Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 89

سورة المائدة

لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا عَقَّدۡتُّمُ الۡاَیۡمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗۤ اِطۡعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیۡنَ مِنۡ اَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُوۡنَ اَہۡلِیۡکُمۡ اَوۡ کِسۡوَتُہُمۡ اَوۡ تَحۡرِیۡرُ رَقَبَۃٍ ؕ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ؕ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیۡمَانِکُمۡ اِذَا حَلَفۡتُمۡ ؕ وَ احۡفَظُوۡۤا اَیۡمَانَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۸۹﴾

Allah will not impose blame upon you for what is meaningless in your oaths, but He will impose blame upon you for [breaking] what you intended of oaths. So its expiation is the feeding of ten needy people from the average of that which you feed your [own] families or clothing them or the freeing of a slave. But whoever cannot find [or afford it] - then a fast of three days [is required]. That is the expiation for oaths when you have sworn. But guard your oaths. Thus does Allah make clear to you His verses that you may be grateful.

اللہ تعالٰی تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کر نا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالٰی تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Unintentional Oaths Allah says; لااَ يُوَاخِذُكُمُ اللّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ ... Allah will not punish you for what is unintentional in your oaths, We mentioned the subject of unintentional oaths in Surah Al-Baqarah, all praise and thanks are due to Allah, and so we do not need to repeat it here. We also mentioned that the Laghw in oaths refers to one's saying, "No by Allah," or, "Yes, by Allah," unintentionally. Expiation for Breaking the Oaths Allah said, ... وَلَـكِن يُوَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الاَيْمَانَ ... but He will punish you for your deliberate oaths. in reference to the oaths that you intend in your hearts, ... فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ ... for its expiation (a deliberate oath) feed ten poor, who are needy, not able to find necessities of the life. Allah's statement, ... مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ ... on a scale of the Awsat of that with which you feed your own families; According to Ibn Abbas, Sa`id bin Jubayr and Ikrimah, means, "On the average scale of what you feed your families." Ata Al-Khurasani commented on the Ayah, "From the best of what you feed your families." Allah's statement, ... أَوْ كِسْوَتُهُمْ ... or clothe them, refers to clothing each of the ten persons with what is suitable to pray in, whether the poor person was male or female. Allah knows best. Al-Awfi said that Ibn Abbas said that; the Ayah means a robe or garment for each poor person (of the ten). Mujahid also said that; the least of clothing, referred to in the Ayah, is a garment, and the most is whatever you wish. Al-Hasan, Abu Jafar Al-Baqir, Ata, Tawus, Ibrahim An-Nakhai, Hammad bin Abi Sulayman and Abu Malik said that; it means (giving each of the ten poor persons) a garment each. Allah's statement, ... أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ... or free a slave, refers to freeing a believing slave. In the Muwatta of Malik, the Musnad of Ash-Shafii and the Sahih of Muslim, a lengthy Hadith was recorded that; Umar bin Al-Hakam As-Sulami said that he once had to free a slave (as atonement) and he brought a black slave girl before the Messenger of Allah, who asked her; أَيْنَ اللهُ Where is Allah? She said, "Above the heavens." He said, مَنْ أَنَا Who am I? She said, "The Messenger of Allah." He said, أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُوْمِنَة Free her, for she is a believer. There are three types of expiation for breaking deliberate oaths, and whichever one chooses, it will suffice, according to the consensus (of the scholars). Allah mentioned the easiest, then the more difficult options, since feeding is easier than giving away clothes, and giving away clothes is easier than freeing a slave. If one is unable to fulfill any of these options, then he fasts for three days for expiation, just as Allah said, ... فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ ... But whosoever cannot afford (that), then he should fast for three days. Ubayy bin Ka`b and Ibn Mas`ud and his students read this Ayah as follows, "Then he should fast three consecutive days." Even if this statement was not narrated to us as a part of the Qur'an through Mutawatir narration, it would still be an explanation of the Qur'an by the Companions that has the ruling of being related from the Prophet. Allah's statement, ... ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ... That is the expiation for the oaths when you have sworn. means, this is the legal way to atone for deliberate oaths, ... وَاحْفَظُواْ أَيْمَانَكُمْ ... And protect your oaths. Do not leave your broken oaths without paying the expiation for them, according to the meaning given by Ibn Jarir. ... كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ ايَاتِهِ ... Thus Allah makes clear to you His Ayat, and explains them to you, ... لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ that you may be grateful.

غیر ارادی قسمیں اور کفارہ لعو قسمیں کیا ہوتی ہیں؟ ان کے کیا احکام ہیں؟ یہ سب سورۃ بقرہ کی تفسیر میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں اس لئے یہاں ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد اللہ ۔ مقصد یہ ہے کہ روانی کلام میں انسان کے منہ سے بغیر قصد کے جو قسمیں عادۃ نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں ۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے ، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا ، اللہ کی نافرمانی کے کرنے پر قسم کھا بیٹھنا ، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے ۔ غصے اور عضب میں ، نسیان اور بھول چوک سے کھانے پینے پہننے اوڑھنے کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے ، اس قوم کی دلیل میں آیت ( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:87 ) کو پیش کیا جاتا ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ لغو قسموں سے مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں اور اس کی دلیل ( ولکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان ہے یعنی جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے اور ان پر کفارہ ہے ۔ کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے پاس بقدر کفایت کے نہ ہو اوسط درجے کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں کھلا دینا ۔ مثلاً دودھ روٹی ، گھی روٹی ، زیتون کا تیل روٹی ، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے ہیں تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو ، تکلف بھی نہ ہو اور بجل بھی نہ ہو ، سختی اور فراخی کے درمیان ہو ، مثلاً گوشت روٹی ہے ، سرکہ اور روٹی ہے ، روٹی اور کھجوریں ہیں ۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت ، اسی طرح قلت اور کثرت کے درمیان ہو ۔ حضرت علی سے منقول ہے کہ صبح شام کا کھانا ، حسن اور محمد بن خفیہ کا قول ہے کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے یا اپنی حیثیت کے مطابق روٹی کسی اور چیز سے کھلا دینا ، بعض نے کہا ہے ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے دینا ، امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دے دے ۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ حضور صی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوروں کا کفارے میں ایک ایک شخص کو دیا ہے اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دے دے ، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے جس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے ۔ در قطنی نے اسے متروک کہا ہے اس کا نام عمر بن عبداللہ ہے ، ابن عباس کا قول ہے کہ ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے دے دے ، امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں لیکن سالن کا ذکر نہیں ہے اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رمضان شریف کے دن میں اپنی بیوی سے جماع کرنے والے کو ایک کمتل ( خاص پیمانہ ) میں سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا نے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اس میں پندرہ صاع آتے ہیں تو ہر مسکین کے لئے ایک مد ہوا ۔ ابن مدویہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کے کفارے میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے گو اس سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے واللہ اعلم ، پھر ان کے استاد عمری بھی ضعیف ہیں ، امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے دو مد دے ۔ واللہ اعلم ( یہ یاد رہے کہ صاع انگریزی اسی روپے بھر کے سیر کے حساب سے تقریباً پونے تین سیر کا ہوتا ہے اور ایک صاع کے چار مد ہو تے ہیں واللہ اعلم ، مترجم ) یا ان دس کو کپڑا پہنانا ، امام شافعی کا قول ہے کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دے دے جس پر کپڑے کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے ، مثلاً کرتہ ہے ، پاجامہ ہے ، تہمد ہے ، پگڑی ہے یا سر پر لپیٹنے کا رومال ہے ۔ پھر امام صاحب کے شاگردوں میں سے بعض تو کہتے ہیں ٹوپی بھی کافی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ ناکافی ہے ، کافی کہنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین سے جب اس کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتے ہیں اگر کوئی وفد کسی امیر کے پاس آئے اور وہ انہیں ٹوپیاں دے تو عرب تو یہی کہیں گے کہ قد کسوا انہیں کپڑے پہنائے گئے ۔ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں واللہ اعلم ۔ موزے پہنانے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ جائز نہیں ۔ امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ کم سے کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے مرد کو دیا ہے تو اس کی اور عورت کو دیا ہے تو اس کی ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے ہیں عباہو یا شملہ ہو ۔ مجاہد فرماتے ہیں ۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے زیادہ جو ہو ۔ غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے جانگئے کے جائز ہے ۔ بہت سے مفسرین فرماتے ہیں ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دے دے ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ ابن سیرن اور حسن دو دو کپڑے کہتے ہیں ، سعید بن مسیب کہتے ہیں عمامہ جسے سر پر باندھے اور عبا جسے بدن پر پہنے ۔ حضرت ابو موسیٰ قسم کھاتے ہیں پھر اسے توڑتے ہیں تو دو کپڑے بحرین کے دے دیتے ہیں ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ہر مسکین کیلئے ایک عبا ، یہ حدیث عریب ہے ، یا ایک غلام کا آزاد کرنا ، امام ابو حنیفہ تو فرماتے ہیں کہ یہ مطلق ہے کافر ہو یا مسلمان ، امام شافعی اور دوسرے بزرگان دین فرماتے ہیں اس کا مومن ہونا ضروری ہے کیونکہ قتل کے کفارے میں غلام کی آزادی کا حکم ہے اور وہ مقید ہے کہ وہ مسلمان ہونا چاہے ، دونوں کفاروں کا سبب چاہے جدا گانہ ہے لیکن وجہ ایک ہی ہے اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو مسلم وغیرہ میں ہے کہ حضرت معاویہ بں حکم اسلمی کے ذمے ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ ایک لونڈی لئے ہوئے آئے ۔ حضور نے اس سیاہ فام لونڈی سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں پوچھا ہم کون ہیں؟ جواب دیا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے ۔ پس ان تینوں کاموں میں سے جو بھی کر لے وہ قسم کا کفارہ ہو جائے گا اور کافی ہو گا اس پر سب کا اجماع ہے ۔ قرآن کریم نے ان چیزوں کا بیان سب سے زیادہ آسان چیز سے شروع کیا ہے اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے ۔ پس سب سے سہل کھانا کھلانا ہے ۔ پھر اس سے قدرے بھاری کپڑا پہنانا ہے اور اس سے بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے ۔ پس اس میں ادنی سے اعلی بہتر ہے ۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھ لے ۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری سے مروی ہے کہ جس کے پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے ورنہ روزے رکھ لے اور بعض متاخرین سے منقول ہے کہ یہ اس کے لئے ہے جس کے پاس ضروریات سے فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے بعد جو فالتو ہو اس سے کفارہ ادا کرے ، امام ابن جرید فرماتے ہیں جس کے پاس اس دن کے اپنے اور اپنے بال بچوں کے کھانے سے کچھ بچے اس میں سے کفارہ ادا کرے ، قسم کے توڑنے کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے واجب ہیں یا مستحب ہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ واجب نہیں ، امام شافعی نے باب الایمان میں اسے صاف لفظوں میں کہا ہے امام مالک کا قول بھی یہی ہے کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے تو خواہ پے در پے ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے جیسے کہ رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں آیت ( فعدۃ من ایام اخر ) فرمایا گیا ہے وہاں بھی پے در پے کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں اور حضرت امام شافعی نے کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے کہا ہے کہ قسم کے کفارے کے روزے پے در پے رکھنے چاہیئں یہی قول خفیہ اور حنابلہ کا ہے ۔ اس لئے کہ حضرت ابی بن کعب وغیرہ سے مروی ہے کہ ان کی قرأت آیت ( فصیام ثلثتہ ایام متتابعات ) ہے ابن مسعود سے بھی یہی قرأت مروی ہے ، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرأت ہونا ثابت نہ ہو ۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ سے کم درجے کی تو یہ قرأت نہیں پس حکماً یہ بھی مرفوع ہے ۔ ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے کہ حضرت حذیفہ نے پوچھا یا رسول اللہ ہمیں اختیار ہے آپ نے فرمایا ہاں ، تو اختیار پر ہے خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے خواہ کھانا کھلا دے اور جو نہ پائے وہ پے در پے تین روزے رکھ لے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے لیکن تمہیں اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیے انہیں بغیر کفارے کے نہ چھوڑنا چاہیے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 قَسَمٌ جس کو عربی میں حَلْفٌ یا یَمِیْنٌ کہتے ہیں جن کی جمع اَحْلَافٌ اور ایمان ہے۔ تین قسم کی ہیں۔ 1۔ لَغْوٌ 2۔ غَمُوْسٌ، 3۔ مُعَقَّدَۃٌ . لَغْوٌ: وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتًا بغیر ارادے اور نیت کے کھاتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں . غَمُوْسٌ: وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کفارہ نہیں . مُعَقَّدَۃٌ: وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے اراداۃً نیۃً کھائے، ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ 89۔ 2 اس کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں اس لئے اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے، جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے، ایک مد (تقریبًا 0 1 چھٹانک) فی مسکین خوراک قرار دی ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو کفارہ جماع ادا کرنے کے لئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں، جنہیں ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کرنا تھا، ایک صاع میں 4 من ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لئے دس مد (یعنی سوا سیر یا چھ کلو) خوراک کفارہ ہوگی۔ (ابن کثیر) 89۔ 3 لباس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بظاہر مراد جوڑا ہے جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔ بعض علماء خوراک اور لباس دونوں کے لئے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں (حاشیہ ابن کثیر، تحت آیت زیر بحث ) 89۔ 4 بعض علماء قتل خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی، غلام کے لئے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں، آیت میں عموم ہے مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ 89۔ 5 یعنی جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے، یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء پے درپے روزے رکھنے کے قائل ہیں۔ اور بعض کے نزدیک دونوں طرح جائز ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٢] قسموں کے مسائل سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ (رض) (رض) فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تکیہ کلام کے طور پر (نیت سے نہیں) کہہ دیتا ہے جیسے لا واللہ۔ بلی واللہ۔ نیز آپ فرماتی ہیں کہ میرے والد (سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کبھی قسم نہیں توڑتے تھے یہاں تک کہ اللہ نے کفارہ کی آیت نازل فرمائی اس وقت وہ کہنے لگے && میں جب قسم کھا لوں پھر اس کے خلاف کو اچھا سمجھوں تو اللہ کی رخصت منظور کر کے وہ کام کرلیتا ہوں جسے اچھا سمجھتا ہوں۔ && (بخاری کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا && اگر کسی نے قسم کھانا ہو تو اللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے && (بخاری کتاب الایمان والنذور۔ مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب النھی عن الحلف بغیر اللہ تعالیٰ ) ٣۔ آپ نے فرمایا && جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ && (ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور باب۔ فی کراھیۃ الحلف بالابائ) ٤۔ آپ نے فرمایا && نہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ، نہ ماؤں کی اور نہ شریکوں کی اور اللہ کی قسم بھی اس وقت کھاؤ جب تم سچے ہو۔ && (ابو داؤد۔ کتاب الایمان والنذور باب۔ فی کراھیہ الحلف بالاباء نسائی۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الحلف بالامہات) ٥۔ آپ نے فرمایا && کبیرہ گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کو ستانا، کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ && (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الیمین الغموس ( وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَيْمَانَكُمْ 94؀) 16 ۔ النحل :94) ٦۔ آپ نے فرمایا && جو شخص کسی کام کے کرنے کی قسم کھائے پھر انشاء اللہ کہے تو اس پر (قسم توڑنے کا) کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ && (ترمذی۔ ابو اب النذور والایمان۔ باب فی الاستثناء فی الیمین) ٧۔ سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں : کہ && نبی اکرم نے قسم دینے والے کی قسم کو پورا کرنے کا حکم دیا && (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور باب واقسموا باللہ جھد ایمانھم) ٨۔ آپ نے فرمایا && قسم میں قسم دلانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔ && (مسلم۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الیمین علی نیۃ المستحلف) ٩۔ آپ نے فرمایا && اگر تم کسی کام کے کرنے کی قسم کھالو، پھر کسی اور کام میں بہتری سمجھو تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور وہ کام کرو جو بہتر ہے۔ && (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ (لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ باللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ ٢٢٥۔ ) 2 ۔ البقرة :225) مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب ندب من حلف یمینا) [١٣٢۔ الف ] قسموں کی قسمیں :۔ کلام عرب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب میں بات بات پر قسمیں کھانے کا عام رواج تھا۔ اور ان میں سے زیادہ تر قسمیں یا تو محض تکیہ کلام کے طور پر ہوا کرتی تھیں یا پھر کلام میں حسن پیدا کرنے کے لئے۔ ایسی ہی قسموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے لغو کا لفظ استعمال فرمایا ہے جن کا کوئی کفارہ نہیں۔ رہیں وہ قسمیں جو دل کے ارادہ سے اٹھائی جائیں تو ان کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جو کسی درست بات پر اٹھائی جائیں اور اگر ان کا تعلق مستقبل سے ہو تو انہیں قسم کے مطابق پورا بھی کردیا جائے۔ ایسی قسموں پر کفارہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری وہ قسم جس کا تعلق مستقبل سے ہو اور جس کام پر قسم اٹھائی گئی وہ ممنوع تو نہ تھا مگر اس کام پر قسم نہ اٹھانا ہی بہتر تھا۔ جیسے ایک دفعہ خود رسول اللہ نے آئندہ شہد نہ پینے پر قسم اٹھا لی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر تنبیہ فرمائی (التحریم آیت : ١) یا کسی صحابی نے ایک مرغی کو غلاظت میں چونچ مارتے دیکھ لیا تو آئندہ مرغی نہ کھانے پر قسم اٹھائی تھی۔ ایسی قسموں کو بھی توڑ کر ان کا کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں سے حدیث نمبر ١۔ اور حدیث نمبر ٩ سے واضح ہے۔ خ قسمیں اور ان کا کفارہ۔ کفارے میں قدر مشترک۔ غلام کی آزادی :۔ کفارہ کا لغوی معنی وہ نیکی کا کا کم کرنا ہے جو کسی پہلے سے کئے ہوئے برے کام کا عوض بن کر اس کو ڈھانپ دے یا ختم کردے۔ قرآن کریم اور احادیث میں بہت سے ایسے گناہوں کا ذکر آیا ہے جن کے کفارے بیان گئے ہیں۔ مثلا قتل خطا کا کفارہ & ظہار کا کفارہ & احرام کی حالت میں شکار کرنے کا کفارہ & فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ & قسم توڑنے کا کفارہ اور کسی کو رخمی کرنے کا کفارہ وغیرہ ان میں سے اکثر کفاروں میں قدر مشترک & غلام کو آزاد کرنا ہے۔ جیسا کہ قسم توڑنے کے کفارے میں بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے غلامی کا رواج ایک مذموم چیز تھی جسے آہستہ آہستہ ختم کردیا گیا۔ آج الحمدللہ غلامی کا رواج نہیں رہا۔ لہذا قسم کے کفارہ کی باقی تین متبادل صورتیں رہ گئی ہیں۔ ایک دس مسکینوں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق درمیانہ درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو پوشاک مہیا کرنا یا تین روزے رکھنا۔ اب یہ ضروری نہیں کہ دس مسکینوں کو بلا کر انہیں اکٹھا بٹھا کر کھانا ہی کھلایا جائے بلکہ اس کی قیمت لگا کر یہ رقم دس مسکینوں کو یا کسی ایک کو یا دو تین مسکینوں کو بھی دی جاسکتی ہے۔ یہی صورت حال پوشاک کی بھی ہے۔ اور روزوں کے متعلق بظاہر اس آیت میں کوئی پابندی نہیں کہ وہ اکٹھے ہی ایک ساتھ تین دن رکھے جائیں۔ اس میں گنجائش موجود ہے کہ یہ روزے الگ الگ دنوں میں بھی رکھے جاسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الْاَيْمَانَ ۚ ” یہ ” یَمِیْنٌ“ کی جمع ہے، بمعنی قسم۔ اس مقام پر یہ دوسرا حکم ہے کہ اگر کوئی طیبات ( پاکیزہ چیزیں) چھوڑنے کی قسم کھالے تو اس کا کیا حکم ہے۔ قسم کی تین قسمیں ہیں : 1 یمین لغو، جو بےساختہ عادت کے طور پر زبان سے یوں ہی نکل جاتی ہے، جیسے ” لَاوَاللّٰہِ وَبَلٰی وَاللّٰہِ “ ( نہیں ! اللہ کی قسم، یا کیوں نہیں ! اللہ کی قسم) ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے نہ سزا۔ 2 یمین غموص، یعنی جھوٹی قسم، جو انسان نیت اور ارادہ کے ساتھ دھوکا و فریب دینے کے لیے جھوٹ بول کر قسم اٹھائے کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں ہوا، حالانکہ اس کی قسم واقعہ کے خلاف ہو۔ یہ کبیرہ گناہ ہے، اس کا کوئی کفارہ نہیں، اس کا علاج یہی ہے کہ سچے دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرے، کیونکہ اس نے بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ 3 منعقد ہونے والی قسم، یعنی ارادے اور نیت کے ساتھ قسم کھائے کہ میں ایسا کروں گا یا نہیں کروں گا، پھر اگر وہ قسم پوری نہ کرسکے تو اس آیت میں اس کا کفارہ بیان ہوا ہے۔ جو یہ ہے کہ تین کاموں میں سے جو چاہے اختیار کرلے، یعنی دس مسکینوں کو اوسط (درمیانے) درجے کا کھانا کھلانا، یا انھیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا، اگر ان تینوں ہی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔ بعض اہل علم نے اوسط کا معنی افضل لکھا ہے، لغت میں یہ معنی بھی موجود ہے، فرمایا : (جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا) [ البقرۃ : ١٤٣] اور آیت : ( جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا) [ البقرۃ : ٢٣٨] یہ تین روزے خواہ پے درپے رکھے یا الگ الگ، دونوں طرح درست ہے۔ حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى ۤ: یعنی قسم توڑنے سے پرہیز کرو، لیکن اگر اسے توڑ دو تو اس کا کفارہ ادا کرو۔ ہاں، اگر وہ قسم کوئی ناجائز کام کرنے کی ہے تو وہ ہرگز پوری نہ کرو بلکہ توڑ دو ، اس کا کفارہ ہے یا نہیں، اہل علم کا اس میں اختلاف ہے، بہتر ہے کہ ادا کر دو اور اگر یہ قسم کسی جائز کام کے چھوڑنے کی ہے تو اسے توڑ کر کفارہ ادا کر دو ۔ عبدالرحمان بن سمرہ (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ اور اس کے علاوہ دوسرے کام کو بہتر سمجھو تو بہتر کام کرلو اور قسم کا کفارہ ادا کر دو ۔ “ [ بخاری، الأیمان والنذور، باب قول اللہ تعالیٰ : (لا یؤاخذکم اللہ۔۔ ) : ٦٦٢٢ ] اگر کسی نے کوئی نذر مانی ہو اور اسے پورا نہ کرسکے تو اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا ہے۔ [ مسلم، النذر، باب فی کفارۃ النذر : ١٦٤٥، عن کعب بن عجرۃ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence of Verses Mentioned earlier was the taking of Halal things as unlawful. Since statements to this effect are sometimes sworn, therefore, the in-junction about taking of oaths follows in the present verse. Commentary Three Forms of Oaths and their Injunctions 1. Some forms in which oaths are taken have been described in this verse. Some have appeared in Surah al-Baqarah as well (Ma` ariful-Qur’ ا an, Volume I, Verse 2:225, pages 562-563). The gist of all these is that false swearing about a past event knowingly is, in the terminology of Mus¬lim jurists, Yamin Ghamus (disastrous oath) - for instance, if a person has done something, and he knows that he has done it, and then he knowingly swears that he has not done it. This is false swearing, a grave major sin the curse of which falls in the present life and in the life-to-come. But, there is no Kaffarah (expiation) necessary for it. Taubah (repentance) and Istighfar (seeking forgiveness from Allah) are, however, necessary. That is the reason why the Muslim jurists call it the disastrous oath. Ghamus literally means that which drowns. This kind of oath drowns man into sin and its curse, a disaster for one&s present and future life. 2. The second form is that someone declares on oath that a past event was true, as based on his knowledge, while it was actually false - for example, he learnt from someone that a certain person has come and trusting him, he declared on oath that the person has come, then, he came to know that this was contrary to what had actually hap¬pened. This is called Yamin Laghw لَغو (ineffectual oath), that which is not counted. Similarly, if a word denoting oath, such as ` by& or ` I swear,& comes to be said unintentionally, that too is known to be what is ` ineffectual oath.& It brings neither Kaffarah (expiation) nor sin. 3. The third form of oath is that one declares on oath that he would or would not do something in the future. This is known as al-Yamin al-Mun&aqidah (Binding oath). The rule which governs it is that, in the event the oath is broken, Kaffarah (expiation) becomes necessary - and under some situations, it brings sin as well, while in some others, it does not. At this place in the present verse of the Qur&an, ` Laghw& (ineffectual, not counted) obviously means the oath which brings no Kaffarah (expiation) - whether a sin, or not; because it has been men¬tioned in contrast with : عَقَّدتُمُ الاَیمَانَ (the oaths you have bound yourselves with). This tells us that the accountability (Mu&akhadhah) mentioned here is only the accountability in the present world which comes in the form of Kaffarah (expiation). Then, in Surah al-Baqarah, it is said: لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ (And Allah does not hold you accountable for what is not countable from among your oaths, but holds you accountable for what your hearts have designed - 2:225). Here, ` Laghw& (what is not countable) means an oath which slips out from one&s tongue without intention or volition, or an oath one takes about something assuming it to be true while it turns out to be false actually. Then, mentioned in contrast, is the other oath in which an intentional lie has been told. This is known as Yamin Ghamus explained earlier. Therefore, as for Yamin Laghw, it brings no sin, according to this verse - instead, what brings sin is Yamin Ghamus where the lie is intentional. Thus, the sin mentioned in the verse from Surah al-Baqarah refers to the sin one shall incur in the Hereafter for disobeying the Divine injunction. And in the present verse of Surah al-Ma&idah, the injunction concerns present life of the world, where Kaffarah (expiation) is required. The outcome is that Allah does not hold you accountable for what is not countable in your oaths, that is, does not make it obligatory for you to make amends for them by paying Kaffarah (expiation). Instead, Kaffarah is made necessary against the particular oath which has been accomplished about doing or not doing something in the future - and then, it has been broken. After that, the details of how Kaffarah has to be given is described in the following words كَفَّارَ‌تُهُ إِطْعَامُ عَشَرَ‌ةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِ‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ (89). Three options have been given here which one may choose at one&s discretion: (a) feed ten poor persons two average meals, or (b) clothe ten poor persons (sufficient to give them proper cover, such as, a garment for the lower body and another for the upper), or (c) free a slave (if in possession). Said immediately after is: فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ (And whoever finds none shall fast for three days). It means if some breaker of such an oath does not have the ability to bear the cost of this financial expiation (Kaffarah) that is, one who does not have the means to feed ten poor persons, or clothe them, or free a slave, then, his or her Kaffarah is to fast for three days. In some narrations, for the fasts mentioned at this place in the text, the command is said to be that of ‘three consecutive days.’ Therefore, according to Imam Abu Hanifah and some other Imams, it is necessary that the three fasts against the Kaffarah (expiation) of Oath should be consecutive. In this verse, the first word used in connection with the Kaffarah of Oath is: |"It` am|" which, according to Arabic usage, could either mean ` feed& or ` give food& to someone. Therefore, as determined by the Fuqa¬ha& (Muslim Jurists), may the mercy of Allah be upon them, the sense of the verse is that the person giving Kaffarah can choose either of the two options. He can invite ten poor persons and feed them; or, he can give the food in their possession (literally in milkiyat or ownership). But, in the first situation, it is necessary that he should feed ten poor persons two meals of the day to their fill and satisfaction from the av¬erage food he usually eats with his family at home. And in the second situation, he should give to each of the ten poor persons at the rate of one Fitrah per person, that is 1-3/4 kilograms of wheat, or its cost in cash. He can go by any one of the three he likes. But, fasting can be sufficient only when one does not have the ability to take any of the three options. Paying Kaffarah, before Oath is Broken, is not Valid Towards the end of the verse, the need to observe caution has been commanded about two things. The first one appears in: ذَلِكَ كَفَّارَ‌ةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ (that is expiation for your oaths when you have sworn). According to Imam Abu Hanifah (رح) and other Imams, it means: When you give a sworn statement about doing or not doing something in the future - following which occurs its violation - then, its Kaffarah is what has been mentioned above. The essence of the statement is that the Kaffa¬rah should be given after the oath has broken. A Kaffarah given before the breaking of the oath will not be valid. The reason is that the cause which makes Kaffarah necessary lies in the breaking of the oath. As long as the oath does not break, Kaffarah just does not become neces¬sary. As there is no Salah before its time, and there is no Ramadan fast before the month of Ramadan, so it is with the Kaffarah of Oath which cannot be given before the oath breaks. After that comes the second note of caution: (And take care of your oaths). In this sense of guarding an oath it would mean: If you have sworn to something, then do not break your oath without a legal or physical necessity. Some other respected scholars have said that it means that one should not hasten to give a sworn statement. One should guard and protect one&s oath, as if kept in reserve. Unless it be under severe compulsion, one should not take oaths casually. (Mazhari)

ربط آیات اوپر تحریم طیبات کا ذکر تھا، چونکہ وہ بعض اوقات بذریعہ قسم کے ہوتی ہے، اس لئے آگے قسم کھانے کا حکم مذکور ہے خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ تم سے (دینوی) مواخدہ نہیں فرماتے (یعنی کفارہ واجب نہیں کرتے) تمہاری قسموں میں لغو قسم (توڑنے) پر لیکن ایسا) مواخذہ اس پر فرماتے ہیں کہ تم قسموں کو (آئندہ بات پر) مستحکم کردو (اور پھر اس کو توڑ دو ) سو اس (قسم کے توڑنے) کا کفارہ (یہ ہے کہ) دس محتاجوں کو کھانادینا اوسط درجہ کا جو اپنے گھر والوں کو ( معمولی طور پر) کھانے کو دیا کرتے ہو یا ان (دس محتاجوں کو) کپڑا دینا (اوسط درجہ کا) یا غلام یا لونڈی آزاد کرنا (یعنی تینوں میں جس کو چاہے اختیار کرلے) اور جس کو (ان تینوں میں سے ایک کا بھی) مقدور نہ ہو تو (اس کا کفارہ) تین دن کے (متواتر) روزے ہیں یہ (جو مذکور ہوا) کفارہ ہے تمہاری (ایسی) قسموں کا جب کہ تم قسم کھالو (اور پھر اس کو توڑ دو اور کفارہ نہ دو اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح یہ حکم برعایت تمہارے دنیوی و دینی مصالح کے بیان فرمایا ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے (دوسرے) احکام (بھی) بیان فرماتے ہیں تاکہ تم (اس نعمت یعنی مصالح خلق کی رعایت کا) شکر کرو۔ معارف و مسائل قسم کھانے کی چند صورتیں اور ان سے متعلقہ احکام اس آیت میں قسم کھانے کی چند صورتوں کا بیان ہے، بعض کا بیان سورة بقرہ میں بھی گزر چکا ہے اور خلاصہ سب کا یہ ہے کہ اگر کسی گذشتہ واقعہ پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے اس کو اصطلاح فقہاء میں یمین غموس کہتے ہیں، مثلاً ایک شخص نے کوئی کام لیا ہے، اور وہ جانتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے، اور پھر جان بوجھ کر قسم کھالے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا، یہ جھوٹی قسم سخت گناہ کبیرہ اور موجب وبال دنیا و آخرت ہے مگر اس پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہوتا، توبہ و استغفار لازم ہے اسی لئے اس کو اصطلاح فقہاء میں یمین غموس کہا جاتا ہے، کیونکہ غموس کے معنی ڈوبا دینے والے کے ہیں، یہ قسم انسان کو گناہ اور وبال میں غرق کردینے والی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی گذشتہ واقعہ پر اپنے نزدیک سچا سمجھ کر قسم کھائے اور واقع میں وہ غلط ہو، مثلاً کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص آگیا ہے، اس پر اعتماد کرکے اس نے قسم کھالی کہ وہ آگیا ہے، پھر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ کے خلاف ہے، اس کو یمین لغو کہتے ہیں، اسی طرح بلا قصد زبان سے لفظ قسم نکل جائے تو اس کو بھی یمین لغو کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ نہ اس پر کفارہ ہے نہ گناہ۔ تیسری صورت قسم کی یہ ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے اس کو یمین منعقدہ کہا جاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اس قسم کو توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں اس پر گناہ بھی ہوتا ہے، بعض میں نہیں ہوتا۔ اس جگہ قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں بظاہر لغو سے وہی قسم مراد ہے جس پر کفارہ نہیں خواہ گناہ ہو یا نہ ہو، کیونکہ بالمقابل عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَان مذکور ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہاں مواخذہ سے مراد دنیا کا مواخذہ ہے، جو کفارہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور سورة بقرہ کی آیت میں ارشاد ہے (آیت) لا یؤ اخذکم اللّٰہ باللغو فی ایمانکم ولکن یؤ اخذکم بما کسبت قلوبکم۔ اس میں لغو سے مراد وہ قسم ہے جو بلا قصد و ارادہ زبان سے نکل جائے، یا اپنے نزدیک سچی بات سمجھ کر قسم کھالے، مگر وہ واقع میں غلط نکلی، اس کے بالمقابل وہ قسم مذکور ہے جس میں قصداً جھوٹ بولا گیا ہو، جس کو یمین غموس کہتے ہیں، اس لئے اس آیت کا حاصل یہ ہوا کہ یمین لغو پر تو کوئی گناہ نہیں، بلکہ گناہ یمین غموس پر ہے، جس میں قصد کرکے جھوٹ بولا گیا ہو تو سورة بقرہ میں حکم آخرت کے گناہ کا بیان ہے، اور سورة مائدہ کی آیت متذکرہ میں دنیوی حکم یعنی کفارہ کا، جس کا حاصل یہ ہوا کہ یمین لغو پر اللہ تعالیٰ تم سے مواخذہ نہیں کرتا، یعنی کفارہ واجب نہیں کرتا، بلکہ کفارہ صرف اس قسم پر لازم کرتا ہے، جو آئندہ زمانہ میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں منعقد کی ہو، اور پھر اس کو توڑ دیا ہو، اس کے بعد کفارہ کی تفصیل اس طرح ارشاد فرمائی ہے : فَكَفَّارَتُهٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِيْنَ ، یعنی تین کاموں میں سے کوئی ایک اپنے اختیار سے کرلیا جائے، اول یہ کہ دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا صبح و شام دو وقت کھلا دیا جائے، یا یہ کہ دس مسکینوں کو بقدر ستر پوشی کپڑا دے دیا جائے، مثلاً ایک پاجامہ یا تہبند یا لمبا کرتہ، یا کوئی مملوک غلام آزاد کردیا جائے۔ اس کے بعد ارشاد ہے فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ ، یعنی اگر کسی قسم توڑنے والے کو اس مالی کفارہ کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکے نہ کپڑا دے سکے اور نہ غلام آزاد کرسکے تو پھر اس کا کفارہ یہ ہے کہ تین دن روزے رکھے، بعض روایات میں اس جگہ تین روزے پے در پے مسلسل رکھنے کا حکم آیا ہے، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک کفارہ قسم کے تین روزے مسلسل ہونا ضروری ہیں۔ آیت مذکورہ میں کفارہ قسم کے متعلق اول لفظ اطعام آیا ہے، اور اطعام کے معنی عربی لغت کے اعتبار سے کھانا کھلانے کے بھی آتے ہیں، اور کسی کو کھانا دیدینے کے بھی، اس لئے فقہاء رحمہم اللہ نے آیت مذکورہ کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ کفارہ دینے والے کو دونوں باتوں کا اختیار ہے کہ دس مسکینوں کی دعوت کرکے کھانا کھلاوے، یا کھانا ان کی ملکیت میں دیدے، مگر پہلی صورت میں یہ ضروری ہے کہ متوسط درجہ کا کھانا جو وہ عادةً اپنے گھر کھاتا ہے دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھلادے، اور دوسری صورت میں ایک مسکین کو بقدر ایک فطرہ کے دیدے، مثلاً پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت تینوں میں جو چاہے اختیار کرے، لیکن روزہ رکھنا صرف اس صورت میں کافی ہوسکتا ہے جب کہ ان تینوں میں سے کسی پر قدرت نہ ہو۔ قسم ٹوٹنے سے پہلے کفارہ کی ادائیگی معتبر نہیں آخر آیت میں تنبیہ کے لئے دو امر ارشاد فرمائے گئے ہیں، اول ۭذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ، یعنی یہ ہے کفارہ تمہاری قسم کا جب تم نے قسم کھائی امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور دوسرے اکثر ائمہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی آئندہ کام کرنے یا نہ کرنے پر حلف کرو اور پھر اس کی خلاف ورزی ہوجائے تو اس کا کفارہ وہ ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ کفارہ کی ادائیگی قسم ٹوٹنے کے بعد ہونی چاہیے قسم توڑنے سے پہلے اگر کفارہ دے دیا جائے تو وہ معتبر نہ ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ کفارہ لازم ہونے کا سبب قسم توڑنا ہے جب تک قسم نہیں ٹوٹی تو کفارہ واجب ہی نہیں ہوا، تو جیسے وقت سے پہلے نماز نہیں ہوتی، رمضان سے پہلے رمضان کا روزہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح قسم ٹوٹنے سے پہلے قسم کا کفارہ بھی ادا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ ، یعنی اپنی قسموں کی حفاظت کرو، مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز کی قسم کھالی ہے تو بلا ضرورت شرعی یا طبعی قسم کو نہ توڑو، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ قسم کھانے میں جلد بازی سے کام نہ لو، اپنی قسم کو محفوظ رکھو، جب تک شدید مجبوری نہ ہو قسم نہ کھاؤ (مظہری) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۝ ٠ۚ فَكَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَبَۃٍ۝ ٠ۭ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰــثَۃِ اَيَّامٍ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ كَفَّارَۃُ اَيْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ۝ ٠ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَيْمَانَكُمْ۝ ٠ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ٨٩ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : عن اللّغا ورفث التّكلّم يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیت تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات عقد العَقْدُ : الجمع بين أطراف الشیء، ويستعمل ذلک في الأجسام الصّلبة کعقد الحبل وعقد البناء، ثم يستعار ذلک للمعاني نحو : عَقْدِ البیع، والعهد، وغیرهما، فيقال : عاقدته، وعَقَدْتُهُ ، وتَعَاقَدْنَا، وعَقَدْتُ يمينه . قال تعالی: عاقدت أيمانکم «5» وقرئ : عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6» ، وقال : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة/ 89] ، وقرئ : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ «1» ، ومنه قيل : لفلان عقیدة، وقیل للقلادة : عِقْدٌ. والعَقْدُ مصدر استعمل اسما فجمع، نحو : أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة/ 1] ، ( ع ق د ) العقد کے معنی کسی چیز کے اطراف کو جمع کردینے یعنی گرہ باندھنے کے ہیں یہ اصل میں تو سخت اجسام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے عقد الحبل ( رسی کی گرہ باندھنا عقد البناء وغیرہ محاورات ہیں ۔ پھر بطور استعارہ معانی پر ۔ بھی بولا جاتا ہے جیسے عقد البیع سودے کو پختہ کرنا عقد العھد محکم عہد باندھنا وغیرہ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس سے پختہ عہد وبیمان باندھا قرآن میں ہے : ۔ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6»جن لوگوں سے تم نے پختہ عہد باندھ رکھے ہوں ۔ ایک قرات میں عقدت ایمانکم سے نیز فرمایا : ۔ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة/ 89] پختہ قسموں ہر ایک قرات میں ہے اسی سے لفلان عقیدۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی پختہ یقین کے ہیں العقد ( گلے کا ہار ) اور العقد یہ اصل میں مصدر ہیں اور بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں اس کی جمع عقود آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة/ 1] اپنے اقراروں کو پورا کرو كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے عشر العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة/ 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال/ 65] بیس آدمی ثابت قدم۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) وسط وَسَطُ الشیءِ : ما له طرفان متساویا القدر، ويقال ذلک في الكمّيّة المتّصلة کالجسم الواحد إذا قلت : وَسَطُهُ صلبٌ ، وضربت وَسَطَ رأسِهِ بفتح السین . ووَسْطٌ بالسّكون . يقال في الكمّيّة المنفصلة كشيء يفصل بين جسمین . نحو : وَسْطِ القومِ كذا . والوَسَطُ تارة يقال فيما له طرفان مذمومان . يقال : هذا أَوْسَطُهُمْ حسبا : إذا کان في وَاسِطَةِ قومه، وأرفعهم محلّا، وکالجود الذي هو بين البخل والسّرف، فيستعمل استعمال القصد المصون عن الإفراط والتّفریط، فيمدح به نحو السّواء والعدل والنّصفة، نحو : وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] وعلی ذلک قوله تعالی: قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] وتارة يقال فيما له طرف محمود، وطرف مذموم کالخیر والشّرّ ، ويكنّى به عن الرّذل . نحو قولهم : فلان وَسَطُ من الرجال تنبيها أنه قد خرج من حدّ الخیر . وقوله : حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] ، فمن قال : الظّهر فاعتبارا بالنهار، ومن قال : المغرب «فلکونها بين الرّکعتین وبین الأربع اللّتين بني عليهما عدد الرّکعات، ومن قال : الصّبح فلکونها بين صلاة اللّيل والنهار . قال : ولذلک توعّد النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فقال : «من فاته صلاة العصر فكأنّما وتر أهله وماله» ( و س ط ) وسط الشئی ہر چیز کی در میانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وسطہ صلب اس کا در میان سخت ہے ) ضر بت ہ وسط راسہ لیکن وسط ( بالسکون ) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے یعنی دو چیزوں کے در میان فاصل کو وسط کہا جاتا ہے جیسے ۔ وسط القوم کذا کہ وہ لوگوں کے در میان فاصل ہے ۔ نیز الوسط ( بفتح السی) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے در میان واقع ہو یعنی معتدل کو افراط وتفریط کے بالکل در میان ہوتا ہے مثلا جوہ کہ ببخل اور اسراف کے در میانی در جہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ عدل نصفۃ سواء کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلا جو شخص اپنی قوم میں لحاظ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ھذا وسطھم حسبا کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی ہیں ( امت مسلمہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ۔ اسی طرح آیت : ۔ قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] ایک جوان جوان میں فر زانہ نہ تھا بولا ۔ میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی وسط اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو نہ زیادہ اچھی ہو اور نہ بریوی بلکہ در میانے در جہ کی ہو ۔ اور کبھی کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ فلان وسط من لرجال کہ فلاں کم در جے کا آدمی ہے یعنی در جہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ : ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] مسلمانوں سب نمازیں خصوصا بیچ کی نماز یعنی عصر ایورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے در میانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے در میان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے در میان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت فرمایا : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء/ 78]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر عصر مغرب عشا کی ) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو ۔ اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑ نا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں کا اضافہ کیا گیا ہے اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر عوام کے کاروبار کا وقت ہوات ہے اس لئے اس نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کسے کہ ان کے اول یا آخر میں فر صت کا وقت مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زجرا فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو بر باد کردیا ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ كسا الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔ تحریرُ : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران/ 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] . التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران/ 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے / کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھا ر بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔ رقب الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ : أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . ( ر ق ب ) الرقبۃ اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء/ 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة/ 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة/ 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ صوم الصَّوْمُ في الأصل : الإمساک عن الفعل مطعما کان، أو کلاما، أو مشیا، ولذلک قيل للفرس الممسک عن السّير، أو العلف : صَائِمٌ. قال الشاعر :۔ خيل صِيَامٌ وأخری غير صَائِمَةٍ «1» وقیل للرّيح الرّاكدة : صَوْمٌ ، ولاستواء النهار : صَوْمٌ ، تصوّرا لوقوف الشمس في كبد السماء، ولذلک قيل : قام قائم الظّهيرة . ومَصَامُ الفرسِ ، ومَصَامَتُهُ : موقفُهُ. والصَّوْمُ في الشّرع : إمساک المکلّف بالنّية من الخیط الأبيض إلى الخیط الأسود عن تناول الأطيبين، والاستمناء والاستقاء، وقوله : إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، فقد قيل : عني به الإمساک عن الکلام بدلالة قوله تعالی: فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] . ( ص و م ) الصوم ( ن ) کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا اور باز رہنا کے ہیں خواہ اس کا تعلق کھانے پینے سے ہو یا چلنے پھرنے اور یا گفتگو کرنے سے اس بنا پر گھوڑا چلنے سے رک جائے یا چارہ نہ کھائے اسے بھی صائم کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ( البیط ) ( 280 ) خیل صیام واخرٰ ی غیر صائیمۃ کچھ گھوڑے اپنے تھان پر کھڑے ہیں اور دوسرے میدان جنگ میں ہوں ۔ اور ہوا کے ساکن ہونے اور دوپہر کے وقت پر بھی صوم کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ اس تصور پر کہ اس وقت آفتاب وسط آسمان میں ٹہھر جاتا ہے اسی اعتبار سے قام قائم الظھیرۃ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی دوپہر کے وقت سورج کے خط نصف النہار پر ہونا کے ہیں مصمام الفرس او مصامتہ گھوڑے کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔ اصطلاحی شریعت میں کسی مکلف کا روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے منی خارج کرنے اور ۔ عمدا قے کرنے سے رک جانے کا نام صوم ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] کہ میں نے خدا کے لئے روزے کی منت مانی ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صوم سے مراد کلام سے رکنے یعنی خاموش رہنا کے ہیں ۔ جیسا کہ بعد میں فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا [ مریم/ 26] تو آج میں کسی آدمی سے ہر گز کلام نہ کروں گی ) سے اسکی تفسیر کی گئی ہے ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . والمُحَالَفَة : أن يحلف کلّ للآخر، ثم جعلت عبارة عن الملازمة مجرّدا، فقیل : حِلْفُ فلان وحَلِيفُه، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «لا حِلْفَ في الإسلام» . وفلان حَلِيف اللسان، أي : حدیده، كأنه يحالف الکلام فلا يتباطأ عنه، وحلیف الفصاحة . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور جو کسی سے الگ نہ ہوتا ہو اسے اس کا حلف یا حلیف کہا جاتا ہے حدیث میں ہے اسلام میں زمانہ جاہلیت ایسے معاہدے نہیں ہیں ۔ فلان حلیف اللسان فلاں چرب زبان ہے کو یا اس نے بولنے سے عہد کر رکھا ہے اور اس سے ایک لمحہ نہیں رکتا حلیف الفصا حۃ وہ صحیح ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قسم کا کفارہ کتنا ہے ؟ قول باری ہے (اطعام عشرۃ مساکین ہیں مسکینوں کو کھانا کھلانا) حضرت علی، حضرت عمر، حضرت عائشہ، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی ، مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ قسم کے کفارہ میں ہر مسکین کو نصف صاع تقریباً دو سیر گندم دی جائے گی۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ کا قول ہے یا ایک صاع کھجور دیا جائے گا ۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے جب قسم کھانے والا ان مسکینوں کو طعام کا مالک بنا دے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت، عطاء بن ابی رباح اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ مسکین کو ایک مد ایک پیمانہ جس کی مقدار اہل عراق کے نزدیک دو رطل یعنی اسی تولے اور اہل حجاز کے نزدیک پونے دو رطل ہے) گندم دی جائے گی۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ تملیک کئے بغیر کھانا کھلانے کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی، محمد بن کعب، قاسم، سالم، شعبی، ابراہیم نخعی اور قتادہ سے مروی ہے کہ ان مسکینوں کو صبح اور شام کا کھانا دیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے ۔ نیز امام مالک، سفیان ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے حسن بصری کا قول ہے کہ صرف ایک وقت کھلایا جائے گا اور یہی کافی ہوگا۔ حکم کا قول ہے کہ جب تک طعام مسکینوں کے حوالے نہیں کردیا جائے گا کھانا کھلانا یعنی اطعام درست نہیں ہوگا۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ دو مدتو طعام کے لئے دیئے جائیں گے اور ایک مد سالن کے لئے دیا جائے گا۔ ان مسکینوں کو اکٹھا کر کے کھانا کھلایا نہیں جائے گا بلکہ کفارہ ادا کرنے والا انہیں یہ طعام حوالے کر دے گا۔ ابن سیرین ، جابرن بن زید، مکحول، طائوس اور شعبی سے مروی ہے کہ انہیں ایک ہی دفعہ بٹھا کر کھلادیا جائے گا۔ حضرت انس سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ انہیں طعام مشترکہ طور پر نہیں دے گا بلکہ ہر مسکین کو ایک مد کی مقدار طعام دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلا ئو جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو) ظاہر آیت مسکینوں کو طعام دیے بغیر اکل کی صورت میں اطعام کے جواز کا مقتضی ہے۔ آپ اس قول باری کو نہیں دیکھتے (ویطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین کو کھانا کھلاتے ہیں) اس سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کھانا مسکینوں کی ملکیت میں دیئے بغیر ان کے سامنے رکھ دیا جائے اور اس طرح انہیں کھلا دیا جائے۔ جب یہ فقرہ کہا جائے گا کہ ” فلاں یطعم انطعا م (فلاں شخص کھانا کھلاتا ہے) اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص لوگوں کو کھانے پر بلاتا ہے۔ جب اطعام کا اسم اباحت کے مفہوم کو شامل ہے تو اس کا جواز واجب ہوگیا اور جب ملکیت میں دیئے بغیر اباحت کے طور پر اطعام جائز ہوگیا تو پھر ملکیت میں دے دینا بڑھ کر جائز ہوگا۔ اس لئے کہ تملیک اباحت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ تملیک کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ انہیں صبح و شام دو وقت کا کھانا دیا جائے گا اس کی وجہ یہ قول باری ہے (من اوسط ماتطعمون اھلیکم) اوسط کھانا وہ ہوتا ہے جو صبح و شام دو وقت کھایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دن رات چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ تین دفعہ کھانا کھایا جاتا ہے، کم سے کم ایک دفعہ اور اوسطاً دو مرتبہ لوگوں کی عام عادت اسی طرح ہے۔ لیث بن سعد نے ابن بریدہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا کان خبزا یا بساً فھو غداء لا و عشائوہ اگر خشک روٹی ہو تو یہی اس کے صبح و شام کا کھانا ہے۔ ) ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ اگر کفارہ ادا کرنے والا انہیں کھانا دینا چاہے تو نصف صاع گندم اور ایک صاع جو یا کھجور دے گا۔ اس کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت کعب بن عمرہ کی روایت ہے جس کا تعلق سر کی تکلیف کے فدیہ سے ہے۔ آپ نے فرمایا (ادا طعم ثلاثہ آصع من طعام ستۃ مساکین یا تین صاع طعام چھ مسکینوں کو کھلا وہ) ایک اور حدیث میں ہے (اطعم ستۃ آصع من تمر ستۃ مساکین چھ صاع کھجور چھ مسکینوں کو کھلا دو ) آپ نے ہر مسکین کے لئے ایک صاع کھجور یا نصف صاع گندم مقرر کردی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قسم کا کفارہ بھی اسی طرح ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر کی تکلیف کے فدیہ میں اور قسم کے کفارہ میں طعام کی مقدار کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا۔ آپ سے ظہار کے کفارہ کے سلسلے میں مروی ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجور دیا جائے گا۔ وسق کی مقدار ساٹھ صاعب کے برابر ہوتی ہے۔ جب ظہار کے کفارے میں ہر مسکین کے لئے ایک صاع کھجور کا ثبوت ہوگیا تو قسم کا کافرہ بھی اسی طرح ہوگا۔ اس لئے کہ ان دونوں کے اندر واجب ہونے والے طعام کے مقدار کی یکسانیت پر سب کا اتفاق ہے۔ جب ایک صاع کھجور کا ثبوت ہوگیا تو گندم میں نصف صاع کا وجوب ہوگیا اس لئے کہ جن حضرات نے اس میں ایک صاع کھجور واجب کیا ہے انہوں نے نصف صاع گندم واجب کی ہے۔ قول باری ہے (من اوسط ماتطعمون اھلیکم) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اہل مدینہ کے لئے خوراک کی جو مقدار ہوتیھی اس میں بالغ اور آزاد کا حصہ نابالغ اور غلام کی بہ نسبت زیادہ ہوتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (من اوسط ما تطعمون اھلیکم) یعنی اوسط درجے کا کھانا۔ نہ زیادہ بڑھیا اور نہ زیادہ گھٹیا، سعید بن جبیر سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے بیان کردیا کہ اوسط سے مراد یہ ہے کہ اوسط مقدار ہو، یہ مراد نہیں کہ سالن کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ” اوسط طعام روٹی اور کھجور ہے۔ نیز روٹی اور زیتون کا تیل ہے۔ ہم اپنے بال بچوں کو جو بہترین کھانا کھلاتے ہیں وہ گوشت اور روٹی ہے۔ “ عبیدہ سے مروی ہے کہ اسوط طعام روٹی اور گھی ہے۔ ابو رزین نے کہا ہے اوسط طعام روٹی، کھجور اور سرکہ ہے۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ سب سے عمدہ کھانا گوشت روٹی ہے اوسط کھانا گھی روٹی ہے اور احسن کھانا کھجور اور روٹی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلمہ بن صخہ کو ظہار کے کفارہ میں ہر مسکین کو ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا تھا اور اس کے ساتھ سالن کے طہور پر کوئی اور چیز دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔ نیز آپ نے حضرت کعب بن عجرہ کو تین صاع طعام چھ مسکینوں پر صدقہ کو دینے کا حکم دیا تھا اس کے ساتھ سالن کے طور پر کچھ دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔ کسی اہل علم کے نزدیک ظہار کے کفارہ اور قسم کے کفارہ کے درمیان طعام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ طعام کے ساتھ اوام یعنی سالن واجب نہیں ہے۔ نیز یہ کہ آیت میں مذکورہ اوسط سے اسوط مقدار مراد ہے اس کے ساتھ اوام ملانا مراد نہیں ہے۔ قول باری افکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین) ان سب کے لئے عموم ہے جن پر مسکین کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لئے ایک مسکین کو سارا کھانا دینے کے جواز پر اس سے استدلال کرنا درست ہے۔ یعنی سارا کھانا ایک مسکین کو دس دنوں میں نصف صاع یومیہ کے حساب سے دے دینا جائز ہے۔ اس لئے کہ اگر ہم اسے دوسرے دن کھانا نہ دیں تو ہم اسم کے بعض مدلول کے اندر حکم کی تخصیص کردیں گے اور بعض کو چھوڑ دیں گے۔ خاص طور پر ان مدلول کے اندر جو بالا تفاق آیت کے حکم میں داخل ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایک مسکین کو دس دنوں میں نصف صاع یومیہ کے حساب سے سارا طعام دے دینا قسم کے کفارہ کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دس مسکینوں کا ذکر فرما دیا تو اب ان سے کم پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (فاجلدوھم ثمانین جائدۃ انہیں اسی کوڑے لگائو یا یہ قول باری ہے (اربعۃ اشھر و عشراً چار مہینے دس دن) جن اعداد کا ذکر کیا گیا ہے ان سے کم پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے زیر بحث مسئلے، میں بھی دس مسکینوں سے کم پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ چونکہ اطعام کا مقصد مساکین کی بھوک دور کرتا ہے اس لئے اس میں ایک مسکین اور مسکینوں کے ایک گروہ کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ جب کہ ان سب کے لئے ایک دن میں اطعام کے عمل کی تکرار ہوجانے یا صرف ایک کے لئے دس دنوں کے اندر اس عمل کو دہرایا جائے۔ یہ دونوں صورتیں اس مقصد کے مطابق ہیں، اس طرح دس مسکینوں کو اطعام کا جو معنی مقصود سے وہ ایک مسکین کو دس دنوں کے اندر اس عمل کے تکرار میں موجود ہے۔ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ اس عمل کی تکرار کی صورت میں ایک مسکین پر دس مسکینوں کے اطعام کا اطلاق کردیا جائے۔ اس لئے کہ مقصد تو اس عمل کی تکرار ہے نہ کہ مساکین کی تکرار۔ جس طرح یہ قول باری ہے (یسئلونک عن الاھلۃ آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے متعلق پوچھتے ہیں) چاند تو ایک ہلال ہوتا ہے لیکن چونکہ ہر ماہ اس کی رویت میں تکرار ہوتی ہے اس لئے اس پر جمع کے اسم کا اطلاق ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استنجا میں تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم دیا لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک تکونی ڈھیلے سے استنجا کرلے تو یہ اس کے لئے کافی ہوگا۔ یا جس طرح آپ نے سات کنکروں کے ساتھ رمی جمار کا حکم دیا لیکن اگر کوئی شخص ایک ہی کنکر کو سات دفعہ رمی کے لئے استعمال کرے تو بھی اس کے لئے یہ کافی ہوگا اس لئے کہ رمی جمار میں سات دفعہ کنکر مارنا مقصد ہوتا ہے۔ اسی طرح اسنجا میں مقعد کو تین دفعہ ڈھیلا لگانا قمصد ہوتا ہے۔ ڈھیلوں کی تعداد مقصد نہیں ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح جب کفارہ دینے کا مقصد مساکین کی بھوک دور کرنا ہے تو پھر ایک مسکین کو دس دن کھلانے اور دس مسکینوں کو ایک دن کھلانے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (اوکسوتھم یا انہیں کپڑے پہنائے) یہاں یہ تو واضح ہے کہ مراد ان دس مسکینوں کو دس کپڑے پہنانا ہے اس طرح عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگئی۔” اوعشرۃ اثواب “ (یا دس کپڑے) کپڑے پہنانے میں ایک یا دس مساکین کی کوئی تخصیص نہیں کی اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اگر ایک مسکین کو دس جوڑے دے دیئے جائیں تو وہ کفارہ کے لئے کفایت کر جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میں نے دس مسکینوں کے جوڑے ایک مسکین کو دے دیئے۔ “ تو اس کا یہ قول درست ہوگا۔ اس طرح قول باری (اوکسوتھم) اس جہت سے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حکم مسکینوں کی دس کی تعداد میں منحصر نہیں ہے۔ اس پر اس جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے جس میں جہت سے اطعام کے ذکر میں دلالت ہوتی ہے جس کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کردیا ہے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک ایک مسکین کو جوڑے دینے کی صورت اس وقت جائز ہوگی جب اسے دس دنوں کے اندر ہر روز ایک جوڑا دے دیا جائے اس لئے کہ کھانا کھلانے میں ایک مسکین کو دس دن کھلانے کا ہمارے بیان کی روشنی میں جب ثبوت ہوگیا تو پھر کپڑا پہنانے میں بھی یہ طریقہ واجب ہوگیا اس لئے کہ کسی نے کھانا کھلانے اور کپڑا پہنانے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ہمارے اصحاب نے طعام اور کپڑوں کی بجائے ان کی قیمت کی ادائیگی کو بھی جائز قرار دیا ہے اس لئے کہ اس بات کا ثبوت ہوگیا کہ کفارہ میں مقصد یہ ہوتا ہے کہ مساکین کو مال کی اس مقدار سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے جو انہیں وصول ہوئی ہے۔ یہی فائدہ انہیں قیمت کے طور پر نقد رقم حاصل ہونے کی صورت میں بھی ملتا ہے جس طرح طعام اور کپڑے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ نیز جب روایات اور قیاس و نظر کی رو سے زکوۃ کے اندر قیمت کی ادائیگی درست ہوتی ہے تو پھر کفارہ کی صورت میں بھی ایسا ہونا واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی شخص کسی کو رقم دے کر طعام اور کپڑے وغیرہ خریدنے کے لئے کہتا ہے تو اس کے متعلق یہ اطلاق ممتنع نہیں ہوتا کہ ” اس نے فلاں کو کھانا کھلایا اور کپڑا پہنایا ہے۔ “ جب اس اطلاق کی گنجائش نکل آئی تو پھر آیت کے الفاظ اس صورت یعنی نقدی کی صورت میں کفارہ کی ادائیگی پر بھی مشتمل ہوگی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اطعام کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو اس طرح کھلائے کہ کھانا اس کے لئے مباح کر دے یعنی اس کے سامنے لا کر رکھ دے اور پھر وہ اس میں سے جتنا چاہے کھالے۔ اس کے ساتھ اگر وہ اس کھانے کو مسکین کی مالیت میں دے دیتا اور مسکین اسے کھائے بغیر فروخت کر کے نقد رقم حاصل کرلیتا تو بھی کفارہ ادا ہوجاتا اگرچہ لفظ کے حقیقی معنی اس صورت کو شامل نہیں ہیں لیکن چونکہ اس مقدار میں مال اس تک پہنچانے کا مقصد حاص لہو گیا اس لئے یہ صورت درست ہوگئی اگرچہ اس نے اسے کھایا نہیں اور کھانے کے طور پر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسی طرح اگر کفارہ ادا کرنے والا مسکین کو جوڑا دے دیتا لیکن مسکین اسے پہنے بغیر فروخت کردیتا اور اس کی قیمت اپنے استعمال میں لے آتا تو اس کا کفارہ ادا ہوجاتا اگرچہ اس پورے عمل میں اس نے مسکین کو جوڑا نہیں پہنایا صرف اسے جوڑا دیا ہے۔ لیکن جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اسے جوڑا دے کر مال کی یہ مقدار اس تک پہنچا دی ہے اس بنا پر وہ اسے کپڑا پہنانے والا قرارپایا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کفارے میں کھانے اور کپڑے کا حصول مقصد نہیں ہے بلکہ ماں کی اس مقدار کا مسکین تک پہنچ جانا مقصد ہے اس مقصد کے حصول کے لئے جنس اور نقد کی صورتوں میں حکم کے اندر کوئی فرق نہیں ہوگا یعنی مسکین کو خواہ طعام یا کپڑا دے دیا جائے یا ان کی قیمت دونوں صورتوں میں مقصد حاصل ہوجائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں نصف صاع گندم یا ایک صاع جو یا کھجور کی مقدار مقرر کر کے فرمایا (اغنوھم عن المسئلۃ فی ھذا الیوم آج کے دن انہیں دست سوال دراز کرنے سے مستغنی کر دو ) آپ نے بتادیا کہ صدقہ فطر میں مقصد یہ ہے کہ مساکین سوال کرنے سے مستغنی ہوجائیں بعینہ طعام مقصد نہیں۔ یہ مقصد جس طرح طعام کے ذریعے حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح اس کے قیمت کے ذریعے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر قیمت جائز ہوتی اور مقصد یہ ہوتا کہ مال کی یہ مقدار مساکین تک پہنچ جائے تو پھر اطعام اور کسوہ کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا جبکہ اکثر احوال میں ان کی قیمتوں میں تفاوت ہوتا رہتا ہے۔ آیت میں کھانے اور کپڑے کے ذکر کے اندر یہ دلالت موجود ہے کہ انہیں چھوڑ کر ان کی قیمتوں کی ادائیگی جائز نہیں ہے نیز یہ کہ عین طعام اور کسوہ کی بجائے مال کی اس مقدار سے فائدہ اٹھانا مقصد نہیں ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی یہ سوچ درست نہیں ہے۔ اور بات اس طرح نہیں ہے جس طرح اس نے سوچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طعام اور کسوہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بڑے فائدے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں باتوں کا ذکر فرما دیا اور اس ذکر سے ہمارے لئے یہ دلالت مہیا کردی کہ ان دونوں کی بجائے ان کی قیمت دے دینا بھی جائز ہے تاکہ کفارہ ادا کرنے والے کو یہ اختیار مل جائے کہ چاہے تو گندم دے دے یا کھانا کھلا دے یا کپڑا پہنا دے یا چاہے تو گندم اور کپڑوں کی بجائے ان کی قیمت ادا کر دے۔ اس صورت میں قیمتوں کے تفاوت کے وقت اس کے لئے گنجائش ہوگی کہ ارفع کو چھوڑ کر ادنیٰ یا ادنیٰ کو چھوڑ کر ارفع کو بطور کفارہ ادا کر دے۔ یا ان دونوں مذکورہ اشیاء میں سے بعینیہ جو چیز چاہے دے دے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” جس شخص کے اونٹوں کی زکوۃ میں بنت لبون (دو سال پورا کر کے تیسرے سال میں پہنچ جانے والی مادہ بچی) واجب ہوگئی ہو اور اسے بنت لبون نہ ملے تو پھر ایک بنت مخاض (ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں پہنچ جانے والی مادہ بچی) لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ دو بکریاں اور بیس درہم بھی وصول کئے جائیں گے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زکوۃ ادا کرنے والے کو یہ اختیار دے دیا جبکہ اسے یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ مذکورہ فرض کی ادائیگی ایک بنت لبون خرید کر ، کرسکتا تھا یا جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیت میں سو اونٹ مقرر کردیے۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ دیت اگر درہم اور دینار کی شکل میں ادا کی جائے گی تو وہ سو اونٹوں کی قیمتوں کے برابر ہوگی۔ اگرچہ قیمتوں کی تعیین میں اختلاف رائے ہے یا جس طرح یہ صورت ہے کہ کوئی شخص مہر میں اوسط درجے کا غلام دینا قبول کرے لے اگر وہ اوسط درجے کا غلام لے آئے گا تو اسے قبول کرلیا جائے گا اور اگر اس کی قیمت لے آئے گا تو قیمت بھی قبول کرلی جائے گی۔ ان صورتوں میں قیمت لے لینے کے جواز نے مذکورہ چیزوں کی تعیین کو باطل نہیں کیا۔ یہی بات اس مسئلے میں بھی ہے جو ہمارے زیر بحث ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی …سے کفارہ ادا کرنے والے کو کھانا کھلانے، کپڑا پہنانے اور غلام آزاد کرنے کے درمیان اختیار دے دیا گیا ہے ۔ اب قیمت بھی ان اشیاء میں سے ایک شے کی طرح ہے اس لئے اسے ان اشیاء اور قیمت کے درمیان اختیار مل جائے گا۔ اگرچہ طعام اور کسوہ کی قیمتوں میں فرق ہوتا رہتا ہے اس لئے کہ جب وہ ارفع چیز کفارہ کے طور پر ادا کرے گا تو اس میں زیادہ فضیلت حاصل ہوگی اور اگر ادنیٰ پر اقتصار کرے گا تو اس کی اسے اجازت ہوگی۔ ان میں سے جو بھی وہ کرے گا وہی فرض ہوگا اور اس کی انجام دہی پر وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نماز کے اندر فرض قرأت کی مقدار ایک آیت ہے لیکن اگر اس نے قرأت طویل کردی تو پوری قرأت فرضی میں شمار ہ وگی۔ اسی طرح رکوع میں فرض وہ مقدار ہے جس کی بنا پر ایک شخص راکع کہلا سکتا ہو۔ اگر اس نے رکوع میں طوالت اختیار کرلی تو پورے رکوع کا شمار فرض کے اندر وہ گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر امام رکوع طویل کر دے اور مقتدی آخر رکوع میں آ کر شامل ہوجائے تو اس صورت میں مقتدی کو وہ رکعت مل جائے گی۔ اسی طرح اس میں کوئی امتنا ع نہیں کہ کفارہ میں اس چیز کی قیمت کو فرض تسلیم کرلیا جائے جو طعام یا کپڑے کی قیمتوں میں سے کم ہو لیکن اگر وہ ارفع چیز کی قیمت ادا کرے گا تو یہی قیمت فرض شمار ہوگی۔ کپڑے کی مقدار میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ فرض کے کفارہ میں ہر مسکین کو ایک کپڑا دیا جائے گا خواہ وہ ازار ہو یا چادر یا قمیض ہو یا قبایات چادر، ابن سماء نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ اگر شلوار دے دے گا تو بھی کافی ہے ۔ اسے یہ بھی روایت ہے کہ اگر کسی نے کپڑا نہ خریدنے کی قسم کھائی ہو تو اگر وہ مردانہ شلوار خریدے گا تو حانث ہوجائے گا۔ ہشام نے امام مالک سے روایت کی ہے شلوار یا عمامہ دینا کفارہ کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ بشر نے امام ابو یوسف سے یہی روایت کی ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مرد مسکین کو کپڑا پہنائے گا تو ایک کپڑا دے گا اور اگر عورت کو پہنائے گا تو دو کپڑے دے گا ایک قمیص اور دوسری اوڑھنی۔ اس لئے کہ نماز کے جواز کے لئے یہی کم سے کم لباس ہے۔ عورت کو صرف ایک کپڑا دینا کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح صرف عمامہ دینا کافی نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ عمامہ بھی کافی ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ عمامہ، شلوار اور سر پر ڈالنے کی اوڑھنی بھی کافی ہوگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین، ابراہیم نخعی، حسن، مجاہد، طائوس اور زہری سے مروی ہے کہ ہر مسکین کو ایک کپڑا دیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر روایت اس بات کی مقتضی ہے کہ کپڑا ایسا ہونا چاہیے کہ جب اسے کوئی شخص پہن لے تو وہ لباس میں ملبوس کہلا سکے۔ اس لئے کہ ایک شخص جس نے صرف شلوار پہن رکھی ہو اور اس کے جسم پر کوئی اور کپڑا نہ ہو یا صرف عمامہ باندھ رکھا ہو تو اسے لباس میں ملبوس نہیں کہا جاسکتا جس طرح صرف ٹوپی پہننے والے کو یہ نام نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ صرف شلوار یا عمامہ یا اوڑھنی کافی نہیں۔ کیونکہ یہ چیزیں پہننے کے باوجود ایک شخص برہنہ ہی شمار ہوگا۔ کپڑے میں ملبوس شمار نہیں ہوگا۔ لہٰذا ازار اور قمیص میں سے ہر ایک پورے جسم پر آ جاتی ہے اور ایسا انسان لباس میں ملبوس کہلا سکتا ہے اس لئے کفارہ میں یہ کافی ہوتی ہے۔ قول باری ہے (او تحریر رقبۃ یا ایک غلام آزاد کرنا) یعنی عتق رقبہ تحریر رقبہ کا مفہوم ہے کہ اس پر آزادی واقع کر دے۔ رقبہ یعنی گردن کا ذکر کر کے اس سے غلام کا پورا سراپا مراد لیا ہے۔ اسے قیدی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی گردن میں بندھی ہوئی رسی کو کھول کر اسے آزاد کردیا جاتا ہے۔ اس طرح رقبہ پورے شخص سے عبارت ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام سے کہے ” تیری گردن آزاد ہے۔ “ تو وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔ جس طرح ” انت حر “ (تو آزاد ہے) کہنے پر وہ آزاد ہوجاتا ہے۔ رقبہ کا لفظ اس بات کا مقتضی ہے کہ آزاد کیا جانے الا غلام جسمانی نقائص اور بیماریوں سے محفوظ ہو۔ اس لئے کہ یہ لفظ پورے اعضا والے انسان کے لئے اسم ہے تاہم فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ معمولی قسم کا جسمانی نقص اس کے جواز میں مانع نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب نے اس سلسلے میں یہ معیار مقرر کیا ہے کہ اگر کسی عضو میں نقص ہو تو نقص اس درجے کا نہ ہو کہ اس عضو کی منفعت ہی ختم ہوگئی ہو اور عضو بےکار ہوچکا ہو۔ اگر اس کی منفعت باقی ہو تو اس صورت میں کفارہ کے اندر ایسے غلام کو آزاد کرنا جائز ہوگا۔ اگر منفعت ختم ہوچکی ہو تو ہمارے اصحاب کے نزدیک ایسا غلام آزاد کرنا جائز نہیں ہوگا۔ قو باری ہے (فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایام) جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔ مجاہد نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اور ابوالعالیہ نے حضر ابی بن کعب (رض) سے آیت کی قرأت فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام متتا بعات) نقل کی ہے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ ہماری قرأت میں بھی یہ فقرہ اسی طرح ہے ۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، ابراہیم، قتادہ اور طائوس کا قول ہے کہ یہ تین روزے لگاتار رکھے جائیں گے ان میں وقفہ کفارہ کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ ان حضرات کے قول سے تتابع کا ثبوت ہوگیا لیکن تلاوت کا ثبوت نہیں ہوا اس لئے کہ اس بات کی گنجائش ہے کہ تلاوت تو منسوخ ہوچکی ہو لیکن حکم ثابت ہو۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے ان روزوں میں تفریق سے بھی کفارہ ادا ہوجائے گا۔ ہم نے اصول فقہ میں اس پر روشنی ڈلای ہے۔ قول باری (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین) اس بات کا مقتضی ہے کہ قدرت ہونے کی صورت میں اطعام یا کسوہ یا عتق رقبہ کے ذریعہ کفارہ کا ایجاب ہے اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کا خطاب باقی رہتا ہے۔ اگر یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو پھر روزہ جائز ہوگا۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فمن لم یجذ فصیام ثلثۃ ایام) اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا تین اشیاء میں سے کسی ایک سے حکم کو روزوں کی طرف اس صورت میں منتقل کردیا ہے جب یہ چیزیں موجود نہ ہوں۔ اس لئے جب تک کفارے کا خطاب ان میں سے کسی ایک چیز پر قائم ہے ۔ اس وقت تک اس اصل کفارہ کی موجودگی میں اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ روزہ شروع کردینے کی صورت میں ان تینوں اشیاء میں سے کسی ایک کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کا خطاب اس سے ساقط نہیں ہوا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ پہلے دن کا روزہ شروع کرلیتا پھر اسے فاسد کردیتا جب کہ اسے آزاد کرنے کے لئے غلام دستیاب ہوجاتا تو اس کی دستیابی کے ساتھ اب روزہ رکھنا اس کے لئے جائز نہ ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس کا روزہ شروع کرلینا اصل کی فرضیت کے سقوط کا سبب نہیں بنا۔ اس لئے روزہ شروع کرنے سے پہلے اور اس کے بعد آزاد کرنے کے لئے غلام کی دستیابی میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں حالتوں میں کفارہ ادا کرنے کا خطاب اس پر قائم رہتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) تمہاری قسموں میں لغو قسم پر کوئی کفارہ نہیں کیوں کہ لغو قسم کے علاوہ اس قسم پر کفارہ ہے کہ جن کو تم اپنے دلوں کے ساتھ پختہ کر دو (یعنی منعقدہ) تو اس مستحکم قسم کا کفارہ یہ ہے کہ صبح وشام دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلاؤ یا دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کپڑا دو ، ہر ایک مسکین کو ایک چادر، ایک کرتہ، ایک تہ بند، ایک غلام یا لونڈی آزاد کرو۔ اور جس کو ان تینوں میں سے ایک کی بھی طاقت نہ ہو تو وہ لگا تار تین روزے رکھے یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا، یہ قسم توڑ دینے کے بعد اس کا کفارہ ہے لہٰذا اپنی قسموں اور ان کے کفارہ کا خیال رکھا کرو، جیسا کہ قسم کا کفارہ بیان کیا ہے، اسی طرح وہ رب ذوالجلال اوامرو نواہی بیان کرتا ہے تاکہ تم اس پر اس کا شکر کرو ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ ) قسموں کے سلسلے میں سورة البقرہ (آیت ٢٢٥) میں ہدایات گزر چکی ہیں ‘ اب یہاں اس ضمن میں آخری حکم آ رہا ہے۔ یعنی ایسی قسمیں جو بغیر کسی ارادے کے کھائی جاتی ہیں ‘ ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ جیسے واللہ ‘ باللہ وغیرہ کا تکیہ کلام کے طور پر استعمال عربوں کی خاص عادت تھی اور آج بھی ہے۔ ظاہر ہے اس کو سن کر کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ شخص باقاعدہ قسم کھارہا ہے۔ تو ایسی صورت میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔ (وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج) ۔ عَقَّدْتُّم عقد سے باب تفعیل ہے۔ یعنی پورے اہتمام کے ساتھ ایک بات طے کی گئی اور اس پر کسی نے قسم کھائی۔ اب اگر ایسی قسم ٹوٹ جائے یا اس کو توڑنا مقصودہو تو اس کا کفّارہ ادا کرنا ہوگا۔ (فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ ) (اَوْکِسْوَتُہُمْ ) (اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط) (فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط) یعنی اگر کسی کے پاس ان تینوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہ ہو ‘ کوئی شخص خود فقیر اور مفلس ہو ‘ اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھ لے۔ (ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط) (وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ط) یعنی جب کسی صحیح معاملے میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پورا کیا جائے ‘ اور اگر کسی وجہ سے قسم توڑنے کی نوبت آجائے تو اسے توڑنے کا باقاعدہ کفارہ دیا جائے۔ (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) اب شراب اور جوئے کے بارے میں بھی آخری حکم آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

106. Since some people had taken an oath prohibiting for themselves the things which He had permitted, God laid down this injunction regarding oaths made inadvertently. The injunction makes it unnecessary to feel bound by the terms of inadvertent oaths, and for which one will not be reproached by God. And if a person had deliberately made an oath which entails sin he should not abide by his oath and should expiate it (see Towards Understanding the Qur'an, vol. I, (Surah 2,nn. 243-4); for expiation see (Surah 4, n. 125) above. 107. To be mindful of one's oaths has several meanings. First, one should make proper use of oaths and should not employ them either frivolously or sinfully. Second, when a person takes an oath, he should take care not to forget it lest he be led to break it. Third, when a man deliberately takes an oath regarding something sound in itself he should pay the penalty if he happens to violate it.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :106 چونکہ بعض لوگوں نے حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی قسم کھا رکھی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی سلسہ میں قسم کا حکم بھی بیان فرما دیا کہ اگر کسی شخص کی زبان سے بلا ارادہ قسم کا لفظ نکل گیا ہے تو اس کی پابندی کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں ، کیونکہ ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، اور اگر جان بوجھ کر کسی نے قسم کھائی ہے تو وہ اسے توڑ دے اور کفارہ ادا کر دے ، کیونکہ جس نے کسی معصیت کی قسم کھائی ہو اسے اپنی قسم پر قائم نہ رہنا چاہیے ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۲٤۳ و ۲٤٤ – نیز کفارہ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء حاشیہ نمبر ۱۲۵ ) ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :107 قسم کی حفاظت کے کئی مفہوم ہیں: ایک یہ کہ قسم کو صحیح مصرف میں استعمال کیا جائے ، فضول باتوں اور معصیت کے کاموں میں استعمال نہ کیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ جب کسی بات پر آدمی قسم کھائے تو اسے یاد رکھے ، ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے وہ اسے بھول جائے ۔ اور پھر اس کی خلاف ورزی کرے ۔ تیسرے یہ کہ جب کسی صحیح معاملہ میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پورا کیا جائے اور اگر اس کی خلاف ورزی ہو جائے تو اس کا کفارہ ادا کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

59: ’’لغو‘‘ قسموں سے مراد ایک تو وہ قسمیں ہیں جو قسم کھانے کے ارادے کے بغیر محض محاورے اور تکیہ کلام کے طور پر کھالی جاتی ہیں، اور دوسرے وہ قسمیں بھی لغو کی تعریف میں داخل ہیں جو ماضی کے کسی واقعے پر سچ سمجھ کر کھائی گئی ہوں، مگر بعد میں معلوم ہو کہ جس بات کو سچ سمجھا تھا وہ سچ نہیں تھی۔ اس قسم کی قسموں پر نہ کوئی گناہ ہوتا ہے، اور نہ کوئی کفارہ واجب ہوتا ہے، البتہ بلا ضرورت قسم کھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے، اس لئے ایک مسلمان کو اس سے احتیاط کرنی چاہئے۔ 60: اس سے مراد وہ قسم ہے جس میں آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا عہد کیا گیا ہو۔ ایسی قسم کو توڑنا عام حالات میں بڑا گناہ ہے، اور اگر کوئی شخص ایسی قسم توڑدے تو اس کا کفارہ بھی واجب ہے جس کی تفصیل آیت میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ا یک تیسری قسم کی قسم وہ ہے جس میں ماضی کے کسی واقعے پر جان بوجھ کو جھوٹ بولا گیا ہو، اور مخاطب کو یقین دلانے کے لئے قسم کھالی گئی ہو۔ ایسی قسم سخت گناہ ہے، مگر دُنیا میں اس کا کوئی کفار سوائے توبہ اور استغفار کے کچھ نہیں ہوتا۔ 61: مطلب یہ ہے کہ قسم کھا لینا کوئی مذاق نہیں ہے، اس لئے اول تو قسمیں کم سے کم کھانی چاہئیں، اور اگر کوئی قسم کھالی ہو تو حتی الامکان اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر کسی شخص نے کوئی ناجائز کام کرنے کی قسم کھالی ہو تو اس پر واجب ہے کہ قسم کو توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ اسی طرح اگر کسی جائز کام کی قسم کھائی، مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ کام مصلحت کے خلاف ہے، تب بھی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ایسی قسم کو توڑ دینا چاہئے، اور کفارہ ادا کرنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اس آیت کے شان نزول تفسیر ابن جریر اور خازن وغیرہ میں جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ترک دنیا کے طور پر جب بعض صحابہ نے قسم کھا کر بعض چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں اور اوپر کی آیت یا ایھا الذین امنوا لاتحرموا طیبات ما احل اللہ لکم میں اس کی ممانعت نازل فرمائی تو ان صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت ہم لوگوں نے حلال چیزوں سے باز رہنے کی جو قسم کھائی تھی اس قسم کا اب کیا حکم ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١ ؎۔ سورة بقرہ میں گذر چکا ہے کہ تکیہ کلام کے طور پر واللہ باللہ یا ایسے اور لفظ آدمی کے منہ سے جو نکل جاتے ہیں ایک بات کو کوئی شخص سچ گمان کر کے اس پر قسم کھا بیٹھے اور حقیقت میں وہ بات اس طرح سے نہ ہو یہ صورتیں قسم میں داخل نہیں ہیں نہ ان کا کچھ کفارہ ہے۔ انہی صورتوں کو یمین لغو کہتے ہیں۔ کفارہ کے قابل وہی قسم ہے جو دلی ارادہ سے ہو۔ اس دلی ارادہ کی قسم پر قائم نہ رہنے کی حالت میں اس کے کفارہ کی یہی چار صورتیں ہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے کہ یا دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جاوے یا کپڑا پہنا دیا جاوے یا ایک بردہ آزاد کردیا جاوے۔ ان تینوں باتوں میں سے کسی بات کا بھی مقدور نہ ہو تو تین روزے رکھے جاویں ان روزوں کے پے درپے ہونے اور یا نہ ہونے میں کھانے کی جگہ کچا اناج دیا جاوے تو اسی مقدار میں کپڑوں کی گنتی میں۔ بردہ کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے میں سلف کا اختلاف ہے جس کی تفصیل بڑی کتابوں میں ہے ٢ ؎۔ بیچ کی راس کے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ بہت اعلیٰ درجہ کا نہ بالکل ادنیٰ درجہ کا بلکہ متوسط درجہ کا ہو۔ قسموں کے تھامنے کا یہ مطلب ہے کہ بلا ضرورت قسم کے کھانے میں جلدی نہ کی جاوے۔ احکام الٰہی کے احسان ماننے اور شکر گزاری کرنے کا یہ مطلب ہے کہ ان احکام کے موافق عمل کیا جاوے سورة بقرہ میں صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو میری ہر ایک قسم ایسی ہوگی کہ قسم کھانے کے بعد کو بات اگر اس سے بہتر میں دیکھ پاؤں گا جس پر میں نے قسم کھائی ہے تو فورا قسم کا کفارہ دے کر میں اس بہتر کام کو کرلوں گا ١ ؎۔ قسم کی حالت پر قائم رہنے یا نہ رہنے کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے جو اللہ کے رسول نے اپنی امت کو سکھائی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 بعض نے اوسط کے معنی عمدہ کئے ہیں، ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ ج اوسط باعتبار مقدار کے ہے یعنی ہر مسکن کو اک عد (10 چھٹانک) غلے دے دے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو پندرہ صا ع ( 60 مد) کھجوریں دی تاکہ رزے کا کفارہ ادا کرے اور فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کردو۔ ( ابن کثیر ) 1 یعنی کھانا کہ کھلا دتے نہ کپڑا پہنا سکے اور نہ غلام آزاد کرنے کی طاقت ہو تو دو روزے رکھ لے چاہے پے درپے رکھے اور چا ہے الگ الگ کرکے۔ ، عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں ج متقا بعات ہے یعنی پے درپے روزے رکھے بعض ائمہ اسی کو اختیار کیا ہے۔2 یعنی حتی المقدور قسم کھانے سے پرہیز کرو لیکن قسم کھالو اور پھر اسے توڑ دو تو اس کا کفارہ ادا کرو حتی المقدور قسم کو پورا کرنے کی کوشش کرو گر جب یہ قسم کسی بہتر چیز کے چھوڑ ن پر ہو تو اسے توڑ کر اس کا کفارہ ادا کردو جیسا کہ حدیث، میں من حلف علی یمبن فری ٰ غیر ھا خیر منھا فلیات الذی ھو خیر ثم لیکفر من یمبنہ۔ کہ جس نے کسی چیز کے کے متعلق قسم کھائی پھر جب اس کے خلاف کو بہتر سمجھا تو وہ بہتر کام کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی کفار واجب نہیں کرتے۔ 3۔ یعنی تینوں میں سے جس کو چاہے اختیار کرلے۔ 4۔ لغو کہتے ہیں بےاثر کو اس کے دو معنی ہیں ایک وہ جس پر گناہ کا اثر مرتب نہ ہو دوسرے وہ جس پراثرکفارہ کا مرتب نہ ہو اس آیت میں اسی کا ذکر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانا ناجائز ہے اس طرح اللہ کے عظیم نام کو غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا انسان پر یہ بھی کرم ہے کہ وہ اپنے نام کو بےوجہ استعمال کرنے کے باوجود اس پر گرفت نہیں کرتا۔ لغو کا معنی بےہودہ، بےوجہ اور بلا ارادہ ہے۔ البتہ لغو کام اور بات سے منع کیا گیا ہے۔ عزم اور شعوری طور پر اٹھائی ہوئی قسم پر مؤاخذہ ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم اور مقدس نام کی لاج رکھنا مسلمان پر فرض ہے۔ انسان کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ جب اپنی بات کو مؤثر اور مضبوط کرنا چاہتا ہے تو شواہد اور دلائل کے ساتھ کسی عزیر یا محترم چیز کی قسم اٹھایا کرتا ہے تاکہ سننے والا اس کی بات پر اعتماد اور یقین کرلے۔ اس لیے ہر دور کے مشرک اپنے باطل خداؤں کی قسمیں اٹھایا کرتے ہیں۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طریقۂ گفتگو کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ بلاوجہ قسمیں اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اگر قسم اٹھانا ناگزیر ہو تو غیر اللہ کی قسم اٹھانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھانا چاہیے۔ دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بہت ہی برا جانا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کو دنیاوی فائدے اور محض ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔ قسم اٹھانا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو گواہ بنانے کے مترادف ہے اس لیے آدمی کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ وہ منہ سے نکلی ہوئی قسم اور بات کی پاسداری کرے قسم کے لیے یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی دایاں ہاتھ ہے۔ پہلے وقتوں میں لوگ حلف اٹھاتے وقت ایک دوسرے کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا کرتے تھے جس سے قسم اٹھانے والا اپنی بات کو قوی اور مؤکد کیا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تاکید کلام کے طور پر کہتا ہے جیسے لاو اللہ۔ وغیرہ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر) کفّارہ کا لفظ کفر سے مشتق ہے کفر کا ایک معنی ستر ڈھانپنا ہے۔ قسم توڑنے کی وجہ سے جس گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے کفارہ اس گناہ کو ڈھانپ دیتا ہے۔ قسم کا کفارہ درج ذیل میں سے کوئی ایک ہے۔ ١۔ دس غریب لوگوں کو کھانا کھلانا۔ ٢۔ دس آدمیوں کو لباس پہنانا۔ ٣۔ غلام آزاد کرانا۔ ٤۔ تین روزے رکھنا۔ (عن ابن عمر (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ اللّٰہَ ےَنْھٰکُمْ اَنْ تَحْلِفُوْا بِاٰ بَآءِکُمْ مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْےَحْلِفْ باللّٰہِ اَوْلِےَصْمُتْ )[ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب کیف یستحلف ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ہی بیان کرتے ہیں : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کے نام کی قسمیں کھاؤ۔ جسے قسم اٹھانی ہو وہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) عَنِِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ حَلَفَ فَقَالَ فِیْ حَلْفِہٖ بِِاللَّاتِِ وَالْعُزّٰی فَلْےَقُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِِہٖ تَعَالَ اُقَامِرْکَ فَلْےَتَصَدَّقْ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب افرایتم اللات والعزی ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے لات وعزٰی کی قسم کھائی وہ دوبارہ لا الہٰ الا اللہ پڑھے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں ‘ وہ صدقہ کرے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے بہترین اسلام کی نشانی یہ ہے کہ وہ فضول یعنی لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔ “ [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد،] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری وہی قسم قابل اعتماد ہوگی جس کی تصدیق قسم لینے والا کرے گا اور عمرو (رض) نے کہا کہ تمہاری تصدیق تمہارا ساتھی کرے گا۔ “ [ رواہ مسلم : باب یمین الحالف علیٰ نیۃ المستحلف ] مسائل ١۔ لغو قسموں سے احتراز کرنا چاہیے۔ ٢۔ قسم پوری ذمہ داری کے ساتھ اٹھانی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قسم کے مسائل : ١۔ قسموں کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (النحل : ٩١ تا ٩٤) ٢۔ صدقہ نہ کرنے پر قسم کھانا منع ہے۔ (النور : ٢٢ تا ٢٤) ٣۔ بلا اراداہ ٹھائی جانے والی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٢٥) ٤۔ ڈھال کے طور پر اللہ کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔ (البقرۃ : ٢٢٤) ٥۔ اللہ کے عہد اور قسموں کے ذریعے مال کمانے والوں کو عذاب الیم ہے۔ (آل عمران : ٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قسموں کے اقسام اور قسم توڑنے کا کفارہ اوپر کی آیات میں یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں حلال قرار دی ہیں ان کو حرام قرار نہ دو ، چونکہ حلال و حرام کرنے کی صورت میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی چیز کے کھانے یا استعمال نہ کرنے کی قسم کھالی جائے اس لئے اب قسم کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ قسم کی کئی قسمیں ہیں اول یمین لغو، دوسری یمین غموس، تیسری یمین منعقدہ (عربی میں قسم کو یمین کہتے ہیں) یمین لغو کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ جو کوئی شخص قسم کی نیت کئے بغیر بات کرتے ہوئے لاَ وَ اللّٰہ یا بَلٰی وَ اللّٰہکہہ دے تو یمین لغو ہے۔ (رواہ البخاری) (اہل عرب کی یہ عادت تھی اور اب بھی ہے کہ وہ اپنے محاورات میں باتیں کرتے کرتے اس طرح کے الفاظ بول جاتے تھے) اور بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص کسی گزشتہ واقعہ کو اپنے نزدیک سچا جان کر قسم کھائے حالانکہ واقعتہ وہ غلط ہو تو یہ یمین لغو ہے۔ بہر حال یمین لغو کی یہ بھی تفسیر ہے اس پر مواخذہ نہیں جیسا کہ آیت کریمہ میں اس کی تصریح ہے اور اس میں کوئی کفارہ بھی نہیں ہے۔ قسم کی دوسری قسم یمین غموس ہے یعنی کسی گزشتہ واقعہ پر جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹی قسم کھا لینا۔ مثلاً کوئی کام نہیں کیا اور قسم کھا کر کہتا ہے کہ اللہ کی قسم میں نے یہ کام کیا یا کوئی کام کیا ہے پھر جانتے بوجھتے قسم کھا کر کہتا ہے کہ اللہ کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا۔ یہ یمین غموس ہے اس کا گناہ بہت بڑا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر و (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بڑے گناہ یہ ہیں۔ (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (٢) ماں باپ کو دکھ دینا (٣) کسی جان کو قتل کرنا (٤) یمین غموس یعنی کسی خلاف واقعہ بات پر جھوٹی قسم کھانا (رواہ البخاری ج ٢ ص ٩٨٧) لفظ غموس غمس سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے گھسا دینا، چونکہ جھوٹی قسم یہاں اس دنیا میں گناہ میں گھسا دیتی ہے پھر آخرت میں پہنچ کر دوزخ میں گھسا دینے کا سبب بنے گی اس لئے اس کا نام یمین غموس رکھا گیا۔ قسم کی تیسری قسم یمین منعقدہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی آنے والے زمانے میں کسی فعل کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھالے مثلاً یوں کہ اللہ کی قسم فلاں کام ضرور کروں گا یا فلاں چیز ضرور کھاؤں گا یا یوں کہے اللہ کی قسم فلاں کام نہیں کروں گا فلاں چیز نہیں کھاؤں گا یا فلاں سے بات نہیں کروں گا۔ اس قسم کا حکم یہ ہے کہ اس کے خلاف ورزی کی جائے تو کفارہ دینا فرض ہوجاتا ہے۔ کفارہ کیا ہے ؟ اس کی تفصیل آیت بالا میں بتائی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنا دیں یا ایک غلام آزاد کردیں اگر ان میں سے کسی چیز کو بھی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھ لئے جائیں ( غلام آج کل ہیں نہیں کیونکہ مسلمانوں نے جہاد شرعی چھوڑ دیا جس کے ذریعہ غلام اور باندیاں حاصل ہوتے تھے) لہٰذا اب اسی پر عمل ہوسکتا ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیے یا کپڑے پہنا دیئے اگر ان میں سے کسی کی استطاعت نہ ہو تو تین دن کے روزے لگا تار رکھ لے۔ کفارہ قسم کے مسائل مسئلہ : یمین منعقدہ کی خلاف ورزی جسے ہمارے ماحول میں قسم کا توڑنا کہتے ہیں اس کا کفارہ حانث ہونے یعنی قسم ٹوٹنے سے پہلے ادا کردینا معتبر نہیں یعنی اگر پیشگی کفارہ ادا کردیا تو وہ نفلی صدقہ ہوجائے گا کفارہ میں نہیں لگے گا۔ مسئلہ : اگر دس مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت اختیار کرے تو صبح شام پیٹ بھر کے کھانا کھلا دے ان دس مسکینوں میں کوئی بچہ نہ ہو اور ایسا کوئی شخص نہ ہو جس کا پہلے سے پیٹ بھرا ہوا ہو۔ مسئلہ : اگر کھانے کھلانے کے بدلہ مال دینا چاہے تو یہ بھی جائز ہے جس کی صورت یہ ہے کہ ہر مسکین کو صدقہ فطر کے برابر ایک سیر ساڑھے بارہ چھٹانک گیہوں یا اس کے دو گنے جو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت دے دے۔ مسئلہ : دس ہی مسکینوں کو دینا لازم ہے۔ اگر ایک ہی مسکین کو دس مسکینوں کا غلہ دے دیا تو اس سے پوری ادائیگی نہ ہوگی نو مسکینوں کو پھر دینا ہوگا۔ مسئلہ : اور اگر کپڑا دینے کی صورت اختیار کرے تو ہر مسکین کو اتنا کپڑا دے جس سے ستر ڈھک جائے اور اس میں نماز ادا ہو سکے، اور اگر عورت کو کپڑا دے تو اتنا بڑا کپڑا دے جس سے اس کا سارا بدن ڈھک جائے جس میں وہ نماز پڑھ سکے۔ مسئلہ : مسکینوں کو جو کھانا کھلائے تو گھٹیا کھانا نہ کھلائے اپنے اہل و عیال کو جو کھانا کھلاتا ہو اس کی درمیانی حیثیت کا کھانا ہو کیونکہ آیت کریمہ میں (مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ ) کی تصریح موجود ہے۔ مسئلہ : اگر کھانا دینے یا کپڑا پہنانے کی مالی استطاعت نہ ہو تو لگاتار تین روزے رکھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کی قراۃ (فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ مُتَتَابِعَاتِ ) ہے جو حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کو پہنچی اسی لئے انہوں نے تتابع یعنی لگاتار روزے رکھنا مشروط قرار دیا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا بھی یہی مذہب ہے کہ قسم کے کفارہ کی ادائیگی کے لئے تین دن لگاتار وزے رکھنا ضروری ہے (بشرطیکہ کفارہ بالصیام متعین ہوجائے) فائدہ : کسی بھی گناہ کی قسم کھانا گناہ ہے اگر کسی گناہ کی قسم کھالے مثلاً کہے کہ نماز نہ پڑھوں گا یا یوں کہہ دے کہ اللہ کی قسم ! ماں باپ یا بہن بھائی سے یا کسی بھی عزیز قریب سے بےتعلق رہوں گا، ان سے بول چال نہ رکھوں گا یا قطع رحمی کرونگا تو ایسی قسم کا توڑدینا واجب ہے، قسم توڑ دے اور کفارہ دیدے۔ آخر میں فرمایا (وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ) کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو، صاحب روح المعانی ص ١٠ جلد ٧ اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ای راعوھا لکی تؤدو الکفارۃ عنھا اذا حنثتم واحفظوا نفسکم من الحنث فیھا۔ یعنی اپنی قسموں کا خیال رکھو ایسا نہ ہو کہ قسم ٹوٹ جائے اور کفارہ ادا کرنے میں غفلت کر جاؤ یا یہ مطلب ہے کہ قسم کھالو تو اسے پوری ہی کر دو ۔ (جب اللہ کا نام لے کر کسی قول یا عمل کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی ہے تو اب اسے پورا ہی کردو لیکن یہ اسی صورت میں ہے کہ جب گناہ کی قسم نہ کھائی ہو جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح ہے) ۔ تنبیہ : غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ مَنْ خَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ اَشْرَکَ یعنی جس نے اللہ کے سوا کسی چیز کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا (رواہ الترمذی) نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اپنے باپوں کی اور اپنی ماؤں کی قسم نہ کھاؤ اور اللہ کی قسم (بھی) جب ہی کھاؤ جب تم سچے ہو۔ (مشکوۃ ص ٢٩٦)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

149 یہاں یمین (قسم) کی دو قسموں یعنی یمین لغو اور یمین منعقدہ کا حکم بیان فرمایا ہے۔ تحریمات عباد کے ابطال کے بعد قسم کے احکام بیان فرمائے۔ دونوں میں ربط اور مناسبت یہ ہے کہ جس طرح ایک شخص اپنی طرف سے تحریم کر کے ایک چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے اسی طرح یمین کے ذریعے بھی حلال کو حرام کرلیتا ہے۔ اس لیے تحریمات عباد کے ساتھ یمین کے احکام بیان فرما دئیے۔ 150 یمین لغو کی تفصیل سورة بقرہ کی تفسیر میں ص 108 پر حاشیہ 445 میں گذر چکی ہے یمین لغو کا حکم یہ ہے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں نہ دنیا میں کفارہ نہ آخرت میں سزا وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ الخ لیکن یمین منعقدہ پر مواخذہ ہوگا یعنی اگر اسے توڑ دیا تو اس کا کفارہ دینا ہوگا۔ یمین منعقدہ یہ ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر اللہ کے نام کی قسم کھائی اگر قسم پوری کردی تو بہتر ورنہ اس کا کفارہ واجب ہوگا۔ فَکَفَّارَتُہٗ الخ۔ قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت ایسا کھانا کھلاوے جیسا کہ وہ عام طور پر اپنے گھر میں کھاتے ہیں۔ کھانا کھلانے کے بجائے اگر دس مسکینوں کو فی کس دو سیر گندم یا چار سیر جو دیدے تو بھی جائز ہے۔ یا دس مسکینوں کو متوسط درجے کے کپڑے دیدے۔ فی کس دو کپڑے، چادر اور قمیص یا تہبند اور قمیص یا پگڑی اور چادر علی ہذا القیاس یا غلام آزاد کردے اگر ان مالی صورتوں میں سے کسی ایک کی طاقت نہ ہو تو پھر لگاتار تین روزے رکھے کیونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرات میں ہے۔ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃ ایام متتابعات یہ قرات مشہور ہے (مظہری ج 3 ص 179) ۔ 151 اس کے دو معنی ہیں اول یہ کہ قسم کھا کر اس پر پکے رہو اور اسے توڑو مت۔ دوسرے یہی کہ سرے سے قسم کھاؤ ہی مت۔ فبروا فیھا ولا تحنثوا اذا لم یکن الحنث خیرا او لا تحلفوا اصلا۔ (مدارک ص 233 ج 1) حضرت شیخ قدس سرہ دوسرے مفہوم کو ترجیح دیتے کیونکہ وہ سیاق قرآن کے مطابق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

89 اللہ تعالیٰ نے تمہاری ان قسموں پر جو لغو دلا یعنی ہوں تم سے مواخذہ نہیں کرتا یعنی ان قسموں پر جو عادتاً منہ سے نکلتی رہتی ہیں کوئی کفارہ واجب نہیں کرتا مگر ان قسموں پر مواخذہ کرتا ہے یعنی کفارہ واجب کرتا ہے جن کو تم نے مستقل کے لئے مضبوط و مستحکم کردیا ہو یعنی قصداً یوں کہا ہو کہ خدا کی قسم میں ایسا کروں گا یا نہیں کروں گا۔ لہٰذا اس منعقدہ قسم کو توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا دینا جیسا معمول کھانا تم اپنے گھر میں گھر والوں کو کھلاتے ہو یا دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کپڑا پہنا دینا یا ایک غلام یا باندی کو آزاد کردینا یعنی تینوں باتوں میں سے جو چاہو وہ کرلو پھر جس شخص کو ان باتوں میں سے کسی ایک کا بھی مقدور نہ ہو اور ایک بھی میسر نہ ہو تو وہ پے در پے تین روز سے رکھ لے یہ حکم مذکور تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا بیٹھو یعنی کسی وجہ سے قسم توڑنی پڑے تو قسم توڑ کر مذکورہ بالا حکم کے مطابق کفارہ ادا کردیا کرو اور دیکھو اپنی قسموں کی نگہداشت کیا کرو اور قسموں کا خیال رکھا کرو اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ کفارے کا حکم بیان کیا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے اور احکام بھی صاف طور پر کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا اس نعمت پر شکر بجالائو۔