Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 47

سورة المائدة

وَ لۡیَحۡکُمۡ اَہۡلُ الۡاِنۡجِیۡلِ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۴۷﴾

And let the People of the Gospel judge by what Allah has revealed therein. And whoever does not judge by what Allah has revealed - then it is those who are the defiantly disobedient.

اور انجیل والوں کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالٰی نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق حکم کریں اور جو اللہ تعالٰی کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ ( بدکار ) فاسق ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الاِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فِيهِ ... Let the people of the Injil judge by what Allah has revealed therein. meaning, so that He judges the people of the Injil by it in their time. Or, the Ayah means, so that they believe in all that is in it and adhere to all its commands, including the good news about the coming of Muhammad and the command to believe in and follow him when he is sent. Allah said in other Ayat, قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّىَ تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالاِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ Say "O People of the Scripture! You have nothing (guidance) until you act according to the Tawrah, the Injil, and what has been sent down to you from your Lord." (5:68) and, الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الاُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ... Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write whom they find written with them in the Tawrah... until, الْمُفْلِحُونَ ...successful. (7:157) Here, Allah said, ... وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ And whosoever does not judge by what Allah has revealed, such are the rebellious. meaning, the rebellious and disobedient of Allah who prefer falsehood and abandon truth. We mentioned before that this Ayah was revealed about the Christians, and this is evident from the context of the Ayah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تھا جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دور نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدیہ پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی پیروی کرے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] اللہ کے حکم کے مطابق نہ فیصلے کرنے والے کون ؟ اللہ کی طرف سے نازل شدہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے آیت نمبر ٤٤ کی رو سے کافر ہیں آیت نمبر ٤٥ کی رو سے ظالم اور آیت نمبر ٤٧ کی رو سے فاسق قرار دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان آیات کے مخاطب یہود و نصاریٰ ہیں تاہم یہ حکم عام ہے اور مسلمانوں کو بھی شامل ہے اور ان تینوں آیات میں جو مختلف درجات بیان کیے گئے ہیں ان کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ احکام الٰہی کے خلاف فیصلہ کرنے والا فاسق بھی ہوتا ہے، ظالم بھی اور کافر بھی۔ کیونکہ یہ سب حق سے انحراف کے ہی درجات ہیں۔ یعنی ابتداء میں فاسق ہوتا ہے جب اس گناہ سے آگے بڑھ جائے تو ظالم اور جب اسے معمول بنا لے تو کافر ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب جرم کی شدت کی نوعیت کے اعتبار سے ہے جیسے یہود نے رجم کے حکم پر عمل نہ کیا پھر اسے چھپایا تو یہ کفر ہوا اور بنو نضیر نے بنو قریظہ سے دوگنی دیت لی تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہے پس یہ ظلم ہوا۔ اور اگر اس سے بھی کم تر درجہ کا گناہ ہوگا تو وہ فسق ہوگا اور کبھی جرم کی نوعیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ مجرم ان تمام صفات کا حامل قرار پاتا ہے جیسے بنی اسرائیل کے بعدئی بادشاہ بت پرست تھے اور رعایا کو بھی اللہ کے بجائے اپنا حکم تسلیم کرواتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلْيَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِيْهِ ۭ۔۔ : اہل انجیل کا اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے، فیصلہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر لازم ہے کہ انجیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق جو پیش گوئیاں اور دلائل اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں وہ ان کو چھپانے یا ان کی غلط تاویلیں کرنے کی کوشش نہ کریں، بلکہ انجیل کے حکم کے مطابق مسلمان ہوجائیں اور قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کریں اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں تو وہ نافرمان ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب میں اترا ہوا اللہ کا حکم نہیں مانا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fourth verse (47) it was said that the people of the Injil should enforce injunctions in accordance with the Law revealed by Al-mighty Allah in the Injil, and those who enforce what is against the in-junctions sent down by Almighty Allah are disobedient, sinners.

چوتھی آیت میں ارشاد فرمایا کہ اہل انجیل کو چاہیے کہ جو قانون اللہ تعالیٰ نے انجیل میں نازل فرمایا ہے اس کے مطابق احکام نافذ کریں۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف حکم جاری کریں وہ نافرمان اور سرکش ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۝ ٠ۭ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ٤٧ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ ہمارا حکم تھا کہ اہل انجیل اس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے ان پر نازل کیا ہے ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قول باری میں یہ دلالت موجود ہے کہ انبیاء سابقین کی شریعتوں میں سے جو باتیں منسوخ نہیں ہوئیں وہ بایں معنی ثابت ہیں کہ اب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کا حصہ بن گئی ہیں ۔ اس لیے قول باری ہے ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ اور یہ بات واضح ہے کہ اہل انجیل کو انجیل میں نازل کردہ احکام کی پیروی کے حکم سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کریں اس لیے کہ انجیل میں نازل کردہ احکام اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کا جز بن چکے ہیں ۔ اس لیے کہ اگر یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہوئے اور آپ کی اتباع کیے بغیر انجیل پر عمل پیرا ہو بھی جاتے تو بھی کافر قراردیے جاتے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انہیں اس شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا بایں معنی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ شریعت اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کی جز بن چکی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَلْیَحْکُمْ اَہْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ ط) (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) وہی تو سرکش ہیں ‘ وہی تو نافرمان ہیں ‘ وہی تو ناہنجار ہیں۔ غور کیجیے ایک رکوع میں تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے گئے ہیں : (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ) (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ان آیات قرآنیہ کو سامنے رکھیے اور ملت اسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں ‘ جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے ؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت اسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو۔ اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلمان ہیں لیکن ہمارے نظام کافرانہ ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77. Here three judgements are issued against those who do not judge in accordance with the Law revealed by God. The first is that they are kafir (unbelievers); the second, that they are zalim (wrong-doers); and the third, that they are fasiq (transgressors). This clearly means that one who, in disregard of God's commandments and of the Laws revealed by Him, pronounces judgements according to man-made laws (whether made by himself or by others) is guilty of three major offences. First, his act amounts to rejecting the commandment of God, and this rejection is equivalent to kufr (infidelity, unbelief). Second, his act is contrary to justice, for only the laws made by God are in complete accord with the dictates of justice. Any judgement in contravention of God's injunctions amounts, therefore, to committing injustice (zulm). Third, when he enforces either his own or anyone else's law in disregard of the Laws of his Lord he steps out of the fold of subjection and obedience, and this constitutes fisq (transgression). Kufr, zulm and fisq are essential elements in deviation from God's commandments. One finds them wherever there is deviation from the commandment of God. There is variation in the degree of deviation and hence in the degree of these three offences. Whoever passes judgement on something in opposition to an injunction of God, believing that injunction to be false, and holds either his own or anyone else's judgement to be sound, is an unbeliever (kafir), wrong-doer (zalim) and transgressor (fasiq). A man who is convinced that the injunctions of God are right but makes judgements contrary to them in practice is not an unbeliever in the sense that he ceases to remain a member of the Islamic community, but he is guilty of adulterating his faith by blending it with kufr, zulm and fisq. In the same manner, those who deviate from the injunctions of God in all matters are unbelievers, wrong-doers and transgressors. For those who are obedient in some respects and disobedient in others, the blending of faith and submission to God with the opposite attributes of unbelief, wrong-doing and transgression in their lives will be exactly in proportion to the mixture of their obedience to and their deviation from God's commands. Some commentators have attempted to restrict the application of these verses to the People of the Book alone. The verses, however, hardly lend themselves to such a restrictive interpretation. The best answer to such a restrictive interpretation has been given by the Companion Hudhayfah. When someone told him that these verses related merely to the Israelites, meaning that the unbelievers, wrong-doers and transgressors were only the Jews who passed judgement contrary to the injunctions revealed by God, Hudhayfah remarked: 'What good brothers these Israelites are to you! Whatever is bitter goes to them; whatever is sweet comes to you. Nay, by God, you will follow their way, your steps following theirs.'

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :77 ”یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں ، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے ، وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اوّلاً اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے ۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے ، کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہو سکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا ، اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا ۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے ۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں ۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں تینوں چیزیں موجود نہ ہوں ۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے ۔ جو شخص حکم الہٰی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو اعتقاداً حکم الہٰی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر ، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے ۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکم الہٰی سے انحراف اختیار کر لیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر ، ظالم اور فاسق ہے ۔ اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے ۔ بعض اہل تفسیر نے ان آیات کے اہل کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ مگر کلام الہٰی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیا ہے ۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں ۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ہو وہی کافر ، وہی ظالم اور وہی فاسق ہے ۔ اس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نعم الاخرۃ لکم بنو اسرائیل اَن کانت لھم کل مُرّ ۃ ولکم کل حلوۃ کلّا واللہ لتسلکن طریقھم قدر الشراک ۔ ” کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب ان کے لیے ہے اور میٹھا میٹھا سب تمہارے لیے ! ہرگز نہیں ، خدا کی قسم تم انہی کے طریقہ پر قدم بقدم چلو گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:47) ولیحکم۔ پس چاہیے کہ وہ ضرور فیصلے کریں۔ یا حکم دیں۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 انجیل کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انجیل جو نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئیا اور دلائل موجود ہیں ان کو چھپانے ان کے غلط تاویلیں کرنے کی کوشش نہ کریں یا یہ کہ نزول انجیل کے وقت جو نصاریٰ تھے ان کو یہ حکم دیا گیا تھا بعض نے لکھا ہے یہ آیت منسوخ ہے اور ان کو یہ حکم اس وقت تھا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت نہیں ہوئی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے پچھلی تمام بعثتیں منسوخ کر ہوگئی ہیں (کبر قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر تورات و انجیل کا اپنے اپنے دور میں واجب العمل ہونا بیان فرمایا تھا آگے قرآن مجدی کا اپنے دور میں جو کہ زبان نزول سے قیام قیامت تک ہے واجب العمل ہونا بیان فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) (اور جو شخص اس کے موافق حکم نہ کرے جو اللہ نے نازل فرمایا تو یہی لوگ نافرمان ہیں) جن لوگوں کو انجیل شریف ان کے نبی کے ذریعہ پہنچی وہ اس کے مطابق نہ چلے اور اس کے موافق فیصلے نہ کئے اور اس میں تحریف بھی کردی اور توحید کے عقائد کی بجائے اپنے دین میں شرکیہ عقائد داخل کر لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتادیا اور تین خدا مان لئے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے اعتقاد کر کے کفارہ کا عقیدہ نکال لیا، پھر جب سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اور انجیل کی تصریح کے مطابق آپ کی نبوت و رسالت کا یقین ہوجانے کے باوجود ایمان نہیں لائے اور گمراہی میں ہی رہ گئے، ان کو حکم ہو رہا ہے کہ جو کچھ اللہ نے انجیل میں فرمایا ہے اس کے مطابق حکم کریں اور باطل عقائد کو چھوڑیں اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں، اللہ نے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کے مطابق فیصلہ نہ کرنا فاسقوں ہی کا کام ہے لفظ فاسق ” فسق “ سے لیا گیا ہے فسق اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو کہتے ہیں کفر و شرک کا مل فسق ہے اس لئے شیطان کے بارے میں (فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِرَبِّہٖ ) فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85: اہل انجیل سے علماء انصاری مراد ہیں جو انجیل کے عالم تھے فرمایا علماء انجیل کو چاہئے کہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں جو اللہ تعالیٰ نے انجیل میں نازل فرمائی ہیں۔ جو لوگ انجیل میں اللہ کے نازل کردہ احکام پر عمل نہ کریں وہ فاسق اور اللہ کے نافرمان ہیں۔ یا اس سے درجہ کامل مراد ہے۔ ای المثمردون الخارجون عن حکمہ او عن الایمان (روح ص 151 ج 6) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور ہم نے اہل انجیل کو یہ حکم دیا تھا کہ اہل انجیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جب کوئی حکم کیا کریں تو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم دیا کریں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ کریں تو ایسے ہی لوگ نافرمان اور بےحکمی کرنے والے ہیں۔ جس طرح اوپر یہود کو کہا گیا تھا کہ کسی فیصلے کے وقت یا کوئی حکم دیتے وقت اس بات کا لازمی طور پر لحاظ رکھو کہ تمہارا فیصلہ اس کتاب کے خلاف نہ ہو جو تمہارے زمانے میں واجب الاتباع ہو اسی طرح اس آیت میں نصاریٰ کو بھی بتایا گیا ہے کیونکہ اس قسم کی کمزوریوں میں نصاریٰ بھی مبتلا تھے کہ حکم بنتے وقت تھوڑی بہت خیانت کر گذرتے تھے جو لوگ احکام الٰہی کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ان کو کافر ظالم، فاسق کہا گیا ہے اگر آسمانی کتاب کے حکم کے خلاف فیصلہ کرنے والے نے توہین کی غرض سے فیصلہ کیا ہو تو ان سب الفاظ کے معنی حقیقی کفر ہوں گے ورنہ پھر فسق وغیرہ ہوں گے تو رات و انجیل کا ذکر کرنے کے بعد قرآن شریف کا ذکر فرماتے ہیں اور چونکہ اہل کتاب کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہمارے فیصلوں سے اتفاق کیا کریں یا جو فیصلہ ہم ان کے سپرد کریں اس کو ہماری مرضی کے موافق فیصلہ کیا کریں اس کا بھی آگے کی آیت میں ذکر ہے اور اپنے نبی کے متعلق ایک ضابطہ مقرر کردیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)