Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 62

سورة المائدة

وَ تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۲﴾

And you see many of them hastening into sin and aggression and the devouring of [what is] unlawful. How wretched is what they have been doing.

آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر گناہ کے کاموں کی طرف اور ظلم و زیادتی کی طرف اور مال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں ، جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ نہایت برے کام ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَتَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ... And you see many of them (Jews) hurrying for sin and transgression, and eating illegal things. They hurry to devour prohibited and illegal things, all the while transgressing against people, unjustly consuming their property through bribes and Riba, ... لَبِيْسَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ Evil indeed is that which they have been doing. Indeed, horrible is that which they used to do and the transgression that they committed. Criticizing Rabbis and Learned Religious Men for Giving up on Forbidding Evil Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Moral Loss of Jews In the first verse (62) cited above, mentioned there is the moral dep¬ravation and self-destructive attitude of many Jews so that people who know that may take a lesson and stay away from such deeds, as well as from causes that lead to them. Though, this was generally the condition of Jews, but they also had some good people among them. It is to exclude them that the Qur&an has used the word: کَثِیرًا ` kathiran& (many). As for aggression and eating of the unlawful, these are though included under the sense of ` sin&, yet they have been particularly mentioned, distinctly, in order to lay em¬phasis on the ruin these two kinds of sins bring on one and all. (Al-Bahr Al-Muhit) According to Ruh al-Ma&ani, by using the expression ` racing towards sin& about these people, the Holy Qur&an has given the hint that they are chronic subjects of these evil traits and the evil deeds they do have become fixed habits with them, so ingrained that they (automatically) move in that direction, even without intention. This tells us that a good or bad deed when done many times re¬peatedly becomes a part and parcel of the inmost being of a person, almost a skill or drive or a fixed habit, after which, there remains no ex¬ertion or hesitation in doing what one does. This was the limit reached by Jews in pursuing their evil traits. To highlight it, it was said: يُسَارِ‌عُونَ فِي الْإِثْمِ (They race towards sin). The same thing applies to prophets and men of Allah in the case of their good traits. About them too, the Holy Qur&an has used the same expression when it says: يُسَارِ‌عُونَ فِي الخیراتِ (They race towards good deeds - 3:114).

خلاصہ تفسیر اور آپ ان (یہودیوں) میں بہت آدمی ایسے دیکھتے ہیں جو دوڑ دوڑ کر گناہ (یعنی جھوٹ) اور ظلم اور حرام (مال) کھانے پر گرتے ہیں واقعی ان کے یہ کام برے ہیں (یہ تو عوام کا حال تھا آگے خواص کا حال ہے کہ) ان کو مشائخ اور علماء گناہ کی بات کہنے سے (باوجود علم مسئلہ و اطلاع واقعہ کے) کیوں نہیں منع کرتے، واقعی ان کی یہ عادت بری ہے۔ معارف و مسائل یہود کی اخلاقی تباہ حالی آیت مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اکثر یہود کی اخلاقی گراوٹ اور عملی بربادی کا ذکر ہے، تاکہ سننے والوں کو نصیحت ہو کہ ان افعال اور ان کے اسباب سے بچتے رہیں۔ اگرچہ عام طور پر یہودیوں کا یہی حال تھا لیکن ان میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے۔ قرآن کریم نے ان کو مستثنیٰ کرنے کے لئے لفظ کثیراً استعمال فرمایا، اور ظلم وتعدی اور حرام خوری دونوں اگرچہ لفظ اثم یعنی گناہ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ لیکن ان دونوں قسم کے گناہوں کی تباہ کاری اور ان کی وجہ سے پورے امن و اطمینان کی بربادی واضح کرنے کے لئے خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر علٰیحدہ کردیا (بحر محیط) ۔ اور تفسیر روح المعانی وغیرہ میں ہے کہ ان لوگوں کے متعلق دوڑ دوڑ کر گناہوں پر گرنے کا عنوان اختیار کر کے قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا، کہ یہ لوگ ان بری خصلتوں کے عادی مجرم ہیں۔ اور یہ برے اعمال ان کے ملکات راسخہ بن کر ان کی رگ و پے میں اس طرح پیوست ہوگئے ہیں کہ بلا ارادہ بھی یہ لوگ اسی طرف چلتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیک عمل ہو یا بد جب کوئی انسان اس کو بکثرت کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ ایک ملکہ راسخہ اور عادت بن جاتی ہے۔ پھر اس کے کرنے میں اس کو کوئی مشقت اور تکلیف باقی نہیں رہتی، بری خصلتوں میں یہود اسی حد پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس کو ظاہر کرنے کے لئے ارشاد فرمایا : يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ ، اور اسی طرح اچھی خصلتوں میں انبیاء و اولیاء کا حال ہے۔ ان کے بارے میں بھی قرآن کریم نے (آیت) یسارعون فی الخیرات کے الفاظ استعمال فرمائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝ ٠ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٦٢ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ عُدْوَانِ ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔ سحت السُّحْتُ : القشر الذي يستأصل، قال تعالی: فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ. [ طه/ 61] ، وقرئ : فَيَسْحِتَكُمْ يقال : سَحَتَهُ وأَسْحَتَهُ ، ومنه : السَّحْتُ والسُّحْتُ للمحظور الذي يلزم صاحبه العار، كأنه يسحت دينه ومروء ته، قال تعالی: أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة/ 42] ، أي : لما يسحت دينهم . وقال عليه السلام : «كلّ لحم نبت من سحت فالنّار أولی به» وسمّي الرّشوة سحتا لذلک، وروي «كسب الحجّام سحت» فهذا لکونه سَاحِتاً للمروءة لا للدّين، ألا تری أنه أذن عليه السلام في إعلافه الناضح وإطعامه المماليك ( س ح ت ) السحت ۔ اصل میں اس چھلکے کو کہتے ہیں جو پوری طرح اتار لیا جائے ( اور اس سے ہلاک کردینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ) چناچہ قرآن میں ہے :َفَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ «1» . [ طه/ 61] اور نہ وہ تم ( پر کوئی ) عذاب ( نازل کر کے اس ) سے تم کو ملیامیٹ کر دے گا ۔ اس میں ایک قرات ( فتح یاء کے ساتھ ) بھی ہے اور سحتہ ( ض ) و اسحتہ ( افعال کے ایک ہی معنی آتے ہیں یعنی بیخ کنی اور استیصال کرنا ۔ پھر اسی سے سحت کا لفظ ہر اس ممنوع چیز پر بولا جانے لگا ہے جو باعث عار ہو کیونکہ وہ انسان کے دین اور مروت کی جڑ کاٹ دیتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة/ 42] اور مال حرام کو کھاتے چلے جاتے ہیں ۔ یعنی وہ چیز جو ان کے دین کا ناس کرنے والی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (171) کل لحم نبت من سحت فالنار اولی بہ ۔۔۔۔ جو گوشت مال حرام کے کھانے سے پیدا ہو وہ آگ کے لائق ہے اور اسی سے رشوت کو سحت کہا گیا ہے (172) ایک روایت میں ہے (173) کہ حجام ( پچھنا لگانے والے ) کی کمائی |" سحت |" ہے ۔ تو یہاں سحت بمعنی حرام نہیں ہے جو دین کو برباد کرنے والا ہو بلکہ سحت بمعنی مکروہ ہے یعنی ایسی کمائی مروت کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت نے ایسی کمائی سے اونٹنی کو چارہ ڈالنے اور غلاموں کو کھانے کھلانے کا حکم دیا ہے ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں کو دیکھتے ہیں جو دوڑ دوڑ کر کفر وشرک، ظلم، لوت مار، حرام اور رشوت اور حکم خداوندی کی تبدیلی پر تبدیلی کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:62) العدوان۔ عدا یعدوا کا مصدر ہے (باب نصر) ظلم و سترم ۔ زیادتی۔ السحت۔ حرام ۔ دیکھو 5:42 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 اثم سے مراد وہ گناہ ہے جس کا نقصان کرنے والے کو ہوتا ہے جیسے جھوٹ، شرک کفر و بدعت اور عدون وہ گنا ہے جس سے دوسرے کو بھی نقصال پہنچتا ہے جیسے ظلم و زیادتی حق تلفی وغیرہ۔ سھت حرام مال جو بھی ناجائز ذریعے سے کما یا جائے (دیکھئے آیت 42)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ ) (آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے کہ گناہ کرنے میں اور ظلم و زیادتی میں تیزی کے ساتھ دوڑتے ہیں اور حرام کھانے میں خوب تیز ہیں) (لَبِءْْسَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (البتہ وہ کام برے ہیں جو وہ کرتے ہیں) ۔ جھوٹے درویشوں کی بد حالی امت محمدیہ میں جو جھوٹے درویش بنے ہوئے ہیں انہوں نے دنیا حاصل کرنے کے لئے پیری مریدی اختیار کرلی ہے۔ مال داروں میں گھل مل کر رہتے ہیں، جن سے اغراض وابستہ ہیں یا وہ حکومتوں کے ملازم ہیں، ان کے ذریعہ کام نکلتا ہے، ان کی اصلاح کی کوئی فکر نہیں، اپنی ذات کا نفع سامنے رہتا ہے، ایسے درویش اور بعض علماء بھی اسی مصیبت میں مبتلا ہیں کہ حرام کھانے سے اور حرام کمانے سے اور گناہوں میں مال لگانے سے نہیں روک سکتے۔ جو لوگ قبروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں طرح طرح سے لوگوں سے مال وصول کرتے ہیں بےنمازی ہیں اور بزرگ بنے ہوئے ہیں داڑھیاں منڈی ہوئی ہیں اور درویشی کے دعویدار ہیں حلال حرام کی تمیز کے بغیر لوگوں سے سب کچھ وصول کرلیتے ہیں بھلا ایسے لوگ کیا حق بات کہہ سکتے ہیں اور کیا گناہوں سے روک سکتے ہیں ؟ ان لوگوں کے ہم مشرب اور ہم مسلک علماء ہیں ان کے مونہوں پر لگامیں ہیں۔ قبروں پر جو عرس ہوتے ہیں ان میں خود شریک ہوتے ہیں اور یہ نہیں کہ سکتے کہ فلاں فلاں اعمال کر رہے ہو یہ شرک اور بدعت ہیں بلکہ یہ دنیا دار علماء اپنے عمل سے اپنے علم کو مشرکا نہ مبتدعانہ اعمال کی تائید میں خرچ کرتے ہیں۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ قرآن کریم میں (درویشوں اور عالموں کی) توبیخ کے لئے اس آیت سے زیادہ سخت کوئی آیت نہیں ہے، حضرت علی (رض) نے ایک دن خطبہ دیا اور حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ وہ گناہ کرتے تھے اور درویش اور اہل علم انہیں نہیں روکتے تھے جب گناہوں میں بڑھتے چلے گئے تو ان پر عذاب نازل ہوگیا لہٰذا تم امر بالمعروف کرو اور نہی عن المنکر کرو اس سے پہلے کہ تم پر وہ عذاب آئے جو ان لوگوں پر آیا تھا اور یہ بات جان لو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے نہ رزق منقطع ہوتا ہے اور نہ موت وقت سے پہلے آتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

107 ۔ منافقین یہود کی خباثت بیان کرنے کے بعد ان کے عام غلط کار علماء اور بد عمل درویشوں پر شکوی فرمایا کہ وہ برائی کے ہر میدان میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ وہ لوگوں کو شرک سکھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود کو توڑتے ہیں، رشوتیں لیتے ہیں اور غیر اللہ کی نیازیں کھاتے ہیں۔ اَلْاِثْمِ سے مراد شرکیہ کلمات ہیں۔ وقیل کلمۃ الشرک وھو قولھم عزیر ابن اللہ (ابو السعود ج 3 ص 612) یا اثم عام ہے اور اس سے ہر گناہ مراد ہے۔ اَلْعُدْوَانُ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنا۔ السُّحْتُ یعنی رشوت اور غیر اللہ کی نذر و نیاز وہ جو کچھ کر رہے ہیں بہت برا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi