Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 61

سورة المائدة

وَ اِذَا جَآءُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ قَدۡ دَّخَلُوۡا بِالۡکُفۡرِ وَ ہُمۡ قَدۡ خَرَجُوۡا بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡتُمُوۡنَ ﴿۶۱﴾

And when they come to you, they say, "We believe." But they have entered with disbelief [in their hearts], and they have certainly left with it. And Allah is most knowing of what they were concealing.

اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لئے ہوئے ہی آئے تھے اسی کفر کے ساتھ ہی گئے بھی اور یہ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا جَأوُوكُمْ قَالُوَاْ امَنَّا وَقَد دَّخَلُواْ بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُواْ بِهِ ... When they come to you, they say, "We believe." But in fact they enter with (an intention of) disbelief and they go out with the same. This is the description of the hypocrites, for they pretend to be believers while their hearts hide Kufr. So Allah said; وَقَد دَّخَلُواْ (But in fact they enter) on you, O Muhammad, بِالْكُفْرِ (with disbelief) in their hearts and they depart with Kufr, and this is why they do not benefit from the knowledge they hear from you, nor does the advice and reminder move them. So, وَهُمْ قَدْ خَرَجُواْ بِهِ (and they go out with the same) meaning, they alone. ... وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُواْ يَكْتُمُونَ and Allah knows all that they were hiding. Allah knows their secrets and what their hearts conceal, even if they pretend otherwise with His creatures, thus pretending to be what they are not. Allah, Who has perfect knowledge of the seen and unseen, has more knowledge about the hypocrites than any of His creatures do and He will recompense them accordingly. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یہ منافقین کا ذکر ہے جو نبی کی خدمت میں کفر کے ساتھ ہی آتے ہیں اور اسی کفر کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور آپ کے واعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل میں تو کفر چھپا ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری سے مقصد ہدایت کا حصول نہیں، بلکہ دھوکہ اور فریب دینا ہوتا ہے، تو پھر ایسی حاضری سے فائدہ بھی کیا ہوسکتا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] انہیں یہود میں سے کچھ لوگ جب آپ کی مجلس میں آتے تو وعظ و نصیحت سن کر ہاں میں ہاں ملا دیتے اور منافقانہ طور پر اپنے اسلام لانے کا دعویٰ کرتے تھے حالانکہ ان کا یہ کام بھی مسلمانوں سے مکر و فریب کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ ایمان ایک منٹ کے لیے بھی ان کے دلوں میں داخل نہ ہوتا تھا جیسے کفر کو اپنے دلوں میں چھپائے آتے ویسے ہی کفر کو لیے ہوئے وہاں سے رخصت ہوتے تھے اور ان کی ہر چال سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مطلع فرما دیتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا جَاۗءُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا۔۔ : اس سے یہود کے وہ منافق مراد ہیں جو مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں رہتے تھے۔ (کبیر) وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا يَكْتُمُوْنَ : یعنی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق بہت زیادہ بغض و حسد بھرا ہوا ہے۔ ورنہ اگر وہ تمہارے پاس دل میں کفر لے کر نہ آئے ہوتے تو ان پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور مسلمانوں کی مجلس کا کچھ اثر تو ضرور ہوتا اور کفر میں کچھ کمی ہوتی، مگر وہ نکلتے وقت بھی اتنا یا اس سے کچھ زیادہ ہی کفر لے کر واپس گئے، جتنا لے کر آئے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا جَاۗءُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَہُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ۝ ٠ۭ وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا يَكْتُمُوْنَ۝ ٦١ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ كتم الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] ، ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) اور جس وقت یہ ذلیل یہودی یعنی منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت پر ایمان لاتے ہیں کیوں کہ وہ ہماری کتاب میں موجود ہے، حالانکہ وہ خفیہ طور پر کفر ہی کو لے کر آتے ہیں اور اسی کو لے کر مجلس سے نکل جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (وَاِذَا جَآءُ وْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا) (وَقَدْ دَّخَلُوْا بالْکُفْرِ وَہُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ ط) میرے نزدیک یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر سورة آل عمران (آیت ٧٢) میں آیا ہے ‘ جنہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ۔ ان کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ کفر کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور کفر کے ساتھ ہی نکلے ہیں ‘ ایک لمحہ کے لیے بھی انہیں ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ شعوری طور پر فیصلہ کرچکے تھے کہ رہنا تو ہمیں اپنے دین پر ہے ‘ لیکن اسلام کی جو ساکھ بن گئی ہے اس کو نقصان پہنچانے کی خاطر ہم یہ دھوکہ اور سازش کرر ہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:61) یکتمون (جس کو وہ چھپاتے ہیں یعنی نفاق) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یہود سے وہ منافق مراد ہیں جو مدینہ اور اس کے قریب و جوار میں رہتے تھے (رازی)10 یعنی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق نہایت ہی بغض وحسد بھرا ہوا ہے ورنہ ان پر کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور ہوتا (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور اپنی طبیعتوں کی مکاری کی وجہ سے اہل کتاب گناہ، ظلم اور حرام خوری میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کے غضب میں مغضوب لوگوں کی شکلیں تبدیل نہ بھی ہوں تو بھی برے اعمال کی وجہ سے شیطان کے بندے اور غلام بن جاتے ہیں۔ جس وجہ سے وہ کفر اور ایمان کے درمیان تمیز نہیں کرسکتے ان کی اکثریت کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ گناہ، زیادتی اور اکل حرام میں بڑے مستعد اور تیز رفتار ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر اور اسلام میں امتیاز نہیں کرتے اور اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ ان کا کردار لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ جس کے متعلق انہیں انتباہ کیا گیا ہے ہوسکتا ہے تمہارا برا کردار مومنوں کی نظروں سے اوجھل رہ جائے۔ لیکن یاد رکھنا تمہاری کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے اللہ تمہارے جھوٹے دعوے کو خوب جانتا ہے۔ جس کا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اظہار کرتے ہو۔ حالانکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم ایمان کا اظہار کر رہے ہوتے ہو تو اس وقت بھی تم کفر کی حالت میں ہوتے ہو۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اٹھ کر جاتے ہو تب بھی تم کفر ہی میں مبتلا ہوتے ہو۔ امام رازی (رض) نے ” اثم “ سے مراد عام گناہ لیا ہے اور ” عدوان “ کا معنیٰ یہ کرتے ہیں کہ ایسا گناہ جس کے اثرات لوگوں پر مرتب ہوتے ہوں اور اس میں زیادتی کا عنصر بھی پایاجائے۔” سحت “ کا معنی رشوت اور حرام خوری کیا گیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ )[ رواہ الترمزی : کتاب الاحکام عن رسول اللہ، باب ماجاء فی الراشی والمرتشی ] ” حضرت عبداللہ بن عمر وبیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ “ مسائل ١۔ محض زبانی دعویٰ کرنے سے کوئی شخص مومن نہیں بنتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے۔ ٣۔ اہل کتاب کی اکثریت گناہ اور زیادتی کے کاموں اور حرام خوری میں تیز ہے۔ ٤۔ گناہ و زیادتی اور حرام خوری برے عمل ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ چیز کو جانتا ہے : ١۔ اللہ ہی غیب کا جاننے والا ہے۔ (الجن : ٢٦) ٢۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے۔ (التوبۃ : ٧٨) ٣۔ غیب کی چابیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٤۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کرلیتا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ یہ غیب کی باتیں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ (ھود : ٤٩) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے۔ (ھود : ٣١) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ ہر قسم کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ (یونس : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٦١ تا ٦٤۔ یہ ایسی عبادتیں ہیں جن کے اندر کچھ چلتی پھرتی تصاویر نظر آتی ہیں اور یہ قرآن مجید کا منفرد اسلوب ہے ۔ صدیاں گزر گئیں لیکن ان لوگوں کی تصاویر آج بھی ان عبارات میں واضح ہیں ‘ جن کے بارے میں قرآن کریم ان آیات میں بحث کرتا ہے ۔ یہاں جو نقشہ کھنیچا گیا ہے وہ یہودیوں کا ہے ‘ اس سے کہ آگے پیچھے بات انہی کی ہو رہی ہے ۔ اگرچہ اس میں بعض وہ لوگ بھی نظر آتے جو مدینہ کے منافقین ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ گفتگو شروع کرتے ہیں ‘ ” بھائی ہم بھی تو ایمان لا چکے ہیں “ لیکن اپنی بغل میں کفر چھپائے ہوئجے ہیں جب آئے تو یہ کفر ان کے ساتھ تھا۔ لیکن ان کے منہ میں رام رام ہے اور بغل میں کفر کی چھری ہے ۔ یہ گروہ غالباگروہ تھا یہود تھا جو راتوں کو اسلام کے خلاف سازشیں تیار کرتے تھے ‘ اور ان میں سے بعض دوسروں سے یہ کہتے تھے کہ صبح اس قرآن پر اپنے ایمان کا اعلان کرو اور شام کو پھر کفر کا اعلان کر دو ‘ اور اس طرح اسلامی صفوں میں بےچینی پیدا کرو۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی قرآن کو ترک کردیں اور اپنے دین کو چھوڑ دیں یہ اس افراتفری اور شک وشبہ کی فضا کی وجہ سے ہے ۔ (آیت) ” واللہ اعلم بما کانوا یکتمون “۔ (٥ : ٦١) ” اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں “۔ یہ اللہ کا کہنا ہے اور اللہ حقائق کے جاننے والے ہیں ۔ اور اس اعلان سے اہل ایمان کو اطمینان نصیب ہوتا ہے کہ ان کا رب ان کا محافظ اور نگہبان ہے ۔ وہی انہیں یہودیوں کی سازشوں سے بچا سکتا ہے کیونکہ اللہ کا علم ان کی خفیہ سازشوں پر محیط ہے اور یہ اللہ کی جانب سے ان کو ایک دھمکی ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو۔۔۔۔ سیاق کلام کو لے کر ذرا آگے بڑھئے ۔ اس منظر میں ان کی کچھ اور تصاویر آتی ہیں ۔ (آیت) ” وتری کثیرا منھم یسارعون فی الاثم والعدوان واکلھم السحت ، لبئس ما کانوا یعملون (٦٢) ” تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت ہی بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں “۔ مسارعہ باب مفاعلہ ہے بہت سے لوگ ہیں جو باہم مقابلہ کررہے ہیں ‘ گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر حرام مال کھاتے ہیں ۔ یہ تصویر نہایت ہی مکروہ اور بدنما ہے ۔ لیکن جب کسی قوم کی اخلاقی حالت بگڑ جائے اور اس میں فساد سرایت کرجائے تو اس میں ایسی ہی صورت حالات پیدا ہوجایا کرتی ہے ۔ زندگی کی اعلی اقدار ختم ہوتی ہیں ‘ معاشرے پر شر غالب ہوجاتی ہوجاتا ہے اور جب بھی انسان کو ایسے معاشروں کو دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے تو یہ پایا جاتا ہے کہ ان میں لوگ شر ‘ گناہ اور ظلم کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس معاشرے کے کے طاقتور لوگ اپنے دائرے میں اور زبردست لوگ اپنے دائرے میں ظالم ہوتے ہیں ۔ گناہ میں آلودگی اور ظلم ایسے گرے ہوئے فاسد معاشروں میں صرف طاقتور لوگوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ضعفاء بھی ان جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں یہاں تک سب لوگ اثم وعدوان کے سیلاب میں بہتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ ضعفاء بیشک زبردستوں پر ظلم کرنے پر قادر نہیں ہوتے لیکن یہ ضعفاء پھر آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اور اگر ایک دوسرے پر ظلم نہ بھی نہ کرسکیں تو یہ لوگ پھر اللہ کی حرمتوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس لئے کہ فاسد معاشروں کے اندر پھر اللہ کے حدود ہی رہ جاتے ہیں جن کو توڑنے کے لئے ان کے سامنے میدان کھلا ہوتا ہے ۔ ایسے میں نہ طاقتور حکام اور نہ ضعفاء محکوم حدود اللہ کی حفاظت کرتے ہیں ۔ غرض جو معاشرے بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوجائے اس میں گناہ کی زندگی اور ظلم کی حرکات کا دور دورہ ہوتا ہے بلکہ گناہ اور ظلم کی طرف دوڑنے کے مقابلے (مسارعت) ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” لبئس ما کانوا یعملون “۔ (٥ : ٩٢) ” بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں ۔ “ یہاں سیاق کلام فاسد معاشروں کی ایک دوسری خصوصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے علماء اور مشائخ گنگ ہیں ‘ بولتے ہی نہیں ۔ علماء جو شریعت اور قانون کے نگران اور نگہبان ہیں ‘ ان کے سامنے قانون توڑے جاتے ہیں ۔ مشائخ جو علم دین کے استاد ہیں ان کے سامنے غلط افکار پھیل رہے ہیں اور وہ منع نہیں کرتے اور ان کے سامنے لوگ گناہ اور ظلم کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کی حالت پھر منافقوں کا ذکر فرمایا کہ اے مسلمانو ! جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ان کا یہ کہنا جھوٹ ہوتا ہے (وَ قَدْ دَّخَلُوْا بالْکُفْرِ وَ ھُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ ) (وہ داخل بھی ہوئے کفر کے ساتھ اور نکلے بھی کفر کے ساتھ) نہ پہلے مومن تھے نہ تمہاری مجلس میں باایمان ہو کر بیٹھے، جیسے حالت کفر میں آئے ویسے ہی چلے گئے۔ یہ ظاہر میں ایمان والے بنتے ہیں اور دلوں کے اندر کفر چھپا رکھتے ہیں اللہ کو اس بات کو پورا پورا علم ہے جسے وہ چھپائے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کی حرام خوری اور گناہگاری یہودیوں میں حرام کھانے کا بہت رواج تھا اور گناہ بھی بڑھ چڑھ کر کرتے تھے ظلم اور زیادتی میں بھی خوب آگے بڑھے ہوئے تھے سود کا لین دین بھی خوب تھا اور رشوتوں کا بھی خوب چرچا تھا اس کو فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

106 جَاءُوْا کا فاعل وہی منافقین یہود ہیں جو کافروں سے دوستی رکھتے اور دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں یہاں ان کے نفاق اور خبث باطن کا بیان فرمایا، جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو دل و جان سے ایمان لا چکے ہیں۔ وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ جملہ قَالُوْا کی ضمیر سے حال ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ وہ اپنے دلوں میں کفر لے کر آتے ہیں اس لیے ان کا دعویٰ ایمان سراسر جھوٹا ہے۔ وَ ھُمْ قَدْ خَرَجُوْا بہ۔ یہ بھی قَالُوْا کے فاعل سے حال واقع ہے یعنی جب وہ آپ کی مجلس سے چلے جاتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے دلوں میں وہ کفر جاگزیں ہوتا ہے اور آپ کے وعظ و تبلیغ اور قرآنی آیات کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اللہ کی آیت سن کر اور ان کا انکار کر کے کفر میں اور پختہ ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ وَالَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ فِیْ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ھُوَ عَلَیْھِمْ عَمًی۔ (حم السجدۃ ع 5) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi