Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 36

سورة المائدة

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ اَنَّ لَہُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا وَّ مِثۡلَہٗ مَعَہٗ لِیَفۡتَدُوۡا بِہٖ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنۡہُمۡ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۳۶﴾

Indeed, those who disbelieve - if they should have all that is in the earth and the like of it with it by which to ransom themselves from the punishment of the Day of Resurrection, it will not be accepted from them, and for them is a painful punishment

یقین مانو کہ کافروں کے لئے اگر وہ سب کچھ ہو جو ساری زمین میں ہےبلکہ اس کےمثل اور بھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں دینا چاہیں تو بھی ناممکن ہے کہ ان کا فدیہ قبول کر لیا جائے ، ان کے لئے تو دردناک عذاب ہی ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, those who disbelieve, if they had all that is in the earth, and as much again therewith to ransom themselves thereby from the torment on the Day of Resurrection, it would never be accepted of them. And theirs would be a painful torment. So if a disbeliever brought the earth's fill of gold, and twice as much as that amount on the Day of Judgment to ransom himself from Allah's ... torment that has surrounded him, and he is certain that he will suffer from it, it will not be accepted of him. Rather, there is no escaping the torment, and he will not be able to evade or save himself from it. Hence Allah's statement, وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (And theirs would be a painful torment), meaning, hurtful, يُرِيدُونَ أَن يَخْرُجُواْ مِنَ النَّارِ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ ایک جہنمی کو جہنم سے نکال کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا ' تو نے اپنی آرام گاہ کیسے پائی '؟ وہ کہے گا ' بدترین آرام گاہ ' اللہ تعالیٰ فرمائے گا " کیا تو زمین بھر سونا فدیہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرن پسند کرے گا ؟ " وہ اثبات میں جواب دے گا... ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو دنیا میں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیا تھا تو نے وہاں کی پروا نہیں کی اور اسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا (صحیح مسلم)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٠] آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جس دوزخی کو سب سے ہلکا عذاب ہوگا اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا && اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے اور اس کے برابر کوئی چیز ہو تو اپنے چھٹکارے کے لیے دے دو گے ؟ && وہ کہے گا && ہاں۔ && اللہ تعالیٰ فرمائے گا && جب تو انسانی قالب می... ں تھا اس وقت میں نے تجھ سے اس سے بہت ہلکی چیز مانگی تھی کہ تو میرے ساتھ شرک نہ کرے مگر تو نے اس بات کو تسلیم نہ کیا && (اور شرک کرتا رہا) (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب صفۃ الجنۃ والنار )   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : سورة آل عمران کی آیت (٩١) اس کی ہم معنی ہے، انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص سے کہے گا جسے آگ والوں میں سے سب سے ہلکا عذاب ہوگا : ” اگر زمین میں جو بھی چیز ہے تمہاری...  ہو تو کیا تم اپنی جان چھڑانے کے لیے وہ دے دو گے ؟ “ وہ کہے گا : ” ہاں ! “ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ” میں نے تم سے اس سے کہیں زیادہ آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا، مگر تو میرے ساتھ شریک بنائے بغیر مانا ہی نہیں۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار : ٦٥٥٧ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَہُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لِيَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ۝ ٠ۚ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٣٦ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر ف... ي الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ فدی الفِدَى والفِدَاءُ : حفظ الإنسان عن النّائبة بما يبذله عنه، قال تعالی: فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] ، يقال : فَدَيْتُهُ بمال، وفدیته بنفسي، وفَادَيْتُهُ بکذا، قال تعالی: إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، وتَفَادَى فلان من فلان، أي : تحامی من شيء بذله . وقال : وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] ، وافْتَدى: إذا بذل ذلک عن نفسه، قال تعالی: فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] ، وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] ، والمُفَادَاةُ : هو أن يردّ أسر العدی ويسترجع منهم من في أيديهم، قال : وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18] ، لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] ، ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] ، وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] ، لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] ، وما يقي به الإنسان نفسه من مال يبذله في عبادة قصّر فيها يقال له : فِدْيَةٌ ، ككفّارة الیمین، وكفّارة الصّوم . نحو قوله : فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] ، فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] ( ف د ی ) الفدٰی والفداء کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دیگر اسے مصیبت سے بچالینا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِداءً [ محمد/ 4] پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے ۔ یا کچھ مال لے لر ۔ چناچہ محاورہ فدیتہ بمال میں نے کچھ خرچ کر کے اسے مسیبت سے بچالیا فدیتہ منفسی میں نے اپنی جان کے عوض اسے چھڑالیا فاواہُ بکذا ۔ اس نے کچھ دے کت اسے چھڑا لیا قرآن میں ہے ۔ إِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلہ دے کر انہیں چھڑا بھی لیتے ہو ۔ تفادیٰ فلان من فلان کسی کا فدیہ دے کر اس کو چھڑالینا ۔ وَفَدَيْناهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ [ الصافات/ 107] اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کا فدیہ دیا ۔ افتدیٰ کے معنی خواہ اپنے کو مال کے عوض چھڑانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ [ البقرة/ 229] رہائی پانے کے بدلے میں وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ [ الرعد/ 18]( تو وہ سب کے سب ) اور ان کے ساتھ ہی اتنے اور ( نجات کے ) بدلے میں صرف کر ڈالیں ۔ لَافْتَدَتْ بِهِ [يونس/ 54] تو ( عذاب سے بچنے کے لئے ( سب ) دے ڈالے ۔ ولِيَفْتَدُوا بِهِ [ المائدة/ 36] تاکہ بدلہ دیں۔ وَلَوِ افْتَدى بِهِ [ آل عمران/ 91] اگر بدلے میں دیں لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ [ المعارج/ 11] کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں ( سب کچھادے ڈالے یعنی بیٹے اور جو مال کسی عبادت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے خرچ کر کے انسان خود اپنے کو گناہ سے بچاتا ہے اسے بھی فدیتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ کفار یمین اور صوم کے متعلق فرمایا ۔ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيامٍ أَوْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 196] تو اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقے دے یا قربانی کرے ۔ فِدْيَةٌ طَعامُ مِسْكِينٍ [ البقرة/ 184] روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلادیں ۔ قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے قبل ( تقبل) قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦۔ ٣٧) اگر کفار کے پاس پوری دنیا کا مال بلکہ اس سے دو گنا بھی ہو اور پھر اسے اپنی جانوں کے فدیہ کے طور پر ادا کریں، پھر بھی یہ فدیہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور یہ دوزخ سے کسی طرح بھی نہیں نکلیں گے اور ہمیشہ عذاب میں رہیں گے جس میں کبھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ ( اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَہُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ ) ( لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ) (مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ ج) یہ حکم گویا تعلیق بالمحال ہے کہ نہ ایسا ممکن ہے اور نہ ایسا ہوگا۔ لیکن بات کی سختی واضح کرنے کے لیے یہ انداز اپن... ایا گیا ہے اور آخری درجے میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر بالفرض ان کے پاس اتنی دولت موجود بھی ہو تب بھی اللہ کے ہاں ان کا فدیہ قبول نہیں ہوگا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک جہنمی کو لایاجائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ اگر تمہارے پاس زمین بھر سونا ہو تو کیا تم اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے وہ کہے گا ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تمہیں اس سے کہیں ہلکی چیز کا مطالب... ہ کیا تھا یعنی یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا) مگر تم نے اسے پورا نہ کیا (ابن کثیر بحوالہ صحیح مسلم آیت سے مقصود یہ ہے کہ ان لازما عذاب ہوگا اور کسی صورت اس سے رہائی نہیں پاسکیں گے (کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 36 تا 37 لغات القرآن : ماتقبل (قبول نہ کیا جائے گا ) ۔ خادجین (نکلنے والے ) ۔ عذاب مقیم (کھڑا رہنے والا عذاب ۔ ہمیشہ کا عذاب ) ۔ تشریح : جرائم کون کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا۔ جرائم میں کون لگا رہتا ہے ۔ وہی اللہ کا حکم نہیں مانتا۔ وہ کیوں لگا رہتا ہے تاکہ مال پر مال بٹور تار ہے ۔ مگر یہ مال...  اس کے لئے کتنے دن کا۔ چور کا مال خود بھی چوری ہوسکتا ہے ۔ ڈاکو کا مال پھر بھی کوئی اور ڈاکو لے جاسکتا ہے ۔ راشی کا مال حرام میں اڑاجاتا ہے ۔ اور اگر مال رہ بھی گیا تو موت کے بعد بےکار۔ اگر کسی نافرمان نے اتنا مال بھی جمع کرلیا کہ تمام دنیا سمٹ کر اس کی جیب میں آگئی ۔ اور پھر اسی قدر مال اور بھی جمع کرلیا اور یہ مال در مال موت کے اس پار پہنچ سکا تو قیامت کے دن اپنے مالک کے عذاب سے اسے کوئی چھڑانہ سکے گا۔ وہ شخص تڑپ تڑپ کر پریشان ہوگا۔ کہ کسی طرح یہ مال انبار درانبار دے کر اپنی جان چھڑالے مگر نہ کرسکے گا ۔ آگ اس کے چاروں طرف لپٹی ہوئی ہوگی ۔ بھاگنے کا کوئی چور دروازہ نہ ہوگا۔ اور یہ عذاب اسے مستقل اور ہمیشہ ہمیشہ دیاجائے گا ۔ آگے جرائم اور سزا کی چند تفصیلات آرہی ہیں ملا حظہ فرمایئے ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے لوگو ! فساد فی الارض میں صلاحیتیں ضائع کرنے اور اللہ سے دوری اختیار کرنے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی قوتیں صرف کرو تاکہ تمہیں اللہ کا قرب اور کامیابی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے منکر نہ صرف اس کے قرب سے محروم ہوں گے بلکہ انھیں جہنم میں پھینکا جائے گا جس سے ان کے نکلنے ک... ی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ جو لوگ نیک اعمال کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے اور پانے کی بجائے یہود و نصاریٰ کا رویہ اختیار کرتے اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں فلاح اور کامیابی کے راستے پر چلنے کی بجائے بغاوت اور سرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں انھیں قیامت کے دن جہنم میں جھونکا جائے گا۔ جس سے نکلنے کے لیے آہ و زاریاں کریں گے لیکن ان کی فریاد اور کوئی وسیلہ کام نہیں آئے گا۔ جو دنیا میں یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ہم فلاں فلاں کی و جہ سے دنیا کی عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور قیامت کے دن بھی بزرگ اور بڑے ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچالیں گے وہ اپنی نجات کے لیے سب کچھ پیش کرنے کی درخواست کریں گے باوجود اس کے کہ ان کے پاس نیکی اور برائی کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی لیکن پھر بھی ایسی پیشکشیں کریں گے۔ ان سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ جہنم کی آگ سے نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن نکل نہیں پائیں گے۔ انھیں ہمیشہ وہاں رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضِرْسُ الْکَافِرِ أَوْ نَابُ الْکَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِہٖ مَسِیرَۃُ ثَلَاثٍ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ ونعیمھا، باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم میں کافر کا دانت احد پہاڑ جتنا ہوگا اور اس کی جلد کی موٹائی تین دن کی مسافت جتنی ہوگی۔ “ (وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیْہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآءَ کُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوْا فَمَا للظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ )[ فاطر : ٣٧] ” اور وہ چیخ چیخ کر کہیں گے : ہمارے رب ! ہمیں (اس سے) نکال کہ ہم نیک عمل کریں ویسے نہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے (اللہ فرمائے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کوئی نصیحت حا صل کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا ؟ تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا اب عذاب کو چکھو یہاں ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ “ مسائل ١۔ مجرموں سے زمین اور اس کے برابر فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ مجرم جہنم سے نہیں نکل سکیں گے۔ ٣۔ مجرموں کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والا اور ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی معاوضہ نہیں قبول ہوگا : ١۔ قیامت کے دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ : ٤٨) ٢۔ قیامت کو مجرم زمین بھر سونا کر دے تب بھی قبول نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ مجرم خواہش کرے گا کہ میں جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ معاوضہ دے کر بچ جاؤں۔ (المعارج : ١١ تا ١٤) ٤۔ کوئی معاوضہ اس دن قبول نہیں کیا جائے گا۔ (المائدۃ : ٣٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَوْ أَنَّ لَہُم مَّا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً وَمِثْلَہُ مَعَہُ لِیَفْتَدُواْ بِہِ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ(36) یُرِیْدُونَ أَن یَخْرُجُواْ مِنَ النَّارِ وَمَا ہُم بِخَارِجِیْنَ مِنْہَا وَلَہُمْ عَذَابٌ م... ُّقِیْمٌ(37) (خوب جان لو کہ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے اگر ان کے قبضے میں ساری زمین کی دولت ہو اور اتنی ہی اور اس کے ساتھ اور وہ چاہیں کہ اسے فدیہ میں دے کر روز قیامت کے عذاب سے بچ جائیں ‘ تب بھی وہ ان سے قبول نہ کی جائے گی اور انہیں دردناک سزا مل کر رہے گی ۔ وہ چاہیں گے کہ دوزخ کی آگ سے نکل بھاگیں مگر نہ نکل سکیں گے اور انہیں قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا۔ ) بطور فرض انسان جو تصور کرسکتا ہے وہ یہی ہے کہ اہل کفر کے پاس زمین کے تمام خزانے ہوں اور اسی قدر مزید ان کے لئے فرض کیا جاسکتا ہے ۔ قرآن کریم ان کے لئے یہ بھی فرض کرتا ہے کہ اس جہان جیسا ایک دوسرا جہان بھی ان کے پاس ہو ۔ اس کے بعد قرآن کریم یہ فرض کرتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن یہ تمام مفروضہ دولت بطور فدیہ اور کفارہ کفر دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائیں ۔ قرآن کریم ایک ایسا منظر نظروں کے سامنے لاتا ہے کہ وہ آگ سے کس طرح نکلنا چاہتے ہیں مگر وہ نکل نہیں سکتے ۔ وہ اپنے اس مقصد اور ہدف میں ناکام رہتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جن ہم کی آگ میں زندہ رہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کے اندر کئی مناظر ہیں اور جس میں کئی مسلسل حرکات ہیں ۔ ایک منظر کفار کا ہے وہ اپنے پاس اس پورے جہان کی دولت لیے ہوئے ہیں پھر اچانک یہ دولت دوگنی ہوجاتی ہے ۔ پھر وہ اس دولت کو لے کر اسے بطور فدیہ دینے کی پیشکش کرتے ہیں ۔ پھر ان کا یہ منظر سامنے آتا ہے کہ وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام لوٹتے ہیں اب انہیں یہ مقصد حاصل کرنے کی کوئی آس بھی نہیں رہتی ۔ پھر وہ اچانک آگ میں داخل ہوتے ہیں اور وہ اس سے باہر بھاگنا چاہتے ہیں مگر بھاگ نہیں سکتے ۔ پھر ان کو مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ وہاں باقی رہیں ۔ اب پردہ گرتا ہے اور وہ یہاں ہی فروکش ہوجاتے ہیں ۔ (دیکھئے کتاب التصویر الغنی میں فصل طریقہ القرآن) اور اب اس سبق کے آخر میں چوروں کے احکام :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن اہل کفر کو عذاب کا سامنا اور جان چھڑانے کیلئے سب کچھ دینے پر راضی ہونا اس کے بعد اہل کفر کے بارے میں فرمایا کہ جب قیامت کے دن عذاب میں ڈال دیئے جائیں گے تو ان کی یہ آرزو اور تمنا ہوگی کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس کے ساتھ اس کے بقدر اور بھی ہو اور یہ سب دے کے خلاصی پالیں اور جان چھ... ڑا لیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اول تو وہاں کچھ ہونے کا ہی نہیں تاکہ اس کو جان کے بدلہ میں دیا جاسکے اور بالفرض ہو بھی اور اس کو دے کر جان چھڑانا چاہے تو کوئی بدلہ اور فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور جود رد ناک عذاب ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ بہرحال اس عذاب میں ہمیشہ رہنا ہی ہوگا۔ سورة آل عمران میں فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَا تُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْ ءُ الْاَرْضِ ذَھَبًا وَّلَوِا اقْتَدٰی بِہٖ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَھُمْ مِّنْ نٰصِرِیْنَ ) (یعنی بیشک جنہوں نے کفر اختیار کیا اور وہ اس حالت میں مرگئے کہ کافر تھے تو ان سے ہرگز بھی زمین بھر کر سونا قبول نہ کیا جائے اگرچہ وہ اس کو جان کے بدلہ میں دینا چاہیں، یہ لوگ ہیں جن کو دردناک عذاب ہوگا اور کوئی بھی ان کا مددگار نہ ہوگا) اور سورة رعد میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہٗ لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لاَ فْتَدَوْا بِہٖٓ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ سُوْٓءُ الْحِسَابِ وَمَاْ وٰ ھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِءْسَ الْمھَادُ ) (اور جنہوں نے اس کا کہنا نہ مانا اگر ان کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اسی قدر اس کے ساتھ اور ہو تو یہ لوگ اپنی جان چھڑانے کے لئے اس کو دے ڈالیں، ان لوگوں کے لئے حساب کی سختی ہے اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے) ۔ اور سورة زمر میں فرمایا (وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِیْ الْاَرضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لاَ فْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) (اور ظلم کرنے والوں کے پاس اگر دنیا بھر کی تمام چیزیں ہوں اور ان کے ساتھ اسی قدر اور بھی ہو تو یہ لوگ قیامت کے دن برے عذاب سے چھوٹنے کے لئے اپنی جان کے بدلہ میں دینے کو تیار ہوں گے) قیامت کے دن جب عذاب دیکھیں گے تو نہ صرف مال بلکہ آل اولاد و اعزہ و اقرباء سب کو اپنی جان پر قربان کرنے اور اپنی جان کو عذاب سے چھڑانے کی آرزو کریں گے۔ سورة معارج میں فرمایا (یَوَدُّ الْمُجْرمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمءِذٍ بِبَنِیْہِ وَ صَا حِبَتِہٖ وَ اَخِیْہَ وَ فَصِیْلَتِہِ الَّتِی تُؤْوِیْہِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً ثُمَّ یُنْجِیْہِ کَلَّا) یعنی اس دن مجرم تمنا کرے گا کہ کاش اس دن عذاب سے چھوٹنے کے عوض میں بیٹوں کو اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی اور اپنے کنبہ کو جس میں رہا کرتا تھا نیز جتنے لوگ زمین پر ہیں سب کو دیدے پھر یہ معاوضہ اس کو بچا لے، نہیں۔ کافردوزخ سے نکلنا چاہیں گے مگر کبھی نہ نکل سکیں گے  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63 اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوْا الخ یہ ان لوگوں کے لیے تخویف اخروی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا احکام و حدود کی خلاف ورزی کریں قیامت کے دن اگر ان کو دنیا کی ساری دولت مل جائے اور وہ اسے فدیہ میں دے کر عذاب جہنم سے بچنا چاہیں تو نہیں بچ سکیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi