Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 30

سورة المائدة

فَطَوَّعَتۡ لَہٗ نَفۡسُہٗ قَتۡلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصۡبَحَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۳۰﴾

And his soul permitted to him the murder of his brother, so he killed him and became among the losers.

پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر امادہ کر دیا اسنے اسے قتل کر ڈالا جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So the soul of the other encouraged him and made fair-seeming to him the murder of his brother; he murdered him and became one of the losers. means, his conscience encouraged him to kill his brother by making it seem like a sensible thing to do, so he killed him, even after his brother admonished him. Ibn Jarir said, "When he wanted to kill his brother, he started to twist his neck. So Shaytan took an animal and placed its head on a rock, then he took another rock, then he took another rock, and smashed its head with it until he killed it while the son of Adam was looking. So he did the same thing to his brother." Ibn Abi Hatim also recorded this. Abdullah bin Wahb said that Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that his father said, "Qabil held Habil by the head to kill him, so Habil laid down for him and Qabil started twisting Habil's head, not knowing how to kill him. Shaytan came to Qabil and said, `Do you want to kill him?' He said, `Yes.' Shaytan said, `Take that stone and throw it on his head.' So Qabil took the stone and threw it at his brother's head and smashed his head. Shaytan then went to Hawwa in a hurry and said to her, `O Hawwa! Qabil killed Habil.' She asked him, `Woe to you! What does `kill' mean?' He said, `He will no longer eat, drink or move.' She said, `And that is death.' He said, `Yes it is.' So she started to weep until Adam came to her while she was weeping and said, `What is the matter with you?' She did not answer him. He asked her two more times, but she did not answer him. So he said, `You and your daughters will inherit the practice of weeping, while I and my sons are free of it."' Ibn Abi Hatim recorded it. Allah's statement, فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ (And became one of the losers), in this life and the Hereafter, and which loss is worse than this. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Mas`ud said that the Messenger of Allah said, لاَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ ادَمَ الاْاَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا لاِاَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْل Any soul that is unjustly killed, then the first son of Adam will carry a burden of its shedding, for he was the first to practice the crime of murder. The Group, with the exception of Abu Dawud, also recorded this Hadith. Ibn Jarir recorded that Abdullah bin `Amr used to say, "The son of Adam, who killed his brother, will be the most miserable among men. There is no blood shed on earth since he killed his brother, until the Day of Resurrection, but he will carry a burden from it, for he was the first person to establish murder." Allah said, فَبَعَثَ اللّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الاَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 چناچہ حدیث میں آتا ہے (لَا تَقْتُلُ نَفْسً ظُلُمًَا اِلَّا کَانَ عَلٰی اِبْنِ آدَمْ کفل من دمہا، لانہ کان اول من سن القتل) (الصحیح بخاری) جو قتل بھی ظلمًا ہوتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں ' کہ ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پردے دی گئی تھی۔ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے کرنے والوں کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے الگ ہوگی جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی۔ قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے ' اِنْا للہِ وَ اِنِّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ) 002:156 (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] قابیل نے اپنے بھائی کی باتیں سنیں تو کچھ عرصہ ان پر غور کرتا رہا، لیکن بالآخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک ہابیل زندہ رہے گا اس کا نکاح اس لڑکی سے نہیں ہوسکتا لہذا اسے ختم کردینے سے ہی اسے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نفس کے شیطان نے اسے سبز باغ دکھا کر اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے بھائی کا قصہ پاک کر دے۔ پھر جب اس نے اسے مار ڈالا تو اس پر ہر طرف سے لعنت اور پھٹکار پڑنے لگی کہ ایسے نیک سیرت اور مشفق بھائی کو اس نے بےقصور مار ڈالا ہے اور آخرت میں جو اس کے لیے سزا ہے وہ تو بہرحال مل کے رہے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ : یعنی اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور آخرت میں بھی سخت عذاب کا مستحق ٹھہرا، کیونکہ ہر بعد والے قتل کا گناہ اس کی گردن پر بھی ہوگا، جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزرا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝ ٣٠ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ۔ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لئے آسان کردیا) مجاہد کا قول ہے ” اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کا معاملہ بڑے مسجع اور منقش انداز میں پیش کیا۔ قتادہ کا قول ہے۔ ” اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے سامنے مزین کر کے پیش کیا “ ایک قول ہے۔ اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کے معاملے میں اس کی مساعدت کی “ تمام اقوال میں ایک معنی مشترک ہے وہ یہ کہ اس نے بخوشی اس قتل کا ارتکاب کیا تھا اس کام کو اس نے ناپسند نہیں کیا تھا۔ ایک قول ہے کہ عرب کہتے ہیں ” طاع لھذہ الظبیۃ اصول الشجر یا ” طاع لفادن “ (درختوں کی جڑیں اس ہرنی کے لئے خود بخود فرمانبردار ہوگئیں، یا وہ فلاں شخص کا فرمانبردار ہوگیا) یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی کسی کے پاس بخوشی آیا ہو۔ ” انطاع “ کے معنی ہیں ” انقاد “ (فرمانبردار ہوگیا) ۔ اسی مفہوم کی بنا پر محاورے میں ” طوعت لۃ نفسہ “ کہا جاتا ہے ” اطاعتہ نفسہ “ نہیں کہا جاتا۔ اس لئے کہ لفظ ” اطاع “ اطاعت کرنے والے کے ارادے کا مقتضیٰ ہے جو وہ امر اور حکم کے مفہوم کو بجا لانے کے لئے کرتا ہے، یہ بات حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے دل میں موجود نہیں تھی جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا۔ لیکن ” طوع “ کے لفظ میں یہ مفہوم پایا نہیں جاتا۔ اس لئے کہ یہ لفظ کسی امر اور حکم کا مقتضیٰ نہیں ہوتا۔ نیز یہ جائز بھی نہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کو کسی کام کا امر کرے یا کسی کام سے رک جانے کا حکم دے اس لئے کہ امر اور نہی میں اصل بات یہ ہے کہ امر یا نہی کرنے والا مرتبے میں اس سے اونچا ہو جسے یہ امر یا نہی کر رہا ہے۔ لیکن کبھی یہ درست ہوتا ہے کسی انسان کی طرف ایسے فعل کی نسبت کردی جائے جو اس کی ذات کو شامل ہو کسی اور کی طرف متعدی نہ ہو مثلاً آپ یہ کہیں ” حرک نفسہ “ یا ” قتل نفسہ “ (اس نے اپنے آپ کو بلایا یا اس نے اپنے آپ کو قتل کردیا) جس طرح یہ کہنا درست ہے ” حرک غیرہ “ یا ” قتل غیرہ “ (اس نے دوسرے شخص کو بلایا یا دوسرے شخص کو قتل کردیا) قول باری ہے (فاصبح من الخاسرین پس وہ ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں) یعنی اس نے اسے قتل کر کے اپنی ذات کا نقصان اٹھایا۔ قول باری ہے (ان الخاسرین الذین خسروا انفسھم و اھلیھم یوم القیامۃ۔ بیشک نقصان اٹھانے والے لوگ وہ ہیں جو قیامت کے دن اپنی جانوں اور اپنے اہل و عیال کا نقصان اٹھائیں گے۔ قول باری (فاصبح من الخاسرین) میں کوئی دلالت نہیں کہ قتل کا یہ وقوعہ رات کے وقت ہوا تھا بلکہ اس سے ایک مبہم وقت مراد ہے ہوسکتا ہے کہ یہ رات کا وقت ہو اور ہوسکتا ہے کہ دن کا وقت ہو۔ جس طرح شاعر کا قول ہے۔ اصبحت عاذلتی معتلہ مجھے ملامت کرنے والی عورت بیمار پڑگئی۔ یہاں صرف دن کا وقت مراد نہیں ہے رات کا وقت بھی مراد ہوسکتا ہے۔ ایک اور شاعر کہتا ہے۔ بکدت علی عواذلی یلحیننی والومھنہ میری ملامت گر عورتوں نے میری کھال اتارنی شروع کردی یعنی بہت زیادہ ملامت شروع کردی اور اس کے جواب میں بھی انہیں صلوٰتیں سناتا رہا۔ یہاں شاعر نے لفظ ’ بکرت ‘ سے دن کا ابتدائی حصہ یعنی سویرا مراد نہیں لیا، اس لفظ سے دن کا آخری حصہ یا کوئی اور حصہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ عرب کے لوگ عام طور پر ایسے الفاظ کا اطلاق کر کے مبہم وقت مراد لیتے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ) ان الفاظ کے بین السطور اس کے ضمیر کی کش مکش کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ ایک طرف اللہ کا خوف ‘ نیکی کا جذبہ ‘ خون کا رشتہ اور دوسری طرف شیطانی ترغیب ‘ حسد کی آگ اور نفسانی خواہش کی اکساہٹ۔ اور پھر بالآخر اس اندرونی کشمکش میں اس کا نفس جیت ہی گیا ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:30) طوعت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ تطویع (تفعیل) سے اس (کے نفس) نے رغبت دلائی۔ اس نے راضی کرلیا۔ اس نے آمادہ کرلیا۔ اس نے آسان کردیا۔ اس کے نفس نے تسویل و ترغیب سے اس پر آمادہ کرلیا اور وہ اس کام کے کرنے پر رضا مند ہوگیا ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ ١۔ نفس مطمئنہّ ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس (القیامۃ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس (یوسف : ٥٣) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (١) نفس امارہ اور نفس لوامہ۔ ان کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ جب نفس امارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ” فطوعت لہ نفسہ “ سے یہی کشمکش مراد ہے۔ چناچہ قابیل نے وہی کیا جس کا وہ اعلان کرچکا تھا۔ قتل کرنے کے بعد اس کے دل کا سکون جاتا رہا۔ رہتی دنیا تک بدنامی اس کے مقدر میں آئی، ظلم و زیادتی کی بری روایت قائم کی۔ آخرت میں جہنم کا ایندھن اور ظالموں کا ساتھی بنا۔ اس سے زیادہ اور نقصان کیا ہوسکتا ہے اور جب بھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے اسے ایسی ہی کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نیکی میں اطمینان اور برائی میں پریشانی و پشیمانی ہوا کرتی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِنْہَا وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ مِنْ دَمِہَا لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًا)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ، بَاب إِثْمِ مَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَۃٍ أَوْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّءَۃً ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے پر ہر ظلم کے ساتھ قتل کیے جانے والے کے گناہ کا حصہ ہے اور شاید سفیان نے خون کا لفظ بولا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کرنے کی بنیاد رکھی۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فَطَوَّعَتْ لَہُ نَفْسُہُ قَتْلَ أَخِیْہِ فَقَتَلَہُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (30) ” آخرکا اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لئے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں ۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اس وعظ ‘ اس نصیحت اور ڈراوے کے باوجود یہ شریر شخصیت جرم پر آمادہ ہوجاتی ہے اور جرم کا ارتکاب ہوجاتا ہے ۔ اس کے نفس نے اس کے لئے تمام نتائج آسان کردیئے ۔ تمام رکاوٹیں دور کردیں ۔ قتل پر وہ آسانی سے آمادہ کردیا گیا ۔ اس نے قتل کر ہی دیا لیکن کسے ؟ اپنے بھائی کو اور اب وہ خوفناک انجام کا مستحق ہے ۔ (آیت) ” فاصبح من الاخسرین “۔ (٥ : ٣٠) (وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا) اس نے اپنے نفس کا نقصان کیا ۔ اسے ہلاکت میں ڈال دیا ۔ وہ اپنے بھائی کا نقصان کر گیا ‘ جو اس کا ناصر اور ساتھی تھا ۔ اس نے دنیا کا نقصان اس طرح کیا کہ اس کی زندگی اس دنیا میں تلخ ہوگئی اور آخرت کا نقصان یوں ہوگا کہ آخرت میں اپنے اس قتل کا بھی بدلہ بھگتے گا اور بعد میں آنے والے تمام قاتلوں کے گناہ میں بھی حصہ دار ہوگا ۔ اب اس کے لئے اس کے جرم کو ایک نئی شکل میں لاتا جاتا ہے ۔ بھائی کا لاشہ پڑا ہے ‘ روح نکل چکی ہے ۔ گوشت کا ڈھیر ہے اور متعفن ہو رہا ہے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ناقابل برداشت ہے ‘ ایک لاش اس کا گناہ اب لاش کی صورت میں ہے ۔ اب اللہ کی مشیت یہ ہے کہ یہ ذات شریر اپنے کئے کے سامنے عاجز کھڑی ہو ‘ سمجھ نہ آئے کہ اب اس لاش کے ساتھ کیا کرے ۔ ابھی تو وہ قاتل ‘ خونریز اور سخت گیر تھا ۔ اور اب بےبس ۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس لاش کو کس طرح ٹھکانے لگائے اب تو وہ ایک پرندے سے بھی عاجز ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57 فَطَوَّعَتْ لَہٗ الخ یعنی نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر خوشی سے آمادہ کردیا اور اس کا قتل اس پر آسان اور سہل کردیا ای فمھلتہ لہ و سعتہ (روح ج 6 ص 114) قابیل نے ہابیل کو کیوں قتل کیا اصل وجہ عداوت کیا تھی اس کے بارے میں صحیح وہی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ (رح) نے فرمایا ہے کہ ہابیل نے نہایت اعلیٰ درجہ کا مینڈھا اللہ کی نیاز میں دیا وہ قبول ہوگیا اور قابیل نے ردی قسم کا اناج اللہ کی نذر کیا وہ قبول نہ ہوا اس وجہ سے اس کے دل میں ہابیل کے خلاف حسد پیدا ہوگیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi