Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 16

سورة ق

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ وَ نَعۡلَمُ مَا تُوَسۡوِسُ بِہٖ نَفۡسُہٗ ۚ ۖ وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾

And We have already created man and know what his soul whispers to him, and We are closer to him than [his] jugular vein

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah encompasses and watches all of Man's Activity Allah the Exalted says, وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِْنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ... And indeed We have created man, and We know what his self whispers to him. Allah the Exalted affirms His absolute dominance over mankind, being their Creator and the Knower of everything about them. Allah the Exalted has compl... ete knowledge of all thoughts that cross the mind of man, be they good or evil. In the Sahih, the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ تَعَالَى تَجَاوَزَ لاُِمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ تَقُلْ أَوْ تَعْمَل Verily, Allah the Exalted has forgiven my Ummah (Muslims) for what they talk (think) to themselves about, as long as they do not utter or implement it. The statement of Allah the Exalted, ... وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ And We are nearer to him than his jugular vein. means, His angels are nearer to man than his jugular vein. Those who explained `We' in the Ayah to mean `Our knowledge,' have done so to avoid falling into the idea of incarnation or indwelling; but these two creeds are false according to the consensus of Muslims. Allah is praised and glorified, He is far hallowed beyond what they ascribe to Him. The words of this Ayah do not need this explanation (that `We' refers to `Allah's knowledge'), for Allah did not say, `and I am closer to him than his jugular vein.' Rather, He said, وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (And We are nearer to him than his jugular vein). just as He said in the case of dying persons, وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَكِن لاَّ تُبْصِرُونَ (But We are nearer to him than you, but you see not). (56:85), in reference to His angels (who take the souls). Allah the Exalted the Blessed said, إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَـفِظُونَ Verily, We, it is We Who have sent down the Dhikr and surely, We will guard it. (15:9) Therefore, the angels brought down the revelation, the Qur'an, by the leave of Allah, the Exalted, the Most Honored. Thus, the angels are closer to man than his own jugular vein, by the power and leave of Allah. Consequently, the angel touches mankind, just as the devil touches them, for the devil is as close to them as the blood that runs in their veins; just as Allah's Prophet, who is truthful and was told the truth, told us. Allah's statement here,   Show more

دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگذر فرما لیا ہے جب...  تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آ جائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ ( وانا ) نہیں کہا بلکہ ( ونحن ) کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے ۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے آیت ( ونحن اقرب الیہ منکم ) الخ ، یعنی ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ Ḍ۝ ) 15- الحجر:9 ) یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح کون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فورًا لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10۝ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) ، تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں حضرت حسن اور حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباس کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب وعذاب لکھ لیا کرتے ہیں ۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں ۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گذرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گذرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے ، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا ۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے ۔ جب بندے سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کر لی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ( ابن ابی حاتم ) امام حسن بصری اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں ۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کر دیا جائے گا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13؀ ) 17- الإسراء:13 ) ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنا دیا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں گیا میں آیا میں نے دیکھا ۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے آتی ( يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39؁ ) 13- الرعد:39 ) حضرت امام احمد کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چنانچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی ۔ پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہو جائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پا سکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کر سکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کر سکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے ۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا آیت ( وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ 19؀ ) 50-ق:19 ) ، اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبر کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو ۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کر دیا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں ۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ ( ما ) موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ( ما ) نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہو گئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی ۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مر گئی ۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گذر چکی ہے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کر سکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو آیت ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣؁ ) 3-آل عمران:173 ) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہو گا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہو گا ۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفان نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہو گا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں سائق سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ابن عباس کا قول ہے سائق فرشتوں میں سے ہوں گے اور شہید سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا ۔ پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہو گا دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا ۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہو گئی ۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہو جائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38؀ ) 19-مريم:38 ) یعنی جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) ، یعنی کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1 6 ۔ 1 یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما ... دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان۔ 16۔ 1 ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہوجاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح لقدیر)   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] شیطان کا انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا :۔ چونکہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اس لئے اس کی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہمارے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ہم تو اس کے دل کے خیال اور اس میں پیدا ہونے والے برے خیالوں یا وساوس تک کو بھی جانتے ہیں۔ ویسے یہ وساوس کیونکر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ درج ذیل ... حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : && ام المومنین سیدہ صفیہ (رض) فرماتی ہیں کہ وہ مسجد نبوی میں آپ سے ملنے آئی جبکہ آپ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے جب میں واپس آنے لگی تو آپ میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ (تاکہ مجھے گھر تک پہنچا آئیں) جب ہم ام سلمہ (رض) کے دروازہ کے قریب پہنچے تو دو انصاری مرد (اسید بن حضیر اور عمار بن بشر (رض) ملے۔ انہوں نے آپ کو سلام کیا اور آگے نکل گئے۔ آپ نے انہیں فرمایا : && ذرا ٹھہر جاؤ، (یہ عورت میری بیوی ہے && ) انہوں نے کہا : سبحان اللہ ! یا رسول اللہ اور آپ کا یہ وضاحت فرمانا ان پر شاق گزرا۔ آپ نے فرمایا : && شیطان خون کی طرح آدمی کے بدن کی ہر رگ میں پہنچتا ہے۔ میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے && (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب بیوت ازواج النبی ) [١٩] اللہ کا رگ جان سے زیادہ نزدیک ہونا :۔ اللہ تعالیٰ کی یہ قربت اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے لحاظ سے کیونکہ اس کی ذات تو ساری کائنات سے اوپر عرش پر ہے اور انسان کی جان یا نفس یا روح کا مسکن انسان کا دل ہے۔ تو جب اللہ اپنے علم کے لحاظ سے انسان کے دل اور اس میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو جانتا ہے تو رگ جان یا رگ گردن، جو گلے کے سامنے کی طرف ہوتی ہے وہ تو دل سے کافی دور ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ : وسوسہ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کہی جائے اور صرف اسی کو سنائے دے اور وہ بات بھی جو بغیر آواز کے کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیط... ان یا نفس انسان کے دل میں وسوسہ ڈلاتا ہے۔ قیامت کے منکروں کے اس شبہ کا جواب کہ جب ہم مر کر مٹی ہوگئے تو دوبارہ کیسے زندہ کئے جائیں گے، اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ہم انسان کے مٹی ہوجانے والے ہر ذرے کو جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے، وہ نہ ہمارے علم سے باہر ہے اور نہ ہماری دسترس اور قدرت سے، ہم جب چاہیں گے اسے دوبارہ زندہ کردیں گے، اب فرمایا خاک کے ذرات کا وجود تو پھر بھی باقی رہتا ہے اور نظر آتا ہے، ہم تو انسان کی وہ چیزیں بھی جانتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ مخفی ہیں اور بظاہر ان کا وجود بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے تو ہم سے بڑھ کر اسے کون جان سکتا ہے ؟ فرمایا :(الایعلم من خلق ، وھو اللطیف الخبیر) (الملک : ١٣)” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور روہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔ “ چناچہ ہم اس کے اقوال و افعال ہی کو نہیں اس کی ان باتوں کو بھی جانتے ہیں جن کا خیال اور وسوسہ اس کا نفس اس کے دل میں ڈالتا ہے۔ سو ہم صرف اسے زندہ ہی نہیں کریں گے، بلکہ زندہ کرنے کے بعد اس کے تمام اعمال کا محاسبہ بھی کریں گے اور محاسبے کے لئے اگرچہ ہمارا علم ہی کافی ہے، مگر ہم نے حجت پوری کرنے کے لئے اس کے ہر قول و فعل کو فرشتوں کے ذریعے سے لکھ کر محفوظ کرنے کا بھی بندوبست کیا ہے۔ (٢) ونحن اقرب الیہ من حبل الورید :” الورید “ دل سے نکلنے والی رگ جس کے کٹنے سے انسان مرجاتا ہے۔ دل دیتے ۔ “ اور گردن میں اس کا نام ” وتین “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(ثم لقطعنا منہ الوتین) (الحآقہ : ٣٦)” پھر ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔ “ اور گردن میں اس کا نام ” ورید “ ہے، جو ” ورد یرد “ سے ” فعیل “ کے وزن پر ہے، کیونکہ خون دل دل سے اس میں واردہوتا ہے۔ ” حبل “ کا معنی بھی رگ ہے۔” حبل “ کی اضافت ” الورید “ کی طرف بیانیہ ہے، یعنی وہ رگ جو ورید ہے، جیسا کہ مسجد الجامع کی اضافت ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” گردن کی رگ مراد ہے جس میں جان پھرتی ہے دل سے دماغ تک۔ اس کے کٹنے سے موت ہے۔ “ (٣) ” ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے پر یب ہیں “ کیونکہ انسان کے جسم کے حصے تو ایک دوسرے کو چھپائے ہوئے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چھپ نہیں سکتی۔ مفسر ابن کثیر نے یہاں ” نحن “ سے مراد فرشتے لئے ہیں، جیسا کہ سورة واقعہ کی آیت (٨٥):(ونحن اقرب الیہ منکم ولکن لاتبصرون) (اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور لیکن تم نہیں دیکھتے) میں بعض ائمہ نے فرشتوں کا قریب ہونا مراد لیا ہے۔ اگرچہ اس معنی کی بھی گنجائش ہے، مگر الفاظ کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرما رہے ہیں اور اس بات کا یقین اور احساس کہ میرا رب میری رگ جاں سے بھی زیادہ مجھ سے قریب ہے ، انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے زیادہ باز رکھنے والا اور اس سے محبت پیدا کرنے کا زیادہ باعث ہے۔ فتح البیان میں ہے، انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے زیادہ بازر رکھنے والا اور اس سے محبت پیدا کرنے کا زیادہ باعث ہے۔ فتح البیان میں ہے، قشیری نے فرمایا :’ فی ھذہ الآیۃ ھیۃ و قزع و خوف لقوم و روح و انس و سکون قلب لقوم “” اس آیت میں کچھ لوگوں کے لئے ہیبت، گھبراہٹ اور خوف کا اور کچھ لوگوں کے لئے راحت، انس اور سکون قلب کا سامان موجود ہے۔ “ (٤) قرآن مجید نے صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا بیان فرمایا ہے :(الرحمٰن علی العرش استوی) (طہ : ٥)” وہ بےحد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔ “ پھر اس کا انسان کے قریب ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ بحث ان شاء اللہ سورة حدید کی آیت (١٤) (وھو معکم این ماکنتم) میں آئے گی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Linkage The preceding verses purported to quell the doubt of those who denied the possibility of Resurrection and who thought that raising the dead was inconceivable. As a result, the unbelievers drew a false analogy between their finite knowledge and power and the infinite knowledge and power of Allah. Therefore, the perplexity arose in their mind: &after we die, disintegrate, with our organs...  torn apart, our bodies reduced to particles of dust and scattered or spread all over the world, how is it possible to gather them together and recompose them back into our original shape and bodies? The preceding verses responded that the Divine knowledge is all-encompassing and He knows every single particle of the universe, and therefore it is not difficult for Him to recollect these particles. The same subject has been further elaborated in the present verses by declaring that Allah not only has the complete knowledge of man&s scattered particles, but He also has the full knowledge of all thoughts that cross the mind of man. The verse explains the reason for that: Allah is nearer to him than his jugular vein, on which is dependent his very life. Therefore, He knows man&s conditions and circumstances more than man himself. Allah is Nearer to Man than his Jugular Vein: An Analysis The concluding part of verse [ 16] says: نَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ (We are closer to him than [ his ] jugular vein). The &closeness& in the verse, by consensus of scholars, refers to |"nearness in terms of all-encompassing knowledge|" not in terms of physical closeness. In this manner, the verse means that Allah&s power and knowledge has so encompassed man from within and without that His power and knowledge is nearer to him than his own jugular vein. The term warid [ pl. awridah ] in the Arabic language are animal veins which supply blood to the entire body. Medically, there are two types of veins: [ 1] the veins that emerge from the liver and supply pure blood to the entire human body. Medically, only these veins are referred to as warid [ awridah ]; and [ 2] the veins that emerge from animal heart and supply the subtle vapor of blood to the entire human body which in medical terminology is referred to as ruh [ soul ]. These veins are called in Arabic shiryan [ which actually refers to an artery ]. The first type of veins is thick-walled and the second type is thin-walled. The word warid in the above verse does not necessarily apply to the vein that comes from the liver in the medical sense. In fact it could well apply, in the literal sense, to the vein that comes from the heart because in that too a type of blood circulates. As the purport of this verse is to show that Allah possesses full knowledge of all thoughts that cross the mind of man, the literal sense of the term seems more appropriate. Nevertheless, whether the word warid is taken medically in the sense of a vein coming from the liver or in the sense of an artery coming from the heart is immaterial. In both cases the living creatures& life depends on it. If the veins or arteries are cut, they lose their soul and die. In short, Allah encompasses complete and full knowledge about everything of man, because He is closer to him than his neck-vein. According to the Honourable Sufis, here the term qurb (closeness) goes beyond the concept of nearness in terms of knowledge. It is a special type of ittisal [ contact or bond or relationship between Allah and His creation, including man who is placed at the centre of the wonderful universe ], the reality and nature of which is not known to anyone, but it does necessarily exist bila kaif |"without how|" or indescribably. Various Qur&anic verses and authentic Prophetic Traditions bear ample testimony to this fact. For example, the Qur&an commands: وَاسْجُدْ وَاقْتَرِ‌ب ۩ ﴿١٩﴾ (and bow down in sajdah, and come closer....A1-Alaq: 18) This is just like what the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: |"The closest that a servant can be to his Lord is when he is in prostration. Therefore, make abundant supplications (i.e. while prostrating).|" Another Tradition reports that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: |"When My servant performs supererogatory prayers, he attains proximity to Me.|" On the occasion of migration to Madinah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to Sayyidna Abu Bakr (رض) إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا |"Allah is with us. (9:40) |" Holy Prophet Musa (علیہ السلام) said to the children of Israel: |"إِنَّ مَعِيَ رَ‌بِّي |"My Lord is with me.|" (26:62) This qurb [ nearness or proximity to Allah ], which man attains through nearness of obligatory and supererogatory works and through his efforts, is reserved exclusively for a believer. Such believers are called awliya&ullah [ the friends of Allah: they are those whom Allah has chosen as His friends ]. This special bond with Allah is different from the general relationship between Allah and man, whether believer or non-believer. In brief, the above verses and narrations bear testimony to the fact that man has a special type of proximity to his Creator and Master though its reality and nature cannot be perceived. Maulana Rumi (رح) has versified this concept thus: اتصالے بےمثال و بےقیاس ہست ربّ النَّاس را با جانِ ناس The Lord of the people has a special contact with the people which is beyond one&s perception and has no other example. This nearness and proximity cannot be perceived by the ordinary sensation of physical sight, but it is attained through farasah of &iman [ perspicacity through faith ]. Tafsir Mazhari interprets qurb and ittisal in this verse in the same sense. We have learnt earlier the interpretation of the majority of the commentators that it is not physical proximity, but rather the all-encompassing, full and complete knowledge of Allah. Apart from these two interpretations, Ibn-Kathir interprets it in a third way. He says that the pronoun |"We|" does not refer to the |"Being|" of Allah, but to His angels who are all the time with man. They know man&s soul so closely that man himself is not so well aware of it. Allah knows best!   Show more

خلاصہ تفسیر (اوپر قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کا امکان ثابت ہوچکا ہے آگے اس کے وقوع کا بیان ہے اور وقوع موقوف ہے علم کامل اور قدرت کاملہ پر، اس لئے اول اس کو بتلاتے ہیں کہ) اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ( جو اعلیٰ درجہ کی دلیل ہے قدرت پر) اور اس کی جی میں جو خیالات آتے ہیں ہم ان (تک) کو (بھی) جا... نتے ہیں ( تو جو افعال ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے صادر ہوں ان کو جاننا تو بدرجہ اولیٰ ہے) اور (بلکہ ہم کو تو اس کے احوال کا ایسا علم ہے کہ اس کو خود بھی اپنے احوال کا ایسا علم نہیں پس باعتبار علم کے) ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ ( جس کے قطع ہونے سے انسان مر جاتا ہے، اور چونکہ لوگوں کی عام عادت میں جانور کی روح نکالنے کے لئے گردن کاٹنے ہی کا طریقہ رائج ہے، اس لئے یہ تعبیر اختیار کی گئی اور یہ گردن کی رگیں ورید اور شریان دونوں کو محتمل ہیں، مگر شریان مراد لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ان میں روح غالب اور خون مغلوب رہتا ہے، اور ورید میں بالعکس اور یہاں جس کو روح میں زیادہ دخل ہو اس کا مراد لینا مناسب ہے اور سورة حاقہ میں لفظ و تین بمعنی رگ دل سے تعبیر کرنا اس کا موید ہے، کیونکہ جو رگیں دل سے نکتی ہیں وہ شرائین ہیں اور گو قرآن میں لفظ ورید ہے مگر معنی لغوی اس کے عام ہیں جس میں دل سے نکلنے والی رگیں شرائین بھی داخل ہیں اور جگر سے نکلنے والی رگیں ورید بھی، پس مطلب یہ ہوا کہ ہم باعتبار علم کے اس کی روح اور نفس سے بھی نزدیک تر ہیں، یعنی جیسا علم انسان کو اپنے احوال کا ہے ہم کو اس کا علم خود اس سے بھی زیادہ ہے، چناچہ انسان کو اپنی بہت سی حالتوں کا تو علم ہی نہیں ہوتا اور جن کا علم ہوتا ہے ان میں بھی بعض اوقات نسیان یا ان سے ذہول ہوجاتا ہے اور حق تعالیٰ میں ان احتمالات کی گنجائش ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ جو علم ہر حالت میں ہو اس کا تعلق بہ نسبت اس کے کہ ایک حالت میں ہو زیادہ ہوگا، غرض علم الٰہی کا جمیع احوال انسانیہ کے ساتھ متعلق ہونا بھی ثابت ہوگیا، آگے اس کی مزید تاکید کے لئے یہ بیان فرمایا کہ انسان کے اعمال و احوال صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں محفوظ ہوں بلکہ ظاہری حجت تمام کرنے کے لئے وہ اعمال فرشتوں کے ذریعہ لکھوا کر بھی محفوظ کئے گئے، ارشاد ہے) جب دو اخذ کرنے والے فرشتے (انسان کے اعمال کو جب وہ اس سے صادر ہوتے ہیں) اخذ کرتے رہتے ہیں جو کہ داہنی اور بائیں طرف بیٹھے رہتے ہیں (اور برابر ہر عمل کو لکھتے رہتے ہیں، لقولہ تعالیٰ (آیت) ان رسلنا یکتبون ما تمکرون وقولہ تعالیٰ انا کنا نستنسخ ماکنتم تعملون۔ یہاں تک کہ سب اعمال میں خفیف انسان کی گفتگو اور کلام ہے، مگر اس کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار (موجود ہوتا) ہے (اگر وہ نیکی کا کلام ہو تو داہنے والا اس کو ضبط اور تحریر میں لاتا ہے، اگر بدی کا کلام ہو تو بائیں والا اور جب زبان سے نکلنے والا ایک ایک کلمہ محفوظ و مکتوب ہے تو دوسرے اعمال کیوں نہ ہوں گے) اور (چونکہ آخرت کی زندگی اور اعمال کی جزا و سزا سب کا مقدمہ موت ہے، اس لئے انسان کو منتبہ کرنے کے لئے آگے اس کا ذکر ہے، کیونکہ قیامت سے انکار و حقیقت موت سے غفلت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، ارشاد ہے کہ تو ہوشیار ہوجاؤ) موت کی سختی حقیقتہ ( قریب) آپہنچی (یعنی ہر شخص کی موت قریب ہے چناچہ ظاہر ہے) یہ (موت) وہ چیز ہے جس سے تو بدکتا (اور بھاگتا) تھا (موت سے بھاگناطبعی طور پر تو ہر نیک و بد میں یکساں ہے اور کافر فاجر کا موت سے بھاگنا بوجہ حب دنیا کے اور بھی زیادہ واضح ہے، کسی خاص بندہ پر اللہ سے ملنے کے شوق کا غلبہ ہو کر موت کا لذیذ اور مطلوب ہوجانا اس کے منافی نہیں کیونکہ وہ عالم عادت انسانی سے مافوق حالت ہے) اور (اس مقدمہ یعنی ذکر موت کے بعد اب وقوع قیامت کا بیان ہے، جو کہ مقصود تھا یعنی قیامت کے دن دوبارہ) صور پھونکا جائے گا (جس سے سب زیادہ ہوجائیں گے یہی دن ہوگا وعید کا (جس سے لوگوں کو ڈرایا جاتا تھا) اور (آگے قیامت کے ہولناک واقعات اور حالات کا بیان ہے) ہر شخص اس طرح (میدان قیامت میں) آوے گا کہ اس کے ساتھ (دو فرشتے ہوں گے جن میں) ایک (تو میدان قیامت کی طرف) اس کو اپنے ہمراہ لاوے گا اور ایک (اس کے اعمال کا) گواہ ہوگا (حدیث مرفوع میں ہے کہ یہ سائق اور شہید وہی دو فرشتے ہیں جو زندگی میں انسان کے دائیں اور بائیں اس کے اعمال کو لکھتے تھے (رواہ فی الدر) اور اگر یہ حدیث موافق شرائط محدثین کے قوی نہ ہو تو احتمال ہے کہ دو فرشتے اور ہوں جیسا کہ بعض قائل ہوئے ہیں گو اس صورت میں بھی بوجہ موافقت حدیث کے راجح احتمال اول ہی ہوگا اور جب وہ میدان قیامت میں حاضر ہوں گے تو ان میں جو کافر ہوں گے ان سے خطاب ہوگا کہ) تو اس دن سے بیخبر تھا (یعنی اس کا قائل نہ تھا) سو اب ہم نے تجھ پر سے تیرا پردہ (غفلت اور انکار کا) ہٹا دیا (اور قیامت کا معائنہ کرا دیا) سو آج (تو) تیری نگاہ بڑی تیز ہے (کہ کوئی امر مانع ادراک نہیں، کاش تو دنیا میں بھی اس مانع غفلت کو رفع کردیا تو تیرے دن بھلے ہوتے) اور ( اس کے بعد) فرشتہ (کاتب اعمال) جو اس کے ساتھ رہتا تھا (اور اب بھی ایک قول پر سالق یا شاہد بن کر آیا ہے نامہ اعمال حاضر کر کے) عرض کرے گا کہ یہ وہ (روزنامچہ) ہے جو میرے پاس تیار ہے (کذا فسر ہذا القرین بالملک ابن جریج والقرین الذی یلیہ یا لشیطان رواہ فی الدر) چناچہ اس روزنامچہ کے موافق کافروں کے بارے میں دو فرشتوں کو خواہ وہ سائق و شہید مذکور ہوں یا اور دو فرشتے ہوں، حکم ہوگا کہ) ہر ایسے شخص کو جہنم میں ڈال دو جو کفر کرنے والا ہو اور (حق سے) ضد رکھتا ہو اور نیک کام سے روکتا ہو اور حد (عبدیت) سے باہر ہوجانے والا ہو اور (دین میں) شبہ پیدا کرنے والا ہو، جس نے خدا کے ساتھ دوسرا معبود تجویز کیا ہو سو ایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو (جب کفار کو معلوم ہوگا کہ اب خسارہ ابدی میں پڑنے والے ہیں اس وقت اپنے بچاؤں کے واسطے گمراہ کرنے والوں کے ذمہ الزام رکھیں گے کہ ہمارا قصور نہیں ہمیں تو دوسروں نے گمراہ کیا ہے اور چونکہ ان گمراہ کرنے والوں میں شیاطین بھی داخل ہیں، اس لئے فرمایا کہ) وہ شیطان جو اس کے ساتھ رہتا تھا کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو (جبراً ) گمراہ نہیں کیا تھا جیسا کہ اس کے الزام رکھنے سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس کے اپنے اختیار کو بالکل دخل نہ ہو) لیکن ( بات یہ ہے کہ) یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں (باختیار خود) تھا ( گو اغواء میں نے بھی کیا جس میں کوئی جبر نہ تھا، اس لئے اس کی گمراہی کا اثر مجھ پر نہ ہونا چاہئے) ارشاد ہوگا کہ میرے سامنے جھگڑے کی باتیں مت کرو (کہ بےسود ہیں) اور میں تو پہلے ہی تمہارے پاس وعید بھیج چکا تھا ( کہ جو کفر کرے گا از خود یا کسی کے اغواء سے اور جو کفر کا حکم کرے گا خواہ اپنی مرضی سے یا کسی کے جبر سے سب کو جہنم کی سزا علیٰ تفاوت المراتب دوں گا سو) میرے ہاں (وہ) بات (وعید مذکور کی) نہیں بدلی جاوے گی (بلکہ تم سب دوزخ میں جھونکے جاؤ گے) اور میں (اس تجویز میں) بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں (بلکہ بندوں نے خود ایسے ناشائستہ کام کئے جس کی سزا آج بھگت رہے ہیں) معارف و مسائل سابقہ آیات میں منکرین حشر و نشر اور مردوں کے زندہ ہونے کو بعید از عقل و قیاس کہنے والوں کے شبہات کا ازالہ اس طرح کیا تھا کہ تم نے حق تعالیٰ کے علم کو اپنے علم و بصیرت پر قیاس کر رکھا ہے اس لئے یہ اشکال ہے کہ مردے کے اجزا مٹی ہو کر دنیا میں بکھرنے کے بعد ان کو کس طرح جمع کیا جاسکتا ہے، مگر حق تعالیٰ نے بتلایا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمارے علم میں ہے، ہمارے لئے ان سب کو جب چاہیں جمع کردینا کیا مشکل ہے، آیات مذکورہ میں بھی علم الٰہی کی وسعت اور ہمہ گیری کا بیان ہے کہ انسان کے اجزائے منتشرہ کا علم ہونے سے بھی زیادہ بڑی بات تو یہ ہے کہ ہم ہر انسان کے دل میں آنے والے خیالات کو بھی ہر وقت ہر حال میں جانتے ہیں اور اس کی وجہ دوسری آیت میں یہ بیان فرمائی کہ ہم انسان سے اتنے قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن جس پر اس کی زندگی کا مدار ہے وہ بھی اتنی قریب نہیں، اس لئے ہم اس کے حالات کو خود اس سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں اس کی تحقیق : (آیت) وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ، کا جمہور مفسرین نے یہی مطلب قرار دیا ہے کہ قرب سے مراد قرب علمی اور احاطہ علمی ہے قرب مسافت مراد نہیں۔ لفظ ورید عربی زبان میں ہر جاندار کی وہ رگیں ہیں جن سے خون کا سیلان تمام بدن میں ہوتا ہے، طبی اصطلاح میں یہ دو قسم کی رگیں ہیں، ایک وہ جو جگر سے نکلتی ہیں اور خالص خون سارے بدن انسانی میں پہنچاتی ہیں، طبی اصطلاح میں صرف انہی رگوں کو ورید اور جمع کو اور دہ کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ رگیں جو حیوان کے قلب سے نکلتی ہیں اور خون کی وہ لطیف بھاپ جس کو طبی اصطلاح میں روح کہا جاتا ہے وہ اسی طرح تمام بدن انسانی میں پھیلاتی اور پہنچاتی ہیں ان کو شریان اور شرائین کہا جاتا ہے، پہلی قسم کی رگیں موٹی اور دوسری باریک ہوتی ہیں آیت مذکورہ میں یہ ضروری نہیں کہ ورید کا لفظ طبی اصطلاح کے مطابق اس رگ کے لئے لیا جائے جو جگر سے نکلتی ہے، بلکہ قلب سے نکلنے والی رگ کو بھی لغت کے اعتبار سے ورید کہا جاسکتا ہے، کیونکہ اس میں بھی ایک قسم کا خون ہی دوران کرتا ہے اور اس جگہ چونکہ مقصود آیت کا انسان کے قلبی خیالات اور احوال سے مطلع ہونا ہے، اس لئے وہ زیادہ انسب ہے اور بہرحال خواہ ورید باصطلاح طب جگر سے نکلنے والی رگ کے معنی میں ہو یا قلب سے نکلنے والی شریان کے معنی میں، بہر دو صورت جاندار کی زندگی اس پر موقوف ہے، یہ رگیں کاٹ دی جائیں تو جاندار کی روح نکل جاتی ہے، تو خلاصہ یہ ہوا کہ جس چیز پر انسان کی زندگی موقوف ہے ہم اس چیز سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں یعنی اس کی ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور صوفیائے کرام کے نزدیک قرب سے مراد اس جگہ صرف قرب علمی اور احاطہ علمی ہی نہیں بلکہ ایک خاص قسم کا اتصال ہے، جس کی حقیقت اور کیفیت تو کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی، مگر یہ قرب و اتصال بلا کیف موجود ضرور ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) واسجد واقترب، یعنی ” سجدہ کرو اور ہمارے قریب ہوجاؤ “ اور ہجرت کے واقعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا اللہ معنا ” یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے فرمایا ان معی ربی ” یعنی میرا رب میرے ساتھ ہے “ اور حدیث میں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ سجدہ میں ہو، اسی طرح حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” میرا بندہ میرے ساتھ نفلی عبادات کے ساتھ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے “۔ یہ قرب و تقرب جو عبادات کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور انسان کے لئے کسب و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے وہ صرف مومن کے لئے مخصوص ہے اور ایسے مومنین اولیاء اللہ کہلاتے ہیں جن کو حق تعالیٰ کے ساتھ یہ تقرب حاصل ہو یہ اتصال و قرب اس قرب کے علاوہ ہے جو حق تعالیٰ کو ہر انسان مومن و کافر کی جان کے ساتھ یکساں ہے، غرض مذکورہ آیا و روایات اس پر شاہد ہیں کہ انسان کو اپنے خالق ومالک کے ساتھ ایک خاص قسم کا اتصال حاصل ہے گو ہم اس کی حقیقت اور کیفیت کا ادراک نہ کرسکیں، مولانا رومی نے اسی کو فرمایا ہے۔ اتصالے بےمثال و بےقیاس، ہست رب الناس رابا جان ناس یہ قرب و اتصال آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ فراست ایمانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے تفسیر مظہری میں اسی قرب و اتصال کو اس آیت کا مفہوم قرار دیا ہے اور جمہور مفسرین کا قول پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ اتصال سے مراد اتصال علمی اور احاطہ علمی ہے اور ابن کثیر نے ان دونوں معنی سے الگ ایک تیسری تفسیر یہ اختیار کی ہے کہ آیت میں لفظ سخن سے خود حق تعالیٰ کی ذات مراد نہیں بلکہ اس کے فرشتے مراد ہیں جو انسان کے ساتھ ہر وقت رہتے ہیں، وہ انسان کی جان سے اتنے باخبر ہوتے ہیں کہ خود انسان بھی اپنی جان سے اتنا باخبر نہیں ہوتا، واللہ اعلم۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۝ ٠ ۚ ۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۝ ١٦ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا...  [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا وسوس الوَسْوَسَةُ : الخطرةُ الرّديئة، وأصله من الوَسْوَاسِ ، وهو صوت الحلي، والهمس الخفيّ. قال اللہ تعالی: فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه/ 120] ، وقال : مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس/ 4] ويقال لهمس الصّائد وَسْوَاسٌ. ( وس وس ) الوسوسۃ اس برے خیال کو کہتے ہیں جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اصل میں سے ماخوز ہے جس کے معنی زیور کی چھنکار یا ہلکی سی آہٹ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه/ 120] تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس/ 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سنکر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور وسواس کے معنی شکار ی کے پاؤں کی آہٹ کے بھی آتے ہیں ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے حبل الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين : - عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» . والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة . ( ج ب ل ) الحبل ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد/ 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران/ 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران/ 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ وَرِيدُ : عرقٌ يتّصل بالکبد والقلب، وفيه مجاري الدّم والرّوح . قال تعالی: وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] أي : من روحه . والوَرْدُ : قيل : هو من الوارِدِ ، وهو الذي يتقدم إلى الماء، وتسمیته بذلک لکونه أوّل ما يَرِدُ من ثمار السّنة، ويقال لنَوْرِ كلِّ شجرٍ : وَرْدٌ ، ويقال : وَرَّدَ الشّجرُ : خرج نَوْرُهُ ، وشبّه به لون الفرس، فقیل : فرسٌ وَرْدٌ ، وقیل في صفة السماء إذا احمرّت احمراراً کالوَرْدِ أمارةً للقیامة . قال تعالی: فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن/ 37] . الورید ۔ رگ جس کا تعلق جگر اور دل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ خون اور روح کا مجری بنتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں ۔ یعنی اس کی روح سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ الودر اصل میں گل سرخ کو کہتے ہیں اور یہ وارد سے ہے جس کے معنی قافلے سے پہلے پانی پر آنے والا کے ہیں مشہور ہے کہ گلاب کا پھول تمام پھولوں سے پہلے ظاہر ہوتا ہے اس لئے اسے قرد کہا جاتا ہے پھر ہر در خت کے پھول کو مجازا ورد کہہ دیتے ہیں چناچہ در خت کے پھولدار ہونے پر درد الشجرۃ بولا جاتا ہے پھر گھوڑے کے رنگ کو بھی گل سرخ کے ساتھ تشبیہ دے کر فرس ورد کہاجاتا ہے ۔ اور آثار قیامت کے طور پر جب آسمان سرخ ہوجائیگا تو اسے بھی قرآن نے وردۃ کہا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن/ 37] تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا ( تو کیسا ہولناک دن ہوگا )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے تمام اولاد آدم کو یا یہ کہ ابو جہل کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات آتے ہیں ہم ان کو بھی جانتے ہیں سو ہم علم اور قدرت کے اعتبار سے انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ کیونکہ اس رنگ میں انسان کو بااعتبار روح کے قریب زائد ہوتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان مرجاتا ہے او... ر حبل اور ورید دونوں ایک ہی ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج } ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ۔ “ یہ اس قوت شرکا ذکر ہے جو انسان کے اندر ہے۔ نفس انسانی کے شر کا ذکر سورة یوسف میں یوں آیا ہے : { وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج ... اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ } ” اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ‘ یقینا (انسان کا) نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ فطری طور پر انسان کے اندر داعیہ خیر بھی ہے اور داعیہ شر بھی۔ انسان کی اندرونی قوت شر کو سورة یوسف کی اس آیت میں ” نفس ِامارہ “ کا نام دیا گیا ہے ۔ فرائیڈ اسے id یا libido کہتا ہے۔ دوسری طرف انسان کے اندر خیر کی قوت اس کی روح ہے جس کا مسکن قلب انسانی ہے۔ انسان کی روح اسے بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس داعیہ یا قوت کو فرائیڈ super ego کا نام دیتا ہے ‘ یعنی ego (انسانی انا) کا اعلیٰ درجہ ۔ فرائیڈ کے دیے ہوئے یہ عنوانات تو کسی حد تک ہمارے لیے قابل قبول ہیں ‘ لیکن ان عنوانات کی تشریح جو اس نے کی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اس حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ مغربی سائنسدان اور فلاسفرز سب کے سب ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ وہ صرف ” عالم خلق “ یعنی اسباب و علل کی دنیا سے واقف ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی دنیا کے اسرار و رموز کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے تحقیق و تفتیش کے ایسے معیار قائم کیے ہیں کہ انسانی عقل واقعی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ” عالم امر “ کے بارے میں وہ بالکل اندھے اور کورے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں روح ‘ وحی اور فرشتے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” انسان “ کے بارے میں ان کے فلسفیانہ تجزیے اکثر درست نہیں ہوتے۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں انسان کے اندر موجود قوت شر (نفس امارہ) کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس اسے جو پٹیاں پڑھاتا ہے اس کی تفصیلات اس کے خالق سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ۔ } ” اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ “ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی کیفیت اور نوعیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان سکتے ‘ بقول شاعر یہ قرب ” بےتکیف و بےقیاس “ ہے : ؎ اتصالے بےتکیف بےقیاس ہست ربّ الناس را با جانِ ناس سورة الحدید کی آیت ٤ میں بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : { وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ } کہ تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم اس ” معیت “ کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر بھی ہے ‘ اس کا چہرہ کیسا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں ۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ وہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے معاملات میں خواہ مخواہ کا تجسس ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں آخری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ” عالم امر “ اور اس کی کیفیات ہماری سمجھ سے وراء الوراء ہیں۔ ہم اپنے حواس خمسہ اور عقل و شعور کے ذریعے جو علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا تعلق ” عالم خلق “ سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی ” دائرے “ میں رہتے ہوئے ‘ سوچیں سمجھیں ‘ تحقیق کریں ‘ نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کو بروئے کار لائیں۔ دوسری طرف ” عالم امر “ سے متعلق جو معلومات وحی کے ذریعے ہم تک پہنچیں انہیں من وعن تسلیم کرلیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٣٦ کے الفاظ { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ } میں اسی طرزعمل کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ اس قرب کی منطق اور کیفیت کے بارے میں ہمیں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 After presenting the arguments for the Hereafter, it is being stated: `Whether you believe in the Hereafter, or deny it, it has to come in any case, and it is such a factual reality, which will certainly come about in spite of your denial. If you heed the warning given by the Prophets in advance and prepare for it, you will be doing good to yourselves; if you do not believe in it, you will be i... nviting your own doom. Your denial will not prevent the Hereafter from taking place and God' s Law of justice will not became suspended. " 20 That is, "Our power and Our knowledge has so encompassed man from within and without that Our power and knowledge is closer to him than his own neck-vein. We do not have to travel from a distance to hear what he says, but We directly know every thought that arises in his heart. Likewise, when We shall want to seize him, We will not have to seize him after covering a distance, for wherever he is, he is in Our grasp; and whenever We will, We will seize him."  Show more

سورة قٓ حاشیہ نمبر :19 آخرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم چاہے اس آخرت کو مانو یا اس کا انکار کرو ، بہرحال اس کو آنا ہے اور یہ ایک ایسا امر واقعہ ہے جو تمہارے انکار کے باوجود پیش آکر رہے گا ۔ انبیاء کی پیشگی تنبیہ کو مان کر اس وقت کے لیے پہلے سے تیاری کر لو گے تو اپنا بھل... ا کرو گے ۔ نہ مانو گے تو خود ہی اپنی شامت بلاؤ گے ۔ تمہارے نہ ماننے سے آخرت آتے آتے رک نہیں جائے گی اور خدا کا قانون عدل معطل نہ ہو جائے گا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :20 یعنی ہماری قدرت اور ہمارے علم نے انسان کا اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے ۔ اس کی بات سننے کے لیے ہمیں کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا ، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کو ہم براہ راست جانتے ہیں ۔ اسی طرح اگر اسے پکڑنا ہوگا تو ہم کہیں سے آ کر اس کو نہیں پکڑیں گے ، وہ جہاں بھی ہے ہر وقت ہماری گرفت میں ہے ، جب چاہیں گے اسے دھر لیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٦۔ ٢٢۔ اوپر کی آیتوں میں ذکر تھا کہ انسان کے مرجانے کے بعد جنگل میں دریا میں جہاں کہیں اس کی خاک ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی جگہ کی خاک باہر نہیں ہے ان آیتوں میں فرمایا کہ خاک تو ظاہر آنکھوں سے نظر آتی ہوئی چیز ہے اللہ تعالیٰ کا علم تو ایسا بڑا ہے کہ وہ انسان کے دل کے خطرے تک کو جانتا ہے۔ صحیح ... مسلم ٣ ؎ کی حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ ہر ایک انسان کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان تعینات رہتا ہے فرشتہ نیک کام کرنے کا خیال دل میں ڈالتا رہتا ہے اور شیطان بد کام کرنے کا وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس صحیح حدیث کو اس آیت کی تفسیر قرار دیا ہے اور معنی آیت کے یہ کئے ہیں کہ اس فرشتہ کے الہام یا شیطان کے وسوسہ کے سبب سے جو کچھ نیک و بد خیال آدمی کے دل میں آتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہے حبل الورید گردن کی وہ رگ ہے۔ جس کے کٹ جانے سے آدمی مرجاتا ہے۔ صحیحین ٤ ؎ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے جو حدیث قدسی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جس وقت کوئی شخص کسی نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فقط اس دل کے نیک ارادہ پر کراماً کاتبین کو ایک نیکی کے لکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اور جب وہ شخص اس نیک ارادہ کے موافق نیک کام کرلیتا ہے تو جیسا وہ کام ہو دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرچہ کراماً کاتبین انسان کے قریب اور ہر وقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب کی رو سے بہ نسبت ان فرشتوں کے انسان سے زیادہ نزدیک ہے کہ انسان کے دل کا ارادہ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے بتانے اور جتلانے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہی صحیح حدیث اس آیت کی تفسیر ہے اور یہی آیت کے صحیح معنی ہیں حدیث قدسی جو اوپر گزری اس میں ذکر تھا کہ نیک ارادہ سے جب کوئی شخص کوئی نیک کام کرلیتا ہے تو خلوص نیت کے موافق دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں کراماً کاتبین لکھتے ہیں۔ اب آگے اس آیت میں فرمایا کہ ہاتھ پیروں کے عمل کی طرح آدمی کے منہ سے جو نیک و بد بات نکلے وہ بھی لکھی جاتی ہے جو جزا و سزا سے متعلق ہیں۔ علی بن طلحہ (رح) کے واسطے سے جو امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھی تو سب باتیں جاتی ہیں۔ مگر ہر جمعرات کو ان میں سے وہ باتیں چھانٹ لی جاتی ہیں جو جزا و سزا سے متعلق ہیں اس تفسیر کے مقدمہ میں اس کا ذکر کردیا گیا ہے کہ علی بن طلحہ (رض) کے واسطے سے جو روایت حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی ہوتی ہے وہ تفسیر کے باب میں نہایت صحیح روایتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ آیت کے لفظ مایلفظ من قول ایسے عام ہیں کہ ان سے بھی حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ مستدرک ٢ ؎ حاکم میں ام عصمۃ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی شخص گناہ کرکے جلدی سے دو تین گھڑی میں توبہ استغفار کرلے تو اس کے اعمال نامہ میں وہ گناہ نہیں لکھا جاتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم سے بدی لکھنے والا فرشتہ بدی کے لکھنے میں تھوڑی دیر توقف کیا کرتا ہے اور گناہ گار کی توبہ استغفار کا منتظر رہتا ہے۔ حاکم نے اس حدیت کو صحیح کہا ہے۔ بیہقی ٣ ؎ میں زبیر (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو یہ منظور ہو کہ قیامت کے دن وہ اپنے اعمال نامہ کو دیکھ کر خوش ہو تو وہ شخص استغفار کو اپنے اعمال نامہ میں بڑھائے۔ بیہقی کی سند میں کچھ اعتراض نہیں ہے اب آگے دو فرشتوں کے تعینات ہونے کا اور آدمی کے قول فعل کے لکھے جانے کا سبب فرمایا کہ دنیا میں انسان کا رہنا چند روز ہے پھر آخر کو موت ہے اور پھر دوبارہ زندہ کرکے اس کو اس کے اعمال کے موافق جزا و سزا دی جائے گی۔ سکر نشہ کو کہتے ہیں۔ موت کے وقت آدمی پر نشہ کی بےہوشی چھا جاتی ہے اس لئے موت کی شدت کو سکرات کہتے ہیں۔ مسند ٤ ؎ امام احمد اور طبرانی کی اوسط میں معتبر سند سے انس کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے لئے دنیا میں موت کی سختی سے بڑھ کر کوئی سختی نہیں ہے لیکن موت کے بعد جو سختیاں انسان کو پیش آنے والی ہیں وہ موت سے بھی زیادہ سخت ہیں یہ اس لئے فرمایا کہ موت کی سختی سے آخر آدمی کی جان نکل جاتی ہے ‘ عذاب قبر اور عذاب دوزخ میں سختی بھی ہوگی اور جان بھی نہیں نکلنے کی ذلک ما کنت منہ تحید کی تفسیر میں علی بن طلحہ کے واسطے سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ برے لوگوں کا حال ہے براء بن عازب کی صحیح حدیث جو اوپر مسند ١ ؎ امام احمد ابو داؤود وغیرہ کے حوالہ سے (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب مایقال عند من حضرہ الموث ص ١٤٢ الفصل الثالث۔ ) گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ برے لوگوں کو نزع کے وقت جب عذاب کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی ناخوشنودی اور طرح طرح کے عذاب کی خبر سناتے ہیں تو ان لوگوں کی روح جسم میں جگہ جگہ چھپتی پھرتی ہے۔ آخر بڑی سختی سے فرشتے ان لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں اسی طرح اچھے لوگوں کو آخری وقت پر جب رحمت کے فرشتے اللہ کی رضا مندی اور جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دیتے ہیں تو وہ لوگ موت سے نہیں گھبراتے۔ بلکہ مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ صحیح ٢ ؎ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی حدیث میں اتنا اور زیادہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے رو برو حاضر ہونے کا دل میں شوق رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے شوق کو پورا کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے رو برو حاضر ہونے سے گھبراتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کو اپنی بارگاہ میں بلانا نہیں چاہتا۔ آپ کا یہ ارشاد سن کر حضرت عائشہ (رض) نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موت سے تو ہم سب گھبراتے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا شوق نہیں ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا جواب دیا کہ تندرستی کی حالت میں موت سے گھبرانا مقصود نہیں ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہی مضمون فرمایا جو براء بن عازب (رض) کی حدیث کا ہے۔ صحیح ٣ ؎ مسلم میں ابی امامہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا تم لوگوں کو یہ اچھی طرح سے معلوم رہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا تو وہ بعد موت کے دیکھے گا۔ موت سے پہلے دنیا کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اسی بنا پر موت کو بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونے کا وسیلہ جان کر حضرت عائشہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ استفسار کیا تھا جس کا ذکر مع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب کے اوپر گزرا۔ ان حدیثوں سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ آیت میں موت سے گھبرانے کی مذمت ہے۔ اور ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تندرستی کی حالت میں موت سے گھبرانے کی مذمت شرع میں نہیں ہے بلکہ آخری وقت پر گھبرانے کی مذمت ہے۔ اور گھبراہٹ عقبیٰ کے منکر یا عقبیٰ سے غافل لوگوں کو ہوتی ہے اچھے لوگوں کو نہیں ہوتی۔ ان حدیثوں سے علما نے یہ مطلب بھی نکالا ہے کہ آخری وقت پر جو قریب المرگ بیمار خوش نظر آئے تو یہ علامت اس کی نجات کی ہے ورنہ مواخذہ کی۔ آئی بےہوشی موت کی تحقیق کا مطلب اوپر کی حدیثوں کے موافق یہ ہے کہ اس وقت فرشتوں کے جتلانے سے ہر شخص کو حق حق تحقیق کے طور پر اپنا عقبیٰ کا انجام معلوم ہوجاتا ہے۔ صور کا کچھ حال تو سورة زمر میں گزر چکا ہے اور کچھ عم یتساء لون میں آئے گا۔ حاصل یہ ہے کہ صور کے پھونکے آنے سے پہلے شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا آئے گی جس سے ایسے سب آدمی مرجائیں گے جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ اس ٹھنڈی ہوا کا ذکر ١ ؎ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ (رض) وغیرہ کی روایتوں میں ہے جو مفسر اس ہوا کو بھی صور گنتے ہیں وہ پہلے صور کا دوسرا صور شمار کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اسی دوسرے صور سے تمام دنیا اجڑ جائے گی اور تیسرے صور سے سب جی اٹھیں گے اور جو مفسر اس ہوا کو صور نہیں کہتے ان کے نزدیک پہلے صور سے دنیا اجڑے گی اور دوسرے صور سے سب جی اٹھیں گے۔ بہرحال ان آیتوں میں آخری صور کا ذکر ہے کیونکہ اس صور کے بعد قیامت کا حال ہے۔ وعید عذاب کے وعدے کو کہتے ہیں اور وعدہ ثواب کے وعدے کو کہتے ہیں۔ اگرچہ قیامت کے دن عذاب وثواب دونوں کا ظہور ہوگا لیکن یہاں عذاب سے ڈرانا مقصود تھا اس لئے فقط وعید کا لفظ فرمایا۔ قیامت کے دن ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے ہوں گے۔ ایک اللہ تعالیٰ کے رو برو لے جانے والا اور دوسرا عملوں کی گواہی دینے والا۔ قرآن و حدیث میں قیامت کے دن کی جن باتوں کا ذکر ہے اس دن وہ سب باتیں انسان کے رو برو آجائیں گی اسی کو فرمایا کہ اس دن انسان کی آنکھوں کے سامنے کا پردہ اٹھ جائے گا اور قیامت کے سب حالات دیکھنے کے لئے اس کی نگاہ خوب تیز ہوجائے گی۔ (٣ ؎ صحیح مسلم باب تحریش الشیطن و بعثہ سرایاہ الخ جلد ٢ ص ٣٧٦۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب من ھم بحسنۃ او سیئۃ ص ٩٦٠ ج ٢ و صحیح مسلم باب بیان تجاوز اللہ تعالیٰ عان حدیث النفس ص ٧٧ جلد ١۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٢٤ ج ٤۔ ) (٢ ؎ الترغیب و الترہیب باب فی الاستفغار ص ٨٠٢۔ ) (٣ ؎ الترغیب و الترہیب باب فی الاستفغار ص ٨٠٢۔ ) (٤ ؎ مسند احمد ج ٢ ص ١٥٤۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب من احب لقاء اللہ احب اللہ لقاء ہ ص ٩٦٣ ج ٢۔ ) (٣ ؎ فتح الباری تفسیر سورة النجم ص ٣٤٧ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ص ٤٠٣ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:16) ولقد واؤ عاطفہ۔ لام تاکید کا ۔ قد ماضی کے ساتھ تاکید کے معنی دیتا ہے لقد بلاشبہ، تحقیق ، بےشک۔ ما توسوس بہ نفسہ : ما موصولہ ۔ باقی جملہ اس کا صلہ۔ توسوس مضارع واحد مؤنث غائب۔ وسوسۃ (فعللۃ) مصدر جس کے معنی بری بات کے جہ میں ڈالنے کے ہیں۔ وہ وسوسہ ڈالتی ہے وہ خیال ڈالتی ہے۔ نفسہ مضاف مضاف ... الیہ اس کا نفس ، ہ ضمیر انسان کی طرف راجع ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں اس کا نفس جو وسوسے ڈالتا ہے۔ اقرب الیہ۔ اقرب قرب سے افعل التفضیل کا سیغہ ہے زیادہ قریب ، زیادہ نزدیک۔ الیہ میں ضمیر واحد مذکر غائب الانسان کے لئے ہے۔ حبل الورید، مضاف مضاف الیہ ۔ حبل بمعنی رسی۔ ورید گردن کی رگ۔ شہ رگ جس میں جان پھرتی ہے اس کے کٹنے سے موت ہے۔ چونکہ رگ بھی ہیت میں رسی ہے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید کہتے ہیں۔ یہ اضافت بیانیہ ہے جیسے یوم الجمعۃ۔ گلے کے دائیں بائیں دو رگیں ہیں جن کا تعلق اور اتصال دل کی رگ سے ہے ان دونوں کو ورید کہا جاتا ہے ورید کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ دونوں سر سے اتر کر گردن کی طرف آتی ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 شاہ صاحب لکھتے ہیں ” گردن کی رگ مراد ہے جس میں جا نپھرتی ہے دل سے دماغ تک اس کے کٹنے سے موت ہے اللہ اندر سے نزدیک ہے اور رگ آخر باہر سے جان سے (موضح) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہاں ہم سے مراد فرشتے ہیں۔ (دیکھیے سورة واقعہ آیت 85)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٦ تا ٢٩۔ اسرار ومعارف۔ ہم نے انسان کو پیدا کیا اس کی ایک ایک صفت اس میں پیدا کی لہذا اس کے دل میں بھی جو خیال گزرتا ہے ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ شہ رگ سے قریب تر ہونا۔ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں مفسرین کرام کے مطابق یہاں قرب علمی مراد ہے کہ بات اس کے احوال اور دل میں گزرنے والے خیا... لات تک کی ہورہی ہے قرب مسافت مراد نہیں کہ اس کی ذات اس سے بہت بلند اور پاک ہے مگر تفسیر مظہری میں صوفیائے کرام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ احاطہ عملی بھی ہر شے سے ہے اور انسان کے ساتھ ایک خاص قسم کا اتصال بلاکیف موجود ہے جس کی کیفیت کوئی نہیں جانتا جس کے دلائل قرآن حدیث میں موجود ہیں اور جس پر مولوی رومی نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ اتصالے بےتکیف وبے قیاس ، ہست رب الناس راباجان ناس۔ اور قرب جو عبادت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے وہ صرف مومن کے لیے خاص ہے اور ایسے مومن اولیاء اللہ کہلاتے ہیں یہ اس کے علاوہ ہے جو اللہ ہر مومن وکافر کی جان کے ساتھ یکساں ہے اور یہ قدرت تو اللہ کی ہے اتمام حجت کے لیے دو فرشتے بھی مقرر فرمارکھے ہیں جو اس کے دائیں اور بائیں ہر آن موجود ہیں اور اس کا ہر فعل لکھتے جا رہے ہیں کہ دائیں والافرشتہ نیک اعمال لکھتا ہے اور بائیں والابرے۔ یہاں تک کہ جو لفظ بھی انسان کے منہ سے نکلے یہ نگران فرشتے محفوظ کرلیتے ہیں جو روز محشر پیش کیے جائیں گے اور پھر موت کی بےہوشی یاسکرات موت تمام حقائق سے پردہ ہٹادیتی ہے اور مومن وکافر کو سب وہ حقائق نظر آنے لگتے ہیں یہی وہ لمحہ اور وہ حال ہے انسان جس سے بچنے کے جتن کیا کرتا تھا اگرچہ بعض اہل اللہ کو موت محبوب بھی ہو مگر انسانی مزاج کے اعتبار سے تو انسان ہمیشہ زندہ رہنے کے حیلے کرتا ہی رہتا ہے اور کافر و بدکار تو اس لمحے سے بہت گھبراتا ہے اور اسے یاد کرنا بھی گوارا نہیں کرتا ، پھر یوم حشر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو ہر انسان کو وہاں حاضر ہونا ہوگا اور ہر ایک کے ساتھ دو فرشتے ہوں گے ایک اسے لانے والا کہ سائق ہانک کر لانے والے کو کہاجاتا ہے اور دوسرا جن کے پاس اس کا اعمال نامہ ہوگاجو اس پر گواہ ہوگا اور کافر سے کہاجائے گا کہ تو اس حال سے غافل وبے خبر تھا اور اس پر ایمان ہی نہیں لارہا تھا سو آج ہم نے تیری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نگاہ میں قوت دے دی کہ سب حقائق آخرت فرشتے جنت دوزخ ہر شے کو تودیکھ سکتا ہے۔ مرنے کے بعد انسانی کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ موت کے بعد تو حجابات اٹھ جاتے ہیں اور ہر انسان کو یہ حقائق نظر آنے لگتے ہیں مومن ہو یا کفر نیک ہو یا بد چونکہ امتحان کی جگہ تو دنیا ہے جہاں اسے یہ حقائق اللہ اور اس کے رسول کے بتانے پر مان کر اور ایمان بالغیب لاکر اطاعت الٰہی اختیار کرنا تھی اور مومن کو جب برکات نبوی نصیب ہوں اور اس کا قلب منور ہوتودل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور دنیا میں ان حقائق کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے جسے کشف کہا جاتا ہے حضرت علی کا ارشاد کہ اگر آخرت سے حجاب ہٹـادیے جائیں تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوگی یعنی ہر شے وہی ہے جو پہلے دیکھی بھالی ہے اور اہل اللہ کا کشف تواتر سے ثابت ہے۔ جو راہ حق پہ استقامت اور برائی سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے چناچہ ہر انسان کے ساتھ رہنے والا فرشتہ اس کا اعمال نامہ پیش کرکے عرض کرے گا کہ یہ اس کی ساری کمائی اور پونجی ہے جو میں نے حاضر کردی تو حکم ہوگا کہ کافر کو اس کے شیطان سمیت جو اسے برائی پر اکساتارہا جہنم میں پھینکاجائے ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی ہوتا ہے جسے قرین شیطان کہا جاتا ہے۔ قرین شیطان۔ حضرت استاذناالمکرم (رح) کی تحقیق کے مطابق یہی وہ شیطان ہے جو عام شیطانوں کے علاوہ ہے اور ہر آدمی کے ساتھ ایک شیطان رہتا ہے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ کے ساتھ بھی تو فرمایا ہاں مگر میرے ساتھ جو ہے وہ مسلمان ہوچکا ہے اور مجھ پر ایمان لایا ہے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے کہ شیطان کو بھی ساتھ نصیب ہو تو ایمان نصیب ہوجائے بہرحال یہ طویل العمر ہوتے ہیں اور انسان کے مرنے کے مدتوں زندہ رہتے ہیں عموما اس کی قبر یاوجود کے ذرات جہاں ہوں وہاں رہتے ہیں یہی وہ ہیں جنہیں یورپ والے یایوگی وغیرہ روح کا نام دیے ہیں اور عملیات کے ذریعے ارواح کو حاضر کیا جاتا ہے کہ روح کا آنا تو ممکن نہیں نجات میں ہے تو اللہ اسے ایسی خرافات سے بچاتا ہے عذاب میں ہے تو اسے کون آنے دے گا لہذا عامل جو ارواح حاضر کرتے ہیں دراصل قرین شیطان ہی ہوتے ہیں اور روز حشر کافر اپنے قرین سمیت جہنم میں جھونکاجائے گا کہ یہ سخت ناشکرگزار تھا اور نہ صرف خود بدکار تھا بلکہ دوسروں کو بھی نیکی کی راہ سے اور دین سے روکتا تھا اور حد سے بڑھا ہوا تھا۔ دین پر اعتراضات بنا بناکر لوگوں کو شبہ میں ڈالتا تھا سو جس جس نے بھی اللہ کے ساتھ دوسرے معبود گھڑ رکھے تھے اور اپنی امیدیں غیر اللہ سے ایسے وابستہ کررکھی تھیں کہ اللہ کی نافرمانی کرکے ان کی اطاعت کرتے تھے سب کو بہت ہی سخت عذاب میں ڈالا جائے گا اس وقت قرین شیطان چلائے گا کہ اللہ اس کے گناہوں کا بوجھ مجھ پر مت ڈالیے یہ خود ہی بڑا بدکار تھا میں نے اسے برائی پہ نہیں لگایا تھا کہ محض رائے دی تھی مجھے کچھ اختیار تو نہ تھا یہ برائی نہ کرتا بھلا میں زبردستی تو نہیں کراسکتا تھا تو ارشاد ہوگا اب اس بارگاہ میں تمہارا جھگڑنا لاحاصل ہے میں نے تم سب کو پہلے سے ان عذابوں کو خبر دے دی تھی کہ کفر پر اور برائی پر ایسا ایسا پھل لگے گا اب وہی ہوگاجس کا فیصلہ پہلے سنادیا گیا تھا کہ میرے فیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے اور نہ ہی میں نے کسی پر زیادتی کی ہے ہر فیصلہ عین انصاف ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 16 تا 29 : توسوس (چپکے سے وسوسہ ڈالتا ہے) ‘ حبل الورید (شہہ رگ) ‘ قعید (بیٹھا ہوا) ‘ ما یلفظ ( کوئی لفظ نہیں نکلتا) ‘ رقیب (نگہبان۔ نگرانی کرنے والا) سکرۃ الموت (موت کی بےہوشی) ‘ تحید (کتراتا ہے) ‘ یوم الوعید ( ڈرنے کا دن) ‘ سائق (چلانے والا) ‘ غطائ (پردہ) ‘ حدید (بہت تیز) ‘ ق... رین (ساتھی) ‘ لدی (میرے پاس) القیا (تم دونوں ڈال دو ) ‘ عنید (ضدی) ‘ مناع ( روکنے والا) ‘ معتد (حد سے آگے بڑھ جانے والا) ‘ مریب (شک و شبہ ڈالنے والا) ‘ اطغیت (میں نے سرکشی کی) ‘ لاتختصموا (تم نہ جھگڑو) ۔ تشریح : آیت نمبر 16 تا 29 : ان آیات میں موت اور قیامت کے ہولناک دن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جو کفار دنیا میں غرورو تکبر کا پیکر بنے ہوئے تھے اور وہ نبیوں کی بات بھی نہ مانتے تھے ان کو اپنے کرتوتوں کی سزا اور اگر کسی نے بہترین اعمال کئے ہوں گے تو ان کو ان کے تصور سے زیادہ انعامات سے نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس کے دل میں پیدا ہونے والے ہر خیال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ رگ جان جس پر انسانی زندگی کا دار و مدار ہے وہ اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہم اس سے قریب ہیں۔ اس کی اندرونی کیفیات کو معلوم کرنے کے لئے ہمیں کہیں جانے اور کسی ذریعہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے دل و دماغ میں جو بھی خیالات آتے ہیں یا وہ عمل کرتا ہے وہ ہماری نظر میں ہے۔ فرمایا کہ ہم نے اس کے دائیں اور بائیں ایسے فرشتے مقرر کئے ہوئے ہیں جو اس کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ اور اس کے کئے ہوئے ہر کام سے واقف ہیں اور وہ اس کو برابر لکھتے چلے جارہے ہیں۔ جب اس پر اس موت کی بےہوشی اور غشی طاری ہوجائے گی جس موت سے وہ بھاگتا اور موت کے نام سے بد کتا تھا وہ اس کو آکر رہے گی۔ اس سے بچنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ موت کا وہ دروازہ ہے جس سے سب کو گذرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد اس کو اللہ کی بار گاہ میں حاضر ہو کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوا۔ اسی طرح وہ جس قیامت کا یقین نہیں کرتا تھا وہ بھی آکر رہے گی۔ جیسے ہی اللہ کے حکم سے صور میں پھونک ماری جائے گی اور قیامت قائم ہوجائے گی تو وہی دونوں فرشتے جو اس کے دائیں بائیں اس کے اعمال لکھ رہے تھے ان میں سے ایک تو اس کا فر کو ہانکتا ہوا جہنم کی طرف لے جائے گا اور دوسرا فرشتہ اس کے تمام اعمال کا ریکارڈ لئے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ ہوگا۔ فرشتے کہیں گے کہ دنیا میں تیری آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے تھے اور تو دیکھ کر بھی اور سن کر بھی اس کا یقین نہیں کرتا تھا آج غفلت کے سارے پردے تیری آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے ہیں اور آج تیری نظریں ہر چیز کو صاف صاف دیکھ رہی ہیں۔ جو فرشتہ اس کے ساتھ رہتا تھا وہ اس کا نامہ اعمال سامنے رکھ کر کہے گا کہ یہ ہیں تیرے وہ اعمال اور کرتوت جنہیں تو دنیا میں کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان جیسے تمام نافرمانوں کو جہنم میں جھونک دینے کا حکم دیں گے جو (1) حق آنے کے باوجود اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ (2) اللہ کی ناشکری جن کا شیوہ بن چکا تھا۔ (3) وہ ہر بھلائی کے راستے سے دوسروں کو روکتے تھے۔ (4) غرور وتکبر کا پیکر بنے ہوئے تھے۔ (5) حد سے نکل جانے والے تھے) ۔ (6) ہر چیز میں شکو شبہ پیدا کرتے تھے۔ (7) ایک اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے تھے۔ حکم ہوگا کہ آج ان کو جہنم میں جھونک دو ۔ اللہ تعالیٰ شیطان سیفرمائیں گے کہ کیا تو نے ان کو بہکایا تھا۔ وہ کہے گا کہ الہیٰ ! میں نیان کو گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تو خود ہی گمراہی کو اپنے گلے میں ڈالے پھرتے تھے۔ ادھر کفار شیطان پر الزام لگاتے ہوئے کہیں گے کہ ہمیں اس نے بہکایا تھا اس کو پوری پوری سزادی جائے اور ہمیں معاف کردیا جائے۔ جب ان دونوں میں جھگڑا بڑھ جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اب آپس میں جھگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے تو اپنے پیغمبروں کے ذریعہ تمہیں پہلے ہی آگاہ اور خبردار کردیا تھا اور تمہیں اپنے فیصلے سے مطلع بھی کردیا تھا۔ وہ میرا فیصلہ اٹل اور ناقابل تبدیل ہے۔ ہم کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں کیا کرتے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ ہوا کہ ہم باعتبار علم کے اس کی روح اور نفس سے بھی نزدیک تر ہیں، یعنی جیسا علم انسان کو اپنے احوال کا ہے ہم کو اس کا علم خود اس سے بھی زیادہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے انکار کے پیچھے منکرین قیامت کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ اس طرح ہمارے گناہ چھپ جائیں گے انہیں یہ بات باور کروائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ انسان کے دل میں خیالات ابھرتے اور جذبات پائے ... جاتے ہیں اور وہ انسان کی شہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ انسان جو کام کرتا ہے اس کے دائیں بائیں ساتھ رہنے والے فرشتے اس کی ہر بات اور کام کو ضبط تحریر میں لائے جاتے ہیں۔ انسان کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلتا مگر اسے لکھنے والا ہر وقت موجود ہوتا ہے جو اسے رات دن تحریر کرتارہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خالق، نگران اور انسان کی شہ رگ سے قریب تر ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے لیے تین مرتبہ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے۔ جمع کی ضمیر میں ایک رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے جس میں انسان کو بار بار احساس دلایا گیا ہے کہ ہم نے تجھے پیدا کیا ہے، ہم تیرے دل کے احساسات اور جذبات کو جانتے ہیں اور ہم تیری شہ رگ سے بھی زیادہ تیرے قریب ہیں اور جو کچھ بھی تو کرتا ہے ہمارے ملائکہ اسے لکھتے جارہے ہیں۔ جسے قیامت کے دن مَن وعن تیرے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ انسان کو اس بات کا جتنا احساس اور خیال رہے گا اتنا ہی انسان اپنے رب کے تابع فرمان رہے گا۔ یہ خیال اور عقیدہ جتنا کمزور ہوگا اتنا ہی انسان اپنے رب کا نافرمان اور باغی ہوتا جائے گا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے انسان کے قریب ہونے کا تعلق ہے وہ اپنے علم، اختیار اور اقتدار کے اعتبار سے انسان کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہے لیکن اپنی ذات کے اعتبار سے وہ عرش معلی پر جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی ذات کو لائق ہے۔ (البقرۃ : ٢٩، طہٰ : ٥) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے پاس رات اور دن کو آگے پیچھے فرشتے آتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تو وہی آدم (علیہ السلام) ہے۔ جس نے اپنی اولاد کو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا : تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہے جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے لیے چن لیا۔ پھر مجھے اس معاملے میں ملامت کر رہا ہے جو میری پیدائش سے پہلے لکھا جا چکا تھا۔۔ “ (صحیح بخاری : کتاب بدء الوحی) ” حَبْلِ الْوَرِیْدِ “ کا معنٰی ہے گردن کی رگ۔ مسائل ١۔ ” اللہ “ ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کے دل کے خیالات کو جانتا ہے اور وہ اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے مقرر رکھے ہیں جن کا نام کراماً کاتبین ہے۔ ٣۔ کراماً کاتبین انسان کی ہر بات اور کام کو لکھتے جاتے ہیں۔ ٤۔ ملائکہ انسان کی ہر وقت نگرانی اور حفاظت کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ انسان جہاں کہیں بھی ہو اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے۔ (الحدید : ٤۔ التوبہ : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦، الواقعہ : ٨٥) ٣۔ انسان جدھر بھی رخ کرے اللہ تعالیٰ کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے۔ (البقرۃ : ١١٥) ٥۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا ” اللہ “ ہوتا ہے پانچ ہوں تو چھٹا ” اللہ “ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم وہ ہر وقت آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ (المجادلہ : ٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٤٨ ایک نظر میں یہ اس سورت کا دوسرا سبق ہے۔ اس میں بھی بعث بعد الموت کی بحث ہے جس طرح پہلے حصے کا موضوع بھی یہی تھا۔ تکذیب کرنے والوں کے سامنے کچھ مزید موثر دلائل رکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ دلائل ذرا دھمکی آمیز انداز میں ہیں اور خوفناک مناظر پر مشتمل ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہ... ے جس طرح سورت کے آغاز میں تھا۔ پھر سکرات موت کا ذکر ہے ، پھر حساب و کتاب اور ہر کسی کے اعمال نامے کی پیشی کا ذکر ہے اور پھر جہنم کا منہ کھلا ہوگا اور جب بھی اس میں اس کی انسانی خوراک کی کوئی قسط پھینکی جائے گی تو وہ منہ چاٹ کر اور اسے چکھ کر کہے گی۔ ھل من مزید (٥٠ : ٣٠) ” کیا اور بھی ہے “۔ غرض یہ ایک ہی سفر ہے ، پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ موت کے سکرات سے گزرتا ہے اور حساب و کتاب پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ زندگی کا طویل سفر ہے ، باہم متصل اور مربوط ۔ اور اس منظر میں اسے مسلسل کڑیوں کی شکل میں قلم بند کیا گیا ہے جس کے اندر کوئی کڑی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہے۔ نہ کوئی کسی کڑی یا مرحلے سے بچ کر نہیں نکل سکتا ہے۔ اور انسان اس سفر کے آغاز سے انتہا تک اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کسی جگہ یا مرحلے میں وہ اللہ سے آزاد نہیں ہے۔ ہر وقت اللہ کی نگرانی میں ہے۔ اس سورت میں اس سفر کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ خوفناک بھی ہے اور حیران کن بھی کہ ایک انسان اللہ قہار و جبار کے قبجہ قدرت میں سفر کے مراحل طے کر رہا ہے ، وہ اللہ جو دلوں کے تمام بھیدوں کو جاننے والا ہے۔ انسان کیا کرسکتا ہے جب اسے بلانے والا وحدہ لا شریک ہے ، نہ بھولتا ہے ، نہ سو تا ہے اور نہ کسی چیز سے غافل رہتا ہے۔ انسان تو اس وقت بھی بےحد ہراساں ہوجاتا ہے جب اسے احساس ہو کہ اس کے پیچھے کسی ارضی حکومت کی سی آئی ڈی لگی ہوئی ہے۔ زمین والوں کی حکومت کیا ہوگی اور ان کے جاسوس کیا ہوں گے۔ اگر کوئی خفیہ پولیس نگری کر بھی رہی ہے تو انسان کی ظاہری حرکت کی نگرانی کر رہی ہے۔ وہ اس پولیس سے گھر میں چھپ جاتا ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر آکر اپنے پیچھے دروازہ بند کرے یا وہ اپنے منہ بند کر دے اور منہ سے لفظ تک نہ نکالے۔ لیکن اللہ جبار وقہار کی نگرانی بڑی سخت ہے۔ انسان جہاں بھی ہو ، جس حال میں بھی ہو اس کے کارندے ہر وقت لکھ رہے ہیں اور وہ دلوں کے بھیدوں تک کو جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی نگرانی کڑی نگرانی ہے۔ آیت کے آغاز میں ہے۔ ولقد خلقنا الانسان (٥٠ : ١٦) ” ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے “۔ یہاں اس عبارت کے ایک ضمنی مفہوم کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ یہ کہ کسی بھی چیز مشینری یا آلے کا بنانے والا اس کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ اس کا خالق نہیں ہوتا کیونکہ آلات اور مشینری کا مادہ تو اس نے نہیں بنایا اور اس کی تشکیل اور ترکیب میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا۔ جبکہ اللہ خالق بھی ہے موجد بھی اور انسان کو جوڑنے والا بھی ہے۔ یہ آغاز سے انتہا تک اللہ کے دست قدرت سے نکلا ہوا ہے۔ اس لیے اللہ کی اس حقیقت اور اس کے اسرارو رموز سے خوب واقف ہے۔ اس کے ماضی ، حال اور مآل سے وہ آگاہ ہے۔ ونعلم ما توسوس بہ نفسہ (٥٠ : ١٦) ” اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں “۔ یوں انسان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی ہر چیز اللہ کے سامنے ظاہر ہے۔ اس کے اور خالق کے درمیان پردہ نہیں ہے۔ اس کے دل کی خفیہ ترین امنگوں سے بھی خالق واقف ہے۔ اور یوم الحساب کے لئے تو ہر طرح کی تیاری ہو رہی ہے جس کا وہ منکر ہے۔ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید (٥٠ : ١٦) ” اور ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں “۔ اس شہ رگ سے جس میں اس کا خون دوڑ رہا ہے۔ یہ اللہ کے قبضہ ملکیت کی ایک تصویر ہے۔ اور اللہ کی براہ راست نگرانی ہے۔ جب انسان اس حقیقت کا تصور کرتا ہے تو اس کارواں روان کانپ اٹھتا ہے۔ اگر انسان صرف اسی آیت کے مفہوم کو مستحضر رکھے تو وہ کبھی ایسی بات نہ کرے جس سے اللہ ناراض ہو بلکہ انسان غیر پسندیدہ خیالات کو اپنے دل ہی میں نہ لائے۔ صرف یہی آیت اس بات کے لئے کافی ہے کہ انسان ہر وقت محتاط رہے ، ہر وقت خائف رہے اور ہر وقت حساب و کتاب کے لئے بیدار رہے۔ قرآن کریم مزید اس نگرانی کی تشریح یوں کرتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی ، ہر حرکت ، سونا کھانا ، پینا ، خاموش رہنا ، بات کرنا ، غرض سفر زندگی پورے کا پورا دو فرشتوں کے درمیان کٹ رہا ہے۔ یہ فرشتے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ اس کے ہر لفظ کو اس کے منہ سے نکلتے ہی ریکارڈ رکر لیتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ انسان کے وساوس نفسانیہ سے پوری طرح واقف ہے اور انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے یہ چار آیتوں کر ترجمہ ہے پہلی آیت میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے جی میں جو وسوسے آتے رہتے ہیں (جو بہت ہی زیادہ مخفی چیز ہے) ہم ان سب کو جانتے ہیں، پھر فرمایا کہ انسان کی گردن کی جو رگ ہے ہم ... انسان سے اس سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ مطلب یہ ہے ہم انسان کے تمام احوال سے باخبر ہیں اس کی کوئی بھی حالت جو پوشیدہ سے پوشیدہ ہو اور اس کی بات جو آہستہ سے بھی آہستہ ہو اس میں سے کچھ بھی ہم پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علم کو بیان فرمایا ہے ﴿ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ٠٠١٦﴾ گردن کی رگ کو کہا جاتا ہے۔ یہ وہ رگ ہے جس کے کٹ جانے سے انسان کی زندگی باقی نہیں رہتی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 10:۔ ” ولقد خلقنا۔ تا۔ وتقول ھل من مزید “۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ نفسہ کے بعد نحاسبہ مقدر ہے قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ یعنی ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل کے وساوس و خطرات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہم اس کا محاسبہ کریں گے۔ حبل الورید میں اضافت بیانی ہے اور اس سے مراد رگ حیات ہے جو سر سے شروع ہو...  کر حلق سے گذرتی ہوئی دل تک پہنچتی ہے۔ ” اذ یتلقی میں اذ، اقرب سے متعلق ہے۔ یعنی جب آدمی کے دائیں بیٹھے ہوئے کراماً کاتبین اس کی باتیں لکھ رہے ہوتے ہیں اس وقت ہم اس کی رگ حیات سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں۔ ” ما یلفظ من قول الخ “ آدمی جو بات بھی زبان سے نکالتا ہے اسے لکھنے کیلئے ایک نگران ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ نیک بات ہو تو صاحب الیمین (دائیں جانب والا) اور اگر گناہ کی بات ہو تو صاحب الشمال (بائیں جانب والا) لکھ لیتا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور انسان کو یقینا ہم نے بنایا ہے اور اس کے دل میں جو خیالات آتے ہیں اور جو باتیں اس کے جی میں آتی ہیں اور جو چیزیں اس کا نفس خاطر میں لاتا ہے ان کو ہم جانتے ہیں اور ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے اور اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ درید اگرچہ وہ رگ ہے جس کے قطع ہوجانے سے انسان کی موت واقع ہوجا... تی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے علم کے اعتبار سے ہر انسان کی روح اور اس کے نفس سے بھی زیادہ قریب ہیں فقہ میں جن عروق کا ذکر آتا ہے اور ذبح کی شرط کہاجاتا ہے وہ حلقوم مری اور دو جان ہیں ان عروق کی اکثریت کا کٹ جانا ذبیحہ کو حلال کردیتا ہے لیکن یہاں رگ جان سے شریان سمجھنا چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں گردن کی رگ مراد ہے جس میں جان پھرتی ہے دل سے دماغ تک اس کے کٹنے سے موت ہے اللہ اندر سے نزدیک ہے اور رگ آخر باہر ہے جان سے۔ اس کے علمی قرب کا کیا ٹھکانہ ہے مولانا فرماتے ہیں۔ جان نہاں درجسم تو در جان نہاں اے نہاں اندر نہاں اے جان جاں صاحب مفردات نے درید کے معنی میں کہا ہے وہ ایک رگ ہے جو جگر اور قلب کے متصل ہے۔ وفیہ مجاری الروح بہرحال حضرت حق نے اس اتصال علمی کو اقرب الہ من حبل الورید سے تعبیر فرمایا۔  Show more