہے کہ دنیا میں جو لوگ احکام الٰہی کے سچے پابند رہے ان کی راست بازی کی جزا آج کے روز جنت اور اللہ کی رضا مندی ہے جس کے سبب سے وہ لوگ ہمیشہ جنت میں خوشحالی سے رہیں گے پھر فرمایا آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کی ہے اور کوئی چیز آسمان و زمین میں اس کی قدرت اور اس کے اختیار سے باہر نہیں اور یہ ایسی باتیں ہیں جو نہ عیسیٰ بن مریم میں پائی جاتی ہیں نہ ان کی ماں مریم میں پھر باوجود اس کے جن لوگوں نے ان دونوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اور وہ بڑی غلطی پر ہیں سورة ابراہیم میں آوے گا کہ قیامت کے دن شیطان بھی لوگوں سے سچ بولے گا اور یوں کہوے گا کہ میں نے تم لوگوں کو جن بہکاوے کی باتوں میں ڈال رکھا تھا وہ سب جھوٹ تھیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی معرفت تم سے جنت اور دوزخ کا وعدہ کیا تھا وہ ایسا سچ کہ آج تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے مگر اس ملعون کا یہ سچ بولنا اس کے کام نہ آوے گا کیونکہ قیامت کا دن دنیا کے نیک و بد عمل کی جزا سزا کا ہے نیک و بد عمل کرنے کا وہ دن نہیں اس واسطے { ھٰذَا یَوْم یَنْفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُہُمْ } کی یہی تفسیر صحیح ہے کہ دنیا میں جو لوگ احکام الٰہی کے سچے پابند رہیں گے ان کی یہ راست بازی قیامت کے دن ان کے کام آوے گی۔ یہ مطلب آیت کا نہیں ہے کہ دنیا کے جھوٹوں کو قیامت کے دن کی راست بازی فائدہ مند ہوگی۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث اوپر گذرچ کی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بردبار کون ہوگا کہ لوگ اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور وہ ان کی صحت اور ان کے رزق کا انتظام فرماتا ہے صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن امت محمدی میں سے بعض نافرمان لوگوں کو بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دینے کو فرشتے لیجاوینگے اس وقت میں ان لوگوں کے حق میں یہی کہوں گا جو عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی امت کے حق میں کہویں گے کہ { کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کَنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَھِیْدٌ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ١ ؎} یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں۔ کیونکہ ان آیتوں اور حدیثوں کے ملانے سے نافرمان لوگوں کا دین و دنیا دونوں جگہ کا حال کھل جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اس کا تعلق اوپر کی آیت واذقال اللہ یعیسی ابن مریم 1) کے ساتھ ہے گویا پہلے طور پر تمہید حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اپنے انعامات شمار کئے ہیں اور اب اصل مقصد شروع ہوا ہے یہ مخاطبہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھانے کے بعد یہ مکالمہ ہوچکا ہے مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ابتدا میں آیت کہ ما یحبع اللہ الرسول اور اخر میں ھذا یوم ینفع الصاد قین صدقھم سے جن سے تینا قیامت کا دن مراد ہے۔ ، ( کبیر، قرطبی) اس غرض بھی نصاریٰ کو تو بیح ہے، ( ابن کثیر ) 6 تیرا کوئی شریک نہیں پھر بھلا میں اور عمیری وعدہ تیرے شریک کیسے ہوسکتے ہیں۔7 یعنی میں تو تیرے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں پھر بندے کی کیا مجال کہا پنے آقا کے مقابلہ میں خدائی کا دعویٰ کرے8 یعنی بالفرض میں نے ایسی کوئی بات کہی ہو تو تجھے اس کا ضرور علم ہوگا کیونکہ تجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی9 تو زبان سے نکلا ہوئی بات کیوں نہ جانے گا !10 تیرے سوا کسی کو علم غیب نہیں جس بندے کے پاس جو بھی علم ہے وہ سب تیرا عطاکردہ ہے اور کسی کا علم تیرے علم کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنی سمندر کے مقابلہ میں پانی کا یاک قطرہ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 16 ۔ آیات 116 تا 120 ۔ اسرارو معارف : پھر اسی بھرے میدان میں سوال ہوگا اے عیسیٰ ! کیا آپ نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ آپ کو اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بھی اللہ کے علاوہ دو الہ مان لیں ، یعنی جو کچھ ہم دین سمجھ کر کرتے ہیں اس پر انبیاء کی شہادت ہوگی اگر انہوں نے ذمہ داری قبول فرمائی کہ ان کا یہ فعل میری کسی ہدایت کے مطابق تھا یا کسی حکم کی تائید کرا تھا۔ جیسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں نہ دینی مدارس تھے نہ نصاب نہ یہ موجودہ کتب حدیثیں لوگوں کے پاس متفرق تھیں کسی کے پاس لکھی ہوئی اور اکثر زبانی مگر پڑھنے پڑھانے علم حاصل کرنے کا حکم موجود ہے اب ان کتب یا مدارس میں کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو کسی شرعی حکم کے کے خلاف ہو تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کی تعمیل ہی کی صورت پیدا کرتے ہیں مگر یہ عرس اور گیارھویں وغیرہ تقریبات کے نام پر راگ رنگ کی مجلسیں اور ان سے ثواب کی امید یہ ہرگز دین نہیں ہاں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبول فرما لیں کہ میں نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے پھر دین ہے اور انبیاء خلاف دین کوئی حکم نہیں دیا کرتے لہذا رسومات کو دین ثابت کرنا مشکل میں پھنسا دے گا جیسے یہاں نصاری کو پریشانی ہوگی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قاعدے کی بات عرض کریں گے اللہ ! مجھے تو یہ زیب ہی نہیں دیتا تھا کہ میں کوئی بھی ایس بات کروں جو حق اور صداقت کے خلاف ہو اور جس کا کہنے کا مجھے اختیار ہی نہ دیا گیا ہو اگر میں ایسا کہتا تو اللہ ! آپ تو خوب جاننے والے ہیں آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ آپ تو میرے دل کی گہرائی تک سے واقف ہیں اور میں تو آپ کے علوم سے سوائے اس کے کہ جو آپ بتا دیں کچھ بھی نہیں جان سکتا اس لیے کہ آپ غیب کے جاننے والے ہیں یعنی بغیر کسی سبب کے جاننا آپ کا خاصہ ہے اور ساری مخلوق وہی کچھ جان سکتی ہے جس کی اطلاع آپ فرما دیتے ہیں۔ میں نے انہیں ضرور کہا مگر وہی کہا جس کا آپ نے حکم دیا یعنی تعلیمات نبوت کبھی اللہ کی رضا اور اس کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہوتیں اس لیے اگر حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو ضرور کتاب اللہ سے اس کی تائید بھی مل جائے گی لہذا میں نے انہیں یہ کہا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی ہمیں پیدا بھی اسی نے کیا ہے زنگہ بھی وہی رکھے ہوئے ہے اور تمام ضروریات بھی وہی پوری فرما رہا ہے اور اللہ تو سب سے اچھا گواہ ہے جب تک میں ان میں موجود تھا میں نے انہیں یہی تعلیم دی لیکن جب آپ نے اٹھا لیا تو پھر ان کی خبر رکھنا تو آپ ہی کا کام تھا بندہ تو بہرحال بندہ ہے جہاں ہوگا وہاں کی بات کرے گا اور بیک وقت ہر جگہ ہر چیز پہ نگاہ ہونا یہ تو آپ ہی کی شان ہے کہ آپ ہی ہر آن ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں اب اگر آپ انہیں عذاب کرنا چاہیں تو آپ کے بندے ہیں آپ کی مخلوق ہیں آپ نے انہیں پیدا فرمایا دنیا میں رکھا نعمتیں دیں راحتیں دیں پیار دیا۔ چاہیں تو عذاب دیں آپ کے بندے ہیں ہم اس بارہ میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہیں اور اگر معاف کردیں بخش دیں تو بھی کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کہ آپ غالب ہیں عزیز ہیں یہ آپ سے نہ بھاگ سکتے ہی نہ مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ آپ کا بخش دینا بھی آپ کی حکمت ہی کے تحت ہوگا جیسے کہ اگر عذاب دیں گے تو عذاب دینا ہی عین حکمت ہوگی۔ ارشاد ہوگا لوگو ! آج سچائی کا دن ہے آخرت کا دن ہے حساب کتاب کا دن ہے آج سچوں کو ان کا سچ مخلصین کو ان کا خلوص کام آئے گا۔ آج ہیرا پھیری جھوٹ موٹ مکر و فریب کچھ نہیں چل سکے گا ہاں صدق اور خلوص سے محنت اور ہمت کرنے والوں سے اگر بحیثیت انسان کوئی کمزوری بھی رہ گئی ہوگی تو مغفرت باری ، شفاعت رسالت یا نیک بندوں یا اعمال صالح یا چھوٹی اولاد کے طفیل بچ نکلے گا اور صرف ایسے لوگ اس عظیم الشان مقام کو پا سکیں گے بہاریں جس کی قیدی ہیں اور پھر وہاں ہمیشہ ایسی عزت اور اس شان سے رہیں گے کہ اللہ ان سے راضی ہوگا اور انہیں کبھی شکایت پیدا نہ ہوگی ہمیشہ اللہ پر راضی رہیں گے اور یہی اصل اور بہت بڑی کامیابی ہے جن میں خلوص نہیں یا جہاں صدق نہ ہوگا ان کا ذکر ہی یہاں نہیں لایا گیا کہ انہیں بھول جاؤ، وہ جانیں اور ان کا رب وہ ان سے نپٹ لے گا اور یہ تو تم سب کو خبر ہے کہ ارض و سماء ہوں یا ان میں کوئی اور دنیا ہو سب پر حکومت بھی اللہ کی ہے اور اس کی واحد ملکیت بھی ہے اور وہ سب کچھ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے جو چاہے کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ سورة مائدہ ختم ہوئی

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 116 تا 118 لغات القرآن : ءانت (کیا تو نے) ۔ قلت (تو نے کہا تھا) ۔ اتخذونی (مجھے بنا لو) ۔ امی (میری ماں) ۔ الھین (دونوں معبود ) ۔ سبحنک (تیری ذات پاک ہے۔ بےعیب ہے) ۔ مایکون (نہیں ہے) ۔ لیس (نہیں ہے) ۔ لا اعلم (میں نہیں جانتا) ۔ امرتنی (تو نے مجھے حکم دیا تھا) ۔ مادمت (جب تک میں رہا) ۔ حی (زندہ) ۔ فلما (پھر جب) ۔ توفیت (تو نے اٹھالیا) ۔ الرقیب (نگران، نگہبان) ۔ ان تعذب (اگر تو نے عذاب دیا) ۔ عبادک (تیرے بندے) ۔ ان تغفر (اگر تو نے معاف کردیا) ۔ تشریح : یہ سوالات قیامت کے دن پوچھے جائیں گے جب کہ تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کے ساتھ موجود ہوں گے۔ یہ سوال و جواب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اس لئے ہوگا کہ ان کی تمام امت سن لے کہ تثلیث کا عقیدہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے نہیں آیا ہے۔ یہ عقیدہ سیکڑوں سال کے بعد گھڑا گیا ہے۔ اور خود وہ جسے لوگوں نے تین معبودوں میں سے ایک اور اللہ کا بیٹا بنا لیا ہے۔ اس قسم کے واہیات خرافات سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ اس دھمکی کے بعد جو پچھلی آیت میں خوان نعمت کے سلسلہ میں اللہ نے امت عیسوی کو دی ہے، اب کون سا جواز رہ جاتا ہے کہ وہ سخت ترین عذاب سے بچین گے۔ اس گفتگو میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تین طرح سے اپنی براءت ظاہر کی ہے۔ (1) مجھے کس طرح جائز تھا کہ حقیقت کے خلاف بات کہتا کہ اپنے معبود حقیقی کے بجائے اپنے آپ کو معبود قرار دے دیتا۔ ثبوت یہ پیش کیا اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کے علم سے وہ ہرگز پوشیدہ نہ رہتی اور آپ خود جانتے ہیں کہ ایسی بات وجود ہی میں نہیں آئی۔ (2) میں نے یہی کہا اے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہئ۔ یعنی ہم تم اللہ کے یکساں بندے ہیں ۔ بندہ الٰہ کیسے ہوسکتا ہے۔ (3) جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان سے باخبر رہا یعنی ایسا کوئی عقیدہ کسی کے دل میں یا زبان پر نہیں آیا۔ یہ عقیدہ تثلیث سینکڑوں سال بعد تصنیف ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کے لئے معانی کی سفارش بھی کی ہے۔ لیکن تحت اللفظ اور بڑی دانائی سے۔ اس جگہ ایک لفظ آیا ہے۔ ” توفیتنی “ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ” جب تو نے مجھے وفات دی “ ۔ اس لفظ سے قادیانیوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) آسمانوں پر نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی وفات ہوچکی ہے۔ اور وہ کشمیر میں دفن ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات اور احادیث اور امت کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی قدرت سے آسمانوں پر اٹھالیا ہے۔ جہاں وہ حیات ہیں اور قیامت کے قریب وہ دنیا میں تشریف لاکر صلیب کو توڑیں گے۔ اور عیسائیوں کے عقیدہ کی گندگی کو دور فرمائیں گے۔ پھر وہ دنیا میں زندہ رہ کر طبعی زندگی گزار کر وفات پائیں گے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مدینہ منورہ میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں دفن کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ کے علم کے مطابق قیامت قائم ہوگی۔ اور پھر قیامت کے دن پر گفتگو ہوگی اور اس وقت آسمان سے نزول کے بعد آپ کو حقیقی موت حاصل ہوچکی ہوگی اس لئے اس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت اور رفع سماء کے انکار پر استدلال بالکل فضول ہے۔ قادیانیوں کے اس عقیدے کی کوئی بنیادی نہیں ہے الحمدللہ ہمارے علماء حق نے اس کے مدلل جوابات پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ جن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اور قادیانیوں کے جھوٹ کا پردہ چاک ہو سکتا ہے۔ میں تو اس جگہ صرف اتنا ہی عرض کروں گا کہ قرآن کریم کے کسی لفظ کو لے کر اس کا من مانا ترجمہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ الفاظ قرآن کی وہی تشریح معتبر ہے۔ جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دی ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وفات پاچکے ہیں بلکہ سیکڑوں احادیث اس پر گواہ ہیں کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھالیا ہے۔ اس پر صحابہ کرام (رض) اور علماء دین کا پختہ عقیدہ ہے جو وفات مسیح کے قائل نہیں ہیں بلکہ رفع عیسیٰ (علیہ السلام) کے قائل ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی قیامت میں۔ 3۔ نہ باعتبار اپنے عقیدے کے کہ میں موحد ہوں اور نہ باعتبار واقع کے کہ آپ واحد ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عیسائیوں کے باطل عقیدہ کی وجہ سے یہ وقت بھی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے بڑے جلال کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کرے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے عیسائیوں کو یہ تبلیغ کی تھی کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنا لو ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھر تھرکانپتے ہوئے ہونٹوں اور لڑکھڑاتی زبان سے اپنے رب کے حضور التجا کریں گے کہ اے رب ذوالجلال والاکرام میں وہ بات کہنے کی کس طرح جرأت کرسکتا تھا جس کے کہنے کا مجھے اختیار نہ تھا۔ الٰہی اگر میں نے یہ بات ان لوگوں کو کہی ہوتی میرے الفاظ اور میرے دل کی حالت کو آپ جانتے ہیں جس کا دوسرا مفہوم ہے کہ میں ایسی بات کہنا تو درکنار سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ میرے دل کی سچائی اور عاجزی سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ البتہ میں نہیں جانتا آپ میرے بارے میں کیا فیصلہ فرمانے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی فریاد کو جاری رکھتے ہوئے عرض کریں گے۔ کہ میں نے تو انہیں پوری زندگی یہی بات باربار کہی اور سمجھائی کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ میں ان کے بارے میں اتنی ہی شہادت دے سکتا ہوں جب تک میں ان میں موجود رہا جب تو نے مجھے فوت کرلیا۔ تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہی ان کے عقیدے اور عمل کو جاننے والا ہے۔ امام ابن کثیر (رض) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ فریاد کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) اس قدر عاجزی و انکساری کا اظہار کریں گے کہ انکے جسم کے ایک ایک رونگٹے سے پسینا بہنا شروع ہوجائے گا۔ بالآخر سراپا التجا بن کر عرض گزار ہوں گے کہ تو انہیں عذاب کرے تیرے ہی بندے ہیں اگر معاف فرما دے تو تجھے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ تو اپنے فیصلے صادر کرنے پر غالب اور نہایت حکمت والا ہے۔ اس عاجزی اور بار بار فریاد کرنے کے باوجود رب ذوالجلال فرمائے گا کہ آج سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا ہی فائدہ پہنچے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کریں گے۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مافوق الفطرت انسان ہی ہیں۔ ٣۔ مرنے کے بعد انبیاء کو بھی دنیا کے حالات کا علم نہیں ہوتا۔ ٤۔ اللہ جسے چاہے معاف کرے اور جیسے چاہے عذاب میں مبتلا کرے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١١٦ تا ١١٨۔ اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے سامنے کن عقائد کی تبلیغ کرتے رہے ہیں ۔ لیکن اس خوفناک دن میں یہ عظیم جواب طلبی اور پھر ایسے شخص سے جو ذمہ دار بھی نہیں ہے ‘ اس لئے کہ گئی کہ اس صالح بندے اور ان کی والدہ کو جو لوگ الہ تصور کرتے تھے ‘ ان کا یہ پورا موقف اچھی طرح واضح ہوجائے اور وہ خوب شرمندہ ہو۔ یہ اس قدر عظیم جسارت ہے کہ کوئی عام اور معقول انسان اس قسم کا کوئی دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ خود الہ ہے ۔ جبکہ وہ جانتا ہو کہ وہ بندہ ہے ۔ ایک رسول اس قسم کا دعوی کب کرسکتا ہے اور پھر اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسا رسول ۔ حالانکہ اللہ نے رسالت سے پہلے اور رسالت کے بعد اسے معجزات اور مقامات عطا کئے تھے اور ان پر عظیم انعامات کئے تھے اور اعزاز بخشے تھے ۔ ایسے رسول کب ایسا دعوی کرسکتے ہیں ۔ ایک صالح اور راہ راست پر گامزن رسول ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت کی طرف سے نہایت ہی خشوع و خضوع کے ساتھ عاجزانہ جواب آتا ہے ۔ نہایت ہی حمد وثنا کے ساتھ (آیت) ” سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِیْ أَنْ أَقُولَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِحَقٍّ (٥ : ١١٦) ” سبحان اللہ ‘ میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا ۔ “ اس طرح حضرت جلدی سے جواب دے دیتے ہیں کہ میں نے مطلقا یہ بات نہیں کہی ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی برات پر اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہیں اور اپنی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ کے خصائص الوہیت اور بندے کے شایان عبودیت کے افعال بتاتے ہیں ۔ (آیت) ” إِن کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ إِنَّکَ أَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ (116) ” اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو آپ کو ضرور علم ہوتا آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے ‘ آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں “۔ اس قدر تسبیح اور پاکی بیان کرنے کے بعد اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ جرات کرتے ہیں کہ وہ کوئی مثبت بات کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ہر گز نہیں ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ بلکہ انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور تم بھی سب صرف اللہ ہی کی بندگی کرو۔ (آیت) ” مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِیْ بِہِ أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ (٥ : ١١٧) ” میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا ‘ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ “ اور آپ (علیہ السلام) یہ فرماتے ہیں کہ میں تو ان پر نگران صرف اس وقت تک کے لئے تھا جب میں ان کے سامنے تھا ۔ لیکن اپنی وفات کے بعد میں نگران نہ تھا ۔ قرآن کی ظاہری آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وفات دی اور پھر اپنی طرف اٹھا لیا جب کہ بعض آثار میں یہ آتا ہے کہ آپ اللہ کے ہاں زندہ ہیں ۔ میرے خیال میں دونوں قسم کے نصوص میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ زمین کی زندگی سے ان کا قطع تعلق ہوگیا ہو اور انہیں اٹھا لیا گیا ہو اور یہ بھی درست ہے کہ انہیں زندہ حالت میں اٹھا لیا گیا ہو کیونکہ شہداء بھی تو اللہ کے ہاں زندہ ہوتے ہیں اگرچہ دنیا سے ان کی زندگی کٹ جاتی ہے اگرچہ شہداء کی زندگی کی نوعیت کا ہمیں تفصیلی علم نہیں ہے ۔ یہی صورت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میری وفات کے بعد مجھے علم نہ تھا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ؟ (آیت) ” وَکُنتُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْداً مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْْتَنِیْ کُنتَ أَنتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْْہِمْ وَأَنتَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ شَہِیْدٌ(117) ” میں اسی وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا ۔ جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگران تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگران ہیں ۔ “ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتے ہیں کہ آپ چاہیں تو سزا دیں اور اگر آپ ان کو بخش دیں تو بھی آپ قادر مطلق ہیں ۔ بہرحال وہ ہیں تیرے ہی بندے اور آپ ہی جانتے ہیں کہ ان کے لئے سزا مقرر ہے یا مغفرت ۔ (آیت) ” إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (118) ” اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں ۔ “ ذرا ملاحظہ تو کیجئے کہ اللہ کے یہ صالح اور مقرب بندے بارگاہ الوہیت میں کس قدر خوفزدہ ہیں اور ان لوگوں کی جرات کو دیکھئے جنہوں نے یہ افتراء باندھا ‘ جس سے حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) صاف صاف برات کا اظہار کرتے ہیں اور ان لوگوں کی اس افتراء کی وجہ سے یہ بندہ اللہ کے سامنے اس طرح گڑ گڑاتے ہوئے کلام کرتا ہے ۔ ان لوگوں کے موقف کو دیکھئے اور اس عظیم دربار کو دیکھئے ۔ اس دربار میں اپنے اس غلط موقف کی وجہ سے اس قدر ذلیل و حقیر نظر آتے ہیں کہ اس پورے مکالمے میں ان کے ساتھ کوئی بات نہیں کی جاتی اور نہ ان کی طرف کوئی التفات کیا جاتا ہے ۔ شاید اس منظر میں شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے یہ لوگ پسینہ پسینہ ہوگئے ہوں گے ۔ جس طرح اللہ نے انہیں نظر انداز کیا ہم بھی انہیں اسی طرح چھوڑتے ہیں اور آئیے ذرا اس دربار کے آخری منظر کو دیکھیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ جل شانہ کا دوسرا خطاب قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جو اللہ جل شانہ کا سوال ہوگا ان میں سے ایک یہ بھی سوال ہے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنا لو۔ یہ سوال قیامت کے دن اس وقت ہوگا جبکہ میدان قیامت میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے۔ نصاریٰ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے کے مدعی ہیں ان کے سامنے سوال ہوگا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے اپنے کو اور اپنی والدہ کو معبود بنانے کی دعوت تھی اور تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنالو۔ وہ برملا سب کے سامنے جواب دیں گے کہ میں آپ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔ آپ ہر طرح کے شریک سے منزہ ہیں میرے لئے یہ شایان شان نہیں کہ میں شرک کی دعوت دوں، اگر میں نے کہا ہوتا تو آپ کو ضرور معلوم ہوتا چونکہ آپ کے علم میں نہیں لہٰذا میں نے کہا بھی نہیں۔ میرے نفس میں جو کچھ ہے وہ آپ جانتے ہیں۔ اور میں آپ کی تمام معلومات کو نہیں جانتا۔ آپ غیبوں کو جاننے والے ہیں۔ میں نے وہی بات کہی جس کا آپ نے مجھ کو حکم فرمایا۔ اور وہ یہ کہ اللہ کی عبادت کرو میرا ور تمہارا رب وہی ہے۔ میں نے ان کو شرک کی دعوت نہیں دی توحید ہی کی دعوت دیتا رہا۔ میں جب تک ان میں موجود تھا ان کے حالات سے باخبر تھا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان کے نگران تھے اور آپ ہر چیز کی پوری خبر رکھتے ہیں۔ میرے بعد انہوں نے کیا کیا۔ اور شرک کی گمراہی میں کیسے پڑے۔ اور عقیدہ تثلیث (تین خداؤں کا ماننا) ان میں کیسے آیا اس کا آپ ہی کو علم ہے۔ واضح رہے کہ یہ سوال و جواب ان لوگوں کے سامنے ہوگا جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اس سوال و جواب سے واضح طور پر ان پر حجت قائم ہوجائے گی کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر نہیں ہیں۔ وہ ان لوگوں کے سامنے عقیدہ تثلیث باطل ہونا ظاہر فرما دیں گے اور اتمام حجت کے بعد ان کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو تو سب کچھ معلوم ہے۔ لیکن نصاریٰ کی ملامت اور سرزنش کے لئے اور اتمام حجت کے واسطے مذکورہ بالا سوال و جواب ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

181 یہ بعد عہد کی وجہ سے پہلے وَاِذْ قَالَ کا اعادہ ہے اور ظرف کا متعلق قَالَ مؤخر ہے یعنی قَالَ سُبْحٰنَکَ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے انعامات گنوا کر ان سے اصل سوال پوچھے گا۔ ءَ اَنْتَ قُلْتَ الخ یعنی تیرے بعد تیری امت نے تجھ کو اور تیری والدہ کو معبود بنا لیا تھا وہ تم دونوں کو غیب دان اور کارساز سمجھ کر حاجات میں غائبانہ پکارتے اور تمہارے نام کی نذریں منتیں دیتے تھے کیا تو ہی نے ان انعامات کے ہوتے ہوئے ان کو یہ تعلیم دی تھی کہ تم مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود اور کارساز بنا لینا اور حاجات میں پکارنا۔ 182 یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے سوال مذکور کا جواب ہوگا۔ جواب پانچ شقوں پر مشتمل ہے پہلی شق سُبْحٰنَکَ اے میرے اللہ ! تو اس سے پاک ہے کہ تیرا کوئی شریک ہو، تیرے سوا کوئی غیب دان اور کار ساز نہیں اور نہ کوئی تیرے سوا نذر و منت کا مستحق ہے۔ دوسری شق۔ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اَقُوْلَ الخ میرے لیے یہ بات ہرگز جائز نہ تھی کہ میں ایسا دعویٰ کروں جس کا مجھے کوئی حق نہیں کیونکہ معبود وہی ہوسکتا ہے جو غیب دان اور متصرف و کارساز ہو اور مجھ میں صفتیں موجود نہ تھیں، تیسری شق اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ اے میرے اللہ ! تو تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ تجھے میرے دل کی باتیں بھی معلوم ہیں اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا کارساز بنا لو تو تجھے اس کا علم ہوتا۔ چوتھی شق مَا قُلْتُ لَھُمْ اے میرے اللہ ! مجھے تو نے رسالت و نبوت سے سرفراز فرمایا اور مجھے توحید کا اعلان کرنے کا حکم دیا تو میں نے ان سے وہی کچھ کہا جس کا تو نے مجھے حکم فرمایا کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے اور صرف اسی کو غیب دان اور کارساز سمجھو اور اسی کو پکارو۔ پانچویں شق وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا الخ میرے اللہ ! جب تک میں ان میں موجود رہا اس وقت تک تو ان کی نگرانی کرتا رہا اور ان کو خالص تیری توحید کی ٹھیک ٹھیک تعلیم دیتا رہا لیکن جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھا لیا اس کے بعد کا مجھے علم نہیں وہ کیا کرتوت کرتے رہے۔ اس وقت تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ یہاں تَوَفّیٰ کے معنی پورا پورا لے لینے کے ہیں کیونکہ تَوَفَّیْتَنِیْ یہاں کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا کے مقابلے میں آیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ توفی سے یہاں موت مراد نہیں۔ قرآن مجید میں موت کے مقابلے میں لفظ حیات آیا ہے اور توفی کے مقابلے میں لفظ حیات استعمال نہیں ہوا لفظ توفی کی تحقیق سورة آل عمران کی تفسیر میں گذر چکی ہے ملاحظہ ہو ص 154 حاشیہ نمبر 78 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

116 اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ابن مریم سے فرمائے گا اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تو نے ان لوگوں یعنی نصاریٰ سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مجھ کو اور میری ماں کو دوم عبود قرار دو یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دو معبود اور بنائو اور دو خدا اور تسلیم کرو اور مجھ کو اور ایک میری ماں کو نصاریٰ کو یہ عقیدہ تو نے تعلیم کیا ہے۔ حضرت عیسیٰ عرض کریں گے اے خدا میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں بھلا میں ایسی بات کس طرح کہہ سکتا تھا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں ۔ مجھے ہرگز یہ زیبا نہیں کہ میں کوئی ایسی بات زبان سے نکالوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہ ہو اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی تو آپ کو یقینا اس کا علم ہوگا آپ تو میرے دل کی ہر ایک بات سے آگاہ اور واقف ہیں اور میں آپ کی پوشیدہ معلومات سے بالکل واقف نہیں ہوں بلاشبہ آپ ہی تمام غیوب کو جاننے والے ہیں۔