Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 24

سورة المائدة

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾

They said, "O Moses, indeed we will not enter it, ever, as long as they are within it; so go, you and your Lord, and fight. Indeed, we are remaining right here."

قوم نے جواب دیا کہ اے موسٰی! جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے ، اس لئے تم اور تمہارا پروردگار جا کر دونوں ہی لڑبھڑ لو ، ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said, "O Musa! We shall never enter it as long as they are there. So go, you and your Lord, and fight you two, we are sitting right here." This is how they declined to join Jihad, defied their Messenger, and refused to fight their enemy. The Righteous Response of the Companions During the Battle of Badr Compare this to the better response the Companions gave to the Messenger of Allah during the battle of Badr, when he asked for their advice about fighting the Quraysh army that came to protect the caravan led by Abu Sufyan. When the Muslim army missed the caravan and the Quraysh army, between nine hundred and one thousand strong, helmeted and drawing closer, Abu Bakr stood up and said something good. Several more Muhajirin also spoke, all the while the Messenger of Allah saying, أشيروا علي أيها المسلمون Advise me, O Muslims! inquiring of what the Ansar, the majority then, had to say. Sa`d bin Mu`adh said, "It looks like you mean us, O Messenger of Allah! By He Who has sent you with the Truth! If you seek to cross this sea and went in it, we will follow you and none among us will remain behind. We would not hate for you to lead us to meet our enemy tomorrow. We are patient in war, vicious in battle. May Allah allow you to witness from our efforts what comforts your eyes. Therefore, march forward with the blessing of Allah." The Messenger of Allah was pleased with the words of Sa`d and was encouraged to march on. Abu Bakr bin Marduwyah recorded that Anas said that; when the Messenger of Allah went to Badr, he asked the Muslims for their opinion, and Umar gave his. The Prophet again asked the Muslims for their opinion and the Ansar said, "O Ansar! It is you whom the Prophet wants to hear." They said, "We will never say as the Children of Israel said to Musa, فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِل إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (So go, you and your Lord, and fight you two, we are sitting right here). By He Who has sent you with the Truth! If you took the camels to Bark Al-Ghimad (near Makkah) we shall follow you." Imam Ahmad, An-Nasa'i and Ibn Hibban also recorded this Hadith. In the Book of Al-Maghazi and At-Tafsir, Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Mas`ud said, "On the day of Badr, Al-Miqdad said, `O Messenger of Allah! We will never say to you what the Children of Israel said to Musa, فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِل إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (So go, you and your Lord, and fight you two, we are sitting right here). Rather, march on and we will be with you.' The Messenger of Allah was satisfied after hearing this statement." Musa Supplicates to Allah Against the Jews Musa said, قَالَ رَبِّ إِنِّي لا أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بدترین بزدلی، سوء ادبی اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو اور تیرا رب جا کر لڑے۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور پھر یہ کہا کہ ' یارسول اللہ ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا ' (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] بنی اسرائیل کا موسیٰ کو جہاد کرنے سے جواب :۔ لیکن یہ قوم جو مدت دراز سے فرعونیوں کی غلامی میں زندگی بسر کر رہی تھی اور اللہ کی بجائے بچھڑے کی پرستش کر رہی تھی اس قدر پست ہمت اور بزدل بن چکی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ جب تک وہ لوگ وہاں سے نکل نہیں جاتے ہم وہاں کبھی نہ جائیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کو دیدہ دانستہ ہلاکت میں ڈالنے کو تیار ہیں اگر تمہیں جہاد پر اتنا ہی اصرار ہے تو جاؤ تم اور تمہارا رب جا کر ان سے مقابلہ کرو ہم تو یہاں سے آگے نہیں جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَآ اَبَدًا۔۔ : ان دو آدمیوں نے کہا تھا کہ تم لوگ ان پر حملے کے لیے بس دروازے میں داخل ہوجاؤ، یعنی اللہ کے وعدے اور بشارت کے مطابق تمہارے داخلے کی دیر ہے، دشمن بھاگ جائے گا لیکن انھوں نے حد سے بڑھا ہوا گستاخانہ جملہ کہا : ” جا تو اور تیرا رب لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ “ اس کے برعکس بدر کے موقع پر جنگ کے اچانک سامنے آنے کے باوجود اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کمال عزم و ہمت اور شجاعت و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ مقداد بن اسود (رض) نے بدر کے دن عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا : (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) ہم تو عرض کرتے ہیں کہ آپ چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ “ یہ سن کر ایسے محسوس ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب پریشانی دور ہوگئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( فاذھب أنت وربک فقاتلا ) : ٤٦٠٩ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

But the Bani Isra&il who had not listened to their own prophet Sayyidna Musa (علیہ السلام) would have hardly listened to these elders. They gave them the same response, even in a manner which was more uncouth and grotesque. They said: فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (So go, you and your Lord, and fight. As for us, we are sitting right here). Had this remark of the Bani Isra&il been by way of mockery, it would have been open blasphemy (Kufr). After that, the fact of Sayyidna Musa (علیہ السلام) living with them and praying for them in the wilderness of Tih which finds mention in the next verse would have not been possible. Therefore, the sense of this statement given by leading commentators is: &You go and fight them. Your Lord will help you. As for us, we cannot help you.& Given this sense, their statement cannot be taken as blasphemy, though the response given by them remains grotesque and hurtful. This is why this statement of the Bani Isra&il became proverbial. Let us recollect a related episode from the early period of Islam. This is the Battle of Badr. An army contingent of a thousand strong young men starts marching against Muslims, who are hungry and almost unarmed. Seeing this happen, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) started praying before his Lord. Then, a Sahabi, Sayyidna Miqdad ibn al-Aswad (رض) stepped forward and said: &Ya Rasul Allah , we swear by Allah we shall never say what was said to Sayyidna Musa (علیہ السلام) by his people, that is فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَ‌بُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ (So go, you and your Lord, and fight. As for us, we are sitting right here). Instead of that, we shall defend you from your right and left and from the front and rear. Please feel free of any concern and go ahead with your battle plan.& When he heard this, the Holy Prophet I (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was very pleased, and his Companions (رض) too were fired with a renewed zeal for Jihad. Sayyidna ` Abdullah ibn Masud رضی اللہ تعالیٰ عنہما always used to say: &I really envy this feat of Miqdad ibn al-Aswad. I wish I too had this good fortune.& In gist, the people of Sayyidna ibn Musa (علیہ السلام) ، bygiving him a flat response at such a crucial time, broke all pledges they had made.

مگر بنی اسرائیل نے جب اپنے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نہ سنی تو ان دونوں بزرگوں کی کیا سنتے۔ پھر وہی جواب اور زیادہ بھونڈے انداز سے دیا کہ فاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ۔ یعنی آپ اور آپ کے اللہ میاں ہی جاکر ان سے مقابلہ کرلیں۔ ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ بنی اسرائیل کا یہ کلمہ اگر استہزاء کے طور پر ہوتا تو صریح کفر تھا اور اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کے ساتھ رہنا۔ ان کے لئے میدان تیہ میں دعائیں کرنا۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔ اس کا امکان نہ تھا۔ اس لئے ائمہ مفسرین نے اس کلمہ کا مطلب یہ قرار دیا کہ آپ جائیے اور ان سے مقابلہ کیجئے۔ آپ کا رب آپ کی مدد کرے گا۔ ہم تو مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ اس معنے کے اعتبار سے یہ کلمہ کفر کی حد سے نکل گیا۔ اگرچہ یہ جو اب نہایت بھونڈا اور دل آزار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ کلمہ ضرب المثل بن گیا۔ غزوہ بدر میں نہتے اور بھوکے مسلمانوں کے مقابلہ پر ایک ہزار مسلح نوجوانوں کا لشکر آکھڑا ہوا۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دیکھ کر اپنے رب سے دعائیں فرمانے لگے۔ تو حضرت مقداد بن اسود صحابی آگے بڑھے اور عرض کیا یا رسول اللہ خدا کی قسم ہے ہم ہرگز وہ بات نہ کہیں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی کہ فاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ بلکہ ہم آپ کے دائیں اور بائیں سے اور سامنے سے اور پیچھے سے مدافعت کریں گے۔ آپ بےفکر ہو کر مقابلہ کی تیاری فرمائیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر بےحد مسرور ہوئے اور صحابہ کرام میں بھی جوش جہاد کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ مقداد بن اسود کے اس کارنامہ پر مجھے بڑ ارشک ہے۔ کاش یہ سعادت مجھے بھی حاصل ہوتی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ایسے نازک موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کو را جواب دے کر اپنے سب عہد و میثاق توڑ ڈالے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْہَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰہُنَا قٰعِدُوْنَ۝ ٢٤ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ دوم أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة/ 117] ( د و م ) الدام ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة/ 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیں کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قوم موسیٰ کا جنگی تعاون سے انکار قول باری ہے (قالوا یموسی انا لن نذخلھا ابدا مادا مرا فیھ فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھتا قاعدون۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ اے موسیٰ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں، بس تم اور تمہارا رب، دونوں جائو اور لڑو ہم یہاں بیٹھتے ہیں۔ ) قول باری (فاذھب انت وربک فقاتلا) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے یہ بات بطور مجاز کہی تھی یعنی تم جائو اور تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا “۔ دوسرے یہ کہ ذہاب یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے۔ اس صورت میں قائل کے اس قول کو اس کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو جسم اور جسمانیات کے مشابہ قرار دینے پر محمول کیا جائے گا۔ یہ معنی کلام کے مفہوم کے مدنظر اولیٰ ہے اس لئے کہ یہ کلام ان لوگوں کی تردید اور ان کی جہالت پر اظہار تعجب کے موقعہ میں وارد ہوا ہے۔ کبھی مجازاً یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” قاتلہ اللہ “ اور اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ کی اس کے ساتھ عداوت اس شخص کی عداوت کی طرح ہے جو اس سے برسرپیکار ہو اور اپنے اقتدار اور تسلط کے دبدبے کی بنا پر اس پر چھایا ہوا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) مگر قوم بولی آپ اور آپ کا اللہ یا ہارون اور تم چلے جاؤ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا جیسا کہ تم دونوں کی فرعون اور اس کی قوم کی مقابلہ کے وقت مدد کی ہے، ہم نہیں جاسکتے تاہم انتظار میں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا) (مَّا دَامُوْا فِیْہَا) (فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا) گویا وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ساتھ اپنی یہ لٹھیا بھی لیتے جاؤ ‘ جس نے بڑے بڑے کارنامے دکھائے ہیں ‘ اس کی مدد سے ان جباروں کو شکست دے دو ۔ (اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ) ہم تو یہاں ٹکے ہوئے ہیں ‘ یہاں سے نہیں ہلیں گے ‘ زمین جنبد ‘ نہ جنبد گل محمد ! یہ مقام عبرت ہے ‘ تورات ( Book of Exsodus) سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ لگ بھگ چھ لاکھ افراد نکلے تھے۔ ان میں سے عورتیں ‘ بچے اور بوڑھے نکال دیں تو ایک لاکھ افراد تو جنگ کے قابل ہوں گے۔ مزید محتاط اندازہ لگائیں تو پچاس ہزار جنگجو تو دستیاب ہوسکتے تھے ‘ مگر اس قوم کی پست ہمتی اور نظر یاتی کمزوری ملاحظہ ہو کہ چھ لاکھ کے ہجوم میں سے صرف دو اشخاص نے اللہ کے اس حکم پر لبیک کہا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار ! اب نبی کی بیزاری ملاحظہ فرمائیں۔ وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جنہوں نے اپنے ہم قوم اسرائیلی کی مدافعت کرتے ہوئے ایک مکا رسید کر کے قبطی کی جان نکال دی تھی (فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِز) ( القصص : ١٥) اب اپنی قوم سے کس قدر بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ان برعکس صحابہ (رض) کرام نے ہر موقعہ پر عزم وہمت کا ثبوت دیا۔ اس کا انداز ہ جنگ بدر کے واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ جب مہاجرین (رض) کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار کی رائے معلوم کرنی چاہی تو حضرت سعد بن معاذ (رض) اپنی تقریر میں فرمایا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ ہمیں لے کر اس سمندر میں کود نا چاہیں تو ہم میں سے کسی کو انکار نہ ہوگا۔ ہم حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے کہا تھا آپ اور آپ کا پروردگار جا کر جنگ کریں ہم تویہاں بیٹھے ہیں۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء : جب نا ہنجار اور نافرمان قوم نے نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کا انکار کیا بلکہ پرلے درجے کی گستاخی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تو اور تیرا رب جاکرقتال کریں۔ غور فرمائیں، جس قوم کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیشمار مصائب وآلام برداشت کیے اور جس کے لیے اتنی جدوجہد کی کہ اس کا جواب کتنا گستاخانہ اور بزدلانہ ہے۔ یہ سن کر جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر کیا گزری ہوگی ؟ لیکن اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں کچھ کہنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں فریاد کی کہ الٰہی ! میں اپنی اور اپنے بھائی کی ذمہ داری لیتا ہوں جس کا یہ معنی ہے کہ ہم تو تیری راہ میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں اگر یہ نافرمان اپنے فائدے کی خاطر بھی تیرے راستے میں لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بس تو ہمارے اور ان کے درمیان علیحدگی فرما دیجیے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ارض مقدس کو حرام کیا اور انھیں چالیس سال تک تیہ کے صحرا میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا اور ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ آپ کو نافرمان قوم پر افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ چناچہ کچھ مدت کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوئے۔ ان کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل ارض مقدس میں داخل ہوئے لیکن اس وقت بھی انھوں نے بغاوت کا مظاہرہ کیا جس کا ذکر گزر چکا ہے۔ جغرافیہ دانوں نے اس صحرا کا رقبہ ٢٧ فرسخ طول اور ٩ فرسخ عرض بیان کیا جس کا مطلب ہے کہ یہ صحرا ٩٠ میل لمبا اور ٢٧ میل چوڑا ہے جس میں تقریباً ٧٠ لاکھ کے قریب بنی اسرائیل مقید کیے گئے جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ صبح سے شام تک اس کوشش میں سرگرداں رہتے کہ کسی طرح وہ واپس پلٹ جائیں لیکن مغرب کے وقت اسی مقام پر ہوتے جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا ہوتا تھا گویا کہ وہ بغیر کسی دیوار اور بیڑیوں کے اللہ تعالیٰ کی جیل میں جکڑ دیے گئے تھے تاہم اس دوران انھیں صبح و شام کھانے کے لیے من اور سلویٰ دیا جاتا اور پینے کے بارہ چشموں کا انتظام اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے بادلوں کا سا یہ کیا گیا۔ یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی بحر احمر (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد، شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی و سیاسی مقاصد کے لیے زیادہ سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے مگر تبا (Taba) میں سبا ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقع ہے (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیوویبا (N (علیہ السلام) weba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel sheikh) واقع ہیں سینائی العریش ( I Arishel) یں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر واقع ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے رسول کے حکم کو نہ ماننے والے فاسق ہیں۔ ٢۔ اللہ کا حکم نہ ماننے والے رسوا ہوتے ہیں۔ ٣۔ مغضوب قوم کے لیے زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ ٤۔ نافرمان لوگوں پر عذاب نازل ہو تو افسوس نہیں کرنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” قَالُواْ یَا مُوسَی إِنَّا لَن نَّدْخُلَہَا أَبَداً مَّا دَامُواْ فِیْہَا فَاذْہَبْ أَنتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلا إِنَّا ہَاہُنَا قَاعِدُونَ (24) (لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ ” اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے ‘ جب تک وہ وہاں موجود ہیں ۔ بس تم اور تمہارا رب ‘ دونوں جاؤ اور لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں) یوں بزدل صفوں سے نکل جاتے ہیں اور شرمندہ ہوجاتے ہیں ۔ وہ خطرات سے ڈر کر پانبر نجیر ہوجاتے ہیں ‘ جس طرح گدھوں کے پاؤں باندھ دیئے جاتے ہیں اور پھر وہ کوئی اقدام نہیں کرتے ۔ بزدلی اور بےشرمی آپس میں متضاد نہیں ہیں نہ ایک دوسرے سے دور ہیں ۔ یہ اوصاف بعض اوقات اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔ ایک بزدل جب اپنے فرائض کی طرف آگے بڑھتا ہے تو وہ بزدلی دکھا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ وہ اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح اس نے فرض کو ترک کردیا ۔ پھر وہ اس مقصد ہی کو برا کہتا ہے ‘ اس دعوت کو بھی برا بھلا کہتا ہے ‘ جو اس سے بات کا مطالبہ کرتی ہے جو وہ کرنا نہیں چاہتا ۔ (آیت) ” فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “۔ (٥ : ٢٤) (بس تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں) یہ تھی ایک کمزور اور بزدل کی عاجزی اس کی زبان سے بہت ہی تیز ہے لیکن مقصد کی طرف بڑھنے کے لئے اس کے قدم بوجھ ہیں اور وہ تیروں کی چبھن محسوس کرتا ہے ۔ (آیت) ” فاذھب انت وربک “۔ (٥ : ٢٤) (جاؤ تم اور تمہارا رب) اگر وہ اب ہمیں جنگ پر مجبور کرتا ہے تو ہم اس کی الوہیت کو قبول نہیں کرتے ، یہ تمہارا رب ہے ۔ (آیت) ” انا ھھنا قعدون “۔ (٥ : ٢٤) (ہم تو یہاں ہی بیٹھے ہیں) ہمیں نہ تو مملکت کی ضرورت ہے ‘ نہ عزت کی ضرورت ہے ‘ نہ ارض موعودہ کی ضرورت ہے ۔ اس وقت تک اس میں جبار قوم موجود ہے ۔۔۔۔ یہ تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد کا انجام ۔۔۔۔ طویل سفر ‘ اس میں ذلت و خواری ‘ اور بنی اسرائیل کی جانب سے بار بار انحراف ‘ پہلوتہی اور قدم قدم پر نافرمانی ۔۔۔۔۔ یقینا یہ ان کا انجام ہے کہ وہ ارض مقدس کی فتح سے الٹے پھرتے ہیں ، حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے ساتھ ہیں اور وہ اس سرزمین کی دہلیز پر ہیں ۔ وہ اس سرزمین کی دہلیز پر ہیں ۔ وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہدوپیمان سے پھرتے ہیں ۔ حالانکہ اس عہد قدیم کا اس عہد یعنی فتح بیت المقدس سے گہرا ربط تھا ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مایوسی کے عالم میں کریں تو کیا کریں ؟ (آیت) ” قال رب انی لا املک الا نفسی واخی فافرق بیننا وبین القوم الفسقین “۔ (٥ : ٢٥) (اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” اے میرے رب ‘ میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر میری اپنی ذات یا میرا بھائی ‘ پس تو ہمیں ان نافرمان لوگوں سے الگ کر دے ۔ “ یہ ایک ایسی پکار ہے جو رنج والم سے بھری ہوئی ہے ۔ اس میں ایک طرف التجاء ہے تو دوسری جانب مکمل تسلیم ورضا ہے اور اس کے بعد فیصلہ کن پختگی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اچھی طرح علم تھا اور یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ان کے بھائی کے سوا اور کوئی کا حامی نہیں رہا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک شرمندہ انسان کے ضعف اور ایک نبی جو کلیم اللہ ہے ‘ اس کے ایمان کے بیچ میں کھڑے ہیں اور ایک راست باز مومن کی طرح عزم صمیم کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے کہ صرف اللہ کی متوجہ ہوں اور اس کے سامنے اپنے درد و دکھ کا اظہار بشکل سرگوشی کریں اور یہ مطالبہ کریں کہ اے اللہ مجھے اجازت دے دے کہ میں اس فاسق قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاؤں اس لئے کہ جب انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے پختہ عہد سے روگردانی اختیار کرلی تو اب ان کے ساتھ نبی کلیم کا تعلق ہی کیا رہ گیا ہے ؟ وہ ان کے ساتھ بوجہ نسب نامہ مربوط نہ تھے ‘ نہ یہ کہ ان کی تاریخ ایک ہے ‘ نہ ان کا واسطہ ان کے ساتھ اس اساس پر تھا کہ انہوں نے ایک جگہ مل کر جدوجہد کی تھی اور رفیق کار تھے ۔ ان کے درمیان رابطہ تو دعوت الی الحق کی اساس پر ہی تھا ۔ ان کے درمیان رابطہ یہی عہد قدیم تھا اور یہ عہد انہوں نے توڑ ڈالا تھا ۔ اس لئے ان کے درمیان مکمل قطع تعلق ہوگیا اور نہایت ہی گہرائی تک چلا گیا ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے درمیان کوئی رابطہ ہی نہیں رہا ہے ۔ حضرت اپنے عہد ومیثاق کے پابند ہیں اور قوم نے اس سے نافرمانی اختیار کرلی ہے ۔ وہ عہد پر پختہ جمے ہوئے ہیں اور قوم اس سے برگشتہ ہوگئی ہے ۔ یہ ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے ادب اور احترام ۔ اور یہی ہے ان کی سنت اور یہی ہے ایک سچے مومن کا منصوبہ ۔ اور یہی ہے وہ اساس اور رابطہ جس پر لوگ جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں ۔ اس راہ میں قوم ‘ نسب ‘ نسل اور مشترکہ تاریخ کچھ چیز نہیں ہے اس میں اس زمین کے تعلقات میں سے کوئی تعلق کام نہیں دیتا ۔ راہ میں جب نظریات کا تعلق ٹوٹ جائے تو تمام تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور جب عقیدے جدا ہوجائیں تو راستے اور منہاج بھی جدا ہوجاتے ہیں ۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی پکار کا جواب دیتے ہیں اور فاسقوں کو پوری پوری سزا دے دی جاتی ہے ۔ (آیت) ” قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ ، یتیھون فی الارض ، فلا تاس علی القوم الفسقین “۔ (٢٦) ” اللہ نے جواب دیا ” اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک ان پر حرام ہے ‘ یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے ‘ ان نافرمانوں کی حالت پر ہر گز ترس نہ کھاؤ۔ ) اللہ تعالیٰ نے ان بدبختوں کو صحراؤں کے حوالے کردیا حالانکہ وہ ارض مقدس کی دہلیز پر تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان پر وہ سرزمین حرام کردی جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی اور راجح قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس وقت موجود نسل پر اس سرزمین کو حرام کردیا تھا ‘ اور جب تک ان کے نطفوں سے جدید نسل تیار نہ ہوئی وہ اسی طرح مارے مارے پھرتے رہے ۔ چناچہ ان پر ازض موعود میں داخلہ اس وقت تک ممنوع رہا جب تک نئی نسل تیار نہ ہوگئی ‘ ایسی نسل جو نصیحت قبول کرتی ہو ‘ یہ نسل خالص صحرا نوروی کی حالت میں تیار ہوئی اور یہ بالکل آزاد منش اور حریت پسند تھی ۔ یہ وہ نسل نہ تھی جسے ذلت ‘ غلامی اور مصریوں کے مظالم نے کمزوری کا خوگر بنا دیا تھا ۔ اس لئے وہ نسل اس کام کے لئے موزوں نہ تھی جو اولو العزم لوگوں کا کام ہے ۔ ذلت ‘ غلامی اور ظلم انسان کی فطرت کو خراب کردیتے ہیں ۔ اسی طرح ان چیزوں سے قوموں کی فطرت بھی خراب ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ غلامی اور ظلم انسان کی فطرت کو خراب کردیتے ہیں ، اسی طرح ان چیزوں سے قوموں کی فطرت بھی خبراب ہوجاتی ہے اس لئے کہ غلامی میں قوموں کے ضمیر بدل جاتے ہیں ۔ یہاں آکر بات ختم ہوجاتی ہے اور ان لوگوں کو صحرا کے حوالے کردیا جاتا ہے ۔ اس پر مزید ان کے بارے میں یہاں کچھ نہیں کہا جاتا ۔ یہ ایک ایسا انداز ہے جس میں نفسیاتی عبرت آموزی اور فنی خوبصورت دونوں ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں یہ قرآن کریم کا خاص انداز بیان ہے ۔ اس سبق کو مسلمانوں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا ‘ اللہ نے ان کے سامنے یہ پوری کہانی اسی انداز میں رکھ دی تھی جس طرح وہ پیش آئی تھی ۔ چناچہ انہوں نے اپنے نبی سے کہا : اے محمد ! آج ہم وہ بات نہ کہیں گے جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کہی تھی کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو تم دونوں ‘ ہم تو یہاں ہی بیٹھے ہیں ۔ (فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قعدون “ (٥ : ٢٤) (قرآن کریم کے اندازتربیت کے یہ بعض نمونے ہیں ۔ قرآن عام قصص کے انداز میں تربیت کرتا ہے ‘ یہ تھے قصہ بنی اسرائیل کے بیان کی حکمت کے بعض پہلو) ۔ درس نمبر ٤٨ ایک نظر میں : اس سبق میں انسانی زندگی کے لئے بعض نہایت ہی اساسی قوانین وضع کئے گئے ہیں وہ احکام جو جان کی حفاظت کے لئے ہیں ۔ یہ احکام اس معاشرے کے لئے ہیں جس میں اسلامی زندگی رائج ہو ۔ ان قوانین کا مقصد اسلامی نظام زندگی کی حمایت اور اس نظام کے خلاف بغاوت کے راستوں کو بند کرتا ہے اور اس حکومت کو بچانا ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق قائم ہو اور شریعت کے زیر سایہ کام کر رہی ہو ۔ نیز اس سے سوسائٹی کا تحفظ مطلوب ہے جو شریعت اسلامی کے زیر سایہ اور ایک اسلامی حکومت کے زیر سایہ کام کر رہی ہو ۔ ان احکام سے اسلامی حکومت کی رعایا کے مال اور جان دونوں کی حفاظت مطلوب ہے ‘ بشرطیکہ یہ معاشرہ ‘ یہ حکومت اور یہ نظام اسلامی شریعت کے مطابق چل رہے ہوں ۔ اس پورے سبق میں ‘ سوسائٹی کی اجتماعی زندگی کے بچاؤ کے سلسلے میں نہایت ہی اساسی احکام دیئے گئے ہیں لیکن اس سبق کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے قصے سے کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ قتل و غارت کے اس جرم کے ارتکاب کے وقت مجرمین کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ وہ کیا اسباب اور فیکٹر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مجرم جرم کا ارتکاب کے وقت مجرمین کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ وہ کیا اسباب اور فیکٹر ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مجرم جرم کا ارتکاب کرتا ہے نیز اس سبق میں بتایا جاتا ہے کہ یہ جرم نہایت ہی گھناؤنا ہے اور یہ کہ اس کا تدارک اور سدباب کرنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ اس جرم کے مجرم کو سزا دینا بھی بہت ضروری ہے اور ان اسباب اور موثرات پر قابو پانا بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے ایک شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قصے کے تمام اشارات مکمل طور پر ان احکام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو اس قصے کے بعد آتے ہیں ۔ ایک غور وفکر سے پڑھنے والا اس بات کو بسہولت بسہولت محسوس کرسکتا ہے کہ اس سیاق کلام میں اس قصے کو لانے کا مقصد کیا ہے ؟ اور وہ کس قدر عمیق اور تشفی بخش اشارہ ہے ‘ جو یہ قصہ نفس انسانی پر انڈیلتا ہے اور اسے اس میں پیوست کردیتا ہے ۔ یہ قصہ انسان کے دل و دماغ کو ان احکام کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کردیتا ہے کہ وہ ان سخت سزاؤں کو قبول کرے جو اسلام محاربت اور جان کے خلاف جرائم اور نظام ملکیت کے خلاف جرائم اور نظام مملکت میں اسلامی عدالتوں کی طرف سے نافذ ہوں گی جو اسلامی شریعت کے مطابق کام کرتی ہیں ۔ اسلامی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو اسلامی نظام کے مطابق شریعت محمدیہ کے تحت چلائے ۔ وہ اپنے معاملات ‘ اپنے روابط اور تعلقات اسلامی نظام اور اسلامی قانون شریعت کے مطابق منظم کرے ۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق یہ معاشرہ ایک فرد کا کفیل بھی ہوگا ‘ ایک جماعت کا بھی وہ کفیل ہوگا اور فرد اور سوسائٹی دونوں کو انصاف ‘ سیکورٹی ‘ اطمینان اور سکون عطا کرسکے گا ۔ وہ ان تمام عناصر کے فساد کے دروازے بند کرسکے گا جو افراتفری ‘ بےچینی ‘ دباؤ اور گھٹن پیدا کرتے ہیں اور وہ تمام اسباب ختم ہوجائیں گے جن کی وجہ سے معاشرے کے اندر ظلم و زیادتی ہوتی ہے ۔ اسی طرح لوگوں کی حاجات اور ضروریات بھی بڑی آسانی سے پوری ہو سکیں گی ۔ اسی طرح اس قسم کے باہم متکافل ‘ متوازن ‘ منصفانہ اور فاضلانہ معاشرے کے اندر کسی کی جان اور مال پر ‘ کسی کی انفرادی کی ملکیت پر یا نظام مملکت کے خلاف اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہایت ہی بری حرکت اور سخت جرم سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے لئے کوئی وجہ جوا زیا عذر یا ایسے حالات نہیں ہوتے جو اس جرم کے لئے مخفف (Mit gAting) ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرم اور مجرم کے خلاف اسلام کی جانب سے یہ سختی اس وقت کی جاتی ہے جب ایک فرد کے لئے صحیح راہ پر چلنے کے تمام مواقع فراہم کردیئے جائیں ‘ یعنی معتدل مزاج لوگوں کے لئے درست طور پر زندگی بسر کرنے کے حالات موجود ہوں اور ایسے حالات موجود ہوں کہ ایک فرد اور ایک جماعت اگر چاہیں تو پاکیزہ زندگی بسر کرسکتے ہوں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اسلامی نظام حکومت اور اسلامی نظام عدالت مجرم کو مکمل قانونی تحقیقات اور قانونی فیصلے کے حقوق دیتا ہے ۔ اگر ذرا بھی شبہ پیدا ہوجائے تو شبہات کی وجہ سے حدود ساقط کردیئے جاتے ہیں ۔ نیز اس کے لئے توبہ کا دروازہ بھی کھلا چھوڑا جاتا ہے جس کے مطابق بعض حالات میں اس کا جرم اس دنیا میں بھی معاف ہو سکتا ہے جبکہ آخرت میں اس کے تمام جرائم اور گناہوں کو بہرحال اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے ۔۔۔۔ ۔۔ اس درس میں ہم اس کے تمام پہلو اور نمونے پائیں گے اور متعدد و احکام اور قوانین کا ذکر ہوگا ۔ لیکن آیات کی تفسیر اور براہ راست احکام پر کلام کرنے سے پہلے ‘ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک عام اور اہم بات یہاں نوٹ کرلی جائے یعنی وہ معاشرہ کیسا ہوگا جس میں یہ سخت قوانین نافذ ہوں گے اور قوت نافذہ کے لئے حدود وقیود کیا ہیں ؟ اس سبق میں جو احکام اور قوانین وارد ہیں ‘ چاہے ان کا تعلق ان جرائم سے ہو جو نفس کے خلاف ہوں یا ان احکام سے ہو جو نظام مملکت کے خلاف ہوں یا ان احکام سے جو کسی کے مال کے خلاف ہوں ؟ ان کی حیثیت ان دوسرے شرعی احکام جیسی ہی ہے جو جرائم حدود ‘ قصاص اور تعزیرات میں وارد ہیں ۔ یعنی یہ تمام احکام تب نافذ ہوں گے جب ان کی قوت نافذہ اسلامی معاشرے کی شکل میں ‘ دارالاسلام میں موجود ہو۔ لہذا ضروری ہے کہ شریعت کے مطابق دارالاسلام کی تعریف بھی کردی جائے ۔ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک پوری دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہے اور ہم کوئی تیسرا بلاک تسلیم نہیں کرتے ۔ پہلا بلاک دارالاسلام ہے اور اس سے مراد وہ ملکت ہے جس کے اندر اسلامی احکام نافذ ہوتے ہیں ۔ جس کا قانونی نظام شریعت پر مبنی ہو ‘ چاہے اس کے باشندے سب کے سب مسلمان ہوں یا مسلمانوں اور ذمیوں دونوں پر مشتمل ہوں یا اس کے لوگو سب کے سب غیر مسلم ہوں اور حکمران مسلمان ہو اور اسلامی ملک کا قانون ہو اور فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ (اگرچہ ذمہ پر تمام احکام اسلامی شریعت لازمی نہیں ہیں ‘ اسلام کے صرف سول اور فوجداری احکام لازم ہیں) یا صورت یہ ہو کہ تمام آبادی مسلم ہے یا مسلم اور غیر مسلم مشترکہ آبادی ہو لیکن اس ملک پر حربی غیری مسلموں کا قبضہ ہوجائے لیکن ملک کا قانون نظام نہ بدلا گیا ہو اور ملک کے باشندے بدستور اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہوں ۔ اس لئے کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کا مکمل دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ اس کا قانونی نظام شریعت کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے اندر تنازعات کا فیصلہ شریعت پر ہوتا ہے یا کسی دوسرے قانون پر ۔ دوسرا دارالحرب ہے اور دارا الحرب ہر وہ ملک ہے جس میں اسلامی شریعت نافذ نہ ہو اور جس میں فیصلے شریعت کے مطابق نہ ہوتے ہوں ، رہے اس کے باشندے تو وہ جس مذہب وملت کے پیروکار ہوں ‘ چاہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں ‘ چاہے وہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے ہوں ‘ یا وہ دوسرے کفار ہوں وہ دارالحرب کے باشندے ہوں گے ۔ اس لئے کسی ملک کے دارالحرب ہونے کا مدار بھی مکمل طور پر صرف اس بات پر ہے کہ اس کے اندر اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہو اور اس کے اندر عدالتوں میں فیصلے اسلامی شریعت کے مطابق نہ ہوں ۔ ایسے مالک کو ایک مسلمان اور ایک اسلامی جماعت کے نقطہ نظر سے دارالحرب کہا جائے گا ۔ مسلم معاشرہ وہ ہوتا ہے جو دارالاسلام میں قائم ہو ‘ اپنے درج بالا مفہوم کے مطابق ۔۔۔۔۔ اور یہ اسلامی معاشرہ جو اسلامی منہاج کے مطابق ہو ‘ جس پر شریعت اسلامی کی حکمرانی ہو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس میں لوگوں کی جانوں کو تحفظ دیا جائے ‘ اس میں لوگوں کے اموال کو تحفظ دیا جائے ‘ اس کے نظام مملکت کو بچایا جائے اور اس میں اور صرف اس میں ان مجرموں پر یہ منصوص سزائیں جاری کی جائیں جن کا ذکر ان آیات میں ہوگا اور جو ان لوگوں کے خلاف نافذ ہوں جو لوگوں کی جان ‘ مال اور مملکت میں خلل انداز ہو رہے ہوں ۔ اس درس اور اس کے علاوہ دوسری قرآنی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی بلند اور صاحب فضیلت معاشرہ ہوگا ۔ اس میں عدل اور آزادیاں ہوں گی ۔ اس معاشرے میں روز گار اور ضروریات زندگی کی ضمانت ہوگی چاہے کوئی کام کرنے پر قادر ہو یامعذور ہو ۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہوگا جس میں بھلائی پر آمادہ کرنے والے عوامل زیادہ ہوں گے اور برائی پر آمادہ کرنے والے فیکٹر بہت ہی کم ہوں گے ۔ اس لئے ایسے معاشرے کا ان تمام لوگوں پر حق ہوگا جو اس کے اندر رہتے ہیں اور اس سے نفع اندوز ہوتے ہیں کہ وہ اس معاشرے کی دل و جان سے حفاظت کریں اور وہ دوسرے باشندگان ملک کے تمام مالی ‘ جانی ‘ عزت کے اور اخلاق کے حقوق کی رعایت و حفاظت کریں ۔ یہ تمام باشندے اس دارالاسلام کی حفاظت کریں جس میں وہ صحیح وسالم اور امن وامان سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ جس میں ان کو مکمل سیکورٹی حاصل ہے ‘ جس میں ان کو تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں اور جس میں ان کو تمام خصائص انسانی کے مراتب حاصل ہیں ‘ جس میں ان کو تمام سوشل اور اجتماعی حقوق حاصل ہیں بلکہ تمام باشندوں کا فرض ہے کہ وہ ان تمام حقوق کی حفاظت کریں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی دارالاسلام کے اس نظام کے مقابلے میں بغاوت پر اتر آتا ہے تو وہ ظالم ‘ گناہ گار ‘ شرپسند اور تخریب کار ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے سخت سے سخت سزا دی جائے ، لیکن اس میں بھی اسے یہ حقوق دیئے گئے ہیں کہ کسی کو محض ظن اور شب ہے کی بان پر نہ پکڑا جائے اور یہ اصول اس قانون پر بھی لاگو ہوگا کیونکہ شبہات کی وجہ سے حدود ساقط ہوجاتے ہین۔ رہا دارالحرب جس کی تعریف اوپر کردی گئی ہے تو وہ اور اس کے باشندے اس بات کے مستحق ہی نہیں ہیں کہ ان کو اسلامی شریعت کے اندر نافذ کردہ سزاؤں کا فائدہ دیا جائے ‘ اسلئے کہ وہاں تو سرے سے شریعت کا نفاذ ہی نہیں ہوتا۔ نہ یہ معاشرہ اسلام کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے ۔ پھر یہ دارالحرب ان مسلمانوں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرتا جو دارالاسلام میں رہتے ہیں اور جو اپنے ہاں اسلامی شریعت کو نافذ کرتے ہیں ۔ ان دارالکفر اور دارالحرب والوں کے نزدیک مسلمانوں کی جان ومال مباح ہے ۔ اس لئے اسلام کے نزدیک ایسے لوگوں کا کوئی احترام نہیں ہے الا یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی کا کوئی عہد ہو ‘ اور ان کے اور دارالاسلام والوں کے نزدیک معاہدے طے ہوجائیں ۔ اسلامی شریعت یہ تمام سہولیتیں جو دارالاسلام میں مسلمانوں کو حاصل ہیں ان افراد کو بھی فراہم کرتی ہے جو دارالحرب سے دارالاسلام کو ہجرت یا سفر کرکے آتے ہیں ۔ جب وہ دارالاسلام میں معاہدہ امن کے ساتھ داخل ہوجائیں اور اس میں عہد کی مدت طے ہو اور وہ دارالاسلام کے حدود کے اندر آجائیں جس کا حاکم مسلمان ہو اور مسلمان حاکم وہی ہوتا ہے جو دارالاسلام میں شریعت حقہ کو نافذ کرے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53 قَالُوْا یٰمُوْسیٰ الخ ان دونوں کی باتوں کا بنی اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے ان کے وعظ و نصیحت کو کوئی اہمیت ہی نہ دی اور ان کو قابل خطاب بھی نہ سمجھا اور اپنی ضد پر اڑے رہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے وہی اپنا پہلا جواب دہرایا اور اس کے ساتھ مزید کہا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ الخ بعض مفسرین نے لفظ رب کو اس کے حقیقی مفہوم پر محمول کیا ہے یعنی تم اور تمہارا رب جائیں اور ان سے لڑیں ہم تو یہاں سے ہلیں گے بھی نہیں اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ تم جا کر ان سے لڑو اللہ تمہارا ساتھی ہوگا اور تمہارا ناصر و مددگار ہوگا۔ الوجہ فیہ ان یقال اذھب انت و ربک یعینک علی قتالک (مدارک ص 216 ج 1) ہم میں تو ان کا مقابلہ کرنے کی جراءت نہیں یا انہوں نے یہ الفاظ اللہ اور اس کے رسول سے استہزاء اور استہانت کے طور پر کہے تھے وقالوا ذالک استہانۃ واستہزاءً بہ سبحانہ و برسولہ علیہ الصلوہ والسلام و عدم المبالاہ بھما (روح ج 6 ص ص 108) وابو السعود ج 3 ص 554) یا رب سے مجازاً سردار یعنی حضرت ہارون (علیہ السلام) مراد ہیں کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بڑے بھائی تھے۔ او وربک ؟ و سیدک وھو اخوک الاکبر ھرون (مدارک) یعنی ہم تو جہاد کرنے سے رہے اور اگر تمہیں جہاد لازمی طور پر کرنا ہی ہے تو اپنے بھائی کے ساتھ ان سے جا کر لڑو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز کبھی بھی اس سرزمین میں قدم نہیں رکھیں گے اور اگر ان سے لڑنا ہی ہے تو اے موسیٰ ! تو اور تیرا رب دونوں جائو اور ان سے تم دونوں جا کر لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں اور ہم تو یہاں سے سرکنے والے نہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ہم تو کسی طرح اس سرزمین پر قبضہ اور تسلط رکھنے والوں سے لڑنے پر آمادہ نہیں ہیں اور اگر لڑنا ہی ہے اور ایسا کرنا ضروری ہے تو پھر اے موسیٰ تم چلے جائو اور تمہارا رب تمہاری مدد کرنے چلا جائے اور جا کر لڑ لو ہم تو یہاں سے قدم بڑھانے اور جہاد کرنے کو جانے والے نہیں بظاہر بنی اسرائیل کا یہ کہنا کفر ہے اور جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرنے کو جائے تب بھی ان کلمات کے فسق ہونے میں تو شک نہیں اور چونکہ حضرت ی موسیٰ ان لوگوں سے علیحدہ نہیں ہوئے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کافر نہیں ہوئے اور اسی بنا پر تفسیر مظہری نے یہ توجیہہ کی ہے جس کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اذھب انت و ربک یعینک بہر حال ! جرم قابل توبہ تھا اور ہوسکتا ہے کہ حضرت ی موسیٰ نے ان سے توبہ کرائی ہو لیکن قرآن کریم میں کوئی تفصیل مذکور نہیں البتہ قواعد شرعیہ کی بنا پر یہ کہا جا سکات ہے کہ اس گستاخانہ اور فاسقانہ کلام پر ان سے توبہ ضرور کرائی گئی ہوگی۔ (واللہ اعلم) بنی اسرائیل کے اس گستاخانہ جواب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت متاثر اور پریشان ہوئے اور حضرت حق تعالیٰ کی جناب میں دعا کی آگے اس دعا کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تہسیل)