Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 14

سورة المائدة

وَ مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰۤی اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَہُمۡ فَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ ۪ فَاَغۡرَیۡنَا بَیۡنَہُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ سَوۡفَ یُنَبِّئُہُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۱۴﴾

And from those who say, "We are Christians" We took their covenant; but they forgot a portion of that of which they were reminded. So We caused among them animosity and hatred until the Day of Resurrection. And Allah is going to inform them about what they used to do.

اورجو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا ، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی ، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض و عداوت ڈال دی جو تاقیامت رہے گی اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالٰی انہیں سب بتا دے گا ،

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمِنَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ ... And from those who call themselves Christians, We took their covenant, Meaning: `From those who call themselves Christians and followers of `Isa, son of Maryam, while in fact they are not as they claim. We took from them the covenant and pledges that they would follow the Prophet, aid him, honor him and follow his footst... eps.' And that they would believe in every Prophet whom Allah sends to the people of the earth. They imitated the Jews and broke the promises and the pledges. This is why Allah said, ... فَنَسُواْ حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ... but they have abandoned a good part of the Message that was sent to them. So We planted amongst them enmity and hatred till the Day of Resurrection; Meaning: `We planted enmity and hatred between them, and they will remain like this until the Day of Resurrection.' Indeed, the numerous Christian sects have always been enemies and adversaries of each other, accusing each other of heresy and cursing each other. Each sect among them excommunicates the other sects and does not allow them entrance to their places of worship. The Monarchist sect accuses the Jacobite sect of heresy, and such is the case with the Nestorians and the Arians. Each sect among them will continue to accuse the other of disbelief and heresy in this life and on the Day when the Witnesses will come forth. Allah then said, ... وَسَوْفَ يُنَبِّيُهُمُ اللّهُ بِمَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ and Allah will inform them of what they used to do. warning and threatening the Christians because of their lies against Allah and His Messenger and their false claims about Allah, hallowed be He above what they say about Him. The Christians attribute a companion and a son to Allah, while He is the One and Only, the All-Sufficient, Who neither begets nor was He begotten, and there is none like unto Him.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 نصاری نصرۃ مدد سے ہے یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے ؟ کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا (نحن انصار اللہ) ہم اللہ کے مددگار ہیں اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے عہد لیا، لیکن...  انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پزیری سے خالی اور ان کے کردار کھوکھلے ہوگئے۔ 14۔ 2 یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بےعملی کی وہ سزا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لئے مسلط کردی گئی۔ چناچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت وعناد رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر (کافر سمجھتے) کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عبادت گاہ میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کردی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت وعناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] نصاریٰ سے بھی اسی قسم کا پختہ عہد لیا گیا تھا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کیا جو یہود نے کیا تھا۔ انہوں نے بھی کتاب اللہ سے ہدایت حاصل کرنا چھوڑ دیا اور فلسفیانہ اور راہبانہ قسم کی موشگافیوں میں لگ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے اور مستقل طور پر ... ان میں منافرت اور دشمنی کا بیج پرورش پانے لگا۔ پھر اسی پر ہی معاملہ ختم نہ ہوا بلکہ نصاریٰ اور یہود میں مستقل طور پر عداوت اور دشمنی چل نکلی۔ اور جہاں کہیں نصاریٰ کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یہودیوں پر جی بھر کر ظلم ڈھائے اور ان کی یہ دشمنی تاقیامت جاری رہے گی۔ کیونکہ ان کی کتابوں میں تحریف ہوچکی ہے۔ اور کوئی ایسی الہامی متفق علیہ چیز ان کے ہاں موجود ہی نہیں رہی جس کی بنیاد پر کسی وقت ان کے اتحاد کی بنیاد اٹھائی جاسکے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓى ۔۔ : یعنی ” اللہ کے مدد گار “ چونکہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے نصاریٰ سے اقرار لیا، بلکہ یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں سے اقرار لیا جو اپنے آپ کو ” نصاریٰ “ کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہود کی طرح نصاریٰ سے بھی ... ہم نے توحید اور نبی آخر الزماں پر ایمان لانے کا عہد لیا مگر انھوں نے بھی اس عہد کو توڑ ڈالا۔ (کبیر، قرطبی) فَاَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ : یعنی ہم نے اس وقت سے لے کر قیامت تک ان کے درمیان دشمنی اور کینہ وری بھڑکا دی، چناچہ اس وقت بھی ان میں آپس میں مذہبی عداوت پائی جاتی ہے اور پھر خود نصرانیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ رہا مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا ایک ہونا تو وہ مسلمانوں کے ترک جہاد اور کفار کا مسلمانوں کے ممالک سے اپنا اپنا حصہ لینے کے لیے ہے، ورنہ ظاہر میں ایک نظر آنے کے باوجود ان کی باہمی لڑائی ایک یقینی حقیقت ہے، جس کا مطالعہ کر کے مسلمان فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ) [ الحشر : ١٤ ]” تو خیال کرے گا کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں۔ “ مگر افسوس اب مسلمانوں میں ایسا اختلاف اور دشمنی پیدا ہوگئی کہ صرف مسلمان نام نے انھیں جمع کر رکھا ہے، باقی کفار ان کے افتراق سے فائدہ اٹھا کر ان پر حکومت کر رہے ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

From the first verse, 5:13, which dealt with the breach of trust by Jews and their punishment for it, we now move to the next verse, 5:14, which refers to Christians: وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَ‌ىٰ. In this verse, the punish¬ment described for Christians is mutual dissension. Being for their breach of trust, this wi11 continue right upto the Last Day. Looking at the contemporary scene... , one may have doubts about Christians who seem to be united. The answer is that the present statement covers genuine Christians, observing and abiding. As for those who have moved away from their own religion turning into non-conformist, secular or atheistic individuals or groups, they are, for all practical purposes, out of the list of Christians - even though, they may count them as Christians among the nationalities of a country. If, among such people, that religious dissension and mutual hostility does not exist, it would not be contrary to this verse - because the conflict was based on religion, once the religion is not there, conflict too would not be there. As said earlier, this verse describes people who profess and practice the religion of Christianity - and their division is well-known. Given below is a brief reference from Taysir in the marginal notes of commentator, al-Baydawi which reports that there were three sects among Christians originally: 1. Fisturyah (Nestorians) who took Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) (Jesus) as the son of God. 2. Ya&qubiyah (Jacobites) who believed in Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) (Jesus) himself as one with God. 3. Malka&iyah (Malkites) who believed in Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) (Jesus) as one of the Trinity. And it goes without saying that in the presence of such major divi¬sions in matters of belief, mutual malice is inevitable.  Show more

(آیت) وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓى اَخَذْنَا مِيْثَاقَهُمْ ۔ اس آیت سے پہلی آیت میں یہود کی عہد شکنی اور عذاب کا ذکر تھا، اس آیت میں کچھ نصاریٰ کا حال بیان فرمایا ہے۔ عیسائی فرقوں میں باہمی عداوت اس آیت میں حق تعالیٰ نے عیسائیوں کی عہد شکنی کی یہ سزا بیان کی ہے کہ ان کے آپس میں افت... راق اور بغض و عداوت ڈال دیا گیا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ اس پر آج کل کے عیسائیوں کے حالات سے یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ تو سب باہم متحد نظر آتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہ حال ان لوگوں کا بیان کیا گیا ہے جو واقعی عیسائی ہیں۔ اور عیسائی مذہب کے پابند ہیں اور جو خود اپنے مذہب کو بھی چھوڑ کر دہریئے بن گئے۔ وہ درحقیقت عیسائیوں کی فہرست سے خارج ہیں چاہے وہ قومی طور پر اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہوں۔ ایسے لوگوں میں اگر وہ مذہبی افتراق اور باہمی عداوت نہ ہو تو وہ اس آیت کے منافی نہیں۔ کیونکہ افتراق و اختلاف تو مذہب کی بنیاد پر تھا، جب مذہب ہی نہ رہا تو اختلاف بھی نہ رہا اور آیت میں بیان ان لوگوں کا ہے جو مذہباً نصاریٰ اور عیسائی ہیں ان کا اختلاف و افتراق مشہور و معروف ہے۔ حاشیہ بیضاوی میں تیسیر سے نقل کیا ہے کہ نصاریٰ میں اصل تین فرقے تھے، ایک فسطوریہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ دوسرا یعقوبیہ جو خود عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کے ساتھ متحد مانتے تھے۔ تیسرا ملکائیہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو تین خداؤں میں سے ایک مانتے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے اختلاف عقائد کے ساتھ باہم عداوت ضروری ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰٓى اَخَذْنَا مِيْثَاقَہُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِہٖ۝ ٠۠ فَاَغْرَيْنَا بَيْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ۭ وَسَوْفَ يُنَبِّئُہُمُ اللہُ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ۝ ١٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَ... مَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ غرا غَرِيَ بکذا أي : لهج به ولصق، وأصل ذلک من الغِرَاءِ ، وهو ما يلصق به، وقد أَغْرَيْتُ فلانا بکذا، نحو : ألهجت به . قال تعالی: فَأَغْرَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 14] ، لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ [ الأحزاب/ 60] . ( غ ر و ) غری بکذا کے معنی کسی کے ساتھ چمٹ جانا ہیں اصل میں یہ غراء سے ہے اور غراء اس مادہ کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو دوسری کے ساتھ پیوست کیجائے اور اسی سے اغربت فلانا بکذا کے معنی ہیں میں نے فلاں کو اس پر شیفتہ کردیا اس پر ابھار اور اکسایا اس کے پیچھے لگا دیا ۔ قرآن میں ہے : فَأَغْرَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 14] تو ہم نے ان کے باہم قیامت تک لے لئے دشمنی اور کینہ ڈال دیا ۔ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ [ الأحزاب/ 60] تو ہم تم کو ان کے پیچھے لگا دیں گے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ بغض البُغْض : نفار النفس عن الشیء الذي ترغب عنه، وهو ضد الحبّ ، فإنّ الحب انجذاب النفس إلى الشیء، الذي ترغب فيه . يقال : بَغُضَ الشیء بُغْضاً وبَغَضْتُه بَغْضَاء . قال اللہ عزّ وجلّ : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 64] ، وقال : إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 91] ، وقوله عليه السلام : «إنّ اللہ تعالیٰ يبغض الفاحش المتفحّش»فذکر بغضه له تنبيه علی بعد فيضه وتوفیق إحسانه منه . ( ب غ ض ) البغض کے معنی کسی مکر وہ چیز سے دل کا متنفر اور بیزار ہونا کے ہیں ۔ کہ حب کی ضد ہے ۔ جس کے معنی پسندیدہ چیز کی طرف دل کا منجذب ہونا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 64] اور ہم نے ان کے باہم عداوت اور بعض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة/ 91] شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش دلوادے اور حدیث میں ہے بیشک اللہ تعالیٰ بد کلام گالی دینے والے ہے نفرت کرتا ہے ۔ یہاں بعض کا لفظ بول کر اس امر پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ باری تعالیٰ اس سے اپنا فیضان اور توفیق احسان روک لیتا ہے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے صنع الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] ، ( ص ن ع ) الصنع ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نصاریٰ کی حقیقت قول باری ہے (ومن الذین قالوا انا نصاری اخذنا میتا قھم اور ان لوگوں سے ہم نے عہد لیا تھا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں) حسن سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (قالوا انا نصاری) فرمایا اور یہ نہیں فرمایا کہ ” ہم نصاریٰ میں سے ہیں “ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں نے نصرانیت کے عقائد گھڑے...  تھے اور اپنے آپ کو اس نام سے موسوم کیا تھا۔ یہ لوگ ان لوگوں کے طریقے پر نہیں چلتے تھے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں ان کی پیروی کرتے اور حواری کہلاتے تھے۔ یہی حواری حقیقت میں نصاریٰ تھے۔ شام کے ایک گائوں ناصرہ کی طرف ان کی نسبت تھی بعد میں آنے والے لوگوں نے جو درحقیقت نصرانیت کے پرستار تھے ان لوگوں کی طرف اپنی نسبت کی اگرچہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے۔ اس لئے کہ وہ لوگ توحید پرست اور اہل ایمان تھے اور یہ لوگ مشرک اور تثلیث پرست تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی اور مقامات پر ایسے لوگوں کے لئے لفظ نصاریٰ کا اطلاق کیا ہے لیکن یہ اطلاق ان کی حقیقت حال کی حکایت کے طور پر نہیں تھا مثلاً یہ قول باری ہے (وقالت النصاریٰ المسیح ابن اللہ اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں) اسی طرح اور مواقع پر بھی اس کا اطلاق ہوا ہے، اس اطلاق کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اسی نام سے پہچانے جاتے تھے اور یہ نام ان کی نشانی اور علامت بن گیا تھا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) نصاری نجران یہ دعوے کرتے رہتے ہیں ہم نے ان سے بھی انجیل میں عہد لیا تھا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کریں گے اور آپ کی نعت وصف کو بیان کریں گے اور اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے لیکن انہوں نے بھی جس چیز کا حاکم دیا تھا، اس میں سے ایک بڑے ح... صے کو فراموش کردیا۔ چناچہ ہم نے یہود اور نصاری کے درمیان یا اہل نجران کے نصاری یعنی نسطوریہ، یعقوبیہ، سرقومیہ اور ملکانیہ کے درمیان قتل وہلاکت اور دشمنی ڈال دی اور ان کی یہ مخالفت، خیانت اور عداوت ودشمنی اللہ تعالیٰ ان کو روز قیامت جتلا دیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّا نَصٰرآی اَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ ) (فَنَسُوْاحَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ) وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھانا بھول گئے۔ (فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط) ‘ یہاں ایک اہم نکتہ تو یہ ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے د... رمیان پورے انیس سو برس شدید دشمنی رہی ہے۔ موجودہ دور میں صورت حال عارضی طور پر کچھ تبدیل ہوگئی ہے۔ عیسائی جنھیں اللہ کا بیٹا بلکہ خدا سمجھتے ہیں ‘ یہودیوں نے انہیں ولد الزنا قرار دیا اور کافر و مرتد کہتے ہوئے واجب القتل ٹھہرایا۔ یہ بنیادی اختلاف دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں اس قدر اہم اور شدید ہے کہ اس کی موجودگی میں دونوں میں اتحاد و اتفاق ممکن ہی نہیں۔ لیکن آیت زیرنظر میں بنیادی طور پر عیسائیوں کی آپس کی دشمنی اور ان کا باہمی بغض وعناد مراد ہے۔ ان کے مختلف فرقوں کے درمیان نظر یاتی اختلافات ان کی دلی کدورتوں اور نفرتوں سے بڑھ کر بارہا باہمی جنگ و جدل کی شکل میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر عیسائی فرقوں کی آپس کی خانہ جنگیوں کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مذہب کے نام پر عیسائیوں کی خون ریزی اور قتل و غارت گری کی عبرت آموز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیلات Blood on the Cross نامی ضخیم کتاب میں ملتی ہیں ‘ جو لندن سے شائع ہوئی ہے۔ خاص طور پر پروٹسٹنٹس (Protestants) اور کیتھولکس (Catholics) کی باہمی چپقلش تو کوئی پوشیدہ راز نہیں ‘ جس کی ہلکی سی جھلک آج بھی ہمیں آئرلینڈ میں نظر آتی ہے۔ (وَسَوْفَ یُنَبِّءُہُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ) اب پھر وہی انداز ہے جو سورة النساء کے آخر میں تھا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. Some are of the opinion that the word Nasara (meaning Christians) is derived from Nasirah (Nazareth), the birth-place of the Messiah. In fact this word is not derived from Nasirah (Nazareth) but from the word nusrah, and the basis of this derivation is the question posed by the Messiah to his disciples: 'Who are my supporters (ansari) in the way of God?' In response to this they had said: 'We ... are the supporters (ansar) (in the way) of God.' Christian authors have been misled by the resemblance between the words Nasirah and Nasara into believing that the name of the sect founded in the early history of Christianity, and contemptuously characterized as either Nazarenes or Ebonites served as the basis of the Qur'anic designation of the Christians. But here the Qur'ijo categorically states that they had declared that they were 'Nasara' and it is obvious that the Christians never called themselves 'Nazarenes'. In this connection it should be recalled that Jesus never called his followers 'Christians' for he had not come to found a new religion named after him. His mission was to revive the religion of Moses and of all the Prophets who preceded him as well as of the one who was to appear after him. Hence, he neither formed any cult divorced from the Israelites and the followers of the Mosaic Law nor designated his followers by any distinctive name. Likewise, his early followers neither considered themselves to be separate from the Israelite community nor developed into an independent group nor adopted any distinctive symbol and name. They worshipped in the temple of Jerusalem along with other Jews and considered themselves to be followers of the Mosaic Law (see Acts 3:1-10; 21: 14-15,21). Later on the process of alienation began to operate on both sides. On the one hand, Paul, one of the followers of Jesus, declared independence from the Mosaic Law holding that faith in Christ was all that one needed for salvation. On the other hand, the Jewish rabbis declared the followers of Christ to be heretics and excommunicated them. Despite this, for some time the new sect had no distinct appellation of its own. The followers of Christ variously described themselves as 'disciples', as 'brethren', as 'those who believed', and as 'saints' (see Acts 2: 44; 4: 32; 9: 26; 11: 29; 13: 52; 15: 1; 23: 1 and Romans 15: 25 and Colossians 1: 2). The Jews sometimes designated them as 'Galileans' and as 'the sect of Nazarenes' (see Acts 24: 5; Luke 13: 2). These nicknames, which were originally contrived in,.ojder to ridicule them, referred to Nazareth, the home town of Jesus in the district of Galilee. These names, however, did not gain sufficient popularity to become the permanent names of the followers of Christ. They were called 'Christians' for the first time by the people of Antioch in 43 A.D. or 44 A.D. when Paul and Barnabas went there and began to preach their religion (Acts 11: 26). This appellation was flung at them by the opponents of the followers of Christ precisely in order to tease them by using an appellation which was unacceptable to them. But when their enemies began to call them consistently by this name their leaders reacted by saying that if they were called Christians because of their allegiance to Christ they had no reason to be ashamed of it (1 Peter 4: 16). It was thus that the followers of Christ also gradually began to call themselves by the same name which had originally been conferred upon them sarcastically. In the course of time the Christians ceased to realize that theirs had originally been a derogatory appellation chosen for them by outsiders rather than by themselves. The Qur'an, therefore, does not refer to the followers of Christ as Christians. It reminds them rather that they belong to those who responded to the query of Jesus: 'Who are my supporters (ansari) in the way of God?' by saying that they were his ansar (supporters) in God's cause. (See Surah al-Saff 61: 14 - Ed.) It is an irony of fate that far from feeling grateful at being referred to by a dignified appellation Christian missionaries take offence at the fact that the Qur'an designates them as Nasara rather than as 'Christians'.  Show more

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :36 لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ ”نصاریٰ“ کا لفظ”ناصرہ“ سے ماخوذ ہے جو مسیح علیہ السلام کا وطن تھا ۔ دراصل اس کا ماخذ ”نصرت“ ہے ، اور اس کی بنا وہ قول ہے جو مسیح علیہ السلام کے سوال مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ ( خدا کی راہ میں کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ ) کے جواب میں ح... واریوں نے کہا تھا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ ( ہم اللہ کے کام میں مددگار ہیں ) ۔ عیسائی مصنفین کو بالعموم محض ظاہری مشابہت دیکھ کر یہ غلط فہمی ہوئی کہ مسیحیت کی ابتدائی تاریخ میں ناصریہ ( Nazarenes ) کے نام سے جو ایک فرقہ پایا جاتا تھا ، اور جنہیں حقارت کے ساتھ ناصری اور ایبونی کہا جاتا تھا ، انہی کے نام کو قرآن نے تمام عیسائیوں کے لیے استعمال کیا ہے ۔ لیکن یہاں قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ انہوں نے خود کہا تھا کہ ہم”نصاریٰ“ اور یہ ظاہر ہے کہ عیسائیوں نے اپنا نام کبھی ناصری نہیں رکھا ۔ ( اس مسئلہ کی مزید تشریح کے لیے صفحہ نمبر ۵۱۷ پرضمیمہ میں الگ نوٹ درج ہے ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: عیسائی مذہب کے ماننے والے مختلف فرقوں میں بٹ گئے تھے اور ان کے مذہبی اختلافات نے دشمنی اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی تھی یہ اس خانہ جنگی کی طرف اشارہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:14) فاغرینا۔ ماضی جمع متکلم ۔ ہم نے لگا دی۔ ہم نے چسپاں کردی۔ ہم نے ڈال دی۔ اغراء سے جس کے معنی لگا دینے ۔ ڈالنے۔ رغبت دلانے اور چسپاں کرنے کے ہیں۔ مادہ غری اغری بین القوم۔ ای افسد اور اغری العداوۃ بینہم ای القی العداوۃ بینہم۔ قرطبی نے الاغراء بالشیٔ کا مطلب الالصاق من جھۃ التسلیط علیہ لکھا ہے ک... سی چیز کا اس طرف سے چسپاں کرنا جس طرف جوڑنے والی چیز لگی ہوئی ہو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اللہ کے مددگار چونکہ یہ لوگ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے نصاری سے اقرار لیا بلکہ یہ فرمایا کہ ہم نے ان لوگوں سے اقرار لیا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہود کی طرح نصاری ٰ سے بھی ہم نے توحید اور نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کا عہد لی... امگر انہوں نے بھی اس عہد کو توڑ ڈالا (کبیر، قرطبی)9 چناچہ اس وقت بھی ان میں باہم مذہبی عداوت پائی جاتی ہے اور پھر خود عیسائیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں (کبیر)10 یعنی دنیا میں اس سزا کے علاوہ آخرت میں ان کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اللہ کے کلام سے اثر پکڑ نا اور حکم شرع پر محبت سے قائم رہنا چھو ڑدے ارفقط مذہب کا جھگڑا اروحمیت رہ جائے تو وہ راہ سے بہک جائے ( مو ضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 14 لغات القرآن : خطا (حصہ) ۔ اغرینا (اغراء) ۔ ہم نے بھڑکا دیا۔ ڈال دیا) ۔ البغضآء (کینہ۔ نفرت۔ بغض) ۔ ینبی (وہ بتائے گا۔ خبردار کرے گا) ۔ یصنعون (وہ کرتے ہیں۔ بناتے ہیں) ۔ تشریح : یہودیوں اور عیسائیوں کا قصور ایک ہے۔ دونوں نے تحریفیں کی ہیں۔ ایک نے توریت میں اور ایک نے انجیل میں۔ چناچہ اب ... نہ اصلی توریت ہے نہ اصلی انجیل۔ جو نیک باتیں ان آسمانی کتابوں میں لکھی تھیں۔ اس تحریف کی وجہ سے ان کا فائدہ وہ نہ اٹھا سکے اور اس طرح سیدھی راہ سے دور بھٹک کر گمراہی میں جا پڑے ہیں۔ یہودیوں کو سزا یہ دی گئی کہ وہ ملعون ہوئے۔ ان کے دل پتھر کی طرح سخت کر دئیے گئے جو نیک باتوں کو قبول نہ کرسکے۔ عیسائیوں کو سزا یہ دی گئی کہ ان کی دینی وحدت توڑ دی گئی اور وہ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم امریکہ سے لے کر روس تک عیسائی طاقتوں کے اندر ہی ہوئی ہے اور دلوں کی دشمنی اب تک قائم ہے۔ جنوبی امریکہ کی اکثیرت عیسائی ہے مگر وہاں کی ریاستیں ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتی رہتی ہیں۔ یہ کمیونزم کا نیا شوشہ بھی عیسائیوں کے اندر ہی سے نکلا ہے اگرچہ نکالنے والے اور پروان چڑھانے والے یہودی ہیں۔ عیسائیت خود دو حصوں میں تقسیم ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹینٹ۔ انگلینڈ نے پروٹسٹینٹ گروپ قائم کرلیا ہے، امریکہ میں پروٹسٹینٹ گروپ کے اندر تین ہزار فرقے ہیں۔ رومن کیتھولک گروپ میں بہت سے فرقے ہیں جن میں سے چند پوپ کو مانتے ہیں اور چند نہیں مانتے یا کم مانتے ہیں۔ کمیونزم میں بھی دو گروپ ہیں۔ روسی اور چینی۔ اور دونوں میں دل کی کدورت اپنی اپنی جگہ ہے۔ چین میں کبھی ماؤزے تنگ کا ڈنکا بجتا تھا۔ مگر اس کی بیوی عمر قید کا ٹنے پر مجبور کردی گئی تھی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اوپر یہود و نصاری کا الگ الگ ذکر تھا آگے دونوں کو جمع کرکے نصیحت کا خطاب فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کے بعد عیسائیوں کے کردار کا بیان۔ اہل کتاب اور بنی اسرائیل سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں لیکن کبھی کبھی اہل کتاب اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہودی ہوتے ہیں۔ یہ فرق متعلقہ آیات کے سیاق وسباق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے، یہاں پہلی آیات میں یہودیوں کو مخاطب کیا گیا تھا اور اب عیس... ائیوں سے خطاب ہو رہا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو عہد یہودیوں سے لیا گیا تھا وہی عہد عیسائیوں سے بھی لیا گیا۔ انجیل سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ میں تورات کی تکمیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید کے لیے آیا ہوں۔ اس بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں انھوں نے بھی اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہوئے انجیل میں تحریف اور اس میں نازل شدہ نصیحتوں کو یکسر فراموش کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی اسی طرح عیسائی بھی مستوجب عذاب قرار پائے۔ جو اللہ کی کتاب لوگوں کو متحد رکھنے کے لیے نازل ہوئی تھی جب اس میں تغیر و تبدّل کردیا گیا تو وہ ناقابل اعتمادبن گئی اب اس کا منطقی نتیجہ تھا کہ عیسائی بھی یہودیوں کی طرح کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اب ان کی باہمی مخاصمت اور عداوت قیامت تک باقی رہے گی جس کا انجام اللہ تعالیٰ ان کے سامنے لائے گا۔ باہمی عدوات سے مراد یہودیوں اور عیسائیوں کی عداوت بھی ہوسکتی ہے۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّار قیلَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ ہُمْ قَالَ الْجَمَاعَۃُ ) [ رواہ ابن ماجۃ : باب افْتِرَاقِ الأُمَم ] ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے تھے ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے تھے ان میں سے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں آپ نے فرمایا وہ جماعت (جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے) ہے۔ “ مسائل ١۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں سے بھی پختہ عہد لیا گیا۔ ٢۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو آشکار فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٢۔ بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الممتحنۃ : ٨) ٣۔ غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٣٤) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ : ١٠٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں منظم ہو کر لڑتے ہیں۔ (الصف : ٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّا نَصَارَی أَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُواْ حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُواْ بِہِ فَأَغْرَیْْنَا بَیْْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمُ اللّہُ بِمَا کَانُواْ یَصْنَعُونَ (14) ” اسی طرح ہم نے ان لوگوں سے بھی پختہ عہ... د لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ انہوں نے فراموش کردیا ۔ آخر کار ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کیلئے دشمنی اور آپس میں بغض وعناد کا بیج بو دیا اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ یہ دنیا میں کیا کیا بناتے رہے ہیں ۔ ‘ یہاں ایک خاص انداز تعبیر ہے اور اس کے اندر ایک خاص اشارہ ہے ۔ (آیت) ” ومن الذین قالوا انا نصری “۔ (٥ : ١٤) ” اسی طرح ان لوگوں سے بھی عہد لیا تھا جنہوں نے کہا ہم نصاری ہیں۔ “ اس انداز کے اندر اشارہ یہ ہے کہ انہوں نے نصاری ہونے کا دعوی تو کیا تھا ‘ لیکن عملا انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا تھا ۔ اس عہد وپیماں کی اساس یہ تھی کہ ہم اللہ کو صرف وحدہ لاشریک سمجھیں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنی گمراہی کا آغاز ہی اپنے اساسی عقیدہ توحید سے کیا ۔ اس لائن پر وہ آگے بڑھ گئے اور یہ وہ سبق (حظ) تھا جو انہوں نے بھلا دیا حالانکہ یہ سبق انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ۔ اور اس سبق کو بھلانے کے نتیجے میں وہ غلط راہ پر دور نکل گئے اور ان کے درمیان فرقہ ورانہ اور گروہی اختلاف پیدا ہوئے اور پھر ان کے اندر بہت سے مذاہب اور مکاتب فکر پیدا ہوگئے ۔ یہ مکاتب فکر اس قدر بڑھے کہ آج ان کا شمار ممکن نہیں ہے ۔ قدیم زمانے میں بھی ان کے بیشمار فرقے تھے اور جدید دور میں بھی ان کے بیشمار فرقے ہیں ۔ (اجمالی بحث عنقریب آئے گی ) ان فرقوں کے درمیان اس قدر بغض وعداوت پیدا ہوگیا جس کی کوئی مثال تاریخ مذاہب میں نہیں ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ اختلافات قیامت تک رہیں گے اور اس لئے رہیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کا کوئی پاس نہ رکھا ۔ انہوں نے اس سبق اور نظریہ حیات ہی کو بھلا دیا جو انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ۔ آخرت میں جب ان کو اللہ وہ تفصیلات بتائے گا کہ اس دنیا میں وہ کیا کیا کرتے رہے ہیں تب ان کی جزاء کا وہاں ہی فیصلہ ہوگا ۔ اس وقت اللہ کو ان کی تمام صنعت کاریوں کو ان کے سامنے رکھ کر ان کو خوب شرمندہ کرے گا اور پھر سزا دے گا ۔ جو لوگ نصاری (مددگار) ہونے کا دعوی کرتے تھے ان کے درمیان اس قدر اختلافات ‘ تفرقہ بازی اور بغض وعداوت پیدا ہوئی جس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ ان کی تاریخ قدیم میں بھی اور جدید تاریخ میں بھی جس کی حکایت اللہ تعالیٰ یہاں اپنی کتاب کریم میں فرماتے ہیں ۔ ان فرقہ وارانہ جنگوں میں اس قدر خون بہا کہ اس قدر خونریزی ان کی ان تمام تاریخی جنگوں میں نہ ہوئی جو انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں لڑیں ، چاہے دینی عقائد سے پیدا ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں یہ خونریزی ہوئی یا دینی سربراہی کے حصول کے لئے ہوئی یا سیاسی ‘ اقتصادی اور اجتماعی اختلافات کے نتیجے میں ہوئی ۔ یہ خونریز آویزش اس قدر طویل اور اس قدر گہری تھی کہ اس کے آثار صدیوں تک باقی رہے اور وہ زخم صدیوں بعد بھی مندمل نہ ہوئے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو اصدق القائلین ہیں ۔ یہ اختلاف قیامت تک رہیں گے اور ان کا سبب حقیقی صرف یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کو پس پشت ڈال دیا اور انہوں نے اس نظریاتی سبق کو بالکل بھلا دیا جو انہیں اچھی طرح یاد کرایا گیا تھا ، اس عہدوپیمان کی پہلی دفعہ یہ تھی کہ وہ عقیدہ توحید پر قائم رہیں گے ‘ جس سے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے اٹھنے کے بہت تھوڑے عرصے بعد ہی انحراف کرلیا تھا اور اس کے اسباب اور واقعات کی تفصیلات یہاں پیش کرنا مشکل ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے محاضرات فی النصرانیہ ‘ ابو زہرہ اور فی ظلال القرآن پارئہ سوئم) یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی اور اس پر کئے جانے والے تبصروں کا بیان یہاں تک پہنچ کر اب خطاب یہود ونصاری دونوں سے ہے ۔ دونوں کے سامنے اب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ رسالت تمہارے لئے بھیجی گئی ہے جس طرح یہ رسالت امی عرب اقوام اور تمام جہان کے لئے ہے ، دنیا کے سب لوگ اس رسالت اور دعوت کے مخاطب ہیں ۔ سب کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس آخری رسول پر ایمان لائیں یہ بات اللہ کی جانب سے یہود ونصاری دونوں کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان کی ایک دفعہ ہے ‘ جیسا کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ اس نبی آخر الزماں نے بعض ایسی باتوں کے انکشافات بھی کئے ہیں جنہیں وہ چھپاتے تھے ‘ حالانکہ وہ منکشف کردہ امور ان کے ہاں موجود کتابوں میں موجود تھے ۔ انہوں نے ان باتوں کو نہایت ہی حفاظت میں خفیہ رکھا ‘ جو ان کی جانب سے وعدہ خلافی تھی ، کئی ایسی اور باتیں بھی تھیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عفو درگزر کرتے ہوئے ان کا انکشاف نہ کیا ‘ اس لئے کہ اسلام کے جدید قانونی نظام میں ان کے بارے میں انکشافات کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی بعض گمراہیوں اور انحرافات کا ذکر فرماتے ہیں جو انہوں نے اپنے صحیح اسلامی عقائد کے اندر کئے مثلا نصاری کا یہ قول کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم خدا ہیں اور یہودیوں کا یہ کہنا کہ موسیٰ اللہ کے محبوب ہیں اور آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اس آخری رسالت کے ان انکشافات اور اعلانات اور کھلی روشنی پھیلا دینے کے بعد تمہارے لئے اللہ اور انسانوں کے نزدیک کوئی حجت نہ رہے گی اور ان کے لئے اب یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ ہم پر چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک طویل دور گزر گیا تھا ‘ اس لئے خدا تعالیٰ کی تعلیمات ہم بھول گئے اور معاملہ ہم پر مشتبہ ہوگیا ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نصاریٰ سے عہد لینا اور ان کا اس کو بھول جانا ان آیات میں نصاریٰ کی طرف سے روئے سخن ہے ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں نے کہا ہم نصاریٰ ہیں ان سے بھی ہم نے پختہ عہدلیا وہ لوگ بھی عہد پر قائم نہ رہے جو کچھ انکو نصیحتیں کی گئی تھیں ان میں سے ایک بہت بڑا حصہ بھول گئے ان کے اس عہد کو توڑنے اور جو نصیحتیں کی گئ... ی تھیں ان کے بھولنے کی وجہ سے ہم نے ان کے درمیان دشمنی اور بغض کو ڈال دیا وہ قیامت تک آپس میں دشمن رہیں گے اور ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ نصاریٰ میں متعدد فرقے تھے اور اب بھی ہیں ان میں سے بعض کا یہ کہنا تھا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے، اس طرح سے اتحاد ذاتی کے قائل تھے اور ایک فرقہ کہتا تھا کہ تین معبود ہیں اللہ اور مریم ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم، یہود کی طرح نصاریٰ بھی نصیحت کا بہت بڑا حصہ چھوڑ بیٹھے اور اسے بھول بھلیاں کردیا، اس نصیحت میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا بھی تھا جن کے بعثت کی بشارت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی تھی اور جن کی نبوت اور رسالت کی خبر توریت اور انجیل میں دی گئی تھی۔ (اَلَّذِیْنَ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ) اس عہد شکنی اور خلاف ورزی کی انہیں سزا مل گئی اور ملتی رہے گی۔ پھر ارشاد فرمایا (وَ سَوْفَ یُنَبِّءُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ) یعنی عنقریب انہیں جتلا دے گا جو کام وہ کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ دونوں) کو خطاب فرمایا کہ اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا ہے وہ بہت سی وہ باتیں بیان کرتا ہے جو اللہ کی کتاب میں سے تم چھپاتے تھے۔ اور بہت سی چیزوں سے در گزر کرتا ہے اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع فرض ہے، مزید فرمایا کہ تمہارے پاس اللہ کا نور آیا ہے اور واضح بیان کرنے والی کتاب آئی ہے، نور سے مراد سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے اور کتاب مبین سے قرآن کریم مراد ہے دونوں کے ذریعہ اللہ سلامتی کے راستہ کی ہدایت فرماتا ہے یہ ہدایت ان لوگوں کو ملتی ہے جو رضائے الٰہی کے طالب ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت بھی دیتا اور طرح طرح کے اندھریوں سے نکال کر (جو شرک و کفر کی صورت میں باطل افکار اور اہواء کی وجہ سے انسان کو گھیر لیتی ہیں) نور کی طرف لے آتا ہے۔ کفر کے راستے چونکہ بہت سے ہیں لفظ ظلمات بصیغہ جمع استعمال فرمایا اور نور چونکہ ایک ہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت اس لئے لفظ نور کو واحد لایا گیا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38 ۔ وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّا نَصٰرٰی الخ یہ نقض عہد کی سزا کا دوسرا نمونہ ہے۔ یعنی ہم نے نصاریٰ میں عہد توڑنے کی وجہ سے عداوت ڈال دی اور ان کے دلوں میں باہمی بغض پیدا کردیا۔ اگر تم بھی نقض عہد کرو گے تو تمہیں بھی ہی یہی سزا ملے گی۔ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ جس طرح بنی اسرائ... یل سے توحید و رسالت اور دیگر احکام کی بجا آوری کا عہد لیا تھا اسی طرح نصاریٰ سے بھی لیا مگر انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح عہد توڑا اور اللہ کے اوامر کو پامال کیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی حالانکہ انجیل میں آپ پر ایمان لانے کا حکم تھا اور انہوں نے یہودیوں کی طرح انجیل میں تحریف بھی کی۔ ای فی التوحید والایمان بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذ ھو مکتوب فی الانجیل (فَنَسُوْا حَظًّا) وھو الایمان بمحمد (علیہ الصلوۃ والسلام) ای لم یعملوا بما امروا بہ و جعلوا ذالک الھوی والتحریف سببا للکفر بمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (قرطبی ج 6 ص 117) ٖف 39 فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الخ بینھم کی ضمیر نصاریٰ کے لیے ہے اور اس سے ان کے مختلف گروہ مراد ہیں مثلاً یعقوبیہ، نسطوریہ اور ملکانیہ وغیرہ یعنی نصاریٰ نے ہمارا عہد و میثاق توڑ دیا تو ہم نے دنیا میں ان کو یہ سزا دی کہ انہیں مختلف فرقوں میں بانٹ دیا اور ان کے درمیان بغضاء و عداوت کی آگ بھڑکا دی جو قیامت تک باقی رہے گی۔ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللہُ بِمَا کَانُوْا یَضْنَعُوْنَ نقضِ عہد کی سزا دنیا میں تو وہ تھی جو پہلے مذکور ہوئی یہاں اخروی عذاب کی وعید سنائی کہ دنیا میں انہوں نے بد عہدیاں اور خیانتیں کی ہیں آخرت میں بھی ان کی سخت سزا پائیں گے۔ ای فی القیامۃ بالجزاء و العقاب (مدارک ج 1 ص 214) حضرت شیخ نے فرمایا یہود و نصاری کی عہد شکنی پر ان کی سزا ذکر کرنے سے اہل اسلام کی تنبیہ مقصود ہے اگر انہوں نے نقض عہد کیا اللہ کے احکام سے سرتابی کی تو ان کو یہ تمام سزائیں دی جائیں گی جو یہود و نصاریٰ کو علیحدہ علیحدہ دی گئیں۔ چناچہ اب مسلمانوں کو نقض عہد کی سزا مل رہی ہے۔ وہ فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ان کے درمیان بغض وعداوت کی آگ شعلہ زن ہے۔ یہاں تک سورت کے پہلے حصے مضمون اول یعنی شرک فعلی کی نفی کا بیان ختم ہوا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور ہم نے ان لوگوں سے بھی ان کا عہد لیا تھا جو یوں کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں پھر انہوں نے بھی اس نصیحت آمیز تعلیم کا ایک بہت بڑا حصہ فراموش کردیا جو ان کو دی گئی تھی اور اپنی بےعملی کے باعث ثواب کا ایک بہت بڑا حصہ فوت کر بیٹھے لہٰذا ہم نے ان کے مابین قیامت تک کے لئے باہمی دشمنی اور بغض ڈال دیا ا... ور آگے چل کر یعنی قیامت میں اللہ تعالیٰ ان کو ان کاموں سے آگاہ کر دے گا اور ان کو جتا دے گا جو وہ کہا کرتے تھے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود سے عہد لیا تھا اسی طرح ان لوگوں سے بھی جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں عہد لیا تھا یہ عہد انجیل کے واسطے سے یا عیسیٰ (علیہ السلام) کے واسطے سے لیا گیا اور عہد و میثاق کے متعلق جو تقریر ہم اوپر کرچکے ہیں اس سے مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کسی پیغمبر پر ایمان لانا اور کسی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھنا یہی عہد اور میثاق ہے اور یہ جو فرمایا کہ جو لوگ اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں اس میں اس امر کی جانب ایک لطیف اشارہ ہے کہ جنہوں نے نصرت دین کا دعویٰ کیا اور اپنا نام بھی اس دعویٰ کی بنا پر نصاریٰ رکھ لیا ان کی بھی یہ حلات ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں ناکام ہوئے اور جو عہد انہوں نے کیا تھا اس کو پورا نہ کرسکے۔ نصرت دین کا دعوے کا مطلب ی ہے کہ نحن انصار اللہ کہنے والے تھے یا ان کی اولاد میں اپنے کو سمجھتے تھے اس لئے اپنے کو نصاریٰ کہتے تھے اس لئے حضرت حق نے بطور تعریض فرمایا کہ جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں ان کی بھی بےوفائی اور بد عہدی کا یہ عالم ہے کہ جو نصیحت آمیز تعلیم ان کو دی گئی تھی اس کا ایک بہت اہم حصہ فراموش کرچکے ہیں چونکہ انجیل میں جو باتیں ان کو تعلیم کی گئی تھیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ ان سے کہا تھا اور جن باتوں کا ان سے عہد لیا تھا ان میں سب سے اہم مسئلہ نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا تھا جن کا نام حضرت عیسیٰ نے ان کو احمد بتایا تھا اور ان کے آنے کی بشارت دی تھی یہ لوگ اتنی اہم بات کو فراموش کرچکے ہیں اور نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اور اس کی شریعت پر عمل کر کے جو منافع حاصل کرتے ان کو ضائع کر بیٹھے یں۔ بہرحال ! ان کو ان کی غفلت شعاری کی یہ سزا تو دنیا میں دی گئی کہ ان کے درمیان بغض و عداوت کا بیج بو دیا گیا جو قیامت تک ان میں نشو و نما ہوتا رہے گا اور قیامت تک ان کی باہمی عداوت ختم نہ ہوگی اگر بینھم سے مراد صرف نصاریٰ لئے جائیں تب تو یہی مطلب ہے جو ہم نے عرض کیا یعنی مذہبی جھگڑے ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ان میں بیشمار فرقے ہیں اور باہم اصول و فروع میں اتنا اختلاف ہے کہ ایک دوسرے کے سخت ترین دشمن ہیں رومن کیتھولک اور پروسٹنٹ کی لڑائیاں تو ابھی کل کی بات ہے اور ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے اور وہ عداوت آج بھی قائم ہے اور اگر کسی وقت سیاسی اتحاد ان میں نظر آتا ہے تو وہ مذہبی اختلاف کے منافی نہیں اگرچہ سیاسی اتحاد کی حالت بھی گزشتہ لڑائیوں میں معلوم ہوچکی ہے کہ ایک نے دوسرے کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور ابھی قیامت تک دیکھیے کہ اس عداوت و بغض کا اور کیا کیا مظاہرہ ہوتا ہے اور اگر بینھم سے مراد یہود و نصاریٰ ہوں تو کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہود و نصاریٰ کی دشمنی اور باہم مذہبی اختلافات تو ظاہری ہیں اور یہ اختلافات بھی اگر کسی وقت سیاسی مصالح کے ماتحت دب جائیں تو ان کے دب جانے کا اعتبار نہیں جیسا کہ آجکل فلسطین کے معاملہ میں ہو رہا ہے۔ بہرحال ! دنیا میں یہ سزا دی گئی اور آخرت کی سزا کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا کہ وسوف ینبھم اللہ جداکانوا یصنعون یعنی جو کچھتم دنیا میں کفر و معاصی اور نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور حق بات کو چھپانے کی حرکات کرتے رہے ہو اس سب سے تم کو اللہ تعالیٰ عنقریب آگاہ کردے گا اور تم کو تمہارے تمام اعمال جتا دے گا۔ ینبھم میں بھی دونوں احتمال ہیں یا تو فقط نصاریٰ مراد ہیں یا یہود و نصاریٰ دونوں مراد ہیں کیونکہ عہد شکنی اور میثاق کی خلاف ورزی کے کم و بیش دونوں ہی مرتکب تھے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جب اللہ کے کلام سیاثر پکڑنا اور حکم شرع پر محبت سے قائم رہنا چھوٹ جاوے اور فقط مذہب کا جھگڑا اور حمیت رہ جائے تو راہ سے بہکے ۔ (موضح القرآن) بہرحال آیت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی ان کا عہد لیا تھا اور ان سے بھی قول قرار لیا تھا مگر انہوں نے بھی اس نصیحت میں سے جو ان کو کی گئی تھی بہت بڑا حصہ فراموش کردیا پھر ہم نے ان میں عداوت و دشمنی قیامت تک کے لئے قائم کردی اور عنقریب ہم ان کو ان کی ان تمام کارروائیوں سے آگاہ کردیں گے جو وہ کرتے رہتے ہیں اور کسی عزم کو اس کے جرائم سے آگاہ کردینا ہی اس پر سزا کا حکم جاری کردینا ہے کیونکہ فرد جرم لگا دینے کے بعد سزا کا حکم ہی سنانا ہوتا ہے۔ اب آگے پھر تمام اہل کتاب کو مخاطب فرماتے ہیں جس سے ان پر ان کی بعض خیانتوں پر تنبیہہ فرمانا ہے نیز ان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور اسلام کے قبول کرنے کی ترغیب دینا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر استدلال کرنا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more