Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 70

سورة المائدة

لَقَدۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ رُسُلًا ؕ کُلَّمَا جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُہُمۡ ۙ فَرِیۡقًا کَذَّبُوۡا وَ فَرِیۡقًا یَّقۡتُلُوۡنَ ﴿٭۷۰﴾

We had already taken the covenant of the Children of Israel and had sent to them messengers. Whenever there came to them a messenger with what their souls did not desire, a party [of messengers] they denied, and another party they killed.

ہم نے بالیقین بنو اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور ان کی طرف رسولوں کو بھیجا ، جب کبھی رسول ان کے پاس وہ احکام لے کر آئے جو ان کی اپنی منشاء کے خلاف تھے تو انہوں نے ان کی ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک جماعت کو قتل کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَايِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلً ... Verily, We took the covenant of the Children of Israel and sent Messengers to them. Allah reminds that He took the covenant and pledges from the Children of Israel to hear and obey Him and His Messenger. They broke these pledges and covenants and followed their lusts and desires instead of the law, and whichever part of the law they agreed with, they took it. Otherwise, they abandoned it, if it did not conform to their desires. This is why Allah said, ... كُلَّمَا جَاءهُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُواْ وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ

سیاہ عمل یہود اور نصاریٰ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے وعدے لئے تھے کہ وہ اللہ کے احکام کے عامل اور وحی کے پابند رہیں گے ۔ لیکن انہوں نے وہ میثاق توڑ دیا ۔ اپنی رائے اور خواہش کے پیچھے لگ گئے کتاب اللہ کی جو بات ان کی منشاء اور رائے کے مطابق تھی مان لی جس میں اختلاف نظر آیا ترک کر دی ، نہ صرف اتنا ہی کیا بلکہ رسولوں کے مخالف ہو کر بہت سے رسولوں کو جھوٹا بتایا اور بہتیروں کو قتل بھی کر دیا کیونکہ ان کے لائے ہوئے احکام ان کی رائے اور قیاس کے خلاف تھے اتنے بڑے گناہ کے بعد بھی بےفکر ہو کر بیٹھے رہے اور سمجھ لیا کہ ہمیں کوئی سزا نہ ہو گی لیکن انہیں زبردست روحانی سزا دی گئی یعنی وہ حق سے دور پھینک دیئے گئے اور اس سے اندھے اور بہرے بنا دیئے گئے نہ حق کو سنیں اور نہ ہدایت کو دیکھ سکیں لیکن پھر بھی اللہ نے ان پر مہربانی کی افسوس اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر حق سے نابینا اور حق کے سننے سے محروم ہی ہو گئے اللہ ان کے اعمال سے باخبر ہے وہ جانتا ہے کہ کون کس چیز کا مستحق ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] اخروی نجات کے حقدار کون ؟ بنی اسرائیل کی ایسی کرتوتوں کا ذکر قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا دین صرف اپنی خواہشات کی پیروی تھا۔ کتاب اللہ میں سے ایسی چیزوں کی پیروی کرلینا جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوں اور جو باتیں خواہشات کے خلاف ہوں ان میں عصیان و سرکشی کی راہ اختیار کر جانا دراصل کتاب اللہ کی پیروی نہیں بلکہ اپنی خواہشات ہی کی پیروی ہوتی ہے اور یہی کچھ وہ کیا کرتے تھے اور اس خواہش نفس کی پیروی میں وہ اس حد تک بڑھے ہوئے تھے اور انبیاء کو جھٹلانا تو درکنار، قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۔۔ : اس سے مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وعدہ پورا نہ کرنے کا بیان ہے، گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت ” اَوفُو بالعُقُودِ “ سے ہے، یعنی ہم نے ان سے عہد لیا کہ توحید و شریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے۔ اس میثاق کا ذکر اس سورت کی آیت (١٢) اور سورة بقرہ کی آیت (٨٣ تا ٨٥) میں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This is an account of how the Bani Isra&il kept breaking the pledge taken from them. As said in verse 70, whenever their Messenger brought a command which did not suit their fancy, they would break their pledge and go about betraying Allah to the limit that they would falsify His Messengers, even kill some of them. They were command¬ed ` to believe in Allah and act righteously.& But, this was what they did in response. As for the other part of the command - ` Belief in the Last Day& their behaviour was equally reckless. After having com¬mitted acts so oppressive, they became totally carefree as if they would not have to pay for what they had done and as if the consequences of their injustice and rebellion will never come out in the open. Under this false impression, they became totally blind and deaf to Divine signs and words. They went on doing what should have not been done. So much so that they killed some prophets and put some others behind bars. Finally, Almighty Allah imposed on them the mastery of Nebuchadnezzar (King of Babylonia, 605-562 B.C., who took them as slaves to Babylon - Old Testament, book of Daniel). When, after a long time, they were sent back to Jerusalem from Babylon through help from some Persian kings who secured their release from disgrace under Nebuchadnezzar, they repented and turned to making amends. Allah relented and accepted their repentance. But, with the passage of some time, they went back to their old practices which made them so blind and deaf once again that they dared killing Sayyi.dna Zakariyah (علیہ السلام) (Zechariah) and Sayyidna Yahya (John) and were all set to kill Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) (Jesus ). (Tafsir Usmani - Notes)

خلاصہ تفسیر ہم نے بنی اسرائیل سے (اول توریت میں تمام پیغمبروں کی تصدیق و اطاعت کا) عہد لیا اور (اس عہد کے یاد دلانے کو) ہم نے ان کے پاس بہت پیغمبر بھیجے (لیکن ان کی یہ حالت تھی کہ) جب کبھی ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا حکم لایا جس کو ان کا جی نہ چاہتا تھا (تب ہی ان کے ساتھ مخالفت سے پیش آئے) سو بعضوں کو (تو) جھوٹا بتلایا اور بعضوں کو (بیدھڑک) قتل ہی کر ڈالتے تھے اور (ہمیشہ ہر شرارت پر جب چند روز سزا سے مہلت دی گئی) یہی گمان کیا کہ کچھ سزا نہ ہوگی اس (گمان) سے اور بھی اندھے اور بہرے (کی طرح) بن گئے (کہ نہ دلائل صدق انبیاء کو دیکھا نہ ان کے کلام کو سنا) پھر (ایک مدت کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ان پر (رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائی (کہ اور کسی پیغمبر کو بھیجا کہ اب بھی راہ پر آویں مگر) پھر بھی (اسی طرح) اندھے اور بہرے بنے رہے یعنی (سب تو نہیں مگر) ان میں سے بہتیرے، اور اللہ تعالیٰ ان کے (ان) اعمال کو خوب دیکھنے والے ہیں (یعنی ان کا گمان غلط تھا، چناچہ ان کو وقتاً فوقتاً سزا بھی ہوتی رہی، مگر ان کا یہی شیوہ رہا۔ حتی کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسی طرح تکذیب و خلاف کا برتاؤ کیا) ۔ معارف و مسائل بنی اسرائیل کی عہد شکنی ۭكُلَّمَا جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُهُمْ ، یعنی جب بنی اسرائیل کے پاس ان کا رسول کوئی حکم لاتا جو ان کے مذاج کے مطابق نہ ہوتا تو عہدو پیمان توڑ کر خدا سے غداری کرتے پھرتے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں میں سے کسی کو جھٹلایا، کسی کو قتل کیا، یہ تو ان کے ” ایمان باللہ اور عمل صالح “ کا حال تھا۔ ” ایمان بالیوم الآخر “ کا اندازہ اس سے کرلو کہ اس قدر شدید مظالم اور باغیانہ جرائم کا ارتکاب کرکے بالکل بےفکر ہو بیٹھے۔ گویا ان حرکات کا کوئی خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا۔ اور ظلم و بغاوت کے خراب نتائج کبھی سامنے نہ آئیں گے۔ یہ خیال کرکے خدائی نشانات اور خدائی کلام کی طرف سے بالکل ہی اندھے اور بہرے ہوگئے اور جو نا کرنے کے کام تھے وہ کئے۔ حتیٰ کہ بعض انبیاء کو قتل اور بعض کو قید کیا۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کیا۔ پھر ایک مدت دراز کے بعد بعض ملوک فارس نے بخت نصر کی قید ذلت و رسوائی سے چھڑا کر بابل سے بیت المقدس کو واپس کیا۔ اس وقت لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوئے۔ خدا نے توبہ قبول کی لیکن کچھ زمانہ کے بعد پھر وہی شرارتیں سوجھیں اور بالکل اندھے بہرے ہو کر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہما السلام) کے قتل کی جرأت کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل پر تیار ہوگئے۔ (فوائد عثمانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَيْہِمْ رُسُلًا۝ ٠ۭ كُلَّمَا جَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُہُمْ۝ ٠ۙ فَرِيْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِيْقًا يَّقْتُلُوْنَ۝ ٧٠ۤ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ اِسْرَاۗءِيْلَ ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال . رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٠۔ ٧١) توریت میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق اور اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے کا عہد لیا جب بھی ان کے پاس کوئی رسول ایسا حکم لایا جس کو ان کے دل نہیں چاہتے تھے اور انکی یہودیت کے موافق نہیں تھا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو انہوں نے تکذیب کی اور حضرت زکریا اور یحییٰ (علیہما السلام) کو قتل کردیا اور یہی گمان کرتے رہے کہ انبیاء کرام کی تکذیب اور ان کے قتل کی وجہ سے یہ ہلاک نہیں ہوں گے اور حق وہدایت سے اندھے، بہرے بنے رہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا، مگر پھر ایمان لائے اور کفر سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ان کے گناہوں کو معاف کردیا۔ مگر اس کے بعد پھر بھی یہ ہدایت اور حق سے اندھے، بہرے ہوگئے اور کفر وشرک ہی کی حالت میں مرگئے، کفر کی اس حالت میں کہ جب انہوں نے انبیاء کرام کو جھٹلایا اور ان کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ ان کے ایسے افعال بد کو بخوبی جانتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ ( لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمْ رُسُلاً ط) یہاں بہت سے رسول بھیجنے سے مراد ہے بہت سے انبیاء بھیجے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ‘ قرآن مجید میں رسول کا لفظ نبی کی جگہ استعمال ہوا ہے ‘ البتہ جہاں تک لفظ رسول کے اصطلاحی مفہوم کا تعلق ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل میں رسول صرف ایک آئے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ‘ باقی سب نبی تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(70 ۔ 71) ۔ اوپر ذکر تھا کہ یہود اگر پورے طور پر تورات کے پابند نہ ہوں گے تو ان کو راہ راست پر شمار نہ کیا جاوے گا ان آیتوں میں ان کے تورات پر قائم نہ رہنے کی تفصیل ذکر فرمائی ہے جس عہد کا ذکر ان آیتوں میں ہے یہ وہی عہد ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیت { وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہُ } ( ٢: ٨٣) کی تفسیر میں گذرچکا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت نبی اللہ تعالیٰ نے تورات کے اس عہد کے قائم رکھنے کے لئے بھیجے۔ لیکن یہود نے تورات کے اکثر احکام کو چھوڑ کر بجائے ان احکام کے اپنی خواہش کے موافق ایجادی باتیں تراش رکھی تھیں جس نبی نے ان کو ان باتوں سے روکا اس سے انہوں نے مخالفت پیدا کر کے بعض نبیوں کو تو قتل کر ڈالا مثلاً حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور یحییٰ ( علیہ السلام) ان نبیوں میں سے ہیں جن کو یہود نے قتل کیا اور بعض نبیوں کو انہوں نے جھٹلایا جیسے مثلاً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اپنی ایجادی باتوں کو یہود حکم الٰہی جانتے ہیں اس لئے ان کا یہ خیال ہے کہ ان باتوں کی پاسداری میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی نبی کو مار ڈالنا یا جھٹلانا کوئی خرابی یا گناہ کی بات نہیں ہے ایک دفعہ دل کے اندھے اور کانوں کے بہرے بن کر شعیب نبی کو قتل کیا پھر کچھ درست ہوگئے پھر اپنے پہلے ڈھنگ پر آکر حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) بن زکریا ( علیہ السلام) کو قتل کیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قتل کی فکر آخر کو فرمایا کہ ان کی یہ سب گناہ باتیں اللہ کی نگاہ میں ہیں وقت مقررہ پر ان کا کیا ان کے آگے آنے والا ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ یہود کو دنیوی سزا تو جالوت اور بخت نصر وغیرہ کے ہاتھ سے مل چکی۔ عقبیٰ کی سزا بھی سب کی آنکھوں کے سامنے آنے والی ہے۔ ترمذی نسائی وغیرہ کی ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے کہ کثرت گناہ سے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے ١ ؎ جس کے سبب سے نہ وہ کوئی نصیحت کی بات کانوں سے دل لگا کر سنتا ہے نہ کسی نیک بات کا اس کے دل پر کچھ اثر ہوتا ہے دل کے اندھے اور کانوں کے بہرے لوگوں کی حالت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:70) لاتھوی۔ ھوی (باب سمع) سے مضارع منفی واحد مؤنث غائب وہ نہیں چاہتی ہے ۔ وہ نہیں پسند کرتی ہے۔ ھوی نفس کا خواہش کی طرف مائل ہونا۔ بما لا تھوی۔ ایسا حکم لے کر جسے ان کے نفسوں نے (یعنی انہہوں نے) پسند نہ کیا۔ فریقا۔ یعنی رسولوں کے ایک گروہ کو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 اس مقصود بنی اسرائیل کی سرکشی اور وفائے عہد سے انحراف کو بیان کرنا ہے گویا اس کا تعلق ابتدائے سورت (اوفو بالعقود) سے ہے (کبیر) یعنی ان سے عہد لیا کہ توحید و شریعت پر قائم رہیں گے اور جو رسول ان کی طرف بھیجے جائیں گے ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے (ابن کثیر)10 یعنی شرائع اور احکام کی تعریف وارتشریح کے لے (کبیر)11 تو ان سے دشمنی کی پس کلما کا جواب محذوف ہے ای نا صبوہ کیونکہ بعد کا کلام اس پر دال ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 70 تا 71 لغات القرآن : لاتھدی (پسند نہ تھا۔ وہ نہ چاہتے تھے) ۔ حسبوا (انہوں نے گمان کیا۔ وہ سمجھے) ۔ عموا (وہ اندھے ہوگئے) ۔ صموا (بہرے ہوگئے) ۔ تشریح : چند الفاظ میں بنی اسرائیل کی تاریخ بیان کردی گئی ہے۔ جتنے رسول آئے اور ان کی طرف بھیجے گئے، ان کی تعداد کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان پیغمبروں کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔ کسی دوسری قوم میں اتنے پیغمبر پیدا نہیں ہوئے۔ کسی دوسری قوم کی اصلاح کو اتنے پیغمبر نہیں بھیجے گئے۔ مگر کسی دوسری قوم نے اتنی ضد، کفر اور طغیان کو راہ نہیں دی جتنی وہ اب تک دے رہے ہیں۔ قرآن پاک نے ان کی شرارتوں اور نافرمانیوں کی چند تفصیلات سورة بقرہ سورة بنی اسرائیل وغیرہ میں دی ہیں۔ ” اندھے اور بہرے “ کے الفاظ سورة بقرہ رکوع ایک میں بھی ایک جگہ آئے ہیں۔ یعنی سب کچھ دیکھنے کے باوجود نہ دیکھا سب کچھ سننے کے باوجود نہ سنا۔ کوئی عبرت نہیں پکڑی۔ کوئی نصیحت قبول نہیں کی۔ پیغمبروں کو ہر طرح ایذائیں پہنچائیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) وغیرہ کے واقعات سب کو معلوم ہیں۔ بنی اسرائیل میں چند سعید روحین بھی ہیں جنہوں نے توبہ کی اور ان کی توبہ اللہ نے قبول کرلی۔ مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اب بھی اگر کوئی توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ مغفرت کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ ان کی ذلیل حرکات اللہ سے پوشیدہ نہیں۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ریکارڈ رکھ رہا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی تمام پیغمبروں کی تصدیق و اطاعت کا عہد۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے ایمان باللہ، آخرت پر یقین اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ اگر وہ اس پر عمل کرتے تو مغضوب ہونے کے بجائے دنیا اور آخرت میں بےخوف ہوجاتے۔ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے جو عہد لیا تھا اس کی تفصیل سورة البقرہ آیت ٨٣ المائدہ ١٢ میں گزر چکی ہے البقرہ آیت ٨٣ میں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا تھا کہ جس نبی کی نبوت کے دور میں خاتم المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں اسے اپنی نبوت کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے آخری نبی کی رسالت کا پرچم اٹھانا ہوگا اس عہد کی بنیاد پر ہر رسول اور نبی اپنی امت سے یہ عہد لیا کرتا تھا کہ جونہی نبی آخرالزماں جلوہ افروز ہوں۔ ہر کسی کا فرض ہوگا کہ وہ آخری نبی کا کلمہ پڑھے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اختیار کرے لیکن بنی اسرائیل کی اکثریت نہ صرف اس عہد سے منحرف ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے میں سے مبعوث ہونے والے ہر نبی کی مخالفت کی۔ ان کا مزاج تھا اور ہے کہ یہ اپنے آپ کو شریعت کے حوالے کرنے کی بجائے شریعت کو اپنا غلام بنانے کی مذموم کوشش میں مصروف رہتے ہیں اسی بناء پر ہی انہوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور اسی وجہ سے ہی انبیاء کو قتل کرتے رہے اس آیت مبارکہ میں بھی ایک انداز سے آپ کے لیے ڈھارس کا سامان ہے اے رسول اقدس ! آپ کو ایسے لوگوں پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنا کام کرتے رہنا چاہیے اگر یہ قرآن مجید کی مخالفت اور آپ کو جھٹلاتے ہیں تو یہ ان کی فطرت ثانیہ اور جبلت قدیمہ ہے۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا گیا کہ انبیاء پر ایمان لائیں۔ ٢۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کی تکذیب کی، اور کچھ انبیاء کو قتل کیا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٧٠ تا ٧١۔ یہ ان کی قدیم تاریخ ہے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں انہوں نے جو موقف اختیار کیا وہ پہلا اور آخری موقف نہیں ہے ۔ یہ لوگ سرکشی اور روگردانی کے عادی مجرم ہیں ۔ یہ وعدہ خلافی کے پرانے خوگر ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی خواہشات نفس ہی کو اپنا الہ اور حاکم مانا ہے ۔ کبھی انہوں نے اللہ کے دین اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے سرتسلیم خم نہیں کیا ۔ یہ لوگ ہمیشہ داعیان حق کے لئے سرکش اور ظالم رہے ۔ (آیت) ” لَقَدْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہِمْ رُسُلاً کُلَّمَا جَاء ہُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَہْوَی أَنْفُسُہُمْ فَرِیْقاً کَذَّبُواْ وَفَرِیْقاً یَقْتُلُونَ (70) ” ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ان کی طرف بہت سے رسول بھیجے ۔ مگر جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول ‘ انکی خواہشات نفس کے خلاف کچھ لیکر آیا تو کسی کو انہوں نے جھٹلایا اور کو قتل کردیا ۔ بنی اسرائیل کی قدیم تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ انہوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی تعلیمات سے روگردانی کی ۔ انہوں نے کئی ایک پر دست درازی کی اور کئی ایک کو قتل کردیا ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی خواہشات ہی کی پیروی کی ۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طویل داستانیں امت مسلمہ کو سنائیں تاکہ وہ بھی کہیں بنی اسرائیل کی راہ پر چل نہ نکلے ۔ تاکہ امت مسلمہ کو معلوم ہوجائے کہ اس راہ کی مشکلات کیا ہیں اور ان لوگوں کو جو فہم و فراست کے مالک ہیں اور جن کا تعلق باللہ قائم ہے وہ ان مقامات لغزش کا اچھی طرح ادراک کرلیں اور جب انہیں ویسے ہی حالات درپیش ہوں جو انبیائے بنی اسرائیل کو پیش آئے تو وہ ان سے حوصلہ پکڑیں اور یہ کہ آئندہ اہل اسلام کی آنے والی نسلیں بھی اسی راہ پر چلنے والی تھیں اور انہوں نے بھی عرصہ گزرنے کے بعد ویسی ہی سنگ دلی کا مظاہرہ کرنا تھا جو بنی اسرائیل نے کیا تھا ۔ انہوں نے بھی ہدایت کی راہ ترک کرکے اپنی خواہشات نفس کو الہ بنانا تھا ۔ آنے والے داعیان حق کو جھٹلانا تھا اور بعض کو قتل کرنا تھا بعینہ اسی طرح جس طرح بنی اسرائیل کے باغیوں اور نافرمانوں نے کیا تھا ۔ بنی اسرائیل کے یہ سرکش جب یہ سرکشیاں کر رہے تھے تو انہیں یقین تھا کہ ان پر اللہ کا کوئی عذاب نہ آئے گا اور ان سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا ۔ یہ سوچ ان کی اس لئے پختہ ہوگئی تھی کہ وہ سنت الہیہ کو بھول گئے تھے اور وہ اس غرور میں گرفتار تھے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی پیاری قوم ہیں ۔ (آیت) ” وحسبوا الاتکون فتنہ فعموا وصموا “ (٥ : ٧١) ” اور اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ کوئی فتنہ رونمانہ ہوگا ‘ اس لئے اندھے اور بہرے بن گئے ۔ “ ان کی آنکھوں کی بصارت چلی گئی ‘ اس لئے وہ جس کو بھی دیکھتے اسے نہ سمجھتے اور ان کے کانوں پر پردے پڑگئے ‘، اس لئے جو چیز بھی سنتے اس سے فائدہ نہ اٹھاتے تھے ۔ (آیت) ” ثم تاب اللہ علیھم “۔ (٥ : ٧١) ” اس کے بعد اللہ نے انہیں پھر معاف کیا “۔ یہ اللہ خاص رحمت تھی مگر انہوں نے اس اک بھی کچھ پاس نہ کیا ۔ (آیت) ” ثم عموا وصموا کثیرا منھم “۔ (٥ : ٧١) پھر وہ اندھے اور بہرے بن گئے ان سے اکثر لوگ “۔ (آیت) ” (واللہ بصیر بما یعملون) “۔ (٥ : ٧١) اللہ انکی سب حرکات کو دیکھتا رہا ہے “۔ اس لئے وہ انہیں انکی تمام حرکات پر انکو جزاء دے گا اور وہ بچ نہ سکیں گے ۔ اہل ایمان کے لئے یہاں اس قدر کافی ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے بارے میں جان لیں اور اپنے جدید موقف کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تاکہ اہل ایمان اس بات پر یکسو ہوجائیں اور ان کے ساتھ تعلق موالات کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیں ۔ جس طرح حضرت عبادہ ابن الصامت (رض) نے کہا کہ انہوں نے متنفر ہو کر تعلق موالات کے خاتمہ کا اعلان کردیا اور عبداللہ ابن ابی السلول جیسے منافقین نے اس تعلق کو جاری رکھا ۔ یہ تو تھے حالات یہودیوں کے ۔ رہے نصاری تو ان کے شب وروز بھی ایسے ہی تھے ۔ ان کے بارے میں بھی قرآن کریم ایک فیصلہ کن اور دو ٹوک تصرہ کرتا ہے ۔ اور یہ تبصرہ اس سورة کے موضوع اور مقصد کے ساتھ بالکل مناسب ہے ۔ اس لئے کہ قرآن یہاں اہل دین کو جو موقف دینا چاہتا ہے اس کے ساتھ یہی مناسب ہے ۔ اس سے پہلے اس سورة میں ان لوگوں کے بارے میں کہا گیا تھا جن کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ ہیں کہ یہ لوگ کافر ہیں ۔ اب اس بات کو یہاں دوبارہ دہرایا جاتا ہے کہ جن کا عقیدہ ہے کہ صرف عیسیٰ خدا ہیں یا جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تینوں میں سے ایک ہیں ۔ یہ دونوں کافر ہیں اور یہ کہ ان کے کفر پر یہاں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے قول سے استدلال کیا گیا ہے ، ان کو خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ تعلیم دی تھی کہ خبردار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو الہ نہ بناؤ ۔ آپ نے ان کو یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور اس معاملے میں میں اور تم سب برابر ہیں ‘ آخر میں لوگوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں ان غلط عقائد کو ترک کردیں اور ان کے بارے میں وہ عقائد اپنائیں جو اہل ایمان کے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کی عہد شکنی اس کے بعد فرمایا (لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کی طرف رسول بھیجے، ان کا یہ طریقہ رہا کہ حضرات انبیاء کرام ( علیہ السلام) جو دین پیش کرتے تھے اس دین میں سے جو حصہ نفس کو نہیں بھاتا تھا اور اچھا نہیں لگتا تھا اس سے اعراض کرتے تھے، اور اس ناگواری کے باعث بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلادیا اور بہت سوں کو قتل کردیا یہ مضمون سورة بقرہ کی آیت (اَفَکُلَّمَا جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لاَ تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ ) میں بھی گذر چکا ہے، ایمان کی شان یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو بھی حکم دیا جائے اور جو قانون نافذ کیا جائے اس کو بشاشت کے ساتھ قبول کیا جائے، نفسوں کو گوارا ہو یا نہ ہو، نفس کے مطابق ہو اتو مانا ورنہ ماننے سے انکار کردیا اور داعیوں کے دشمن ہوگئے، یہ ایمان کی شان نہیں، حضرت عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم بات سنیں گے اور حکم مانیں گے، تنگ دستی میں اور خوشحالی میں اور نفسوں کی خوشی میں اور ناگواری میں۔ ( رواہ البخاری ٢ ص ١٠٤٥) پھر کسی حکم میں اگر نفس کو تکلیف ہوتی ہے تو اس پر اجر بھی تو زیادہ ملتا ہے، سردیوں میں اچھی طرح وضو کرنا نیند قربان کر کے نماز کے لئے اٹھنا نفس کی ناگواری کے باوجود زکوٰۃ دینا روزہ رکھنا دشمنان دین سے لڑنا گناہوں سے بچنا یہ سب چیزیں نفسوں کے لئے ناگوار ہیں لیکن ان میں اجر وثواب بھی زیادہ ہے۔ نفس کے مطابق ہو تو مانا اور اور اگر خلاف نفس ہوا تو نہ مانا یہ تو نفس کی بندگی ہوئی، اللہ کے نیک بندے تو اللہ کی رضا تلاش کرتے ہیں نفس کی خواہشات کے پیچھے نہیں چلتے۔ بنی اسرائیل سے جو عہد لیا گیا سورة بقرہ میں اس کے بارے میں ارشاد ہے (وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ) یہ عہد ان سے توریت شریف پر عمل کرنے کے لئے لیا گیا تھا نیز سورة بقرہ ہی میں آیت ٨٣ اور آیت ٨٤ میں بھی بعض عہدوں کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا (وَ حَسِبُوْٓا اَلَّا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا) (اور انہوں نے گمان کیا کہ کچھ بھی فتنہ نہ ہوگا پھر وہ اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، دوبارہ پھر اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ دیکھتا ہے جن کاموں کو وہ کرتے ہیں) بنی اسرائیل کی طغیانی اور سرکشی بیان فرمانے کے بعد ان کے اس گمان بد کا تذکرہ فرمایا کہ نہ کوئی ہماری گرفت ہوگی نہ کوئی عذاب ہوگا انہیں یہ خیال یا تو اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت میں دیر ہوگئی اور یا اس لئے کہ اپنے کو اللہ کا محبوب سمجھتے تھے جب یہ خیال ہوگیا تو اور زیادہ شرارت اور معصیت پر اتر آئے اور اندھے بہرے بن گئے نہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے معجزات و دلائل کو دیکھ کر متاثر ہوئے اور نہ حق سنا اور نہ حق کی طرف متوجہ ہوئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

123 میثاق سے وہی عہد و میثاق مراد ہے جو بنی اسرائیل سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ توحید اور تمام احکام و شرائع کی پابندی کریں جیسا کہ سورة بقرہ ع 10 میں فرمایا وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ لَاتَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا الایۃ قد تقدم فی البقرۃ معنی المیثاق وھو الا یعبدوا الا اللہ و ما یتصل بہ (قرطبی ج 6 ص 247) ۔ ای باللہ لقد اخذنا میثاقھم بالتوحید و سائر الشرائع والاحکام المکتوبۃ علیھم فی التوراۃ (ابو السعود ج 3 ص 623 روح ج 6 ص 203) ۔ 124 عہد لینے کے بعد ہم ان کی طرف لگاتار پیغمبر بھیجتے رہے تاکہ وہ ان کو عہد کی یاد دہانی کراتے رہیں اور ان کو وعظ و نصیحت کے ذریعے عہد پورا کرنے کی تلقین کرتے رہیں۔ یعرفونھم ذلک۔۔۔۔ بالعظۃ والتذکیر ویطلعونھم علی ما یاتون و یذرون فی دینھم (روح) بنی اسرائیل کے پاس بھی تورات موجود تھی اور ان کی طرف جتنے پیغمبر تشریف لائے وہ سب تورات سے مسئلہ توحید بیان کرتے تھے لیکن بنی اسرائیل کے علماء اور درویش اس مسئلہ کی وجہ سے ان کی مخالفت کرنے لگتے یہی حال آج کل کے علماء سوء کا ہے کہ ان کے پاس بھی قرآن مجید موجود ہے لیکن جب علماء ربانی قرآن مجید سے مسئلہ توحید بیان کرتے ہیں تو علماء سوء اور سجادہ نشین مسئلہ توحید کی وجہ سے ان کے دشمن بن جاتے ہیں اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں۔ 125 جو باتیں ان کی نفسانی خواہشات اور ان کی اپنی مخترعات کے خلاف تھیں۔ مثلاً مسئلہ توحید، غیر اللہ کی نذر و نیاز کی حرمت وغیرہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi