Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 51

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘ ؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۱﴾

O you who have believed, do not take the Jews and the Christians as allies. They are [in fact] allies of one another. And whoever is an ally to them among you - then indeed, he is [one] of them. Indeed, Allah guides not the wrongdoing people.

اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالٰی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of Taking the Jews, Christians and Enemies of Islam as Friends Allah says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ ... O you who believe! Do not take friends from the Jews and the Christians, as they are but friends of each other. Allah forbids His believing servants from having Jews and Christians as friends, because they are the enemies of Islam and its people, may Allah curse them. Allah then states that they are friends of each other and He gives a warning threat to those who do this, ... وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ... And if any among you befriends them, then surely he is one of them. Ibn Abi Hatim recorded that; Umar ordered Abu Musa Al-Ashari to send him on one sheet of balance the count of what he took in and what he spent. Abu Musa then had a Christian scribe, and he was able to comply with Omar's demand. Umar liked what he saw and exclaimed, "This scribe is proficient. Would you read in the Masjid a letter that came to us from Ash-Sham?" Abu Musa said, `He cannot." Umar said, "Is he not pure?" Abu Musa said, "No, but he is Christian." Abu Musa said, "So `Umar admonished me and poked my thigh (with his finger), saying, `Drive him out (from Al-Madinah).' He then recited, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء O you who believe! Take not the Jews and the Christians as friends..." Then he reported that Abdullah bin `Utbah said, "Let one of you beware that he might be a Jew or a Christian, while unaware." The narrator of this statement said, "We thought that he was referring to the Ayah, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء (O you who believe! Take not the Jews and the Christians as friends)," ... إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ Verily, Allah guides not those people who are the wrongdoers. Allah said,

دشمن اسلام سے دوستی منع ہے دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے ۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں ۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے ۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی ۔ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا لوگو! تمہیں اس سے بچنا چاہئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے ۔ ابن عباس سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی آیت تلاوت کی ۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آ گئے تو پھر ہماری تباہی کر دیں گے ، اس لئے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں ، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے ، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہو جائے ، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں ، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے ۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دے دے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں ، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے ۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے ۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں ، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں ۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہو گئے ۔ ( ویقول ) تو جمہور کی قرأت ہے ۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے ۔ یقول تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی ( یقول ) ہے تو یہ ( فعسی ) پر عطف ہو گا گویا ( وان یقول ) ہے ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے ، دوسرے نے کہا ، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں ، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ تو آپ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں ، مجھے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی کافی ہے ۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں ، دور کی سوچنے کا عادی ہوں ، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا ، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑ جائے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا ، اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو ، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بےبہرہ ہیں ، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہو جانا ، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتا دیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں ۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہو چکا ہے ۔ جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آ گئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے ، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ، اس نے پھر کہا ، آپ نے منہ موڑ لیا ، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا ، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے ، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نہ چھوڑوں گا ، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں ، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے ۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جا وہ سب تیرے لئے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیتیں ( ہم الغالبون ) تک اتریں ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا ، میں نے تو تجھے بار ہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مر گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 اس میں یہود اور نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورة آل عمران آیت 28 اور آیت 118 کا حاشیہ) 51۔ 2 قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض وعناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔ 51۔ 3 ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری (رض) اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ (رض) نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کردیا۔ لیکن عبد اللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] یہود و نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت :۔ کفار سے ظاہری موالات، رواداری اور حسن سلوک (بالخصوص جبکہ وہ ذمی یا معاہد ہوں) اور چیز ہے اور انہیں قابل اعتماد دوست سمجھنا اور بنانا اور چیز ہے اس سلسلہ میں سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٨ (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً 28 ؀) 3 ۔ آل عمران :28) کا حاشیہ بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔ اس آیت میں بالخصوص یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ یہود اور نصاریٰ کے باہمی اختلاف گو شدید ہیں اور ان دونوں فرقوں میں گروہی اختلافات اور دشمنی بھی شدید ہے تاہم اسلام دشمنی کی خاطر وہ سب مل بیٹھتے ہیں اور سمجھوتہ کرلیتے ہیں لہذا ان میں سے کوئی بھی تمہارا حقیقی اور قابل اعتماد دوست کبھی نہیں ہوسکتا۔ لہذا تم بھی ان سے محبت کی پینگیں نہ بڑھاؤ اور نہ ہی دوستی کے قابل سمجھو۔ جب بھی انہیں موقع میسر آیا وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور اگر کوئی مسلمان ان سے دوستی رکھتا اور ان کی محبت کا دم بھرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں اسے بھی انہیں میں کا ایک فرد سمجھو۔ ایسے لوگوں کو راہ راست نصیب نہیں ہوسکتی اور تمہیں ایسے لوگوں سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘ۔۔ : ” اَوْلِيَاۗءَ ۘ“ یہ ” وَلِیٌّ“ کی جمع ہے، مراد دلی دوست ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے، تو جسے تم اپنا خیر خواہ سمجھ کر دوست بنا رہے ہو اس کی اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ بھی دوستی ہے جو تمہارے شدید دشمن ہیں، وہ آپس میں کتنا بھی اختلاف رکھتے ہوں تمہاری عداوت میں وہ ایک ہیں اور ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، تو تمہاری یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس پر اتنی سختی فرمائی کہ فرمایا تم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھی میں سے ہے۔ رہا ان سے اچھا تعلق رکھنا، خوش اخلاقی، حسن سلوک اور احسان تو وہ ان لوگوں کے ساتھ کرسکتے ہو جنھوں نے دین کی وجہ سے تم سے جنگ نہیں کی، جن کا ذکر سورة ممتحنہ (٨) میں ہے۔ صرف یہود و نصاریٰ ہی سے نہیں تمام کفار کی دلی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٢٣) ، سورة مجادلہ (٢٢) اور آل عمران (٢٨، ١١٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Explanation in Brief The verses cited above take up three important subjects which are the basic principles of unity among Muslims as a collectively organized community. 1. Muslims can deal with non-Muslims in the spirit of tolerance, sympathy, goodwill, equity, justice, favour and kindness, almost every-thing within that line of conduct. In fact, they should do that for they have been taught to do that. But, what is not permitted is the kind of fast friendship and indiscriminating intimacy which may garble the distinctive hallmarks of Islam. This is the issue known as the ` Tack al-Muwalat& to refrain from deep (friendship) in Islamic terminology. 2. The second principle stressed upon is that should the Muslims of any time and place shift away from the first principle stated above and develop an intimacy of this nature with non-Muslims, then, let them not be under the impression that their conduct could harm Islam in any manner whatsoever - because Allah Almighty has Himself tak¬en the responsibility of seeing that Islam remains duly protected. It cannot be eliminated by anyone. However, if a set of people still go out of their minds, break the limits of Islamic modality of doing things and, let us presume, decide to leave the very pale of Islam, then, Allah Ta` ala will bring in another set of people who will uphold and establish the principles and laws of Islam. 3. Once we know the positive and negative aspects in perspective, it becomes evident that the real friendship of a Muslim - deep, intense, profound and reliance-worthy - can only be with Allah, the Highest of the high, His Messenger, and with those who believe in them. After this brief introduction of the subject, we can now move to the detailed explanation of the verses. Commentary In the first verse (51), Muslims have been commanded not to enter into |"Muwalat|" (deep friendship) with Jews and Christians as is the customary practice of non-Muslims in general and, of Jews and Chris¬tians in particular, who reserve deep friendship for their own people only. They do not deal with Muslims at the same wave length. After this clear instruction, should a Muslim do otherwise and en-ter into an intimate friendship with a Jew or Christian, then, in the sight of Islam, he is fit to be counted as one of them - and not as a Muslim. The Background of Revelation Reporting from ` Ikrimah, Ibn Jarir (رض) has said that this verse was re¬vealed in the background of a particular event. After the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had settled in Madinah, he had entered into a treaty with Jews and Christians living nearby which required that they would neither fight against Muslims nor help any other tribe at war with them, rather, they would join Muslims to fight against them. Similarly, Muslims will not fight them nor help anyone against them, rather, would de-fend them against the aggressors. For some time, both parties kept adhering to the treaty. But, the Jews could not observe the terms of the treaty any longer because of their conspiratorial nature and anti-Islam temperament. They made a secret deal with the pagans of Makkah against Muslims and wrote them a letter inviting them to their fortress. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to know about this conspira¬cy, he dispatched a posse of Mujahidin to confront them. These Jews from Banu Qurayzah were, on the one hand, conspiring with the disbe¬lievers of Makkah, while on the other, having infiltrated among Mus-lims, they had succeeded in making pacts of friendship with many of them. This was their front of spying for the disbelievers of Makkah against Muslims. Revealed thereupon was this verse which stopped Muslims from indulging in deep friendship with Jews and Christians, so that they could be deprived of having access to sensitive informa¬tion about Muslims. At that time, some noble Companions, including Sayyidna ` Ubadah ibn Samit (رض) ، openly announced the cancellation of their treaty obligations as well as their support for abandonment of any close friendship in the future. As for the hypocrites who had their pragmatic relationship with Muslims, or people whose hearts had yet to taste the sweetness of genuine faith, they apprehended dangers in breaking relationships with Jews and Christians lest the conspiracy hatched by the disbelievers and the Jews succeeded and Muslims were overpowered in which case it would be necessary that they keep their relationships balanced both ways to avoid any problems Tor them later on. It was on this basis that ` Abdullah ibn Ubaiyy ibn Salul (رض) had said that he saw danger in cutting off relationship with these people and, therefore, he cannot do that. Revealed thereupon was the second verse (52):

خلاصہ تفسیر۔ آیات مذکورہ میں تین اہم اصولی مضامین کا بیان ہے جو مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی وحدت و شیرازہ بندی کے بنیادی اصول ہیں : اول یہ کہ مسلمان غیر مسلموں سے رواداری، ہمدردی، خیر خواہی، عدل و انصاف اور احسان و سلوک سب کچھ کرسکتے ہیں، اور ایسا کرنا چاہیے کہ ان کو اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن ان سے ایسی گہری دوستی اور خلط ملط جس سے اسلام کے امتیازی نشانات گڈ مڈ ہوجائیں اس کی اجازت نہیں۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو ” ترک موالات “ کے نام سے معروف ہے۔ دوسرا مضمون یہ ہے کہ اگر کسی وقت کسی جگہ مسلمان اسی بنادی اصول سے ہٹ کر غیر مسلموں سے ایسا غلط ملط کرلیں تو یہ نہ سمجھیں کہ اس سے اسلام کو کوئی گزند اور نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ اسلام کی حفاظت اور بقاء کی ذمہ داری حق تعالیٰ نے لی ہے، اس کو کوئی نہیں مٹا سکتا، اگر کوئی قوم بِرَٹ جائے اور حدود شرعیہ کو توڑ کر فرض کرلو کہ اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کسی دوسری قوم کو کھڑا کردیں گے جو اسلام کے اصول و قانون کو قائم کرے گی۔ تیسرا مضمون یہ ہے کہ جب ایک طرف منفی پہلو معلوم ہوگیا تو مسلمان کی گہری دوستی تو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر ایمان لانے والوں ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ یہ اجمال ہے ان مضامین کا جو مذکورہ بالا پانچ آیتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ اب ان آیتوں کی مختصر تفسیر دیکھئے : اے ایمان والو تم (منافقوں کی طرح) یہود و نصاریٰ کو (اپنا) دوست مت بنانا وہ (خود ہی) ایک دوسرے کے دوست ہیں (یعنی یہودی یہودی باہم اور نصرانی نصرانی باہم، مطلب یہ ہے کہ دوستی ہوتی ہے مناسبت سے، سو ان میں باہم تو مناسبت ہے مگر تم میں اور ان میں کیا مناسبت) اور (جب جملہ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ دوستی ہوتی ہے تناسب سے تو) جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا بیشک وہ (کسی خاص مناسبت کے اعتبار سے) ان ہی میں سے ہوگا (اور گویہ یہ امر ظاہر ہے لیکن) یقینا اللہ تعالیٰ (اس امر کی) سمجھ ہی نہیں دیتے ان لوگوں کو جو (کفار سے دوستی کرکے) اپنا نقصان کر رہے ہیں (یعنی دوستی میں منہمک ہونے کی وجہ سے یہ بات ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتی، اور چونکہ ایسے لوگ اس امر کو نہیں سمجھتے) اسی لئے (اے دیکھنے والے) تم ایسے لوگوں کو کہ جن کے دل میں (نفاق کا) مرض ہے دیکھتے ہو کہ دوڑ دوڑ کر ان (کفار) میں گھستے ہیں (اور ملامت کرے تو حیلہ بازی اور سخن سازی کے لئے یوں) کہتے ہیں کہ (ہمارا ملنا ان کے ساتھ دل سے نہیں، بلکہ دل سے تو تمہارے ساتھ ہیں صرف ایک مصلحت سے ان کے ساتھ ملتے ہیں وہ یہ کہ) ہم کو اندیشہ ہے کہ (شاید انقلاب زمانہ سے) ہم پر کوئی حادثہ پڑجائے (جیسے قحط ہے، تنگی ہے، اور یہ یہودی ہمارے ساہوکار ہیں ان سے قرض ادھار مل جاتا ہے، اگر ظاہری میل جول قطع کردیں گے تو وقت پر ہم کو تکلیف ہوگی، ظاہراً نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ کا یہ مطلب لیتے تھے۔ لیکن دل میں اور مطلب لیتے کہ شاید آخر میں مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے سے پھر ہم کو ان کی احتیاج پڑے اس لئے ان سے دوستی رکھنا چاہئے) سو قریب امید (یعنی وعدہ) ہے کہ اللہ تعالیٰ (مسلمانوں کی کامل) فتح (ان کفار کے مقابلہ میں جن سے یہ دوستی کر رہے ہیں) فرما دے (جس میں مسلمانوں کی کوشش کا بھی دخل ہوگا) یا کسی اور بات کا خاص اپنی طرف سے (ظہور فرما دے۔ یعنی ان کے نفاق کا علی التعیین بذریعہ وحی کے عام اظہار فرما دیں جس میں مسلمانوں کی تدبیر کا اصلاً دخل نہیں۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی فتح اور ان کی پردہ دری دونوں امر قریب ہونے والے ہیں) پھر (اس وقت) اپنے (سابق) پوشیدہ دلی خیالات پر نادم ہوں گے۔ (کہ ہم کیا سمجھتے تھے کہ کفار غالب آویں گے اور یہ کیا برعکس ہوگیا۔ ایک ندامت تو اپنے خیال کی غلطی پر کہ امر طبعی ہے۔ دوسری ندامت اپنے نفاق پر جس کی بدولت آج رسوا ہوئے، مَآ اَ سَرُّوْا میں یہ دونوں داخل ہیں، اور یہ تیسری ندامت کہ کفار کے ساتھ دوستی کرنے پر رائگاں ہی گئی۔ اور مسلمانوں سے بھی برے بنے۔ چونکہ دوستی مَآ اَ سَرُّوْا پر مبنی تھی۔ لہذا ان دو ندامتوں کے ذکر سے یہ تیسری بلا ذکر صریح خود مفہوم ہوگئی) اور (جب اس زمانہ فتح میں ان لوگوں کا نفاق بھی کھل جائے گا تو آپس میں) مسلمان لوگ (تعجب سے) کہیں گے ارے کیا یہ وہی لوگ ہیں کہ بڑے مبالغہ سے (ہمارے سامنے) قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم (دل سے) تمہارے ساتھ ہیں (یہ تو کچھ اور ہی ثابت ہوا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) ان لوگوں کی ساری کاروائیاں (کہ دونوں فریق سے بھلا رہنا چاہتے تھے سب) غارت گئیں جس سے (دونوں طرف سے) ناکام رہے (کیونکہ کفار تو مغلوب ہوگئے۔ ان کا ساتھ دینا محض بیکار ہے اور مسلمانوں کے سامنے قلعی کھل گئی، ان سے اب بھلا بننا دشوار۔ وہی مثل ہوگئی ” ازیں سو راندہ ازاں سو ماندہ) اے ایمان والو (یعنی جو لوگ وقت نزول اس آیت کے ایمان والے ہیں) جو شخص تم میں سے اپنے (اس) دین سے پھرجائے تو (اسلام کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ اسلامی خدمات انجام دینے کے لئے) اللہ تعالیٰ بہت جلد (ان کی جگہ) ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جن سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہوگی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی مہربان ہوں گے وہ مسلمانوں پر، تیز ہوں گے کافروں پر (کہ ان سے) جہاد کرتے ہوں گے اللہ کی راہ میں اور (دین اور جہاد کے مقدمہ میں) وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گی (جیسا منافقین کا حال ہے کہ دبے دبائے جہاد کے لئے جاتے تھے۔ مگر اندیشہ لگا رہتا تھا کہ کفار جن سے دل میں دوستی ہے ملامت کریں گے، یا اتفاق سے جن کے مقابلہ میں جہاد ہے وہی اپنے دوست اور عزیز ہوں تو سب دیکھتے سنتے طعن کریں گے کہ ایسوں کو مارنے گئے تھے) یہ (صفات مذکورہ) اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس کو چاہیں عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں (کہ اگر چاہیں تو سب کو یہ صفات دے سکتے ہیں لیکن) بڑے علم والے (بھی) ہیں (ان کے علم میں جس کو دینا مصلحت ہوتا ہے اس کو دیتے ہیں) تمہارے دوست تو (جن سے تم کو دوستی رکھنا چاہئے) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایماندار لوگ ہیں جو کہ اس حالت سے نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں کہ ان (کے دلوں) میں خشوع ہوتا ہے، (یعنی عقائد، اخلاق و اعمال بدنی و مالی سب کے جامع ہیں) اور جو شخص (موافق مضمون مذکور) اللہ سے دوستی رکھے گا اور اس کے رسول سے اور ایمان دار لوگوں سے سو (وہ اللہ کے گروہ میں داخل ہوگیا اور) اللہ کا گروہ بیشک غالب ہے (اور کفار مغلوب ہیں، غالب سے مغلوب کی سازگاری اور دوستی کی فکر کرنا محض نازیبا ہے) اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب (آسمانی یعنی تورات و انجیل) مل چکی ہے (مراد یہود و نصاریٰ ) جو ایسے ہیں کہ انہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے (جو علامت ہے تکذیب کی) ان کو اور (اسی طرح) دوسرے کفار کو (بھی جیسے مشرکین وغیرہ) دوست مت بناؤ (کیونکہ اصل علّت کفر و تکذیب تو مشترک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو (یعنی ایمان دار تو ہو ہی پس جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اس کو مت کرو) اور (جیسے اصول دین کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں، اسی طرح فروع کے ساتھ بھی چنانچہ) جب تم نماز کے لئے (اذان کے ذریعہ سے) اعلان کرتے ہو تو وہ لوگ (تمہاری) اس (عبادت) کے ساتھ (جس میں اذان اور نماز دونوں آگئیں) ہنسی اور کھیل کرتے ہیں (اور) یہ (حرکت) اس سبب سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ بالکل عقل نہیں رکھتے (ورنہ امر حق کو سمجھتے اور اس کے ساتھ ہنسی نہ کرتے) ۔ معارف و مسائل پہلی آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ یہود و نصاریٰ سے موالات (یعنی گہری دوستی) نہ کریں جیسا کہ عام غیر مسلموں کا اور یہود و نصاریٰ کا خود یہی دستور ہے کہ وہ گہری دوستی کو صرف اپنی قوم کے لئے مخصوص رکھتے ہیں، مسلمانوں سے یہ معاملہ نہیں کرتے۔ پھر اگر کسی مسلمان نے اس کی خلاف ورزی کرکے کسی یہود یا نصرانی سے گہری دوستی کرلی تو وہ اسلام کی نظر میں بجائے مسلمان کے اسی قوم کا فرد شمار ہونے کے قابل ہے۔ شان نزول امام تفسیر ابن جریر نے بروایت عکرمہ (رض) بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، وہ یہ کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ میں تشریف فرما ہونے کے بعد ان اطراف کے یہود و نصاریٰ سے ایک معاہدہ اس پر کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہ خود جنگ کریں گے، نہ کسی جنگ کرنے والی قوم کی امداد کریں گے۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اسی طرح مسلمان نہ ان لوگوں سے جنگ کریں گے نہ ان کے خلاف کسی قوم کی امداد کریں گے بلکہ مخالف کا مقابلہ کریں گے۔ کچھ عرصہ تک یہ معاہدہ جانبین سے قائم رہا، لیکن یہودی اپنی سازشی فطرت اور اسلام دشمن طبیعت کی وجہ سے اس معاہدہ پر زیادہ قائم نہ رہ سکے اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ سے سازش کرکے ان کو قلعہ میں بلانے کے لئے خط لکھ دیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب اس سازش کا انکشاف ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابلہ کے لئے ایک دستہ مجاہدین کا بھیج دیا۔ بنو قریظہ کے یہ یہودی ایک طرف تو مشرکین مکہ سے یہ سازش کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں میں گھسے ہوئے بہت سے مسلمانوں سے دوستی کے معاہدے کئے ہوئے تھے۔ اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف مشرکین کے لئے جاسوسی کا کام انجام دیتے تھے۔ اس لئے یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی گہری دوستی سے روک دیا، تاکہ مسلمانوں کی خاص خبریں معلوم نہ کرسکیں۔ اس وقت بعض صحابہ کرام حضرت عبادہ بن صامت وغیرہ نے تو کھلے طور پر ان لوگوں سے اپنا معاہدہ ختم اور ترک موالات کا اعلان کردیا۔ اور بعض لوگ جو منافقانہ طور پر مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے یا ابھی ایمان ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا ان لوگوں سے قطع تعلق کردینے میں یہ خطرات محسوس کرتے تھے کہ ممکن ہے کہ مشرکین و یہود کی سازش کامیاب ہوجائے اور مسلمان مغلوب ہوجائیں تو ہمیں ان لوگوں سے بھی ایسا معاملہ رکھنا چاہئے کہ اس وقت ہمارے لئے مصیبت نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے اسی بناء پر کہا کہ ان لوگوں سے قطع تعلق میں تو مجھے خطرہ ہے۔ اس لئے ایسا نہیں کرسکتا اس پر دوسری آیت نازل ہوئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۝ ٠ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝ ٠ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ۝ ٥١ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

یہودونصاریٰ سے دوستی کی ممانعت قول باری ہے یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ آیت کا نزول ابو لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں ہوا ہے ، یہ بنو قریظہ کے پاس پہنچ گئے اور ان سے خیر خواہی کا اظہار کرتے ہوئے گلے پر ہاتھ رکھ کر انہیں اشارے سے اطلاع دے دی کہ ان کے متعلق ذبح یعنی قتل کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ جب جنگ احد کے بعد کافروں کے عارضی غلبے کی بنا پر کچھ لوگوں پر خوف طاری ہوگیا اور وہ مشرکین سے ڈر گئے یہاں تک کہ ایک شخص کے منہ سے یہ نکلا میں یہودیوں کے ساتھ سوالات یعنی دوستی کا معاہدہ کرلوں گا ۔ ایک اور کی زبان سے یہ نکلا ۔ میں یہودیوں کے ساتھ سوالات یعنی دوستی کا معاہدہ کرلوں گا ۔ ایک اور کی زبان سے یہ نکلا ۔ میں عیسائیوں کے ساتھ دوستی گانٹھ لوں گا ۔ تو اس موقع پر مسلمانوں کی تنبیہ کی خاطر اس آیت کا نزول ہوا ۔ عطیہ بن سعد کا قول ہے کہ آیت کا نزول حضرت عبادہ بن الصامت (رض) اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہوا ۔ حضرت عبادہ (رض) تو یہودیوں کی موالات سے دست بردار ہوگئے۔ لیکن عبد اللہ بن ابی اس پر ڈٹا رہا اور کہتا تھا مجھے زمانے کی گردشوں کا خطرہ ہے۔ ولی مدد گار کو کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ اپنے رفیق کے ساتھ اس کی مدد کے ذریعے رابطہ رکھتا ہے ۔ نابالغ کے سرپرست کو بھی ولی کہتے ہیں اس لیے کہ وہ اس نابالغ کی طرف سے احتیاط اور ہوشمندی کے ساتھ تمام تصرفات کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ عورت کے ولی اس کے عصبات ہوتے ہیں اس لیے کہ یہی رشتہ دار اس کے نکاح کے انتظام و انصرام کے نگران اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس آیت میں دلالت موجود ہے کہ کافر کسی طرح بھی مسلمان کا ولی نہیں بن سکتا نہ تو تصرفات کے لحاظ سے اور نہ ہی مدد اور نصرت کے لحا ظ سے بلکہ آیت کافروں کے سے برأت اور دست برداری نیز ان کے لیے عداوات رکھنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لیے کہ دلالت عداوت کی ضد ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کی بنا پر ان سے دوستی نہ کرنے یعنی دشمنی رکھنے کا حکم دیا تو دوسرے کفار بھی انہی کی طرح ہوں گے، نیز آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے کہ قول باری ہے بعضھم اولیاء بعض ۔ نیز اس امر پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایک یہودی کو ان حالتوں میں ایک نصرانی پر ولایت کا استحقاق ہوتا ہے جن میں اس کی ولایت اور سرپرستی میں کسی یہودی کے ہونے کی صورت میں اسے یہ حق حاصل ہوجاتا ، مثلاً یہ کہ وہ نصرانی نابالغ یا دیوانہ نہ ہو ۔ نکاح کے سلسلے میں یہودی اور نصرانی کے درمیان ولایت کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ چونکہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لوگ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق اور ولی ہیں ۔ اس لیے ان کے درمیان تورات کے ایجاب پر دلالت ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے خواہ ان کے مذاہب اور راستے ایک دوسرے سے مختلف کیوں نہ ہوں ۔ ان کی آپس میں شادی بیاہ کے جواز پر بھی دلالت ہو رہی ہے ۔ ایک عیسائی مرد ایک یہودی عورت سے اور ایک یہودی مرد ایک عیسائی عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ ہماری یہ بات ان احکام سے تعلق رکھتی ہے جو ان کے درمیان جاری اور ناقد ہوتے ہیں لیکن ان کے اور مسلمانوں کے درمیان اس بات کا جہاں تک تعلق ہے تو شادی بیاہ اور ذبیحہ کی حلت کے جو از کے لحاظ سے کتابی اور غیر کتابی کے حکم میں فرق ہوتا ہے۔ قول باری ہے ومن یتولھم منکم فانہ منھم اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اسکا شمار بھی پھر انہی میں سے ہے یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ہاتھ کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کے گوشت کی حلت اور ان کی عورتوں سے نکاح کے جواز کے لحاظ سے بنی تغلب کے نصاری کا حکم وہی ہے جو بنی اسرائیل کے نصاریٰ ا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حسن سے یہی مروی ہے۔ قول باری منکم سے مشرکین عرب مراد لینا درست ہے اس لیے کہ اگر اس سے مسلمان مراد لیے جاتے تو وہ کفار سے دوستی کی بنا پر مرتد ہوجاتے جبکہ یہودیت اور نصرانیت کی طرف ارتداد اختیار کرنے والا شخص ان کے کسی بھی حکم کے لحاظ سے ان میں سے نہیں ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے تھے کہ ایسے شخص کا ذبیحہ نہیں کھایا جاتا اور اگر عورت ہو تو اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہوتا، نہ وہ ان کا وارث ہوتا ہے اور نہ ہی وہ لوگ اس کے وارث ہوتے ہیں ۔ اس شخص کے اور ان لوگوں کے مابین ولایت کے حقوق میں سے کوئی بھی حق ثابت نہیں ہوتا ۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قول باری ومن یتولھم منکم فانہ منھم اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایک مسلمان ایک مرتد کا وارث نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرتد ان لوگوں میں سے ہے جو یہود و نصاریٰ سے دوستی گانٹھتے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ ایک مسلمان کسی یہودی یا نصرانی کا وارث نہیں ہوتا اسی طرح وہ مرتد کا بھی وارث نہیں ہو سکات ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جس بات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس پر اس قول باری کی کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہودیت کی طرف ارتداد اختیار کرنے والا یہودی نہیں بنتا ۔ اسی طرح نصرانیت کی طرف ارتداد اختیار کرنے والا نصرانی نہیں بنتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے شخص کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا اور عورت ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہوتا نیز یہ کہ ایسا شخص نہ کسی یہودی کا وارث ہوتا ہے اور نہ یہودی اس کا وارث بنتا ہے ۔ جس طرح یہ قول باری اس شخص کے اوپر ایک یہودی یا نصرانی کے درمیان تورات کے ایجاب پر دلالت نہیں کرتا اسی طرح یہ اس پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ مسلمان اس کا وارث نہیں بن سکتا ۔ اس قول باری کو دو باتوں میں سے ایک پر محمول کیا جائے گا ۔ اگر اس میں کفار عرب کو خطاب ہے تو اس کی اس امر پر دلالت ہوگی کہ عرب کے بت پرست اگر یہودی یا عیسائی بن جائیں تو ان سے مناکحت اور ان کے ہاتھ سے ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کی حلت کے جواز نیز جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رکھنے کے لحاظ سے ان کا حکم بھی وہی ہوگا جو یہود و نصاریٰ کا حکم ہے۔ اگر آیت میں مسلمانوں کو خطاب ہے تو پھر اس صورت میں آیت کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص ان یہودیوں اور نصرانیوں سے موالات کی بنا پر ان جیسا کافر ہے۔ اس لیے میراث کے حکم پر اس قول باری میں کوئی دلالت نہیں ہوگی ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب خطاب کی ابتدا مسلمانوں سے ہوئی ہے جیسا کہ قول یایھا الذین امنوا لا تتخذوالیھود والنصاری اولیاء سے ظاہر ہے تو اب یہ احتمال باقی نہیں رہتا ہے کہ قول باری ومن یتولھم منکم فانہ منھم سے مشرکین عرب مراد لیے جائیں ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب آیت کی ابتدا میں جو لوگ مخاطب بنائے گئے تھے وہ اس وقت کے اہل عرب تھے تو یہ جائز ہے کہ قول باری ومن یتولھم منکم سے عرب کے لوگ مراد ہوں ۔ پھر آیت سے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ عرب کے مشرکین جب مذہب کے ذریعے اور ملت کی طرف انتساب کے واسطے سے یہود و نصاریٰ کے ساتھ سوالات کرلیں گے تو وہ بھی ان کے حکم میں ہوجائیں گے خواہ وہ ان کے دین کے تمام احکام کی پیروی نہ بھی کریں ۔ بعض لوگ تو اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ملت اسلام سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر کسی ایسے مذہب کا معتقد ہوجائے جس کے پیروکاروں کی کفر کی طرف نسبتواجب قرار پاتی ہو تو اس شخص پر کفر کی طرف نسبت کا حکم اس کا ذبیحہ کھانے اور اس قسم کی عورت سے نکاح کرنے میں مانع نہیں ہوگا ۔ بشرطیکہ ایسے لوگ ملت اسلام کی طرف اپنا انتساب کرتے ہوں۔ خواہ فاسد مذہب پر اعتقاد کی وجہ سے یہ عقیدے کے لحاظ سے کافر ہی کیوں نہ قرار پائیں ، اس جواز کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ فی الجملہ اہل اسلام کے ساتھ موالات کرتے اور قرآن کے حکم کی طرف اپنا انتساب رکھتے ہیں۔ جس طرح ایک شخص جب یہودیت یا نصرانیت اختیار کرلیتا ہے تو اس کا حکم وہی ہوتا ہے جو یہودیوں اور نصرانیوں کا ہے خواہ ایسا شخص ان کی شریعتوں کی پوری پابندی نہ بھی کرتا ہو ۔ اس جواز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ومن یتولھم منکم فانہ منھم ابو الحسن کرخی بھی اس مسلک کے حامیوں میں سے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اے اہل ایمان ! دوستی اور مدد میں ظاہری اور خفیہ طریقے پر دینی معاملات میں یہود و نصاری کو دوست مت بنانا اور جو مسلمانوں میں سے مدد اور دوستی میں ان (یہود و نصاری) کے ساتھ ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی امانت اور حفاظت میں نہیں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ یہود ونصاری کو ان کے غلط رویے کے سبب اپنے دین اور حجت کی طرف ہدایت نہیں کرتا۔ شان نزول : (آیت) ”۔ یایھا الذین امنوا لاتتخذوا الیہودا والنصری “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) ابن جریر (رح) ابن ابی حاتم (رح) اور بیہقی (رح) نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب بنی قینقاع کی لڑائی ہوئی تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے اس میں بڑی دلچپسی لی اور ان کی مخالفت پر کمربستہ ہوا تو حضرت عبادہ بن صامت (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کی دوستی سے برأت ظاہر کی اور حضرت عبادہ بن عوف بن الخزرج سے تھے اور ان لوگوں کی قسموں کی طرف سے ان کو وہ فضیلت جو عبداللہ بن ابی بن سلول کو تھی چناچہ ان لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قسمیں کھائیں اور کفار کی قسموں اور ان کی دوستی سے برأت ظاہر کی، سورة مائدہ کی یہ آیت حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی، اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست مت بناؤالخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ (بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط) ان میں سے بعض بعض کے پشت پناہ اور مددگار ہیں۔ یہ درحقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو اس دور میں آکر پوری ہوئی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو صورت حال وہ تھی جو ہم قبل ازیں (اس سورة کی آیت ١٤ میں) پڑھ آئے ہیں : (فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط) پس ہم نے ان کے مابین عداوت اور بغض کی آگ بھڑکا دی روز قیامت تک کے لیے۔ چناچہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین ہمیشہ شدید دشمنی رہی ہے اور آپس میں کشت و خون ہوتا رہا ہے ‘ لیکن زیر نظر الفاظ (بَعضُھُمْ اَوْلیَاءُ بَعْضٍ ) میں جو پیشین گوئی تھی وہ بیسویں صدی میں آکر پوری ہوئی ہے۔ بالفور ڈیکلریشن (١٩١٧ ء) کے بعد کی صورت حال میں ان کا باہمی گٹھ جوڑ شروع ہوا ‘ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکہ کے زیراثر اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی ‘ اور اب بھی اگر وہ قائم ہے تو اصل میں انہی عیسائی ملکوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قائم ہے۔ عیسائی اب یہودیوں کی اس لیے پشت پناہی کر رہے ہیں کہ ان کی ساری معیشت یہودی بینکاروں کے زیر تسلط ہے۔ عیسائیوں کی معیشت پر یہودیوں کے قبضہ کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ اس درجہ مستحکم ہوچکا ہے کہ آج عیسائیوں کی پوری عسکری طاقت یہودیوں کی پشت پر ہے۔ (وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط) ۔ یعنی جو کوئی ان سے دوستی کے معاہدے کرے گا ‘ ان سے نصرت و حمایت کا طلب گار ہوگا ‘ ہماری نگاہوں میں وہ یہودی یا نصرانی شمار ہوگا۔ ( اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) آج ہمارے اکثر مسلمان ممالک کی پالیسیاں کیا ہیں اور اس سلسلے میں قرآن کا فتویٰ کیا ہے ‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43: اس آیت کی تشریح اور غیر مسلموں سے تعلقات کی حدود کی تفصیل دیکھئے سورۃ آل عمران (28:3) کا حاشیہ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(51 ۔ 53) ۔ مفسرین مقتدمین اور مقتدمین کی بنا پر مفسرین متاخرین نے اس آیت کے شان نزول میں بڑا اختلاف کیا ہے ١ ؎۔ بعض کہتے ہیں کہ جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے دوست چند یہودیوں کا اور بعض نے اپنے چند دوست نصرانیوں کا ذکر کیا اور عین میدان جنگ میں یہ کہا کہ اس لڑائی کے ڈھنگ سے مسلمانوں کی حالت تو اب اچھی نظر نہیں آتی ہم لوگ اپنے دوست یہودونصاریٰ سے مدینہ واپس جا کر پناہ چاہیں گے تاکہ ہم پر ابوسفیان اور مشرکین مکہ دست درازی نہ کرسکیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اس قسم کے مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اس طرح کی بےدلی نہ کرو۔ قریب میں اللہ تعالیٰ فتح دیوے گا چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ یہود کے قبضہ میں جتنی بستیاں مدینہ کے گردونواح میں تھیں وہ اور شام کے ملک میں نصاریٰ کی بستیاں اور قریش کے قبضہ میں سے مکہ یہ سب کچھ فتح ہوگیا۔ اور بعض عبد اللہ بن ابی کے قصہ کو آیت کے شان نزول کا ایک قصہ قرار دیتے ہیں۔ جس قصہ کا حاصل یہ ہے کہ عبادہ بن صامت (رض) اور عبد اللہ بن ابی دونوں کی یہود کے ایک قبیلہ بن قینقاع سے دوستی تھی عبادہ بن صامت (رض) نے تو آئندہ اس دوستی سے اپنی بیزاری ظاہر کی اور عبد اللہ بن ابی نے عبادہ بن صامت (رض) سے جھگڑا کیا اور آئندہ یہود سے دوستی قائم رکھنے کی باتیں کیں اور بعض ابی لبابہ کے قصہ کو شان نزول قرار دیتے ہیں۔ اس قصہ کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی لبانہ کو بنی قریظہ کی فہمایش کو بھیجا تو بنی قریظہ نے اب لبابہ سے پوچھا کہ لڑائی موقوف کر کے ہم مسلمانوں کی امان میں اپنی گڈھی چھوڑ کر اتر آویں گے تو آخر ہمارا انجام کیا ہوگا ابو لبابہ نے تلوار کی دھار کی طرح اپنے ہاتھ کو اپنے گلے پر پھیر کر دوستانہ بنی قریظہ کو اشارہ سے گویا یہ بتلایا تھا کہ آخر کو تم سب قتل کردیئے جاؤ گے۔ رفع اس اختلاف کا یہ ہے کہ آیت میں یہود و نصاریٰ منافقین اہل اسلام چاروں فرقوں کا ذکر ہے اس واسطے سیاق آیت کے موافق ان سب قصوں کو ملا کر ایک ہیئت مجموعی کو شان نزول قرار دیا جاوے تاکہ ایک فرقہ کے قصہ کو شان نزول قرار دینے سے دوسرے فرقہ کا ذکر آیت میں رائیگاں نہ جاوے اور قرآن شریف میں اس طرح کی بہت آیتیں ہیں جن کی شان نزول چند قصوں کی بنا پر ہے۔ غرض اس صورت میں پھر کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ سورة حشر میں آوے گا کہ مدینہ کے گردونواح کے یہود سے مدینہ کے منافقوں نے یہ کہلا بھیجا تھا کہ اگر مسلمان تم سے لڑیں گے تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور اگر تم جلاوطن ہوئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ جلا وطن ہوجائیں گے۔ اب یہ تو منافقوں کی جبلی عادت ہے کہ ان کی ہر بات فقط زبانی ہوتی ہے ان کے دل میں اس بات کا خیال تک بھی نہیں ہوتا اس لئے وقت پڑے پر یہ لوگ صاف الگ ہوگئے۔ نہ انہوں نے کچھ مدد کر کے بنی قریظہ کو قتل سے بچایا نہ بنی قینقاع اور بنی نضیر کے ساتھ یہ جلاوطن ہوئے۔ غرض اس قسم کے قصوں کے سبب سے ان آیتوں کے شروع میں تو اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا ہے کہ وہ اہل کتاب سے منافقوں کی دوستی پیدا کریں اور اسلام کے بد خواہ بنیں اور یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں نے اپنی جانوں پر یہ ظلم کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف مرضی کاموں پر کمر باندھ لی ہے ایسے لوگوں سے دوستی پیدا کر کے جو کوئی اپنے دوستوں کی عادتیں سیکھے گا وہ بھی ان کی دوستی میں ڈوب کر انہیں جیسا بد انجام ہوجائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالم بد انجام لوگوں کو مجبور کر کے راہ راست پر لانا اس لئے نہیں جاہتا کہ یہ انتظام الٰہی کے بالکل بر خلاف ہے۔ وہ انتظام یہی ہے کہ دنیا نیک و بد کے امتحان اور جانچ کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ مجبوری کے بعد یہ امتحان کی صورت باقی نہیں رہ سکتی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو منافقوں کی خام خیالی جتلائی کہ یہ ان کا خیال خام تھا جو یہ مسلمانوں پر گردش کے آنے اور اس گردش کے وقت اپنے لئے یہود کی پناہ میں ْآجانے کے منصوبے باندھا کرتے تھے۔ چناچہ یہود کے قتل جلاوطنی اور مسلمانوں کا غلبہ دیکھ کر یہ لوگ اپنی خام خیالی پر اپنے دل میں خود بھی پچھتائے اور مسلمانوں کو ان کے حال پر بڑا تعجب ہوا کہ ظاہر میں تو یہ لوگ قسمیں کھا کر اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اور باطن میں مخالف اسلام لوگوں سے ان کو یہاں تک ربطہ تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی مدد کو اور ان کی جلاوطنی کے وقت اپنی جلا وطنی کو یہ لوگ تیار تھے جس کا نتیجہ ان کے حق میں یہ سراپا نقصان کا ہوا کہ دنیا میں اپنے کئے پر ان کو بڑا پچھتاوا ہوا اور عقبیٰ میں ان کی دو ولی کے سبب سے ان کے سب نیک عمل رائگاں ہوگئے۔ صحیح مسلم کے حوالے سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ انسان کی ظاہری حالت کو نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر تو ہمیشہ انسان کے دل کی طرف لگی رہتی ہے ١ ؎۔ مطلب یہ ہے کہ منافقوں کے نیک عمل دل کے ارادہ سے نہیں ہوتے اس لئے ایسے اوپری دل کے عمل اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں مقبول نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے دل کی حالت پر ہمیشہ لگی رہتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:51) یتولہم۔ مضارع واحد مذکر غائب تولی (تفعل) اصل میں یتولی تھا۔ ضمیر ہم کے آنے سے ی گرگئی۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب (جو ان سے محبت کرتا ہے۔ دوستی کرتا ہے ۔ ولی بناتا ہے۔ منہ موڑنا۔ پیٹھ پھیرنا۔ اعراض کرنا کے معنوں میں بھی آیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یہودیوں کے قبیلہ بنو قینقاع کی مسلمانوں سے جنگ ہوئی تو منافقوں کے سردار ابن ابی نے یہودیوں کا ساتھ دیا کیونکہ اس کے قبیلہ بنو خزرج کا ان یہودیوں سے معاہدہ تھا لیکن حضرت عبادہ (رض) بن صامت نے بنو خذرج میں سے ہونے کے باجود ان یہودیوں کا ساتھ نہ دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے معاہدے اور انکی دوستی سے براہت کا اعلان کردیا۔ اسی موقع فان حزب اللہ ھم الغالبون تک یہ آیات نازل ہوئیں (ابن جریر وغیرہ) اس آیت میں یہود و نصاریٰ بلکہ تمام کفار کے ساتھ دو ستانہ تعلقات قائم رکھنے سے منع فرمایا ہے (دیکھئے سورة آل عمران :28 ۔ 118)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 8 ۔ آیات 51 تا 56 ۔ اسرار و معارف : ایسے لوگ دوستی کے قابل ہیں ان کے مقابل یہود اور نصاری کو دوست نہ بنایا جائے یعنی ان سے انصاف ضرور کیا جائے انہیں انسانی حقوق دئیے جائیں ان کی حفاظت کی جائے ضرور میں مدد کی جائے مگر محض انسانی ہمدردی کی حد تک۔ اس سے آگے ایسی دوستی جس سے اسلام اور اس کے امتیازی نشانات تک ہی مٹنا شروع ہوجائیں حرام ہے جیسے آج کل ہندو مسلمان عیسائی۔ یہودی اور منکرین خدا کا گروپ فوٹو لیا جائے تو شکل سے کوئی فرق نظر نہیں آتا بلکہ عورت ہے یا مرد یہ پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے بعض اوقات نام پڑھے بغیر اس کی سمجھ نہیں آتی اور یہ سب کافروں کی دوستی کا پھل ہے جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں سے معاہدہ فرمایا جس کا ماحصل یہ تھا کہ یہودی اور مسلمان آپس میں بھی نہ لڑیں گے اور اگر کوئی مدینہ پر حملہ آور ہوگا تو مل کر حفاظت کریں گے اور دفاع کریں گے اس معاہدے کے پردے میں بعض یہودیوں نے مسلمانوں سے ذاتی دوستی بھی بنا لی مقصد جاسوسی کرنا تھا۔ چناچہ معاہدہ پورا نہ کیا بلکہ الٹے اہل مکہ کو چڑھا لائے اور مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی مدد کی تو اللہ کریم نے ذاتی دوستی سے بھی منع فرمادیا کہ دیکھ لیا تم نے یہ کبھی مسلمانوں کا بھلا نہیں سوچتے ہاں ! یہودی اور نصاری آپس میں وہ ایک دوسرے سے یعنی یہودی سے اور نصرانی نصرانی سے تباہ کرتا ہے ورنہ یہود و نصاری بھی ایک دوسرے کو اچھا نہیں سمجھتے بلکہ آپس میں بھی دشمنی رکھتے ہیں جسے صرف اسلام دشمنی میں فراموش کیے بیٹھے ہیں تو یہ مسلمانوں سے کب وفا کریں گے اور جب قومی حیثیت سے تعلق نہیں رہ سکتا نباہا نہیں جاسکتا تو ذاتی دوستی کا فائدہ نہیں کہ یہ تمہیں نقصان دیں گے اور تمہاری برائی ہی سوچیں گے اور اگر تم میں کوئی ایسے لوگ ہیں جن کا گذارا ان سے دوستی کے بغیر نہیں ہوسکتا تو یہ سمجھ لو یہ بھی انہی میں سے ہیں بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں اندر سے کھوٹے ہیں کہ یہود و نصاری کی دوستی اور ایسی دوستی جسے موالات کہتے ہیں مومن کر ہی نہیں سکتا بلکہ ایسا کرنا ظلم ہے ناروا کام ہے اور اللہ ظلم کرنے والوں کو سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق نہیں دیتے۔ بلکہ صاف منع کرنے کے باوجود ان سے تعلقات کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے۔ دل تندرست اور صحت مند نہیں ہیں یعنی پہلے سے نفاق میں مبتلا رہیں وہ اس مصیبت میں زیادہ گرفتار ہو رہے ہیں کہتے یہ ہیں کہ سدا دن ایک جیسے نہیں رہتے کیا خبر کسی برے وقت میں ان کی ضرورت پڑجائے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا تھا کہ مسلمان کب تک مقابلہ کریں گے آخر کار یہ مٹھی بھر لوگ مارے جائیں گے۔ تو ہمیں انہی یہود و نصاری کے ساتھ مل کر رہنا ہے ہم ان سے ترک تعلق کیوں کریں۔ اور یہی حال ہمیشہ ہر دور میں ہر ملک میں ان لوگوں کا رہتا ہے اور رہے گا جن کے ایمان کمزور اور دل بیمار ہوتے ہیں شکل لباس حلیہ کھانا پینا معاملات اخلاق بات کرنے کے انداز بلکہ چلنے اور قدم اٹھانے کی ادائیں یہود و نصاری سے سیکھی جاتی ہیں لیکن انہیں بتا دو کہ عنقریب انشاء اللہ اسلام غالب آئے گا۔ اس دور میں یہ نوید تھی فتح مکہ کی جب اہل مکہ کی شوکت سے سارا عرب لرزتا تھا اور منافق بھی اور یہودو نصاری بھی امید لگائے بیٹھے تھے کہ بدر مھض ایک حادثہ تھا احد میں بھی مکہ والوں نے نا تجربہ کاری دکھائی اور چلے گئے اب کے جب آئینگے تو اسلام کا اور مسلمانوں کا تو نشان مٹ جائے گا۔ اور بظاہر حالات بھی ایسے ہی تھے مگر اللہ کریم نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اہل مکہ کی شوکت اور منافقوں کی امیدیں ہر شے خاک میں ملا کر مسلمانوں کو فتح دوں گا یا ا س سے پہلے ان کی منافقت کا بھید کھل جائے اللہ کریم کی طرف سے کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو کہ منافقوں کا نفاق ظاہر ہوجائے یہ بھی تو ہوسکتا ہے اور فتح مکہ کا تو فیصلہ ہی ہوچکا جو بڑے بڑے چھپے ، رستموں کو ننگا کردے گی اور مسلمانوں کو کوئی فوری خطرہ نہ رہے گا۔ تب منافقوں کو دکھ ہوگا اور ندامت کہ کیوں ہم نے یہ رسوائی کا راستہ اپنایا تھا۔ اور مسلمانوں کے منہ بھی حیرت سے کھلے کے کھلے رہ جائیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو بڑی بڑی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اب ان کے وہ سارے دعوے جھوٹے نکلے اور سارے سجدے ضائع گئے کہ عبادات کی بنیاد بھی تو ایمان اور یقین پر ہے اگر بنیاد ہی میسر نہیں تو عمارت کب ٹھہر سکے گی ؟ سو ان کے جو اعمال انہوں نے ہمارے ساتھ مل کر کئے بھی تھے۔ سب ضائع ہوگئے انہوں نے کس قدر بڑا نقصان اٹھایا اور کس قدر خسارے میں رہے۔ کفار سے تعلقات : یہ کافروں سے دوستی اور موالات سے منع کرنا صرف اسلام کی بقا کا معاملہ نہیں در اصل یہ مسلمان کی بقاء کا معاملہ ہے کہ اسلام کو باقی رکھنا اللہ کریم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور وہ قادر ہے جس نے صحرائے عرب سے اٹھا کر تھوڑے عرصے می معلوم دنیا کے تین حصے اسلامی ریاست کے زیر نگیں کردئیے اور وہ قوت و جرات ، وہ غلبہ عطاء فرمایا جس کے بارے میں کفار اور منافقین سمجھنے سے قاصر تھے۔ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس کلمہ کو ہم مٹانا چاہتے ہیں وہ حشر تک روئے زمین پر پڑھا جاتا رہے گا وہ اسے ہمیشہ قائم رکھنے پر بھی قادر ہے اور اگر تم میں کچھ خدانخواستہ دین سے پھر کر مرتد ہوجائیں یا سارے پھرجائیں تو اللہ ایک ایسی قوم کھڑی کردے گا۔ جنہیں وہ محبوب رکھتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو ایمانداروں کے لیے نرم خو ، نرم دل ، نرم مزاج ہوں گے مگر کافروں پہ بجلی بن کر گریں گے۔ جہاد کریں گے اللہ کی راہ میں اور اس کا حق ادا کردیں گے لڑیں گے تو لڑنے کی مثال قائم کردیں گے عبادت اور ورع تقوی ہوگا تو مثالی ہوگا راہ حق سے جس طرح کسی ظالم کی تلوار انہیں نہیں روک سکے گی اسی طرح کسی ملامت کرنے والے کی ملامت بھی ان کے راستے کا پتھر نہ بن سکے گی۔ یہ بات بڑی کھل کر سامنے آگئی کہ اسلام کے ساتھ وابستہ رہنا اسلام کی بقاء کے لیے نہیں خود ہماری بقاء کے لیے ضروری ہے ورنہ اسلام کا محافظ اللہ کریم خود ہے جسے چاہے اسلام کی خدمت پہ لگا دے دوسری بات یہ کہ یہ کام بغیر محبت کے ہونے کا نہیں محبت کا جنوں ایسا ہے جو نہ تلواروں سے ڈرتا ہے نہ زبان کی تیر اندازی سے اب محبت ہو اور بندے کو ہو پھر اللہ سے ہو یہ سب کیسے ہوسکتا ہے ؟ کہ بندہ بہرحال بندہ ہے عاجز ہے محتاج ہے بیکس ہے اللہ خالق ہے بےنیاز ہے انسان کی نگاہ سے بالا رسائی سے دور ، سمجھ میں نہ آنے والا ، نظروں کی پہنچ سے بلند ، نہ اسے دیکھے نہ بات کرے نہ چھو سکے۔ نہ اس کی مثال ہو نہ اس کی جنس نہ ذات تو اس سے محبت کیسے ممکن ہے یہاں اس کا علاج بتایا کہ یحبونہ کہ اللہ جب ان سے محبت کرنے لگتا ہے تو انہیں خود بخود اللہ سے محبت پیدا ہوجاتی ہے کچھ کرنا ہی نہیں پڑتا یہ تو بڑا آسان کام ہوگیا کچھ کرنا ہی نہ پڑا اور کام ہوگیا مگر یہ آسانی سب سے مشکل بن گئی جب غور کیا کہ پہلے اللہ ان سے محبت کرتا ہے۔ اب اس کا کیا علاج ؟ یہ تو کام اور مشکل ہوگیا کہ پہلے اس ذات کو اپنی محبت کا شکار کرو جو تمہاری سوچ سے رسائی سے بالاتر ہے وراء الوری ہے کمال ہے نسخہ بتایا پھنسا دیا۔ لیکن آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مشکل کا حل بتایا اور لطف آ گیا جتنا بڑا کام تھا اتنا آسان کردیا فرمایا فاتبعونی یحببکم اللہ۔ تم میرے پیچھے چلو میرا اتباع اختیار کرلو اللہ تم سے محبت کرنے لگیں گے سارا مسئلہ ہی حل ہوگیا جب اللہ کسی سے محبت کریں گے تو اس کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہوجائے گی پھر محبت سے سرشار ہو کر وہ بڑے سے بڑا کام انجام دے سکتا ہے۔ صدیق اکبر (رض) کا کمال : باتفاق مفسرین ان آیات کریمہ کے مصداق ابوبکر صدیق اور ان کے عہد کے وہ سب صحابہ اپنے اپنے درجے اور مرتبے کے مطابق ہیں جنہیں قیادت و سیادت تو صدیق اکبر (رض) نے مہیا کی مگر کام کرنے میں انہوں نے کمال کردکھایا اسلام پر ابتدائے اسلام سے بھی سخت تر وقت وہ آیا جب حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوا۔ اس مصیبت اور فتنہ کی ابتداء تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات پاک کے آخری ایام میں ہوچکی تھی۔ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعوے کردیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال پر منافقین اور کفار کے حوصلے بہت بڑھ گئے اور اسود عنسی کے علاوہ بنو اسد کے سردار طلیحہ نے بھی نبوت کا دعوی کردیا۔ ایک عورت نبوت کا دعوی لے کر اٹھی۔ سات قبائل جو بہت بڑے بڑے تھے انہوں نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ قیصر روم کی افواج بھی اس اسلامی ریاست پر جھپٹا چاہتی تھیں ساتھ کسری ایران بھی تڑپ رہا تھا یعنی ایک طوفان تھا اندھیرا تھا تباہی کا بربادی کا۔ صرف مسیلمہ کذاب کے ساتھ چالیس ہزار جنگجو سپاہی تھے تو اندازہ کرلیں کہ ایک رسالتماب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بچھڑنے کا غم جو غم جہاں سے بھاری تھا اس پر کفر کی آندھیوں کا یہ زور ، اور ایک نحیف و نزار بدن مگر سب سے مضبوط دل رکھنے والا انسان جو قرآن کا مثالی مسلمان بھی سپاہی بھی ہے مجاہد بھی ہے۔ اور مثالی صوفی بھی اور انبیاء کے بعد جس کی نظیر خلق خدا میں نہیں ملتی وہ ہیں خلیفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امیر المومنین ابوبکر صدیق (رض) آپ نے پوری جرات سے اعلان جہاد فرمایا مدعیان نبوت کے خلاف بھی اور منکرین زکوۃ کے خلاف بھی حالانکہ صحابہ لرز اٹھے کہ یا امیر ! مسلمانوں کی تعداد کم ہے اور دشمنوں کی بہت زیادہ اتنے زیادہ محاذ بیک وقت نہ کھولے جائیں پہلے مدعیان نبوت سے نمٹا جائے جبکہ ایک لشکر تبوک بھی روانہ ہوچکا تھا قیصر کی فوجوں کے مقابل۔ آپ (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم@ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین میں ایک نقطہ کی کمی یا بیشی ابوبکر کی زندگی میں نہیں ہوسکتی۔ تم زکوۃ کہتے ہو اگر کسی نے وہ رسی جو عہد نبوی میں دیتا تھا اب نہ دی تو اس سے بھی جہاد کروں گا۔ غالب کرنا اللہ کا کام ہے مسلمان کا کام خلوص کے ساتھ جان کو حاضر کردینا ہے۔ اس راہ کی تین اہم باتیں یہاں ارشاد ہوئی ہیں کہ پہلی بات تو اس راستے کی سواری محبت ہے اگر محبت نہ ہو۔ اللہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سے آپ کے دین سے تو یہ کام نہیں ہوسکتا۔ وہ محبت جو جنوں میں مبتلاء کدے۔ دوسرے جہد مسلسل اس راستہ میں کوئی آرامگاہ نہیں ہے مسلسل جہاد ہے دشمن کے خلاف میدان جہاد میں ہو یا اپنے اندر ایک جنگ کا میدان ہو جہاں نیکی و بدی کی لڑائی نے حشر بپا کر رکھا ہو اور انسان خود اپنے آپ کو پکڑ پکڑ کر اطاعت الہی ، ذکر الہی ، اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کھینچتا رہے تیسرے عموماً ایسی رکاوٹ جو تلوار سے ڈالی جائے عموماً انسان اس کا مقابلہ کرلیتا ہے جذبات میں آ کر سہی مگر سر میدان پیچھے ہٹنے کو جی نہیں کرتا مگر جو رکاوٹ اپنوں کی باتیں ان کے طعنے اور ان کی ملامت سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بڑے بڑوں کو ڈگمگا دیتی ہے کہ یہ لوگ مسلسل بولتے چلے جاتے ہیں اور اتنا تنگ کرتے ہیں اتنا تنگ کرتے ہیں کہ آدمی حوصلہ ہار دیتا ہے جنہیں اللہ سے محبت ہوتی ہے ان پہ ملامت کے تیر بھی اثر نہیں کرتے اور یہ جرات رندانہ عطا کرنا یہ اس کا کرم ہے اس کا فضل ہے اس کی عطاء ہے وہ جسے چاہے نوازے جسے چاہے سرفراز کرے کہ وہ بہت وسعت رکھنے والا ہے اپنے جملہ اوصاف میں ایسے ہی علم لیں بھی وہ خوب جانتا ہے کہ کہاں کس شے کی ضرورت ہے۔ مسلمانو ! تمہارا دوست اللہ ہے تمہارا دوست اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ اور تمہارے دوست ہیں ایمان والے لوگ۔ یعنی مسلمان ہی مسلمان کا دوست ہے مگر یاد رہے وہ مسلمان دوستی کے قابل ہے جو خود اپنا دوست بھی ہو ، ایسے مومن جو نماز ادا کرتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں یعنی ارکان دین پہ عمل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اللہ کے سامنے عجز اختیار کرتے ہیں مسلمانوں کے ساتھ نرم خو ہیں یہ لوگ دوستی کے قابل ہیں۔ یاد رکھو ! جس کسی نے اللہ سے دوستی کی اور اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوستی نباہی اور جو جماعت یا جو افراد ایمان پر قائم رہے کہ خلوص دل سے اعمال بجا لانے میں پوری کوشش کرتے رہیں تو یہ یقین کرلو کہ یہ اللہ کی جماعت یا جو افراد ایمان پر قائم رہے کہ خلوص دل سے اعمال بجا لانے میں پوری کوشش کرتے رہیں تو یہ یقین کرلو کہ یہ اللہ کی جماعت ہے اور ہر دور میں ہر ملک میں دنیا کے ہر گوشے میں جہاں بھی ان اوصاف کے مالک لوگ ہوں گے وہ ہمیشہ جیت میں رہیں گے اور غالب رہیں گے چناچہ تب سے اب تک تاریخ اسلام شاہد ہے کہ باعمل مسلمان جب بھی آئے اللہ نے ان کی مدد کی اور اگر کہیں ذلت و رسوائی ہے تو اس میں مسلمانوں کی بےراہ روی سب سے بڑا محرک ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 51 لغات القرآن : لاتتخذوا (تم نہ بناؤ) ۔ اولیآء (ولی) ۔ دوست۔ مددگار۔ دل کا بھیدی) ۔ من یتولھم (جواب سے دوستی کرے گا) ۔ تشریح : یہ ان دونوں کا ذکر ہے جب اسلام کے دشمن ابھی تک بڑی طاقتوں کے مالک تھے اور بہت سے منافقین دونوں طرف ساز باز رکھتے تھے کہ دیکھیں فتح و شکست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بہت سے یہودی اور عیسائی ان منافقوں کو جاسوسی کیلئے استعمال کرتے تھے بلکہ اپنے ” دوستوں “ سے ملنے کے بہانے بلا جھجک اسلامی کیمپ میں آجایا کرتے تھے تاکہ راز لے اڑیں۔ اس حکم کے آجانے سے اول تو مومنین اور منافقین کے درمیان فرق معلوم ہوگیا کہ کو ن مومن ہے اور کون منافق۔ دوسرے اسلامی کیمپ کے اندر یہودیوں اور نصرانیوں کا داخل مشکل ہوگیا۔ رازوں کی حفاظت کڑی کردی گئی۔ اسلام کا دوست (مومن) اسلام کے دشمن سے حقیقی اور قلبی دوستی رکھ ہی نہیں سکتا۔ دونوں کے مقاصد زندگی الگ الگ دونوں کا طریقہ الگ الگ۔ دونوں کی اقدار اور پیمانے الگ الگ۔ اگر قتال کا وقت آجائے تو دونوں ایک دوسرے پر تلوار اٹھا لیں گے۔ پھر دوستی کسی بات کی۔ حقیقی دوستی اور ظاہری رسمی صاحب سلامت میں فرق ہے۔ صاحب سلامت اور ظاہری ملنے جلنے پر پابندی نہیں ہے بلکہ معاشی اور معاشرتی لحاظ سے ضروری ہے۔ دشمن اسلام سے ملنے جلنے کی اجازت صرف تین وجہ سے ہے۔ (1) تجارتی اور معاشی۔ غیر مسلم کی نوکری حلال کام میں جائز ہے۔ (2) تبلیغی ۔ یعنی مقصد اسلام کی تبلیغ ہو۔ (3) معاشرتی۔ ایک ہی بشتی یا ایک ہی شہر کا رہنا سہنا ہو۔ بہت سے رہائشی اور دیگر مسائل مشترک ہوتے ہیں، مثلاً پانی، صفائی، بجلی ، ٹرانسپورٹ وغیرہ۔ پابندی صاحب سلامت میں نہیں ہے بلکہ سچی اور قلبی دوستی میں ہے۔ چونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کا کیمپ مسلمانوں کے کیمپ سے برسرپیکار ہے، اس لئے ان کا اشتراک قلب اور اشتراک عمل نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر وہ دوست کے روپ میں آتے ہیں تو ان کا مقصد منافقوں کو استعمال کرنا ہے ۔ اسلام ہمیں دوسری قوموں سے رواداری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان سے ایسا قلبی تعلق قائم کرلیا جائے کہ مسلمانوں کے اندرونی راز بھی ان کے سامنے کھول کر رکھ دینے میں کوئی شرم محسوس نہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مطلب یہ کہ دوستی ہوتی ہے مناسبت سے سو ان میں باہم تو مناسبت ہے مگر تم میں ان میں کیا مناسبت ؟۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کا کردار بتلانے کے بعد ان سے حقیقی اور قلبی تعلقات رکھنے سے منع کیا ہے۔ اسلام اور کفر کی کشمکش روز افزوں تھی جس کی بنا پر نو وارد مسلمان بالخصوص منافقین اس کوشش میں تھے کہ ہمارے تعلقات یہود و نصاریٰ کے ساتھ پہلے کی طرح استوار رہیں تاکہ یہود و نصاریٰ کی کامیابی کی صورت میں ہم نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی بنا پر مسلمانوں کے راز یہود و نصاریٰ تک پہنچاتے تاکہ ان کی دلی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔ حق و باطل کے اس معرکہ میں اسلام یہ بات کس طرح گوارا کرسکتا تھا کہ ان لوگوں کو آستینوں کا سانپ سمجھنے کے باوجود اس حالت میں رہنے دیا جائے کہ یہ مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہیں۔ اسلام تو دور بینی کا دین ہے۔ ایسی صورت حال تو کوئی باطل نظریہ کی حامل اور کمزور جماعت بھی گوارا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا سازشوں کا قلع قمع اور مذموم سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے قرآن مجید مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ غیر مسلم بالخصوص یہود و نصاریٰ کے ساتھ رازد ارانہ تعلقات سے کامل اجتناب کریں۔ جو اس حکم کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ دوستی سے باز نہیں آتا وہ انھی میں شمار ہوگا اور ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ اسلام سماجی تعلقات اور کاروباری معاملات میں اپنوں کو ترجیح دینے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن غیر مسلموں سے سماجی تعلقات اور کاروبار کرنے سے منع نہیں کرتا۔ البتہ ان سے قلبی تعلق اور ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرماتے ہیں جو کوئی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔ “ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ اَلْمُغَےِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ فَجَاءَ تْہُ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ اِنَّہٗ بَلَغَنِیْ اَنَّکَ لَعَنْتَ کَےْتَ وَکَےْتَ فَقَالَ مَالِیْ لَا اَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمَنْ ہُوَ فِیْ کِتَاب اللّٰہِ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَےْنَ اللَّوْحَےْنِ فَمَا وَجَدْتُّ فِےْہِ مَا تَقُوْلُ قَالَ لَءِنْ کُنْتِ قَرَأْتِےْہِ لَقَدْ وَجَدْتِّےْہِ اَمَا قَرَأْتِ مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فُخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا قَالَتْ بَلٰی قَالَ فَاِنَّہٗ قَدْ نَھٰی عَنْہُ ۔ )[ متفق علیہ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سرمہ بھرنے والیوں اور بھروانے والیوں بھنووں ( اور رخسار کے بال) اکھیڑنے والیوں اور خوب صورتی کے لیے دانتوں کو باریک بنانے والیوں اور اللہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ ایک عورت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ (رض) نے فلاں فلاں عورت کو ملعون قرار دیا ہے ؟ عبداللہ بن مسعود (رض) نے جواب دیا کہ میں کیوں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے۔ اور جس پر اللہ کی کتاب میں لعنت کی گئی ہے۔ اس عورت نے کہا ‘ میں نے دونوں تختیوں کے درمیان (یعنی پورے) قرآن مجید کی تلاوت کی ہے ‘ مجھے اس میں وہ بات نہیں ملی جو آپ کہہ رہے ہیں۔ ابن مسعود (رض) نے وضاحت فرمائی کہ اگر تو نے قرآن مجید کی تلاوت کی ہوتی تو اس میں اس حکم کو پالیتی کیا تو نے قرآن مجید میں نہیں پڑھا ” تمہیں جو چیز رسول دیں اس پر عمل کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ “ (الحشر) اس عورت نے جواب دیا کہ بالکل عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا ‘ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ “ مسائل ١۔ مومن یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائیں۔ ٢۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ٣۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے والا انہی میں سمجھاجائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصاریٰ کو دوست نہیں بنانا چاہیے : ١۔ اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنۃ : ١ تا ٢) ٢۔ اے ایمان والو ! جن پر اللہ کا غضب ہوا انھیں اپنا دوست مت بناؤ۔ (الممتحنۃ : ١٣) ٣۔ اے ایمان والو ! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو کھیل بنا لیا ہے۔ (المائدۃ : ٥٦ تا ٥٧) ٤۔ اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ : ٥١) ٥۔ اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ١٤٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥١ تا ٥٣۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ولایت اور رفاقت کا مفہوم متعین کردیا جائے جس سے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ سختی سے منع کرتے ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ رفاقت نہ ہونی چاہئے ۔ اس رفاقت کا مفہوم یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ حلیفانہ اور باہم تعاون اور امداد کا معاہدہ نہ ہونا چاہئے ۔ اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ تم ان کے دین کی اتباع کرو اور اس لئے کہ یہ تو سوچنا بھی ممکن نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ایسا بھی کوئی ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کے دین کی اتباع کرتا ہو۔ یہ درحقیقت باہم تحالف اور معاونت کی دوستی ہوتی تھی ‘ جس کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کا ذہن صاف نہ تھا کہ یہ بھی حرام ہے ۔ مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ ایسے تحالف اور تعاون ابھی تک جائز ہیں ۔ اور یہ التباس اس لئے تھا کہ اسلام سے پہلے ان لوگوں کے درمیان ایسے دوستی کے معاہدے ہوا کرتے تھے اور اسلام کے ابتدائی ایام میں بھی ایسا ہوتا تھا خصوصا مدینہ کے ابتدائی ایام میں ۔ ان نصوص کے ذریعے اللہ نے اس سے منع کردیا اور ایسے معاہدوں کو باطل قرار دے دیا ۔ خصوصا جبکہ میثاق مدینہ کے مطابق مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پر یہودیوں نے عمل نہ کیا تھا اور اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ اہل اسلام اور ان کے درمیان اب کوئی معاہدہ ولا ممکن نہیں ہے ۔ یہ مفہوم اور مدلول قرآن کی تعبیرات سے اچھی طرح واضح ہے ۔ (دیکھئے مسلمانان مدینہ اور ان مسلمانوں کے بارے میں جو ابھی تک مکہ میں تھے اور انہوں نے ہجرت نہ کی تھی (آیت) ” مالکم من ولایتھم من شیء حتی یھاجروا “ یعنی تمہارے اور ان کے درمیان کوئی دوستی اور رفاقت نہیں ہے ۔ الا یہ کہ وہ ہجرت کریں ۔ ظاہر ہے کہ اس ولایت سے مراد ولایت فی الدین یعنی اسلامی بھائی چارہ نہیں ہے ۔ یہاں ولایت سے مراد وہ دوستی ہے جس میں از روئے معاہدہ ایک دوسرے کے ساتھ نصرت اور تعاون کا اقرار کیا جاتا ہے ۔ یہ معاہدہ ان لوگوں کے درمیان بھی نہیں ہو سکتا جو اگرچہ مسلمان ہوں لیکن انہوں نے دارالاسلام کی طرف ابھی تک ہجرت نہ کی ہو ۔ یہی قسم ہے جس سے ان آیات میں اہل اسلام کو منع کیا گیا ہے کہ وہ یہود ونصاری کے ساتھ اس قسم کی دوستی نہ کریں جبکہ مدینہ کے ابتدائی دونوں میں یہ عہد قائم تھا ۔ اہل کتاب کے ساتھ رواداری کا رویہ اور بات ہے اور انکے ساتھ دوستی کے معاہدے کرکے ان کو اپنا دوست بنانا اور چیز ہے لیکن اہل اسلام کے دماغ کے اندر ابھی تک دین کی حقیقت نہیں اتری اور ابھی تک انہوں نے دین کے فرائض ووظائف کو نہیں سمجھا کہ دین ایک منظم اور حقیقت پسندانہ منہاج ہے ۔ یہ مسلسل حرکت میں رہتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر ایک واقعی صورت حال پیدا کر دے جو اسلامی تصورحیات کے مطابق ہو ۔ یہ تصورحیات ان تمام تصورات سے مختلف ہے جو انسانیت کے اندر متعارف رہے ہیں۔ اس طرح اس اسلامی صورت حالات کا پھر ان تمام تصورات و حالات کے ساتھ تصادم ہوتا ہے جو اس کے خلاف ہوتے ہیں ۔ نیز اس کا لوگوں کی خواہشات کے ساتھ ‘ لوگوں کے فسق وفجور اور انکے انحرافات کے ساتھ بھی تصادم ہوتا ہے اور یہ نظام بھی ایسی کشمکش میں داخل ہوجاتا ہے کہ اس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہوتا ۔ یہ تصادم اس لئے ہوتا ہے کہ اسلامی نظام ایک جدید صورت حال پیدا کرتا ہے اور اپنے اس ہدف کی طرف وہ مسلسل مثبت طور پر حرکت کرتا رہتا ہے ۔ ایسے لوگ جن کے شعور واحساس کے اندر اسلامی نظریہ حیات کا یہ پہلو واضح نہیں ہوتا اور جن کے شعور کے اندر اسلا اور دوسرے ملل ونحل کے اندر برپا معرکے کا اچھی طرح ادراک نہیں ہوتا اور جو اس قسم کی واضح قرآنی ہدایات سے غافل ہیں تو وہ ان ہدایات جن کے اندر اسلامی معاشرے میں رہنے والے اہل کتاب کے ساتھ رواداری کا حکم دیا گیا ہے اور ان کے تمام حقوق محفوظ کئے گئے ہیں اور ان ہدایات کے درمیان جو معاہدات تحالف اور باہم نصرت کے بارے میں ہوتے ہیں اور جن کے مطابق ولایت اور دوستی صرف اللہ اور رسول اللہ اور جماعت مسلمہ کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے وہ ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کرتے ۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جب اسلام اور اہل کتاب کے درمیان کوئی معرکہ درپیش ہو تو اس میں اہل کتاب اور تمام دوسرے اہل کفر ایک دوسرے کے حلیف ہوتے ہیں اور یہ ان کی ایک مستقل پالیسی اور صفت ہے ۔ ان کو مسلمانوں کے ساتھ محض ان کے اسلام کی وجہ سے دشمنی ہوتی ہے اور یہ کہ وہ کسی مسلمان سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے دین کو چھوڑ کر ان کے دین کی اطاعت اختیار نہیں کرلیتا یہی وجہ ہے کہ تمام اہل کتاب اسلام اور اسلامی جماعتوں کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہیں ۔ تاہم انکے منہ سے بھی کبھی کبھی یہ بات نکل جاتی ہے اور ان کے دلوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے وہ تو بہت ہی بڑا ہے ۔ یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں ۔ ایک مسلمان کو بہرحال یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ رواداری کا رویہ اختیار کرے ۔ لیکن اسے اس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرے ۔ یعنی باہم نصرت اور حلیفانہ دوستی ۔ اس کی راہ جس پر چل کر اس نے دین کو قائم کرنا ہے اور اسے دنیا پہ غالب کرنا ہے اہل کتاب کی راہ سے بہت دور ہے اگرچہ وہ بہت بڑی رواداری اور محبت کا اظہار کیوں نہ کریں ۔ اس لئے کہ یہ لوگ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوسکتے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم رہیں اور اسلامی نظام کو روبعمل لائیں اور یہ رواداری انہیں اس بات سے نہیں روک سکتی کہ وہ اسلام کے خلاف یکجا ہو کر نہ لڑیں۔ وہ ہمیشہ ایسا کرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم سادہ لوحی ہوگی اور یہ ایک عظیم غفلت ہوگی کہ ہم یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہمارے لئے دین کے غلبے کی راہ وہی ہے جس پر اہل کتاب یہودونصاری چل رہے ہیں اور اس راہ پر چل کر ہم کفار اور ملحدین کا مقابلہ کریں گے جب کہ کفار اور ملحد تو آج کل سب سے زیادہ یہی اہل کتاب ہیں ۔ چناچہ اب معرکہ بھی مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ہے ۔ ہم میں سے جو سادہ لوح لوگ ہیں وہ اس ساری حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے اور ہر دور میں ایسے مسلمان رہے ہیں کہ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب مل کر الحاد اور مادیت کے خلاف جنگ کرسکتے ہیں اس لئے کہ اہل کتاب بھی اہل دین ہیں اور ہم بھی اہل دین ہیں ۔ لیکن یہ سادہ لوح لوگ قرآن کریم کی ان تمام تعلیمات کو بھول جاتے ہیں بلکہ پوری اسلامی تاریخ کو بھول جاتے ہیں ۔ اہل کتاب تو وہی لوگ ہیں جو ملحد اور مشرک لوگوں سے کہتے تھے ۔ (آیت) ” ھولاء اھدی من الذین امنوا سبیلا “۔ (یہ مشرک ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت پر ہیں جو ایمان لائے ہیں ) اور یہ اہل کتاب ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف احزاب کو جمع کیا تھا اور مدینہ پرچڑھ دوڑے تھے ۔ یہ تمام احزاب کو پروٹیکشن دیتے تھے ۔ یہ اہل کتاب ہی تھے جنہوں نے دو صد سال تک اسلام کے خلاف صلیبی جنگیں لڑیں اور یہی اہل کتاب ہی تو تھے جنہوں نے اندلس میں مسلمانوں کے خلاف ناقابل تصور جرائم کا ارتکاب کیا ۔ یہی اہل کتاب ہیں جنہوں نے حال ہی میں فلسطین سے عرب مسلمانوں کو نکالا اور انکی جگہ یہودیوں کو بسایا اور اس سلسلے میں وہ تمام ملحدوں اور زندیقوں سے تعاون کرتے رہے ۔ یہ اہل کتاب ہی ہیں جو ہر جگہ سے مسلمانوں کو خانہ بدر کر رہے ہیں ‘ حبشہ میں ‘ صومالیہ میں ‘ اریٹریا میں اور الجزائر میں غرض ہر جگہ وہ اس مالک بدری اور اس ظلم میں وہ ملحدین ‘ مشرکین اور بت پرستوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔ یوگو سلاویہ ‘ چین ‘ ترکستان اور ہندوستان اور ہر جگہ وہ دشمنان اسلام کے ساتھ معاون ہیں۔ قرآن کریم کی ان مکمل اور جامع ہدایات اور فیصلوں کے بعد بھی ہم میں ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور ان اہل کتاب کے درمیان ملحدانہ مادہ پرستی کے خلاف تعاون اور دوستی ہو سکتی ہے ۔ ایسے لوگوں نے درحقیقت قرآن کریم کا مطالعہ اچھی طرح نہیں کیا اور اگر کیا ہے تو پھر ان کے ذہنوں میں اسلام کے نظریہ مذہبی رواداری اور نظریہ ولایت اور دوستی کے درمیان خلط واقعہ ہوگیا ہے ۔ یہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کے شعور میں اسلام کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اسلام ایک نظریہ حیات ہے جو لوگوں سے کوئی دوسرا نظریہ قبول نہیں کرتا ۔ نہ ان کے ذہن میں یہ بات ہے کہ اسلام ایک مثبت تحریک ہے جو اس دنیا کی صورت حال کو یکسر بدلنا چاہتا ہے اور یہ کہ اہل کتاب نے ہمیشہ اسلام کی راہ روکی ہے ‘ جس طرح وہ آج بھی اسلام کی راہ روکے کھڑے ہیں اور یہ اہل کتاب کا وہ موقف ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ یہی ان کے لئے واحد طبعی موقف ہے ۔ ہم ان لوگوں کو ان کی اسی پوزیشن میں چھوڑے ہوئے ہیں کہ وہ غافل رہیں اور یا متغافل رہیں اور ہم خود اللہ کی ان ہدایات پر غور کریں جو بالکل واضح اور صریح ہیں۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (51) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہیں میں ہے یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔ ‘ اس پکار کا رخ مدینہ طیبہ کے اندر کام کرنے والی جماعت مسلمہ کی طرف ہے لیکن یہی ہدایات ان تمام جماعتوں کے لئے بھی ہیں جو اس کرہ ارض پر کسی بھی جگہ کام کرتی ہیں ۔ اور یہی ہدایات قیامت تک رہیں گی ۔ ان تمام لوگوں پر جن پر یہ لقب درست طور پر استعمال ہو۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا “۔ نزول قرآن کے وقت ان ہدایات کی ضرورت اس لئے پیش آگئی تھیں اور اہل ایمان کو یہ ہدایات اس لئے دی گئی تھی کہ اس وقت مسلمانوں اور مدینہ کے اردگرد بسنے والے یہودیوں کے درمیان مکمل قطع تعلق نہ تھا ۔ ان کے درمیان ولایت کے اور حلیفانہ تعلقات ابھی تک باقی تھے ۔ اقتصادی اور دوسرے معاملات ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے اور پڑوس اور ہم نشینی کے تعلقات بھی دونوں کے درمیان موجود تھے ، مدینہ کے جو تاریخی اور اقتصادی حالات تھے یہ صورت حالات ان کا طبعی نتیجہ تھی کیونکہ وہاں عربوں اور یہودیوں کے درمیان تعلقات قائم تھے ، ان حالات کی وجہ سے یہودیوں کو یہ موقع مل رہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرسکیں ۔ اور دین اسلام کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ۔ ان کی یہ سازشیں مختلف نوعیت کی ہیں اور گزشتہ پانچ پاروں کی تفسیر میں ان کی پوری تفصیلات دے دی گئی ہیں اور اس سبق میں بھی اس سازش کے بعض پہلو لئے گئے ہیں۔ قرآن کریم کا نزول صرف اس غرض کے لئے ہوتا رہا کہ مسلمان کو اس دنیا میں اپنے عقیدے اور نظریہ حیات کے حوالے سے ‘ جو معرکہ درپیش ہے ‘ اور اس کے پیش نظر جو مقصد اقامت دین ہے ‘ اس بارے میں اس کی سوچ اور لازمی حد تک اس کا شعور پختہ ہوجائے ۔ نیز ایک مسلم شعور اور ان تمام لوگوں اور قوتوں کے درمیان مکمل خلیج ہوجائے جو اس دین اور اس کے نظام کی راہ روکے ہوئے ہیں اور جو کسی صورت میں بھی اسلامی جھنڈے کے نیچے نہیں آنا چاہتے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اس مکمل بائیکاٹ کے دائرے میں اخلاقی رواداری یا سماجی بائیکاٹ نہیں آتا ۔ اخلاقی برتاؤ اور سماجی روابط بہرحال ایک اچھے مسلمان کی صفات ہیں جو کسی بھی وقت اس سے جدا نہیں ہوتیں۔ ہاں ان ہدایات میں ان کے ساتھ دوستی اور حلیفانہ تعلقات سے منع کیا گیا جو صرف اللہ ‘ رسول اللہ اور اہل ایمان کے ساتھ ہی ہو سکتے ہیں اور علیحدگی کا یہ وہ شعور ہے جو ایک مسلمان کے اندر ہر جگہ ‘ ہر زمانے اور ہر نسل کے اندر ہونا چاہئے ۔ قرآن کے الفاظ پر ذرا غور کیجئے ۔ ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہیں میں ہے یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔ ‘ یہ لوگ خود ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو زمان ومکان کی قید سے باہر ہے اس لئے کہ یہ حقیقت ایک طبعی حقیقت ہے اور یہ ان کے مزاج کا تقاضا ہے ۔ یہ لوگ کسی جگہ اور کسی دور میں بھی اہل ایمان کے دوست نہیں بنے صدیاں بیت گئیں اور ایک مثال بھی ان کی دوستی کے سامنے نہیں آئی اور اللہ کی یہ بات سچی رہی ہے ۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ میں بھی اہل کتاب باہم متحد تھے ۔ آپ کے بعد ہر اسلامی جماعت کی دشمنی میں یہ متحد رہے ہیں اور تاریخ کی طویل کڑیوں میں پورے کرہ ارض پر یہ اسلام کے خلاف متحد رہے ہیں ۔ ایک بار بھی اس قاعدے کے اندر کبھی استثناء نہیں ہوا اور دنیا میں ہمیشہ وہی ہوتا رہا جو قرآن کریم نے بطور صفت یہاں اہل کتاب کے لئے استعمال کیا قرآن کریم نے ان کی یہ صفت متفرق حادثات کے حوالے سے بیان نہیں کی ہے ۔ قرآن نے جس انداز میں یہ جملہ اسمیہ یہاں استعمال کیا ہے ۔ (آیت) ” بعضھم اولیآء بعض “۔ (٥ : ٥١) یہ محض انداز تعبیر نہیں ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ یہ باہم ولایت اور دوستی ان کا دائمی وصف ہے ۔ اس کے بعد قرآن کریم اس حقیقت کے فطرتی نتائج مرتب کرتا ہے ۔ جب یہود ونصاری صرف ایک دوسرے کے دوست ہیں تو ان کے ساتھ جو مسلمان بھی دوستی کرے گا وہ ان میں سے تصور ہوگا ۔ اسلامی صفوں کا جو شخص ان کا دوست ہوگا وہ اسلامی صف میں رہے گا ۔ وہ عملا اپنے آپ سے صفت ” اسلامی “ کی نفی کرتا ہے ۔ وہ عملا اپنے اوپر صفت یہودیت اور نصرانیت کا لباس اوڑھتا ہے ۔ حالانکہ یہ ایک فطری نتیجہ ہے ۔ (آیت) ” ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ (٥ : ٥١) (اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے) ایسا شخص اپنے اوپر ظلم کرتا ہے ‘ اپنے دین پر ظلم کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اس نے اپنی محبت ان کو دے دی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہ ہدایت دیتا ہے اور نہ اس کو واپس اسلامی صفوں میں قبول کرتا ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ لا یھدی القوم الظلمین “۔ (٥ : ٥١) (یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے) مدینہ کی اسلامی جماعت کے لئے یہ ایک نہایت ہی خوفناک دھمکی تھی ۔ یہ دھمکی اگرچہ سخت ہے لیکن بالکل قدرتی ہے اور اس کے اندر کوئی مصنوعی تشدد نہیں ہے ۔ اس لئے جو شخص بھی یہ ممنوع حرکت کرتا ہے وہ ان میں سے ہے اگر وہ ان میں سے نہ ہوتا تو ایک مسلمان کسی صورت میں بھی یہود ونصاری کا ولی اور دوست نہیں ہوتا سکتا ۔ نہ ہی اسلامی صفوں میں ایسے شخص کی ممبر شپ رہ سکتی ہے اس لئے کہ کسی اسلامی جماعت کے افراد کی دوستی اور ان کا حلیفانہ تعلق صرف اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ یہ ہے ایک دوراہا اور فیصلہ طلب یونٹ ۔ ایک مسلمان اور اسلامی نظام کے مخالفوں اور دوسرے نظاموں کے داعیوں کے درمیان مکمل علیحدگی کے معاملے میں کوئی نرمی اختیار نہیں کی جاسکتی ۔ ایک نے اسلامی جھنڈا اٹھا رکھا ہے اور دوسرے نے مخالف اسلام جھنڈا اٹھا رکھا ہے ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کرہ ارض پر وہ اسلام کا منفرد نظام قائم نہ کرسکے گا نہ اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر سرگرمی دکھا سکے گا ‘ جب ایک مسلمان کو یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا دین ہی وہ واحد دین ہے جسے اللہ لوگوں کی جانب سے قبول کرے گا تو اس یقین کے اندر کوئی جھول اور کوئی نرمی نہیں رہتی ۔ اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بعد اب کوئی رسالت نہیں ہے اور یہ کہ یہ اسلامی نظام زندگی ہی وہ منفرد نظام ہے جسے اس نے لوگوں کی زندگیوں میں قائم کرنا ہے اور اس کے مقابلے میں دنیا کا کوئی نظام قابل عمل نہیں ہے ۔ اس کرہ ارض پر انسان کی زندگی اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک مسلمان اس نظام کو قائم نہ کردیں اور یہ کہ اللہ اسے معاف نہ کرے گا اگر وہ اپنی پوری قوت اس دین کیا قامت اور غلبے کی راہ میں پوری سعی نہیں کرتا ‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسن نظام کے بدلے میں کوئی دوسرا نظام بطور متبادل قبول نہیں کرتا ‘ بلکہ اسلامی نظام کے کسی جزء کیلئے بھی کوئی متبادل اسے قبول نہیں ہے ۔ اور یہ کہ جب تک وہ اسلامی عقائد و تصورات کو خالص کرکے ان کے درمیان میں سے ہر غلط اور ملاوٹ کو پاک نہیں کرتا ‘ جب تک وہ تفصیلی نظام اور قانون امور سے تمام ملاوٹوں کو ختم نہیں کرتا ‘ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ شرائع میں سے کسی چیز کو باقی رکھا ہو اس وقت تک اسلام غلبہ نہیں حاصل کرسکتا ۔ غرض ان تمام امور میں جب تک ایک مومن مکمل طور پر یکسو اور یقین محکم کا حامل نہیں ہوتا وہ اس بوجھ کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور نہ عملا اس منہاج حیات کو قائم کرسکتا ہے جس کا بھاری فریضہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کاندھوں پر ڈالا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فریضہ اقامت دین ایک مشکل فریضہ ہے ۔ اس کی راہ میں سخت مشکلات ہیں اور اس راہ کی ذمہ داریاں کمر توڑ ہیں۔ اس راستے میں کینہ پرور دشمن بیٹھے ہیں ، خفیہ پھندے نصب ہیں اور رنج والم کے وہ مقامات ہیں جو بعض اوقات ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں ۔ اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر اس وقت جو جاہلیت قائم ہے اس میں کیا تکلیف ہے ۔ چاہے بت پرستانہ جاہلیت ہو ‘ اہل کتاب کی مخلوط جاہلیت ہو یا الحاد وزندقہ کی جدید جاہلیت ہو ۔ نیز اگر اسلامی نظام کے اندر کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کرکے اس کے اور اہل کتاب اور دوسروں کے قائم شدہ نظاموں کے درمیان فرق ہی کو ختم کردیا جائے یا اسلام اور دور جدید یا قدیم کی جاہلیت کی درمیان امتزاج اور اتحاد کرکے کوئی نظام لایا جائے اور اس پر مصالحت کرلی جائے تو یقینا پھر اس راہ میں کوئی مشکلات نہیں ہیں ۔ یہ ایک فیصلہ کن جدائی اور امتیاز ہے اور جو لوگ ان حدوں کو مٹانا چاہتے ہیں اور اپنی کوششیں رواداری اور ” تقریب بین الادیان السماویہ “ کے دل لگتے عنوان کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ نہایت ہی غلط راستے پر چل رہے ہیں یہ لوگ نہ ” ادیان “ کے مفہوم کو سمجھے ہیں اور نہ ہی ” تسامح “ اور رواداری کے مفہوم کو سمجھے ہیں ۔ یاد رہے کہ رواداری محض شخصی اور ذاتی معاملات میں ہوتی ہے ۔ اسلامی عقائد و تصورات اور اسلام کے اجتماعی نظام کے ڈھانچے کے اندر کوئی رواداری ممکن نہیں ہے ۔ یہ لوگ دراصل مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اس یقین کو متزلزل کرنا چاہتے ہیں جو ان کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ اللہ اسلام کے سوا کسی اور دین کو قبول نہیں کرتا اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اقامت دین کے لئے جدوجہد کرے اور اسلام کے مقابلے میں کوئی اور متبادل دین قبول نہ کرے نہ اس کے اندر کوئی تبدیلی اور ترمیم قبول کرے اگرچہ یہ ترمیم نہایت ہی معمولی ہو ۔ اس یقین کو قرآن کریم بار بار ایک مومن کے دل و دماغ میں بٹھانا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” ان الدین عند اللہ الاسلام) (اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے) (آیت) ” ومن یتبع غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ) (اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا تو اس سے وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا) (آیت) ” واحذرھم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک (٥ : ٤٩) (ان سے ہوشیار رہو کہ وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دین ان میں سے بعض چیزوں کی نسبت جو اللہ نے تیری طرف نازل کیں) (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیاء بعضھم اولیآء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ (٥ : ٥١) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ یہود ونصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور تم میں جو شخص بھی انکو دوست بنائے گا ‘ اس کا شمار بھی ان میں ہوگا) قرآن کریم اس صورت حال کی ایک جھلکی دکھاتا ہے جو اس موجود تھی اور جس کی وجہ سے قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” فتری الذین فی قلوبھم مرض یسارعون فیھم یقولون نخشی ان تصیبنا دآئرۃ “۔ (٥ : ٥٢) (تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں ” ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں ۔ “ ابن جریر نے اپنی سند سے ابن سعد کی یہ روایت نقل کی ہے ۔ فرماتے ہیں عبادہ ابن صامت جو حارث ابن الخزرج کی اولاد سے تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ! میرے یہودیوں میں بیشمار لوگ دوست ہیں اور میں یہودیوں کی دوستی سے برات اختیار کرکے اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوستی اختیار کرتا ہوں ۔ اس پر عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین نے کہا میں تو ایک آیسا آدمی ہوں کہ میں مختلف چکروں سے ڈرتا ہوں ۔ میں تو اپنے حلیفوں اور دوستوں سے برات کا اعلان نہیں کرتا ۔ رسول اللہ نے عبداللہ ابن ابی مذکور سے کہا : ابو الحباب ‘ یہودیوں کی دوستی کے بارے میں آپ کو عبادہ ابن صامت کے ساتھ چشمک تھی تو اب وہ دوستی بھی تم قبول کرلو ‘ اس پر رئیس المنافقین نے کہا مجھے قبول ہے ۔ اس موقعہ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیآء “۔ (٥ : ٥١) ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ زہری کی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جب بدر والوں کو شکست ہوئی تو مسلمانوں نے یہودیوں میں سے اپنے دوستوں سے کہا ‘ مناسب ہے کہ تم اسلام قبول کرلو ‘ اس سے پہلے کہ تم پر بھی بدر والوں کا دن آئے اس پر مالک بن الصیف نے کہا : تمہیں اس بات نے بہت ہی غرے میں ڈال دیا ہے کہ تم نے قریش کے کچھ لوگوں کو شکست دے دی ہے جن کو جنگ کے بارے میں کچھ علم ہی نہ تھا ۔ اگر ہم ہمت باندھتے اور تمہارے خلاف جمع ہوجاتے تو تمہارے اندر اتنی سکت نہ ہوتی کہ تم ہم سب کے خلاف لڑتے ۔ اس پر عبادہ ابن الصامت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یہودیوں میں میرے دوست ہیں وہ نہایت ہی مضبوط لوگ ہیں ۔ انکے پاس اسلحہ بھی بہت تھا ۔ وہ نہایت بارعب ہیں لیکن میں انکی دوستی اور معاہدہ وحلیفانہ ربط سے برات کا اعلان کرتا ہوں ۔ اب میرا اللہ اور رسول کے سوا کوئی اور دوست اور حلیف نہیں ہے ۔ اس پر عبداللہ ابن ابی نے کہا میں تو یہودیوں کی دوستی سے برات کا اعلان نہیں کرسکتا ۔ میں ایک ایسا آمدی ہوں کہ میرے نئے وہ بہت ہی ضروری ہیں ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اے ابو الحباب تمہیں معلوم ہے کہ تم عبادہ ابن صامت کے ساتھ مناقت رکھتے تھے کہ یہودیوں میں ان کے دوست زیادہ تھے ۔ اب یہ دوستیاں تمہارے ۔ ‘ تو اس پر اس نے بھی کہا : ” اچھا تو میں پھر قبول کرتا ہوں ۔ “ محمد ابن اسحاق لکھتا ہیں کہ پہلا یہودی قبیلہ جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے درمیان پائے جانے والے عہد ومیثاق کو توڑا وہ بنو قینقاع تھے ۔ مجھے عاصم ابن عمر ابن قتادہ نے بتایا کہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر محاصرہ کرلیا ہے ۔ ان لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ اس پر عبداللہ ابی ابن السلول اٹھا : (جب یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قابو آگئے تھے) تو اس نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ یہ لوگ خزرج کے حلیف تھے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے دوبارہ کہا : اے محمد ! میرے دوستوں کے ساتھ نرمی کرو۔ اس پر پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس روگردانی کرلی۔ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زرہ کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کہا ‘ چھوڑو مجھے ‘ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت ہی غصہ آیا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر اس کا پرتو آگیا ۔ اب کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر کہا کہ تمہارا بیڑا غرق ہو مجھے چھوڑو۔ اس کے بعد اس نے کہا خدا کی قسم میں تمہیں ہر گز نہ چھوڑوں گا جب تک تم میرے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرو۔ چار سو سادہ اور تین سو زرہ پوش دوستوں نے میری تفاظت سرخ اور سیاہ اقوام کے مقابلے میں کی ہے اور میں چھوڑ دوں کہ آپ ایک ہی صبح میں انکی فصل کو کاٹ دیں ۔ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میں مختلف چکروں سے ڈرتا ہوں ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اچھا وہ سب تیرے ہوئے “۔ محمد ابن اسحاق نے عبادہ ابن صامت کی ایک روایت نقل کی ہے کہ جب بنو قینقاع نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کی تو عبداللہ ابن ابی ابن السلول ان کے معاملے میں بڑھ گئے اور ان کے سامنے کھڑے ہوگئے اور عبادہ ابن صامت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور یہ بھی بنو عوف ابن الخزرج میں سے تھے ۔ اور بنو قینقاع میں ان کے بھی اسی قدر حلیف تھے ‘ جس قدر عبداللہ ابن ابی کے تھے۔ عبادہ ابن الصامت نے ان کا اختیار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا اور کہا کہ میں ان کی دوستی سے برات کا اظہار کرتا ہوں اور اب میرا دوست اور حلیف صرف اللہ اور رسول اللہ ہیں اب میں صرف اللہ اور رسول اللہ ہی کو دوست رکھتا ہوں اور کفار کے حلیفانہ تعلقات کے خاتمہ کا اعلان کرتا ہوں ۔ تب اللہ نے عبادہ ابن الصامت اور عبداللہ ابن ابی کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیاء بعضھم اولیآء بعض ۔۔۔۔ تا۔۔۔۔ ومن یتول اللہ ورسولہ والذین امنوا فان حزب اللہ ھم الغلبون “۔ امام احمد نے اپنی سند سے ‘ اسامہ ابن زید کی روایت نقل کی ہے ۔ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عبداللہ ابن ابی کے پاس گیا ۔ آپ اس کی عبادت کے لئے جارہے تھے ۔ اسکو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا ” میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ یہودیوں سے محبت نہ رکھو ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : ” اسعد ابن زرارہ ان سے بغض رکھتے تھے اور وہ مرگئے۔ “ یہ روایات ان حالات کی اچھی طرح وضاحت کرتی ہیں جو اس وقت اسلامی معاشرے کے اندر عملا موجود تھے یہ معاشرہ ان روایات کے خلاف تھا جو اسلام سے پہلے مدینہ کے اندر موجود تھیں نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک یہ سوچ فیصلہ کن مرحلے تک نہ پہنچی تھی کہ مدینہ کے اردگرد موجود تھیں ۔ نیز ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک یہ سوچ فیصلہ کن مرحلے تک نہ پہنچی تھی کہ مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے یہودیوں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھے جائیں اور کیسے نہ رکھے جائیں ۔ ہاں ایک بات ظاہر ہے کہ ان تمام روایات کا تعلق یہودیوں سے ہے اور عیسائیوں کے بارے میں کوئی ایسی روایت مذکور نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں اور تمام دوسری جماعتوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیلئے ایک دائمی ضابطہ ‘ معیار اور ایک مستقل سوچ دینا چاہتا تھا ۔ چاہے اس کا تعلق اہل کتاب سے ہو یا مشرکین سے ہو جیسا کہ اس درس پر تفصیلی بات کرتے وقت بتایا جائے گا ۔ ہاں یہ اپنی جگہ درست ہے کہ مسلمانوں کی نسبت یہودیوں کے موقف اور طرز عمل اور عیسائیوں کے موقف اور طرز عمل کے درمیان کافی فرق تھا اور یہ فرق عہد نبوی میں تھا ۔ اور اس سورة میں ایک دوسری جگہ قرآن کریم نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (آیت) ” لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی (٥ : ٨٢) تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان والوں سے قریب ترین لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں۔ ) اس اختلاف کے باوجود جو اس وقت موجود تھا ‘ اس آیت میں یہود ونصاری ایک ہی سطح پر رکھا گیا ہے جس طرح اگلی آیت میں اہل کتاب اور کفار کو بھی ایک ہی سطح پر رکھا گیا ۔ یہ مساوات دوستی اور ولایت کی حد تک ہے اور یہ بات اسلام کے ایک دوسرے اصول پر مبنی ہے ۔ وہ اصول یہ ہے کوئی مسلم دوستی کا عہد اور حلیفانہ تعلقات صرف ایک مسلم ہی سے قائم کرسکتا ہے اس لئے کہ ہر مسلم صرف اللہ ‘ رسول اللہ اور اسلامی جماعت کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم کرسکتا ہے اور اس اصول کے تحت تمام گروہ اور فرقے برابر ہیں ‘ اگرچہ دوسرے ظروف واحوال میں ان کا موقف مسلمانوں کے مقابلے میں باہم مختلف ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ یہ قاعدہ کلیہ اور دوٹوک اصول وضع کرتے ہوئے ‘ اللہ تعالیٰ کو تو تمام ادوار اور از منہ کا علم تھا اور یہ قاعدہ صرف حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے لئے نہ تھا اور نہ ان حالات کے لئے تھا جو اس وقت موجود تھے بعد کے حالات نے اس بات کو ثابت کردیا کہ دین اسلام اور جماعت مسلمہ کے ساتھ عیسائیوں کی عداوت ‘ دنیا کے مختلف علاقوں میں یہودیوں سے کم نہ تھی ، اگر ہم عرب کے عیسائیوں کے موقف کو مستثنی کردیں ‘ جنہوں نے اسلام کا خوب استقبال کیا تو باقی دنیا میں ‘ خصوصا یورپ میں عیسائیوں نے اہل اسلام اور دین اسلام کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ یہودیوں کے مقابلے میں بہت خراب تھا یا ان سے کم نہ تھا ۔ انہوں نے اسلام کے ساتھ سخت کینہ پروری کی ‘ اسلام کے خلاف سازشیں کیں اور اس کے خلاف جنگیں برپا کیں ۔ حبشہ جیسے ملک کو لیجئے کہ اس کے اسی زمانے کے بادشاہ نے مسلم مہاجرین کو پناہ دی اور اسلام کو خوش آمدید کہا ۔ وہاں بھی اہل اسلام کے خلاف سخت مظالم کئے گئے جو یہودیوں سے بھی زیادہ تھے ۔ اللہ تعالیٰ کو تو تمام ادوار کا علم تھا ۔ اس لئے اللہ نے اہل اسلام کے لئے یہ قاعدہ کلیہ وضع کردیا ۔ اس میں ان حالات کو نظر انداز کیا جو اس وقت دور اول میں موجود تھے اس لئے کہ وہ حالات مستقل اور دائمی نہ تھے اس قاعدہ کلیہ پر عمل کرتے وقت اسلام بعض ممالک کی پالیسی کو نظر انداز بھی کرسکتے ہیں جن کا رویہ اسلام کے خلاف نہیں ہے یا نہ ہوگا ‘ آخر الزمان تک ۔ آج تک اسلام کے خلاف اور ان لوگوں کے خلاف جو اپنا نام مسلمانوں جیسا رکھتے ہیں اور جن کو صفت اسلام کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے اگرچہ اسلام کے ساتھ ان کا کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے ‘ یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے ایک عظیم معرکہ آرائی جاری ہے ۔ یہ معرکہ آرائی ان کی ذات اور ان کے دین کے خلاف ہے اور دنیا کے ہر حصے میں جاری ہے ۔ اور یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے ۔ (آیت) ” بعضھم اولیاء بعض) ان میں سے بعض ، بعض دوسروں کے دوست ہیں اور یہ بات ہر عقلمند انسان پر لازم کردیتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت کو پلے باندھ لے کہ نصیحت نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے اس قطعی ممانعت پر عمل کرنا ہے کہ اللہ کے صحیح بندوں کی دوستی صرف اللہ کے دوستوں اور رسول اللہ سے ہوگی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس قدر کیمپ بھی ہوں ‘ جو اسلام کا علم بلند نہ کررہے ہوں ان سے کوئی دوستانہ تعلق نہ ہوگا اور نہ حلیفانہ تعلق ہوگا ۔ یہ اللہ کا دوٹوک فیصلہ اور قطعی حکم ہے ۔ اسلام مسلمانوں کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے اپنے تعلقات صرف عقیدے اور نظریے کے اساس پر قائم کریں اور ایک مسلمان کے تصور حیات کے اندر دوستی کا عہد اور حلیفانہ عہد یا دشمنی کا تعلق صرف نظریات کے زاویے سے ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلم اور غیر مسلم کے درمیان باہم امداد اور نصرت کا معاہدہ (یعنی ولایت) کا قیام جائز نہ ہوگا اس لئے کہ ایک مسلمان اور ایک کافر کے درمیان عقائد و تصورات کے میدان میں کوئی تعاون اور نصرت نہیں ہوسکتی ۔ الحاد کے مقابلے میں بھی وہ اکٹھے نہیں ہوسکتے جیسا کہ ہم میں سے بعض سادہ لوح سوچتے ہیں ۔ بعض ایسے مسلمان اس لائن پر سوچتے ہیں جو قرآن کریم کو پڑھتے ہی نہیں اس لئے کہ دونوں کے درمیان کوئی مشترکہ بنیاد ہی نہیں ہے ۔ لہذا وہ کس بنیاد پر حلیف بن سکتے ہیں ؟ بعض لوگ جو قرآن مجید کا مطالعہ نہیں کرتے ‘ اور جن کو اسلام کی حقیقت کا ادراک بھی حاصل نہیں ہے اور بعض وہ لوگ جو فریب خوردہ ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام ادیان دین ہیں جس طرح الحاد الحاد ہیں ۔ یہ ممکن ہے کہ تمام اہل دین مل کر الحاد کے مقابلے میں کھڑے ہوں کیونکہ الحاد جنس دین کا منکر ہے اور وہ مطلق دینداری کے خلاف ہے ۔ لیکن اسلامی تصور حیات کے مطابق معاملہ اس طرح نہیں ہے اور نہ ایک ایسے مسلمان کا شعور اسے قبول کرتا ہے جس نے اسلام کا مزہ صحیح طرح چکھا ہے ۔ اسلام کا مزہ صرف وہی شخص چکھ سکتا ہے جو اسلام کو بطور نظریہ حیات قبول کرتا ہے ۔ اس کے بعد وہ اس نظریہ حیات کے لئے ہر وقت متحرک رہتا ہے اور اس کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ نظام اسلامی کو قائم کیا جائے ۔ ایک صحیح الفکر مسلمان کے ہاں یہ بات بالکل واضح اور متعین ہے کہ اللہ کے ہاں دین صرف اسلامی نظام حیات ہے ۔ اسلام کے بغیر کسی سوچ یا نظام کو اللہ دین نہیں مانتا کیونکہ اللہ نے جو فقرہ استعمال کیا ہے وہ یہ ہے ۔ (آیت) ” ان الدین عند اللہ الاسلام “ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے۔ اسلام کے علاوہ اگر کوئی کسی اور عقیدہ وعمل کا اتباع کرتا ہے تو اللہ اسے قبول نہ کرے گا ۔ (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد تو کوئی دین میں ایسا نہیں رہا ہے جو اللہ کو مقبول ہو۔ اب تو تمام دنیا کو اسلام ہی قبول کرنا ہوگا اور اس صورت میں اسے قبول کرنا ہوگا جس صورت میں اسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم تک پہنچایا ہے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل نصاری کا جو دین صحیح مانا جاتا تھا وہ اب مقبول نہ ہوگا جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے بعد یہودیوں کا دین غیر مقبول قرار پایا تھا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہود ونصاری کا وجود یہ معنی نہیں رکھتا کہ جس دین پر وہ عمل کر رہے ہیں وہ اللہ کو مقبول ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھی الہی دین پر ہیں ۔ بیشک ان کا دین الہی تھا مگر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد صورت حال یہ ہے اور اس کا تمام مسلمان اعتراف کرتے ہیں کہ اب صرف اسلام ہی دین کی حیثیت رکھتا ہے اور مذکورہ بالا آیت اس سلسلے میں نص قطعی ہے جس میں کسی قسم کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی ۔ ہاں یہ بات مسلمہ اصولوں میں سے ہے کہ اسلام یہودونصاری پر جبر کر کے ان کو دین اسلام کے اعتراف پر مجبور نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ اصول یہ ہے کہ (آیت) ” لا اکراہ فی الدین) (دین میں کوئی جبر نہیں ہے) لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ جن امور پر عمل پیرا ہیں وہ دین ہے یا اللہ تعالیٰ ان کو بھی صحیح دین سمجھتا ہے ۔ اس لئے اسلام کسی ایسے محاذ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جو دینی محاذ ہو اور اس محاذ کے اندر اسلام بھی شامل ہو اور وہ الحاد کا مقابلہ کررہا ہو۔ دین تو فقط ایک ہے جس کا نام اسلام ہے اور اس کے علاوہ تمام محاذ لادین ہیں ‘ جو اسلام سے علیحدہ ہیں ۔ اب یہ لادینی نظام چاہے اپنی اصل میں الہی دین ہو اور اس کے اندر انحراف ہوگیا ہو یا وہ بت پرستانہ دین ہو اور اپنی بت پرستی قائم ہو یا الحاد ہو اور سرے سے تمام ادیان کا منکر ہو ‘ اور ان کے درمیان حلیفانہ معاہدہ ہوگیا ہو ‘ لیکن یہ تمام لادین دین اسلام سے متضاد ہیں اور ان کے اور اسلام کے درمیان کوئی حلیفانہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے درمیان دوستی ہو سکتی ہے ۔ ایک مسلمان اہل کتاب کے ساتھ معاملات رکھ سکتا ہے اور اسلام اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان معاملات کو بر و احسان پر استوار کرے ۔ جب تک وہ اسے دین کے معاملے میں اذیت نہ دین ۔ اسلام ایک مسلمان کو یہ اجازت بھی دیتا ہے کہ وہ ان میں سے پاکدامن عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کرسکتا ہے ۔ ہاں ان میں سے ان لوگوں کے بارے میں فقہی اختلاف ہے ۔ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں اور جو لوگ تثلیث کے قائل ہیں کہ آیا ایسی عورتوں کتابی قرار پاکر حلال ہوں گی یا انہیں بت پرست قرار دے کر حرام قرار دیا جائے گا ۔ بہرحال اگر ہم یہ اصول ہی لیں کہ نکاح عموما جائز ہے ‘ تو بھی حسن سلوک یا جواز نکاح سے اس بات پر دلیل نہیں دی جاسکتی کہ ان کے ساتھ دین میں حلیفانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں اور دوستی بھی کی جاسکتی ہے ۔ اور اس کا یہ مفہوم بھی نہیں ہے کہ اہل کتاب کا دین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد بھی اسلام کے ہاں معتبر ہے اور پھر اس کے ساتھ ایک ہی محاذ پر کھڑے ہو کر اسلام الحاد کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔ اسلام تو آیا ہی اس لئے ہے کہ وہ اہل کتاب کے اعتقادات کو درست کرے اور بعینہ وہ اس لئے بھی آیا ہے کہ بت پرستوں کے غلط عقائد کو درست نہیں کرتا ۔ جب یہودیوں نے یہ سمجھا کہ حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بھی دین اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں تو ان کو یہ بات نہایت دعوت دیتے ہیں تو ان کو یہ بات نہایت ہی گراں گزری کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں تو ان کو یہ بات نہایت ہی گراں گزری کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیں تو قرآن کریم نے ان کو اس غلط فہمی کو دور کیا اور کہا کہ اللہ تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہے اور اگر تم اعراض کرو تو تم بھی کافر ہو۔ ایک مسلمان تو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اہل کتاب کو اسلام کی طرف دعوت دے جس طرح وہ مکلف ہے کہ بت پرستوں اور ملحدوں کو دین اسلام کی دعوت دے ۔ ہاں اگر وہ مکلف نہیں ہے تو اس بات کا نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کو زبردستی اسلام کے اندر داخل کرے اس لئے کہ کسی کے دل و دماغ میں عقائد بذریعہ جبرواکراہ نہیں جمتے ۔ ” دین میں جبر “ صرف یہ نہیں ہے کہ ازروئے قرآن وہ ممنوع ہے ۔ اگر ممنوع نہ ہوتا تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔ یہ بات درست نہ ہوگی کہ ایک مسلمان حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اس بات کا اعتراف کرے کہ جس دین پر اہل کتاب میں وہ مقبول دین ہے اور پھر بھی وہ انہیں دعوت دے کہ وہ اسلام کی طرف آجائیں ۔ ایک مسلمان صرف اس اساس پر اس بات کا مکلف ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی طرف دعوت دے کہ وہ ان کے دین کو دین تسلیم نہ کرے ۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر منطقی بات یہ ہوگی کہ وہ مکلف نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہ بھی دین ہے اور وہ بھی دین ہے ۔ اگر یہ بات بطور اصولی موضوع تسلیم کرلی جائے تو اب ایک مسلمان اور ایک اہل کتاب کے درمیان یہ محاذ کہ وہ دین اسلام کو غالب کریں ایک غیر منطقی محاذ ہوگا ۔ اس لئے کہ وہ تو دین اسلام کو دین تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ غرض اسلام میں یہ مسئلہ دین و ایمان کا مسئلہ ہے ۔ اور پھر یہ منطقی اور فطری اتحاد وتنظیم کا بھی مسئلہ ہے ۔ جہاں تک ایمان و اعتقاد کا تعلق ہے تو معاملہ بالکل واضح ہے ۔ ہم نے اس پر بہت طویل بحث کرلی ہے اور اوپر ہم نے قرآنی آیات سے ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان کوئی دوستی یا حلیفانہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا ۔ رہی یہ بات کہ یہ ایک انتظامی اور تحریکی مسئلہ بھی ہے تو یہ بھی مذکور بالابحث سے واضح ہوگیا ہے ۔ اس لئے ایک مومن کی پوری جدوجہد یہ ہوگی کہ اسلامی نظام حیات کو زندگی کے تمام معاملات کے اندر نافذ کیا جائے اور ان تفصیلات کے ساتھ نافذ کیا جائے جن کا بیان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ہے ۔ اپنی تمام تفصیلات اور تمام پہلوؤں کے ساتھ اور زندگی کے تمام معاملات میں تو اس میدان میں ایک مسلم اس شخص کے ساتھ متحد اور ہمرکاب کس طرح ہوسکتا ہے جو سرے سے اسلام کو دین ہی نہیں مانتا ۔ نہ اسلامی شریعت کو شریعت مانتا ہے اور جس کے اہداف ومقاصد ہی دوسرے ہیں ۔ اگرچہ یہ اہداف ومقاصد اسلام کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ اسلام کے اہداف بھی نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ اسلام کسی ہدف اور کسی عمل کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ اسلامی عقیدے پر قائم نہ ہو ۔ (آیت) ” مثل الذین کفروا بربھم اعمالھم کرماداشتدت بہ الریح فی یوم عاصف “۔ (١٤ : ١٨) (جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو) اسلام ایک مسلمان پر یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد صرف اسلام کے لئے کرے اور رات اور دن کی جدوجہد میں اپنی زندگی کے کسی بھی حصے کو اسلام تسلیم کرے گا جس نے نہ اسلام کے مزاج کو سمجھا ہو اور نہ دین اسلام کو سمجھا ہو ۔ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کی زندگی کا کوئی حصہ اسلام سے خارج بھی ہو سکتا ہے جس کے اندر ایک مسلمان ان لوگوں کے ساتھ تعاون کرے جو دشمنان اسلام ہوں اور دشمن بھی ایسے ہوں جو مسلمانوں سے تب ہی راضی ہو سکتے ہوں جب وہ اسلام کو خیر باد کہہ دیں ۔ یاد رہے کہ اس بات پر قرآن نے واضح طور پر منصوص ہدایات دی ہیں کہ یہود ونصاری تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین وملت کو تسلیم نہ کرلو ۔ غرض یہ اتحاد اعتقادی اور نظریاتی طور پر بھی محال ہے جس طرح یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے ۔ عبداللہ ابن ابی ابن السلول نے جو معذرت کی ‘ (یہ شخص ان لوگوں میں سے تھا جن کی دل میں بیماری تھی ) اور اس سے آگے بڑھ کر یہودیوں کے ساتھ دوستی اور حلیفانہ تعلقات قائم کئے اور اس نے جو یہ کہا کہ وہ یہودیوں کے ساتھ اپنے حلیفانہ معاہدے تو نہیں توڑ سکتا کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو چکروں سے ڈرتا ہے یعنی اسے ڈر یہ تھا کہ حالات ایسے نہ ہوجائیں کہ خود اس پر سختی ہو ۔ یہ عذر اس بات کا مظہر ہے کہ اس کے دل میں بیماری تھی اور وہ ضعیف الایمان تھا ۔ اس لئے کہ ولی اور مددگار تو صرف اللہ ہوتا ہے ۔ ناصر تو صرف اللہ ہے ۔ اور اللہ کے سوا کسی اور سے نصرت طلب کرنا گمراہی ہے ۔ اگر کوئی طلب کرتا ہے تو اس کا یہ کام ہی عبث ہے اس کا کوئی فائدہ نہ نکلے گا لیکن ابن ابی کی حجت اور اس کا عذر ہر شخص کا عذر ہے جو کسی بھی دور میں ابن ابی ابن السلول کا کردار ادا کرتا ہے ۔ اس کا تصور بھی ہر اس منافق کا تصور ہے جو مریض القلب ہے اور جس نے حقیقت ایمان کو نہیں پایا ہے ۔ دوسری جانب حضرت عبادہ ابن الصامت کا دل یہودیوں کی دوستی سے بھر گیا جب اس نے دیکھا کہ یہ لوگ غدار ہیں اس لئے کہ وہ خود سچے مومن تھے ۔ انہوں نے یہودیوں کی دوستی اور حلیفانہ معاہدوں کو توڑ دیا ۔ جبکہ عبداللہ ابن ابی نے ان معاہدوں کو گرمجوشی سے لیا ‘ ان کو سینے سے لگایا اور انکو اپنے دانتوں میں مضبوط پکڑ لیا اس لئے کہ وہ منافق تھا ۔ یہ دو طریق کار ہیں اور دو طرز ہائے عمل ہیں ‘ یہ دونوں مختلف عقائد و تصورات سے پیدا ہوئے ۔ ان دونوں کی تہ میں دو مختلف شعور کام کر رہے تھے اور یہی اختلاف دو مختلف طرز ہائے عمل کے درمیان قیامت تک رہے گا ۔ ایک قلب مومن ہوگا اور دوسرا قلب ایسا ہوگا جس نے ایمان کو نہ پہچانا ہوگا ۔ جو لوگ دین کے ایسے دشمنوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں اور انکے ساتھ اکٹھ کرتے ہیں ‘ جو منافق ہیں کو ہیں اور جن کا نطریہ ‘ جن کی دوستی اور جن کا اعتماد اللہ اور رسول اللہ کے لئے مخلصانہ نہیں ہے ‘ ان کو اللہ تعالیٰ نہایت ہی سختی سے تنبیہ کرتے ہیں کہ اللہ کی جانب سے یا تو اہل اسلام کو فتح نصیب ہوگی یا اور کوئی ایسی بات ظاہر کردی جائے گی جو فیصلہ کن ہوگی اور اس طرح ان کا نفاق ظاہر ہوجائے گا ۔ اور وہ پھر بہت شرمندہ ہوں گے ۔ (آیت) ” فَعَسَی اللّہُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِہِ فَیُصْبِحُواْ عَلَی مَا أَسَرُّواْ فِیْ أَنْفُسِہِمْ نَادِمِیْنَ (52) ” مگر بعید نہی کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہوں گے ۔ اس وقت یعنی مکمل فتح کے قریب جیسے فتح مکہ ہوئی یا کسی اور ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کے وقت اور امر الہی کے آجانے کے وقت ‘ وہ لوگ سخت شرمندہ ہوں گے جن کے دل میں نفاق کی بیماری ہے کہ کیوں انہوں نے جلد بازی سے کام لیا اور یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ دوستی اور حلیفانہ معاہدے کر لئے ۔ وہ نفاق کرتے رہے اور اب ان کا راز کھل گیا ۔ ایسے حالات میں پھر اہل ایمان کو منافقین کے حال پر تعجب ہوگا کہ کس طرح یہ لوگ اپنے سینوں میں نفاق لئے ہوئے تھے اور اب یہ لوگ کس قدر گھاٹے میں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے کی ممانعت معالم التنزیل ج ٢ ص ٤٤ اور تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٦٨ میں لکھا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت (رض) جو انصار کے قبیلہ خزرج میں سے تھے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہودیوں میں میرے بہت سے دوست ہیں جن کی تعداد کثیر ہے۔ میں ان کی دوستی سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں اور اللہ اور اس کے رسول ہی کی دوستی کو پسند کرتا ہوں اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا (جو رئیس المنافقین تھا) مجھے تو زمانہ کی گردشوں کا خوف ہے جن لوگوں سے میری دوستی (یعنی یہود سے) میں ان سے بیزار نہیں ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے جل شانہ (یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ ) سے لیکر دو آیتیں نازل فرمائیں۔ ترک موالات کی اہمیت اور ضرورت در حقیقت کافروں سے ترک موالات کا مسئلہ بہت اہم ہے، اپنے دین پر مضبوطی سے جمتے ہوئے سب انسانوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنا ان کو کھلانا پلانا اور حاجتیں پوری کردینا یہ اور بات ہے لیکن کافروں کے ساتھ دوستی کرنا جائز نہیں ہے جب دوستی ہوتی ہے تو اس میں دوستی کے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جن میں بعض باتیں ایسی بھی بتانی پڑجاتی ہیں جن کے بتانے میں مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہو اور جس سے مسلمانوں کی حکومت میں رخنہ پڑتاہو اور جس سے مسلمانوں کی جماعت میں ضعف آتا ہو، جو سچے پکے مسلمان ہوتے ہیں وہ کافروں سے دوستی کرتے ہی نہیں اور جن لوگوں کے دلوں میں ایمان نہیں صرف زبانی طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور دل سے کافر ہیں وہ لوگ کافروں سے دوستی کرتے ہیں، یہ لوگ اسلام کے نام لیوا بھی بنتے ہیں لیکن چونکہ اندر سے مسلمان نہیں اس لئے کافروں کی دوستی چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انہیں یہ خوف بھی کھائے جاتا ہے کہ ممکن ہے مسلمان کو غلبہ نہ ہوا گر کھل کر مسلمان ہونے کا اعلان کردیں تو کافروں سے جو دنیاوی فوائد وابستہ ہیں وہ سب ختم ہوجائیں گے۔ اگر قحط پڑجائے یا اور کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچ جائے یا اور کوئی گردش آجائے تو کافروں سے کوئی بھی مدد نہ ملے گی اس خیال خام میں مبتلا ہو کر نہ سچے دل سے مومن ہوتے ہیں نہ کافروں سے بیزاری کا اعلان کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، زمانہ نبوت میں بھی ایسے لوگ تھے جن کا سردار عبد اللہ بن ابی تھا اس کا قول اوپر نقل فرمایا۔ اور آج کل بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مسلمانوں سے مل کر رہتے ہیں اور کافروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں، کافروں کے لئے جاسوسی بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کے اندرونی حالات انہیں بتاتے ہیں اور خفیہ آلات کے ذریعہ دشمنان اسلام کو مسلمانوں کے مشوروں اور ان کی طاقت اور عسا کرو افواج کی خبریں پہنچاتے ہیں، چونکہ یہ لوگ خالص دنیا دار ہوتے ہیں اس لئے نہ اپنی آخرت کے لئے سوچتے ہیں نہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے فکر کرتے ہیں صرف اپنی دنیا بناتے ہیں اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کیا نفع پہنچائیں گے آڑے وقت اور نازک حالات میں یہود و نصاریٰ سے ہی پناہ مل سکتی ہے (العیاذ باللہ تعالیٰ ) ۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ یہودو نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو شخص ان سے دوستی کریگا وہ انہیں میں سے ہے (دوستی کے درجات مختلف ہیں بعض مرتبہ دوستی ایسی ہوتی ہے کہ اسے نباہنے کے لئے ایمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے یہ تو سراپاکفر ہے اور فَاِنَہُ مِنْھُمْ کا حقیقی مصداق ہے اور اگر کسی نے ایمان کو چھوڑے بغیر کافروں سے دوستی کی تو اپنی دوستی کے بقدر درجہ بدرجہ انہیں میں سے شمار ہوگا اور یہ کیا کم ہے کہ دیکھنے والے اس دوستی کرنے والے کو کافروں کا ہی ایک فرد سمجھیں گے) (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) (بلا شبہ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا) کافروں سے دوستی کرنا اپنے اوپر اور دوسرے تمام مسلمانوں پر ظلم ہے اور یہ ظم کرنے والے اپنے خیال میں ہوشیار بن رہے ہیں راہ ہدایت سے منہ موڑے ہوئے ہیں انہیں ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے اللہ انہیں ہدایت نہیں دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

94: یہود و نصاریٰ کی خباثتیں اور ان کی بد اعمالیاں ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو ان سے ترک موالات کا حکم دیا کہ ان سے دوستی نہ کرو اور نہ باہمی تعاون اور امداد کا ان سے کوئی معاہدہ کرو بلکہ آپس میں دوستی اور محبت بڑھاؤ۔ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَاء بَعْضٍ ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں یہود آپس میں اور نصاریٰ آپس میں لیکن تمہارے دشمن ہیں اس لیے ان سے خیر خواہی یا بھلائی کی توقع مت رکھو۔ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ الخ جو ان سے دوستی کرے گا وہ بھی انہی میں شمار ہوگا یہ بطور زجر و توبیخ فرمایا۔ وَ ھُوَ مخرج مخرج التشدید و المبالغۃ فی الزجر (روح ج 6 ص 157): بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ سے موالات کی وجہ سے انہی جیسے مجاہدین ہوجائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi