Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 57

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَکُمۡ ہُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ الۡکُفَّارَ اَوۡلِیَآءَ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾

O you who have believed, take not those who have taken your religion in ridicule and amusement among the ones who were given the Scripture before you nor the disbelievers as allies. And fear Allah , if you should [truly] be believers.

مسلمانو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں ( خواہ ) وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of Being Loyal Friends with Disbelievers Allah said; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا ... O you who believe! Do not take as friends those who take your religion for a mockery and fun, This Ayah discourages and forbids taking the enemies of Islam and its people, such as the People of the Book and the polytheists, as friends. These disbelievers mock the most important acts that any person could ever perform, the honorable, pure acts of Islam which include all types of good for this life and the Hereafter. They mock such acts and make them the subject of jest and play, because this is what these acts represent in their misguided minds and cold hearts. Allah said; ... مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ ... from those who received the Scriptures before you and (nor) the disbelievers..., This is to clarify the particular category (of disbelievers). As Allah said, فَاجْتَنِبُواْ الرِّجْسَ مِنَ الاٌّوْثَـنِ So shun the evil of the idols... (22:30) So some recited it "Kuffari", making it an object of the preposition, and others recited it "Kuffara", making it a predicate noun; ... لااَ تَتَّخِذُواْ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ ... Take not as friends those who take your religion for a mockery and fun from those who received the Scriptures before you..., with the meaning of "nor", ... وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاء ... nor the disbelievers as friends, That is, do not take these people nor those people as friends. The meaning here of "Kuffar" (disbelievers) is idolators. Similarly, Ibn Jarir recorded that; in the recitation of Ibn Mas`ud (in place of "Kuffar" he recited it: "and those who commit Shirk." Allah's statement, ... وَاتَّقُواْ اللّهَ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ And have Taqwa of Allah if you indeed are true believers. means, fear Allah and do not take the enemies of you and your religion as friends, if you believe in Allah's Law and religion that these people mocked and jested about. Allah said in another Ayah, لااَّ يَتَّخِذِ الْمُوْمِنُونَ الْكَـفِرِينَ أَوْلِيَأءَ مِن دُونِ الْمُوْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَىْءٍ إِلااَ أَن تَتَّقُواْ مِنْهُمْ تُقَـةً وَيُحَذِّرْكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ Let not the believers take the disbelievers as friends instead of the believers, and whoever does that, will never be helped by Allah in any way, except if you indeed fear a danger from them. And Allah warns you against Himself, and to Allah is the final return. (3:28) The Disbelievers Mock the Prayer and the Adhan Allah said,

اذان اور دشمنان دین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں ۔ من بیان جنس کیلئے جیسے ( من الاوثان ) میں ۔ بعض نے ( والکفار ) پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے ( والکفار ) پڑھا ہے اور ( لاتتخذوا ) کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت ( والا الکفار اولیاء ) ہو گی ، کفار سے مراد مشرکین ہیں ، ابن مسعود کی قرأت میں ( و من الذین اشرکوا ) ہے ۔ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو ۔ یہ تو تمہارے دین کے ، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:28 ) مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے ، اس لئے کہ یہ متبع شیطان ہیں ، اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے بعد آ جاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آکر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے ۔ ( متفق علیہ ) امام زہری فرماتے ہیں اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی ۔ ایک نصرانی مدینے میں تھا ، اذان میں جب اشہد ان محمدا رسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی ، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی ، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہو گیا ۔ فتح مکہ والے سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا ، قریب ہی ابو سفیان بن حرب ، عتاب بن اسید ، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے ، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا ۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا ۔ ابو سفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا ، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کر دیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور فرمانے لگے اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں ، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ سے کہدیا ہوگا ( سیرۃ محمد بن اسحاق ) حضرت عبداللہ بن جبیر جب شام کے سفر کو جانے لگے تو حضرت محذورہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے ، کہا آپ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئے ۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے ، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان کہی ، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا ، کہیں آپ کے کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے پاس لے گیا ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی؟ سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا اٹھو اذان کہو واللہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اور آپ کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بےبس تھا ، کھڑا ہو گیا ، اب خود آپ نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے ، میں کہتا رہا ، پھر اذان پوری بیان کی ، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ نے مجھے ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی ، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت بالکل جاتی رہی ، ایسی محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دل میں پیدا ہو گئی ، میں نے آرزو کی کہ مکے کا مؤذن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بنا دیں ۔ آپ نے میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکے میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر حضرت عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہو گیا ۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ : اوپر کی آیات میں خاص طور پر یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا، اب یہاں تمام کفار کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اس آیت کی رو سے ان بےدین لوگوں اور اہل بدعت سے دلی دوستی رکھنا بھی جائز نہیں جنھوں نے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے، کبھی داڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں، کبھی مسنون لباس کا اور کبھی اللہ تعالیٰ کی حدود کا۔ اسی طرح سنت کے مطابق نماز کا مذاق اڑاتے ہیں اور جو شخص پیدائش، نکاح اور موت کے وقت کفار خصوصاً ہندوؤں کی رسموں میں ان کا ساتھ نہ دے، اس کا مذاق اڑاتے ہیں تو جب ان میں بھی وہی وصف پایا جاتا ہے جو اہل کتاب اور کفار میں پایا جاتا ہے تو ان کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو اہل کتاب اور کفار کا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Prohibition of Friendship with those who make fun of Islam In the sixth verse (57), Allah Almighty has again stressed upon the injunction mentioned in verse 51 at the beginning of the Section, the sense of which is that the Muslims should not seek close friendship with people who make fun of their religion. They can be divided in two groups: The People of the Book, that is, the Jews and the Christians; and the disbelievers and non-Muslims in general. In al-Bahr al-Muhit, Imam Abu Hayyan (رح) says that the People of the Book were already in¬cluded under the word, Kuffar or disbelievers, still, the People of the Book have been mentioned here particularly perhaps, because the Peo¬ple of the Book were, though, closer to Islam as compared with other disbelievers, yet, experience bears that very few from among them embraced Islam. This is the reason why a look into the statistics of those who embraced Islam after the age of prophethood and during the peri¬od later to it, will reveal that the majority of them were from among the common disbelievers. The number of those who became Muslims from among the People of the Book will be much lower. Why would that be so? The reason is simple. The People of the Book take pride in being adherents to Divine Faith and Divine Scripture. This proud partisanship made them opt for not accepting the Truth. The attitude of mockery against Muslims was something that they displayed most. When mockery becomes wickedness, things much lower can happen, as would be illustrated by an episode mentioned in the eighth (58) verse in the following words: وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا (And when you call for Salah, they take it in jest and fun). Tafsir Mazhari, with reference to Ibn Abi Hatim, reports the event itself by saying that there was a Christian in Madinah al-tayyibah. When he heard the words : اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَاً رَّسُولُ اَلله (I testify that Muhammad is the Messenger of Allah) in the Adhan (call for prayer), he used to say: اَحرَقَ اَللہُ الکَذِبَ (May Allah burn the liar). At last, this very remark made by him became the cause of his entire family burn to ashes. How this happened was commonplace. When he was sleeping, his servant entered the house with a little fire for some purpose. A speck from it flew out and fell down on some piece of cloth. When everybody was fast asleep, the speck had turned into a blaze and everybody was burnt to death. The Tragedy of People who do not Understand At the end of the verse (58), it was said ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ (That is be-cause they are a people who do not understand). It means that the reason for their jest and fun being directed against what is True Faith could be no other but that they do not understand. Qadi Thanaullah of Panipat has said in Tafsir Mazhari that Allah Almighty calls them devoid of understanding although their reason and intelligence in worldly matters is well known. From here we learn that it is possible that one could be very smart and quick-witted in cer¬tain kinds of jobs, but when it comes to doing some other things, he ei¬ther does not use his mind or his mind does not work in that direction. Therefore, he turns out to be dumb in it, like one who does not under-stand. The Holy Qur&an has referred to this subject in another verse as follows: يَعْلَمُونَ ظَاهِرً‌ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ‌ةِ هُمْ غَافِلُونَ ﴿٧﴾ These people do know outward matters of the present life while they are heedless to the Hereafter. (30:7)

چھٹی آیت میں پھر بطور تاکید کے اس حکم کا اعادہ فرمایا گیا ہے جو شروع رکوع میں بیان ہوا تھا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کو اپنا رفیق یا گہرا دوست نہ بناؤ، جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل قرار دیتے ہیں۔ اور یہ دو گروہ ہیں۔ ایک اہل کتاب، دوسرا عام کفار و مشرکین۔ امام ابوحیان نے بحر محیط میں فرمایا کہ لفظ کفار میں تو اہل کتاب بھی داخل تھے پھر خصوصیت کے ساتھ اہل کتاب کا مستقل ذکر اس جگہ غالباً اس لئے فرمایا گیا کہ اہل کتاب اگرچہ ظاہر میں بہ نسبت دوسرے کفار کے اسلام کے ساتھ قریب تھے، مگر تجربہ نے یہ بتلایا کہ ان میں سے بہت کم لوگوں نے اسلام کو قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عہد رسالت اور مابعد کے ایمان لانے والے لوگوں کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ان میں کثرت عام کفار کی نکلے گی، اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہوگی۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اہل کتاب کو اس پر ناز ہے کہ ہم دین الٓہی اور کتاب آسمانی کے پابند ہیں، اس فخر و ناز نے ان کو حق قبول کرنے سے باز رکھا۔ اور مسلمانوں کے ساتھ تمسخر و استہزاء کا معاملہ بھی زیادہ تر انہوں نے کیا، اسی شرارت پسندی کا ایک واقعہ وہ ہے جو ساتویں آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : وَاِذَا نَادَيْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّلَعِبًا، یعنی جب مسلمان نماز کے لئے اذان دیتے ہیں تو یہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کا واقعہ بحوالہ ابن ابی حاتم تفسیر مظہری میں یہ نقل کیا ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک نصرانی تھا، وہ جب اذان میں اشھد ان محمد الرسول اللّٰہ کا لفظ سنتا تو یہ کہا کرتا تھا احرق اللّٰہ الکاذب یعنی جھوٹے کو اللہ تعالیٰ جلا دے۔ آخر کار اس کا یہ کلمہ ہی اس کے پورے خاندان کے جل کر خاک ہوجانے کا سبب بن گیا، جس کا واقعہ یہ پیش آیا کہ رات کو جب یہ سو رہا تھا اس کا نوکر کسی ضرورت سے آگ لے کر گھر میں آیا اس کی چنگاری اڑ کر کسی کپڑے پر گر پڑی اور سب کے سو جانے کے بعد وہ بھڑک اٹھی۔ اور سب کے سب جل کر خاک ہوگئے۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا : ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ ، یعنی دین حق کے ساتھ اس تمسخر و استہزاء کی وجہ اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ یہ لوگ بےعقل ہیں۔ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بےعقل فرمایا ہے حالانکہ امور دنیا میں ان کی عقل و دانش مشہور و معروف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان ایک قسم کے کاموں میں ہوشیار عقلمند ہو مگر دوسری قسم میں یا وہ عقل سے کام نہیں لیتا یا اس کی عقل اس طرف چلتی نہیں، اس لئے اس میں بیوقوف لا یعقل ثابت ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی مضمون کو دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے : (آیت) یعلمون ظاہرا تاہم غفلون، یعنی یہ لوگ دنیاوی زندگی کے سطحی امور کو تو خوب جانتے ہیں مگر انجام اور آخرت سے غافل ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاۗءَ۝ ٠ۚ وَاتَّقُوا اللہَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ٥٧ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ هزؤ والاسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ( ھ ز ء ) الھزء الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے یا یھا الذین امنوا لاتتخذو الذین اتخذوادینکم ھزوا والعبا ًمن الذین اوتوا الکتاب من قبلکم والکفار اولیاء اے ایمان لانے والو ! تمہارے پیش رو اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انہیں اور دور سے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بنائو۔ آیت میں کافروں سے مدد لینے کی نہی ہے اس لیے اولیاء یعنی دوست اور رفیق وہ لوگ ہوتے ہیں جو مدد کرتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ جب آپ نے احد کے معرکے پر نکلنے کا ارادہ کا ارادہ کیا تو یہودیوں کا ایکگروہ آ کر کہنے لگا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے ۔ آپ نے انہیں جو اب دیتے ہوئے فرمایا :” ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منافقین کی ایک بڑی تعداد مشرکین سے نبردآزما ہوتی تھی۔ ہمیں عبد الباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے ، انہیں ابو مسلم نے ، انہیں حجاج نے ، انہیں حماد نے محمد بن اسحاق سے ، انہوں نے زہری سے کہ کچھ یہودیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تھا آپ نے مال غنیمت میں سے مسلمانوں کے حصوں کی طرح انہیں بھی حصہ دیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی ایک روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ہے۔ انہیں ابو دائود نے ، انہیں مسدو اور یحییٰ بن معین نے ، انہیں یحییٰ نے مالک سے ، انہوں نے فضل سے ، انہوں نے عبد اللہ بن نیار سے ، انہوں نے عرو ہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے یحییٰ بن معین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک کافر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگیا اور کہنے لگا کہ میں بھی آپ کے ساتھ مل کر دشمنوں کا مقابلہ کروں گا ۔ آپ نے اسے واپس جانے کا کہہ دیا ۔ اس کے بعد روایت کے الفاظ میں مسدد اور یحییٰ بن معین دونوں کا اتفاق ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انا لا نستعین بمشرک ہم کسی مشرک سے مدد نہیں لیتے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ مشرکین کے مقابلے کے لیے مشرکین سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ کامیابی کے بعد اسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے لیکن اگر صورت حال یہ ہو کہ فتحیابی کے بعد شرک کو غلبہ حاصل ہونے کا امکان ہو تو پھر مسلمانوں کو ان کے ساتھ مل کر قتال نہیں کرنا چاہیے ۔ اصحاب سیر و مغازی نے کثرت سے یہ بات نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بعض اوقات یہودیوں کا کوئی نہ کوئی گروہ جنگ پر جایا کرتا تھا اور بعض اوقات مشرکین کا گروہ بھی آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔ رہ گئی وہ حدیث جس میں آپ نے فرمایا ہے انا لا نستعین بمشرک یعنی ہم ایسے مشرک سے مد د نہیں لیتے جس کی اس جیسی کیفیت ہو ۔ قول باری ہے لو لا ینھاھم الربا نیون والا حبار عن قولھم الاتم و اکلھم الحست کیوں ان کے علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے۔ ایک قول ہے کہ یہاں لولا کا لفظ ھلا کے معنوں میں ہے یہ ماضی اور مستقبل دونوں صیغوں پر داخل ہوتا ہے۔ اگر یہ مستقبل کے لیے ہو تو پھر امر کے معنوں میں ہوتا ہے جس طرح یہ قول ہے۔ الم لا تفعل تم ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ یعنی ایسا کرلو اس مقام پر یہ لفظ مستقبل کے لیے ہے۔ یعنی ھلا ینھاھم اور لم لا ینھاھم کے معنوں میں ہے۔ اگر یہ لفظ ماضی کے لیے ہو تو اس سے بیخ مراد ہوتی ہے یعنی پھر یہ جھڑکنے اور دھمکانے کے معنی ادا کرتا ہے۔ مثلاً یہ قول باری ہے لولا جاء کم علیہ باربعۃ شھدا انہوں نے اپنی اس بات پرچار گواہ کیوں نہیں پیش کیے۔ نیز فرمایا لو لا اذا سمعتموہ فلن المومنون والمومنات بانفسھم خیراً ، جب تم نے یہ بات سنی تو کیوں نہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے حق میں نیک گمان کیا ۔ ربانیکے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو رب کے دین کا عالم ہو اس کی نسبت رب کی طرف کردی جاتی ہے جس طرح روحانی میں روح کی طرف نسبت ہے اور بحرانی میں بحر یعنی سمندر کی طرف نسبت ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اہل انجیل کے علماء کو ربانیون اور اہل تورات کے علماء کو احبار کہا جاتا ہے۔ حسن کے علاوہ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ سب یہود کے بارے میں ہے اس لیے کہ یہ ان یہود کے ذکر کے ساتھ متصل ہے۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابو عمر نے ثعلب سے بیان کیا ہے کہ ربانی اس عالم کو کہتے ہیں جو عامل بھی ہو ۔ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ منکر یعنی غلط بات کی تردید واجب ہے، اس سے روکنا اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو ایسا نہیں کرتے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) یعنی یہود و نصاری نے تمہارے دین کو کھیل اور مذاق بنا رکھا ہے ان کو اور تمام کافروں کو دوست مت بناؤ اور ان کو دوست رکھنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈور (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح ) شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا لاتتخذوا “۔ (الخ) ابوالشیخ اور ابن حبان (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رفاعۃ بن زید تابوت اور سوید بن حارث نے اسلام کا اظہار کیا، پھر یہ لوگ منافق ہوگئے، اور مسلمانوں میں سے ایک شخص ان دونوں سے دوستی رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یایھا الذین “ ‘۔ سے ”۔ بما کانوا یکتمون “۔ تک یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ ج) پھر وہی بات فرمائی گئی کہ مشرکین اور اہل کتاب میں سے کسی کو اپنا ولی اور دوست نہ بناؤ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابو الشیخ ابن حبان میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ بعض یہودی ظاہر میں تو مسلمان ہوگئے تھے مگر باطن میں اسلام کو اچھا نہیں جانتے تھے اور بعض مسلمان ان یہودیوں کو سچا مسلمان سمجھتے تھے ان سے کمال دوستی رکھتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٢ ؎ اور جتلادیا کہ یہ لوگ دین اسلام کو ٹھٹھا ٹھیرانے والے لوگ ہیں ان سے دوستی اچھی نہیں ہے صحیح مسلم کے حوالے سے ابو سعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمان دار آدمی کے ایمان کی نشانی یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں کوئی خلافت شریعت بات دیکھے تو ہاتھ سے زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے اگر یہ نہ ہو سکے تو ضعیف درجہ ایمان کا یہ ہے کہ ایسی خلاف شرع مجلس کو دل سے برا جان کر خود اس میں نہ بیٹھے۔ یہ حدیث آیت کی تفسیر ہے کیونکہ آیت و حدیث کو ملاکریہ مطلب ہوا ہے کہ جو شخص خلاف شرع لوگوں سے دوستی کرے رکھے گا تو اسی دوستی کی رعایت سے تو ان کے دل میں رفتہ رفتہ وہ ضعیف درجہ ایمان کا بھی آخر کو باقی نہ رہے گا ١ ؎ جس کا ذکر حدیث میں ہے اور انجام اس کا یہ ہوگا کہ ان خلاف شرع لوگوں کی دوستی کے وبال میں یہ شخص بیک پکڑا جاوے گا۔ چناچہ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی بڑی حدیث ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی مجلس میں کوئی بات خلاف شریعت دیکھ کر چشم پوشی کرے گا تو خلاف شرع لوگوں کے وبال میں ایسا شخص بھی پکڑا جائے گا۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اوپر کی آیت میں خاص کر یہود و نصاریٰ کی مولاۃ سے منع فرمایا۔ اب یہاں بالعموم تمام کفار سے مولاۃ کو منع قرار دیا ہے (کبیر) اس آیت کی رو سے ان اہل بد عت سے دوستی رکھنا بھی حرام ہے جنہوں نے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے۔ کیونکہ جب ان میں بھی وہی وصف پایا جاتا ہو جو اہل کتاب ہی میں پایا جاتا ہے تو لازما ان کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو اہل کتاب کا ہے۔ (نفع القدیر) یعنی اس کی نقلیں اتارتے ہیں تمسخر سے اس کے الفاظ بدلتے ہیں اور اس پر آوازے کستے اور شور ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔ (ابن کثیر کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 9 ۔ آیات 57 ۔ تا ۔ 66: اسرار و معارف : خصوصاً یہودی ہوں یا نصرانی یا ایسے لوگ جو دین اسلامکا مذاق اڑاتے ہیں ایسے لوگوں سے ایماندار آدمی کو دوستی نہ زیب دیتی ہے اور نہ فائدہ نہ اس کے لائے جائز ہے بلکہ تقوی کے خلاف ہے یعنی وہ محبت بھرے جذبات جو ذات باری کے ساتھ نصیب ہوتے ہیں مجروح ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اس پر بڑا فخر ہے کہ ہمارے پاس آسمانی کتابیں ہیں حالانکہ یہ ان میں تبدیلی کرچکے ہیں اور شعائر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں جیسے اذان سن کر مذاق کرتے ہیں اس لیے کہ امور دینیہ میں ان کی عقل ماری گئی ہے بس پوری توجہ صرف حصول دنیا پہ ہے اور دین کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ آپ ان سے پوچھئے تو سہی آخر ہم سے کیوں خفا ہیں ؟ صرف اس بات پر کہ باوجود اس کے کہ ہم پہلی کتابوں پر بھی یقین و ایمان رکھتے ہیں ساتھ میں اس کتاب کو بھی مان لیا ہے جو ہم پر نازل ہوئی ہے بس آپ کی نگاہوں میں یہ جرم ٹھہرا بھی اگر اگلی کتابیں اللہ کی طرف سے نازل کی گئی تھیں اور ان پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ تھا تو یہ کتاب جو ہم پر نازل ہورہی ہے اس کو چھوڑ دینے سے گزارہ کیسے ہوگا ۔ اور ہم پر یہ یہ فرد جرم لگا کر آپ خوش ہوگئے۔ چلئے ! آپ ہی بتائیں جن کتابوں کو آپ اللہ کی طرف سے مانتے ہیں ان پر کتنا عمل کرچکے ہیں ذرا اپنی قومی تاریخ دیکھیں اور اپنے ماضی پہ نظر کریں آپ کے اکثر فسق و فجور اور اللہ کی نافرمانیوں کی لمبی فہرست کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ آپ ان سے فرمائیے کہ میں نشاندہی کروں بدکار کیسے لوگوں اور کیسی قوموں کو کہاجاتا ہے جن پر اللہ کی لعنت ہو اور رحمت سے مھروم ہوں یعنی توفیق اطاعت سلب ہوجائے اور جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہو جن میں سے بعض کی ظاہری صورتیں تک مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دئیے گئے اور بعض کی ظاہری صورتیں تک مسخ کرکے بندر اور خنزیر بنا دئیے گئے اور بعض کی روحانی اشکال مسخ ہوئیں اور وہ شیطان کی پجاری بن گئے اصلی بدبخت لوگ اور اقوام تو وہ تھیں جو تمہارے ہی اجداد تھے جن سے تم نے بھی رسومات حاصل کرلی ہیں اور ان پر فخر کرتے ہو اور اللہ کے نازل کردہ کلام سے مذاق کرتے ہو حالانکہ یہ لوگ درجہ کے اعتبار سے بہت ہی گرے اور نہایت ہی گمراہ قسم کے انسان تھے اور اب بھی یہ آپ کے پاس اظہار ایمان کے لیے آتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں کفر ہوتا ہے اور وہی کفر ساتھ لے کے چلے جاتے ہیں اللہ کریم ان باتوں کو خوب جانتے ہیں جن کو یہ چھپانا چاہتے ہیں یعنی منافقین کے بارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اکثر اور عموماً اطلاع فرما دی جاتی تھی بلکہ ایسے مواقع پر جب آیات نازل ہوتیں تو اکثر مسلمان مطلب اخذ کرلیتے تھے کہ کون لوگ آئے تھے اور یہ حکم کن لوگوں کے لیے ہے دوسری بات جو سامنے آئی وہ یہ ہے کہ جب تک دل میں خلوص نہ ہو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فائدہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دل میں کفر لے کر آتے اور کفر ہی لے کر چلے جاتے حالانکہ دوسرے خوش نصیب اسی بارگاہ سے کفر کا دامن دھو کر نور ایمان سے جھولیاں بھر کرلے جا تے تھے ان کے آنے میں خلوص بھی نہ ہوا تو پھر فائدے کی امید نہیں ہوسکتی ۔ اور اے مخاطب ! مسلسل گناہ انسان کی عادت ثانیہ بن جاتا ہے ان میں سے اکثر کو فناء فی الجرمپائیں گے یعنی جرائم ان کے مزاجوں میں رچ بس چکے ہیں گناہ ، ظلم و زیادتی اور حرام کھانے پہ یوں ٹوٹتے ہیں جیسے شمع پہ پروانہ گرتا ہے اور یہ بہت ہی ناروا کام ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے اگر بدکاروں کی مجلس اور مسلسل گناہ انسان کے مزاج کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔ تو نیک لوگوں کی مجلس اور مسلسل اللہ کا ذکر اور شیخ کی توجہ کیا یہ مزاج انسانی میں تبدیلی نہیں کرسکتے ؟ بلکہ وہاں دو عوامل ہیں صحبت بدکار اور عمل بد ، یہاں تین ہیں نیکوں کی مجلس ، نیک کام اور شیخ کی توجہ اور یہ تیسرا عمل سب سے زیادہ طاقتور ہے اسی لیے ارشاد ہوتا ہے کہ ان کے مشائخ اور علماء ربانی انہیں کیوں نہیں روکتے حالانکہ انہیں روکنا چاہئے یا علماء کیوں منع نہیں کرتے یہ مشائخ اور علماء معاشرے میں دو بہت بڑے کردار ہیں۔ اگر یہ خلوص سے معاشرے کی درستی چاہیں تو حکمرانوں سے زیادہ قوت ان کے پاس ہوتی ہے ہر پیر کے مرید اس کی بات کو حرف آخر اور ہر مولوی کے مقتدی اسی کی بات کو سند مانتے ہیں یہ بارہا تجربہ کیا ہے کہ لاکھ حوالے دو تفسیر اور حدیث سے حوالے دو اگر ان کے محلے کا مولوی نہ مانے تو بات نہیں بنے گی یا پیر صاحب نہ مانیں پھر تو آپ کے پاس کوئی بھی علاج نہیں تو یہ علماء اور مشائخ انہیں حرام کھانے سے اور گناہ کی زندگی سے کیوں نہیں روکتے یعنی معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری ان پر ہے اور اگر صرف نذرانے وصول ہوتے رہے اور کیا کچھ نہیں یا اس ڈر سے لوگوں کی اصلاح نہ کی کہ پھر اپنی آمدن بھی نہ رہے تو عنداللہ جواب دینے کے لیے ان کے پاس بھی کوئی معقول بات نہ ہوگی یہ اگر دنیا کمانے کے لالچ میں لوگوں کا دین تباہ کر رہے ہیں تو بہت ہی برا کر رہے ہیں۔ اور یہود تو کہتے ہیں کہ اللہ کے خزانے ختم ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ان نے نظام زکوۃ کا اور صدقات نافلہ کا مذاق اڑایا کہ اب لوگوں کو دینے کے لئے کہا جاتا ہے جب اللہ کا رسول ہے تو اللہ سے لے کر دے کیا اللہ خزانے ختم ہوگئے یا اللہ کے ہاتھ باندھ دئیے گئے ہیں فرمایا ہاتھ بھی انہی کے بندھیں گے چناچہ رسوا ہو کر ملک بدر کئے گئے کچھ قتل ہو کر تباہ ہوئے اور یہ گستاخانہ کلمہ جو انہوں نے کہا ہے اس کے لیے ان پر لعنت کی گئی یعنی رحمت سے محروم ہوگئے روحانی برکات سے بھی کہ اسلام قبول کرنا نصیب نہ ہوا اور دنیاوی برکات سے بھی کہ گھر برباد ہوئے اور قتل ہو کر تباہ ہوئے یا دیس بدر کئے گئے فرمایا اب انہیں اندازہ ہوگا کہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں کہ بدکار اپنی روش میں اور اپنے زور میں بھاگتا چلا جاتا ہے مگر جب اللہ کی گرفت میں آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر بھول رہا تھا پھر بھی کوئی خوش قسمت ہو تو توبہ نصیب ہوجائے ورنہ عذاب میں گرفتار ہو کر ہی تباہ ہوجاتے ہیں یہی حال ان کا ہے دیکھ چکے ہیں کہ سارے عرب کا کفر مل کر کچھ نہیں بگاڑ سکا پھر دن بدن مسلمان دنیا میں بھی اور روحانی کمالات میں بھی ترقی کی راہ پر ہیں اس کے باوجود انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا بلکہ شرارت بغاوت کفر میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ لیکن اللہ نے بطور سزا یہود اور نصاری کے اندر بھی لڑائی ڈال دی ہے اور ان کی یہ دشمنی بھی قیامت تک چلے گی جب تک عالم قائم ہے ایک دوسرے سے نفرت اور بغاوت کرتے ہی رہیں گے کہ یہ مل کر مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم نہ کرسکیں یہ سازشیں کرکے لڑائی کی آگ سلگاتے ہیں اللہ کریم اسے بجھا دیتے ہیں۔ یعنی ان میں یہ جرات نہیں کہ خود میدان میں اتریں آپس میں اتحاد نہیں کرسکتے پھر سازش کرتے ہیں تو اللہ بےنقاب فرمادیتے ہیں اور یہ جو جنگ بھڑکانا چاہتے تھے۔ اس میں ناکام ہوجاتے ہیں اس لئے کہ یہ ہمیشہ فساد کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اللہ کو فساد کرنے والے لوگ اچھے نہیں لگتے اگر یہ اہل کتاب بھی جب تک ان کی کتاب ہی دین حق تھی۔ اسی کے مطابق عقیدہ درست کرتے اور اللہ کا خوف کرکے اس سے حیاء کرکے اس کی اطاعت اختیار کرتے تو ہم ان کی خطاؤں سے درگذر فرماتے اور انہیں جنت میں اور اس کی نعمتوں میں داخل کرتے ہم انہیں بندر اور سور بنا کر ہلاک نہ کرتے اگر یہ تورات کے احکام قائم رکھتے پھر جب انجیل نازل ہوئی تو اس پہ ایمان لاتے اللہ کے نبی کی اطاعت کرتے اور جب اللہ کی طرف سے قرآن نازل ہوا تو پھر تورات و انجیل میں بھی تو اس کی خبر موجود تھی ان پر بھی عمل کرتے تو اس پر ایمان لاتے آپ پر ایمان لاتے اس کے احکام کو قبول کرتے تو ہم ان پر دنیا کی نعمتیں بھی عام کردیتے کہ آسمان سے پانی برستا اور زمین سے خزانے پیدا کرتے یعنی نیکی اور عمل صالح اکثر دنیا میں بھی آرام اور سہولت کا سبب ہی بنتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی آزمائش آجائے یا انسان خطاکار ہے غلطیاں بھی تو کرتا ہے بیشک ان میں کچھ لوگ نیک بھی ہیں مگر اکثریت بدکاروں کی ہے۔ جو چند نیک ہستیاں موجود تھیں انہیں اسلام اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحابیت نصیب ہوگئی اور بدکار ابھی تک نسل در نسل تباہی کا شکار ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 57 تا 62 لغات القرآن : لاتتخذوا (تم نہ بناؤ) ۔ ھزوا (مذاق) ۔ لعب (کھیل کود۔ تماشا) ۔ نادیتم (تم نے آواز دی۔ ندادی) تنقمون (تم انتقام لیتے ہو ۔ بدلہ لیتے ہو) ۔ بشر من ذلک (اس سے برا) ۔ مثوبۃ (ثواب) ۔ جزا۔ بدلہ) ۔ لعن (اس نے لعنت کی) ۔ غضب علیہ (وہ اس پر غصہ ہوا) ۔ القردۃ (بندر) ۔ الخنازیر (خنزیر) ۔ سور پورک) ۔ عبد (اس نے عبادت کی۔ بندگی کی) ۔ الطاغوت (شیطان۔ شیطانی قوتیں) ۔ مکان (ٹھکانہ) ۔ اضل (زیادہ گمراہ) ۔ خرجوا (وہ نکلے) یکتمون (وہ چھپاتے ہیں) ۔ تشریح : اب تک یہ بتایا جا رہا تھا کہ مسلمانوں کو حقیقی دوستی کرنی ہے تو کن سے اور کیوں۔ اب ان آیات میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو حقیقی دوستی کن سے نہیں کرنی ہے اور کیوں۔ مومن کے ایمان کا امتحان یہی ہے کہ وہ اللہ کا قرب ڈھونڈھے یعنی اس کے احکام کو زیادہ سے زیادہ بجالائے۔ چناچہ اس کا حکم ہے کہ ان لوگوں کو ہرگز حقیقی دوست نہ بناؤ جو احمق ہیں یعنی دین کا شعور نہیں رکھتے۔ جو تمہاری اذان اور نماز کا ہنسی مذاق کرتے ہیں اور نقلیں اتارتے ہیں۔ وہ لوگ زیادہ تر یہودی ، نصاریٰ اور دوسرے کفار ہیں۔ فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کو موازنہ کی دعوت دیجئے۔ ایک طرف وہ مومنین ہیں جو اللہ کی بھیجی ہوئی ہر کتاب کو مانتے ہیں۔ توریت، زبور، انجیل اور قرآن کریم ، دوسری طرف وہ منافقین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ان سے پوچھئے کون سی جماعت بہتر ہے ؟ ابھی پچھلی آیات میں مومنین اور مجاہدین کی پہچان بتائی گئی ہے۔ فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے پوچھئے کہ کیا وہ لوگ بہتر ہیں یا وہ فاسقین جو بطور سزا بندر اور سور بنا دئیے گئے تھے۔ یا وہ بہتر ہیں جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور دین و دنیا میں کامرانی اور فلاح پاتے ہیں۔ انصاف سے بتاؤ کیا وہ بہتر ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی، جن پر اس کا غضب ٹوٹا، جو شیطان کی اطاعت کرتے ہیں اور جن کا ٹھکانہ دوزخ ہے ؟ ۔ قرآن نے یہاں تبلیغ کی ایک اہم تکنیک پیش کی ہے۔ اہل کتاب اور کفار، مشرکین اور منافقین پر براہ راست تنقید کرنے سے گریز کیا ہے کہ اس سے ضد اور چڑ تیز ہو سکتی ہے۔ اور بنتا ہوا کام بھی بگڑ سکتا ہے۔ اس کی جگہ چیلنج اور دعوت موازنہ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ جو زیادہ مؤثر ہے۔ آگے کفار اور منافقین کی خاص خاص علامتیں بتائی گئی ہیں یعنی وہ ایمان کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، گناہ اور ظلم کے کاموں میں خوب محنت، لگن اور مگن سے کام کرتے ہیں اور حرام آمدنی پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ مومنین کو ہدایت ہے کہ ہرگز ان سے حقیقی دوستی نہ کریں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ اور کفار سے قلبی تعلقات نہ رکھنے کے مزید تین اسباب : یہود و نصاریٰ اہل کتاب اور اہل مکہ کعبہ کے متولی اور ملت ابراہیم کے دعوے دار ہونے کے باوجود اسلام جیسے سچے دین، نماز جیسی افضل ترین عبادت اور اس کی پکار یعنی اذان کو کھیل تماشا اور استہزاء کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ (الانفال : ٣٥) میں ذکر ہوا ہے کہ جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔ ان کا خبث باطن اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ جب آپ بیت اللہ میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھے تو انھوں نے اونٹ کی بھاری بھرکم گندگی سے بھری ہوئی اوجڑی آپ کے کمر مبارک پر رکھ دی تھی۔ ان کی یہ باقیات سیئات فتح مکہ کے موقعہ پر بھی موجود تھیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو کعبہ میں اذان کہنے کا حکم دیا تو مکہ کے گلی کوچوں میں ابو محذورہ اور ان کے شریر ساتھی جو کہ اس وقت نو عمر تھے۔ حضرت بلال (رض) کی نقلیں اتارا کرتے تھے۔ ایک موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اذان کی نقل اتاری تو آپ نے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابو محذورہ کو بلایا اور سمجھایا۔ آپ کے مشفقانہ رویہ سے متاثر ہو کر ابو محذورہ نے کلمہ پڑھ لیا۔ تو آپ نے اسے بیت اللہ یعنی مسجد حرام کا مؤذن مقرر فرمایا۔ ” حضرت عبداللہ بن محیریز سے روایت ہے وہ یتیم تھے اور انھوں نے ابو محذورہ کے گھر پرورش پائی ابو محذورہ نے ان کو شام کی طرف بھیجا وہ کہتے ہیں میں نے ابومحذورہ سے کہا میں ملک شام کی طرف جا رہا ہوں اور مجھے خیال ہے کہ وہ لوگ مجھ سے آپ کی آذان کے متعلق پو چھیں گے تو میری رہنمائی کریں۔ ابو محذورہ نے کہا میں چند لوگوں کے ساتھ حنین کی طرف جا رہا تھا جبکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین سے واپس پلٹ رہے تھے میری کسی راستے میں ان سے ملاقات ہوئی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان کہی ہم نے مؤذن کی آواز سنی تو اس وقت ہم ان سے کچھ دور تھے ہم نے اذان کی نقل اتارتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز سنی تو ہمیں بلایا ہم آپ کے سامنے حاضر ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا میں نے تم میں سے کس کی اس قدر بلند آواز سنی ہے میرے ساتھیوں نے سچ بولتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا نبی اکر م نے ان سب کو چھوڑ دیا اور مجھے وہیں روکے رکھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھڑے ہو کر اذان کہیے۔ رسول اکر م (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اذان سکھائی فرمایا کہیے اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ پھر فرمایا اپنی آواز کو لمبا کرتے ہوئے دوبارہ کہو أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ پھر آپ نے میرے لیے دعا کی جب میں نے اذان ختم کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے مکہ میں اذان کہنے کی اجازت فرمائیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے اس پر مامور کرتا ہوں۔ میں عتاب بن اسید جو کہ مکہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ عامل تھے ان کے پاس گیا، پھر میں نے ان کے پاس مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطا بق اذان کہتا۔ “ [ رواہ النسائی : کتاب الاذان، باب کیف الاذان ] مسائل ١۔ ایمان والے دین کے ساتھ مذاق کرنے والوں سے دوستی نہیں کرتے۔ ٢۔ ایمان والے صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ٣۔ کافر لوگ دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٤۔ کفار حقیقتاً بےعقل ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن بے عقل لوگ کون ہیں : ١۔ جنہوں نے دین کو ہنسی اور کھیل بنا لیا وہ عقل والے نہیں۔ (المائدۃ : ٥٨) ٢۔ اگر ہم سنتے اور عقل کرتے تو اہل جہنم سے نہ ہوتے۔ (الملک : ١٠) ٣۔ آپ ان کو اکٹھا گمان کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل جدا، جدا ہیں یہ قوم بےعقل ہے۔ (الحشر : ١٤) ٤۔ وہ لوگ جو آپ کو حجرات کے پیچھے سے بلاتے ہیں وہ بےعقل ہیں۔ (الحجرات : ٤) ٥۔ آپ فرما دیں سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اکثر لوگ عقل نہیں رکھتے۔ (العنکبوت : ٦٣) ٦۔ ہم نے جو کتاب نازل کی ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (الانبیاء : ١٠) ٧۔ جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (القصص : ٦٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٧ تا ٥٨۔ ” ہاں یہ صورت حال سخت ہیجان انگیز ہوتی بشرطیکہ کسی کے اندر ایمانی حمیت کا جذبہ موجود ہو اور وہ یہ سمجھتا ہو کہ اگر اس کے سامنے اس کے دین کی توہین کردی گئی ‘ اس کی عبادت کی توہین کردی گی اور اس کے نظریہ حیات اور موقف کی توہین کردی گئی تو اس کی کوئی عزت اور آبرو نہ رہے گی لہذا ایسے لوگوں سے ترک تعلق ہی ایک خدائی امر ہے ۔ اہل ایمان اور ایسے لوگوں کے درمیان دوستی یا تعلق موالات کس طرح قائم ہوسکتا ہے ۔ یہ حرکات وہ لوگ کرتے بھی اس لئے ہیں کہ ان کی عقل وخرد میں خرابی ہے اس لئے کہ اللہ کے دین اور مسلمانوں کے طریقہ عبادت کے ساتھ مذاق تو وہ لوگ کرتے ہیں جن کی عقل وخرد میں خرابی ہے اس لئے کہ اللہ کے دین اور مسلمانوں کے طریقہ عبادت کے ساتھ مذاق تو وہ لوگ کرتے ہیں جن کی عقل متوازن نہیں ہوتی ۔ جب عقل صحت مند اور درست ہو تو وہ اپنے ماحول سے ایمان کے اشارات پاتی رہتی ہے اور جب عقل اور فہم میں خلل واقعہ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے اشارات ایمان کا ادراک نہیں کرسکتی ۔ اس خلل کی وجہ سے انسان اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے درمیان ‘ تعلقات میں بھی خلل پیدا ہوجاتا ہے اس لئے کہ یہ پوری کائنات ہی اس بات پر شاید عادل ہے کہ اللہ ہی انسان کی بندگی کا مستحق ہے اور اگر عقل صحت مند ہو اور اس میں کوئی خلل نہ ہو تو اس کے اندر اس کائنات کی عظمت اور اس کے بنانے والے کی عظمت و جلالت پیدا ہوتی ہے اس لئے کوئی درست اور سلیم عقل اہل اسلام کے طریقہ عبادت کے ساتھ مزاح نہیں کرسکتی ۔ اسلامی عبادات کے ساتھ یہ مذاق اہل کتاب یہودیوں کی طرف سے بھی ہوتا تھا اور اہل کفر کی طرف سے بھی ۔ یہ مزاح اس وقت ہو رہا تھا جب یہ قرآن حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب پر اتر رہا تھا اور جماعت مسلمہ اسے اخذ کر رہی تھی ‘ البتہ سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسا واقعہ منقول نہیں ہے کہ نصاری کی طرف سے بھی یہ مذاق ہوا ہو ۔ لیکن قرآن کریم جماعت مسلمہ کے لئے ایک دائمی اصول وضع کر رہا تھا ‘ مسلمانوں کی زندگی کا ایک دائمی منہاج اور دائمی نظریہ تشکیل پا رہا تھا اور اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ زمانے کی گردشیں کیا ہوں گی اور دیکھئے کہ بعد کے ادوار میں دین کے دشمنوں اور تحریک اسلامی کے دشمنوں نے اس امت کے ساتھ کیا سلوک کیا اور یہ سلوک ان لوگوں نے کیا جو اپنے آپ کو نصاری کہتے تھے اور یہ لوگ تعداد میں یہودیوں کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ تھے ۔ بلکہ یہود اور دوسرے کفار سے مل کر بھی زیادہ تھے ۔ یہ لوگ اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور صدیوں تک اسلام کی دشمنی دلوں میں اٹھائے پھرے ۔ اسلام کے خلاف انہوں نے جنگیں جاری رکھیں اور یہ محاربت اس وقت سے شروع ہوگئی جب حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے دور میں سلطنت روم کے ساتھ مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی اور یہ مڈبھیڑ صلاح الدین ایوبی کے وقت تک صلیبی جنگوں کی شکل میں جاری رہی ۔ اس کے بعد عالم اسلام کے خلاف تمام مغربی ممالک نے جمع ہو کر یہاں سے خلاف اسلامیہ کو ختم کیا ۔ اس کے بعد مغربی استعمار پیدا ہوا ‘ جس کی آغوش میں صلیبیت چھپی ہوئی تھی اور کبھی کبھار اس استعمار کی زبان سے اس کا اظہار بھی ہوجاتا تھا ۔ اس استعمار کے زیر سایہ مسیحی تبلیغ آئی اور مسیحی تبلیغ اور استعمار دونوں اندر سے ملے ہوئے تھے ۔ آج بھی ان لوگوں کے خلاف یہود ونصاری کی جہ جنگ جاری ہے جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے لئے کسی بھی جگہ کام کرتے ہیں اور ان حملوں میں یہودی ‘ عیسائی اور تمام مشرکین بحیثیت ملت واحدہ شریک ہیں۔ قرآن اس لئے آیا کہ یہ مسلمانوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اور قیامت تک کے لئے ہے اور یہ کتاب ہی اس امت کے تصورات کو تشکیل دیتی ہے ۔ امت کے لئے اجتماعی نظام بناتی ہے اور اس کے لئے تحریکی خطوط وضع کرتی ہے چناچہ یہاں اس نے ایک مستقل اصول رکھ دیا کہ امت مسلمہ کا کوئی فرد اللہ ‘ رسول اللہ اور مومنین کے سوا کسی اور کے ساتھ تعلق موالات قائم نہ کرے گا اور یہ اصول منفی طور پر ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ یہود ونصاری اور کافروں کے ساتھ کوئی تعلق مولات قائم ہی نہ کرے اور اس بات کا فیصلہ نہایت ہی سختی سے کیا جاتا ہے اور اسے اس طرح مختلف انداز سے بار بار لایا جاتا ہے ۔ دین اسلام اہل اسلام کو رواداری کا حکم دیتا ہے ۔ اہل کتاب کے ساتھ اسلام عموما حسن معاملہ کا حکم دیتا ہے ۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ اپنے آپ کو نصاری کہتے ہیں ‘ ان کے ساتھ اسلام خصوصی طور پر رواداری کا حکم دیتا ہے لیکن اسلام ان لوگوں کے ساتھ بھی تعلق موالات کی ممانعت کا حکم دیتا ہے اس لئے کہ رواداری اور حسن معاملہ اور حسن سلوک اخلاقی معاملات ہیں اور موالات کا تعلق نظریہ حیات اور تنظیم کے ساتھ ہے ۔ تعلق موالات دراصل ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاہدہ ہوتا ہے اور اس سے دونوں فریق ایک دوسرے کی مدد کرنے اور باہم تعاون کرنے کے پابند ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان تعاون ممکن نہیں ہے ۔ کفار کا مال تو اس بھی زیادہ بدتر ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم وضاحت کرچکے ہیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ موالات صرف دین ‘ اقامت دین اور جہاد میں ہو سکتی ہے اور ان معاملات میں ایک غیر مسلم کے درمیان تعاون کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ یہ مسئلہ نظریاتی اور دو ٹوک ہے ۔ اس معاملے میں صرف فیصلہ کن اور سخت موقف ہی اختیار کیا جاسکتا ہے اور یہی ایک مسلم کے شایان شان ہے ‘ دو ٹوک سنجیدگی ۔ اہل ایمان کے نام ان سخت نداہائے ثلاثہ سے فارغ ہو کر اب حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکارا جاتا ہے کہ آپ خود اہل کتاب کی طرف متوجہہو کر ذرا ان سے پوچھیں کہ آخر تم بتاؤ کہ ہمارے ساتھ تمہاری جانب سے کی جانے والی اس دشمنی کے اسباب کیا ہیں ؟ تم ہم سے کیوں ناراض ہو ؟ محض اس لئے کہ ہم اللہ وحدہ پر ایمان لائے ہیں اور موجودہ کتاب کے ساتھ ان کتب پر بھی ایمان لائے ہیں جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوئی ہیں اور اب جو باران رحمت آ رہا ہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ دشمنی بس یہی تو ہے کہ ہم مسلمان پورا پورا ایمان لاتے ہیں اور تم اہل کتاب فسق وفجور میں مبتلا ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خطاب ان کے لئے نہایت ہی رسوا کن ہے لیکن اس خطاب سے اس معاملے کی اچھی طرح وضاحت بھی ہوتی ہے اور یہ فیصلہ کن خطاب ہے اور اس سے تعین ہوجاتا ہے کہ مابہ الافتراق کیا ہے ۔ یہ سوال اہل کتاب سے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق کیا جارہا ہے ۔ ایک جانب سے یہ سوال مظہر حقیقت ہے کہ اہل کتاب اور اہل ایمان کے درمیان اصل صورت حال ہے کیا ؟ اور یہ کہ وہ کیا اسباب اور وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اہل کتاب نے دین اسلام اور جماعت مسلمہ کے خلاف یہ موقف اختیار کیا ہے ۔ دوسری جانب سے یہ استفہام انکاری ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے ‘ وہ ان کے شایان شان نہیں ہے ۔ جن اسباب کی وجہ سے وہ اس دشمنی پر تلے ہوئے ہیں ان کا تقاضا یہ نہیں ہے جو وہ کرتے ہیں ۔ یہ اہل اسلام کے لئے ایک فہمائش بھی ہے اور ان کو یہ نفرت دلائی جاتی ہے کہ وہ اس قوم سے ہر گز تعلق موالات قائم نہ کریں اور یہ بالواسطہ اسی موقف کی تائید ہے جو اس سے قبل نداہائے ثلاثہ کے تحت بیان کیا گیا کہ ہر گز ان لوگوں سے یہ تعلق قائم نہ کرو ۔ اہل کتاب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تحریک اسلامی کے ساتھ محص اس لئے دشمنی رکھتے تھے کہ یہ لوگ ایمان باللہ پر جمے ہوئے تھے ۔ قرآن کریم پر ایمان لاتے تھے ۔ اور سابقہ کتب پر بھی ایمان لاتے تھے اور اس کے سوا اہل ایمان کا اور کوئی جرم نہ تھا ‘ اور آج بھی وہ یہی دشمنی رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ محض اس لئے دشمنی کرتے ہیں کہ ہو مسلمان ہیں اور یہود و نصاری نہیں ہیں اور یہود ونصاری کی حالت یہ ہے کہ وہ خود ان کتب سے بھی روگردانی اختیار کرچکے ہیں جو ان کی طرف نازل ہوئیں۔ ان کے فسق وفجور کی اور دلیلوں کے علاوہ یہ بھی ایک بڑی قوی دلیل ہے کہ وہ آخری رسالت پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ یہ آخری رسالت تمام سابقہ رسالتوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ اور ان کی ہدایات کے لئے مہیمن ہے ماسوائے ان کے کہ جو خرافات انہوں نے اپنائے ہیں اور جو تحریفات انہوں نے اس میں خود کی ہیں۔ وہ اسلام کے خلاف یہ شعلہ بار جنگ کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی اور گزشتہ چودہ صدیوں سے وہ اسے بھڑکا رہے ہیں یہ جنگ اس وقت سے برپا ہے جب سے مدینہ میں ایک اسلامی ریاست قائم ہوئی ہے ‘ اسلامی شخصیت نمودار ہوئی ہے اور مسلمانوں کا نقشہ عالم پر ایک مستقل وجود بنا ہے ۔ یہ وجود ان کے دین کی وجہ سے نمودار ہوا ہے ۔ انکے تصور حیات کی وجہ سے بنا ہے اور اسلامی نظام حیات کی وجہ سے بنا ہے اور اسلامی منہاج حیات کے قیام کے لئے بنا ہے ۔ غرض مسلمانوں کے خلاف وہ یہ چومکھی لڑائی اس لئے لڑ رہے ہیں کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہیں اور یہ لوگ اپنی اس جنگ کو اس وقت تک ختم نہ کریں گے جب تک مسلمانوں کو اپنے دین سے الٹے پاؤں پھیر کر نہ لے جائیں اور جب تک ان کو غیر مسلم نہ بنا دیں ۔ ان کی یہ خواہش اس لئے ہے کہ وہ خود اپنے دین کو چھوڑ کر فاسق ہوگئے ہیں اس لئے وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی دوسرا بھی صحیح مومن اور دین پر اچھی طرح چلنے والا دنیا میں رہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ اس حقیقت کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ (آیت) ” ولن ترضی عنک الیھود ولاالنصاری حتی تتبع ملتھم “۔ اور آپ سے یہود ونصاری ہر گز راضی نہ ہوں گے ‘ جب تک آپ ان کی ملت کے تابع نہ ہوجائیں “۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس صورت میں اللہ نے واضح طور اہل کتاب کے سامنے ان کے اصل اغراض ومقاصد رکھ دیئے ہیں کہ وہ دشمنی کیوں کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل کتاب اور دوسرے کفار کو دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا لیا ہے ان آیات میں اولاً تو اس مضمون کا اعادہ فرمایا جو گزشتہ رکوع کے شروع میں تھا کہ کافروں کو دوست نہ بناؤ وہاں یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے کو منع فرمایا اور یہاں یہود و نصاریٰ کے ساتھ لفظ والْکُفَّارَ کا بھی اضافہ فرمادیا تاکہ دوستی کرنے کی ممانعت تمام کافروں کے بارے میں عام ہوجائے، یہود اور نصاریٰ اور دوسرے تمام کافر جن میں مشرکین ملحدین، منافقین، مرتدین سب داخل ہیں ان سب سے دوستی کرنے کی ممانعت فرما دی، اول تو ان کا کفر ہی دوستی نہ کرنے کا بہت بڑا سبب ہے لیکن ساتھ ہی ان کی ایک اور بدترین حرکت کا بھی تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ انہوں نے دین اسلام کو ہنسی اور مذاق اور کھیل بنا لیا۔ خاص کر جب نماز کے بلاوے یعنی اذان کی آواز سنتے ہیں تو اس کا مذاق بناتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص مسلمانوں کے دین کا مذاق بنائے گا مسلمان کو اس سے دوستی کرنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ کافروں کی یہ حرکت ناسمجھی اور بےعقلی پر مبنی تھی اسی لئے فرمایا (ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ ) (یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے) اس کے بعد فرمایا (قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ ھَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ) آپ اہل کتاب سے فرما دیجئے کہ تم ہم سے کیوں ناراض ہو ؟ اور ہم میں کون سے عیب پاتے ہو ؟ تمہاری ناگواری کی صرف یہ بات ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اللہ نے جو کتاب ہماری طرف نازل کی اس پر ایمان لائے اور اس سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں ان پر بھی ایمان لائے یہ باتیں ناگواری اور ناراضی اور عیب کی نہیں ہیں اچھی باتوں کو تم نے ناراضی کا سبب بنا لیا یہ تمہاری حماقت ہے اور دوسرا سبب تمہاری ناراضی کا یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ کی فرمانبرداری سے خار ج ہیں (چونکہ ان میں سے معدودے چند افراد ہی نے اسلام قبول کیا تھا اس لیے فرمایا کہ تم میں اکثر نافرمان ہیں یعنی کفر پر مصر ہیں) مسلمان قرآن پر اور اس سے پہلی کتابوں پر ایمان لائے یہ تو ناراضگی کا سبب نہیں ہوسکتا۔ ہاں ! اہل کتاب کا نافرمان ہونا اور اللہ کی فرمانبرداری سے ہٹنا اور بچنا یہ مسلمانوں سے ناراضگی کا سبب ہوسکتا ہے۔ اور حقیقت میں کافروں کی ناراضگی کا یہی سبب تھا اور اب بھی ہے، اہل کتاب کو اس میں تنبیہ ہے اور ہدایت ہے کہ تم سرکشی سے باز آؤ اور مسلمان ہو کر مسلمانوں میں گھل مل جاؤ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

102 پہلے یہود و نصاریٰ کی موالات سے منع فرمایا اب یہاں منافقین اہل کتاب اور مشرکین سے دوستی اور محبت کرنے سے منع فرمایا۔ اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّ لَعِبًا الخ سے منافقین اہل کتاب مراد ہیں۔ جنہوں نے دین اسلام کو ایک کھیل اور مذاق بنا رکھا تھا کیونکہ جب وہ مسلمانوں کے پاس آتے تو کہتے ہم مومن ہیں اور جب اپنے صنادید کے پاس جاتے تو کہتے ہم تمہارے دین پر ہی ہیں مسلمانوں کی نمازوں میں ہم محض بغرض استہزاء شریک ہوجاتے ہیں۔ وَ اِذَا نَادَیْتُمْ الخ یہ ان کے استہزاء کا بیان ہے یعنی وہ نماز میں تمہارے ساتھ محض استہزاء و تمسخر کے لیے شریک ہوتے اور اس سے ان کا مقصد تمہیں دھوکہ دینا ہے تاکہ تم ان کو مومن سمجھو لانھم عند اقامۃ الصلوۃ یقولون ھذہ الاعمال التی اتینا بھا استہزاء بالمسلمین و سخریۃ منھم فانھم یظنون انا علی دینھم مع انا لسنا کذالک (کبیر ج 3 ص 624) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi