Commentary This is an account of how the Bani Isra&il kept breaking the pledge taken from them. As said in verse 70, whenever their Messenger brought a command which did not suit their fancy, they would break their pledge and go about betraying Allah to the limit that they would falsify His Messengers, even kill some of them. They were command¬ed ` to believe in Allah and act righteously.& But, this was what they did in response. As for the other part of the command - ` Belief in the Last Day& their behaviour was equally reckless. After having com¬mitted acts so oppressive, they became totally carefree as if they would not have to pay for what they had done and as if the consequences of their injustice and rebellion will never come out in the open. Under this false impression, they became totally blind and deaf to Divine signs and words. They went on doing what should have not been done. So much so that they killed some prophets and put some others behind bars. Finally, Almighty Allah imposed on them the mastery of Nebuchadnezzar (King of Babylonia, 605-562 B.C., who took them as slaves to Babylon - Old Testament, book of Daniel). When, after a long time, they were sent back to Jerusalem from Babylon through help from some Persian kings who secured their release from disgrace under Nebuchadnezzar, they repented and turned to making amends. Allah relented and accepted their repentance. But, with the passage of some time, they went back to their old practices which made them so blind and deaf once again that they dared killing Sayyi.dna Zakariyah (علیہ السلام) (Zechariah) and Sayyidna Yahya (John) and were all set to kill Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) (Jesus ). (Tafsir Usmani - Notes)
خلاصہ تفسیر ہم نے بنی اسرائیل سے (اول توریت میں تمام پیغمبروں کی تصدیق و اطاعت کا) عہد لیا اور (اس عہد کے یاد دلانے کو) ہم نے ان کے پاس بہت پیغمبر بھیجے (لیکن ان کی یہ حالت تھی کہ) جب کبھی ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا حکم لایا جس کو ان کا جی نہ چاہتا تھا (تب ہی ان کے ساتھ مخالفت سے پیش آئے) سو بعضوں کو (تو) جھوٹا بتلایا اور بعضوں کو (بیدھڑک) قتل ہی کر ڈالتے تھے اور (ہمیشہ ہر شرارت پر جب چند روز سزا سے مہلت دی گئی) یہی گمان کیا کہ کچھ سزا نہ ہوگی اس (گمان) سے اور بھی اندھے اور بہرے (کی طرح) بن گئے (کہ نہ دلائل صدق انبیاء کو دیکھا نہ ان کے کلام کو سنا) پھر (ایک مدت کے بعد) اللہ تعالیٰ نے ان پر (رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائی (کہ اور کسی پیغمبر کو بھیجا کہ اب بھی راہ پر آویں مگر) پھر بھی (اسی طرح) اندھے اور بہرے بنے رہے یعنی (سب تو نہیں مگر) ان میں سے بہتیرے، اور اللہ تعالیٰ ان کے (ان) اعمال کو خوب دیکھنے والے ہیں (یعنی ان کا گمان غلط تھا، چناچہ ان کو وقتاً فوقتاً سزا بھی ہوتی رہی، مگر ان کا یہی شیوہ رہا۔ حتی کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسی طرح تکذیب و خلاف کا برتاؤ کیا) ۔ معارف و مسائل بنی اسرائیل کی عہد شکنی
ۭكُلَّمَا جَاۗءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُهُمْ ، یعنی جب بنی اسرائیل کے پاس ان کا رسول کوئی حکم لاتا جو ان کے مذاج کے مطابق نہ ہوتا تو عہدو پیمان توڑ کر خدا سے غداری کرتے پھرتے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں میں سے کسی کو جھٹلایا، کسی کو قتل کیا، یہ تو ان کے ” ایمان باللہ اور عمل صالح “ کا حال تھا۔ ” ایمان بالیوم الآخر “ کا اندازہ اس سے کرلو کہ اس قدر شدید مظالم اور باغیانہ جرائم کا ارتکاب کرکے بالکل بےفکر ہو بیٹھے۔ گویا ان حرکات کا کوئی خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا۔ اور ظلم و بغاوت کے خراب نتائج کبھی سامنے نہ آئیں گے۔ یہ خیال کرکے خدائی نشانات اور خدائی کلام کی طرف سے بالکل ہی اندھے اور بہرے ہوگئے اور جو نا کرنے کے کام تھے وہ کئے۔ حتیٰ کہ بعض انبیاء کو قتل اور بعض کو قید کیا۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کیا۔ پھر ایک مدت دراز کے بعد بعض ملوک فارس نے بخت نصر کی قید ذلت و رسوائی سے چھڑا کر بابل سے بیت المقدس کو واپس کیا۔ اس وقت لوگوں نے توبہ کی اور اصلاح حال کی طرف متوجہ ہوئے۔ خدا نے توبہ قبول کی لیکن کچھ زمانہ کے بعد پھر وہی شرارتیں سوجھیں اور بالکل اندھے بہرے ہو کر حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ (علیہما السلام) کے قتل کی جرأت کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل پر تیار ہوگئے۔ (فوائد عثمانی)