Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 29

سورة المائدة

اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۚ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۲۹﴾

Indeed I want you to obtain [thereby] my sin and your sin so you will be among the companions of the Fire. And that is the recompense of wrongdoers."

میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ سر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے ظالموں کا یہی بدلہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"Verily, I intend to let you draw my sin on yourself as well as yours, then you will be one of the dwellers of the Fire, and that is the recompense of the wrongdoers." Ibn Abbas, Mujahid, Ad-Dahhak, As-Suddi and Qatadah said that, إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ ("Verily, I intend to let you draw my sin on yourself as well as yours..."), means, the sin of murdering me, in addition to your previous sins. Ibn Jarir recorded this. Allah's statement, فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 میرے گناہ کا مطلب قتل کا وہ گناہ جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا (صحیح بخاری و مسلم کتاب الفتن)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] یعنی ناحق قتل کرنے والے کی سزا صرف یہی نہیں ہوتی کہ اسے اس جرم کے عوض جہنم میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ مقتول کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ چناچہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا && یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر مجھے دو لشکروں یا دو صفوں میں سے کسی ایک صف میں زبردستی لایا جائے پھر کسی شخص کی تلوار میری گردن اڑا دے یا کسی کا تیر مجھے مار ڈالے تو ؟ آپ نے فرمایا && قاتل اپنے اور تیرے گناہ سمیٹ کر اللہ کے پاس آئے گا اور وہ جہنمی ہے (اور تم پر کوئی گناہ نہیں) (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن مواقع القطر) نیز کئی احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ تَبُوْۗاَ بِاِثْمِيْ وَاِثْمِكَ ۔۔ : میرا گناہ، یعنی جو مجھے اس صورت میں ہوتا جب میں بھی تجھے قتل کرنے کے درپے ہوتا، جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزرا ہے، یا یہ کہ میرے گناہوں کا بوجھ بھی تجھ پر ڈالا جائے گا، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے :” قیامت کے دن ظالم کو لایا جائے گا اور اس کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی، اگر نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ “ [ بخاری، المظالم، باب من کانت لہ مظلمۃ عند الرجل۔۔ : ٢٤٤٩ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ تَبُوْۗاَ بِـاِثْمِيْ وَاِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ۝ ٠ۚ وَذٰلِكَ جَزٰۗؤُا الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٢٩ۚ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ باءَ وقوله عزّ وجلّ : باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] ، أي : حلّ مبّوأ ومعه غضب الله، أي : عقوبته، وقوله : بِغَضَبٍ في موضع حال، کخرج بسیفه، أي : رجع، لا مفعول نحو : مرّ بزید . اور آیت کریمہ ؛۔ باءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ الأنفال/ 16] کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اللہ کا غضب یعنی عقوبت ہے ۔ تو یہاں بغضب موضع حال میں ہے جیسے خرج بسیفہ میں ہے اور مربزید کی طرح مفعول نہیں ہے ۔ اور بغضب پر باد لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود غضب الہی میں گرفتار بےتو ناموافق جگہ میں بالاولیٰ اس پر غضب ہوگا ۔ لہذا یہ فبشرھم بعذاب کی مثل ہے إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (انی ارید ان تبوء باتمی واتمک۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے) حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حسن، مجاہد، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ ” میرے قتل کا گناہ اور تیرا گناہ جو تو نے میرے قتل سے پہلے کیا تھا “۔ دوسرے حضرات کا قول ہے۔ ” تیرا گناہ جس کی وجہ سے تیری قربانی قبول نہیں ہوتی “۔ آیت میں مراد یہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے اور اپنے گناہوں کی سزا سمیٹ لے، اس لئے کہ اثم یعنی گناہ کی حقیقت یہاں مراد لینا درست نہیں ہے اس لئے کہ کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے یا کسی اور کی طرف سے اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرے جس طرح یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کو اللہ کی نافرمانی کا حکم دے۔ تبوع کے معنی ترجع، (لوٹنے) کے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے ٹھکانے یعنی گھر کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس موقعہ پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” باء فلان “ (فلاں شخص واپس آگیا) ” بائو بعضب اللہ “ کے معنی ہیں ” رجعوا “ یعنی وہ لوگ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ ’ بواء ‘ کے معنی ہیں ” قصاص کے ساتھ لوٹنا “۔ اسی طرح محاورہ ہے۔ ” وھم فی ھذا الامر بواء “ (وہ لوگ اس معاملے میں یکساں ہیں) اس فقرے میں ’ بواء ‘ کے معنی ” سواء “ کے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ فقرہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب اس بارے میں ایک ہی رخ پر لوٹتے اور رجوع کرتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ ( اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓ اَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ ) (فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ج) اگر آپ اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ مجھے قتل کر ہی دیں گے تو آپ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ میری خطاؤں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیں گے۔ ایک بےگناہ انسان کو قتل کرنے والاگویا مقتول کے تمام گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیتا ہے۔ یعنی اگر آپ مجھے ناحق قتل کریں گے تو میرے گناہوں کا وبال بھی آپ کے سر ہوگا اور میرے لیے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ البتہ اس جرم کی وجہ سے آپ جہنمی ہوجائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. The righteous son of Adam told his brother that rather than both of them becoming sinners by trying to kill each other, he would prefer to see the entire sin fall on the lot of the one who was intent on the murder - the sin of the aggressor's attempt to murder, as well as the sin of any injury that might be inflicted on him in self-defence.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: اگرچہ اپنے دفاع کا اگر کوئی اور راستہ نہ ہو تو حملہ آور کو قتل کرنا جائز ہے، لیکن ہابیل نے احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اپنا یہ حق استعمال کرنے سے گریز کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بچاو کا اور ہر طریقہ اختیار کروں گا، مگر تمہیں قتل کرنے کا اقدام نہیں کروں گا۔ ساتھ ہی اسے یہ جتلادیا کہ اگر تم نے قتل کا ارتکاب کیا تو مظلوم ہونے کی بنا پر میرے گناہوں کی تو معافی کی امید ہے، مگر تم پر نہ صرف اپنے گناہوں کا بوجھ ہوگا، بلکہ میرے قتل کرنے کی وجہ سے کچھ میرے گناہ بھی تم پر لد جائیں تو بعید نہیں، کیونکہ آخرت میں مظلوم کا حق ظالم سے دلوانے کا ایک طریقہ احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں، اور اگر نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے گناہ ظالم ڈال دیئے جائیں۔(ماخوذ از تفسیر کبیر امام رازیؒ)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:29) تبوا۔ تو حاصل کرے۔ تو سمیٹے۔ تو کمائے۔ تو لوٹے۔ تو پھر جاوے۔ باء یبوء بوء او بوائ۔ ان تبوء باثمی واثمک (کہ تو ہی سمیٹ لے میرا گناہ اور اپنا گناہ) تیرا گناہ یعنی میرا قتل اور میرا گناہ۔ اس نقصان کا گناہ جو اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے میرے ہاتھ سے تجھے پہنچ جائے۔ (تفہیم القرآن) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باثمی سے مراد بحذف مضاف باثم قتلی (میرے قتل کرنے کا گناہ) یعنی اپنے سابقہ گناہوں میں تو میرے اس قتل کا گناہ بھی شامل کرلے۔ یا باثمی سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے سابقہ کردہ گناہ بھی تیرے کندھوں پر ہی پڑجائیں۔ اور مظلومیت کی وجہ سے ان کا بوجھ میرے کندھوں سے تیرے کندھوں پر چلا جائے اور میرا قتل میرے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 میرے گناہ کے ساتھ یعنی جو مجھ اس صورت میں ہوتا جب بھی تجھے قتل کرنے کے درپے ہوتا جیسا کہ اوپر کی حدیث میں بیان ہوچکا ہے یا یہ کہ میرے گناہوں کا بوجھ بھی تجھ پر ڈالا جائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کو لایا جائے گا اور اس کی نیکیاں مظلوم کو دیدی جائیں گی اور مظلم کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” إِنِّیْ أُرِیْدُ أَن تَبُوء َ بِإِثْمِیْ وَإِثْمِکَ فَتَکُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَلِکَ جَزَاء الظَّالِمِیْنَ (29) ” میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے ۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے ۔ “ اگر تم میری طرف قتل کیلئے ہاتھ بڑھاؤ تو میرا مزاج تو یہ نہیں ہے کہ میں یہی کام تمہارے ساتھ کروں ۔ نہ یہ میری طبیعت ہے اس لئے کہ میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ میں اپنے بھائی کو قتل کر دو ۔ میرا ذہن ہی اس طرف نہیں جاتا۔ میں یہ کام اس لئے نہیں کرتا کہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں ۔ یہ بات نہیں ہے کہ میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دے سکتا ۔ اس لئے میں تمہیں چھوڑتا ہوں کہ تم اپنے سابقہ گناہوں کے ذخیرے میں جن کی وجہ سے تمہاری نذر ہی مسترد ہوئی میرے قتل کے گناہ کا اضافہ بھی کرلے ۔ اس طرح تمہارا گناہ بھی بڑھے گا اور پھر سزا بھی بڑھتی چلی جائے گی ۔ (آیت) ” وذلک جزاء الظلمین “۔ (ظالموں کا یہی انجام ہوتا ہے) اس طرح اس صالح بھائی نے ظالم کے سامنے جرم قتل کے ارتکاب سے اپنے خوف کو مصور کرکے پیش کیا تاکہ یہ ظالم بھائی اس ظلم کے ارتکاب سے باز آجائے جس پر اس کا نفس اسے بار بار آمادہ کرتا ہے اور پھر اسے اس طرز عمل پر شرمندہ کر دے کہ ایک بھائی ‘ صلح کل بھائی ‘ خدا ترس بھائی کے خلاف وہ کس قدر بری طرح سوچ رکھتا ہے ۔ اس خدا ترس بھائی نے ظالم کے سامنے جرم قتل کے بھیانک نتائج پیش کئے تاکہ وہ اس گناہ سے متنفر ہوجائے اور اسے دو چند سہ چند گناہ سے نکل آنے میں بہتری نظر آجائے اور وہ اللہ رب العالمین کا خوف اپنے دل کے اندر رکھے ۔ اس سلسلے میں یہ خدا ترس بھائی اس مقام تک چلا جاتا ہے جہاں تک کوئی انسان نہیں جاسکتا اور اس سے آگے شرک کے دفعیہ کے لئے اور کوئی صورت ہی نہیں رہتی ۔ لیکن جب تک ہمیں معلوم نہ ہو کہ اس کا انجام کیا ہوا اس شریر بھائی اور مفسد بھائی کی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی ۔ اس انتہائی مثبت طرز عمل کا جواب وہ کیا دیتا ہے ۔ ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہابیل نے مزید سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا (اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓاَ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ) یہ قابیل کو خطاب ہے اور مطلب یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے گناہ بھی لے اور میرے گناہ بھی لے ان سب کو اپنے اوپر اٹھا لے اور دوزخ والوں میں ہوجائے، (وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ ) اور یہ ظالموں کی جزا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرے جو گناہ ہیں ان کا بوجھ تو تیرے اوپر ہے ہی اور ان میں میرے قتل کا گناہ بھی اپنے سر دھر نے کو تیار ہے۔ یہ سب گناہ مل کر تیرے دوزخ میں جانے کا سبب بن جائیں گے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مومن بھائی کا خیر خواہ ہونا چاہئے ہابیل نے جو یہ کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنا اور میرا گناہ اپنے سر رکھ لے اور دوزخیوں میں سے ہوجائے یہ تو خیر خواہی کے جذبہ کے خلاف ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے ہر طرح سے اپنے بھائی کو سمجھالیا تھا جب اس نے نصیحت قبول نہ کی اور کسی طرح تفہیم فائدہ مند نہ ہوئی تو پھر ہابیل نے دوسرا رخ اختیار کیا اور بتادیا کہ جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ برا ہے جو دوزخ میں جانے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ میرا ہاتھ نہ اٹھانا تیرے دوزخ میں جانے کا ذریعہ بن جائے گا۔ ممکن ہے کہ ہابیل کی نصیحت سے اور کچھ اپنی سمجھ میں قابیل کو تردد ہوا ہو کہ قتل کرے یا نہ کرے لیکن بالاخر اس کے نفس نے اس پر آمادہ کر ہی دیا کہ اپنے بھائی کو قتل کر دے، چناچہ اس نے قتل کر ہی ڈالا، قتل کر کے زبردستی نقصان میں پڑگیا، دنیا میں بھی نقصان ہوا کہ ایک بھائی سے محروم ہوا اور والدین بھی ناراض ہوئے اور خالق کائنات جل مجدہ کو بھی ناراض کردیا اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ رہا۔ قتل کا طریقہ ابلیس نے بتایا قابیل نے قتل کا ارادہ تو کرلیا لیکن قتل کیسے کرے یہ بھی ایک سوال تھا کیونکہ اس سے قبل دنیا میں کوئی مقتول نہ ہوا تھا۔ قتل کرنا چاہا تو گردن مروڑنے لگا لیکن اس سے کچھ حاصل نہ ہوا اس موقع پر ابلیس ملعون پہنچ گیا اور اس نے ایک جانور لیا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ دوسرے پتھر سے مار دیا۔ قابیل دیکھتا رہا اور پھر اس نے اپنے بھائی کے ساتھ بھی ایسا کیا اور قتل کردیا اس بارے میں مفسرین نے دوسری صورتیں بھی نقل کی ہیں لیکن کیفیت قتل کی تعیین پر کوئی حکم شرعی موقوف نہیں ہے اس لئے کسی صورت کے متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ اس نے قتل کردیا جس کی تصریح لفظ فقتلہٗ میں موجود ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے قابیل اگر تو مجھے قتل کرنے کی غرض سے مجھ پر اپنا ہاتھ بڑھائے گا اور مجھ پر دست درازی کرے گا تب بھی میں تیرے قتل کرنے کے لئے تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا اور تجھ کو قتل کرنے کی غرض سے تجھ پر دست درازی نہ کروں گا کیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں جو جملہ کائنات اور تمام عالموں کا رب ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ تو اپنے گناہوں کے ساتھ میرے قتل کا گناہ بھی حاصل کرلے اور تو میرا گناہ اپنے گناہوں کے ساتھ اپنے سر پر رکھ لے پھر تو اہل دوزخ میں شامل ہوجائے اور یہ دوزخیوں میں شامل ہوجانا ہی ظلم کرنے والوں کا صحیح بدلہ ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب ہابیل کی نیاز مقبول ہوگئی تو قابیل نے بجائے اس کے کہ شرمندہ ہو کر اپنے غلط اور ناجائز مطالبہ سے دست بردار ہوجاتا اور زیادہ گناہ پر دلیر ہوگیا۔ جیسا کہ قاعدہ ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو اور ایک غلطی دوسرے غلطی کو اسی طرح بڑھاتی ہے جس طرح بد پرہیزی کرنے سے مرض میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قابیل نے غصہ میں آ کر کہا کہ میں تجھ کو قتل کر ڈالوں گا۔ اس پر ہابیل نے قربانی کی قبولیت کا سبب تو یہ بیان کیا کہ اس میں تیری ہی غلطی ہے میرا تو کوئی قصور نہیں کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ جو لوگ آپس کے جھگڑوں اور ناحق سے بچتے اور ناجائز مطالبوں سے پرہیز کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے ہی متقیوں اور پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرماتا ہے اب تو خود غور کر کہ حق پر کون ہے اور ناحق پر کون ہے۔ رہی یہ بات ! کہ تو مجھ کو قتل کرے گا تو اچھا اگر تو نے یہ ارادہ کر ہی لیا ہے تو سن لے کہ اگر تو نے مجھے قتل کرنے کی غرض سے ہاتھ اٹھایا تو میں تجھ کو قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھائوں گا تاکہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں نہ جائیں بلکہ میں صبر کروں گا کیونکہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا اور خوف کھاتا ہوں اور اس میرے صبر کرنے اور مظلوم قتل ہونے سے میرا مقصد یہ ہے کہ مجھ سے کوئی گناہ کی بات سر زد نہ ہو خواہ تو مجھ پر کتنا ہی ظلم کے اور تیرے ظلم اور میرے صبر کا یہ اثر ہو کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ سب اپنے سر پر لادلے اور یہ تمام گناہ تجھ کو حاصل ہوجائیں اور تجھ پر پڑجائیں پھر تو اہل جہنم سے ہوجائے اور یہ جہنمی ہوجانا ہی ظلم کرنے والوں کا اصل بدلہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اگر کوئی ناحق کسی کو مارنے لگے تو اس کو رخصت ہے کہ ظالم کو مارے اور اگر صبر کرے تو شہادت کی ادرجہ ہے۔ فائدہ : یعنی تیرے گناہ عمر کے تجھ پر ثابت رہیں اور میرے خون کا گناہ چڑھے اور میری عمر کے گناہ اتریں۔ (موضح القرآن) اس موقعہ پر چند امور قابل غور ہیں۔ (1) ہابیل کا یہ کہنا کہاں تک صحیح ہے کہ میں مدافعت بالکل نہیں کروں گا اور تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھائوں گا۔ حضرات مفسرین نے اس کے کئی طرح جواب دیئے ہیں ہابیل کے اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ مجھ کو یہ حق ہے اور مجھ کو یہ جائز ہے کہ میں تجھ کو قتل کروں کیونکہ تو مجھے قتل کرنے کو آمادہ ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ کے خوف ہے اور مجھ کو یہ جائز ہے کہ میں تجھ کو قتل کروں کیونکہ تو مجھے قتل کرنے کو آمادہ ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ کے خوف سے ایسا نہیں کروں گا اور تجھے کسی وقت بھی قتل نہیں کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر و کا قول ہے کہ خدا کی قسم ہابیل طاقت و قوت میں قابیل سے زیادہ تھا لیکن اس نے محض اللہ تعالیٰ کے خوف سے بھائی پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور یہ جواب بھی ہوسکتا ہے کہ اس شریعت میں مدافعت جائز نہیں تھی۔ حضرت مجاہد کا ق ول ہے کہ اس وقت ان کے لئے یہ حکم تھا کہ جب کوئی قتل کا ارادہ کرے تو اس کو رد کے نہیں اور صبر کرے یعنی قاتل کا مقابلہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہابیل نے عزیمت پر عمل کیا ہو اگرچہ رخصت یہ تھا کہ مدافعت کرسکتا تھا لیکن ہابیل نے عزیمت پر عمل کیا۔ جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اللہ کا بندہ مقتول بن اور اللہ تعالیٰ کا بندہ قاتل نہ بن عبدالرزاق اور ابن جریر نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے آدم کے دو لڑکوں کی مثال اس امت کے لئے بیان کی گئی ہے تم ان دونوں میں سے جو بہتر ہو اس کو اختیار کرنا۔ عبدبن حمید کے الفاظ یہ ہیں کہ ان دونوں میں سے بہتر اور نیک بھائی کی مشابہت اختیار کرنا برے اور شتری کی مشابہت اور تشبہ اختیار نہ کرنا سعد بن ابی وقاص سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنوں کا ذکر فرماتے ہوئے کہا اس پر فتن دور میں بیٹھا انسان کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہوا انسان چلنے والے سے بہتر ہ گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا کسی نے پوچھا اگر کوئی شخص یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں گھس آئے اور مجھ پر ہاتھ چلائے اور قتل کرنا چاہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو مثل ابن آدم کے ہوجا یعنی ایسے موقعہ پر ہابیل کی پیروی کر۔ ایک اور روایت صحیحین میں ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہیں کسی نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قاتل کا آگ میں جانا تو ظاہر ہے کہ قتل کی وجہ سے ہوا لیکن مقتول آگ میں کیوں جائے گا فرمایا وہ اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر قتل کی نیت سے حملہ آور تھے۔ مگر یہ اتفاق کی بات ہے کہ ایک نے دور سے کو مار ڈالا بہرحال ! مدافعت جائز ہے لیکن مسلمانوں کی باہمی جنگ میں ہاتھ نہ اٹھانا اور مسلمان کے قتل سے بچنا اور خودقتل ہوجانا افضل اور عزیمت ہے۔ جیسا کہ حضرت یاوب سختیانی کا قول ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے امت میں جس شخص نے اس آیت پر عمل کیا وہ حضرت عثمان ذی النورین تھے کہ وہ خود شہید ہوگئے اور باغیوں پر حملہ کرنے کا حکم نہیں دیا اور اجازت مانگنے والوں کو نہایت سختی سے روکا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں صراحتاً آیا ہے بعض لوگوں نے کہا مخصوص مدافعت جائز ہے مثلاً کہیں بھاگ جانا چھپ جانا حملہ آور کے ہاتھ پکڑ لینا اس کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لینا البتہ ایسی مدافعت میں رخصت ہے جو قتل کے ارادے کو شامل ہو اور ایسی مدافعت کا ترک عزیمت ہے جیسا کہ ظاہری نص سے سمجھا جاتا ہے یعنی ہابیل نے یہ کہا کہ میں تیرے قتل کرنے کے لئے تجھ پر دست درازی نہ کروں گا۔ (واللہ اعلم) فقیر عرض کرتا ہے کہ مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی اور قتل و قتال کی نوعیت اور ہے جیسا کہ امت پر اس قسم کے دور آتے رہتے ہیں اور ہر صدی میں کسی نہ کسی فتنے کے باعث مسلمان آپ س میں دست و گریباں ہوجاتے ہیں لیکن کافروں کی نوعیت اور ان کا حکم اور ہے اگر کافر حملہ آور ہوں اور مدافعت کی طاقت ہو تو مدافعت کرنا ضرور ہے اس زمانے کے بعض لوگوں نے اس آیت سے سیتاگرہ اور مقادمت مجہول پر استدلال کیا ہے اور بعض خوش فہم حضرات نے حضرت عثمان (رض) ک و اس امت کا پہلا سیتا گرہی کہا ہے ۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ مقادمت مجہول کیلئے کسی خاص استدلال کی ضرورت نہیں بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کافی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدافعت کی طاقت نہ ہو تو مظالم برداشت کرو اور مدافعت کی طاقت میسر ہو تو مدافعت کرو۔ (2) ہابیل کا انی ارید کہنا اور قابیل پر تمام گناہوں کے بار ڈالنے کی خواہش کرنا یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کیونکہ یہ خواہش ایک دوسرے شخص کے لئے کفر یا معصیت کرنے کی خواہش کرنا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ارادے کا اصل تعلق اپنے بھائی کو گناہ کی برائی اور گناہ کے ترک کردینے پر تنبیہہ کرنا ہے، جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ہابیل کو مجازاً ارادہ کرنے والا کہا گیا ہے کیونکہ جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ قابیل مجھ کو قتل کرنے والا ہے اور انہوں نے اپنے نفس کو سونپ دیا اور ثواب دیا اور ثواب کی غرض سے مدافعت کو ترک کردیا تو گویا وہ مجازً ارادہ کرنے والا ہوگیا اور بات بھی یہ ہے کہ جس استسلام اور انقیاد کا یہ نتیجہ ہونے والا تھا کہ قابیل اپنے گناہ اور ہابیل کے قتل کا گناہ سمیٹے تو اس کو انی ارید سے تعبیر فرمایا ہے ورنہ یہاں ارادے سے حقیقی مراد متحقق نہیں اور ہم نے جو ابھی نمبر ایک میں عرض کیا ہے کہ مدافعت بارا وہ قتل کا ترک عزیمت ہے اور ایسی مدافعت میں رخصت ہے جو قتل کے ارادے کو شامل ہو۔ یہ اس روایت کے منافی نہیں ہے جو ابھی اوپر مذکور ہوئی کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہیں کیونکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا ہی سے ایک دوسرے پر قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوا اور ہماری عبادت کا مطلب یہ ہے کہ جب حملہ آور کے قتل کرنے کا یقین ہوجائے اور اس وقت مدافعت کرے اور یہ ارادہ ہو کہ میں اس کو قتل کردوں تو اس قسم کی مدافعت پر رخصت ہے۔ (3) ہابیل کا یہ کہنا باثمی واثمک بظاہر اس آیت کے منافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے الا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لوگوں نے اس شبہ کے بہت سے جواب دیئے ہیں آسان اور سہل وہ ہے جس کی جانب ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اشارہ کیا ہے یعنی اپنے سب گناہوں کے ساتھ میرے قتل کرنے کا گناہ بھی سمیٹ لے۔ ہابیل نے جو بات کہی وہ بالکل ایسی ہے جیسے آج کل بھی محاورے میں کہی جاتی ہے کہ میں تو کچھ کہوں گا نہیں یا میں تو ہاتھ اٹھائوں گا نہیں سب بوجھ بھار تیرے اوپر رہے گا وہی مطلب اس آیت کا بھی ہوسکتا ہے۔ حضرت حذیفہ جو مشہور صحابی ہیں اور آخری زمانے کے فتنوں کی ان کو بہت سی حدیثیں یاد تھیں ان کے جنازے پر ایک صاحب نے فرمایا کہ میں نے مرحوم سے سنا ہے یہ کہا کرتے تھے اگر تم آپس میں لڑو گے تو میں اپنے گھر میں سب سے اندر کے حصے میں چلا جائوں گا اور دروازے بند کر کے بٹیھ جائوں گا اگر وہاں بھی کوئی گھس آئے گا تو میں کہہ دوں گا۔ لے اپنا اور میرا گناہ اپنے سر پر رکھ لے اور میں اس طرح قوم کے ان دو بیٹوں میں سے اس کی طرح ہو جائوں گا۔ جو دونوں میں سے بہتر تھا مطلب یہ ہے کہ کوئی قتل کرنے آئیگا تو میں قتل ہو جائوں گا اور ہاتھ نہیں اٹھائوں گا اور کہہ دوں گا سب بوجھ بھار تیری گردن پر بعض حضرات نے کہا ہے باثمی سے مراد بمثل اثمی ہے یعنی اگر میں دست درازی کرتا تو جو گناہ مجھ پر ہوتا ویسا ہی گناہ تیری دست درازی سے تجھ پر ہوگا بعض لوگوں نے قیامت میں ظالم کی نیکیاں چھین کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی اور اگر بدلہ پورا نہ ہوگا تو مظلوم کے گناہ اس پر رکھے جائیں گے یہاں تک کہ ظلم کا بدلہ پورا ہوجائے لہٰذا ہوسکتا ہے کہ کسی ظالم کا ظلم اتنا زیادہ ہو کہ مظلوم کے تمام گناہ اس پر لا د دیئے جائیں تب کہیں جا کر ظلم کا بدلہ پورا ہو ان سب معنی کے باوجود ابن جریر نے حضرت مجاہد کے اس معنی کو ترجیح دی ہے جو ہم نے اختیار کئے ہیں۔ ابن جریر نے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اور گناہوں کے ساتھ میرے قتل کا گناہ بھی تجھ پر رکھ دیا جائے یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے تمام گناہ تجھ پر لاد دیئے جائیں۔ (واللہ اعلم) مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ میری امت کا مفلس شخص وہ ہوگا جو قیامت میں نماز، روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا مگر ایک شخص اس کے مقابلے میں آ کر کہے گا الٰہی ! اس نے مجھ کو گالی دی تھی میرا مال کھایا تھا اور اس نے مجھ کو مارا تھا اور اس نے مجھ کو قتل کیا تھا۔ ارشاد ہوگا اس ظالم کی تمام نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں اگر نیکیاں اس کے حق چکتہ نہ کرسکیں گی تو ارشاد ہوگا کہ مظلوم کے گناہ اس پر رکھ دیئے جائیں چناچہ اس کے بعد اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا خاتم المحدثین حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کا شمیری (رح) کی ایک توجیہہ فیض الباری میں نظر سے گذری جس کا خلاصہ یہ ہے کہ باء کا ترجمہ ہے رجع جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں اور وباء و ابغضب من اللہ کے موقع پر بتا چکے ہیں نیز یہ کہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے۔ السیف مماء الذنوب یعنی تلوار گناہوں کو مٹا ڈالنے والی ہو حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اگر مقتول قاتل کے قتل کا ارادہ نہ کرے تو مقتول کے تمام گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور اس حدیث شریف کا یہی مورد ہے کیوں کہ القاتل والمقتول ھما فی النار کا مورد دوسرا ہے ۔ لہٰذا اب مطلب آیت کا یہ ہوا کہ میری خواہش یہ ہے کہ قابیل تو دوزخ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے داخل ہوجائے اور اپنی تلوار سے میرے گناہ مٹا جائے اور جب اپنے گناہوں کے ساتھ اپنی تلوار اور اپنے فعل سے ہابیل کے گناہ مٹا دے گا تو گویا اس پر یہ بات صادق آجائے گی کہ وہ اپنے گناہوں کے ساتھ اپنے بھائی کا گناہ مٹا کر لوٹا یہ مطلب نہیں کہ بھائی کا گناہ اس پر ڈال دیا گیا گویا اپنے گناہ سر پر رکھ کرلے گیا اور بھائی کے گناہ اپنی تلوار اور اپنے قتل سے مٹا گیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ مزید تفصیل اگر مطلوب ہو تو فیض الباری کی پہلی جلد کا ص 121 ملاحظہ کیا جائے حافظ الحدیث حضرت مولانا انور شاہ صاحب نے بہت ہی باریک بات بیان فرمائی ہے یعنی جب ہابیل کو ظلماً قتل کر کے جائیتو اس حالت سے جائے کہ اپنے گناہ تو اپنے ہمراہ لے کر جائے اور اپنے بھائی کے گناہ مٹا کر جائے لہٰذا ایسی حالت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے گناہ اور اپنے بھائی کے گناہ ساتھ لے گیا۔ اپنے گناہ اپنے ساتھ لے گیا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی گردن پر رکھ کرلے گیا اور بھائی کے گناہ ساتھ لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہابیل کے گناہ ختم کر گیا۔ حضرت مولانا انور شاہ صاحب (رح) نے جس حدیث سے اس آیت کی تفسیر کی ہے وہ حدیث السیف محاء الذنوب ہے اور یہ حدیث بزار کی ہے اور حضرت شاہ صاحب نے اس کو حدیث قوی کہا ہے ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں بزار سے اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس کی صحت کا انکار کیا ہے اور اس کے ایک اور معنی بھی بیان کئے ہیں اور ان لوگوں کا رد کیا ہے جو اس حدیث کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ مقتول کے گناہ قاتل پر آجاتے ہیں۔ صاحب ابن کثیر فرماتے ہیں اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ قتل کی تکلیف کے باعث اللہ تعالیٰ مقتول کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے لکین اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ گناہ قاتل پر ڈال دیئے جاتے ہیں بہرحال حضرت شاہ صاحب نے جو لطیف اور محفوظ طریقہ شرح کا اختیار فرمایا ہے وہ حضرت (رح) کی اس سوجھ بوجھ اور صحیح فہم کا پتہ دیتا ہے جو حضرت حق تعالیٰ نے ان کو قرآن و حدیث کے بارے میں عطا فرمایا تھا۔ بہرحال ! ان تمامت شریحات کے بعد یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ کوئی شخص سوائے اپنے جرائم کے دوسرے کے گناہوں کا ذمہ دار نہیں ہوتا رہا۔ وہ واقعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ہر قتل کو خط لکھا تو اس میں فرمایا تھا فعلیک اثم الیریسین تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرے ایمان نہ لانے سے جو تیری قوم ہلاک و برباد ہوگی اور تیرے حاشیہ نشین برباد ہوں گے تو ان کی تباہی و بربادی کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ یہ مطلب نہیں کہ ان کے کفر کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا اور سورة عنکبوت میں جو فرمایا ہے۔ ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم۔ اس کے متعلق انشاء اللہ تعالیٰ بشرط زندگی وہیں عرض کریں گے یہاں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ کسی بری رسم اور کسی برے طریقے کو جاری کرنے والے اور دوسروں کو گناہ کی ترغیب دینے والے پر بھی اس بری بات کے کرنے والوں کا گناہ ہوتا رہتا ہے۔ وہاں بوجھ سے وہی گناہ مراد ہیں جیسا کہ یہاں بھی آگے اسی قسم کا مضمون آتا ہے۔ بہرحال ! اب آگے قابیل کا اپنے بھائی کو قتل کرنے اور کوے سے تدفین کا حال معلوم کرنے کا ذکر ہے۔ (تسہیل)