Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 59

سورة المائدة

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ ہَلۡ تَنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اَنَّ اَکۡثَرَکُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۵۹﴾

Say, "O People of the Scripture, do you resent us except [for the fact] that we have believed in Allah and what was revealed to us and what was revealed before and because most of you are defiantly disobedient?"

آپ کہہ دیجئے اے یہودیوں اور نصرانیوں! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم اللہ تعالٰی پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے جو کچھ اس سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور اس لئے بھی کہ تم میں اکثر فاسق ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The People of the Book are Enraged at the Believers Because of their Faith in Allah Allah says; قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ ... Say: "O People of the Scripture! Allah commands: Say, O Muhammad, to those who mock and jest about your religion from among the People of the Scriptures. ... هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلاَّ أَنْ امَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ ... Do you criticize us for no other reason than that we believe in Allah, and in what has been sent down to us and in that which has been sent down before (us), Do you have any criticism or cause of blame for us, other than this This, by no means, is cause of blame or criticism. Allah said in other Ayat, وَمَا نَقَمُواْ مِنْهُمْ إِلاَّ أَن يُوْمِنُواْ بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ And they had no fault except that they believed in Allah, the Almighty, Worthy of all praise! (85:8) and, وَمَا نَقَمُواْ إِلاَ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ and they could not find any cause to do so except that Allah and His Messenger had enriched them of His bounty. (9:74) In an agreed upon Hadith, the Prophet said, مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلاَّ أَنْ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ الله What caused Ibn Jamil to Yanqim (refuse to give Zakah), although he was poor and Allah made him rich! Allah's statement, ... وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ and that most of you are rebellious... is connected to أَنْ امَنَّا بِاللّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ (that we believe in Allah, and in that which has been sent down to us and in that which has been sent down before (us)). Therefore, the meaning of this part of the Ayah is: we also believe that most of you are rebellious and deviated from the straight path. The People of the Scriptures Deserve the Worst Torment on the Day of Resurrection Allah said next,

بدترین گروہ اور اس کا انجام حکم ہوتا ہے کہ جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں ، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ) 85 ۔ البروج:8 ) یعنی فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے تھے ۔ اور جیسے اور آیت میں وما نقموا الا ان اغناھم اللہ و رسولہ من فضلہ ۔ یعنی انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں ۔ تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو ، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو ، اس پر غصبناک ہوا ہو ، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں ، بندر اور سور بنا دیئے ہوں ۔ اس کا پورا بیان سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی ، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے کہ جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی ۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے ۔ ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے ۔ یعنی انہیں بتوں کا غلام بنا دیا ۔ حضرت برید اسلمی اسے ( عابد الطاغوت ) پڑھتے تھے ۔ حضرت ابو جعفر قاری سے ( وعبد الطاغوت ) بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہو جاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ تم ہی وہ ہو ، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو ، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لئے خاتم پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے اس آیت میں ( اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا ) 25 ۔ الفرقان:24 ) پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں ، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی ، جس سے ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا ۔ تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر ، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں ۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہو گئے ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں ۔ حضرت ضحاک سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ حضرت علی نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں چاہئے کہ بھلائی کا حکم کرو ، برائی سے روکو ، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا ، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا ( مسند احمد ) ابو داؤد میں ہے کہ یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] چاہئے تو یہ تھا کہ یہود نصاری مسلمانوں سے محبت رکھتے :۔ یہود کو مسلمانوں سے اور پیغمبر اسلام سے اصل میں تو یہ بیر تھا کہ نبی آخر الزماں ان یہود میں سے ہی کیوں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ بات وہ علی الاعلان تو کہہ نہیں سکتے تھے اور اس کے بجائے اپنے دل کی جلن اور بھڑاس نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام کو طرح طرح سے مطعون کرتے اور انہیں دکھ پہنچاتے رہتے تھے۔ ان کی اصل تکلیف کا بھی اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے کہ نبوت کے تم اجارہ دار نہیں ہو کہ جتنی بھی بدعہدیاں تم کرتے جاؤ نبوت بہرحال تمہارے ہی خاندان میں رہے۔ نبوت تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان یہود سے بھلا پوچھو تو کہ آخر ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو مستقل طور پر ہم سے عداوت پر اتر آئے ہو۔ ہم تو تورات پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انجیل پر بھی اور تمام انبیاء پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم تم سے عداوت رکھتے کیونکہ تم نہ قرآن پر ایمان لاتے ہو اور نہ مجھ پر۔ لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ ۙ: یعنی پہلی کتابوں پر، جیسے تورات، انجیل اور زبور وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ تم جانتے ہو کہ ہمارا ایمان انھی چیزوں پر ہے جنھیں تم بھی صحیح مانتے ہو، پھر تم ہم سے کس بات کا انتقام لیتے ہو اور ہمارا کیا عیب ہے جس کی وجہ سے تم ہم سے دشمنی رکھتے ہو ؟ وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ : اصل بات یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق (نا فرمان) اور بدکار ہیں اور تمہاری ساری مذہبی اجارہ داری گروہی تعصب اور غلط قسم کی روایات پر قائم ہے، اس لیے تم اپنے سوا کسی دوسرے میں کوئی اچھی بات دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ فاسق کی تو روایت ہی قابل قبول نہیں، کیونکہ اسے جھوٹ سے کوئی پرہیز نہیں ہوتا، اس لیے اسلام کے خلاف تمہاری تمام روایات و حرکات بےوقعت ہیں۔ قرآن مجید کا انصاف ملاحظہ فرمائیے کہ شدید غضب کے باوجود ان سب کو نہیں بلکہ اکثر کو فاسق کہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Referring to the Jews and Christians in: أَكْثَرَ‌كُمْ فَاسِقُونَ (most of you are sinners) at the end of the first verse, ` most& - not ` all&- of them have been declared to be outside the fold of Faith. The reason for this is that they did have people among them who remained believers under all conditions. Before the coming of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم all they followed the injunctions of the Torah and Injil and believed in them. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came and the Qur&an was revealed, they believed in him too and started following the injunctions of the Qur&an.

خلاصہ تفسیر آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم ہم میں کیا عیب پاتے ہو بجز اس کے کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس کتاب پر جو ہمارے پاس بھیجی گئی ہے (یعنی قرآن) اور اس کتاب پر (بھی) جو (ہم سے) پہلے بھیجی جا چکی ہے (یعنی تمہاری کتاب تورات و انجیل) باوجود اس کے کہ تم میں اکثر لوگ ایمان سے خارج ہیں (کہ نہ قرآن کا ایمان ہے جس کا خود ان کو بھی اقرار ہے اور نہ تورات و انجیل پر ایمان ہے، کیونکہ ان پر ایمان ہوتا تو ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لانے کی ہدایت موجود ہے اس پر بھی ضرور ایمان ہوتا، قرآن کا انکار اس پر شاہد ہے کہ تورات و انجیل پر بھی ان کا ایمان نہیں ہے۔ یہ حال تو تم لوگوں کا ہوا اور ہم اس کے برعکس سب کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تو عیب ہم میں نہیں خود تم میں ہے غور کرو) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم ہمارے طریقہ کو برا سمجھتے ہو تو آؤ) کیا میں (اچھے برے میں موازنہ کرنے کے لئے) تم کو ایسا طریقہ بتلاؤں جو (ہمارے) اس (طریقہ) سے بھی (جس کو تم برا سمجھ رہے ہو) خدا کے یہاں سزا ملنے میں زیادہ برا ہو، وہ ان اشخاص کا طریقہ ہے جن کو (اس طریقہ کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا ہو اور ان پر غضب فرمایا ہو اور ان کو بندر اور سور بنادیا ہو اور انہوں نے شیطان کی پرستش کی ہو (اب دیکھ لو کہ ان میں کون سا طریقہ برا ہے، آیا وہ طریقہ جس میں غیر اللہ کی عبادت اور اس پر یہ وبال ہوں، یا وہ طریقہ جو سراسر توحید اور نبوت انبیاء کی تصدیق ہو۔ یقینا موازنہ یہی ہے کہ) ایسے اشخاص (جن کا طریقہ ابھی ذکر کیا گیا ہے آخرت میں) مکان کے اعتبار سے بھی (جو ان کو سزا کے طور پر ملے گا) بہت برے ہیں (کیونکہ یہ مکان دوزخ ہے) اور (دنیا میں) راہ راست سے بھی بہت دور ہیں (اشارہ یہ ہے کہ تم لوگ ہم پر ہنستے ہو، حالانکہ استہزاء کے قابل تمہارا طریقہ ہے کیونکہ یہ سب خصلتیں تم میں پائی جاتی ہیں، کہ یہود نے گو سالہ پرستی کی اور نصاریٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا بنا لیا، پھر اپنے علماء و مشائخ کو خدائی کے اختیارات سپرد کر دئے، اسی لئے یہودیوں نے جب یوم سبت کے احکام کی خلاف ورزی کی تو اللہ کا عذاب آیا، وہ بندر بنا دیئے گئے، اور نصاریٰ کی درخواست پر آسمانی مائدہ نازل ہونے لگا۔ انہوں نے پھر بھی ناشکری کی تو ان کو بندر اور سور بنادیا گیا۔ آگے ان کی ایک خاص جماعت کا ذکر ہے جو منافق تھے کہ مسلمانوں کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اندرونی طور پر یہودی ہی تھے) اور جب یہ (منافق) لوگ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ کفر ہی کو لے کر (مسلمانوں کی مجلس میں) آئے تھے اور کفر ہی لے کر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ تو خوب جانتے ہیں جس کو یہ (اپنے دل میں) چھپائے ہوئے ہیں (اس لئے ان کا نفاق اللہ تعالیٰ کے سامنے کام نہیں دے گا اور کفر کی بدترین سزا سے سابقہ پڑے گا) ۔ معارف و مسائل اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ. میں حق تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے خطاب میں سب کے بجائے اکثر کو خارج از ایمان فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہر حال میں مومن ہی رہے، جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت نہیں ہوتی تھی وہ احکام تورات و انجیل کے تابع اور ان پر ایمان رکھتے تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور قرآن نازل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور عمل قرآن کے تابع کرنے لگے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ۙ وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ۝ ٥٩ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ نقم نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] . ( ن ق م ) نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں سے فرمادیجیے کہ تم ہماری ہنسی کیوں اڑاتے ہو اور کون سی معیوب بات ہم میں پاتے ہو ماسوا اس کے کہ ہم اللہ وحدہ لاشریک پر اور قرآن کریم پر اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر رسول ہوئے اور جتنی کتابیں نازل کی گئیں ہم سب پر ایمان لاتے ہیں یعنی سب کو ماننے والے حقیقی مومن ہم (مسلمان) ہیں تم سب اپنے غلط مشرکانہ عقیدہ عمل کی بنا پر سب کافر ہو، پھر یہودی جل کر کہتے تھے کہ تمام دین والوں میں العیاذ باللہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپ کے صحابہ کرام (رض) کا رتبہ کم ہے۔ شان نزول : (آیت) ” قل یاھل الکتب ھل تنقمون “۔ (الخ) حضرت ابن عباس (رض) ہی نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہودیوں کی ایک جماعت آئی، جن میں ابویاسر بن اخطب اور نافع بن ابی نافع اور غازی بن عمر تھا، انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ آپ رسولوں میں سے کن رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، میں اللہ تعالیٰ پر اور جو کتاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل کی گئی ہے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) پر اور ان کی اولاد میں جو کتابیں نازل کی گئی ہیں، ان پر اور جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب دی گئی ہے اور ان کے علاوہ اور دوسرے انبیاء کرام کو جو کتابیں دی گئیں ہیں سب پر ایمان رکھتا ہوں ہم کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا، تو ان لوگوں نے ان کی نبوت کا انکار کیا اور بولے کہ ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ اس شخص پر ایمان لاتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان رکھتا ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

معتبر سند سے تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابو الشیخ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ کون کون سے نبی کو برحق جانتے ہو آپ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اور سب انبیاء کا نام لیا۔ یہود حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا نام سن کر بہت چڑے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎ اور فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان یہود سے کہہ دو کہ تم میں اکثر لوگ گناہوں کی سرکشی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں جس کے سبب سے تم لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کی پوری شہادت تھی جس کو تم نے بدل ڈالا ہے اور ایک سچی بات پر الٹے ہم سے جھگڑتے اور ہمارے دین کو عیب لگاتے ہو تم لوگوں میں ذرا بھی راستی اور انصاف ہو تو تم اقرار کرسکتے ہو کہ تمہارا جھگڑنا تورات کے برخلاف اور ہمارا دین بالکل اصل تورات کے موافق ہے۔ اس وقت تو یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں لیکن سورة النساء میں گزر چکا ہے کہ قیامت کے قریب جب عیسیٰ (علیہ السلام) زمین پر آویں گے تو اس وقت ان کی نبوت کا اقرار کریں گے اسی طرح اب جو کوئی یہودی قریب المرگ ہوتا ہے اور عقبیٰ کی باتیں اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگتی ہیں تو اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بیشک اللہ کے رسول تھے مگر اس وقت کا یہ معلوم ہونا کچھ فائدہ مند نہیں کیونکہ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ اس وقت کی توبہ اس وقت کا اسلام غرض اس وقت کی کوئی نیک بات انسان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاتی صحیح بخاری اور مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎ جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب انبیاء کو علاقی بھائی اور ان کی شریعتوں کو علاقی بھائیوں کی ماں فرمایا ہے ٣ ؎۔ علاقی ان بھائیوں کو کہتے ہیں جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ توحید اور عبادت الٰہی کی نصیحت و تاکید کرنے میں سب انبیاء ایک ہیں ہاں ضرورت کے وقت کے لحاظ سے ہر شریعت میں حلال و حرام کے احکام جدا ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک نبی کی نبوت کے انکار سے تمام انبیاء کی نبوت کا انکار لازم آجاتا ہے کیونکہ اصل دین کی روح سے جب سب انبیاء ایک ہیں تو ان میں سے ایک کو جھٹلانا گویا سب انبیاء کو جھٹلانا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مثلاً قفط موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے اقرار سے یہود اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے اقرار سے نصرانی جو اپنی نجات کے خیال میں ہیں وہ ان کا خیال بالکل غلط ہے اسی واسطے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو یہودی یا نصرانی میرا حال سن کر میری نبوت کا اقرار نہ کرے اس کی نجات ممکن نہیں ہے۔ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ روایت گزر چکی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:59) تنقمون منا۔ تنقمون۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم انکار کرتے ہو۔ تم بیر رکھتے ہو۔ تم عیب دیتے ہو ہم کو۔ نقم سے انتقم منہ کسی سے بیر رکھنا ۔ کسی میں عیب نکالنا۔ کسی سے بدلہ لینا۔ فانقتمنا منہم فاغرفناہم فی الیم (7:36) تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا کہ ان کو دریا میں غرق کردیا۔ ہل تنقمون منا ۔۔ الخ کیا تم ہم میں عیب نکالتے ہو یا ہم سے نفرت کرتے ہو۔ کیونکہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ وان اکثرکم فسقون۔ (اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں) کا عطف ان امنا پر ہے۔ واؤ حالیہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور حال یہ ہے کہ اکثریت تم میں سے فاسقوں کی ہے ۔ (لہٰذا تم کس بل پوتے پر ہم میں عیب نکالتے ہو) باوجود اس کے کہ تم میں سے اکثر لوگ ایمان سے کا رج ہیں۔ (تھانوی) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(4 یعنی پہلی کتابوں پر جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ مطلب یہ ہے کہ تما جانتے ہو کہ ہمارا ایمان ان ہی چیزوں پر ہے جنہیں تم بھی صحیح مانتے ہو پھر ہم سے کیوں دشمنی کرتے ہو یہاں استفہام برائے تعجب ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود کا ایک گروہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کن پیغمبروں کو سچامانتے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منجلہ دوسرے پیغمبروں کی حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا نام بھی ذکر فرمایا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی رسالت سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ پھر تو تمہارا دین بہت برا دین ہے (کبیر)5 یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ خاص اور بدکار ہیں اور تمہا ری ساری مذہبی اجارہ داری گروہی تعصب اور غلط قسم کی روایات پر قائم ہے اس لیے تم اپنے علاوہ کسی دوسرے میں بھی کوئی اچھی بات دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہاں فسق سے مراد فسق فی الدین ہے یعنی مذہبی روایات کے نقل کرنے میں عدول نہیں ہو (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اکثر اس لیے فرمایا کہ بعض بعض ہر زمانہ میں ایمان کے ساتھ متصف رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کا گھناؤنا کردار ذکر کرنے کے بعد ان کو مزید احساس دلانے کے لیے براہ راست سوال۔ اہل کتاب سے سوال کرنے کے دو مقصد ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس دلایاجائے کہ اسلام کو مذاق سمجھنے اور نماز اور اذان کو استہزاء کا نشانہ بنانے کا تمہارے پاس کیا جواز ہے ؟ کیا اس پر تمہارے ضمیر تمہیں کوئی ملامت نہیں کرتے ؟ ہاں یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ ہمیں عطا کیا گیا ہے اور جو ہم سے پہلے نازل کیا گیا ہم اس کو بھی مانتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ تم دوسروں سے دو قدم آگے بڑھ کر قرآن مجید پر ایمان لاتے کیونکہ قرآن مجیدتمہاری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور ہم تورات اور انجیل کو ان کے دور کی منزل من اللہ کتابیں سمجھتے ہیں۔ دنیا میں وہ شخص کتنا عاقبت نااندیش ہے جس کے نظریہ کی تائید کی جائے وہ اس پر خوش ہونے کی بجائے الٹا اپنے مؤید کی مخالفت پر کمربستہ ہوجائے اہل کتاب تمہارا یہی حال ہے دراصل تمہاری مخالفت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تمہاری اکثریت نافرمان لوگوں پر مشتمل ہے۔ اللہ کے نافرمان اس حد تک حقیقی شعور سے تہی دامن ہوتے ہیں کہ وہ نیکی کی بجائے فسق وفجور کے مددگار بن جاتے ہیں جن کی یہ حالت ہو وہ اللہ کی رحمت کی بجائے اس کے غضب کے سزا وارہونے کی وجہ سے انسانیت کے شرف سے محروم ہو کر بدترین مخلوق قرار پائے۔ مسائل ١۔ اہل کتاب مسلمانوں سے دین اسلام کی وجہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب میں سے اکثر نافرمان ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٩۔ “ اللہ تعالیٰ اپنے سچے کلام میں اس حقیقت کو بار بار دہراتے ہیں اور اہل کتاب اس حقیقت کو پگھلا کر ختم کرنا چاہتے ہیں ‘ اسے دبانا چاہتے ہیں ۔ اس کا انکار کرنا چاہتے ہیں اور اہل کتاب کے علاوہ اکثر نام نہاد مسلمان بھی اس حقیقت کے خلاف ہیں اور وہ مادیت اور الحاد کے عنوان سے اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان دوستی اور موالات قائم کرنا چاہتے ہیں ‘ جو قرآن کی اس پالیسی کے خلاف ہے ۔ آج بھی اہل کتاب اسی برف کو پگھلانا چاہتے ہیں بلکہ اسے دبا کر اس کے آثار کو مٹانا چاہتے ہیں ۔ اور یہ کام وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک کے باشندوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا ان باشندوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں جن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے ۔ یہ اہل کتاب اس فہم کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں کے اندر ربانی منہاج تربیت نے پیدا کردیا تھا اور جب تک مسلمانوں کے اندر یہ فہم و شعور زندہ ہے صلیبی استعمار ان کے مقابلے میں جم نہیں سکتا چہ جائیکہ وہ خود عالم اسلام میں کالونیاں بنائے ۔ اہل کتاب کو جب صلیبی جنگ میں شکست فاش ہوئی اور اس کے بعد جب وہ عیسائیت کی تبلیغ میں بھی ناکام رہے ‘ تو ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہ تھا کہ مکروفریب کی راہ اختیار کریں اور ان آبادیوں کے درمیان یہ تصورات پھیلائیں ‘ جو مسلمانوں کی وارث ہیں ‘ کہ اب دین کے نام پر تمام جنگ جو ئیاں ختم ہوچکی ہیں اور یہ تو ایک تاریک دور تھا جس کے اندر تمام اقوام کے اندر مذہبی جنگیں ہوئیں ، اب تو دنیا کو نئی روشنی مل گئی ہے ‘ اب تو ترقی کا دور ہے اور اب تو کسی دینی نظریہ حیات کے مطابل لڑنا نہ جائز ہے ‘ نہ مناسب ‘ اور نہ ہی اس دنیا کے مفاد میں ہے ۔ آج تو مادی دور ہے اور اب جنگ منڈیوں اور خام مال پر ہوگی ۔ لہذا مسلمانوں یا مسلمانوں کے وارثوں کو چاہئے کہ وہ کسی دینی کشمکش یا کسی تحریک احیائے دین کے متعلق نہ سوچیں ۔ اور جب اہل کتاب اس بات سے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اہل اسلام اب اپنی سرحدوں کے بارے میں بےفکر ہوگئے ہیں اور ان کے فکر و شعور سے یہ ترک موالات محو ہوگئی ہے تو اب وہ اپنا استعماری جال پھیلاتے ہیں ۔ خصوصا پھر وہ بڑی آزادی سے عالم اسلام کے اندر استعماری جال پھیلاتے ہیں ۔ اب وہ عالم اسلام میں مسلمانوں کے غیظ وغضب سے محفوظ ہوگئے ہیں اور جب انہوں نے مسلمانوں کو تھپکی دے کر سلا دیا تو اب ان کو محض نظریاتی فتح ہی حاصل نہ ہوگئی بلکہ اب ان کے لئے عالم اسلام میں ہر قسم کی لوٹ اور مار کے راستے بھی کھل گئے ‘ تب انہوں نے اپنی نو آبادیاں قائم کرلیں ‘ مسلمانوں کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور نظریاتی فتح کے بعد اب وہ مادی دنیا پر بھی قابض ہوگئے اور صورت حال یہ ہوگئی کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے اندر کوئی فرق ہی نہ رہا۔ دونوں قریب قریب ایک جیسے ہوگئے عالم اسلام کے اندر اب اہل کتاب کے ایجنٹ کام کر رہے ہیں جو استعماری طاقتوں نے جگہ جگہ بٹھا رکھے ہیں ۔ بعض اعلانیہ طور پر بٹھا رکھے ہیں اور بعض ان کے خفیہ ایجنٹ ہیں ۔ وہ بھی یہی بات دہراتے ہیں کیونکہ اہل کتاب کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ اسلامی حدود کے اندر یہ کام کرتے ہیں ۔ یہ ایجنٹ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ صلیبی جنگیں دراصل صلیبی جنگیں ہی نہ تھیں وہ مسلمان جنہوں نے اسلامی جھنڈوں کے نیچے یہ جنگیں لڑیں وہ مسلمان ہی نہ تھے وہ تو قوم پرست تھے ۔ سبحان اللہ ۔ ایک تیسرا فریق جو نہایت کم عقل فریق ہے ‘ اسے مغرب میں صلیبیت کی جانشیں استعماری قوتیں یہ دعوت دیتی ہیں کہ آؤ ہم بھائی بھائی بن جائیں ۔ مذہب کا دفاع کریں اور ملحدین کی تردید کریں ۔ یہ فریب خوردہ ان کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ صلیبیوں کی یہ مغربی اولاد جب بھی اسلام اور الحاد کی جنگ ہوتی ہے ‘ یہ ملحدین کے ساتھ صف آراء ہوجاتی ہے ۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ‘ جب بھی مسلمانوں کا مقابلہ ملحدین کے ساتھ ہو ۔ صدیوں سے ان کا یہ طرز عمل بالکل جاری ہے ۔ آج بھی ان کے لئے مادیت کی جنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ وہ زیادہ تراہمیت اس جنگ کو دیتے ہیں جو وہ اسلام کے خلاف برپا کئے ہوئے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ مادی اور ملحد دشمن ایک وقتی اور عارضی دشمن ہے اور اسلام ایک مستقل اور ٹھوس نظریہ ہے جو ان کے لئے ایک مستقل دشمن ہے ۔ یہ جنگ انہوں نے اس لئے شروع کر رکھی ہے کہ اسلامی قوتوں کے اند بظاہر جو بیداری پیدا ہو رہی ہے یہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز یہ لوگ الحاد کے خلاف جنگ میں بیوقوف مسلمانوں کو جھونک کر اپنا مفاد محفوظ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ملحدین مغربی اور صلیبی استعمار کے سیاسی مخالف ہیں اور یہ دونوں معرکے گویا اسلام کے خلاف ہوں گے ۔ اور یاد رہے کہ صلیبیوں اور ملحدین دونوں کے خلاف مسلمانوں کے پاس صرف نظریاتی ہتھیار ہے اور وہ فہم و فراست ہے جو ان کے اندر قرآن کریم کی یہ آیات پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ یہ ایک گہرا کھیل ہے اور یہ اہل اسلام کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ بظاہر اہل کتاب اور صیلبی دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ فریب خوردہ مسلمان ان اہل کتاب کو مخلص سمجھتے ہیں ۔ وہ اہل اسلام کو اتحاد ‘ بھائی چارے اور موالات کی دعوت دیتے ہیں اور مقصد یہ بتاتے ہیں کہ مذہب کا دفاع کرتے ہیں لیکن فریب خوردہ مسلمان چودہ سو سال کی تاریخ کو بھول جاتے ہیں جس میں ان کا رویہ عداوت کا رہا ہے اور اس میں کوئی استثناء بھی نہیں ہے ۔ پھر تاریخ تو بڑی بات ہے اور بہت طویل ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی ان واضح تعلیمات کو بھی بھول جاتے ہیں جو انہیں ان کا رب براہ راست دے رہا ہے یہ ایسی تعلیم ہے کہ یہ لاریب ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس سے کوئی پہلوتہی نہیں ہو سکتی بشرطیکہ اللہ پر اعتماد ہو ‘ اور اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان نہایت ہی سنجیدہ ہے ۔ یہ فریب دینے والے اور فریب خوردہ لوگ اس سلسلے میں اپنی پالیسی کے حق میں قرآن کریم کی وہ آیات پیش کرتے ہیں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن کے اندر اہل کتاب کے ساتھ حسن معاملہ کرنے پر زور دیا گیا ہے اور یہ کہ معیشت اور طرز عمل میں ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا جائے ۔ لیکن یہ لوگ قرآن کریم کی ان تنبیہات وتحذیرات اور فیصلہ کن ممانعت کو بھلا دیتے ہیں جو قرآن کریم اہل کتاب کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے خلاف کرتا ہے اور تفصیل کے ساتھ بتاتا ہے کہ اس حکم کے اسباب کیا ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں اسلامی تحریک کا منصوبہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہئے ۔ اسلامی تنظیم کن خطوط پر ہونا چاہئے اور ان کے ساتھ دوستی اور موالات کے تعلقات کو بالکل ختم کرنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک باہم موالات اور باہم دگر نصرت صرف اسلامی نظام کے قیام کے لئے ہوتی ہے اور اسلام کو عملی زندگی میں قائم کرنے لئے ہوتی ہے ۔ تحریک امامت دین کے نصب العین کے بارے میں ہمارے اور اہل کتاب کے درمیان کوئی نکتہ اشتراک سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اگرچہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے دین میں انکی تحریفات سے پہلے کئی نکات مشترک تھے ۔ لیکن اب تو صورت حالات یہ ہے کہ وہ ہمارے دشمن ہی اس لئے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور اقامت دین کے نصب العین کے حامل ہیں اور وہ ہم سے راضی تب ہی ہوسکتے ہیں کہ ہم اس نصب العین کو چھوڑ کر یہودی یا عیسائی بن جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نص صریح (البقرہ : ١٢) میں فرمایا ۔ یہ لوگ قرآن مجید کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس سے وہ اجزاء لیتے ہیں جو انہیں پسند ہیں اور ان کی دعوت کی تائید کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کو غافل کرتے ہیں ۔ اگرچہ وہ اپنی درست کیوں نہ ہوں اور یہ لوگ ان آیات کو چھوڑ دیتے ہیں جوان کی اس فریب کارانہ پالیسی کے بالکل خلاف ہیں۔ ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں کہ ہم اس مسئلے میں اللہ کی بات سنیں ۔ اللہ کا کلام اس سلسلے میں نہایت ہی دوٹوک اور قطعی ہے ۔ رہا ان فریب کاروں کا کلام تو وہ ہم سنیں یا نہ سنیں برابر ہے ۔ ذرا چند منٹ کے لئے ٹھہرئیے ! اور اس موضوع پر غور کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی ازلی دشمنی کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسول اور ایمان بالکتب کے جامع عقیدے کی وجہ سے یہ لوگ ان کے دشمن بنے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ایک اور اہم بات بھی بتاتے ہیں۔ (آیت) ” وان اکثرکم فسقون “۔ (٥ : ٥٩) ” اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ۔ “ ان کا یہ فسق وفجور بھی اس عداوت اسلام کے اسباب میں سے ایک سبب ہے اس لئے کہ ایک کج رو شخص کو راست رو شخص بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے اور اس کی تصدیق قرآن کریم کا یہ فقرہ کرتا ہے ۔ یہ ایک گہرا نفسیاتی اشارہ ہے اس لئے کہ جو شخص کسی راہ سے کجروی اختیار کرتا ہے وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکتا کہ کچھ اور لوگ اس راہ پر چلیں ۔ اگر وہ ایسے لوگوں کو دیکھے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ فسق وفجور میں مبتلا ہوگیا ہے اور صحیح راہ سے منحرف ہوگیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کا راہ حق پر قائم رہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ منحرف ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منحرف شخص جادہ حق پر مستقیم شخص کا دشمن ہوتا ہے اور پھر اس سے محض اس لئے انتقام لیتا ہے کہ وہ سچا ہے یہ انتقامی کاروائی اس لئے ہوتی ہے کہ یہ منحرف شخص اس صالح کو بھی گھیر گھار کر اپنی راہ پر ڈال دے اور اگر وہ بہت ہی سخت ہو اور بات مان کر نہ دیتا ہو تو اسے سے سے ختم کردے ۔ یہ ایک دائمی اصول ہے اور یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اہل کتاب اور اہل اسلام کے تعلقات کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ مطلق اہل کتاب اور اہل اسلام کی پالیسیوں پر صادق آتا ہے ۔ جو شخص بھی کسی صالح گروہ اور اصول پسند جماعت سے نکلتا ہے اس کی سعی یہی ہوتی ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اس جماعت سے منحرف کر دے اور فساق وفجار اور اشرار کے معاشرے میں جنگ ہمیشہ صالح لوگوں کے خلاف ہوتی ہے ۔ تمام فساق صالحین کے خلاف جمع ہوجاتے ہیں اور جو لوگ اصولوں سے منحرف ہوچکے ہوتے ہیں ‘ وہ تمام لوگ ان کے دشمن ہوتے ہیں جو اصولوں پر جمے ہوتے ہیں ۔ یہ جنگ ایک قدرتی جنگ ہوتی ہے اور یہ اسی اصول پر برپا ہوتی ہے جس کی طرف اس قرآنی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اللہ کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی کہ شر کی طرف سے ہر وقت بھلائی کی دشمنی ہوتی رہے گی اور حق کے مقابلے میں باطل ہمیشہ کھڑا ہوگا اور ثابت قدمی کے مظاہر کو دیکھ کر فساق وفجار جلیں گے اور جو لوگ اصولوں پر جمے ہوئے ہوں گے ان پر ان فساق وفجار اور منحرفین کو بہت ہی غصہ آئے گا ۔ اللہ کو یہ بھی علم تھا کہ بھلائی ‘ سچائی ‘ استقامت اور اصول پرستی کو اپنی مدافعت کرنا ہوگی اور ان کو شر باطل ‘ فسق اور انحراف کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہوگی ۔ یہ ایک ایسا حتمی معرکہ ہوگا کہ جس میں اہل حق کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ ہوگا کہ بس وہ اس معرکے میں کود جائیں اور باطل کا مقابلہ کریں ۔ اگر وہ یہ معرکہ آرائی نہ کریں گے تو باطل از خود ان پر حملہ آور ہوجائے گا اور سچائی اس سے کسی طرح جان نہ چھڑا سکے گی کیونکہ باطل کا مقصد اسے سرے سے مٹانا ہوتا ہے ۔ یہ ایک نہایت ہی غافلانہ اور احمقانہ سوچ ہوگی کہ کوئی حق پرست ‘ اصلاح پسند ‘ صاحب استقامت اور اصولی شخص یہ سوچے کہ ‘ شر ‘ باطل اور فسق وفجور کے داعی اسے آرام سے چھوڑ دیں گے اور وہ حق و باطل کے اس معرکے سے بچ نکلیں گے یا حق و باطل کے درمیان کوئی مصالحت یامعاہدہ صلح ہو سکتا ہے ۔ اگر نہیں ‘ تو ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ہر وقت اس اٹل معرکے کے لئے تیار رہیں اور خوب سوچ کر ساتھ اور اچھی تیاری کے ساتھ رہیں اور موہوم امن کے لئے دشمن کی چالوں میں نہ آئیں ورنہ دشمن انہیں کھا کر چاٹ جائے گا۔ اس کے بعد جب ہم مطالعہ جاری رکھتے ہیں تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل کتاب کے مقابلے کے لئے ہدایات دی جاتی ہیں ۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ بات واضح طور پر بتا دی گئی تھی کہ اہل کتاب کے دل میں اسلامی نظام اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر گہری دشمنی کیوں ہے ؟ اب یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ قدیم کے کچھ اوراق الٹے جاتے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

103 پہلے فرمایا کہ جن اہل کتاب نے تمہارے دین کو ایک کھیل بنا رکھا ہے ان سے موالات نہ کرو یہاں فرمایا ان سے پوچھو تو سہی کہ ہمارے دین کی کونسی بات تم کو ناپسند ہے جس کی وجہ سے تم نے اس کو استہزاء و تمسخر کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ کیا تمہیں یہ بات پسند اور گوارا نہیں کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کتاب ہم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں ہم سے پہلے نازل ہوئی ہیں ہم ان سب کو سچی مانتے ہیں ہمارا دین تو یہی ہے کیا تمہیں یہ باتیں ناپسند ہیں، حالانکہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی بری اور ناپسندیدہ نہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اَنَّ اَکْثَرَکُمْ فٰسِقُوْنَ تمہاری اکثریت سرکش اور متمرد ہے اور تم بغض وعناد اور سرکشی کی وجہ سے ہمارے دین سے استہزاء کرتے ہو۔ حضرت نے فرمایا یہاں اِعْلَمُوْا محذوف ہے ای وَاعْلَمُوْا اَنَّ اَکْثَرَکُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ واؤ زائدہ ہے اور جملہ ما قبل کی علت اور اصل میں لام تعلیل مقدر ہے۔ ای ھل تنقمون منا الا الایمان لان اکثرکم فسقون (روح ج 6 ص 174) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi