Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 78

سورة المائدة

لُعِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ؕ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوۡا وَّ کَانُوۡا یَعۡتَدُوۡنَ ﴿۷۸﴾

Cursed were those who disbelieved among the Children of Israel by the tongue of David and of Jesus, the son of Mary. That was because they disobeyed and [habitually] transgressed.

بنی اسرائیل کے کافروں پر ( حضرت ) داؤد ( علیہ السلام ) اور ( حضرت ) عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Cursed the Disbelievers Among the Children of Israel Allah says; لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن بَنِي إِسْرَايِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُواْ يَعْتَدُونَ Those among the Children of Israel who disbelieved were cursed by the tongue of Dawud and `Isa, son of Maryam. That was because they disobeyed (Allah and the Messengers) and were ever transgressing (beyond the bounds). Allah states that He has cursed the disbelievers among the Children of Israel long ago, and revealed this fact to His Prophets Dawud and `Isa, son of Maryam. He cursed them because they disobeyed Allah and transgressed against His creatures. Al-Awfi reported that Ibn Abbas said, "They were cursed in the Tawrah, the Injil, the Zabur (Psalms) and the Furqan (Qur'an)." Allah then states that during their time, their habit was that,

امر معروف سے گریز کا انجام ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے کافر پرانے ملعون ہیں ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پا چکے ہیں ۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے ، توراۃ ، انجیل ، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں ۔ یہ اپنے زمانہ میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے ، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا ۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ بنو اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے علماء نے انہیں روکا ۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آتے تو انہوں نے انہیں الگ نہیں کیا بلکہ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے ، جس کی وجہ سے دونوں گروہوں کے دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل بھڑا دیئے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی ۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔ اس کے بیان کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے روکو اور انہیں شریعت کی پابندی پر لاؤ ۔ ، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اسے روکتا ، اسے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے ۔ لیکن دوسرے روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا ، اس وجہ سے سب میں ہی سنگدلی آ گئی ۔ پھر آپ نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو ، برائیوں سے روکو ، ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اسے تنگ کرو کہ حق پر آ جائے ۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا دے گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے گا جیسی ان پر نازل فرمائی ۔ اس بارے میں اور بہت سی حدیثیں ہیں کچھ سن بھی لیجئے حضرت جابر والی حدیث تو آیت ( لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:63 ) کی تفسیر میں گزر چکی اور یا آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ:105 ) کی تفسیر میں حضرت ابو بکر اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیثیں آئیں گی ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا ۔ ابن ماجہ میں ہے اچھائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے سے روک دی جائیں ۔ صحیح حدیث میں ہے تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے ، اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے ( مسلم ) مسند احمد میں ہے اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں ، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو ، ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو ( ایک اور روایت میں ہے ان کا انکار کرتا ہو ) وہ مثل اس کے ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے ۔ ابو داؤد میں ہے لوگوں کے عذر جب تک ختم نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے روک نہ دے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو سعید خدری رو پڑے اور فرمانے لگے افسوس ہم نے ایسے موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی ۔ ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہدینا ہے ابن ماجہ میں ہے کہ جمرہ اولیٰ کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ سے سوال کیا کہ سب سے افضل جہاد کون سا ہے؟ آپ خاموش رہے ۔ پھر آپ جمرہ ثانیہ پر آئے تو اس نے پھر وہی سوال کیا مگر آپ خاموش ہو رہے جب جمرہ عقبہ پر کنکر مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے رکاب میں پاؤں رکھے تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں فرمایا حق بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہ دینا ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو اپنی بےعزتی نہ کرنی چاہئے لوگوں نے پوچھا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے؟ فرمایا خلاف شرع کوئی امر دیکھے اور کچھ نہ کہے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی کہ فلاں موقعے پر تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ جواب دے گا کہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں سب سے زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے خوف کھائے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور لوگوں سے خوف کھا گیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہئے ۔ لوگوں نے پوچھا کیسے؟ فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے؟ فرمایا اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہو جائے جو تم سے اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے پوچھا وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا کمینے آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا ۔ بڑے آدمیوں میں بدکاری کا آجانا ۔ رذیلوں میں علم کا آ جانا ۔ حضرت زید کہتے ہیں رذیلوں میں علم آجانے سے مراد فاسقوں میں علم کا آ جانا ہے ۔ اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے آیت ( لایضرکم ) کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ اکثر منافقوں کو تو دیکھے گا کہ وہ کافروں سے دوستیاں گانٹتھے ہیں ان کے اس فعل کی وجہ سے یعنی مسلمانوں سے دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے لئے برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے ۔ اس کی پاداش میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا ہے ۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور قیامت کے دن کیلئے دائمی عذاب بھی ان کیلئے آگے آ رہے ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے اسے مسلمانو ، زنا کاری سے بچو ، اس سے ۔ چھ برائیاں آتی ہیں ، تین دنیا میں اور تین آخرت میں ۔ اس سے عزت و وقار ، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے ۔ اس سے فقرو فاقہ آ جاتا ہے ۔ اس سے عمر گھٹتی ہے اور قیامت کے دن تین برائیاں یہ ہیں اللہ کا غضب ، حساب کی سختی اور برائی ، اور جہنم کا خلود ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی ۔ یہ حدیث ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے تو ہرگز کافروں سے دوستیاں نہ کرتے اور چھپ چھپا کر ان سے میل ملاپ جاری نہ رکھتے ۔ نہ سچے مسلمانوں سے دشمنیاں رکھتے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے خارج ہو چکے ہیں اس کی وحی اور اس کے پاک کلام کی آیتوں کے مخالف بن بیٹھے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 یعنی زبور میں جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔ 78۔ 2 یہ لعنت کے اسباب ہیں۔ 1۔ عصیان۔ یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔ 2۔ اور اعتداء، یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] بندر اور خنزیر والے کون لوگ تھے ؟ داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ بعثت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کم و بیش ایک ہزار سال پہلے کا ہے اس لیے آیت میں لفظ کفر کا اطلاق صرف اس بات پر نہیں ہوگا کہ بنی اسرائیل جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائے تھے وہ کافر ہوگئے بلکہ یہاں ان کے کفر سے مراد ان کی نافرمانیاں۔ عہد شکنیاں اور حدود اللہ سے تجاوز کرنا ہے۔ اور انہیں جرائم کی بنا پر انہیں کافر کہا گیا ہے اور ایسے لوگ زبور میں بھی ملعون قرار دیئے گئے ہیں اور انجیل میں بھی۔ اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ بندر بنا دیئے گئے تھے اور کچھ خنزیر۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کی بعثت سے قبل ہفتہ کے دن کی بےحرمتی کرنے والے لوگ بندر بنائے گئے تھے اور یہ اسی دور کا واقعہ ہے اور جن لوگوں نے سیدنا عیسیٰ سے آسمان سے دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر دسترخوان اترنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے تھے انہیں خنزیر بنایا گیا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بہرحال یہ تو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کو بندر اور کچھ لوگوں کو سور بنادیا گیا تھا اور یہ اسی لعنت کا اثر تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۔۔ : اسرائیلیوں کا یہ کفر اپنے اپنے پیغمبروں کے مقابلے میں تھا، چناچہ داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں انھوں نے قانون ” سبت “ کو توڑا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں معجزات دیکھنے کے باوجود ان کی نبوت سے انکار کردیا۔ داؤد (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کے لیے دیکھیے زبور (٧٨ : ٢١، ٢٢، ٢٣) اور مسیح (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کے لیے دیکھیے انجیل متی (٢٣ : ٣١، ٣٢) لعنت کا معنی اللہ کی رحمت اور بھلائی سے دوری ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Sad End of Bani Isra&Il Mentioned in the second verse (78) is the sad end of those from the Bani Isra&il who were involved in this error of excess and deficiency. On them fell the curse of Allah Almighty. Firstly, it came through the tongue of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) as result of which they were transformed into swines. Then, this curse fell upon them through the tongue of Sayyidna &Isa (علیہ السلام) the temporal effect of which was that they were transformed into monkeys. Some commentators have point¬ed out that the reference to the curse mentioned here as coming through only two prophets is because the context so requires. But, the fact is that the casting of curse on them began with Sayyidna Musa (علیہ السلام) and ended at the Last among Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Thus, the curse which overtook those, who were hostile to prophets or were guilty of acting excessively by making prophets sharers in Divine at-tributes, was wished verbally by four prophets one after the other. In the last two verses (80, 81), the cultivation of deep friendship with disbelievers has been prohibited as its outcome is disastrous. It may also be indicative of the possibility that the deviation of Bani Isra&il was a result of their close friendly collaboration with disbelievers which may have affected their ways adversely and finally became the cause of their fall into the abyss.

بنی اسرائیل کا انجام بد دوسری آیت میں ان بنی اسرائیل کا انجام بدذکر کیا گیا ہے جو اس افراط وتفریط کی گمراہی میں مبتلا تھے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی، اول داؤد (علیہ السلام) کی زبان سے جس کے نتیجے میں ان کی صورتیں مسخ ہو کر خنزیر بن گئے، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یہ لعنت ان پر مسلط ہوئی، جس کا اثر دنیا میں یہ ہوا کہ مسخ ہو کر بندر بن گئے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس جگہ بتقاضائے مقام صرف دو پیغمبروں کی زبانی ان پر لعنت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان پر لعنت کی ابتداء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی اور انتہا حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوئی۔ اس طرح مسلسل چار پیغمبروں کی زبانی ان لوگوں پر لعنت مسلط ہوئی جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کی مخالفت کی یا جنہوں نے ان کو حد سے آگے بڑھا کر خدا تعالیٰ کی صفات کا شریک بنادیا۔ آخری دونوں آیتوں میں کفار کے ساتھ گہری دوستی اور موالات کی ممانعت اور اس کے تباہ کن نتائج کا بیان فرمایا گیا جس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ بنی اسرائیل کی یہ ساری کجروی اور گمراہی نتیجہ تھی ان کے غلط قسم کے ماحول اور کفار کے ساتھ دلی دوستی کرنے کا۔ جس نے ان کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ عَلٰي لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ۝ ٧٨ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ اِسْرَاۗءِيْلَ ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال . لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ داود داود اسم أعجميّ. ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے ) عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان دائود و عیسیٰ ابن مریم بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر دائود اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ حسن ، مجاہد ، سدی اور قتادہ کا قول ہے کہ ان پر حضرت دائود (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی گئی اور یہ بندر بن گئے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی گئی جس کے نتیجے میں یہ خنزیر بن گئے۔ ایک قول یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح انہیں جتلا دیا گیا کفر اور معاصی پر ڈٹے رہنے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور بخشش سے بالکلیہ مایوس جانا چاہیے اس لیے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے نکلی ہوئی لعنت اور عذاب کی بد دعائیں قبول ہوچکی ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کا اظہار اس لیے ہوا کہ یہ اپنے بارے میں دنیا کے لوگوں کو اس دھوکے میں نہ رکھ سکیں کہ نبیوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے اللہ کے ہاں انکی بڑی قدر و منزلت ہے جو انہیں اللہ کے عذاب اور گناہوں سے بچا لے گا ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨۔ ٧٩) بنی اسرائیل میں جو کافر ہیں وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی دعا سے بندر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا سے سور ہوگئے ہیں اور یہ لعنت اس وجہ سے نازل ہوئی کہ ہو ہفتہ کے روز میں اور اکل مائدہ میں اور انبیاء کرام کے قتل کرنے اور معاصی کو حلال سمجھنے میں اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور جو کچھ وہ نافرمانیاں اور حد سے تجاوز کرتے تھے، اس سے توبہ بھی نہیں کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط بنی اسرائیل کا جو کردار رہا ہے اس پر ان کے انبیاء ان کو مسلسل لعن طعن کرتے رہے ہیں۔ Old` Testament میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ New` Testament (گوسپلز) میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے تنقیدی فرمودات بار بار ملتے ہیں ‘ جن میں اکثر ان کے علماء ‘ احبار اور صوفیاء مخاطب ہیں کہ تم سانپوں کے سنپولیے ہو۔ تمہارا حال ان قبروں جیسا ہے جن کے اوپر تو سفیدی پھری ہوئی ہے ‘ مگر اندر گلی سڑی ہڈیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تم نے اپنے اوپر صرف مذہبی لبادے اوڑھے ہوئے ہیں ‘ لیکن تمہارے اندر خیانت بھری ہوئی ہے۔ تم مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو ‘ یعنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر تو زور دار بحثیں ہوتی ہیں جبکہ بڑے بڑے گناہ کھلے بندوں کرتے ہو۔ یہ تو یہودی قوم اور ان کے علماء کے کردار کی جھلک ہے ان کے اپنے نبی کی زبان سے ‘ مگر دوسری طرف یہی نقشہ بعینہٖ آج ہمیں اپنے علماءِ سُوء میں بھی نظر آتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: یعنی اس لعنت کا ذکر زبور میں بھی تھا جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور انجیل میں بھی تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتری تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(78 ۔ 81) ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس بات کے جتلانے کو نازل فرمائی ہے کہ بنی اسرائیل خاص کر کچھ اب قرآن شریف کے نازل ہونے کے زمانے میں ایسی نافرمانی نہیں کرتے جس کے سبب سے قرآن شریف میں اکثر آیتیں ان پر لعنت کی اتری ہیں بلکہ ہمیشہ سے ان کا یہی حال ہے کہ سابق کے انبیاء کے زمانہ میں سابق کی آسمانی کتابوں میں بھی ان کی نافرمانی کے سبب سے ان پر لعنت اتر چکی ہے مسند امام احمد ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں جب طرح طرح کے گناہ پھیلے تو ان کے علماء نے پہلے تو کچھ منع کیا پھر عالم لوگ بھی جاہلوں سے مل جل گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی زبور اور انجیل میں ان سب پر لعنت اتاری ١ ؎ تفسیر ابن جریر میں علی بن ابی طلحہ کی سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے بھی اسی طرح روایت ہے ٢ ؎۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ سند عبد اللہ بن عباس (رض) کی صحیح ہوا کرتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ کی حذیفہ (رض) کی روایت میں یہ فرمایا ہے کہ اس امت کے عالم لوگ بھی جب اچھی بات کی نصحیت اور بری بات کی ممانعت چھوڑ دیوں گے اور پھر دعا کریں گے تو کسی کی دعا قبول نہ ہوگی۔ ترمذی نے اس حدیث کی سند کو معتبر کہا ہے ٣ ؎۔ ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سے کسی نے پوچھا کہ حضرت لوگوں میں وعظ و نصیحت کا رواج کب اٹھ جائے گا آپ نے فرمایا پہلی امتوں کی طرح جب تم میں چھوٹی عمر کے لوگ صاحب حکومت اور بڑی عمر کے لوگ بدکار اور عالم لوگ خدا کے نافرماں بردار ہونگے تو آپس میں وعظ و نصیحت کا رواج اٹھ جائے گا ٤ ؎۔ انس بن مالک (رض) کی یہ حدیث اگرچہ فقط ابن ماجہ میں ہے لیکن ابن ماجہ کی سند میں کوئی راوی ضعیف نہیں ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت گزرچکی ہے کہ خلافت شریعت بات کی اصلاح ہاتھ سے زبان سے دل میں اس خلافت شریعت بات کو بڑا جاننے سے جس طرح ممکن ہو کی جاوے۔ غرض اس بات میں بہت سے حدیثیں ہیں جس کے سبب سے ایک کو دوسرے سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ یہود حد سے بڑھ کر طرح طرح کے گناہ کرتے تھے اور ان گناہوں پر آپس میں ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے بلکہ سب ایک دل ہوگئے تھے یہ اعمال تو ان کے برے تھے علاوہ اس کے یہ بھی تھا کہ اہل کتاب ہو کر اہل اسلام کی مخالفت میں مکہ کے مشرک لوگوں سے انہوں نے دوستی پیدا کی تھی جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ کے غصہ اور عذاب کے یہ لوگ مستحق ٹھیر گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور اور لائق پھٹکار قرار دیا۔ یہی معنی اللہ کی لعنت کے ہیں۔ پھر یہ فرمایا کہ اگر ان لوگوں کے دل میں بھی کتاب آسمانی کا ایسا ہی یقین ہوتا جس طرح سے یہ لوگ کتاب آسمانی کی پابندی زبان سے ظاہر کرتے ہیں تو یہ بت پرستوں سے دوستی پیدا کر کے بت پرستی کی تعریف نہ کرتے۔ حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف یہودیوں کے سرداوں کا مکہ جا کر بت پرستوں سے میل جول پیدا کرنا اور ان کے بت پرستی کے طریقہ کو مسلمانوں کے طریقہ سے اچھا بتانا یہ قصہ سورة النساء میں گزرچکا ہے۔ آخر کو فرمایا کہ ان میں کے اکثر لوگ نافرمان ہوگئے ہیں اس لئے ان کو ایسی باتوں کی کچھ پرواہ نہیں رہی۔ ترمذی، نسائی وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہ کرتے کرتے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے جس کے سبب سے کوئی نیک بات اس کے دل پر اثر نہیں کرتی ١ ؎۔ قتل انبیاء اور اس کے سوا اور بڑے بڑے گناہ کرتے کرتے یہود کے دلوں کا یہی حال ہوگیا تھا کہ اسی واسطے گناہوں کی جرأت اور نیک کاموں کی طرف سے بےپروائی ان میں بڑھ گئی تھی اس امت میں بھی کسی شخص میں اگر یہ عادت پیدا ہوجاوے تو اس کو چاہیے کہ خالص دل سے توبہ و استغفار کرکے اپنے دل کو اس زنگ سے پاک و صاف کرے۔ مسند امام احمد وغیرہ کے حوالہ سے معتبر سند کی ابو امامہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کا دل نیک کام کر کے خوش ہوا اور برا کام کر کے غمگین ہوا تو وہ شخص ایسا ہے کہ اس کے دل میں نور ایمانی کی جھلک ہے ٢ ؎۔ دل کی حالت آزمانے کے لئے لئے یہ حدیث بڑی کسوٹی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:78) علی لسان داؤد و عیسیٰ ابن مریم۔ حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ ابن مریم کی زبان پر۔ یعنی حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے اپنی اپنی زبان سے ان کے لئے بددعا کی۔ اور وہ ملعون ہوئے۔ یعنی اللہ کی پھٹکاران پر پڑی۔ عصوا۔ انہوں نے نافرمانی کی۔ کانوا یعتدون۔ وہ حد سے بڑھ جایا کرتے تھے۔ زیادتیاں کیا کرتے تھے۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 پہلے حضرت دواد نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا اور پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اصحاب مائدہ پر لعنت فرمائی جو یہ معجزہ دیکھنے کے باوجود ایمان نہ لائے بعض علمانے نے لکھا ہے کہ یہود اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہونے کا دعوی کرتے تھے قرآن نے فرمایا کہ تم تو انبیا کی زبان پر معلون ہو اور فرمایا کہ یہ لعنت نافرمانی میں حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہوئی تھی (کبیر۔ ابن کثیر) یہ ان کی معصیت ور اعتدال کی تفسیر ہے (کبیر) یعنی وہ امر بالمعرو ونہی عن المنکر کا فریضہ بھلا بیٹے تھے اور ان کے نیک لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اگر کچھ لوگ برے کا کر رہے ہیں تو کرتے رہیں انکا وبال خود ان پر ہوگا ہم تو اپنی جگہ پر نیک ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں پہلے یہ خرابی آئی کہ آج یک شخص دوسرے سے ملتا ہے تو اسے برائی پر ٹوکتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا لیکن کل یہی شخص اس کے ساتھ کھانے پینے لگتا۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل آپس میں ْٹکرادیئے اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر صحابہ (رض) سے فرمایا سن رکھو یعنی اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں تم لوگ نیکی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر بھی اسی طرح لعنت فرمائے گا جس طرح اس نے بنی اسرائیل پر لعنت فرمائی (ابو داد ترمذی) حدیث میں ہے کہ جن کوئی ی قوم ام بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ بٹھتی ہے اس کی دعاقبول نہیں ہوتی (ابن کثیر) یعنی اسلاف کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین سے دوستی رکھتے تھے مجاہد فرماتے ہیں منافقین مراد ہیں جنہوں نے مومنین کی بجائے کفار سے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے، (کبیر ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 11 ۔ آیات 78 تا 86 ۔ اسرار و معارف : بنی اسرائیل کے کفار پر تو ہر عہد کے نبی نے اللہ کی ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ان پر لعنت کی گئی حضرت داود (علیہ السلام) سے انہیں وہی پیغام دلوایا گیا جو عیسیٰ (علیہ السلام) نے دہرایا اور یہ مسلسل اظہار نا رضا مندی کسی نسلی امتیازیا ذاتی تعصب یا رنگ کے فرق پر نہ تھا بلکہ اس کی وجہ ان کا کفر تھا اور اللہ کی اطاعت سے روگردانی اور حدود الہی سے تجاوز کرنا اس کا باعث تھا یہ ایسے بد نصیب تھے کہ کسی کو برائی سے روکتے بھی نہ تھے خواہ خود نہ بھی کرتے ہوں یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو خود برائی نہیں کرتے تھے مگر انہیں دوسرے کی برائی سے دکھ نہیں ہوتا تھا اسے روکنے کے لیے کوشش نہیں کرتے تھے اور یہ بجائے خود کتنی بڑی برائی ہے کہ انسان برائی کو پھیلنے سے نہ روکے اور اسے برا نہ جانے تو یہ بھی برائی کے ساتھ ایک طرح کا تعاون ہے اور یہ تو اس سے بڑھ کر کافروں سے دوستی کرتے تھے اور ا ن کے مکروہ افعال میں شریک ہوتے تھے جیسے آجکل کا مسلمان کہ شکل و صورت سے لے کر لباس اور آداب و خصائل تک یہود و نصاری کا بندہ بےدام بنا ہوا ہے حتی کہ ان کے لباس کو عرب ریاستوں میں بھی عزت سے دیکھا جاتا ہے اور مشرقی لباس جاہلانہ سمجھا جاتا ہے یہ سب کچھ انسان اپنے لیے ہی اپنی اخروی زندگی کے لیے ہی تو بھیج رہا ہے مگر یہ جو کچھ بھیج رہے ہیں بہت ہی برا ہے کہ اس پر جو نتیجہ بنے گا بہت نقصان دہ ہوگا اسکے نتیجے میں تو اللہ کے غضب کا نشانہ بننا پڑے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مل جل کر رہنا ہوگا جیسے انہوں نے یہاں کفار کے ساتھ مل جل کر رہنا شروع کیا ہے یہ سب کچھ تو اللہ کی نا رضامندی کا باعث بنا تو رضائے الہی کے لیے کیا کیا جائے فرمایا کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اپنا عقیدہ درست کرلیں۔ یعنی اللہ کے ساتھ ایمان لائیں اور اللہ کے رسول کے ساتھ ایمان لائیں اور بالکل وہ عقیدہ اختیار کریں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اور اللہ کی کتاب پر ایمان لائیں اس کے ساتھ کافروں کی دوستی سے باز آجائیں اور چھوڑ دیں یعنی عقیدہ کی اصلاح عمل کی اصلاح اور کفار یا بری صحبت کی بجائے نیک مجلس اختیار کریں تو بات بن سکتی ہے مگر ان میں سے تو اکثر بدکار ہیں اور نافرمان ان میں زیادہ ہیں۔ اور یہود بہ نسبت نصاری کے مسلمانوں کی دشمنی میں بہت سخت ہیں مشرکین بھی یعنی نصرانی بھی یہودی بھی اور مشرک بھی تینوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں مگر نصاری یہودیوں اور مشرکین کی نسبت کم کینہ توز ہیں اور وہ اس طرح کہ ان میں بعض لوگ ایسے ہیں جو خدا ترس ہیں اور اس دور میں بھی یہود کی نسبت نصاری میں سے زیادہ لوگوں کو ایمان نصیب ہوا تھا اس لئے کہ ان میں خدا م سے ڈرنے والے بعض عالم اور تارک الدنیا درویش ایسے ہیں جو تکبر نہیں کرتے یعنی علماء و مشائخ ہیں بعض میں خلوص و للہیت ہے اور ایسے وجود ہیں جو اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنی ذاتی اغراض یا دنیاوی لذت کے لالچ میں دین فروشی نہیں کرتے ایسے علماء و مشائخ کی وجہ سے ان میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو قابل اصلاح ہوتے ہیں اور اسلام دشمنی میں یہودیوں اور مشرکوں کی طرح سخت نہیں ہوتے اگرچہ ان میں بھی دین فروش علماء و مشائخ بھی ہیں مگر بعض مخلص بھی ہیں جن کا اخلاص ان کے متعلقہ افراد کے قلوب میں بھی نرمی پیدا کرتا رہتا ہے یعنی علماء و مشائخ قوم کا دل ہوا کرتے ہیں اگر بگڑ جائیں تو قوم تباہ ہوجاتی ہے سدھر جائیں تو معاشرہ سدھرتے دیر نہیں لگتی۔ ان رہبان و قسیین یعنی علماء و مشائخ نصاری کے حق پر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حق کی تعلیمات ان پر اثر کریں کسی بھی شخص کا خواہ وہ پیر ہو یا شیخ ، عالم ہو یا مفتی ، نیک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نیک بات اس کو پسند آجائے اور جہاں نیکی نہ ہو خواہ بات میں یا کام میں وہاں نہ اس کا جی لگے نہ وہ اسے پسند ہو اور نہ متاثر کرسکے یہی دلیل یہاں نصاری کے علماء و مشائخ کی پارسائی پہ دی جا رہی ہے در اصل واقعہ یہ ہوا کہ اہل مکہ کی چیری دستیوں سے تنگ آ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو ہجرت حبشہ کا حکم دیا کہ وہاں کا بادشاہ نجاشی مذہباً نصرانی تھا مگر اس کے انصاف کی شہرت تھی تو ابتداء گیارہ آدمی پھر تقریبا بیاسی آدمی مکہ سے ہجرت کرکے خواتین بچے مرد حبشہ چلے گئے اہل مکہ یہ بھی برداشت نہ کرسکے اور ایک وفد ترتیب دیا۔ جو تحائف لے کر شاہ نجاشی کے دربار میں پہنچا اور مکہ سے وہاں ہجرت کرکے آنے والوں کو مذہبی بھگوڑہ ظاہر کیا اور مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کیا جائے بادشاہ نے مسلمانوں کو بھی طلب کرلیا حضرت جعفرت بن ابی طالب نے اسلام کی دعوت کا نقشہ مختصر ترین الفاظ میں ایسے دلنشیں انداز میں کھینچا کہ بادشاہ کے آنسو رواں ہوگئے اور کہنے لگا اگر یہ درست ہے تو یہ نبی ہی کی تعلیمات معلوم ہوتی ہیں ایسے انسانوں کو اپنے ملک سے نکل جانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ اہل مکہ کا وفد معہ تحائف واپس کردیا پھر مدینہ منورہ میں یہ لوگ واپس آئے تو شاہ نجاشی نے ستر آدمیوں کا وفد ہمراہ کیا جو سب عالم اور نیک لوگ تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت عالیہ میں پہنچے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن حکیم سنا تو آنکھوں سے جھڑیاں لگ گئیں اور ایمان لے آئے جا کر نجاشی کو بتایا وہ بھی مسلمان ہوگیا یہاں ان کی نیکی پارسائی نیک نیتی اور خلوص کا تزکرہ ہے مگر بات اصولی بیان فرمائی جا رہی ہے جو بھی اس اصول پہ پورا اترے وہ اس خطاب کا مستحق ہے کہ پہلے دین عیسیٰ ی پہ تھے مگر جیسے خدمت نبوی میں پہنچے اور قرآن کریم جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے سنا تو آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے اس لیے کہ ان کے قلوب میں حق و باطل کی پہچان باقی تھی دل مان گیا کہ یہ حق ہے اور فوراً عرض کیا۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان نہ لائیں جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کریم ہمیں اپنے نیک اور صالح بندوں میں داخل فرما لے ، تو نیکی کی بنیاد ہی ایمان پر ہے پہلے ایمان ہو خلوص دل کے ساتھ پھر عمل ہو اور وہ بھی خلوص قلب کے ساتھ تو یہ صالحین میں داخلے کا راستہ ہے اگر کوئی عمل اس کے خلاف کرکے اپنے بڑا بزرگ ہونے کے زعم میں مبتلاء ہے تو وہ یا بیوقوف ہے یا منافق کہ زہر کھا رہا ہے اور دعا لمبی عمر کی مانگ رہا ہے یہی حال کفر یا گناہ میں مبتلاء ہونے کا ہے تو جو لوگ عملاً یعنی عقیدے کے اعتبار سے بھی اور کردار کے اعتبار سے بھی اپنی اصلاح خلوس کے ساتھ کرلیتے ہیں پہلے خواہ عیسائی رہے ہوں یا کسی اور قسم کے کفر میں مبتلاء جب ایمان لے آئے تو پہلی بات ختم پھر عملاً اطاعت کی راہ اپنائی تو نہ صرف دنیا میں بلکہ اخروی اور ابدی زندگی میں بھی اللہ کی بےپناہ نعمتیں اور جنت اور اس کی راحتیں عطا فرماتے ہیں کہ خلوص دل سے کام کرنے کا صلہ یہی ہے اور رہ گئے وہ لوگ جو ہماری باتوں کی تکذیب کرتے ہیں جھٹلاتے ہیں جب نبی کی بات کو نہ مانا تو یہ اللہ ہی کی بات کو نہ ماننا ٹھہرا تو اس کے بھی دو درجے ہیں اگر انکار ہی کردیا تو کافر ہو کر ہمیشہ کے لیے دوزخ کا مستحق ٹھہرا اور اگر انکار نہ کیا مگر عمل بھی نہ کیا تو سخت گناہگار اور فاسق ہے اللہ چاہے تو بخش بھی دے اور چاہے سزا دے مگر دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا کبھی نہ کبھی جان چھوٹ سکے گی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 78 تا 81 لغات القرآن : لعن (لعنت کی گئی) ۔ لسان (زبان) ۔ لایتناھون (وہ منع نہ کرتے تھے) ۔ عن منکر (برائی سے) ۔ فعلوہ (وہ جو انہوں نے کیا) ۔ بئس (برا ہے) ۔ تری (آپ نے دیکھا) ۔ قدمت (آگے بھیجا) ۔ سخط (اللہ نے) غصہ کیا) ما اتخذوا (وہ نہ بناتے تھے) ۔ تشریح : یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معبود نہ ہونے کے بارے میں ایک اور دلیل دی گئی ہے ۔ جو لوگ انہیں الوھیت میں شریک مانتے ہیں ان پر خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے (اور حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بھی) لعنت فرمائی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نصاریٰ کے پیغمبر ہیں۔ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل پر اس لئے لعنت کی ہے کہ وہ پیغمبروں کے ساتھ سخت دشمنی کرتے تھے بلکہ چند کو قتل بھی کردیا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس لئے لعنت کی کہ وہ انہیں اللہ کا بیٹا اور معبودیت میں شریک بنا بیٹھے تھے۔ نہایت افسوس کی بات یہ تھی کہ یہود جو گناہ میں بہت زیادہ بہک گئے تھے آپس میں خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کو ہرگز نہ روکتے تھے۔ دوسری عظیم خرابی یہ تھی کہ ان کی ایک کثیر تعداد دوسرے کفار اور مشرکین مکہ سے ساز باز کر رہی تھی اور سب مل کر مسلمانوں کو زک پہنچانا چاہتے تھے۔ یہ ساز باز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایسے بےشعور ہرگز نہیں کہ ایک کثیر تعداد ان ہی بےشعور عادی گناہ گاروں کی ہو اور وہ اس سے بیخبر ہوں اصل بات یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتے آئے ہیں کرتے رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی زبور اور انجیل میں کافروں پر لعنت لکھی تھی جیسے قرآن مجید میں بھی ہے فلعنة اللہ علی الکافرین۔ چونکہ یہ کتابیں حضرت داود حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل ہوئیں اس لیے یہ مضمون ان کی زبان سے ظاہرہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین میں غلو کرنے، خود گمراہ اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بننے کی وجہ سے اہل کتاب لعنت کے سزاوار ٹھہرے۔ امام رازی (رح) نے مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ اہل کتاب پر موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء ( علیہ السلام) نے لعنت کی یہاں تک کہ قرآن مجید نے بھی انہیں مغضوب، گمراہ اور لعنت کا مستحق قرار دیا ہے اس مقام پر حضرت داوٗد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خصوصی ذکر کرنے کا مفہوم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور یہودی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو سب سے محبوب سمجھتے ہیں یہاں دونوں فریقوں کی نام نہاد محبت و عقیدت کا پردہ چاک کرنے کے لیے خصوصی طور پر حضرت داوٗد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے اہل کتاب پر پھٹکار کا ذکر کیا گیا ہے۔ لعنت کا معنی ہے نیکی کرنے کی توفیق سے محروم ہونا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سزاوار ٹھہرنا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اہل کتاب خود بھی بد عمل تھے اور ہیں۔ لوگوں کے لیے برائی کا سبب بنے اور یہ اسی روش پر آج تک قائم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت مسلمانوں سے محبت کرنے کی بجائے کفار کے ساتھ محبت کرتی ہے حالانکہ عیسائی اور یہودی اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانے کے دعوے دار اور انبیاء کے قائل ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے دعویٰ میں سچے ہوتے تو اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ کفار کی بجائے مسلمانوں سے محبت کرتے لیکن انھوں نے ہمیشہ مسلمانوں پر کفار کو ترجیح دی ہے۔ جس کا واضح ثبوت امریکہ اور یورپ کا عربوں کی بجائے اسرائیل کے ساتھ اور پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستان کو ترجیح دینا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور آخرت میں ہمیشہ کے لیے جہنم میں دھکیلے جائیں گے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات : ” اے ریا کار فقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس ! تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو کہ ایک مرید کرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اپنے سے دونا جہنم کا فرزندبنا دیتے ہو۔ اے اندھے راہ بتانے والو، تم پر افسوس ! جو کہتے ہو کہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن اگر مقدس کے سونے کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے احمقو اور اندھو، کون سابڑا ہے، سونا یا مقدس جس نے سونے کو مقدس کیا اور پھر کہتے ہو کہ اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن جو نذر اس پر چڑھی ہو اگر اس کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے اندھو، کون سی بڑی ہے نذر یا قربان گاہ جو نذر کو مقدس کرتی ہے۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس ! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بےدینی سے بھرے ہو۔ ارے ریا کار فقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس ! کہ نبیوں کی قبریں بناتے اور راست بازوں کے مقبرے آراستہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانے میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں ان کے شریک نہ ہوتے۔ اس طرح تم اپنی نسبت گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو۔ غرض اپنے باپ دادا کا پیمانہ بھر دو ۔ ارے سانپوں کے بچو ! تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے ؟ اس لیے دیکھو میں نبیوں اور داناؤں اور فقیہوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں، ان میں سے تم بعض کو قتل کرو گے اور صلیب پر چڑھاؤ گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ستاتے پھرو گے تاکہ سب راست بازوں کا خون جو زمین پر بہایا گیا تم پر آئے۔ راست باز ہابیل کے خون سے لے کر برکیاہ کے بیٹے زکریا کے خون تک جسے تم نے مقدس اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آئے گا۔ “ [ متّٰی : ٢٣: ١٤۔ ٣٩] (بحوالہ : تدبر قرآن ) مسائل ١۔ برائی سے منع نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ٢۔ برائی سے منع نہ کرنا بڑا گناہ ہے۔ ٣۔ بنی اسرائیل نے ایک دوسرے کو برائی سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ٤۔ بنی اسرائیل کی اکثریت کفار سے دوستی کرتی ہے۔ ٥۔ برے اعمال کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن لعنت زدہ لوگ : ١۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء : ١١٨) ٢۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ (النساء : ٤٧) ٤۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ : ٦٤) ٥۔ جھوٹے لعنتی ہیں۔ (آل عمران : ٦١) ٦۔ ظالم پر لعنت برستی ہے، (ھود : ١٨) ٧۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ : ١٥٩) ٨۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ٧٨ تا ٨١۔ نظر آتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کفر ‘ معصیت اور لعنتی افعال سے اٹی پڑی ہے اور ان کی ہدایت اور ان کی نجات کے لئے جن انبیاء کو بھیجا گیا تھا انہیں نے آخر کار ان پر لعنت کی بارش کردی اور ان کو اللہ کی راہ ہدایت سے دھتکار دیا ۔ اللہ نے بھی انکی اس دعاء اور پکار کو قبول کرلیا ۔ اور ان پر لعنت لکھ دی اور قیامت تک وہ ملعون قرار پائے ۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ‘ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی کتابوں کے اندر تحریف کی ۔ یہ وہی لوگ تھے جو اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرتے تھے جیسا کہ اس سورة میں اور دوسرے مقامات پر قرآن مجید نے تصریح کی ہے ۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اس عہد کو توڑا جوان سے اللہ نے لیا تھا کہ وہ ہر رسول پر ایمان لائیں گے اور اس کے ساتھ تعاون کریں گے اور اس کی نصرت کریں گے ۔ (آیت) ” ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ (78) ” کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے ۔ “ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ سرکشی اور زیادتیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ ان کے تصورات عقائد اور طرز عمل میں ہر جگہ سرکشی اور زیادتیوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور قرآن کریم نے اس کی پوری تفصیلات دی ہیں ۔ سرکشی کرنا اور زیادتی کرنا بنی اسرائیل میں کوئی انفرادی فعل نہیں رہا تھا بلکہ ان کے معاشرے کی اجتماعی روایات ہی سرکشی اور زیادتی کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں ۔ پورے معاشرے کی یہ فطرت بنی گئی تھی اور پورا معاشرہ ان برائیوں کے ارتکاب کو دیکھتا اور خاموش رہتا اور ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھاتا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

معاصی کا ارتکاب کرنے اور منکرات سے نہ روکنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کی ملعونیت ان آیات میں بنی اسرائیل کی ملعونیت اور مغضوبیت بیان فرمائی ہے اور ان کی بد اعمالیوں کا تذکرہ فرمایا ہے، ان بد اعمالیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو گناہ کے کام سے نہیں روکتے تھے، تفسیر ابن کثیر میں مسند احمد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑگئے تو ان کے علماء نے ان کو منع کیا وہ لوگ گناہوں سے باز نہ آئے پھر یہ منع کرنے والے ان کے ساتھ مجلسوں میں اٹھتے بیٹھتے رہے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے (اور اس میل جول اور تعلق کی وجہ سے انہوں نے گناہوں سے روکنا چھوڑ دیا) لہٰذا اللہ نے بعض کے دلوں کو بعض پر مار دیا یعنی یکساں کردیا اور ان کو داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کی زبانی ملعون کردیا۔ پھر آیت بالا کا یہ حصہ (ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ) پڑھا، اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ لگائے بیٹھے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکیہ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اپنی ذمہ داری سے اس وقت تک سبکدوش نہ ہو گے جب تک گناہ کرنے والوں کو منع کر کے حق پر نہ لاؤ گے۔ (ج ٢ ص ٨٢) سنن ابی داؤد ج ٢ ص ٢٤٠ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ سب سے پہلے جو بنی اسرائیل میں نقص وارد ہوا وہ یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے سے ملاقات کرتا تھا (اور اسے گناہ پر دیکھتا تھا) تو کہتا تھا کہ اللہ سے ڈرو اور یہ کام چھوڑ دو کیونکہ وہ تیرے لئے حلال نہیں، پھر کل کو ملاقات کرتا اور گناہ میں مشغول پاتا تو منع نہ کرتا تھا کیونکہ اس کا اس کے ساتھ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے میں شرکت کرنے والا آدمی ہوتا تھا سو جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ نے ان کے قلوب کو آپس میں ایک دوسرے پر مار دیا یعنی یکساں بنا دیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت بالا (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) سے (فَاسِقُوْنَ ) تک تلاوت فرمائی، پھر فرمایا کہ خوب اچھی طرح سمجھ لو اللہ کی قسم ! تمہاری یہ ذمہ داری ہے کہ امر بالمعروف کرتے رہو اور نہی عن المنکر کرتے رہو اور ظالم کا ہاتھ پکڑتے رہو اور اسے حق پر جماتے رہو (برائی سے) اس سے برائی چھڑا دو ۔ نیز سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ عام عذاب لے آئے جس میں سب مبتلا ہوں گے۔ نیز سنن ابو داؤ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص کسی قوم میں گناہ کرنے والا ہو اور جو لوگ وہاں موجود ہوں قدرت رکھتے ہوئے اس کے حال کو نہ بدلیں یعنی اس سے گناہ کو نہ چھڑائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی موت سے پہلے ان پر عام عذاب بھیج دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

138 یہ مشرکین اہل کتاب کے لیے تخویف دنیوی ہے حضرت داود (علیہ السلام) کی زبان پر جو لوگ ملعون ہوئے ان سے مراد اصحاب السبت ہیں۔ انہیں ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے منع کیا گیا مگر وہ باز نہ آئے اور اللہ کے حکم کی پروا نہ کی تو حضرت داود (علیہ السلام) نے ان پر بد دعا کی اللہم العنھم واجعلھم ایۃ اے اللہ ان کو اپنی رحمت سے دور ہٹا دے اور انہیں آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کی نشانی بنا دے۔ تو ان کو اللہ تعالیٰ نے مسخ کر کے بندر بنا دیا۔ اور جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے ملعون ہوئے ان سے اصحاب مائدہ مراد ہیں جنہوں نے آسمان سے دسترخوان اتارنے کا مطالبہ کیا تھا جب دستر خوان اترا اور انہوں نے اس سے کھایا بھی مگر ایمان نہ لائے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) نے دعا کی اللہم العنہم کما لعنت اصحاب السبت اے اللہ ان کو اسی طرح ملعون و مردود کردے جس طرح تو نے اصحاب سبت کو کیا تھا۔ ان کو اللہ نے مسخ کر کے خنزیر بنا دیا۔ (کبیر ج 3 ص 645) یہ سزا ان کو خدا کی نافرمانی اور اس کی حدود کو توڑنے کی وجہ سے دی گئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi