Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 87

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۸۷﴾

O you who have believed, do not prohibit the good things which Allah has made lawful to you and do not transgress. Indeed, Allah does not like transgressors.

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو ، بیشک اللہ تعالٰی حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

There is No Monasticism in Islam Allah says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ ... O you who believe! Make not unlawful the good things which Allah has made lawful to you, Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas said, "This Ayah was revealed about some of the Companions of the Prophet who said, `We should cut off our male organs, abandon the desires of this life and travel in the land, just as the Ruhban (monks) do.' When the Prophet heard of this statement, he summoned them and asked them if they made this statement and they answered `Yes.' The Prophet said, لكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَنَامُ وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ فَمَنْ أَخَذَ بِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَأْخُذْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي I fast and break my fast, pray and sleep, and marry women. Whoever follows my Sunnah is of me, and whoever abandons my Sunnah is not of me." Ibn Abi Hatim also collected this Hadith. Ibn Marduwyah recorded that Al-Awfi said that Ibn Abbas narrated a similar Hadith. It is recorded in the Two Sahihs that Aishah said that; some of the Companions asked the wives of the Prophet about the acts of worship that he performed in private. One of them said, "I will not eat meat," another said, "I will not marry women," while the third said, "I will not sleep on the bed." When the Prophet heard this statement, he said, مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَقُولُ أَحَدُهُمْ كَذَا وَكَذَا لكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأَنَامُ وَأَقُومُ وَاكُلُ اللَّحْمَ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي What is the matter with some people who said such and such I fast and break the fast, sleep and wake to stand to pray, eat meat, and marry women. He who is not pleased with my Sunnah is not of me. Allah's statement, ... وَلاَ تَعْتَدُواْ ... and transgress not, means, do not exaggerate and make it hard for yourselves by prohibiting the permissible things. Do not transgress the limits by excessively indulging in the permissible matters; only use of it what satisfies your need; and do not fall into extravagance. Allah said in other Ayat, وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ And eat and drink but waste not by extravagance. (7:31) and, وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُواْ لَمْ يُسْرِفُواْ وَلَمْ يَقْتُرُواْ وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَاماً And those, who, when they spend, are neither extravagant nor miserly, but hold a medium (way) between those (extremes). (25:67) So Allah legislated a medium way between those who are extreme and those who fall into shortcomings, and it does not allow excessive application, nor lack of application. This is why Allah said here, ... لااَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ Make not unlawful the good things which Allah has made lawful to you, and transgress not. Verily, Allah does not like the transgressors. then He said,

راہبانیت ( خانقاہ نشینی ) اسلام میں ممنوع ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ چند صحابہ نے آپس میں کہا کہ ہم خصی ہو جائیں ، دنیوی لذتوں کو ترک کر دیں ، بستی چھوڑ کر جنگلوں میں جا کر تارک دنیا لوگوں کی طرح زندگی یاد الٰہی میں بسر کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ باتیں معلوم ہو گئیں ، آپ نے انہیں یاد فرمایا اور ان سے پوچھا ، انہوں نے اقرار کیا ، اس پر آپ نے فرمایا تم دیکھ نہیں رہے؟ کہ میں نفلی روزے رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ۔ رات کو نفلی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ میں نے نکاح بھی کر رکھے ہیں ۔ سنو جو میرے طریقے پر ہو وہ تو میرا ہے اور جو میری سنتوں کو نہ لے وہ میرا نہیں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ لوگوں نے امہات المومنین سے حضور کے اعمال کی نسبت سوال کیا پھر بعض نے کہا کہ ہم گوشت نہیں کھائیں گے بعض نے کہا ہم نکاح نہیں کریں گے بعض نے کہا ہم بستر پر سوئیں گے ہی نہیں ، جب یہ واقعہ حضور کے گوش گزار ہوا تو آپ نے فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ان میں سے بعض یوں کہتے ہیں حالانکہ میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ، سوتا بھی ہوں اور تہجد بھی پڑھتا ہوں ، گوشت بھی کھاتا ہوں اور نکاح بھی کئے ہوئے ہوں جو میری سنت سے منہ موڑے وہ میرا نہیں ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ گوشت کھانے سے میری قوت باہ بڑھ جاتی ہے اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت کو حرام کر لیا ہے اس پر یہ آیت اتری ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور سند سے بھی یہ روایت مرسلاً مروی ہے اور موقوفا بھی واللہ اعلم ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی میں جہاد کرتے تھے اور ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں تو ہم نے کہا اچھا ہوگا اگر ہم خصی ہو جائیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روکا اور مدت معینہ تک کیلئے کپڑے کے بدلے پر نکاح کرنے کی رخصت ہمیں عطا فرمائی پھر حضرت عبداللہ نے یہی آیت پڑھی ۔ یہ یاد رہے کہ یہ نکاح کا واقعہ متعہ کی حرمت سے پہلے کا ہے واللہ اعلم ۔ ۔ معقل بن مقرن نے حضرت عبداللہ بن مسعود کو کہا کہ میں نے تو اپنا بستر اپنے اوپر حرام کر لیا ہے تو آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حضرت ابن مسعود کے سامنے کھانا لایا جاتا ہے تو ایک شخص اس مجمع سے الگ ہو جاتا ہے آپ اسے بلاتے ہیں کہ آؤ ہمارے ساتھ کھا لو وہ کہتا ہے میں نے تو اس چیز کا کھانا اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں آؤ کھا لو اپنی قسم کا کفارہ دے دینا ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ( مستدرک حاکم ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے گھر کوئی مہمان آئے آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے رات کو جب واپس گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گھر والوں نے آپ کے انتظار میں اب تک مہمان کو بھی کھانا نہیں کھلایا ۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا تم نے میری وجہ سے مہمان کو بھوکا رکھا ، یہ کھانا مجھ پر حرام ہے ۔ بیوی صاحبہ بھی ناراض ہو کر یہی کہہ بیٹھیں مہمان نے دیکھ کر اپنے اوپر بھی حرام کر لیا اب تو حضرت عبداللہ بہت گھبرائے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب سے کہا چلو بسم اللہ کرو کھا پی لیا پھر جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ کہہ سنایا پس یہ آیت اتری ، لیکن اثر منقطع ہے ، صحیح بخاری شریف میں اس جیسا ایک قصہ حضرت ابو بکر صدیق کا اپنے مہمانوں کے ساتھ کا ہے اس سے امام شافعی وغیرہ علماء کا وہ قوم ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص علاوہ عورتوں کے کسی اور کھانے پینے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو وہ اس پر حرام نہیں ہو جاتی اور نہ اس پر اس میں کوئی کفارہ ہے ، دلیل یہ آیت اور دوسری وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی کہ جس شخص نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا تھا اسے حضور نے کسی کفارے کا حکم نہیں فرمایا ۔ لیکن امام احمد اور ان کے ہم خیال جماعت علماء کا خیال ہے کہ جو شخص کھانے پہننے وغیرہ کی کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو اس پر قسم کا کفارہ ہے ۔ جیسے اس شخص پر جو کسی چیز کے ترک پر قسم کھا لے ۔ حضرت ابن عباس کا فتویٰ یہی ہے اور اس کی دلیل یہ آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 66 ۔ التحریم:1 ) بھی ہے اور اس آیت کے بعد ہی کفارہ قسم کا ذکر بھی اسی امر کا مقتضی ہے کہ یہ حرمت قائم مقام قسم کے ہے واللہ اعلم ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں بعض حضرات نے ترک دنیا کا ، خصی ہو جانے کا اور ٹاٹ پہننے کا عزم مصمم کر لیا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون ، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت مقداد بن اسود ، حضرت سالم مولی ، حضرت ابی حذیفہ وغیرہ ترک دنیا کا ارادہ کر کے گھروں میں بیٹھ رہے باہر آنا جانا ترک کر دیا عورتوں سے علیحدگی اختیار کر لی ٹاٹ پہننے لگے اچھا کھانا اور اچھا پہننا حرام کر لیا اور نبی اسرائیل کے عابدوں کی وضع کر لی بلکہ ارادہ کر لیا کہ خصی ہو جائیں تاکہ یہ طاقت ہی سلب ہو جائے اور یہ بھی نیت کر لی کہ تمام راتیں عبادت میں اور تمام دن روزے میں گزاریں گے اس پر یہ آیت اتری یعنی یہ خلاف سنت ہے ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا کہ تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے ، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے ۔ نفل روزے رکھو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دو ۔ نفل نماز رات کو پڑھو اور کچھ دیر سو بھی جاؤ جو ہماری سنت کو چھوڑ دے وہ ہم میں سے نہیں اس پر ان بزرگوں نے فرمایا یا اللہ ہم نے سنا اور جو فرمان ہوا اس پر ہماری گردنیں خم ہیں ۔ یہ واقعہ بہت سے تابعین سے مرسل سندوں سے مروی ہے ۔ اس کی شاہد وہ مرفوع حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ۔ فالحمد اللہ ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے وعظ کیا اور اس میں خوف اور ڈر کا ہی بیان تھا اسے سن کر دس صحابیوں نے جن میں حضرت علی ، حضرت عثمان بن مظعون وغیرہ تھے آپس میں کہا کہ ہمیں تو کوئی بڑے بڑے طریقے عبادت کے اختیار کرنا چاہئیں نصرانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے اپنے نفس پر بہت سی چیزیں حرام کر رکھی ہیں اس پر کسی نے گوشت اور چربی وغیرہ کھانا اپنے اوپر حرام کیا ، کسی نے دن کو کھانا بھی حرام کر لیا ، کسی نے رات کی نیند اپنے اوپر حرام کر لی ، کسی نے عورتوں سے مباشرت حرام کر لی ۔ حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی بیوی سے میل جول اسی بنا پر ترک کر دیا ۔ میاں بیوی اپنے صحیح تعلقات سے الگ رہنے لگے ایک دن یہ بیوی صاحبہ حضرت خولہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئیں وہاں حضور کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں پراگندہ حالت میں دیکھ کر سب نے پوچھا کہ تم نے اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے؟ نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبر ہے نہ لباس ٹھیک ٹھاک ہے نہ صفائی اور خوبصورتی کا خیال ہے؟ کیا بات ہے؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا مجھے اب اس بناؤ سنگار کی ضرورت ہی کیا رہی ؟ اتنی مدت ہوئی جو میرے میاں مجھ سے ملے ہی نہیں نہ کبھی انہوں نے میرا کپڑا ہٹایا ، یہ سن کر اور بیویاں ہنسنے لگیں اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریاف فرمایا کہ یہ ہنسی کیسی ہے؟ حضرت عائشہ نے سارا واقعہ بیان فرمایا آپ نے اسی وقت آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو بلوایا اور فرمایا یہ کیا قصہ ہے؟ حضرت عثمان نے کل واقعہ بیان کر کے کہا کہ میں نے اسے اس لئے چھوڑ رکھا ہے کہ اللہ کی عبادت دلچسپی اور فارغ البالی سے کر سکوں بلکہ میرا ارادہ ہے کہ میں خصی ہو جاؤں تاکہ عورتوں کے قابل ہی نہ رہوں ۔ آپ نے فرمایا میں تجھے قسم دیتا ہوں جا اپنی بیوی سے میل کر لے اور اس سے بات چیت کر ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو میں روزے سے ہوں فرمایا جاؤ روزہ توڑ ڈالو چنانچہ انہوں نے حکم برداری کی ، روزہ توڑ دیا اور بیوی سے بھی ملے ۔ اب پھر جو حضرت خولاء آئیں تو وہ اچھی ہئیت میں تھیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے ہنس کر پوچھا کہو اب کیا حال ہے جواب دیا کہ اب حضرت عثمان نے اپنا عہد توڑ دیا ہے اور کل وہ مجھ سے ملے بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں فرمایا لوگو یہ تمہارا کیا حال ہے کہ کوئی بیویاں حرام کر رہا ہے ، کوئی کھانا ، کوئی سونا ۔ تم نہیں دیکھتے کہ میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ، افطار بھی کرتا ہوں اور روزے سے بھی رہتا ہوں ۔ عورتوں سے ملتا بھی ہوں نکاح بھی کر رکھے ہیں ۔ سنو جو مجھ سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے ، اس پر یہ آیت اتری ۔ حد سے نہ گزرو سے مطلب یہ ہے کہ عثمان کو خصی نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ حد سے گزر جانا ہے اور ان بزرگوں کو اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کا حکم ہوا اور فرمایا آیت ( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:225 ) پس لا تعتدوا سے مراد یا تو یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو تمہارے لئے مباح کیا ہے تم انہیں اپنے اوپر حرام کر کے تنگی نہ کرو اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ حلال بقدر کفایت لے لو اور اس حد سے آگے نہ نکل جاؤ ۔ جیسے فرمایا کھاؤ پیو لیکن حد سے نہ بڑھو ۔ ایک اور آیت میں ہے ایمانداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے میں اسراف اور بخیلی کے درمیان درمیان رہتے ہیں ۔ پس افراط و تفریط اللہ کے نزدیک بری بات ہے اور درمیانی روش رب کو پسند ہے ۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا حد سے گزر جانے والوں کو اللہ ناپسند فرماتا ہے ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ جو حلال و طیب چیزیں تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت اور طلب رضا مندی میں رہا کرو ۔ اس کی نافرمانی اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے الگ رہو ۔ اسی اللہ پر تم یقین رکھتے ہو ، اسی پر تمہارا ایمان ہے پس ہر امر میں اس کا لحاظ رکھو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہا کہ یارسول اللہ ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہوجاتا ہے، اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا ہے، جس پر آیت نازل ہوئی، اس طرح سبب نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ زہد و عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے (مثلًا عورت سے نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے وقت کھانے پینے سے) اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبی کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں منع فرمایا۔ حضرت عثمان بن مظعون نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی، ان کی بیوی کی شکایت پر آپ نے انہیں بھی روکا (کتب حدیث) بہرحال اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کرلینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا مشروبات سے ہو یا لباس سے ہو یا مرغوبات و جائز خواہشات سے۔ مسئلہ :۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی سوائے عورت کے البتہ اس صورت میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو بھی کفارہ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کرلینا یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے جو تکفیر یعنی کفارہ ادا کرنے کا متقاضی ہے لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔ فالصحیح ما قالہ الشوکانی

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣١] حلال چیزوں کو حرام ٹھہرانے والے گروہ اور اس کی صورتیں :۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے تمام اشیاء انسان کے لیے مباح اور حلال ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کی حرمت کے متعلق شریعت نے وضاحت کردی ہو۔ اب اس آیت اور اس سے بعد والی آیت میں حلال اشیاء سے فائدہ اٹھانے کے چند جامع اصول بیان کردیئے گئے ہیں اور یہ سب لاَ تَعْتَدُوْا کے ضمن میں آتے ہیں مثلاً (١) جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں انہیں عقیدتاً یا عملاً حرام نہ بنا لو۔ جیسے صوفی قسم کے لوگ نکاح سے عملاً اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ نکاح سے جو ذمہ داریاں انسان پر پڑتی ہیں۔ وہ عبادت الٰہی میں آڑے آتی ہیں۔ اس قسم کے لوگ عیسائیوں میں بھی موجود تھے اور مسلمانوں میں بھی موجود ہیں بلکہ ایسا رجحان صحابہ کرام میں بھی چل نکلا تھا۔ صوفی منش صحابہ میں سے ہی کسی نے کہا کہ میں ساری عمر نکاح نہ کروں گا اور کسی نے کہا میں ساری رات اللہ کی عبادت میں گزارا کروں گا۔ جس سے اپنے جسم کے، بیوی کے اور مہمانوں کے سب کے حقوق تلف ہوتے تھے اور کسی نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا۔ رسول اللہ کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپ نے ان صحابہ کو سخت تنبیہ کی اور فرمایا & میں اللہ کا رسول اور تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور میں نے نکاح کیے ہیں۔ میں رات کو سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں اور میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، یہی میرا طریقہ ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ & (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب الترغیب فی النکاح) دوسری صورت یہ ہے کہ جسم کو جتنی غذا کی ضرورت ہے اس سے بھی کم یا بہت کم کھائے یا مرغوب اشیاء سے پرہیز کرے۔ یہ چیز بھی صوفی طبقہ میں ہی پائی جاتی ہے۔ جن کا نظریہ یہ ہے کہ جسم کو جس قدر مضمحل اور نحیف و نزار بنایا جائے اسی قدر روح کو تقویت ہوگی۔ رہبانیت کا نظریہ بھی سنت نبوی کے سراسر خلاف ہے۔ حد سے بڑھنے کی تیسری صورت بسیار خوری ہے۔ جیسے فرمایا (وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا 31؀ ) 7 ۔ الاعراف :31) اور اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ان باتوں میں مبتلا ہوگا وہ دوسروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھے گا۔ نیز بسیار خوری سے انسان جہاں اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے وہاں کئی طرح کے جسمانی عوارض و امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں اور اعتداء کی چوتھی صورت یہ ہے کہ چیز تو حلال ہو مگر انسان کمائی کے ذریعہ اسے حرام بنا لے۔ جیسے چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، سود اور دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کیا ہوا مال۔ اور یہ بھی (لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ 87؀) 5 ۔ المآئدہ :87) & کے ضمن میں آتا ہے۔ اور یہود کی اکثریت انہی امراض میں مبتلا تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ ۔ : عہد توڑنے کے سلسلہ میں یہود و نصاریٰ سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر توجہ کی ہے، یعنی ” اَوفُو بالعقُودِ “ کی تشریح جو اس سورت کا بنیادی موضوع ہے۔ (قرطبی، رازی) نصاریٰ کے راہبوں کی تعریف کے بعد پاکیزہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے سے منع کرنا اس لیے بھی زیادہ مناسب تھا کہ انھوں نے ان باتوں کو نیکی میں داخل کر رکھا تھا، لہٰذا مومنین کو اس سے منع فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے رہبانیت سے متعلق فرمایا : (وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ) [ الحدید : ٢٧ ] ” اور دنیا سے کنارہ کشی تو انھوں نے خود ہی ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔ “ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ جو چیز شرع میں صاف حلال ہو اس سے پرہیز کرنا برا ہے، یہ دو طرح سے ہوتا ہے، ایک زہد سے، یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسندیدہ نہیں ہے، اس کے بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے، یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے۔ دوم یہ کہ کسی مباح (جائز) کام کے نہ کرنے کی قسم کھالے، یہ بھی بہتر نہیں، اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ “ (موضح) انس (رض) سے روایت ہے کہ تین آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کے گھروں میں آئے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے متعلق دریافت کر رہے تھے، جب انھیں اس کے متعلق بتایا گیا تو جیسے انھوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے، ہماری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا نسبت ؟ آپ کے تو پہلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا، میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا، میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے تو فرمایا : ” تمھی لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس سے بچنے والا ہوں، لیکن روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح کرتا ہوں، تو جو میری سنت سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔ “ [ مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ۔۔ : ١٤٠١۔ بخاری : ٥٠٦٣ ] اس سلسلے میں اور بھی کئی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کسی موقع پر نازل ہوئی۔ چناچہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جنگ کرتے تھے، ہمارے ساتھ بیویاں نہیں تھیں تو ہم نے عرض کیا، ہم خصی نہ ہوجائیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس سے منع فرما دیا، پھر ہمیں رخصت دے دی کہ ہم کپڑے کے ساتھ عورت سے نکاح کرلیں، پھر یہ آیت پڑھی : (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ ) [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : ( یأیہا الذین آمنوا ۔۔ ) : ٤٦١٥ ] واضح رہے کہ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ ہمیشہ کے لیے حرام فرما دیا، چناچہ سبرہ (بن معبد) (رض) سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے لوگو ! میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک حرام فرما دیا ہے تو جس شخص کے پاس ایسی عورتوں میں سے کوئی موجود ہو وہ اسے چھوڑ دے اور تم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے کوئی چیز واپس نہ لو۔ “ [ مسلم، النکاح، باب نکاح المتعۃ و بیان أنہ ۔۔ : ٢١؍١٤٠٦ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence of Verses Upto this point, the subject revolved around the people of the Book. Onwards, there is a return to subsidiary injunctions some of which were taken up early in the Sarah, and some others also in between. Also reported is a particular link as relevant to -the occasion - that monasticism has been mentioned in a complimentary sense a little earlier (82), though it is there in terms of a particular feature in it, which is the abandonment of worldly desires. But, since there was a probability that someone may take the whole concept of monasticism as praiseworthy, it was considered appropriate at this point that the making unlawful of what Allah has made lawful be forbidden. (As abridged from Bayan a1-Qur&an by Mau1na Ashraf ` Ali Thanavi) Commentary Leaving the worldly pleasures, when permissible The verses appearing above tell us that the renunciation of worldly life and the abstinence from appetites and passions is favourable within a certain limit, but any transgression of the Divinely-ordained lim¬its in this matter too shall be blameworthy حَرَام and haram (unlawful, for-bidden). Details are being given below. How Halal is turned into حَرَام haram : The Three Forms There are three forms in which something made Halal (lawful and good) by Allah could be declared as حَرَام haram (unlawful and evil): (1) BE¬LIEFWISE, that is, something is taken to be حَرَام haram by believing it to be so. (2) VERBALLY, that is, something is taken to be حَرَام haram for oneself by saying so - for instance, someone swears that he will not drink cold water, or would not eat such and such Halal food, or would not do something which is permissible. (3) PRACTICALLY, that is, someone who neither believes nor says anything, yet decides in prac¬tice that he or she would abandon something Halal forever. 1. Under the first situation, if that thing being Halal stands confirmed by absolute proofs, then, the person who takes it to be حَرَام haram shall become a disbeliever (kafir) because of that open contravention of the Divinely-ordained law. 2. And under the second situation, if someone has made something حَرَام haram for oneself by declaring it with words of oath, the oath will become effective. There are many words of oath details of which appear in Fiqh books - for example, someone clearly says: ` I swear by Allah, I will never eat that& or ` by Allah, I will not do that& or one might say, ` I make taking this or doing that حَرَام haram for me.& The rule which governs such actions is that taking such oaths unnecessarily is a sin. If taken, one must break the oath and make amends by paying the Kaffarah (expiation) of that oath, the detail about which will appear later. 3. The third will be a situation in which no Halal has been made حَرَام haram either by belief or word of mouth, but practically what one does is similar to what is done with something حَرَام haram, that is, takes it as obligatory to abandon it forever. The rule in this case is: If one takes the abandonment of the Halal to be an act of Thawab (merit, reward), then, it is Bid&ah (innovation in established religion) and Rahbaniyah (monasticism) - which is a grave sin as categorically laid down (Mansus) in the Qur&an and Sunnah; and acting against it is Wajib (necessary as an obligation); and adhering to such a restriction is an act of sin. Of course, if such a restriction is not there with the inten¬tion of Thawab, instead, it is there for some other reason, such as, some physical or spiritual sickness because of which one abandons something permanently, then, there will be no sin in doing so. Reports about some noble Sufis and other pious elders that they had aban¬doned some Halal things are all included under this third kind as they had found them to be harmful for their desiring self, or were advised by a pious elder to abstain from it as harmful in their case which they abandoned as a treatment and remedy. If so, it does not matter. The Correct Attitude towards Halal Things At the end of the first verse (87), it was said: وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ that is, ` and do not transgress the limits set by Allah because Allah does not like such transgressors.& Here, transgressing means that one abandons something Halal, without any valid excuse, as an act of Thawab. This is something an ignorant person takes to be Taqwa, fear of Allah, while, in the sight of Allah, that is transgression, which is impermissible. Therefore, it was said in the next verse (88): وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ that is, `(eat from the good and pure sustenance Allah has blessed you with) and keep fearing Allah whose believers you are.& Stated clearly in this verse is that leaving off good and pure things as a source of Thawab (reward) is no Taqwa. Rather, quite contrary to that, Taqwa lies in using them as the blessings of Allah and showing one&s gratitude for them. However, if something is abandoned as a cu¬rative measure against a physical or spiritual disease, that does not count here.

ربط آیات یہاں تک اہل کتاب کے متعلق گفتگو تھی۔ آگے پھر عود ہے احکام فرعیہ کی طرف، جن کا ذکر کچھ شروع سورت میں اور کچھ درمیان میں بھی ہوا ہے، اور باعتبار خصوصیت مقام کے ایک ربط خاص بھی منقول ہے، وہ یہ کہ اوپر مقام مدح میں رہبانیت کا ذکر آیا ہے، گو وہ باعتبار اس کے ایک جز و خاص یعنی ترک حب دنیا کے ہے، لیکن احتمال تھا کہ کوئی رہبانیت کی مساوی خصوصیات کو قابل مدح سمجھا جائے، اس لئے اس مقام پر اس تحریم حلال کی ممانعت زیادہ مناسب معلوم ہوئی۔ (بیان القرآن ملحضاً ) خلاصہ تفسیر اے ایمان والو اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں (خواہ وہ کھانے پینے اور پہننے کی قسم سے ہوں یا منکوحات کی قسم سے ہوں) ان میں لذیز (اور مرغوب) چیزوں کو (قسم و عہد کرکے اپنے نفسوں پر) حرام مت کرو اور حدود (شرعیہ) سے (جو کہ تحلیل و تحریم کے باب میں مقرر ہیں) آگے مت نکلو بیشک اللہ تعالیٰ حدِّ (شرعی) سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ نے جو چیزیں تم کو دی ہیں ان میں سے حلال مرغوب چیزیں کھاؤ (برتو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو (یعنی تحریم حلال خلاف رضائے حق ہے، ڈرو، اور اس کا ارتکاب مت کرو) ۔ معارف و مسائل ترک دنیا اگر حدود آلہیہ کے اندر ہو تو جائز ورنہ حرام ہے مذکورہ آیات میں یہ بتلایا ہے کہ اگرچہ ترک دنیا اور ترک شہوات و لذات ایک درجہ میں محبوب و پسندیدہ ہے مگر اس میں بھی حدود آلہیہ سے تجاوز کرنا مذموم اور حرام ہے، جس کی تفصیل یہ ہے : کسی حلال چیز کو حرام قرار دینے کے تین درجات کسی حلال چیز کو حرام قرار دینے کے تین درجے ہیں، ایک یہ کہ اعتقاداً اس کو حرام سمجھ لیا جائے، دوسرے یہ کہ قولاً کسی چیز کو اپنے لئے حرام کرے، مثلاً قسم کھالے کہ ٹھنڈا پانی نہ پیوں گا یا فلاں قسم کا حلال کھانا نہ کھاؤں گا، یا فلاں جائز کام نہ کروں گا۔ تیسرے یہ کہ اعتقاد و قول تو کچھ نہ ہو محض عملاً ہمیشہ کے لئے کسی حلال چیز کو چھوڑ دینے کا عزم کرے۔ پہلی صورت میں اگر اس چیز کا حلال ہونا قطعی ہونا قطعی دلائل سے ثابت ہو تو اس کا حرام سمجھنے والا قانون الٓہی کی صریح مخالفت کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔ اور دوسری صورت میں اگر الفاظ قسم کھا کر اس چیز کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے، تو قسم ہوجائے گی، قسم کے الفاظ بہت ہیں، جو کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں، ان میں ایک مثال یہ ہے کہ صراحةً کہے کہ اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ فلاں چیز نہ کھاؤں گا، یا فلاں کام نہ کروں گا، یا یہ کہے کہ میں فلاں چیز یا فلاں کام کو اپنے اوپر حرام کرتا ہوں، اس کا حکم یہ ہے کہ بلا ضرورت ایسی قسم کھانا گناہ ہے اس پر لازم ہے کہ اس قسم کو توڑ دے اور کفارہ قسم ادا کرے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ تیسری قسم جس میں اعتقاد اور قول سے کسی حلال کو حرام نہ کیا ہو، بلکہ عمل میں ایسا معاملہ کرے جیسا حرام کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ دائمی طور پر اس کے چھوڑنے کا التزام کرے اس کا حکم یہ ہے کہ اگر حلال کو چھوڑنا ثواب سمجھتا ہے تو یہ بدعت اور رہبانیت ہے، جس کا گناہ عظیم ہونا قرآن و سنت میں منصوص ہے، اس کے خلاف کرنا واجب اور ایسی پابندی پر قائم رہنا گناہ ہے، ہاں اگر ایسی پابندی بہ نیت ثواب نہ ہو بلکہ کسی دوسری وجہ سے ہو مثلاً کسی جسمانی یا روحانی بیماری کے سبب سے کسی خاص چیز کو دائمی طور پر چھوڑ دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں، بعض صوفیائے کرام اور بزرگوں سے حلال چیزوں کے چھوڑنے کی جو روایات منقول ہیں وہ سب اسی قسم میں داخل ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس کے لئے ان چیزوں کو مضر سمجھا، یا کسی بزرگ نے مضر بتلایا، اس لئے بطور علاج چھوڑ دیا، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر روایات میں فرمایا وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ، یعنی اللہ کی حدود سے آگے نہ بڑھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ حد سے بڑھنے کا مطلب یہی ہے کہ کسی حلال چیز کو بلا کسی عذر کے ثواب سمجھ کر چھوڑ دے، جس کو ناواقف آدمی تقویٰ سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ تعدّی اور ناجائز ہے، اس لئے دوسری آیت میں ارشاد ہے : وَّاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی جو رزق حلال پاک اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا ہے اس کو کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے جس پر تمہارا ایمان ہے ڈرتے رہو۔ اس آیت میں واضح فرما دیا کہ حلال پاک چیزوں کا ثواب سمجھ کر چھوڑ دینا تقویٰ نہیں، بلکہ تقویٰ اس میں ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر استعمال کرے، اور شکر ادا کرے، ہاں کسی جسمانی یا روحانی مرض کی وجہ سے بطور علاج کسی چیز کو چھوڑے تو وہ اس میں داخل نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝ ٨٧ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل . ( ح ر م ) الحرام ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ حلَ أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] ، ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی عدا والاعْتِدَاءُ : مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء/ 14] ، ( ع د و ) العدو الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة/ 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کی تحریم کا بیان قول باری ہے یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم اے ایمان لانے والو ! جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو طیبات کا اسم ان چیزوں پر واقع ہوتا ہے جن سے لذت کا احساس ہوتا ہے اور طبیعت میں ان کی اشتہاء پیدا ہوتی ہے اور ان کی طرف دل کا میلان ہوتا ہے۔ اس اسم کا اطلاق حلال چیزوں پر بھی ہوتا ہے ۔ یہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ آیت میں دونوں قسم کی چیزیں مراد ہیں اس لیے کہ طیبات کے اسم کا اسم اطلاق ان دونوں پر ہوتا ہے اس صورت میں تحریم حلال دو طرح سے ہوگی ۔ ایک یہ کہ کوئی شخص کہے میں نے اپنے اوپر یہ طعام حرام کرلیا ہے اس کے اس قول سے وہ کھانا اس پر حرام نہیں ہوگا البتہ اگر اس میں سے کھالے گا تو اس پر کفارہ لازم آ جائے گا ۔ دوسری یہ کہ ایک شخص کسی دوسرے کا طعام غصب کر کے اپنے طعام کے ساتھ ملا دے اور پھر اس کھانے کو اپنے اوپر حرام کرلے اس صورت میں وہ اس دوسرے شخص کو اس جیسا طعام تاوان کے طور پردے گا ۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جب میں گوشت کھاتا تھا تو مجھے شہوت آ جاتی تھی اس لیے میں نے گوشت کو اپنے اوپرحرام کرلیا اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی ۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ کچھ صحابہ کرام نے گوشت ، عورتوں سے قربت اور نامرد بن جانے کا ارادہ کرلیا اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی آپ نے اعلان کردیا کہ میرے دین میں عورتوں سے کنارہ کشی ، گوشت کھانے سے احتراز اور گرجے میں گوشہ نشینی یعنی رہبانیت نہیں ہے۔ مسروق نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ” ہم حضرت عبد اللہ (رض) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے سامنے جانور کے تھن کا گوشت پکا کر پیش کیا گیا ۔ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص اٹھ کر ایک کنارے ہوگیا حضرت عبد اللہ (رض) نے اسے قریب آنے اور گوشت کھانے کے لیے کہا اس نے جواب دیا کہ میں نے تھن کا گوشت اپنے اوپر حرا م کرلیا ۔ یہ سن کر حضرت عبد اللہ (رض) نے درج بالا آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ گوشت کھائو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔ قول باری بھی ہے یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک اے نبی تم اپنے اوپر وہ چیزیں کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہیں تا قول باری قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کھولنا مقرر کردیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے شہد اپنے اوپر حرام کرلیا تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور آپ کو اپنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اکثر اہل علم کا یہ قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کوئی طعام یا اپنی کوئی لونڈی حرام کرلے تو اس طعام کے کھانے کی صورت میں وہ حانث ہوجائے گا اسی طرح اگر اس نے اس لونڈی سے ہم بستری کرلی تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور دونوں صورتوں میں اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے خدا کی قسم ! میں یہ طعام یا کھانا نہیں کھائو گا ۔ یا یہ کہے ۔ میں نے یہ کھانا اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ تو ہمارے اصحاب کے نزدیک اس کے ان دونوں فقروں میں اس لحاظ سے فرق ہوگا کہ تحریم والی صورت میں اگر اس کھانے کا کوئی جز بھی کھالے گا تو حانث ہوجائے گا اور قسم والی صورت میں اگر سارا کھانا کھالے گا تو پھر حانث ہوگا ۔ ہمارے اصحاب نے اس شخص کی تحریم والے فقرے بمنزلہ اس فقرے کے قرار دیا ہے ۔ خدا کی قسم ! میں اس کھانے میں کچھ نہیں کھائوں گا ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں حرام قرار دی ہیں ان سب میں تحریم کے لفظ کا مقتضی یہی ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے حرمت علیکم المیتۃ والدم ولخم الخنزیر تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے لفظ ان مذکورہ چیزوں کے ہر جز کی تحریم کا مقتضی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے اوپر کوئی طعام حرام کرلے گا تو اس کی یہ تحریم اس کھانے کے جز پر قسم کے ایجاب کی مقتضی ہوگی ۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ میں یہ کھانا نہیں کھائوں گا تو اس کی اس قسم کو ان قسموں پر محمول کیا جائے گا جو شرط اور جواب شرط پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ اس کی مثال قائل کا یہ قول ہے خدا کی قسم اگر میں یہ کھانا کھائوں گا تو میرا غلام آزاد ہے ۔ اس لیے اس متعین طعام کا ایک جز کھا لینے پر حانث نہیں ہوگا ۔ جب تک کہ سارا طعام نہ کھالے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ارشاد باری ہے کل الطعام کان حلا لبنی اسرائیل الا ما حرام اسرائیل علی نفسہ کھانے کی یہ ساری چیزیں جو شریعت محمدی میں حلال ہیں بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ یہ روایت ہے کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عر ق النساء کی بیماری لاحق ہوگئی تھی آپ نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ اس سے شفا دے تو اپنی پسندیدہ غذا یعنی اونٹ کا گوشت اپنے اوپر حرام کرلوں گا ، یہ تحریم درست تھی اور اس کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کی ہوئی چیز کی آپس کے لیے ممانعت ہوگئی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے ذریعے یہ صورت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت ہو رہی ہے جو زہد و تقشف کی بنا پر گوشت خوری اور لذیز کھانوں سے احتراز کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تحریم سے نہی کردی ہے اور اپنے قول وکلوا مما زرقکم اللہ حلالا ً طیبا ً اللہ نے تمہیں جو پاکیزہ اور حلال چیزیں بطور رزق عطا کی ہیں ان میں سے کھائو سے ان کی اباحت کردی ہیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرغ کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ آپ کھجور اوخربوزہ کھایا کرتے تھے۔ غالب بن عبد اللہ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مرغی کا گوشت کھانے کا ارادہ کرتے تو اس مرغی کو تین دنوں تک بند رکھتے اور دانہ وغیرہ کھلاتے رہتے پھر اسے ذبح کرلیتے۔ اسراف اور تکبر سے بچ کر سب حلال چیزیں کھائی اور پہنی جاسکتی ہیں ابراہیم بن میسرہ نے طائوس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو جب تک دو چیزوں سے پرہیز کرتے رہو ایک اسراف سے اور دوسری تکبر سے۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عثمان ، حضرت عبد الرحمن بن عو ف، حضرت حسن ، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی (رض) ، حضرت عمران بن حصین (رض) ، حضرت انس بن مالک (رض) ، حضرت ابوہریرہ (رض) اور قاضی شریح ریشم پہنتے تھے ۔ اکل طیبات کی اباحت پر مذکورہ بالا آیت کی دلالت کی طرح یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے ۔ قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطبات منت الرزق اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے کہہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں۔ نیز پھلوں کی تخلیق کے ذکر کے بعد فرمایا متاعاً لکم تمہارے فائدے کی خاطر بیوی کو تین طلاق دینے کی تحریم پر آت لا تحرما طیبات ما احل اللہ لکم سے استدلال کیا جاتا ہے اس لیے کہ تین طلاق کے ذریعے بیوی کی اباحت کی تحریم لازم آتی ہے۔ قسموں کا بیان اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کی تحریم کی نہی کے بعد ارشاد ہوا لا یواخذ کم اللہ باللغوفی ایمانکم تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا ۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب لوگوں نے پاکیزہ کھانوں ، حلال نکاح اور لباس کی تحریم کی تو انہوں نے اس کی قسمیں بھی کھائیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ، لغو کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ بےکار بات ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان ہی معنوں میں شاعر کا یہ شعر ہے۔ ؎ او ما ئۃ تجعل اولاد ھا لغوا و عرض المائۃ الجلمد یا سو اونٹنیاں جن کے بچوں کو بےکار سمجھاجاتا ہے یعنی یہ بچے کسی شمار و قطار میں نہیں آتے ، حالانکہ سو اونٹنیوں کے یہ بچے اونٹوں کا ایک پورا گلہ ہوتے ہیں ۔ شاعر کی مراد ایسی اونٹنیاں ہیں جن کے بچوں کو کسی شمار میں نہیں لایا جاتا ۔ اس بنا پر یمین لغو وہ قسم ہے جو مہمل ہوتی ہے اور اس کا کوئی حکم نہیں ہوتا۔ ابراہیم الصائغ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے جس کا تعلق باری لا یواخذ کم اللہ با للغوفی ایمانکم سے ہے ۔ یہ روایت ہمیں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی ہے ، انہیں محمد بن احمد بن سفیان ترمذی اور ابن عبدوس نے ، ان دونوں کو محمد بن بکار نے ، انہیں حسان بن ابراہیم نے ابراہیم الصائغ سے ، انہوں نے عطاء سے جب عطاء سے یمین لغو کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس کے متعلق ارشاد ہے۔ (ھو کلام الرجل فی بیتہ لا واللہ ، و بلی واللہ یہ وہ کلام ہے جو ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھ کرتا ہے وہ کہتا ہے نہیں بخدا نہیں ، بخدا کیوں نہیں۔ ابراہیم نخعی نے اسود سے اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور ان دونوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یمین لغویہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے لا واللہ، وبلی واللہ یہ روایت حضرت عائشہ (رض) پر جا کر موقوف ہوگئی ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یمین لغو کے بارے میں روایت کی ہے کہ ایک شخص کسی بات پر قسم کھالے اس کا خیال یہ ہو کہ وہ بات اسی طرح ہے جبکہ حقیقت میں وہ اس طرح نہ ہو ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت بھی ہے کہ یمین لغویہ ہے کہ تم غصے کی حالت میں کوئی قسم کھا بیٹھو ۔ حسن ، سدی اور ابراہیم نخعی سے حضر ت عائشہ (رض) کے قول جیسا قول مروی ہے ۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ یمین لغو کی صورت یہ ہے کہ بلا ارادہ سبقت لسانی کے طورپر کوئی غلط بات منہ سے نکل جائے۔ بعض کا قول ہے کہ یمین لغو یہ ہے کہ تم کسی معصیت کو بروئے کار لانے کی قسم کھالو ، پھر مناسب بات یہی ہوگی کہ تم اسے بروئے کار نہ لائو اس میں کوئی کفارہ نہیں ہوتا ۔ یمین لغو کے بارے میں عمرو بن شعیب کی روایت ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے داد ا سے نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حلف علی یمین فرای غیر ھا خیرا ً منھا فلیتر کھا فان ترکھاکفار تھا جو شخص کسی بات کی قسم کھالے پھر وہ دوسری بات کو اس سے بہتر پائے تو وہ اس قسم کو ترک کر دے ، اس قسم کو ترک کردینا اس قسم کا کفارہ ہے۔ یمین لغو کے متعلق فقہائے امصا ر کا اختلاف ہے ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ گزرے ہوئے زمانے کی کسی بات پر اس گمان کے ساتھ قسم کھائے کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا بھی تقریباً یہی قول ہے ، اوزاعی نے بھی کہا ہے ، امام شافعی کا قول ہے کہ یمین لغو وہ بات ہے جس کی جان بوجھ کر قسم کھائی گئی ہو ، الربیع نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کسی چیز کے متعلق قسم کھالی ہو اس کا خیال ہو کہ وہ چیزیں اس کی قسم کے مطابق ہے پھر وہ اسے اس سے مختلف پائے تو اس پر کفارہ لازم آئے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا لا یواخذ کم اللہ با للغو فی ایمانکم ولکن یواخذ کم بما عقد تم الایمان ، تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا ۔ تو اس کے ذریعے یہ واضح کردیا کہ یمین لغو جان بوجھ کر کھائی گئی قسم سے مختلف ہوتی ہے اس لیے کہ اگر معقود یعنی جان بوجھ کر کھائی گئی قسم یمین بغو ہوتی تو پھر اسے یمین لغو پر عطف نہ کیا جاتا ، نیز دونوں کے حکموں میں فرق کو اس طرح بیان نہ کیا جاتا کہ یمین لغو میں مواخذہ اور گرفت کی نفی ہوتی اور یمین معقودہ میں کفارے کا اثبات ہوتا ۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ یمین لغو کا جب کوئی حکم نہیں ہوتا تو اب اس کا یمین معقودہ بن جانا جائز نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اگر گرفت اور مواخذہ کی بات تو یمین معقودہ میں قائم ہوتی ہے اور اس کا حکم ثابت ہوتا ہے اس سے ان حضرات کے قول کا بطلان ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ یمین لغو یمین معقودہ ہی ہے اور اس میں کفارہ واجب ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) نے یمین لغو کا جو مفہوم بیان کیا ہے وہی درست ہے نیز یہ کہ اس میں گزرے ہوئے زمانے کی کسی بات پر قسم کھائی جاتی ہے ۔ قسم کھانے والے کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ بات اسی طرح ہوگی۔ قسم کی دو اقسام قسموں کی دو قسمیں ہیں ۔ ماضی اور مستقبل یعنی گزرے ہوئے زمانے سے تعلق رکھنے والی قسم اور آنے والے زمانے سے تعلق رکھنے والی قسم ، پہلی قسم کی پھر دو قسمیں ہیں ۔ یمین لغو اور غموس ا ن دونوں قسموں کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا ۔ دوسری قسم کی صرف ایک صورت ہے۔ یہ یمین معقودہ ہے یعنی ایسی قسم جو جان بوجھ کر کھا گئی ہو ۔ حانث ہونے کی صورت میں اس میں کفارہ لازم ہوتا ہے ۔ امام مالک اور لیث بن سعد یمین غموس کے بارے میں ہمارے ہم مسلک ہیں کہ اس میں کفارہ نہیں ہوتا ۔ حسن بن صالح ، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ یمین غموس میں کفارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں قسموں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ آیت زیر بحث میں یمین لغو اور یمین معقودہ دونوں کا ذکر فرمایا ہے۔ سورة بقرہ میں ارشاد ہے لا یواخذکم اللہ یا لغوفی ایمانکم ولکن یواخذ کم بما کسبت قلوبکم ، تمہاری مہمل قسموں پر اللہ گرفت نہیں کرتا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا ۔ اس سے مراد ۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔۔ یمین غموس ہے اس لیے کہ اس قسم کے سلسلے میں مواخذہ کا تعلق کسب قلب کے ساتھ ہے جو گناہ اور آخرت کی سزا کی صورت میں ہوگا ۔ کفارے کی صورت میں نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ کفارے کا تعقل کسب قلب کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کسی معصیت کے ارتکاب کی قسم کھا لیتا ہے تو اس پر اس قسم کا توڑ دینا لازم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اسے کفارہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری ولکن یواخذ کم بما کسبت قلوبکم سے مراد یمین غموس ہے جس میں کذب بیانی کا ارادہ کیا جاتا ہے اور اس پر مواخذہ آخرت کی سزا کی صورت میں ہوگا ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسب قلب پر مواخذہ کا ذکر کیا اور اس سے پہلے یمین لغو کا ذکرہوا ، یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ یمین لغو قسم کی وہ صورت ہے جس میں کذب بیانی کا ارادہ نہیں ہوتا اور یہ ان معنوں میں یمین غموس سے مختلف ہوتی ہے۔ یمین غموس میں کفارہ نہیں ہوتا اس پر قول باری ان الذین یشترون بعھدھم وایمانہم ثمنا قلیلا ً اولیک لا خلاق لھم فی الاخرۃ جو لوگ اپنے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں دلات کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں وعید کا ذکر کیا لیکن کفارے کا ذکر نہیں کیا، اگر ہم اس میں کفارہ واجب کردیں تو یہ نص میں اضافہ ہوگا اور یہ بات جائز نہیں ہوتی الایہ کہ اس جیسی کوئی نص ہو ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا من حلف علی یمین وھو فیھا اثم فاجر لیقطع بھا مالا ً لقی اللہ تعالیٰ وھو علیہ غضبان جس شخص نے کسی بات کی قسم کھائی ہو جبکہ وہ اس قسم میں گناہ گار اور فاجر ہوتا کہ اس کے ذریعے وہ کوئی مال ہتھیا لے تو جب وہ اللہ کے سامنے جائے گا تو اللہ اس سے ناراض ہوگا ۔ منبر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غلط قسم کھانے والا جہنمی ہے۔ حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا من حلف علی منبری ھذا بیمین اثمۃ تیوا مقعدہ من النار جو شخص میرے منبر پر گناہ میں مبتلا کرنے والی قسم کھائے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گناہ کا ذکر کیا لیکن کفارے کا ذکر نہیں کیا ۔ یہ بات دو وجوہ سے کفارے کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اول یہ کہ نص میں اس جیسی نص کے بغیر اضافہ جائز نہیں ہوتا ۔ دوم یہ کہ اگر کفارہ واجب ہوتا تو آپ ضرور اس کا ذکر کرتے جس طرح یمین معقودہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے من حلف علی یمین فرای غیر ھا خیرا ً منھا فلیات الذی ھو غیر منھا ولیکفر عن یمینہ جس شخص نے کوئی قسم کھائی اور پھر دوسری بات اسے بہتر نظر آئی تو اسے چاہیے کہ دوسری بات اختیار کرلے اور اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے اس حدیث کو حضرت عبد الرحمن بن سمرہ (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) اور دوسرے حضرات نے روات کی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے سے تعلق رکھنے والی قسم پر کفارہ نہیں آتا اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے واحفظوا یمانکم اپنی قسموں کی نگہداشت کرو قسموں کی نگہداشت اور حفاظت کا مفہوم یہ ہے کہ قسم ٹوٹ جانے پر اس کے کفارے کی ادائیگی کا پورا خیال رکھا جائے ۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ گزشتہ زمانے سے تعلق رکھنے والی کسی قسم کی حفاظت ممتنع ہے اس لیے کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی گئی ہے اس کے وقوع پذیر ی میں صرف ایک ہی پہلو ہوتا ہے اس لیے اس میں حفظ اور نگہداشت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم اذا خلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو کا عموم قسم کی تمام صورتوں میں ایجاب کفارہ کا مقتضی ہے الایہ کہ دلیل کی بنا پر کسی صورت کی تخصیص ہوگئی ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ تو واضح ہے کہ اس سے وہ قسم مراد ہے جو جان بوجھ کر آئندہ زمانے سے تعلق رکھنے والی بات پر اٹھائی جائے اس لیے اس فقرے میں لا محالہ ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس کے ساتھ کفارہ کے وجوب کا تعلق ہے وہ لفظ حنث یعنی قسم کا توڑنا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں ایک پوشیدہ لفظ بھی ہے تو اب ظاہر آیت سے استدلال ساقط ہوگیا اس لیے کہ یمین معقودہ میں حنث سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہوتا اس پر سب کا اتفاق ہے اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں ایک پوشیدہ لفظ بھی موجود ہے اس لیے آیت کے عموم کا اعتبار جائز نہیں رہا اس لیے کہ آیت کے حکم کا تعلق اب اس پوشیدہ لفظ کے ساتھ ہوگیا جو آیت میں مذکور نہیں ہے۔ نیز قول باری واحفظوا ایمانکم اس بات کا مقتضی ہے کہ جن قسموں میں کفارے کا وجوب ہوتا ہے یہ وہ قسمیں ہیں جن کی حفاظت اور نگہداشت ہم پر لازم کردی گئی ہے یہ بات صرف یمین معقودہ میں پائی جاتی ہے اس قسم میں ہم حنث کی صورت میں کفارے کی ادائیگی کے لیے اس کی حفاظت کرسکتے اور اس کا خیال رکھ سکتے ہیں ۔ جبکہ گزشتہ بات پر قسم کے اندر حنت واقع نہیں ہوتا ۔ اس لیے اس قسم کی قسم کو آیت شامل ہی نہیں ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ماضی سے تعلق رکھنے والی بات پر استثناء کا دخول درست نہیں ہوتا ۔ آپ کا یہ فقرہ درست نہیں ہے کان امس الجمعۃ ان شاء اللہ یا واللہ لقد کان امس الجمعۃ انشاء اللہ کل جمعہ کا دن تھا یا بخدا کل جمعہ کا دن تھا اس لیے کہ حنث کا مفہوم یہ ہے کہ قسم اٹھانے کے بعد اس کے خلاف کوئی بات وجود میں آ جائے۔ کفارے کا تعلق قسم اٹھانے کے بعد قسم توڑنے کے ساتھ ہوتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص صرف واللہ خدا کی قسم کا لفظ کہے تو یہ قسم ہوگی لیکن صرف اس قول کے وجود کے ساتھ اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ حنث یعنی قسم کا توڑنا نہیں پایا گیا ۔ قول باری بما عقد ثم الایمان کی تین طرح قرأت کی گئی ہے تشدید کے ساتھ یعنی بما عقدتم یہ قرأت ایک گروہ نے کی ہے تشدید کے بغیر یعنی بماعقدتم نیز بما عا قدتم تشدید کے ساتھ والی قرأت کے متعلق ابو الحسن کرخی فرماتے تھے کہ اس میں عقد قولی کے سوا اور کسی بات کا احتمال نہیں ہے۔ تشدید کے بعد قرأت کی صورت میں عقد قلب کا احتمال ہے جس کے معنی عزیمت اور عقد قولی کے ارادے کے ہیں ۔ اس میں قولا ً عقدیمین کا بھی احتمال ہے۔ جب ایک قرأت میں قول اور اعتقاد قلب کا احتمال ہے اور دوسرے میں صر ف قولا ً عقدیمین کا احتمال ہے تو اس صورت میں اس قرأت کو جس میں دو معنوں کا احتمال ہے اس قرأت پر محمول کرنا واجب ہے جس میں صرف ایک معنی کا احتمال ہے۔ اس طرح دونوں قرأتوں سے جو مفہوم اخذ ہو وہ قولا ً عقد یمین کا مفہوم ہے۔ اس لیے ایجاب کفارہ کا حکم صرف قسم کی اسی صورت تک محدود رہے گا یعنی جب قسم یمین معقودہ کی شکل میں ہو۔ گزشتہ زمانے کی بات پر کھائی ہوئی قسم میں کفارہ واجب نہیں ہوگا اس لیے کہ وہ یمین معقودہ کی صورت میں نہیں ہوتی ۔ اس میں تو صرف گزرے ہوئے زمانے میں کسی وقوع پذیر معاملے کی خبر دی جاتی ہے اور ماضی کے متعلق خبر میں عقد یعنی ارادہ اور قصد نہیں ہوتاخواہ وہ جھوٹ ہو یا سچ ۔ اگر یہ کہا جائے کہ تشدید کے بغیر قرأت کی صورت میں لفظ دونوں معنوں یعنی عقد قلب اور عقد یمین کا احتمال رکھتا ہے تو آپ نے اس لفظ کو دونوں معنوں پر کیوں نہیں محمول کیا جبکہ ان دونوں معنوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ اسی طرح تشدید والی قرأت بھی عقد یمین پر محمول ہوگی یہ چیز لفظ کو قسم کے ارادے کے معنوں میں استعمال کرنے کی نفی نہیں کرتی اس طرح یہ لفظ قسم کی تمام صورتوں کے لیے عموم ہوجائے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر معترض کی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو بھی لفظ کو معترض کی ذکر کردہ صورتوں میں استعمال کرنا درست نہیں ہوگا ۔ نیز اجماع کی دلالت بھی اس استعمال کے لیے مانع ہے۔ وہ اس لیے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قسم کے ارادے کے ساتھ کفارے کے وجوب کا تعلق نہیں ہوتا اس لیے اس شخص کی تاویل باطل ہوگئی جس نے کفارہ کے حکم کے سلسلے میں لفظ کو دل کے ارادے کے معنوں پر محمول کیا تھا اور اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایجاب کفارہ کے سلسلے میں دونوں قرأتوں کی صورت وہ قسم مراد ہے جو مستقبل کے کسی کام کے متعلق جان بوجھ کر کھائی جائے یعنی یمین معقودہ کی صورت ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قول باری عقد تم تشدید کی صورت میں تکرارکا مقتضی ہے جبکہ گرفت اور مواخذہ تکرار کے بغیر ہی لازم ہوجاتا ہے تو اب آپ اس لفظ کی کیا توجیہ کریں گے جو تکرار کا مقتضی ہے جبکہ تکرار کے بغیر کفارے کا وجوب لازم ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قسم کی تعقید یعنی گرہ بندی کبھی اس طرح ہوتی ہے کہ قسم اٹھانے والا اپنا دل میں بھی اس کی گرہ بندی یعنی ارادہ کرتا ہے اور اپنے الفاظ میں بھی اگر وہ قسم کی گرہ بندی صرف ایک صورت کے ذریعے کرے اور دوسری صورت کو چھوڑ دے یعنی دل میں اس کی گرہ بندی کرلی اور الفاظ میں نہ کرے یا اس کے برعکس کرے تو یہ تعقید نہیں کہلائے گی اس لیے کہ یہ لفظ تعظیم کے لفظ کے طرح ہے جو کبھی تو فعل کی تکرار اور اس کے بار بار عمل میں لانے کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی درجے اور مرتبے کو بلند کردینے کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے ۔ تشدید کی قرأت کی صورت میں جس حکم کا افادہ ہوسکتا ہے وہ تخفیف کی قرأت کی صورت میں نہیں ہوسکتا وہ حکم یہ ہے کہ اگر قسم اٹھانے والا اپنی قسم کا تکرار کے طور پر اعادہ کرے گا تو اس تکرار کی بنا پر اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ اس پر صرف پہلی دفعہ قسم کھانے کی بنا پر ایک ہی کفارہ لازم آئے گا ہمارے اصحاب (رض) کا بھی یہی قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھالے پھر اسی مجلس میں اس قسم کا اعادہ کرلے یا کہیں اور جا کر اس کا اعادہ کرلے اور اسکا ارادہ صرف تکرار کا ہی ہو تو اس صورت میں اس پر صرف ایک کفارہ لازم آئے گا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ تخفیف کی قرأت کے ساتھ قول باری بما عقدتم بھی ایک قسم پر کفارہ کے ایجاب کا مقتضی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دونوں قرأتوں نیز تکرار کو ان ہی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور اس طرح ہر قرأت اپنے پر ایک نئے فائدے کی موجب ہے اس لیے معترض کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فصل جو لوگ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کے ایجاب کے قائل ہیں وہ دو وجوہ سے آیت زیر بحث سے استدلال کرتے ہیں ایک وجہ تو ہے کہ قول باری ہے ولکن یواخذ کم بما عقد ثم الایمان فکف تہ اللہ تعالیٰ نے عقد یمین کے بعد حنث یعنی قسم توڑنے کے ذکرکے بغیر کفارہ کا ذکر کردیا اور حرف فاء تعقیب کے لیے آتا ہے اس سے یہ لازم آیا کہ قسم کھاتے ہی کفارہ واجب ہوجائے گا ۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے ذلک کفارۃ ایمانکم اذا خلقتم الایمان فکف رتہ کے متعلق اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس میں ایک لفظ پوشیدہ ہے اس لیے جب کبھی کفارہ کے ایجاب کا ارادہ کیا جائے گا اس لفظ کے اعتبار ضروری ہوگا ۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ آیت قسم توڑنے پر کفارہ کے ایجاب کو متضمن ہے نیز یہ کہ حنث سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہوتا ۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہاں یہ مراد ہے کہ جو قسم تم نے جان بوجھ کر کھائی ہو اور پھر تم نے اسے توڑ دیا ہو اس صورت میں اس کا کفارہ یہ ہے۔۔۔۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر یہاں یہ مفہوم ہے کہ جو شخص بیمارہو یا سفر پر ہو اور وہ روزہ نہ رکھتے تو دوسرے دنوں کی گنتی پوری کرلے ۔ اس طرح یہ قول باری ہے فمن کان منکم مریضا ً او بہ اذی م راسہ ففدیۃ من صیام او صدقۃ۔ یہاں یہ معنی ہیں کہ تم میں سے جو شخص بیمار ہوجائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہوجائے اور پھر وہ حالت احرام میں سر مونڈلے تو اس پر فدیہ واجب ہوگا ، روزے یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں اسی طرح آیت زیر بحث کا مفہوم ہے کہ جو قسم تم نے جان بوجھ کر کھائی ہو اور پھر حانث ہوگئے ہو تو اس کا کفارہ یہ چیزیں ہیں ۔ اس لیے کہ سب کا ا س پر اتفاق ہے کہ حنث سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہوتاجب کہ دوسری طرف آیت لا محالہ کفارے کے ایجاب کی مقتضی ہے اور یہ ایجاب حنث کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں لفظ حنث پوشیدہ ہے اور ایجاب کفارہ میں یہی مراد ہے نیز جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نام کفارہ رکھا تو ہمیں اس سے معلوم ہوگیا کہ اس کی مراد یہ ہے کہ کفارہ واجب ہونے کی حالت میں اس چیز کے ذریعے کفارہ ادا کیا جائے جو آیت میں اس نام سے موسوم کیا گیا ہے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کردینا ۔ اس لیے کہ جو چیز واجب نہیں ہوگی وہ حقیقت میں کفارہ نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی اس نام سے موسوم کی جاسکتی ہے ۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ جب تم اپنی قسم توڑ دو تو پھر اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ تلاوت کے تسلسل میں قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم ذا خلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم کھائو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم قسم کھائو اور اپنی قسم توڑ دو ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح سبب یعنی نصاب زکوٰۃ کے وجوب کے ساتھ سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی کو زکوٰۃ کا نام دینا جائز ہے یا جس طرح قتل کے وجود سے قبل لگنے والے زخم کے ساتھ دیئے جانے والے کفارہ کو کفارہ قتل کا نام دینا جائز ہے اگرچہ زخمی ہونے کی حالت میں کفارہ واجب نہ ہو ۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ قسم کھانے والا قسم توڑ دینے سے قبل کفارہ کے طور پر جو ادا کرے اسے کفارہ کا نام دیا جائے اور اس کے جواز کے لیے حنث کے لفظ کو آیت میں پوشیدہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہ پیش آئے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ آیت میں وہ کفارہ مراد ہے جو حنث کے بعد واجب ہوتا ہے لیکن اگر اس سے صرف واجب کفارہ مراد لیا جائے تو اس صورت میں یہ بات ممتنع ہوجائے گی کہ اس میں وہ کفارہ بھی شامل ہوجائے جو واجب نہ ہوا ہو ۔ اس لیے کہ یہ بات محال ہے کہ ایک ہی لفظ ایجاب کا بھی مقتضی ہو اور اس کا بھی جو واجب نہ ہو۔ اس لیے جب اس سے واجب کفارہ مراد لیا جائے گا تو وہ کفارہ منتفی ہوجائے گا جو واجب نہ ہوا ہو ۔ نیزی ہ بات ثابت ہے کہ جو شخص تبرع اور نیکی کے طور پر کھانا وغیرہ کھلاتا ہے وہ اس کے ذریعے کفارہ ادا کرنے۔ والا شمار نہیں ہوتا اگر اس نے قسم نہ کھائی ہو ، جب حنث سے پہلے کفارہ ادا کرنے والاتبرع کرنے والا شمار ہوتا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے جو کچھ دیا ہے وہ کفار ہ نہیں ہے ۔ اگر اس نے ایسا کرلیا تو وہ اس کام کا سر انجام دینے والا شمار نہیں ہوگا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ معترض نے اپنے اعتراض میں جن دو صورتوں کی مثال دی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ زخم لگنے کے بعد زخمی کی موت سے قبل کفارہ قتل کی ادائیگی نیز سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی در حقیقت تطوع کی صورت ہے ، یہ نہ کفارہ ہے اور نہ زکوٰۃہم نے اسے اس وقت جائز قرار دیا جب یہ دلالت قائم ہوگئی کہ تطوع کے طور پر دیا جانے والا یہ کفارہ یا یہ زکوٰۃ موت واقع ہوجانے کی صورت میں نیز سال گزر جانے کے بعد فرضیت کے لزوم کو مانع ہے۔ فصل جو شخص اپنی نذر کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کر دے مثلا ً یہ کہے اگر میں گھر میں داخل ہوا ۔ تو اللہ کے لیے مجھ پر حج کرنا یا غلام آزاد کرنا لازم ہوگا ۔ یا اس قسم کی کوئی اور شرط لگائے اور پھر حانث ہوجائے تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا نذر کے طور پر مانی ہوئی چیز واجب نہیں ہوگی ۔ اس مسلک کے قائلین نے ظاہر قول باری ولکن یواخذکم بما عقد تم الایمان نیز قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم اذا خلفتم سے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب نذر ماننے والا یہ شخص حالف یعنی قسم کھانے والا بن گیا تو پھر حنث کی صورت میں اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگیا ۔ نذر کے طور پر مانی ہوئی چیز یعنی منذورواجب نہیں ہوئی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح ان لوگوں سے خیال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نذر کی بنا پر نذر کے طور پر مانی ہوئی چیز کو بعینہٖ پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ نذر کی اصل یمین کی اصل سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قوم بارل ہے واو فوا بعھد اللہ اذ ا خلفتم جب تم عہد کرو تو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ نیز ارشاد ہوا یوفون بالنذر وہ نذر کو پورا کرتے ہیں نیز فرمایا اوفوا بالعقود عقود کو پورا کرو۔ نیز ارشاد ہوا ومنھم من عاھد اللہ لئن تانا من فضلہ لنصدون و لنکونن من الصالحین فلما اتھم من فصلہ بخلوا بہ وتولوا و ھم معرضون ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اللہ اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور نیک بن جائیں گے لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے مال دیا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور منہ موڑ گئے اور وہ تو منہ موڑنے والے ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی اس بنا پر مذمت کی کہ انہوں نے اپنی نذر بعینہٖ پوری نہیں کی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے من نذر نذرا ً لم یسمہ فعلیہ کفارۃ یمین ومن نذر نذرا ً سماہ فعلیہ اوفاء بہ جس شخص نے کوئی نذر مانی ہو لیکن اس کی تعیین نہ کی ہو تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا اور جس نے نذر مانی ہو اور اس کی تعیین بھی کی ہو تو اس اسے پورا کرنا لازم ہوگا ۔ قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم کا تعلق اس قسم کے ساتھ ہے جو اللہ کے نام پر جان بوجھ کر کسی امر مستقبل کے بارے میں کھائی گئی ہو جسے یمین منعقدہ کہا جاتا ہے جبکہ نذر کی صورتوں کی بنیاد وہ آیات ہیں جن کا ہم نے ابھی نذر پوری کرنے کے لزوم کے سلسلے میں ذکر کیا ہے۔ قول باری ہے واحفظو ایمانکم تم اپنی قسموں کی حفاظت کرو کچھ لوگوں کا قول ہے کہ قسم قسم توڑنے سے اپنے آپ کو بچائو اور قسم کھا کر قسم توڑ دینے سے پرہیز کرو اور ڈرتے رہو، اگرچہ قسم توڑنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے ۔ قسمیں کم کھایا کرو جس طرح یہ قول باری ہے ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لایامانکم اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنا لو ا ن حضرات نے شاعر کے اس قول سے استشہاد کی ہے۔ ؎ قلیل الالایا حافظ لیمینہ اذا بدرت منہ الالیۃ برت اس کی قسمیں بہت قلیل ہیں اور وہ اپنی قسم کی حفاظت کرتا ہے جب کہ اس کے منہ سے کوئی قسم نکل جاتی ہے تو وہ پوری بھی ہوجاتی ہے۔ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ قسموں کو اس طرح نگہداشت کرو کہ قسم توڑنے پر کفارہ ادا کر دو ۔ اس لیے کہ کسی چیز کی حفاظت اس چیز کی نگہداشت کا نام ہے۔ یہی بات درست ہے۔ آیت کی پہلی تاویل بےمعنی ہے۔ اس لیے کہ قسم اگر کسی معصیت کے ارتکاب کے لیے نہ کھائی گئی ہو تو اسے توڑ دینے سے روکا نہیں گیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حلف علی یمین فرای غیر ھا خیراً منھا فلیات بالذیھو خیرو لیکفرعن یمینہ آپ نے قسم کھانے والے کو قسم توڑنے کا حکم دیا ۔ ارشاد باری بھی ہے ولا یاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والمساکین والمھاجرین فی سبیل اللہ ولیحفوا ولیصفوا ! جول گو تم میں بزرگی اور بیعت والے ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور ہجرت فی سبیل اللہ کرنے والوں کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں ۔ چاہیے کہ معاف کرتے رہیں اور در گزر کرتے رہیں تا آخر آیت ۔ روایت میں ہے کہ یہ آیت مسطح بن اثاثہ کے بارے میں نازل ہوئی جب حضرت ابوبکر (رض) نے ان پر کچھ خرچ نہ کرنے کی قسم کھالی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ مسطح نے افک کے واقعہ کے سلسلے میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی ۔ حضرت ابو یکر (رض) اس شخص کی مدد کرتے رہتے تھے یہ ان کا رشتہ دار بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر (رض) کو اپنی قسم توڑ دینے کا حکم دے دیا اور اس شخص کی دوبارہ کفالت کا امر فرمایا چناچہ حضرت ابوبکر (رض) نے اللہ کے اس حکم کے مطابق اپنی قسم توڑ دی اور پھر سے اس کی مدد شروع کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی قسم توڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ چناچہ ارشاد ہے یایھا النبی لم تحرم ما احل الہ لک اے نبی ! آپ کیوں اپنے اوپر وہ چیز حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردی ہے تا قول باری اقد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر اپنی قسمیں کھول دینا فرض کردیا ہے یعنی کفار ہ دے کر اور دوبارہ اس چیز کی طرف رجوع کر کے جو اپنے اوپر حرام کرلی ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جب کسی معصیت کے ارتکاب کی قسم نہ کھائی گئی ہو تو اس صورت میں قسم توڑ دینے سے روکا نہیں گیا ہ۔ اس لیے قول باری واحفظو ایمانکم سے قسم توڑنے کی نہی مراد لینا درست نہیں ہوگا ۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ آیت میں قسم کھانے کی نہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے شاعر کے شعر سے استشہاد کیا ہے ان کا قول بھی انتہائی کمزور اور ساقط ہے۔ اس لیے کہ قسم کی حفاظت کے حکم کو نہی پر محمول کرنا کسی طرح درست نہیں ہے ۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے اپنے مال کی حفاظت کر یعنی مال نہ حاصل کر شاعر کے شعر کا مفہم ہمارے قول کے مطابق ہے یعنی کفارہ ادا کرنے کے لیے قسم توڑنے کی رعات کی جائے۔ اس لیے کہ شاعر نے پہلے مصرعہ میں یہ بتایا ہے کہ مذکورہ شخص کی قسمیں بہت کم ہیں ۔ پھر کہا کہ وہ اپنی قسم کی حفاظت کرتا ہے یعنی وہ اس کی نگہداشت کرتا ہے تا کہ قسم توڑنے کی صورت میں اس کا کفارہ ادا کر دے۔ اگر شعر کا وہ مفہوم ہوتا جو استشہاد کرنے والے نے بیان کیا ہے تو اس میں اسی بات کی تکرار لازم آ جاتی جو اس نے پہلے بیان کردی تھی اس لیے یہ بات درست ہے کہ آیت میں قسم کی نگہداشت کا حکم ہے تا کہ حنث کی صورت میں اس کا کفارہ اد ا کرے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧۔ ٨٨) یہ آیت کریمہ اصحاب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے دس حضرات یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمرفاروق (رض) ، حضرت (علیہ السلام) عثمان بن مظعون، (رض) حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، حضرت مقدادرضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ (رض) حضرت سلمان فارسی (رض) ، حضرت ابوذر (رض) ، حضرت عمار بن یاسر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ ان سب حضرات نے حضرت عثمان (رض) بن مظعون کے گھر میں اس بات پر اتفاق کیا بقدر ضرور کھائیں گے اور پیں گے اور نہ بیبیوں کے پاس جائیں گے اور نہ گوشت کا کھائیں گے اور نہ چربی کھائیں گے اللہ کی رضا کے لیے صرف راہبانہ زندگی بسر کریں گے، اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اس چیز سے منع فرمایا کہ کھانے پینے اور صحبت وغیرہ کو حرام مت کرو اور حدود شرعیہ میں حلال و حرام کی جو حدیں مقرر ہیں ان سے تجاوز مت کرو، اور حلال چیزیں کھاؤ اور پیو اور ان حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام مت کرو۔ شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا ”(الخ) امام ترمذی (رح) وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جس وقت گوشت کھاتا ہوں تو عورتوں کے لیے ہیجان ہوجاتا ہے اور شہوت کا غلبہ ہوجاتا ہے، اس لیے میں نے اپنے اوپر گوشت کو حرام کرلیا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو شخص اس نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان میں سے لذیذ چیزیں اپنے اوپر حرام مت کرو۔ اور ابن جریر (رح) نے عوفی کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ حضرات نے جن میں عثمان بن مظعون بھی تھے، گوشت اور عورتوں کے اپنے حرام کرلیا تھا اور اپنے عضو تنا سل کے کاٹے کا ارادہ کرلیا تھا تاکہ شہوت بالکل ختم ہوجائے اور عبادت خداوندی کے لیے کامل طور پر فارغ ہوجائیں، تب یہ آیت نازل ہوئی ، نیز اسی طرح عکرمہ (رض) ، ابوقلابہ، مجاہد، ابومالک نخعی اور سدی وغیرہ کی مرسل روایتیں نقل کی ہیں جن میں سدی کی روایت میں ہے کہ وہ دس حضرات تھے جن میں ابن مظعون (رض) اور علی ابن ابی طالب (رض) بھی تھے۔ اور عکرمہ کی روایت میں ابن مضعون، حضرت علی، ابن مسعود، مقداد بن اسود اور سالم مولی ابوحذیفہ (رض) کا ذکر ہے اور مجاہد کی روایت میں ابن مظعون (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) کا ذکر ہے۔ اور ابن عساکر (رح) نے اپنی تاریخ میں بواسطہ سدی صغیر، کلبی، ابوصالح، ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت صحابہ کرام کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جن میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت عثمان بن مظعون (رض) ، مقداد بن اسود (رض) اور سالم مولی ابی حذیفہ (رض) تھے یہ سب اس پر متفق ہوئے کہ اللہ کی طرف کامل توجہ اور محض اس کی عبادت کے لیے سب اپنے عضوتناسل کاٹ ڈالیں اور عورتوں سے علیحدہ رہیں اور گوشت وچربی نہ کھائیں، اور ٹاٹ پہنیں اور بقدر ضرورت کھائیں، اور زمین میں راہبوں کی طرح پھریں ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم (رح) نے زید بن سلم سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن رواحہ (رض) کے رشتہ داروں میں سے ایک مہمان آیا اور عبداللہ بن رواحہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے جب اپنے گھر آئے تو دیکھا کہ مہمان نے ان کے انتظار میں ابھی تک کھانا نہیں کھایا، تو اپنی بیوی سے کہا کہ میری وجہ سے ابھی تک میرے مہمان کو بٹھائے رکھا یہ کھانا مجھ پر حرام ہے ان کی بیوی بولیں کہ میرے اوپر بھی حرام ہے، مہمان نے کہا تو پھر مجھ پر بھی حرام ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے جب یہ دیکھا تو کھانے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا چلو بسم اللہ پڑھ کر کھالو ،۔ اس کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں تشریف لے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سارا واقعہ بیان کیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

کھانے پینے کی چیزوں میں حلتّ و حرمت اور تحلیل و تحریم الہامی شریعتوں کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار ان مسائل پر بحث کی گئی ہے اور یہ موضوع سورة البقرۃ سے مسلسل چل رہا ہے۔ عربوں کے ہاں نسل در نسل رائج مشرکانہ اوہام کی وجہ سے بہت سی چیزوں کے بارے میں حلّت و حرمت کے غلط تصورات ذہنوں میں پختہ ہوچکے تھے۔ اس قسم کے خیالات ذہنوں ‘ دلوں اور مزاجوں سے نکلنے میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے بار بار ان مسائل کی طرف توجہ دلائی جار ہی ہے ۔ آیت ٨٧ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ ) (وَلاَ تَعْتَدُوْا ط) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تقویٰ کے جوش میں اور بہت زیادہ نیکی کمانے کے جذبے میں بھی کئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر بیٹھتے ہیں ‘ اس لیے فرمایا گیا کہ حد سے تجاوز نہ کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

104. This verse embodies two directives. The first is that man should not attribute to himself the authority to proclaim things either lawful or unlawful according to his own wishes. Only that which God has held to be lawful is lawful, and only that which God has declared unlawful is unlawful. If men were to declare certain things either lawful or unlawful on their own authority, they would not be following the law of God but their own laws. The second directive is that they should not adopt the course of world-renunciation and abstention from worldly pleasures as the Christian monks, Hindu mendicants, Buddhist bhikshus and illuminist mystics did. Religious-minded and virtuous people have always tended to consider their physical and carnal desires an impediment to spiritual growth. They have considered suffering, deprivation from worldly pleasures and abstention from the means of worldly sustenance to be acts of goodness and indispensable for achieving proximity to God. Even some of the Companions leaned in this direction. The Prophet (peace be on him) once came to know that some Companions had resolved that they would fast without interruption, that instead of spending the night on their beds they would remain awake praying, that they would consume neither meat nor fat, and would have no (sexual) relations with women. The Prophet (peace be on him) addressed the people on this subject and said: 'I have not been commanded to do so. Even your own self has rights against you. So, fast on certain days and refrain from fasting on others. Stay awake praying at night and also sleep. Look at me; 1 sleep as well as stay awake (praying); sometimes I fast and sometimes I don't. I consume meat as well as fat. Whosoever dislikes my way does not belong to me.' He then added: 'What has happened to people that they have prohibited for themselves women, good food, perfumes, sleep and the pleasures of the world, whereas I have not taught you to become monks and priests. In my religion there is neither abstention from women nor from meat, neither seclusion nor withdrawal. For the purposes of self-control my religion has fasting. As for monasticism, all its benefits can be derived from jihad (struggle in the way of God). Serve God and associate none with Him. Perform Hajj and 'Umrah, establish Prayers, dispense Zakah and observe the fasts of Ramadan. Those who were destroyed before you were destroyed because they were severe with themselves, and when they became severe with themselves God became severe with them as well. It is the remnants of such people who you see in the oratories and hermitages of monks.' (Ibn Kathir, vol. 2, pp. 626 and 628-9 - Ed.) There are traditions to the effect that the Prophet (peace be on him) once came to know that one of his Companions was always so preoccupied with worship and devotion that he did not approach his wife for long periods. The Prophet (peace be on him) called for him and directed him to go to his wife. On being told that he was fasting, the Prophet (peace be on him) asked him to break the fast and proceed to his wife. During the reign of 'Umar a lady once lodged the complaint that her husband fasted all day and prayed all night and had no relations with her. 'Umar appointed the famous Successor (Tabi'i), Ka'b b. Thawr al-Azdi to look into the matter. He issued the judgement that the husband had the right to spend three nights in Prayer if he so wished, but every fourth night was the right of his wife. (Fiqh al-Sunnah, vol. 2, p. 164 - Ed.) 105. 'Do not exceed the bounds of right' has a broad signification. To hold the things which are lawful to be unlawful, and to shun the things declared by God to be clean as if they were unclean, is in itself an act of wrongful excess. It should be remembered, at the same time, that extravagant indulgence even in clean things is an act of wrongful excess. Likewise, to overstep the limits of the permissible is also an act of wrongful excess. God disapproves of all three kinds of excess.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :104 اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ۔ ایک یہ کہ خود حلال و حرام کے مختار نہ بن جاؤ ۔ حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا ۔ اپنے اختیار سے کسی حلال کو حرام کرو گے تو قانون الہٰی کے بجائے قانون نفس کے پیرو قرار پاؤ گے ۔ دوسری بات یہ کہ عیسائی راہبوں ، ہندو جوگیوں ، بودھ مذہب کے بھکشووں اور اشراقی متصوفین کی طرح رہبانیت اور قطع لذات کا طریقہ اختیار نہ کرو ۔ مذہبی ذہنیت کے نیک مزاج لوگوں میں ہمیشہ سے یہ میلان پایا جاتا رہا ہے کہ نفس و جسم کے حقوق ادا کرنے کو وہ روحانی ترقی میں مانع سمجھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا ، اپنے نفس کو دنیوی لذتوں سے محروم کرنا ، اور دنیا کے سامان زیست سے تعلق توڑنا ، بجائے خود ایک نیکی ہے اور خدا کا تقرب اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ صحابہ کرام میں بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کے اندر یہ ذہنیت پائی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ بعض صحابیوں نے عہد کیا ہے کہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھیں گے ، راتوں کو بستر پر نہ سوئیں گے بلکہ جاگ جاگ کر عبادت کرتے رہیں گے ، گوشت اور چکنائی استعمال نہ کریں گے ، عورتوں سے واسطہ نہ رکھیں گے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ” مجھے ایسی باتوں کا حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ تمہارے نفس کے بھی تم پر حقوق ہیں ۔ روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی ۔ راتوں کو قیام بھی کرو اور سوؤ بھی ۔ مجھے دیکھو ، میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں ۔ روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا ۔ گوشت بھی کھاتا ہوں اور گھی بھی ۔ پس جو میرے طریقے کو پسند نہیں کرتا وہ مجھ سے نہیں ہے“ ۔ پھر فرمایا” یہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اور اچھے کھانے کو اور خوشبو اور نیند اور دنیا کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے؟ میں نے تو تمہیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ تم راہب اور پادری بن جاؤ ۔ میرے دین میں نہ عورتوں اور گوشت سے اجتناب ہے اور نہ گوشہ گیری و عزلت نشینی ہے ۔ ضبط نفس کے لیے میرے ہاں روزہ ہے ، رہبانیت کے سارے فائدے یہاں جہاد سے حاصل ہوتے ہیں ۔ اللہ کی بندگی کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، حج و عمرہ کرو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو ۔ تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اس لیے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپر سختی کی ، اور جب انہوں نے خود اپنے اوپر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی ۔ یہ انہی کے بقایا ہیں جو تم کو صومعوں اور خانقاہوں میں نظر آتے ہیں“ ۔ اسی سلسلہ میں بعض روایات سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ ایک صحابی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ وہ ایک مدت سے اپنی بیوی کے پاس نہیں گئے ہیں اور شب و روز عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر ان کو حکم دیا کہ ابھی اپنی بیوی کے پاس جاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ توڑ دو اور جاؤ ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک خاتون نے شکایت پیش کی کہ میرے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر عبادت کرتے ہیں اور مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور تابعی بزرگ ، کعب رضی اللہ عنہ بن سَور الاَزْدِی کو ان کے مقدمہ کی سماعت کے لیے مقرر کیا ، اور انہوں نے فیصلہ دیا کہ اس خاتون کے شوہر کو تین راتوں کے لیے اختیار ہے کہ جتنی چاہیں عبادت کریں مگر چوتھی رات لازماً ان کی بیوی کا حق ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :105 ” حد سے تجاوز کرنا“ وسیع مفہوم کا حامل ہے ۔ حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھیرائی ہوئی پاک چیزوں سے اس طرح پرہیز کرنا کہ گویا کہ وہ ناپاک ہیں ، یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے ۔ پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف اور افراط بھی زیادتی ہے ۔ پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرام کے حدود میں داخل ہونا بھی زیادتی ہے ۔ اللہ کو یہ تینوں باتیں ناپسند ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

58: جس طرح حرام چیزوں کو حلال سمجھنا گناہ ہے، اسی طرح جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام سمجھنا بھی بڑا گناہ ہے، مشرکین مکہ اور یہودیوں نے ایسی بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا جس کی تفصیل ان شاء اللہ سورۂ انعام میں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(87 ۔ 88) ۔ ترمذی ابن ابی حاتم جریر ابن عساکر وغیرہ نے اس آیت کی شان نزول جو بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک صحابی نے آنحضرت سے بیان کیا کہ گوشت کے کھانے سے مجھ کو عورتوں کی صحبت کی خواہش زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس سبب سے میں نے گوشت نہ کھانے کی قسم کھالی ہے۔ بعض صحابہ نے اچھی چیز کا کھانا اچھے کپڑے کا پہننا۔ مباشرت کا کرنا ترک کردیا تھا۔ اور ایک صحابی تھے جن کے گھر میں ایک مہمان آئے ہوئے تھے ان صحابی کو آنحضرت کے پاس سے گھر جانے میں دیر ہوگئے۔ ان کی بی بی نے ان کے انتظار میں مہمان کو کھانا نہیں دیا۔ جب یہ گھر گئے ان کو مہمان کے بھوکا رکھنے سے اپنی بی بی پر غصہ آگیا۔ اس لئے انہوں نے اس روز کھانا کھانے کی قسم کھالی ان کی قسم کے سبب سے بی بی اور مہمان نے بھی قسم کھالی غرض اس طرح کے چند قصوں کے جمع ہوجانے سے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ اللہ کی راہ حلال کی ہوئی چیزوں کو غصہ میں آن کر یا غیر کا حق تلف کر کے اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے ہاں کسی چیز کے حلال ہونے کے اعتقاد رکھ کر سہولت عبادت یا کسی اور غرض سے چند روز کسی چیز کو چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بات ہے۔ اسی طرح کے قصے صحابہ کے سن کر آپ نے فرمایا ہے کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتے ہیں۔ میں تو نبی ہو کر روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور مباشرت بھی کرتا ہوں۔ اور جو کوئی میری سنت کے خلاف کرے گا۔ میں اس سے بیزار ہوں۔ یہ حدیث صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ہے ٢ ؎ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرع میں حلال حرام چیزوں کی جو حد ٹھیرادی ہے ہر ایماندار شخص کو اس حد کی پابندی ضروری ہے۔ کیونکہ اس حد سے باہر قدم رکھنے میں احکام الٰہی کی ایک طرح کی نافرمانی اور شیطان کے بہکاوے کی ایک طرح کی پاسداری ہے۔ جس سے ہر ایماندار کو بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے۔ صحیح مسلم کی عیاض بن حمار کی حدیث سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ جو چیزیں میں نے اپنے بندوں پر حلال کی تھیں شیطان کے بہکانے سے وہ انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلی ہیں ٣ ؎۔ یہ حدیث ان آیتوں کی گویا تفسیر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے طور پر شرعی حلال کو حرام یا حرام کو حلال ٹھہرانا شیطانی بہکاوے کے اثر سے ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 نقض عہود کے سلسلہ میں یہود و نصاری سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر تو جہ کی ہے یعنی کہ اوفو ابا لعقود کی تشریح جو اس سورة کا اساسی موضوع ہے (قرطبی۔ کبیر) رہبان نصاریٰ کی مدح کے بعد طیبات کی تحریم سے ممانعت یوں بھی انسب ہے کہ انہوں نے ان با توں کو نیکی میں داخل کررکھا تھا لہذا مومنین کو منع فرمادیا، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو چیز شروع میں صاف حلال ہو اس سے پرہیز کرنا برا ہے یہ دو طرح سے ہوتا ہے یاک زہد سے یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسند یدہ نہیں ہے اس کی بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے دوم یہ کہ کسی مباح کام کے نہ کرنے کی قسم کھالے یہ بھی بہتر نہیں ہے اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ ( از موضح) ایک مرتبہ چند صحابہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے دریافت کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھر میں ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں حضرت عائشہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معمولات بتائے ان میں سے وکئی کہنے لگا کہ میں کبھی گوشت نہیں کھاو گا کوئی کہنے لگا کہ عورتوں سے کوئی واسطہ نہ رکھو گا کوئی کہنے لگا کہ میں رات کو بستر پر نہ سووں گا یعنی ساری رات قیام کروں گا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کو کیا گیا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں حلان کہ میں یہ سب کام کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے بےرغبتی کا مظاہر کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (بخاری مسلم) اس سلسلہ میں میں اور بھی بہتر سی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کیس موقع پر نازل ہوئی ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 12 ۔ آیات 87 تا 93 ۔ اسرار و معارف : چونکہ نصاری میں رہبانیت کا ذکر چل رہا تھا اور یہ خیال بھی نہ کیا جائے کہ عیسائی مسلمانوں کے دوست ہیں ہاں یہ فرمایا گیا کہ یہودیوں میں بہت ہی کم لوگ اصلاح پذیر ہوئے اتنے کم کہ قوم کے مقابلے میں قابل ذکر تعداد نہیں ، لیکن عیسائیوں میں پھر ان کی نسبت زیادہ لوگ مشرف باسلام ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں تارک الدنیا قسم کے لوگ تھے جنہیں کوئی لالچ نہ تھا حق کو دیکھا اور قبول کرلیا تو وہ ان کا اپنا دین تھا بہرحال اچھا وہی جو اسلام قبول کرلے ورنہ کوئی خوبی ہے نہ اسلام دوستی۔ اس بات سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ رہبانیت یا لذیذ چیزوں کو چھوڑ دینا یا گھر بار ترک کردینا یا شادی نہ کرنا وغیرہ بھی قرب الہی کے لیے بڑے مددگار عوامل ہیں تو فرمایا ہرگز نہیں ! اسلام میں ایسی باتوں کی گنجائش ہے نہ ضرورت بلکہ جو چیز جس طرح سے اللہ نے حلال کردی ہے اس طرح سے حاصل کرکے اسے کھانا یا استعمال کرنا ہی اطاعت ہے اور اگر کوئی اپنی مرضی سے اس کے خلاف کرے گا تو وہ اللہ کی قائم کردہ حدود کو توڑنے کا مجرم گردانا جائے گا مثلا اچھاکھانا ترک کردے یا باوجود حیثیت کے اچھا لباس ترک کردے یا باوجود قدرت کے شادی نہ کرے کہ اس طرح زیادہ نیکی ملے گی نیکی تو کیا خاک ملتی ایسے گستاخ کو اللہ کریم کبھی پسند ہی نہیں فرماتے یعنی اپنی طرف سے نیکی اور بدی کی حدود مقرر کرنا گستاخی ہے نیز جو شے اللہ نے حلال کی ہے کھانے کی اجازت دی ہے اسے انسان کیسے حرام کرسکتا ہے۔ ہاں ! نیکی یہ ہے کہ خوب کھاؤ پیو مگر اللہ کے ک دئیے ہوئے رزق میں سے اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے مراد رزق حلال ہے کسی سے چھین کر نہیں کسی سے رشوت لے کر نہیں کسی کو دھوکہ دے کر نہیں بلکہ معروف طریقے سے ملازمت کرکے تجارت کرکے کاشتکاری یا مزدوری کرکے جو رزق اللہ نے دیا ہے وہ حلال بھی ہے اور اسے طیب یعنی پاک بھی رکھو ناپاک کی ملاوٹ نہ ہونے دو کہ حلال میں حرام ملا دو یا گھروں میں دین کی واقفیت کی شدید کمی کی وجہ سے خواتین ہی پاک پلید کے فرق کو نہ جانتی ہوں مثلاً کسی خاتون پر غسل واجب ہے مگر اسے طریقہ ہی معلوم نہیں تو ادا نہیں کرپائی اب ظاہر ہے وجود پاک نہ ہو تو ناپاک ہاتھ جس کھانے میں داخل ہوگا وہ بھی ناپاک ہوجائے گا یا مثلاً ایک چھوٹی سی شے ہے ناخن پہ لگانے والی پالش یہ ناخن کو اوپر سے ڈھانپ لیتی ہے اب وضو ہو یا غسل اسے صاف نہ کرو تو نیچے ناخن خشک رہے گا۔ اور دونوں ادا نہ ہوں گے نہ جسم پاک نہ ہاتھ ، رزق حلال بھی ہو جب یہ ہاتھ داخل ہوگا طیب نہ رہے گا۔ ایسے ہی کوئی ناجائز آمدن اس میں ملا دو پھر حلال نہ رہے گا لہذا رزق کو حلال رکھو اور پاکیزہ ، اور کھاؤ پیو۔ کہ تقوی اللہ کی اطاعت کا نام ہے بھوکا مرنے کا نہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مقام تقوی حاصل کیا جائے ایسا تعلق پیدا کیا جائے اللہ کریم سے کہ پھر اس کی نافرمانی کو جی نہ چاہے اور یہ اطاعت سے حاصل ہوسکتا ہے لہذا جس کام کی اللہ نے اجازت دی ہے حدود شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے ضرور کرو ، چھوڑنے کی حالتیں تین ہیں کسی حلال شرعی کو حرام جاننا یہ کفر ہے حلال شرعی پہ قسم کھا لینا کہ آئندہ نہیں کھاؤں گا یا استعمال نہیں کروں گا۔ ناجائز ہے قسم توڑ دے اور کفارہ دے تیسری قسم یہ ہے کہ بعض چیزیں حلال ہوتی ہیں مگر حکماء بعض لوگوں کو ان کی پرہیز بتاتے ہیں۔ یا بعض چیزیں روحانی طور پر بعض لوگوں کو نقصان دہ سمجھ کر مشائخ کچھ عرصہ کے لیے روک دیتے ہیں یہ شرعاً جائز اور درست ہے۔ رما معاملہ تمہاری قسموں کا۔ ان کے قائم رہنے اور نہ رہنے کا۔ تو ایک قسم تو ان کی بےہودہ اور فضول ہے جس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ مثلاً کسی کے منہ سے قسم کا لفظ نکل گیا یا گذشتہ واقعہ پر اپنے علم کے مطابق قسم کھالی مگر بعد میں ثابت ہوا کہ واقعہ درست نہ تھا دھوکہ ہوا۔ ایسی قسموں پہ نہ گناہ ہے نہ کفارہ۔ ایک قسم ہے گذشتہ واقعہ سے باخبر تھا مگر عمداً جھوٹ پر قسم کھائی اس پر بھی کھفارہ نہیں مگر یہ جھوٹ اور گناہ کبیرہ ہے۔ ایک قسم ہے جو تم آئندہ کے لیے کھالیتے ہو مگر پھر پوری نہیں کرسکتے اور توڑ دیتے ہو قسم کا توڑنا اس کی خلاف ورزی ہے وہ کسی طبعی سبب سے ہو یا خارجی سبب سے مگر جو کچھ وعدہ کیا تھا اس پہ پورا نہ اترا تو ایسی صورت میں کفارہ ادا کرنا ہوگا جس کی ایک صورت یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائیں دو وقت اوسطاً جیسا آپ کے گھر میں پکتا ہے۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو دس مساکین کو کپڑا پہنا دیں جس سے ان کا ستر ہوجائے ایک لمبا چوغا ہوجائے یا ایسا پاجامہ جو ناف تک ڈھانپ لے تو بھی کفارہ ادا ہوگیا اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو آپ کے پاس غلام یا لونڈی ہو تو اسے آزاد کردیں اگر یہ بھی میسر نہیں تو پھر تین دن روزے رکھیں اور حنفیوں کے نزدیک یہ روزے مسلسل ہونے چاہئیں تو یہ اس قسم کا کفارہ ہوجائے گا جو تم پوری نہ کرسکے یا جسے تم نے توڑ دیا اور اصل بات یہ ہے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو جس کی ایک صورت یہ ہے کہ بات بات پر قسم نہ کھاؤ اور خوب سوچ سمجھ کر قسم کھاؤ پھر جب کھا ہی چکے تو اسے پورا کرنے کی کوشش کرو یہ سب طریقے جو تمہیں تعلیم فرمائے جاتے ہیں ادائے شکر کے مختلف انداز ہیں اور اللہ کریم چاہتے ہیں کہ تم ان کے شکر گذار بندے بن جاؤ۔ اور اب بات کا دوسرا پہلو بھی زیر بحث آجائے کہ جس طرح جھوٹی قسم گناہ کبیرہ ہے یا قسم کو توڑنا گناہ ہے اور کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے ایسے ہی معاشرے میں کچھ خرابیاں بھی روز مرہ کا معمول بنی ہوئی ہیں حالانکہ وہ اپنے نقصان کے اعتبار سے بہت خطرناک اور تباہ کن ہیں جیسے شراب کہ معمولی بات سمجھی جاتی ہے ایسا مشروب جو حواس مختل کردے اور ہوش جاتا رہے یا جواء یا پانسے کے تیر ، یہ لاٹری تھی اس دور کی جس کے انداز یہ تھے کہ کچھ لوگ مل کر اونٹ خریدتے ذبح کرتے پھر جتنے آدمی ہوتے اتنے تیر لیکر جو اس مقصد کے لیے رکھے ہوتے تھے ان میں سے کسی پر دو حصے کسی پر زیادہ اور بعض خالی چھوڑ دیتے پھر ایک تیر نکالتے اور ایک ایک آدمی کے نام پر نکالتے جس کا خالی نکلتا وہ خالی رہتا اور کسی کو زیادہ مل جاتا یہی موجودہ لاٹری کی صورت تھی اس میں ایک صورت قرعہ اندازی کی ہے وہ درست ہے ایک چیز کے دو حصہ دار ہیں برابر حصہ کردیا اب کونسا ٹکڑا کس کو ملے قرعہ ڈال لو یا حج کی سیٹیں کم ہیں حق کسی کا بھی دوسرے سے زیادہ نہیں سب ایک جیسے شہری حقوق رکھتے ہیں طلب کرنے والے زیادہ ہیں۔ تو قرعہ ڈال لو اس میں کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا یعنی شراب ، جواء بت پرستی اور تیروں وغیرہ یہ ایسے قبیح افعال اور گندے کام ہیں کہ کچھ انسانیت باقی ہو تو خود انسان برداشت نہیں کرتا اور اسے گھن آتی ہے۔ انسان کہ اشرف المخلوات ہے اللہ نے کائنات اس کے لیے مسخر کردی ہے اور سورج چاند ستارے تک اس کی خدمت پہ لگے ہیں موسم ہوا زمین نباتات جمادات حیوانات سب اس کی خدمت پہ مقرر کردئیے اب یہ کسی جانور کو یا سورج کو یا آگ کو یا پتھر کو پوجنا شروع کردے تو کتنی الٹی بات ہے کہ مقصد تخلیق ہی کے خلاف اور عظمت تخلیق بھی تباہ تو جس طرح بت پرستی قابل نفرت ہے نشہ اس سے زیادہ قابل نفرت ہے کہ شعور سے بیگانہ ہو کر آدمی جانور بھی نہیں رہ جاتا اس کی سطح سے بھی گرجاتا ہے اور یہی حال جوئے اور لاٹری سے یعنی ناجائز اور حرام ذریعوں سے دوسروں کا مال کھانے سے ہوتا ہے اور یہ سب افعال نہ صرف گندے کام ہیں بلکہ یہ شیطان کے کام ہیں اور اے مسلمانو ! تمہیں خصوصاً ان سے دور رہنا چاہئے۔ تاکہ تم دائمی کامیابی حاصل کرسکو کیونکہ شیاطین کی کوشش تو یہی ہے کہ وہ تمہارے درمیان دشمنی اور دلوں میں بغض پیدا کردے جو شراب اور جوئے کے ذریعے وہ باآسانی کرسکتا ہے کہ ہوش شراب نے کھو دی اور مال جوئے میں چلا گیا اول تو اسی جگہ لڑائی ہوگی ورنہ دلی بغض لے کر اٹھے گا۔ اور کبھی نہ کبھی بات لرائی تک پہنچے گی اور یہ لڑائیاں اور دشمنیاں تھیں اللہ کے ذکر سے روکیں گی۔ شراب پی کر ہوش نہ ہوگی تو ذکر کیا خاک کرے گا جوا کھیلے گا مال ہارے گا لاٹری ڈالے گا مال ہارے گا دل میں بغض کی آگ بھڑک رہی ہوگی ذکر الہی کیا خاک کرسکے گا اور ذکر چھوٹا تو نماز گئی جب نماز بھی گئی تو اب عقائد کی باری ہے غرض اس طرح انسان قدم بقدم تباہی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا۔ تو کیا یہ سب کچھ جان لینے کے بعد اب تم رک جاؤگے۔ اور واقعی صحابہ کرام نے جو کتاب الہی کے مخاطب اول بھی تھے اور جن کی گھٹی میں یہ چیزیں رچی بسی ہوئی تھیں انہیں چھوڑ کر اور ترک کرکے دکھا دیا کہ محبوب پہ نچھاور ہونا کسے کہتے ہیں۔ دین کیا ہے ؟ اور دین یہ ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت کرے وہ اس طرح کہ جس طرح اللہ کا رسول تعلیم فرمائے اور پھر اس کی بےنیازی سے ڈرتا رہے کہ اس کا دربار عالی ہے اور ہمارا طاعات بھی اس قابل نہیں کہ کسی شمار قطار میں ہوں لیکن اگر کسی نے یہ راہ چھوڑ دی تو وہ یہ بھی خوب سمجھ لے کہ اس کے ایسا کرنے سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا نہ اس کی عظمت میں کوئی فرق آئے گا اور نہ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نقصان ہوگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے بغیر کسی لگی لپٹی کے بغیر کسی غلط فہمی کے اور بس۔ منوانا آپ کا کام اور فریضہ نہیں ہے یہ سننے والے کا کام ہے کہ وہ قبول کرتا ہے کہ نہیں۔ اور اللہ کریم کا کام ہے کہ مخلوق سے خود حساب لے گا اور ایمان لانے سے قبل یا ایمان لانے سے پہلے حرام کا حکم نازلہونے سے قبل اگر کوئی مسلمان وہ چیز جو اب منع کردی گئی ہے کھاتا تھا یا شراب پیتا تھا۔ مگر اب حرام ہوگئی تو نہیں پیتا تو حکم آنے سے پہلے کے کام پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے آدمی ایمان لاتا ہے اور نیکی اختیار کرتا ہے۔ تو اسے تقوی یعنی اللہ کریم کے ساتھ ایک قسم کا تعلق نصیب ہوتا ہے پھر اس کیفیت میں مزید ترقی کرتا چلا جاتا ہے تو درجہ احسان پا لیتا ہے ، تقوی یہ تھا کہ ایک کیفیت تھی جس کی وجہ سے اللہ کریم کی نافرمانی کرنا محال تھا اور ہمہ وقت اطاعت پہ کمر بستہ رہنے کو جی چاہتا تھا پھر اسی اطاعت میں مسلس ترقی میں درجہ احسان پر پہنچا دیا یعنی اب کیفیت یہ ہے جیسے اللہ کو روبرو دیکھ کر کام کر رہے ہوں یا عبادت کر رہے ہوں بلکہ یہی درجہ احسان ہر کام کو عبادت بنا دیتا ہے جیسا صحابہ کے بارے میں ارشاد ہے۔ تراھم رکعا سجدا۔ کہ اے مخابط ! تو انہیں مسلسل رکوع سجود میں پائے گا حالانکہ انہوں نے سیاست و سپاہ گری سے لے کر تجارت و کاشتکاری تک دنیا کا ہر کام کیا تو پھر یہ ہر آن رکوع سجود سے کیا مراد ہوگی یہی کیفیت احسان کہ ہر کام کے کرنے میں وہ خلوص تھا کہ اللہ کو روبرو پاتے تھے۔ چناچہ ان کا ہر کام عبادت کا درجہ حاصل کرگیا اور یہ نعمت صحبت نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کا صدقہ تھا۔ اس لیے یہ فیض صحبت کہ لایا اور یہ کیفیات سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئیں۔ یہ شیخ کا کام ہے کہ طالب کو حضور تک پہنچائے اور پھر یہ اللہ کا کام ہے کہ ایسے لوگوں کو وہ اپنا محبوب بنا لیتا ہے پھر اللہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات نمبر 87 تا 89 لغات القرآن : اکتبنا (تو ہمیں لکھ لے) ۔ الشھدین (گواہی دینے والے) ۔ نطمع (ہم امید رکھتے ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں) ان یدخل (یہ کہ داخل کرے گا) ۔ الصالحین (صالح) ۔ نیک لوگ) ۔ اثاب (اثانۃ) ۔ اس نے بدلہ دیا) ۔ لاتحرموا (حرام نہ کرو) ۔ طیبت (پاکیزہ چیزیں ۔ (حلال چیزیں) ۔ احل (اس نے حلال کردیا) ۔ لاتعتدوا (تم حد سے آگے نہ بڑھو) ۔ لایحب (وہ پسند نہیں کرتا) ۔ المعتدین (حد سے بڑھ جانے والے) ۔ لایؤاخذ (وہ نہیں پکڑے گا) ۔ اللغو (لغو۔ بیکار) ۔ عقدتم (تم نے مضبوط باندھا) ۔ اطعام (کھلانا) ۔ عشرۃ مسکین (دس غریب۔ دس مسکین) ۔ اوسط (درمیانہ درجہ) ۔ تطعمون (تم کھلاتے ہو) ۔ اھلیکم (اپنے گھر والے) ۔ کسوۃ (کپڑا پہنانا) ۔ تحریر (آزاد کرنا) ۔ رقبۃ (گردن۔ غلام) لم یجد (وہ نہیں پاتا ہے) ۔ ثلثۃ ایام (تین دن) ۔ حلفتم (تم نے قسم کھائی) ۔ احفظوا (تم حفاظت کرو۔ نگرانی کرو) ۔ ایمانکم (اپنی قسموں کی) ۔ تشریح : پچھلی آیات میں رہبانیت اور ترک دنیا کرنے والوں کا کچھ ذکر آگیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کی طبعیتیں اس طرف مائل ہوجائیں ۔ ان آیات میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ قسم کھا کر حلال چیزوں کو اپنے لئے حرام نہ ٹھہرا لو اور خبردار شرعی حدود سے آگے نہ بڑھو۔ حلال کو حرام ٹھہرا لینا تقویٰ نہیں ہے۔ تقویٰ اللہ سے ڈرنے کا نام ہے۔ حلال رزق کو چھوڑ دینا کفران نعمت ہے۔ بےشعوی یا نیم شعوری میں اگر کوئی فضول اور بیکار قسمیں کھا بیٹھتا ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ویسے قسم کھانا اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن جو قسمیں پورے شعور میں رہتے ہوئے ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے کھالی جائیں تو ان کو پورا کرنا چاہئے۔ اگر وہ قسم حلال کو حرام کرنے کی ہے تو فوراً توڑ دینا چاہئے مگر کفارہ دینا ضروری ہے۔ دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا صبح و شام دو وقت کھلا دینا۔ یادس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا پہنانا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ اگر یہ سب نہ ہو سکے تو تین دن تک مسلسل روزے رکھنا۔ عرب میں ان دنوں لوگ خواہ مخواہ قسمیں کھایا کرتے تھے ۔ حلال بیوی کو حرام ٹھہرا لینا معمولی بات تھی۔ اس لئے حکم دیا گیا کہ اس قسم کی قسمیں کفارہ دے کر توڑ دینی چاہئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ فضول قسموں کی عادت آہستہ آہستہ ختم ہوگئی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ خواہ از قسم مطعومات ہوں یا ملبوسات یا منکوحات کی قسم سے ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٥٣ تشریح آیات : ٨٧۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ١٠٨۔ (آیت) ” نمبر ٨٧ تا ٨٩۔ ” اے ایمان لانے والو ! تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم انسان اور اللہ کے غلام ہوتے ہوئے ‘ اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کے حقوق پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہ کرو ‘ اس لئے تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کاموں اور اشیاء کو حرام قرار دو ‘ خصوصا پاکیزہ چیزوں کو۔ اس لئے تم پاک چیزوں کے کھانے اور پینے سے اس طرح نہ رکو کہ تم ان کو اپنے لئے حرام قرار دے لو ۔ اس لئے کہ اللہ نے یہ پاک چیزیں تمہارے لئے ہی تو پیدا کی ہیں اور پھر یہ کہ حلال و حرام کے حدود کا تعین کرنے والا تو اللہ ہی ہے ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (87) وَکُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ حَلاَلاً طَیِّباً وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیَ أَنتُم بِہِ مُؤْمِنُونَ (88) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو اور حد سے تجاوز نہ کرو ‘ اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں ۔ جو کچھ حلال وطیب رزق اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیو اور اس اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو ۔ A ” حقیقت یہ ہے کہ قانون سازی کے مسئلے کا تعلق خاص مسئلہ حاکمیت اور الوہیت کے ساتھ ہے ۔ قانون سازی کا حق اللہ کی حاکمیت کے ساتھ مخصوص اس لئے ہے کہ اللہ ہی انسانوں کا مالک اور خالق ہے اور وہی ہے جو انسانوں کو رزق فراہم کرتا ہے ۔ اس لئے یہ حق صرف اللہ کا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے لئے ‘ اپنے پیدا کردہ رزق میں سے بعض چیزوں کو حلال کر دے اور بعض کو حرام کر دے ۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کو انسانوں کی عقل بڑی آسانی سے مان لیتی ہے ۔ انسانوں کے نزدیک بھی کسی چیز کا مالک ہی یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی ممو کہ چیز میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور جو شخص بھی کسی کے حق ملکیت پر دست درازی کرتا ہے تو اسے ظلم و زیادتی کا مرتکب تصور کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ ایمان لا چکے ‘ ظاہر ہے کہ ان سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حقوق پر دست درازی کریں گے اس لئے کہ اللہ پر ایمان اور پھر اللہ سے بغاوت دونوں ایک دل میں کس طرح جمع ہو سکتے ہیں ۔ یہ ہے وہ مسئلہ جسے یہ دو آیات ایسے واضح اسلوب میں پیش کرتی ہیں کوئی معقول شخص اس بارے میں کوئی مباحثہ اور مجادلہ نہیں کرسکتا اس لئے کہ اللہ دست درازی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ مسئلہ ایک عام قاعدے اور اصول کو طے کرتا ہے کہ تمام لوگ اللہ کے بندے اور غلام ہیں اور اس مسئلے کے مطابق اپنا طرز عمل ڈھالنا تقاضائے ایمان ہے ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ دو آیات اور ان سے آگلی آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئیں ۔ یہ واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں پیش آیا لیکن آیت عام ہے اور اسباب نزول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اسباب نزول کے ذریعے فہم قرآن میں اچھی مدد ملتی ہے ۔ ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے ۔ آپ نے لوگوں کو یاد دہانی کی ۔ آپ اٹھ کر چلے گئے اور آپ نے اس دن انہیں بہت نہ ڈرایا ۔ آپ کے جو ساتھی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم لوگ کچھ باتیں اور اعمال اپنی طرف سے کیوں نہ شروع کردیں ‘ نصاری نے تو ایسا کیا کہ بعض چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا ‘ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے اوپر بعض چیزیں حرام کرلیں ۔ بعض نے کہا کہ وہ گوشت اور سرین نہ کھائے گا ۔ بعض نے کہا کہ وہ دن کو نہ کھائے گا ۔ بعض نے اپنے اوپر عورتیں حرام کرلیں ‘ یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی ۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ بھی عجیب ہیں کوئی اپنے اوپر عورتوں کو حرام کرتا ہے کوئی کھانا حرام کرتا ہے کوئی نیند حرام کرتا ہے ۔ خبردار میں تو سوتا بھی ہوں کھڑا بھی ہوتا ہوں ‘ روزے بھی رکھتا ہوں ‘ کھاتا بھی ہوں ‘ عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کرتا ہوں ‘ پس جو شخص میری اس سنت سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہ ہوگا “۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ ) صحیحین میں حضرت انس (رض) سے ایک روایت منقول ہے وہ بھی ابن جریر کی روایت کی موید ہے ۔ انس (رض) فرماتے ہیں کہ تین افراد ازواج مطہرات کے گھر آئے ‘ انہوں نے حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے بارے میں پوچھا ۔ جب ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادات کے بارے میں معلومات دی گئیں تو گویا انہوں نے ان عبادات کو کم سمجھا ۔ انہوں نے کہا ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رتبے تک کب پہنچ سکتے ہیں ؟ اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سابقہ اور آیندہ تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے ۔ ایک نے کہا میں تو تمام رات نماز پڑھوں گا ‘ دوسرے نے کہا کہ میں تو ہمیشہ کے لئے روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں تو کبھی بھی عورتوں کے پاس نہ جاؤں گا اور نہ نکاح کروں گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب علم ہوا تو آپ ان کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ ہو جنہوں نے یہ یہ باتیں کیں ۔ خدا کی قسم میں تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ان میں عورتوں کے ساتھ نکاح بھی کرتا ہوں ۔ لہذا جو میری سنت سے ہٹا وہ مجھ سے نہ ہوگا ۔ “ ترمذی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص حضور کے پاس آیا اور کہا حضور میں جب گوشت کھاتا ہوں تو مجھ پر شہوت غالب آجاتی ہے اور میں عورتوں کے لئے اٹھتا ہوں اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ ) اب رہی وہ آیت جس میں قسموں کا ذکر ہے اور جو ان دو آیات کے بعد آتی ہے تو وہ بھی ایسے ہی حالات میں ہدایت دیتی ہیں ۔ (آیت) ” لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَـکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (89) تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ‘ ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا ‘ مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو اس پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا ۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو ‘ یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو ‘ اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو ‘ وہ تین دن کے روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا کر توڑ دو ۔ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ، اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لئے واضح کرتا ہے شاید کہ تم شکر ادا کرو ۔ “ یہ آیت ایسے حالات کے لئے ہے کہ کوئی مباح چیزوں کے استعمال کرنے کے خلاف حلف اٹھالے مثلا جن تین افراد نے قسم اٹھالی تھی کہ وہ یہ یہ کام نہیں کریں گے ‘ اور انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کو جاری رکھنے سے منع کردیا تھا ۔ اور قرآن نے ان کو اس بات سے روک دیا تھا کہ وہ اپنے لئے حلال و حرام خود مقرر نہیں کرسکتے ۔ یہ ان کا کام نہیں ہے ۔ یہ تو اس اللہ کا کام ہے جس پر وہ ایمان لائے ہیں ۔ اس طرح یہ ان تمام صورتوں کے لئے ہدایت ہے جن میں کوئی کسی اچھے کام سے بذریعہ حلف اپنے آپ کو روک لیتا ہے ۔ اس لئے کہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کے نہ کرنے کی قسم اٹھاتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ نیک کام جاری رکھے اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرے جس کی تفصیلات اس آیت میں دی گئی ہیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اپنے اوپر بعض کھانے ‘ بعض لباس اور عورتوں کے ساتھ نکاح حرام کرلیا تھا ‘ انہوں نے اس پر حلف بھی اٹھایا تھا ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اللہ کی پاک چیزیں اپنے اوپر حرام نہ کرو “ تو انہوں نے پوچھا کہ ہماری قسموں کا کیا بنے گا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر لغو قسموں کے بارے میں کوئی مواخذہ نہیں کرتا ۔ یعنی محض زبان پر لفظ قسم جاری ہوجائے لیکن دل سے پختہ ارادہ قسم نہ ہو ‘ البتہ اللہ تعالیٰ جانب سے حکم یہ ہے کہ خواہ مخواہ ہر بات پر اللہ کی قسم نہ اٹھائی جائے ‘ اس لئے کہ اللہ کی قسم کا کچھ تو احترام ہونا چاہئے ۔ اللہ کی قسم کا وقار ہونا چاہئے اس لئے لغو قسم بھی بار بار اٹھانا ناپسندیدہ ہے ۔ رہی وہ سچی قسم جو قصدا ہوتی ہے اور اس کے پیچھے پختہ ارادہ ہوتا ہے ٗ کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا تو وہ لغو کی طرف معاف نہیں ہے ۔ اس پر کفارہ واجب ہے اور یہ آیت اسی کو بیان کرتی ہے ۔ ” سچی قسموں کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلاؤ یا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ تین دن روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ۔ اگر تم قسم کھا کر توڑ دو ۔ “ دس مسکینوں کے لئے اوسط درجے کا کھانا ایسا ہوگا کہ قسم اٹھانے والا جس کھانا اپنے اہل و عیال کو دیتا ہے ۔ اوسط کا مفہوم احسن بھی ہو سکتا ہے اور متوسط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ لفظ اوسط احسن اور متوسط دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اوسط سے دونوں مفہوم مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ اسلام کے پیمانے میں اوسط ہی احسن ہوتا ہے ۔ (آیت) ” (اوکسوتھم) سے مراد یہی ہے کہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کی پوشاک پہنائی جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے اور یہاں اس بات کی تصریح نہیں کی گئی کہ غلام کو مومن ہونا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہوا ہے ۔ ہم تو فی ظلال القرآن میں فقہی اختلافات کا ذکر نہیں کرتے ۔ اگر استطاعت نہ ہو تو پھر تین روزے رکھے ۔ یہ اس صورت میں ہوں گے کہ دوسرے بیان کردہ کفارات میں سے کسی کی ادائیگی ممکن نہ ہو ۔ اس طرح یہ تین روزے مسلسل ہوں گے یا مسلسل نہ ہوں گے ‘ اس بارے میں بھی فقہی اختلافات ہوئے ہیں اس لئے کہ یہاں متتابعات کی تصریح نہیں ہے ۔ فی ظلال القرآن میں ہمارے طریقہ کار میں فقہی تفصیلات میں جانا ممکن نہیں ہے ۔ اگر کسی کو شوق ہو تو کتب فقہ میں تلاش کرے ۔ تمام فقہی اختلافات اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کفارہ اس لئے عائد کیا گیا ہے کہ حالف نے پختہ عقد کو توڑا ہے ۔ دوسرے یہ کہ قسموں کا ہلکا نہ سمجھا جائے اس لئے کہ قسمیں بھی دراصل ایک عہد ہوتی ہیں اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ عقد اور عہد کو پورا کیا جائے ۔ اور اگر صورت یہ ہو کہ کوئی قسم اٹھا لے اور جس بات سے اس نے قسم اٹھائی ہے وہ اچھا کام ہے تو اس پر فرض ہے کہ قسم توڑے اور اچھے کام کو جاری رکھے ۔ اور اگر اس نے ایسی قسم اٹھالی ہے جس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے مثلا حلال کرنا یا حرام کرنا تو اس پر فرض ہے کہ وہ قسم توڑ دے اور کفارہ ادا کرے ۔ اب ہم اس اصل موضوع کی طرف آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ آیات نازل ہوئی ہیں ۔ ان آیات کے اسباب نزول کے زاوے سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے تو وہ طیب ہیں اور جن چیزوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے تو جان لو کہ وہ خبیث اور ناپاک ہیں ۔ انسان کو یہ حق نہین ہے کہ وہ اپنے لئے وہ کچھ اختیار کرے جو اللہ نے اس کے لئے اختیار نہیں کیا ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ حرام و حلال کے قیود مقرر کرنا اللہ کے خصوصی حقوق میں سے ہے ‘ جو رازق ہے ۔ جب رازق وہ ہے تو اس رزق میں تحریم وتحلیل بھی اسی کا کام ہے ۔ اگر کوئی اللہ کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتا تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس طرح ایمان درست ہوسکتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ نے طیبات کو حلال قرار دیا ہے لہذا کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر پاکیزہ چیزوں کو حرام کرلے اس لئے کہ وہ چیزیں اس شخص کے لئے بھی مفید ہیں اور اس کرہ ارض پر زندگی کے تسلسل کے لئے بھی مفید ہیں ۔ انسان کی سوچ وبصیرت وہاں تک نہیں پہنچ سکتی جہاں تک علیم وخبیر کی بصیرت کی رسائی ہے جس نے ان طیبات کو حلال قرار دیا ہے ۔ اگر ان طیبات میں کوئی خرابی ہوتی تو اللہ اس سے اپنے بندوں کو ضرور بچاتا ۔ اگر ان کے حرام کردینے میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کو حلال ہی نہ کرتا ۔ یہ دین تو آیا ہی اس لئے ہے کہ خیر ‘ بھلائی اور بہتری کو روبکار لائے اور انسانیت کی تمام قوتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور توازن قائم کرے ۔ اسلام انسانی فطرت کی ضروریات میں سے کسی ضرورت سے غافل نہیں ہے اور نہ اس نے انسان کی تعمیری قوتوں میں سے کسی قوت کو مہمل چھوڑا ہے ۔ اسلام نے وسط کو اختیار کیا ہے اور جادہ مستقیم پر رواں دواں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کے ساتھ جنگ کی ‘ اس لئے کہ رہبانیت کا مقصد فطرت کشی تھا ۔ اس سے زندگی کی نشوونمارک رہی تھی حالانکہ اللہ کی اسکیم یہ تھی کہ کرہ ارض پر زندگی کو نشوونما حاصل ہو ‘ اور طیبات کو حرام کرنے سے اسلام نے اس لئے منع کیا کہ طیبات موجب ترقی حیات ہیں جن سے اس دنیا میں زندگی کی تجدید ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اللہ نے اس زندگی کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ تسلسل سے رہے اور اللہ کے نظام حیات کے مطابق اس کی تجدید ہوتی رہے ۔ رہبانیت جو طیبات کو حرام قرار دیتی ہے وہ اسلامی نظام حیات کی اسکیم کے ساتھ متصادم ہے ۔ رہبانیت انسانیت کو ایک متعین مقام پر روک دیتی ہے اور یہ رکاوٹ وہ بلندی اور علو مرتبت کے نام سے پیدا کرتی ہے حالانکہ بلندی اور علو شان نظام حیات کے اندر داخل ہیں جو ایک ایسا نظام ہے جس کے اندر دواعی فطرت پوری طرح موجود ہیں اور یہ علم الہی کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ کسی آیت کے نزول کے مخصوص واقعات اس آیت کو ان حالات کے اندر محدود نہیں کردیتے ۔ آیت بہرحال عام رہتی ہے اور آیت کی یہ عمومیت بتاتی ہے کہ قانون سازی کے اندر بھی حلال و حرام کے حدود وقیود مقرر کرنا اللہ ہی کا کام ہے اور یہ بات صرف کھانے اور پینے تک محدود نہیں ہے یا نکاح تک محدود نہیں ہے ۔ زندگی کے تمام امور میں یہ حق اللہ کو حاصل ہے ‘ شریعت کو حاصل ہے ۔ ہم اس مفہوم پر بار بار زور اس لئے دے رہے ہیں کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے کہ لوگوں نے اسلام کو زندگی کے عملی دھارے سے نکال دیا ہے ‘ حالانکہ اسلام کی شان یہ ہے کہ وہ پوری زندگی پر حکمران ہو ۔ حلال و حرام کے الفاظ اور ان کے پر تو کو محدود کردیا گیا ہے اور اب اس کے وہ معنی نہیں لئے جاتے جو قرآن کو مطلوب تھے ۔ لوگوں کے ذہنوں میں اب حلال و حرام کا مفہوم صرف ذبیحوں کا مفہوم صرف ذبیحوں ‘ کھانے ‘ پینے کی چیزوں ‘ لباسوں اور نکاح کے اندر محدود ہوگیا ہے ۔ لوگ عموما حلال و حرام کے متعلق صرف انہی باتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کیا حلال ہے ‘ اور کیا حرام ہے ؟ رہے وہ عمومی اور بڑے بڑے معاملات تو انکے بارے فتوی وہ جدید دساتیر اور جدید قوانین سے پوچھتے ہیں جو انہوں نے شریعت کی جگہ جاری کردیئے ہیں ۔ غرض تمام اجتماعی معاملات میں ‘ تمام سیاسی نظاموں کے بارے میں ‘ تمام بین الاقوامی معاملات میں اور اللہ کے حق حاکمیت اور الوہیت کے بارے میں اب لوگ اسلام سے فتوی طلب نہیں کرتے ۔ یاد رہے کہ اسلام ایک مکمل منہاج حیات ہے جو شخص پورے پورے اسلام کا اتباع کرے گا وہی اللہ کے دین میں ہوگا اور جو شخص کسی ایک بھی معاملے میں شریعت کو چھوڑ کو کسی دوسرے قانون کی اطاعت کرے گا تو وہ دین سے خارج ہوجائے گا ۔ چاہے وہ ہزار بار اسلامی عقیدے کا اظہار کرے اور یہ اعلان کرے کہ وہ مسلمان ہے ‘ اس لئے کہ اس کے اعلان اسلام کو اس کا یہ عمل جھٹلا دیتا ہے ۔ جب وہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر کسی اور قانون کا اتباع کرتا ہے اور اس طرح وہ دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے وہ اصول اعظم جس کا تعین یہ آیات کرتی ہیں ‘ اسے ایمان کا مسئلہ قرار دیتی ہیں ‘ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو اسے اللہ کے حقوق پر دست درازی قرار دیتی ہیں ‘ اور یہی ہے ان آیات کا مفہوم و مدعا ۔ یہی مفہوم اس دین کی سنجیدگی اور قرآن کریم کی سنجیدگی کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اسی کے مطابق الوہیت کا مفہوم اور معنی حقیقی روپ اختیار کرتا ہے ۔ اسی سلسلہ قانون سازی میں جوے اور شراب کے بارے میں آخری اور قطعی حکم آجاتا ہے تاکہ جماعت مسلمہ کی تربیت اور اسے جاہلیت کی تمام آلودگیوں سے پاک کردیا جائے ‘ اسے جاہلیت کی گندی اجتماعی عادات سے پاک کردیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہی آستانوں اور پانسوں کو بھی حرام قرار دے دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ یہ بھی شرکیہ افعال ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حلال کھاؤ اور پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار نہ دو اور حد سے آگے نہ بڑھو ان آیات میں اللہ جل شانہ ‘ نے اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ نے جو چیزیں حلال قرار دی ہیں تم ان کو حرام قرار نہ دو ۔ حلال کو حرام قرار دینے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عقیدۃً حلال کو حرام قرار دیدیا جائے۔ اگر کوئی شخص حلال قطعی کو حرام قرار دے گا تو ملت اسلامیہ سے نکل جائے گا۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ عقیدۃً تو کسی حلال کو حرام قرار نہ دے لیکن حلال کے ساتھ معاملہ ایسا کرے جو حرام کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی بغیر کسی عذر کے خواہ مخواہ کسی حلال چیز سے اجتناب کرے۔ یہ بھی ممنوع ہے۔ اور تیسری صورت یہ کہ قسم کھا کر یا نذر مان کر کسی حلال چیز کو حرام قرار دیدے مثلاً یوں کہے کہ اللہ کی قسم فلاں چیز نہ کھاؤں گا یوں کہے کہ فلاں چیز میں اپنے اوپر حرام کرتا ہوں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہوا ہے دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ حاضرین نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ کھڑا ہی رہے گا، بیٹھے گا نہیں، اور سایہ میں نہ جائے گا اور یہ کہ بولے گا نہیں، اور روزہ دار رہے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ بات کرے، اور سایہ میں جائے اور بیٹھ جائے۔ اور روزہ پورا کرے۔ (رواہ البخاری ج ٢ ص ٩٩١) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ گناہ کی نذر ماننا درست نہیں اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ (رواہ ابوداؤد ج ٢ ص ١١١) بعض لوگ نذر یا قسم کے ذریعہ تو کسی حلال کو حرام نہیں کرتے لیکن راہبوں کے طریقے پر حلال چیزوں کے چھوڑنے کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کو ثواب سمجھتے ہیں۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے اور اس میں ثواب سمجھنا بدعت ہے اگر کسی کو کوئی چیز مضر ہے اور وہ ضرر کی وجہ سے حلال سمجھتے ہوئے اس سے پرہیز کرے تو یہ جائز ہے۔ دوسرا حکم یہ فرمایا کہ حدود سے آگے نہ بڑھو اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے۔ حد سے بڑھنے کی ممانعت سورة بقرہ میں بھی مذکور ہے جو گزر چکی ہے۔ اور سورة طلاق میں ارشاد فرمایا (وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ) (اور جو اللہ کی حدود سے آگے بڑھ جائے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا) اللہ تعالیٰ کی حدود سے آھے بڑھنے کی کئی صورتیں ہیں جن کی کچھ تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے۔ حدود سے بڑھ جانے کی مثالیں حدود سے بڑھنے کی بہت سی صورتیں ہیں ان میں سے چند ذکر کی جاتی ہیں۔ حلال کو حرام کر لینا (١) اللہ نے جس چیز کو حلال کیا ہے اس کو اپنے اوپر حرام کرلینا جیسے کچھ لوگ بعض پھلوں کے متعلق طے کرلیتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کھائیں گے یا اور کسی طرح سے حرام کرلیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ شہد پینے کے متعلق فرما دیا تھا کہ اب ہرگز نہیں پیوں گا۔ اس کے متعلق اللہ جل شانہ نے آیت نازل فرمائی (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ) (اے نبی ! تم اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہوئے جسے اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے) ۔ ایسی بہت رسمیں آج لوگوں میں موجود ہیں جن میں عملاً بلکہ اعتقاداً بھی بہت سی حلال چیزوں کو حرام سمجھ رکھا ہے۔ مثلاً ذی قعدہ کے مہینہ (جسے عورتیں خالی کا مہینہ کہتی ہیں) اور محرم و صفر میں شریعت میں شادی کرنا خوب حلال اور درست ہے۔ لیکن اللہ کی اس حد سے لوگ آگے نکلتے ہیں اور ان مہینوں میں شادی کرنے سے بچتے ہیں۔ بہت سی قوموں میں بیوہ عورت کے نکاح ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں اور اسے حرام کے قریب بنا رکھا ہے یہ بھی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ جس طرح حلال کو حرام کرلینا منع ہے اس طرح حرام کو حلال کرلینا منع ہے حرام و حلال مقرر فرمانے کا اختیار اللہ ہی کو ہے۔ سورة نحل میں ارشاد ہے (وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ) (اور جن چیزوں کے بارے میں تمہارے زبانی جھوٹا دعویٰ ہے ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے) ۔ اسی ممانعت میں اللہ کی رخصتوں سے بچنا بھی داخل ہے مثلاً سفر شرعی میں قصر نماز کرنا مشروع ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ جو چیز ثواب کی نہ ہو اسے باعث ثواب سمجھ لینا (٢) حدود سے آگے بڑھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو چیز اللہ کے یہاں تقرب اور نزدیکی کی نہ ہو اسے تقریب کا باعث سمجھ لینا مثلاً بولنے کا روزہ رکھ لینا یا دھوپ میں کھڑا رہنا وغیرہ وغیرہ۔ غیر ضروری کو ضروری کا درجہ دیدینا (٣) ایک طریقہ حد سے آگے بڑھنے کا یہ ہے کہ جو چیز شریعت میں ضروری نہیں ہے اسے فرض کا درجہ دیدیں اور جو اسے نہ کرے اس پر لعن طعن کریں مثلاً شب برات کا حلوہ اور عید الفطر کی سویاں کہ شرعاً ان دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ نہ ان کا کوئی ثبوت ہے مگر لوگ اسے ضروری سمجھتے ہیں اور جو نہ پکاوے اس کو نکو بننا پڑتا ہے جب شرعاً ان کی کوئی اصل نہیں تو ان کا اہتمام کرنا سراپا بدعت ہے۔ مطلق مستحب کو وقت کے ساتھ مقید کر لینا (٤) ایک طریقہ حد سے آگے بڑھنے کا یہ ہے کہ عمومی چیز کو کسی خاص وقت کے ساتھ مخصوص کرلینا مثلاً نماز فجر اور نماز عصر کے بعد امام سے مصافحہ کرنا اور اسے واجب کا درجہ دینا۔ بعض علاقوں میں دیکھا گیا ہے کہ موذن اذان شروع کرنے سے پہلے درود شریف پڑھتا ہے، درود شریف بڑی فضیلت کی چیز ہے مگر ان کو کسی ایسے وقت کے ساتھ مخصوص کرنا جس کے متعلق شریعت میں خصوصیت نہیں ہے حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ حدیث شریف میں اذان کے بعد درود شریف پڑھنا اور پھر اس کے بعد دعا (اللھم رب ھذۃ الدعوۃ) پڑھنا آیا ہے۔ کسی عمل کا ثواب خود تجویز کر لینا (٥) حد سے آگے بڑھ جانے کی ایک شکل یہ ہے کہ کسی عمل کی وہ فضیلت تجویز کرلی جائے جو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں جیسے دعا گنج العرش اور عہد نامہ اور درود لکھی کی فضیلت گھڑ رکھی ہے۔ کسی عمل کی ترکیب خود وضع کرلینا (٦) ایک صورت سے حد سے آگے بڑھ جانے کی یہ ہے کہ کسی عمل کی کوئی خاص ترکیب و ترتیب تجویز کرلی جائے مثلاً مختلف رکعات میں مختلف سورتیں پڑھنا تجویز کرلینا (جو حدیث سے ثابت نہ ہو) پھر اس کا التزام کرنا یا سورتوں کی تعداد مقرر کرلینا (جیسے تہجد کی نماز کے متعلق مشہور ہے کہ پہلی رکعت میں ١٢ مرتبہ قل ہو اللہ پڑھی جائے) اور پھر ہر رکعت میں ایک ایک مرتبہ گھٹاتا جائے یہ لوگوں نے خود تجویز کرلیا ہے مہینوں اور دنوں کی نمازیں اور ان کی خاص خاص فضیلتیں اور ان کی مخصوص تر کیبیں لوگوں نے بنائی ہیں یہ بھی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ کسی ثواب کے کام کے لئے جگہ کی پابندی لگا لینا (٧) کسی ثواب کے کام کو کسی خاص جگہ کے ساتھ مخصوص کرلینا (جس کی تخصیص شریعت سے ثابت نہ ہو) یہ بھی حد سے بڑھ جانا ہے۔ جیسے بعض جگہ دستور ہے کہ قبر پر غلہ یا روٹی تقسیم کرتے ہیں یا قبر پر قرآن پڑھواتے ہیں ثواب ہر جگہ پہنچ سکتا ہے پھر اس میں اپنی طرف سے قبر پر ہونے کو طے کرلینا حدود اللہ سے آگے بڑھنا ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں طے کرلینا کہ فلاں نہ کھائے گا (٨) ایک صورت حد سے آگے بڑھ جانے کی یہ ہے کہ بعض کھانے کی چیزوں کے متعلق اپنی طرف سے تجویز کرلیا جائے کہ فلاں شخص کھا سکتا ہے اور فلاں نہیں کھا سکتا جیسے مشرکین مکہ کیا کرتے تھے، سورة انعام میں ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا (وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ھٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَا وَ اِنْ یَّکُنْ مَّیْتَۃً فَھُمْ فِیْہِ شُرَکَآءُ سَیَجْزِیْھِمْ وَصْفَھُمْ اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ) اور وہ (یہ بھی) کہتے ہیں کہ یہ جو ان مویشی کے پیٹ میں ہے خالص ہمارے مردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر وہ مردہ ہے تو اس میں وہ سب (مرد عورت) ساجھی ہیں۔ اللہ ان کو عنقریب غلط بیانی کی سزا دے گا بلاشبہ وہ حکمت والا ہے علم والا ہے) ۔ اسی قسم کی شکلیں آجکل فاتحہ و نیاز والے لوگوں نے بنا رکھی ہیں۔ مثلاً حضرت فاطمہ زہراء (رض) کے ایصال ثواب کے لئے بی بی جی کی صحنک کے نام سے کچھ رسم کی جاتی ہے اس رسم میں جو کھانا پکتا ہے اس میں یہ قاعدہ بنا رکھا ہے کہ اس کھانے کو مرد اور لڑکے نہیں کھا سکتے صرف لڑکیاں کھائیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرض کر رکھا ہے کہ اس کھانے کے لئے کورے برتن ہوں، جگہ لیپی ہوئی ہو۔ یہ سب خرافات اپنی ایجادات ہیں۔ کسی گناہ پر مخصوص عذاب خود سے تجویز کرلینا (٩) ایک صورت حد سے آگے بڑھ جانے کی یہ ہے کہ اپنی طرف سے کسی گناہ کا مخصوص عذاب تجویز کرلیا جائے جیسا کہ بہت سے واعظ بیان کرتے پھرتے ہیں۔ (١٠) یہ صورت بھی حد سے بڑھ جانے کی ہے کہ کسی چیز کے متعلق یہ طے کرلیا جائے کہ اس کا حساب نہ ہوگا حالانکہ حدیث میں اس کا ثبوت نہ ہو جیسے مشہور ہے کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو نیا کپڑا یا نیا جوتا پہن لیاجائے تو وہ بےحساب ہوجاتا ہے اسی لئے بعض لوگ بہت سے جوڑے اس روز پہن لیتے ہیں۔ یہ سب غلط اور لغو ہے (تلک عشرہ کاملۃ) یہ چند صورتیں حد سے آگے بڑھ جانے کی لکھ دی گئی ہیں غور کرنے سے اور بھی نکل سکتی ہیں اللہ کی حدود سے آگے بڑھنا زبردست جرم ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے۔ (تَلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا) (یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے نزدیک بھی مت ہونا) (بقرہ) اور فرمایا (تَلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظَّلِمُوْنَ ) یہ اللہ کی حدود ہیں سو ان سے آگے مت نکلنا اور جو اللہ کی حدود سے باہر نکل جائے سو ایسے ہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں (بقرہ) اور فرمایا (وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ) (نساء) (اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری نہ کرے اور اس کی حدود سے آگے بڑھ جائے اللہ اس کو آگ میں داخل فرمائیگا جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اس کے لئے ذلیل کرنے والی سزا ہے) ۔ تیسرا حکم یہ فرمایا کہ جو کچھ حلال وطیب اللہ نے تم کو عطا فرمایا اس میں کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا حلال اور پاکیزہ چیزوں کا کھانا دینداری کے خلاف نہیں ہے ہاں ! پرہیزگاری اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کی جائے، اگر کوئی چیز فی نفسہ حلال و پاکیزہ ہو لیکن دوسرے کی ملکیت ہو تو جب تک اس سے حلال پیسوں کے ذریعہ خریدنہ لے یا وہ بطور ہبہ نہ دیدے یا نفس کی خوشی سے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیدے اس وقت تک اس کا کھانا، استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا آخر میں تقویٰ کا حکم دیا اور فرمایا (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ ) (اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو) اس کے عموم میں ایسی سب صورتیں ہوگئیں جن میں ظلم کر کے یا حقیقت تلف کر کے یا خیانت کر کے کوئی چیز کھالی جائے یا استعمال کرلی جائے۔ نیز اس سے تمام اشیاء محرمہ سے بچنے کی تاکید بھی ہوگئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

147 دوسرا حصہ۔ دوسرا جزء۔ نفی شرک فعلی۔ یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا دوسرا جزء شروع ہوتا ہے۔ جس میں لف و نشر غیر مرتب کے طور پر مسئلہ نفی شرک فعلی کا اعادہ کیا گیا ہے۔ شرک فعلی کے سلسلے میں چار چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ 1 ۔ اول تحریمات غیر اللہ یا تحریمات عباد یا تحریمات مشرکین۔ 2 ۔ غیر اللہ کی نذریں۔ 3 ۔ تحریمات اللہ اور۔ 4 ۔ اللہ کی نذریں۔ اور 4 کا حکم یہ ہے کہ وہ حلال ہیں انہیں کھانا چاہئے اور 2 اور 3 کا حکم یہ ہے کہ وہ حرام ہیں انہیں نہیں کھانا چاہئے۔ اس آیت میں تحریمات غیر اللہ کا ابطال فرمایا۔ مشرکین نے اپنے معبودوں کی رضا جوئی کے لیے محض اپنی طرف بعض حلال اور پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ مثلا بحیرہ سائبہ وغیرہ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ بحالت شرک جن حلال چیزوں کو تم نے حرام کر رکھا تھا ان کو حلال جانو اور ان کو کھاؤ اور تحریمات اٹھاؤ طََیِّبٰتِ مَا اَحَلَّ الخ میں اضافت بیانی ہے اور مطلب یہ ہے کہ پاکیزہ چیزوں کو یعنی ان چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں حرام مت ٹھہراؤ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ حد سے مت گذرو۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام مت کرو۔ ای لا تحرموا ما احل اللہ و شرع (قرطبی ج 6 ص 263) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان میں سے لذیذ اور مرغوب طبع چیزوں کو اپنے لئے حرام نہ کرلیا کرو اور مقررہ حدود سے آگے نہ بڑھو بلاشبہ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان میں سے جو چیزیں حلال اور طبیعت کو مرغوب ہوں ان کو کھائو اور جس اللہ تعالیٰ پر تم ایمان رکھتے ہو اس سے تم ڈرتے رہو۔ (88)