Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 56

سورة المائدة

وَ مَنۡ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿۵۶﴾٪  12

And whoever is an ally of Allah and His Messenger and those who have believed - indeed, the party of Allah - they will be the predominant.

اور جو شخص اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے ، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالٰی کی جماعت ہی غالب رہے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And whosoever takes Allah, His Messenger, and those who have believed, as protectors, then the party of Allah will be the victorious. similarly Allah said; كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ لااَّ تَجِدُ قَوْماً يُوْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الااٌّخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَأدَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُواْ ءَابَأءَهُمْ أَوْ أَبْنَأءَهُمْ أَوْ إِخْوَنَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَـيِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ الااِيمَـنَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّـتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا الااٌّنْهَـرُ خَـلِدِينَ فِيهَا رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ أُوْلَـيِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلااَ إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ Allah has decreed: "Verily, it is I and My Messengers who shall be the victorious." Verily, Allah is All-Powerful, Almighty. You will not find any people who believe in Allah and the Last Day, making friendship with those who oppose Allah and His Messenger, even though they were their fathers or their sons or their brothers or their kindred (people). For such He has written faith in their hearts, and strengthened them with a Ruh (proof) from Himself. And He will admit them to Gardens (Paradise) under which rivers flow to dwell therein (forever). Allah is pleased with them, and they with Him. They are the party of Allah. Verily, it is the party of Allah that will be the successful. (58:21-22) Therefore, those who accept the allegiance of Allah - His Messenger and the faithful believers - will gain success in this life and the Hereafter. Hence Allah's statement here, وَمَن يَتَوَلَّ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ امَنُواْ فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (And whosoever takes Allah, His Messenger, and those who have believed, as protectors, then the party of Allah will be the victorious).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یہ حزب اللہ ہے (اللہ کی جماعت) کی نشاندہی اور اس کے غلبے کی نوید سنائی جا رہی ہیں۔ حزب اللہ وہی ہے جس کا تعلق صرف اللہ، رسول اور مومنین سے ہو اور کافروں، مشرکوں اور یہود و نصاریٰ سے چاہے وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، وہ محبت و معاملات کا تعلق نہ رکھیں۔ جیسا کہ سورة مجادلہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ " تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہوں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، ان کے بیٹے ہوں، ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں، پھر خوشخبری دی گئی کہ " یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہے، انہیں ہی اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔۔ اور یہی حزب اللہ ہے، کامیابی جس کا مقدر ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] غلبہ صرف سچے مومنوں کو ہوگا :۔ یعنی مسلمانوں کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ ان کے حقیقی خیر خواہ صرف وہ مسلمان ہی ہوسکتے ہیں جو سچے مسلمان ہیں۔ فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کی صورت حال یہ تھی کہ کفار کے مقابلہ میں تعداد میں کم تھے۔ ان کے معاشی حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ فتح خیبر میں اموال غنیمت میں بہت سے کھجوروں کے درخت مسلمانوں کے حصہ میں آئے تو یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کو سیر ہو کر کھانے کو کھجوریں ملیں اور مہاجروں نے انصار کے وہ کھجوروں کے درخت واپس کیے جن میں وہ محنت کرتے تھے اور عوضانہ کے طور پر نصف پیداوار لیا کرتے تھے۔ سیاسی حالات بھی کچھ ایسے تھے کہ تمام اہل عرب اس بات کے منتظر تھے کہ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا ہے یا کفر غالب آتا ہے ؟ یہود، مشرکین، عیسائی، اور دیگر قبائل عرب سب نے مل کر مسلمانوں کو سخت پریشان کر رکھا تھا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بطور تسلی یہ یقین دلا رہے ہیں کہ کفار سے دوستانہ مراسم رکھنے سے پوری طرح اجتناب کرو اور دوستی اور محبت صرف ان لوگوں سے رکھو جو اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے سچے مسلمان ہیں اور کامیابی اور غلبہ یقینا تمہیں ہی حاصل ہوگا۔[٩٩۔ الف ] کافروں منافقوں اہل کتاب سب سے دوستی کی ممانعت :۔ اس آیت میں مکرر سہ کرر مسلمانوں کو اس بات کی تاکید اور تاکید مزید کی جا رہی ہے کہ اہل کتاب ہوں یا دوسرے کافر و مشرک ہوں، جو لوگ بھی اللہ کا، اللہ کے رسول کا، اللہ کی آیات کا اور اللہ کے دین کی دوسری باتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان میں سے کسی سے کبھی دوستی نہ گانٹھو۔ ایسے لوگ کبھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ایسے لوگوں سے متعلق پہلے احکام گزر چکے ہیں کہ جہاں یہ لوگ ایسی مجلس لگائے ان خرافات میں مشغول ہوں وہاں تم ہرگز نہ بیٹھا کرو۔ الا یہ کہ تم میں اتنی قوت ہو کہ تم ان کو زور بازو یا دلیل کی قوت سے روکنے کی کوشش کرو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In other words, it is said here that those who obey the commands of Allah are the People of Allah. Given to them is the good news that they will be the ones to finally overcome. The events which unfolded later on confirmed the veracity of this statement when everyone saw that the noble Companions, may Allah be pleased with them all, overcame all powers which threatened them. When internal rebellions challenged Sayyidna Abu Bakr (رض) ، Allah Almighty helped him prevail over all of them. When the towering powers of Ceaser and Cyrus marshaled their menacing might against Sayyidna ` Umar al-Faruq (رض) ، Allah Almighty effaced them from the face of the earth. Then, as long as these injunctions were dutifully observed by the Khulafa& and Muslims at large who came after them - by abstaining from establishing close bonds of friendship with non-Muslims - they had always remained winners in the struggle of life.

ارشاد فرمایا : وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ ، اس میں ارشاد فرمایا کہ ان احکام الٓہیہ کی تعمیل کرنے والے مسلمان اللہ کا گروہ ہیں اور پھر یہ خوش خبری سنا دی کہ اللہ کا گروہ ہی انجام کار سب پر غالب آکر رہے گا۔ آنے والے واقعات نے اس کی ایسی تصدیق کردی کہ ہر آنکھوں والے نے دیکھ لیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب پر غالب آ کر رہے۔ جو طاقت ان سے ٹکرائی پاش پاش ہوگئی خلیفہ اول صدیق اکبر (رض) کے مقابلہ پر اندرونی فتنے اور بغاوتیں کھڑی ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سب پر غالب فرمایا۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کے مقابلہ پر دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں قیصر و کبری آگئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ اور پھر ان کے بعد کے خلفاء اور مسلمانوں میں جب تک ان احکام کی پابندی رہی کہ مسلمانوں نے غیروں کے ساتھ خلط ملط اور گہری دوستی کے تعلقات قائم نہیں کئے وہ ہمیشہ مظفر و منصور نظر آئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝ ٥٦ۧ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) یوں سمجھ لیں کہ یہاں یہ فقرہ محذوف ہے : تو وہ شامل ہوجائے گا حزب اللہ (اللہ کی پارٹی) میں۔ (فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) یہ شرائط پہلے پوری کی جائیں ‘ ان تمام معیارات پر پورا اترا جائے ‘ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر ایمان رکھا جائے ‘ تو پھر یقیناً حزب اللہ ہی غالب رہے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 شعیہ حضرات علی (رض) کی امامت بلا فصل ثاتب کرتے ہیں ان کے استدلال کا مدار تو اس بات پر ہے کہ یہ آیت خالص کر حضرت علی (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے مگر ہم نے یہ ثاتب کیا ہے کہ آیت عبادہ (رض) بن صامت اور ان کے رفقا (رض) کے حق میں نازل ہوئی ہے اور حضرت علی (رض) فی الجملہ ان میں داخل ہی اسکے علاوہ جب اس آیت میں تمام صیغے جمع کے ہیں تو پھر صرف حضرت علی (رض) کیسے مراد ہوسکتے ہیں اور پھر جب آیت کے نزول کے ساتھ ہی مومنین کی ولادت ثابت ہوگئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدتک اس کو ملتوی رکھنا نے معنی ہے نیز ولی کے معنی دوست اور مددگار کے بھی آتے ہیں اور والی اور متصف کے بھی سیاق وسباق معنی اول کا مئو ید ہے تو بلا قرینہ سیاق کیخلاف دوسرے معنی لینے کے لیے کونسی وجہ جواز ہوسکتی ہے۔ امام رازی (رح) نے آٹھ دلائل سے ثاتب کیا ہے کہ آیت ولی کے پہلے معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی دلائل کے خلاف ہیں۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ومن یتول اللہ ورسولہ والذین امنوا فان حزب اللہ ھم الغلبون (٥٦) (٥ : ٥٥۔ ٥٦) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اور اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ۔ ایمان کے اصول کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے غلبے کا وعدہ کیا ہے ۔ اور ایمانی اصل اور ایمانی قاعدہ یہ ہے کہ موالات اور دوستی صرف اللہ ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لئے ہو۔ پہلے یہ حکم دیا گیا کہ اگر تم یہودیوں کے ساتھ موالات کرو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم اسلامی صفوں سے خارج تصور ہوگا ‘ تمہارا شمار یہودونصاری میں ہوگا اور معنوی اعتبار سے تمہارا یہ عمل دین سے ارتداد ہوگا۔ یہ لمحہ فکریہ قرآن میں بار بار آتا ہے ‘ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ایک مسلمان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اسلام کو مطلقا خیر سمجھے اور اس پر چلے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ غالب ہوگا یا اسے زمین کے اندر اقتدار اعلی نصیب ہوگا ۔ تمکن فی الارض اور غلبہ تو ایمان کے آثار ہیں اور اپنے وقت پر ضرور نمودار ہوتے ہیں اور یہ اس لئے نمودار ہوتے ہیں کہ اللہ کی تقدیر پردے سے ظاہر ہو کہ اس نے اس دین کو اس کرہ ارض پر غالب کرنا ہے ۔ غلبے کا ویہ وعدہ اس لئے نہیں ہے کہ لوگ اس وعدے کے بل بوتے پر دین میں داخل ہوجائیں ۔ محض غلبہ مقصود نہیں ہے ‘ نہ اس میں ان کی ذات اور شخصیت کا کوئی فائدہ ہے ‘ یہ تو اللہ کی تقدیر ہوتی ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ازپس پردہ تقدیر نمودار ہوتی ہے ۔ یہ غلبہ جو انہیں نصیب ہوتا ہے تو یہ ان کے نظریہ حیات کے لئے ہوتا ہے ‘ ان کی ذات کے لئے نہیں ہوتا ۔ ان کے لئے اگر کچھ ہے تو وہ اس راہ جدوجہد کرنے کا ثواب اخروی ہے اور یہ اخروی ثواب انہیں اس جدوجہد کے ان نتائج پر بھی ملے گا ۔ مثلا کرہ ارض پر اگر دین غالب ہوجاتا ہے تو اس زمین پر جو اصلاحی کام ہوتا ہے ‘ اس تمام کا ثواب انہیں ملے گا ۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ غلبے کا وعدہ کرتا ہے تاکہ وہ ثابت قدم ہوجائیں اور ان کے سامنے جو مشکلات بھیانک صورت میں کھڑی ہیں ان کے اثرات سے وہ آزاد ہوجائیں ۔ یہ مشکلات بعض نہایت ہی تباہ کن ہوتی ہیں ۔ جب وہ انجام کا یقین حاصل کرلیتے ہیں تو ان کے دل قوی ہوجاتے ہیں اور وہ مشکلات کو انگیز کرلیتے ہیں ۔ وہ مشکل گھاٹی کو سر کرلیتے ہیں اور پرامید ہوجاتے ہیں کہ اللہ ان کے ہاتھوں اس امت کے لئے کوئی بھلائی برپا کردے گا ۔ ان کو جہاد کا ثواب ملے گا اور دین کے غلبے کا ثواب ملے گا اور اس پر جو نتائج مرتب ہوں گے ان کا ثواب بھی ملے گا ۔ غرض اس مقام پر اس آیت کے لانے سے معلوم ہوتا پر اس آیت کے لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں جماعت مسلمہ کے شب وروز کیا تھے اور یہ کہ ایسی خوشخبری کی ضرورت تھی ۔ چناچہ یہ فیصلہ دیا گیا کہ غلبہ حزب اللہ ہی کا ہوگا ۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہ آیات کس دور میں نازل ہوئیں ۔ ان حالات میں ہمارے لئے تمام نتائج کا خلاصہ اس مختصر فیصلے میں دے دیا جاتا ہے کہ حزب اللہ کو غلبہ ہوگا اور ایک مومن مطمئن ہوجاتا ہے کہ بس یہی ہے سنت الہیہ کہ حزب اللہ غالب ہوگی اگرچہ بعض معرکوں میں اسے بظاہر شکست بھی ہوجائے ‘ اس لئے کہ بعض ظاہری حالات کے ہوتے ہوئے بھی اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے ۔ ہاں بعض مراحل تحریک میں شکست بھی نظر آتی ہے ۔ اس وعدے کے تحقق کی راہ بہرحال ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ موالات صرف اللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لئے ہو۔ اب ذرا اس امر پر غور کریں کہ قرآن مجید نے اہل ایمان کو ان لوگوں کے ساتھ تعلق موالات قائم کرنے سے بار بار منع کیا ہے جو اہل ایمان کے نظریے کے خلاف ہیں ۔ اور ان کے لئے نئے نئے انداز اختیار کئے ہیں تاکہ یہ بات ان کے احساس و شعور کا حصہ بن جائے اور یہ اصول ان کے ایمان کا حصہ بن جائے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تصور حیات میں اس اصول کی کس قدر زیادہ اہمیت ہے ۔ اس سلسلے میں جب اہل ایمان کے نام پہلی پکار جاری ہوئی تو وہ براہ راست تھی اور اس میں ان کو منع کیا گیا کہ اہل کتاب کے ساتھ تعلق موالات قائم کریں ۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ فتح لے آئیں گے یا کوئی اور حکم جاری کردیں گے اور اس طرح تمام راز فاش ہوجائیں گے ۔ دوسری پکار میں ان کو اس بات سے ڈرایا گیا کہ اگر وہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے دشمنوں سے تعلق موالات کریں گے تو مرتد ہوجائیں گے بلکہ چاہئے کہ تم ایک ایسی رجمنٹ کے سپاہی بن جاؤ جو اللہ کی خاص رجمنٹ ہے ۔ جس سے اللہ کو پیار ہے اور اس کو بھی اللہ سے محبت ہے ۔ اور یہی اللہ کی پارٹی ہے جسے غلبہ نصیب ہوگا ۔ اب یہاں ایک تیسری پکار ہمارے سامنے آتی ہے اس میں اہل ایمان کے جذبہ حمیت دین کو ابھارا جاتا ہے کہ دیکھو یہ لوگ تو تمہارے دین ‘ تمہارے طریقہ عبادت کے نہ صرف یہ کہ مخالف ہیں بلکہ وہ تمہارے طریقوں کے ساتھ سخت مذاق بھی کرتے ہیں اس تیسری پکار میں اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کیا کہ وہ اہل کتاب کے ساتھ ساتھ دوسرے کفار کے ساتھ بھی تعلق موالات نہ رکھیں اور خدا خوفی کا رویہ اپنائیں ۔ اگر وہ مومن ہیں تو اللہ کی ان ہدایات پر اچھی طرح غور کریں اور اس پکار میں اہل کتاب اور کفار کی ایک دائمی صفت کا ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ بےعقل ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوستی کرنیوالے ہی غالب ہوں گے پھر فرمایا (وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ھُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) (اور جو شخص دوستی کرے اللہ سے اور اس کے رسول سے اور ایمان والوں سے سو اللہ کے گروہ کے لوگ ہی غالب ہونے والے ہیں) ۔ اس میں ان لوگوں کو تنبیہ ہے جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کریں اور اس تردد میں رہیں کہ نہ جانے کون غالب ہوتا ہے، اگر کافروں سے دوستی رکھی اور وہ غالب ہوگئے تو یہ دوستی کام دیگی جیسا کہ عبد اللہ بن ابی نے کہہ دیا تھا (نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآءِرَۃٌ) (ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہم پر کوئی گردش آجائے) اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا کہ اللہ کا گروہ ہی غالب ہوگا، جو اللہ کے دین کو زندہ کرنے اور پھیلانے اور بڑھانے کے لئے محنت کرتے ہیں اللہ کے لئے جیتے اور مرتے ہیں یہ لوگ حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت ہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے ان کی مدد ہوتی ہے اور ان کو غلبہ حاصل ہوتا ہے سورة مجادلہ میں فرمایا (کَتَبَ اللّٰہُ لَآغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) اللہ لکھ چکا ہے کہ ضرور غالب رہوں گا میں اور میرے رسول، بیشک اللہ زور والا ہے زبردست ہے۔ سورة الصّٰفّٰت میں فرمایا : (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ اِِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُوْنَ وَاِِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُوْنَ ) (اور پہلے ہی ہمارا حکم ہوچکا اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے لئے بیشک پیغمبروں ہی کی مدد ہوگی اور بیشک ہمارا لشکر ہی غالب ہے) ۔ مسلمانوں کی مغلوبیت کا سبب اہل ایمان جب ایمان پر جمے رہیں، نافرمانیوں سے بچتے رہیں اللہ پر بھروسہ رکھیں، احکام الہیہ کے مطابق زندگی گزاریں اور اخلاص کے ساتھ کافروں سے جنگ کریں تو ضرور یہی لوگ غالب ہوں گے کسی بےتدبری یا معصیت کیوجہ سے کبھی کوئی زک پہنچ جائے تو یہ دوسری بات ہے، آیت کا یہ مطلب نہیں کہ کبھی کوئی مسلمان کافروں کے ہاتھ سے نہ مارا جائیگا اور شہید نہ ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ انجام کار کے طور پر فتح و نصرت اور غلبہ اہل ایمان ہی کو حاصل ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل ایمان جب تک ایمان پر قائم رہے اخلاص کے ساتھ کافروں سے لڑتے رہے، اللہ کے دین کو بلند کرنے کے جذبہ سے سرشار رہے، عالم میں فتح یابی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں ان کے جہاد کی وجہ سے پاش پاش ہوئیں بڑے بڑے ممالک ان کے زیرنگیں آگئے اور کفار پیچھے ہٹتے چلے گئے لیکن جب سے اعمال شرعیہ کی پابندی چھوڑی اللہ کی نافرمانیوں پر اتر آئے دنیا کو مقصود بنا لیا۔ کافروں کی دوستی کا دم بھرنے لگے تو ان کے قبضہ میں جو ممالک تھے وہ بھی ہاتھ سے نکل گئے اور کافروں نے عالمی ادارے بنا کر مسلمانوں کو ان کا ممبر بنا لیا۔ اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دی اور پس پر دہ کٹھ پتلی کی طرح انہیں نچا دیا، مسلمان اب بھی صحیح طریقہ پر حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت بنیں تو اب بھی غلبہ پاسکتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

101 جو لوگ اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین سے دوستی اور محبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں۔ یعنی اللہ اور رسول کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں اور ایمان والوں کے خلاف بغض و عداوت نہیں رکھتے بلکہ ان سے اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں تو یہ لوگ حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت ہیں اور اللہ کی جماعت ہی انجام کار غالب اور کامران ہوتی ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں سے محبت و موالات کرنے کی ترغیب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 مسلمانو ! تمہارا حقیقی ولی اور مددگار تو اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ کا رسول ہے اور تمہارے حقیقی مددگار وہ مسلمان ہیں جو نماز کے پابند ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اپنی نمازوں میں رکوع بھی کرتے ہیں یعنی بےرکوع کی نماز نہیں پڑھتے اور جو شخص اس ضابطہ کے موافق اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور اہل ایمان سے رفاقت کرے گا اور ان مذکورین سے دوستی قائم رکھے گا تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں ہوں گے اور اس امر کا یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت اور اس کا گروہ ہی غالب ہونے والا ہے۔ آیت میں حقیقی ولایت کی طرف توجہ دلائی کہ حقیقی ولایت اور معاونت اور رفاقت کا مستحق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تبعاً اس کا رسول اور صالح مسلمان ہیں نماز اور زکوۃ کے پابند ہیں اور نماز بھی یہود کی طرح نہیں کہ بےرکوع کی نماز پڑھتے ہیں بلکہ رکوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ راکعون کے معنی تواضح کرنے والے ہوں یعنی نماز و زکوۃ کے ساتھ ان کا مزاج عاجزی اور تواضع ہے۔ نخوت اور تکبر نہیں ہے اور نیکیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانے والے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ راکعون میں نوافل کی جانب اشارہ ہو کہ فرائض کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتے ہیں۔ اوپر فرمایا تھا کہ جو شخص اہل کتاب سے دوستی اور نصرت معونت کے تعلقات قائم کرے گا تو وہ ان میں ہی سے شمار کیا جائے گا۔ یہاں فرمایا ۔ ومن یتول اللہ و رسولہ و الذین امنوا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اہل ایمان سے مودت اور نصرت و معونت کے تعلقات وابستہ رکھیں گے تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی جماعت اور اس کے گروہ میں شمار کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہوں گے اور اللہ کی جماعت غالب ہونے والی ہے اور منکر مغلوب ہونے والے ہیں تو غالب ہونے والوں کی دوستی مفید ہے یا مغلوب ہونیوالوں کی ؟ یہاں تک یہود و نصاریٰ کے طرز عمل اور ان کے ساتھ برتائو کا ذکر تھا آگے کی آیت میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دیگر مشرکین کے طریقہ کار کا بھی ذکر فرمایا اور ان کے ساتھ دوستی رکھنے کی بھی ممانعت مذکور ہے اور مسلمانوں کو تنبیہہ فرمائی کہ یہ لوگ کسی طرح بھی دوستی اور بھروسہ کے لائق نہیں ہیں یہ تو اسلام کا مذاق اڑانے والے ہیں اور احکام اسلام کے ساتھ دل لگی اور مذاق کرنیوالے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)