Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 80

سورة المائدة

تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یَتَوَلَّوۡنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ لَبِئۡسَ مَا قَدَّمَتۡ لَہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ اَنۡ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ وَ فِی الۡعَذَابِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۰﴾

You see many of them becoming allies of those who disbelieved. How wretched is that which they have put forth for themselves in that Allah has become angry with them, and in the punishment they will abide eternally.

ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں ، جو کچھ انہوں نے اپنے لئے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے کہ اللہ تعالٰی ان سے ناراض ہوا اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... You see many of them taking the disbelievers as their friends. Mujahid said that this Ayah refers to the hypocrites. Allah's statement, ... لَبِيْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ ... Evil indeed is that which they have sent forward before themselves; by giving their loyalty and support to the disbelievers, instead of the believers. This evil act caused them to have hypocrisy in their hearts and brought them the anger of Allah, that will remain with them until the Day of Return. Allah said; ... أَن سَخِطَ اللّهُ عَلَيْهِمْ ... for that (reason) Allah is wrath with them. because of what they did. Allah next said that, ... وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ in torment they will abide. on the Day of Resurrection. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 یہ اہل کفر سے دوستانہ تعلق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور اسی نارضگی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] یہود کی مشرکوں سے دوستی :۔ یہاں کافروں سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ ان نافرمانوں، حد سے تجاوز کرنے والوں اور بدی سے نہ روکنے والوں کو سابقہ آیت میں پہلے ہی کافر قرار دیا جا چکا ہے اور ایسے یہود کا مشرکین سے دوستی گانٹھنا بھی اسی لعنت کا باطنی اثر تھا جو ان پر کی گئی تھی۔ ظاہری اثر تو یہ ہوا کہ ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر اور سور بنادیا گیا تھا اور باطنی یہ کہ اللہ پر، اس کے انبیاء پر، اس کی کتاب پر اور روز آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود وہ دوستی ایسے لوگوں سے گانٹھتے ہیں جن کا نہ روز آخرت پر ایمان ہے نہ کسی کتاب پر اور نہ انبیاء پر بلکہ انبیاء کی تعلیم کے بجائے وہ دیوی دیوتاؤں کے معتقد ہیں اور انہی کی پرستش کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْهُمْ ۔۔ : یعنی ان کے پہلے لوگوں کی وہ حالت تھی اور اب جو موجود ہیں ان کی یہ حالت ہے۔ (کبیر) جیسے کعب بن اشرف اور مدینہ کے یہودی قبائل کے دوسرے افراد، جو مسلمانوں کی دشمنی میں مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین سے دوستی رکھتے تھے۔ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ ۔۔ : یعنی کفار ( مشرکین مکہ اور منافقین مدینہ) سے دوستی قائم کر کے اہل کتاب نے مسلمانوں کے خلاف جو تیاری کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان پر اللہ کا غضب ہوا اور آخرت میں بھی وہ دائمی عذاب کے مستحق قرار پائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ۭ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِـــطَ اللہُ عَلَيْہِمْ وَفِي الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝ ٨٠ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ سخط السَّخَطُ والسُّخْطُ : الغضب الشدید المقتضي للعقوبة، قال : إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة/ 58] ، وهو من اللہ تعالی: إنزال العقوبة، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد/ 28] ، أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة/ 80] ، كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 162] . ( س خ ط ) السخط والسخط اس سخت غصہ کو کہتے ہیں جو سزا کا مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة/58 تو وہ فورا غصہ سے بھر جاتے ۔ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد انزال عقوبت ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد/ 28]( اور ان کی ) یہ نوبت اس لئے ( ہوگی ) کہ جو چیز خدا کو بری لگتی ہے یہ اسی ( کے رستے ) پر چلے ۔ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة/ 80] ( نتیجہ یہ ہوا ) کہ دنیا میں بھی خدا ان سے ناراض ہوا ۔ كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 162] اس شخص جیسا ( فعل سرزد ) ہوسکتا ہے جو خدا کے غضب میں آگیا ہو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے تری کثیرا منھم یتولون الذین کفروا ان میں سے بہت سوں کو تم دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں ۔ حسن اور مجاہد سے مروی ہے کہ منھم کی ضمیر یہود کی طرف راجع ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ اہل کتاب کی طرف راجع ہے۔ قول باری الذین کفروا سے مراد بت پرست ہیں ۔ اہل کتاب نے ان مشرکین کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور آپ سے جنگ کرنے کی خاطر دوستی گانٹھی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) یعنی بہت سے منافقین کعب اور اس کے ساتھیوں سے دوستی کرتے ہیں یا کعب اور اس کے ساتھی کفار مکہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں سے دوستی کرتے ہیں یہ یہودیت اور نفاق کا اتحاد بہت برا ہے، وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ اس سے نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) ۔ خود کافروں کے حمایتی بنتے ہیں اور اپنے لیے ان کی حمایت تلاش کرتے ہیں۔ (لَبِءْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ ) یہ ان کے جو کرتوت ہیں وہ سب آگے اللہ کے ہاں جمع ہو رہے ہیں اور ان کا وبال ان پر آئے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

55: یہ ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ منورہ میں آباد تھے اور انہوں نے حضور نبی کریمﷺسے معاہدہ بھی کیا ہوا تھا، اس کے باوجود انہوں نے درپردہ مشرکین مکہ سے دوستیاں گانٹھی ہوئی تھیں، اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے، بلکہ ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ان سے یہ تک کہہ دیتے تھے کہ ان کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے اچھا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:80) یتولون۔ دوستی رکھتے ہیں۔ تولی سے بمعنی دوستی رکھنا۔ منہ موڑ لینا۔ اعراض کرنا الفاظ اضداد میں سے ہے۔ سخط (سمع) وہ غصہ ہوا۔ وہ ناراض ہوا۔ ان سخط اللہ ۔۔ خالدون ۔ یہ قدمت کی تعریف ہے یعنی انہوں نے کیا آگے بھیجا ۔ (1) اللہ کی ناراضگی (2) دائمی عذاب

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی کفار (مشرکین مکہ) سے دوستی قائم کرکے انہوں نے مسلمانو کے خلاف جو تیار کی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان پر اللہ کا غضب ہو اور وہ آخرت میں بھی دائمی عذاب کے مستحق قرار پائے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہود مدینہ اور مشرکین مکہ میں مسلمانوں کی عداوت کے علاقہ سے جس کا منشا تناسب فی الکفر تھا باہم خوب سازگاری تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” تَرَی کَثِیْراً مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ہُمْ خَالِدُونَ (80) وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللہ والنَّبِیِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِیَاء وَلَـکِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ (81) ” آج تم ان میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو کفار کی حمایت ورفاقت کرتے ہیں ۔ یقینا بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کیلئے کی ہے اللہ ان پر غضبناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔ اگر فی الواقعہ یہ لوگ اللہ اور پیغمبر اور اس چیز کو ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے بیشتر تو خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں ۔ ” تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان لانے والوں کے لئے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں ۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتی ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے ۔ “ یہ بات جس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں یہودیوں پر منطبق ہوتی تھی اسی طرح آج کے یہودیوں پر بھی منطبق ہے اور کل بھی ہوگی ۔ ہر دور میں اہل کتاب یہودی اور عیسائی اور جو دنیا کے اطراف واکناف میں پھیلے ہوئے ہیں ‘ ایسے ہی رہیں گے ۔ اس سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہم قرآن کریم کے اسرار و رموز پر غور کریں ۔ قرآن کریم میں امت مسلمہ کے لئے عجیب ہدایات موجود ہیں اور اسلامی تحریک کو چاہئے کہ وہ ہر وقت قرآن سے ہدایات اور پالیسیاں اخذ کرے ۔ یہودی مشرکین کے ساتھ اس دور میں تعلق موالات قائم کئے ہوئے تھے ۔ ان کو مسلمانوں کے خلاف جمع کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ کفار اور مشرکین ان مسلمانوں ان مسلمانوں سے زیادہ سیدھی راہ پر ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کی ہے ‘ اور اس کا اظہار غزوہ احزاب میں اچھی طرح ہوگیا تھا ۔ اس غزوہ سے پہلے اور بعد میں بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن رہے اور آج تک وہ اسی موقف پر قائم ہیں ۔ فلسطین میں اسرائیل کا قیام ہی ان جدید ملحدین اور کفار کی مساعی سے ہوا ہے ۔ رہے عیسائی تو ان کا حال یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کا معاملہ پیش آتا ہے تو عیسائی مشرکین کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ بت پرستوں کے حامی و مددگار ہوتے ہیں ۔ جب بھی مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان کوئی معرکہ پیش آیا ۔ ان لوگوں کا دلی بغض اسلام کے خلاف کھل کر سامنے آگیا اور اب تک قائم ودائم ہے ۔ اگرچہ معاملہ ان لوگوں کا ہو جو نام نہاد مسلمان ہوں۔ کیا سچ کہا اللہ تعالیٰ نے (تری کثیرا منھم یتولون الذین کفروا “۔ (٥ : ٨٠) ” تم ان سے بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو کفار کی حمایت ورفاقت کرتے ہیں ۔ “ (آیت) ” لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنفُسُہُمْ أَن سَخِطَ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَفِیْ الْعَذَابِ ہُمْ خَالِدُونَ (80) ” یقینا بہت برا انجام ہے جس کی تیاری ان کے نفسوں نے ان کیلئے کی ہے اللہ ان پر غضبناک ہوگیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں ۔ یہ وہ کمائی ہے جو انہوں نے کی ہے اور وہ اللہ کا غضب ہے جو انکے لئے جمع ہو رہا ہے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دائما جہنم میں رہیں گے اور یہ کس قدر برا انجام ہے ۔ کس قدر برا پس انداز ہے جو یہ کر رہے ہیں ۔ کس قدر تلخ پھل ہے ۔ کفار کے ساتھ تعلق موالات کا ہے یہ پھل ! کیا ہم مسلمان اللہ کی اس بات کو نہیں سن رہے ؟ کیا ہمیں باز نہیں آنا چاہئے ان اقدامات سے جو ہم مسلسل کر رہے ہیں اور اللہ نے ان کی اجازت نہیں دی ہے ۔ پھر بھی ہم مسلمان اہل کتاب دشمنوں کے ساتھ تعلق موالات کے بارے میں سوچتے ہی یا متحدہ محاذ بناتے ہیں ہیں ۔ آخر اس کا سبب کا کیا ہے ؟ سبب تو یہی ہے کہ اللہ اور رسول پر ایمان نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین مکہ سے یہودیوں کی دوستی پھر فرمایا (تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (تو ان میں بہت سوں کو دیکھے گا کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں ) صاحب روح المعانی ج ٣ لکھتے ہیں کہ اس سے کعب بن اشرف اور دوسرے یہودی مراد ہیں جنہوں نے مشرکین مکہ سے دوستی کی تھی (جن کو خود بھی کافر کہتے تھے) یہودیوں کی جماعت مکہ معظمہ پہنچی اور انہوں نے مشرکین مکہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق پر جانتے ہوئے آپ پر ایمان نہ لائے مشرکوں سے دوستی کرنے کو پسند کیا ) ۔ (لَبِءْسَ مَا قَدَّمَتْ لَھُمْ اَنْفُسُھُمْ ) (البتہ وہ عمل برے ہیں جو انہوں نے اپنے آگے بھیجے) (اَنْ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ) (اور وہ اعمال ایسے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا) (وَ فِی الْعَذَابِ ھُمْ خٰلِدُوْنَ ) (اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

140 یہ منافقین اہل کتاب کے لیے زجر ہے۔ یہ لوگ درپردہ کافروں سے دوستی رکھتے تھے اور ظاہر میں مسلمان ہونے کے مدعی تھے۔ اَنْ سَخِطَ اللہُ الخ بِئْسَ کا مخصوص بالذم ہے یعنی انہوں نے کافروں سے دوستی کر کے بہت برا توشہ آگے بھیجا ہے کہ اللہ کا غضب خرید لیا اور عذاب جہنم میں خلود کے مستحق ہوئے یا اَنْ سے پہلے حرف جر لام یا با محذوف ہے ای لِاَنْ یا بِاَنْ اس طرح یہ جملہ ماقبل کا سبب ہوگا اور بِئْسَ کا مخصوص بالذم محذوف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ جو توشہ اعمال آگے بھیجا ہے وہ بہت بری چیز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان پر نا خوش ہوگیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi