Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 28

سورة المائدة

لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۸﴾

If you should raise your hand against me to kill me - I shall not raise my hand against you to kill you. Indeed, I fear Allah , Lord of the worlds.

گو تو میرے قتل کے لئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھاؤں گا ، میں تو اللہ تعالٰی پروردگار عالم سے خوف کھاتا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"If you do stretch your hand against me to kill me, I shall never stretch my hand against you to kill you, for I fear Allah; the Lord of all that exists." Qabil's brother, the pious man whose sacrifice was accepted because of his piety, said to his brother, who threatened to kill him without justification, لَيِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لاََقْتُلَكَ (If you do stretch your hand against me to kill me, I shall never stretch my hand against you to kill you), I will not commit the same evil act that you threaten to commit, so that I will not earn the same sin as you, إِنِّي أَخَافُ اللّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ (for I fear Allah; the Lord of the all that exists), and, as a result, I will not commit the error that you threaten to commit. Rather, I will observe patience and endurance. Abdullah bin `Amr said, "By Allah! Habil was the stronger of the two men. But, fear of Allah restricted his hand." The Prophet said in a Hadith recorded in the Two Sahihs, إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّار When two Muslims fight (meet) each other with their swords, both the murderer as well as the murdered will go to the Hellfire. They said, "O Allah's Messenger! It is all right for the murderer, but what about the victim?" Allah's Messenger replied, إِنَّه كَانَ حَرِيصًا عَلى قَتْلِ صَاحِبِه He surely had the intention to kill his comrade. Imam Ahmad recorded that, at the beginning of the calamity that Uthman suffered from, Sa`d bin Abi Waqqas said, "I bear witness that the Messenger of Allah said, إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ القَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَايِمِ وَالْقَايِمُ خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي There will be a Fitnah, and he who sits idle during it is better than he who stands up, and he who stands up in it is better than he who walks, and he who walks is better than he who is walking at a fast pace. When he was asked, `What if someone enters my home and stretched his hand to kill me?' He said, كُنْ كَابْنِ ادَم Be just like (the pious) son of Adam." At-Tirmidhi also recorded it this way, and said, "This Hadith is Hasan, and similar is reported on this subject from Abu Hurayrah, Khabbab bin Al-Aratt, Abu Bakr, Ibn Mas`ud, Abu Waqid and Abu Musa." The Qur'an continues, إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِكَ جَزَاء الظَّالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] جب قابیل کی قربانی مردود ہوگئی تو اس کا طیش انتقام میں بدل گیا اور اس نے علی الاعلان اپنے بھائی ہابیل کو دھمکی دے دی کہ && میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا && (شاید قابیل کا یہ خیال ہو کہ ہابیل کے مرنے کے بعد اس لڑکی پر میرا ہی حق باقی رہ جائے گا) اس کا جواب ہابیل نے یہ دیا کہ اگر تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ بلکہ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ پرہیزگاری کی راہ اختیار کرتے اس صورت میں شاید تمہاری قربانی قبول ہوجاتی اور اگر تم مجھے مارنے پر ہی تلے ہوئے ہو تو میرا ایسا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے میں بہرحال اس معاملہ میں ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اسے بہت بڑا ظلم سمجھتا ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ ۔۔ : یعنی میں تمہیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تمہاری طرف نہیں بڑھاؤں گا، اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ اٹھاؤں تو الگ بات ہے، کیونکہ اپنا دفاع تو ضروری ہے اور اس پر امت مسلمہ کا بھی اجماع ہے۔ (قرطبی) اگر مقتول بھی اپنے قاتل کو قتل کرنے کے پیچھے لگا ہوا ہو تو ایسی صورت میں دونوں جہنمی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ “ احنف بن قیس (رض) نے پوچھا : ” اے اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے، مقتول کا کیا قصور ہے ؟ “ فرمایا : ” اس لیے کہ وہ بھی اپنے قاتل کے قتل پر حریص تھا۔ “ [ بخاری، الایمان، باب : ( و ان طائفتان من المؤمنین۔۔ ) : ٣١ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِيْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِيَ اِلَيْكَ لِاَقْتُلَكَ۝ ٠ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٢٨ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (لئن بسطت الی یدک لتقتلنی ما انا بباسط یدی الیک لاقتلک اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھائوں گا) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس کے معنی ہیں کہ اگر تو مجھے قتل کرنے میں پہل کرے گا تو میں پہل نہیں کروں گا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تو میرے قتل کا قصد و ارادہ کرے گا تو میں اپنا دفاع نہیں کروں گا۔ روایت ہے کہ اس نے دھوکے سے قتل کردیا تھا۔ جب وہ نیند میں تھا اس پر ایک بڑا پتھر لڑھکا دیا جس سے اس کا سر پاش پاش ہوگیا۔ حسن اور مجاہد سے یہ روایت ہے کہ ان پر یہ فرض کردیا گیا تھا کہ جب کوئی کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو وہ اسے ایسا کرلینے دے اور اپنا دفاع نہ کرے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ عقلی طور پر اس کا جواز ہے کہ اس جیسے حکم کا وردد بطور عبادت ہوا ہو۔ اگر پہلی تاویل لی جائے تو اس میں اس بات کے جواز پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنے کا ارادہ کرے وہ اپنے دفاع میں اسے قتل نہ کرے۔ اس میں صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنی طرف سے اقدام قتل میں پہل نہ کرے۔ اگر دوسری تاویل لی جائے تو یہ لامحالہ منسوخ ہے۔ ممکن ہے کہ بعض انبیاء متقدمین کی شریعت کے ذریعے اس حکم کو منسوخ کردیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا نسخ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے ذریعے عمل میں آیا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں یہ حکم اب باقی نہیں ہے، نیز یہ کہ جس شخص کو کوئی شخص قتل کردینے کا ارادہ کرے اس پر واجب ہے کہ بس چلنے پر وہ اسے قتل کر دے اس کے لئے اسے قتل نہ کرنے کی بس چلنے کی حد تک کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بعث احذذاھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تقی الی امر اللہ۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں برسرپیکار ہوجائیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو ، اس کے بعد اگر ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی پر اتر آئے تو سرکشی کرنے والے گروہ کے خلاف قتال کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے باغی گروہ کے خلاف قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی بغاوت نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان ناحق دوسرے انسان کی جان کے درپے ہوجائے۔ یہ آیت ناحق کسی انسان کی جان کے درپے ہوجانے والے کو قتل کردینے کی مقتضی ہے۔ قول باری ہے (ولکم فی القصاص حیوۃ قصاص لینے کے اندر تمہارے لئے زندگی ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ قصاص یعنی قاتل کو قتل کردینے کے حکم کے ایجاب میں ہمارے لئے زندگی ہے۔ اس لئے کہ ناحق کسی کے قتل کے درپے ہوجانے والے کو جب یہ علم ہوگا کہ اس سے قصاص لیا جائے گا تو وہ قتل کے فعل سے باز رہے گا۔ یہی بات اس صورت میں بھی موجود ہے جس میں ناحق قتل کے درپے ہونے والے شخص کو قتل کردیا جائے کیونکہ اس طرح ایک بےگناہ شخص کی جان بچ جاتی اور اسے زندگی مل جاتی ہے ارشاد باری ہے (وقاتلوا ھم حتی لا تکون فتنۃ، ان کے خلاف جنگ کرو حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہے) اللہ تعالیٰ نے فتنہ ختم کرنے کے لئے قتل کا حکم دیا۔ کسی کی ناحق جان لینے کا ارادہ کرنا بھی فتنہ اور فساد کی ایک صورت ہے۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں اسماعیل بن فضل نے، انہیں حسین بن حریث نے، انہیں الفضل بن موسیٰ نے معمر سے، انہوں نے عبد اللہ بن طائوس سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من شھر سیفہ ثم وضعہ قدمہ ھدر۔ جس شخصنے اپنی تلوار بلند کی اور پھر کسی کی جان لے لی تو اس کا خون رائیگاں جائے گا) یعنی اس قاتل کو کوئی اگر قتل کر دے تو اس کا کوئی خونبہا ادا نہیں کیا جائے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حد استفاضہ کو پہنچنے والی روایات میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (من قتل دون نفسہ فھو شھید و من قتل دون اھلہ فھو شہید ومن قتل دون مالہ فھو شہید۔ جو شخص اپنی جان کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے۔ جو شخص اپنے اہل و عیال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے) عبداللہ بن الحسین نے عبدالرحمٰن الاعرج سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من ارید مالہ فقاتل فقتل فھو شہید جس شخص کا مال لوٹنے کی کوشش کی جائے اور وہ مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ جو شخص اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے۔ ایک شخص کی اپنے مال کے دفاع میں اس وقت جان جاتی ہے جب وہ مال کی حفاظت کی خاطر مقابلہ کرتا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ نے حضرت ابوسعید خدری سے فرمایا تھا (من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذاک اضعف الایمان ۔ تم میں سے جو شخص کسی منکر یعنی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کے ذریعے بدل ڈالے اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان کے ذریعے اسے بدلے یعنی اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو کم از کم اسے دل سے برا سمجھے یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے برائی کو طاقت کے ذریعے بدل ڈالنے کا حکم دیا اور اگر قتل کے بغیر اس برائی کو بدل ڈالنا ممکن نہ ہو تو ظاہر حدیث کا مقتضیٰ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے، اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے ناحق کسی کو قتل کرنے کی نیت سے تلوار اٹھا لی تو مسلمانوں پر اسے قتل کرنا واجب ہے۔ اسی طرح جس شخص کے قتل کا ارادہ کیا جائے اس کے لئے قتل کے درپے انسان کو قتل کردینا جائز ہے۔ خارجیوں نے جب لوگوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی (رض) نے انہیں تہ تیغ کیا۔ آپ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام بھی تھے اور اس معاملے میں سب کو آپ سے اتفاق تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں ایسے لوگوں کو قتل کردینا واجب قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت انس (رض) نے روایت کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : (سیکون فی امتی اختلاف دفرقۃ فیھم قوم یحسنون القول ویسیئون العمل یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ طوبی لمن قتلھم او قتلوہ، عنقریب میری امت میں جھگڑے کھڑے ہوں گے اور تفرقہ پھیلے گا، ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو باتیں تو بڑی اچھی کریں گے لیکن ان کے اعمال برے ہوں گے۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانے سے پار نکل جاتا ہے۔ خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جو ایسے لوگوں کو قتل کرے یا ان کے ہاتھوں قتل ہوجائے) ۔ ایسی بہت سی مشہور روایات ہیں۔ سلف نے ان روایات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان جیسے لوگوں کے خلاف جنگ کو نیز ان کے قتل کو واجب سمجھتے ہوئے ان پر عمل پیرا بھی ہوئے۔ ابوبکر بن عیاش نے روایت بیان کی، انہیں ابوالاحوص نے سماک سے، انہوں نے قابوس بن ابو المخارق سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایک شخص میرا مال لوٹنے کے لئے میرے پاس آتا ہے، میں اس کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اسے اللہ کی یاد دلائو “ عرض کیا : ” اگر وہ اللہ کو یاد نہ کرے :“ فرمایا : ” تو پھر اس کے مقابلہ کے لئے اردگرد رہنے والے مسلمانوں سے مدد طلب کرو۔ “ عرض کیا : ” اگر میرے اردگرد مسلمان نہ ہوں تو کیا کروں ؟ “ فرمایا : اس کے خلاف سلطان سے مدد لو۔ “۔ عرض کیا : ” الر سلطان مجھ سے دور ہو تو کیا کروں ؟ “ فرمایا : پھر اپنے مال کے دفاع میں مقابلہ کرو یہاں تک کہ اپنا مال محفوظ کرلو یا تمہاری جان چلی جائے اور تم آخرت میں شہید کہلائو۔ “ کچھ بےعلم اور ناسمجھ لوگ اس مسئلے کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے قتل کا ارادہ کرے تو اسے اس ارادے سے باز رکھنے کے لئے قتل کی زد میں آنے والا شخص نہ اسے قتل کرے اور نہ ہی اپنی جان کے دفاع میں اسے کچھ کہے حتیٰ کہ اس کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ انہوں نے اس آیت سے یہی مفہوم اخذ کیا ہے۔ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ آیت میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ قتل کی زد میں آنے والا شخص قاتل کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کے لئے کچھ نہ کرے اور اپنی جان کے دفاع میں موقع ملنے پر اسے قتل نہ کرے۔ آیت تو صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ قتل کے فعل میں پہل نہ کرے۔ جس طرح حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی یہ تفسیر مروی ہے۔ اگر ان لوگوں کے دعوے پر آیت کی دلالت ثابت بھی ہوجائے تو ہم نے قرآن و سنت اور مسلمانوں کے اتفاق کی روشنی میں جو بات بیان کی ہے اس کے ذریعے یہ حکم منسوخ سمجھ لیا جائے۔ وہ بات یہ ہے کہ تمام لوگوں پر یہ واجب ہے کہ ایک بےگناہ کی جان بچانے کے لئے قتل کے ارادے سے آنے والے شخص کو اس سے دور کردیں خواہ اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے اس گروہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی چند احادیث کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو ان کے دعوے کی تائید کرتا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کی روایت حضرت ابوموسیٰ اشعری نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے آپ کا ارشاد ہے (افاتو اجہ المسلمان بسیفیھما فقتل احدھما صاحبہ فالقاتل والمقتول فی النار۔ جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلے پر اتر آئیں اور ایک کے ہاتھوں دوسرا قتل ہوجائے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے) عرض کیا گیا کہ قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟ ارشاد ہوا (انہ اراد قتل صاحبہ۔ اس نے بھی تو دوسرے کے قتل کا ارادہ کیا تھا) علی بن زید بن جدعان نے حسن سے اور انہوں نے حضرت سعد بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان اسقطعت ان تکون عبد اللہ المقتول فافعل ولا تقتل احدا من اھل القبلۃ۔ اگر تم اللہ کے مقتول بندے بن سکو تو بن جائو لیکن تمہارے ہاتھوں قبلے کی طرف رخ کرنے والا کوئی شخص یعنی مسلمان قتل نہ ہونے پائے) ۔ حسن نے احنف بن قیس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابوبکر (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سنا ہے کہ (اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل و المقتول فی النار جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابلہ پر اتر آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے) میں نے عرض کیا کہ قاتل کے جہنم رسید ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مقتول کیوں جہنم میں جائے گا ؟ ارشاد ہوا (انہ کان حریصا علی قتل صاحبہ اس لئے کہ اس نے بھی اپنے ساتھی کی جان لینے کی ٹھانی ہوئی تھی) معمر نے حسن سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ان ابنی آدم ضربا مثلا لھذہ الامۃ فخذوا بالخیر منھما۔ آدم کے دو بیٹوں نے اس امت کے لئے ایک مثال قائم کردی ہے اب تم اس بیٹے کے رویے کو اپنا نوجوان دونوں میں سے بھلا تھا) معمر نے ابو عمران الجونی سے روایت کی ہے انہوں نے عبد اللہ بن الصامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ابوذر ! اس وقت کیا کرو گے جب اس شہر مدینہ میں قتل کا بازار گرم ہوگا ؟ “ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا : ” پھر میں بھی اپنے ہتھیار باندھ لوں گا۔ “ ارشاد ہوا : ” پھر تو تم بھی ان غلط کاروں کے ساتھ شامل سمجھے جائو گے “۔ عرض کیا : ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ “ ارشاد ہوا : ” اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تلوار کی چمک تمہاری آنکھوں کو چکا چوند کر دے گی تو اپنے کپڑے کا ایک پلو چہرے پر ڈال لینا اور چپ چاپ قتل ہوجانا تاکہ تمہارا قاتل قیامت کے دن تمہارا اور اپنا دونوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے۔ “ ان لوگوں نے درج بالا آثار سے اپنے دعوے پر استدلال کیا ہے حالانکہ ان آثار و روایات میں ان کی تائید میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ پہلی حدیث جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) ہیں ان کی تائید میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ پہلی حدیث جس کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) ہیں اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ جب دو مسلمان عصبیت اور فتنہ و فساد پھیلانے والے لوگوں کی طرح ازروئے ظلم ایک دوسرے پر تلوار کھینچ لیں تو پھر قاتل اور مقتول دونوں کا انجام جہنم ہوگا۔ حضرت سعد بن مالک (رض) کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگی اورف تنہ و فساد کے زمانے میں قتل و قتال سے اپنا ہاتھ روک لیا جائے اور شبہ کی بنا پر کسی کی جان نہ لی جائے۔ اگر سکی نے کسی ایسے شخص کو قتل کردیا جو وقاعی قتل ہونے کا مستحق تھا تو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ معمر نے حسن سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کے متعلق جو روایت نقل کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ قتل کے فعل میں پہل نہ کی جائے، رہ گئی یہ بات کہ اپنی جان کے دفاع میں قتل کی نیت سے آنے والے شخص کو اس فعل سے روکنا اور باز رکھنا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے استدلال کریں جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لایحل دم امرئی مسلم الا باحدی ثلث کفر بعد ایمان، وزنا بعد احصات و قتل نفس بغیر نفس، کسی مسلمان کا خون صرف ان تین باتوں میں سے ایک کی بنا پر حلال ہوسکتا ہے۔ یا تو ایمان لانے کے بعد کافر اور مرتد ہوگیا ہو یا صفت احصان کے حصول کے بعد اس نے زنا کا ارتکاب کرلیا ہو یا ناحق کسی کی جان لے لی ہو) ۔ اس روایت کی رو سے قتل کا ارادہ کرنے والا جب تک قتل کے فعل کا ارتکاب نہ کرے اس وقت تک اسے قتل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف مذکورہ بالا تین اسباب کے سوا کسی اور وجہ سے اس کے قتل کی نفی کردی ہے۔ جو شخص قتل کے ارادے سے آئے اس نے ابھی تک قتل نہیں کیا اس لئے وہ قتل کئے جانے کا مستحق قرار نہیں پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ وہ شخص اس حدیث میں داخل ہے جو ازروئے ظلم کسی کی جان لینے کے درپے ہو اس لئے کہ اس نے ایک شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا ہم نے اسے صرف اس ارادے کی بنا پر قتل کردیا تاکہ وہ ایک بےگناہ شخص کی جان نہ لے سکے اور اس طرح ہم نے اسے قتل کر کے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔ اگر یہ معاملہ اس گروہ کے مسلک کے مطابق ہوتا یعنی ازروئے ظلم قتل کے ارادے سے آنے والے شخص پر ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے ایک بےگناہ کے خون سے ہاتھ رنگنے کا موقع مل جائے اور وہ اس گھنائونے فعل کا ارتکاب کر کے چلتا بنے تو پھر یہی طریق کار دوسری تمام محظورات کے سلسلے میں اپنانا واجب ہوتا یعنی جب کوئی فاجر انسان ان محظورات میں سے کسی فعل مثلاً زنا کاری و زبردستی کسی کے مال پر قبضہ وغیرہ کے ارتکاب کا ارادہ کرتا تو اسے ایسا کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاتی، جس کے نتیجے میں ایک طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا سارا عمل ٹھپ ہوجاتا۔ تو دوسری طرف فاسق و فاجر اور ظالم قسم کے لوگوں کو اوپر آنے کا موقعہ مل جاتا اور اس طرح شریعت کے آثار و نشانات مٹ کر رہ جاتے۔ میں نہیں سمجھتا اسلام اور اہل اسلام کو اس مسلک کی وجہ سے جتنا نقصان پہنچا شاید ہی کسی اور مسلک سے پہنچا ہو۔ اسی باطل مسلک نے فاسق و فاجر لوگوں کو مسلمانوں کے معاملات پر چھا جانے اور ان کے شہروں اور علاقوں پر تسلط جمانے کا موقعہ فراہم کیا حتیٰ کہ ان لوگوں نے اپنی من مانی کی اور اللہ کے احکام کے نفاذ کو چھوڑ کر اپنے احکامات جاری کئے۔ اس کے نتیجے کے طور پر سرحدات کی حفاظت کا کام بھی ٹھپ ہوگیا اور دشمنوں کو مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا کیونکہ عوام الناس اس مسلک کی طرف مائل ہوگئے تھے اور اس کے نتیجے میں باغی گروہ کے خلاف صف آراء ہونے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور حدیہ کہ انہوں نے اپنے حاکموں کو ان کی غلط روی پر ٹوکنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بس اللہ ہی سے مدد کی درخواست ہے۔ اس بارے میں جمہور کے قول کی صحت پر نیز اس پر کہ ازروئے ظلم قتل کے ارادے سے آنے والا شخص قتل کا مستحق ہوتا ہے بلکہ تمام مسلمانوں پر اسے قتل کردینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ قول باری دلالت کرتا ہے (من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جیمعا۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔ آیت کے مضمون میں زمین کے اندر فساد مچانے والے انسان کے قتل کی اباحت کا حکم موجود ہے اور حرمت والی بےگناہ جان پر ہاتھ ڈالنا فساد فی الارض کی بھیانک ترین صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظلم کی بنا پر جب کوئی شخص کسی کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ قتل کا مستحق قرار پاتا ہے اور اس کا خون جائز ہوجاتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ابن رستم نے امام محمد سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ نقب لگانے والے چور کو قتل کردینا جائز ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (من قتل دون مالہ فھو شہید جو شخص اپنے مال کے دفاع میں مارا گیا وہ شہید ہے) ایسا شخص صرف اس وجہ سے شہید ہے کہ اسے حتیٰ الامکان مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ چیز اس حکم کو متضمن ہے کہ موقعہ ملنے کی صورت میں مال کے مالک پر اس نقب زن کو قتل کردینا واجب ہے۔ اسی طرح اس شخص کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول ہے جس کے دانت اکھیڑنے کا کوئی ارادہ کرے اور یہ شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں کسی اور کو اپنی مدد کے لئے بلا بھی نہ سکتا ہو تو اس صورت میں اپنے دانتوں کے دفاع میں وہ اسے قتل کرسکتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ دانت اکھیڑنے کا معاملہ مال چھین لینے سے بڑھ کر ہے۔ جب ایک شخص اپنے مال کی حفاظت کی خاطر حملہ آور کو قتل کرسکتا ہے تو دانتوں کی حفاظت کی خاطر حملہ آور کو قتل کردینا اولیٰ ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (لَءِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ ) (مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج) یعنی اگر ایسا ہوا تو یہ یکطرفہ قتل ہی ہوگا

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49. This does not mean, that his brother assured him that when the latter stepped forward to kill him he would keep his hands tied and stretch out his own neck to be cut down rather than defend himself. What this statement amounts to is an assurance on the part of the first brother that, even though the other was intent on killing him, he himself had no such intention. In other words, he assured his brother that even though the latter was busy planning his murder he would not take the initiative in killing him despite his knowledge of the latter's intent. In view of the fact that the followers of all the Prophets are Muslims, the author has used a peculiarly Islamic term - caliphate, rather than kingship, etc. - to signify the predominantly religious (or shall we say, Islamic) quality of his rule and to distinguish it from systems of government not animated by the religious spirit - Ed. Righteousness does not demand at all that when a man is subjected to wrongful aggression he should surrender to the aggressor rather than defend himself. Righteousness, however, demands that a man should not take the initiative and try to kill someone even though he knows him to be bent on killing him. He should rather wait for the act of aggression to be initiated by the other person. And this is exactly what was intended by the statement of the righteous son of Adam.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :49 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر تو مجھے قتل کر نے کے لیے آئے گا تو میں ہاتھ باندھ کر تیرے سامنے قتل ہونے کے لیے بیٹھ جاؤں گا اور مدافعت نہ کروں گا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو میرے قتل کے درپے ہوتا ہے تو ہو ، میں تیرے قتل کے درپے نہ ہوں گا ۔ تو میرے قتل کی تدبیر میں لگنا چاہے تو تجھے اختیار ہے ، لیکن میں یہ جاننے کے بعد بھی کہ تو میرے قتل کی تیاریاں کر رہا ہے ، یہ کوشش نہ کروں گا کہ پہلے میں ہی تجھے مار ڈالوں ۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی شخص کا اپنے آپ کو خود قاتل کے آگے پیش کردینا اور ظالمانہ حملہ کی مدافعت نہ کرنا کوئی نیکی نہیں ہے ۔ البتہ نیکی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص میرے قتل کے درپے ہو اور میں جانتا ہوں کہ وہ میری گھات میں لگا ہو ا ہے ، تب بھی میں اس کے قتل کی فکر نہ کروں اور اسی بات کو ترجیح دوں کہ ظالمانہ اقدام اس کی طرف سے ہو نہ کہ میری طرف سے ۔ یہی مطلب تھا اس بات کا جو آدم علیہ السلام کے اس نیک بیٹے نے کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:28) بسطت الی۔ تو نے میری طرف (ہاتھ) بڑھایا۔ تو نے مجھ پر (ہاتھ) اٹھایا۔ (یعنی مارنے یا حملہ کرنے کے لئے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی میں تیرے قتل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا ونگا ورنہ مدافعت تو ضروری ہے اس پر امت کا اجماع ہے (قرطبی) اگر مقتول بھی اپنے قتل کے درپے ہو تو ایسی صورت میں دونوں جہنمی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قاتل کے ساتھ مقتول بھی جہنمی ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قاتل کے ساتھ مقتول بھی جہنم میں جائے گا کیونکہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ مقتول بھی جہنم میں جائے گا کیونکہ وہ اپنے ساتھ کو قتل کرنے کے در بے تھا۔ ( بخاری )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قابیل کے چھوٹے بھائی ہابیل نے جب یقین کرلیا کہ قابیل مجھے قتل کرنے کا مصمّم ارادہ کرچکا ہے تو اس نے بڑے ادب سے کہا کہ اگر آپ مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں گے تو میں آپ کو قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاؤں گا۔ جس میں یہ احساس دلانا مقصود تھا کہ میں تجھ سے لڑنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا تجھے بھی مجھ پر زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ پھر بھی تمہیں اس بات کا احساس نہیں تو یاد رکھنا تیرے گناہ کے ساتھ میرا گناہ بھی تیرے ذمہ ہوگا اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ انھوں نے اپنا دفاع نہیں کیا ہوگا بلکہ اپنی جان بچانا، عزت و مال کی حفاظت کرنا، ہر کسی کا فطری حق اور شرعی طور پر ایسا کرنا لازم ہے، ہابیل نے قابیل کو ظلم سے روکنے کے لیے پانچ باتیں کہی تھیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ متقین کی قربانی قبول کرتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے مفاد کے بجائے اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کرنا چاہیے تھی۔ ٢۔ تیرے ہاتھ بڑھانے کے باوجود میں تیری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ ٣۔ میں ظالم بننے کی بجائے مظلوم بننا پسند کروں گا۔ ٤۔ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ جس کا معنیٰ یہ ہے کہ تجھے بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ اگر تو ظلم سے باز نہ آئے گا تو تیرا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ( عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُون دینِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَہْلِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدیات، بَاب مَا جَاء فیمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ] ” حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو کوئی اپنے دین کی حفا ظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو کوئی اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو کوئی اپنے گھروالوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاس بالدِّمَاء) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، بَاب الْقِصَاصِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا “ مسائل ١۔ کسی پر زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ ہر وقت اللہ رب العالمین سے ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ ظالم کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٤۔ کسی پر زیادتی کرنے کی وجہ سے اس کے گناہوں کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن گناہوں کا انجام : ١۔ قیامت کے دن برے کاموں کی سزا ملے گی۔ (النجم : ٣١ ) ٢۔ جو گناہوں میں گھرارہا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (البقرۃ : ٨١) ٣۔ جہنمی اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ (الملک : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” لَئِن بَسَطتَ إِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَا أَنَاْ بِبَاسِطٍ یَدِیَ إِلَیْْکَ لَأَقْتُلَکَ إِنِّیْ أَخَافُ اللّہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (28) ” اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا ۔ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ یوں امن تقوی اور صلح کل کے نمونے کو مصور انداز میں یہاں پیش کردیا جاتا ہے ۔ یہ نمونہ ایک ایسے وقت میں پیش کیا جاتا ہے ‘ جس میں ایک عام انسانی ضمیر بھی نہایت اشتعال میں آجاتا ہے اگرچہ وہ بہت ٹھنڈا ہو۔ ایسے حالات میں ہر غیر جانبدار انسان ‘ ہر باضمیر انسان ضمیر بھی نہایت اشتعال میں آجاتا ہے اگرچہ وہ بہت ٹھنڈا ہو ۔ ایسے حالات میں ہر غیر جانبدار انسان ‘ ہر باضمیر انسان ظالم کے مقابلے میں اور مظلوم کے حق میں اٹھ جاتا ہے ۔ ان حالات میں بھی یہ مظلوم ‘ نہایت سنجیدہ ‘ نہایت مطمئن ہے حالانکہ وہ کھلی جارحیت کے خطرے سے دو چار ہے لیکن اس کا دل رب العالمین کے خوف سے بھرا ہوا ہے ‘ اس لئے وہ مطمئن ہے ۔ یہ نرم اور دلنواز بات اس کے لئے کافی تھی کہ اس دشمنی کو دوستی میں بدل دے ۔ حسد کو ٹھنڈا کرے ‘ شر کا جوش کم کردے ‘ ہیجان زدہ اعصاب کو ٹھنڈا کرکے اس شخص کو بھائی چارے کی محبت کے اندر لے آئے اور اس کے دل میں تقوی کا احساس پیدا ہوجائے ۔ ہاں یہ طرز عمل اس کے لئے بالکل کافی تھا لیکن یہ شخص باز نہیں آیا چناچہ نیک بھائی اسے متنبہ کرتا ہے اور آخرت کے برے انجام سے اسے ڈراتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کہ فتنوں کے زمانہ میں کیا کریں اخیر زمانہ میں فتنے بہت زیادہ ہوں گے۔ اس وقت قتل و خون بہت ہوگا اس وقت بھی ہابیل کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا گیا۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے ہوں گے ان فتنوں میں انسان صبح مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوگا اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر ہوگا بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اس وقت تم اپنی کمانوں کو توڑ دینا اور ان کی نانتوں کو کاٹ دینا اور اپنی تلواروں کو پتھروں سے کچل دینا، اور اپنے گھروں میں اندر بیٹھ جانا پھر بھی تم میں سے کسی کے پاس کوئی شخص قتل کرنے کے لئے پہنچ جائے تو آدم کے دو بیٹوں میں جو اچھا تھا اس کی طرح ہوجانا۔ (مشکو ۃ المصابیح ج ٤ ص ٤٦٤) یعنی ہابیل کی طرح ہوجانا قتل ہوجانا منظور کرلینا اور خود قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھانا۔ حضرت ایوب سختیانی نے فرمایا کہ اس امت میں سے سب سے پہلے جس نے (مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ) پر عمل کیا وہ حضرت عثمان بن عفان (رض) تھے وہ امیر المومنین تھے قتال اور دفاع سب کچھ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے مقتول ہونا پسند کرلیا اور قتال کرنا منظور نہ کیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi