Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 17

سورة ق

اِذۡ یَتَلَقَّی الۡمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیۡدٌ ﴿۱۷﴾

When the two receivers receive, seated on the right and on the left.

جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ ... (Remember) that the two receivers receive, in reference to the two angels who receive and record the deeds of mankind. ... عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ one sitting on the right and one on the left. means ready to note,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] کراماً کاتبین کا ریکارڈ رکھنا :۔ ان میں سے ایک نیکی اور بھلائی کے اقوال و افعال ریکارڈ کر رہا ہے اور دوسرا جو بائیں طرف ہے وہ بدی کو ریکارڈ کر رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ فرشتے قلم اور دوات لے کر ہر بات کو قلمبند کر رہے ہوں۔ بلکہ اس کے اور بھی کئی طریقے ممکن ہیں۔ آج کا انسان ویڈیو کیسٹ تیار کرچکا ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کے اقوال و افعال حرکات و سکنات، تصویر، لب و لہجہ غرض ہر چیز ایسی ریکارڈ ہوتی ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ بھر فرق نہیں رہتا اور اللہ کے فرشتوں کے وسائل تو انسان کے وسائل سے بہت زیادہ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انسان کے اپنے بدن پر، اس کے اعضاء پر، قرب و جوار کے مقامات پر اور فضا کے ذرات پر انسان کا ریکارڈ ضبط ہو رہا ہو۔ جسے ویڈیو کیسٹ کی طرح کسی بھی وقت پیش کیا جاسکتا اور متعلقہ انسان کو دکھایا جاسکتا ہو۔ پہلی آیت میں یہ مذکور تھا کہ تمہاری تمام حرکات و سکنات حتیٰ کہ تمہارے دلوں کے راز تک اللہ جانتا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سب چیزیں شہادت کے لئے ریکارڈ کی جارہی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اذ یتلقی الم تلقین عن الیمین :” تلقی یتلقی “ (تفعل ) لینا، استقبال کرنا۔” یتلقی “ اور ” الم تلقین “ کا مفعول محذوف ہے :” ای جمیع اقوالہ وافعالہ “” اذا “ پچھلی آیت میں ” اقرب “ کا ظرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے دو فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو لے کر لکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے دل میں آنے والے وسوسے اور سینے کے راز بھی خوب جانتے ہوتے ہیں۔ (٢)” قعید “ بمعنی ” مقاعد “ ہے، جیسے ” جلیس “ بمعنی ” مجالس “ ہے۔ یعنی وہ انسان کے ساتھ لازم رہتے ہیں۔ (قعید “ (ساتھ بیٹھے ہوئے) کا لفظ ان کے بیدار اور ہشیار رہنے کی کیفیت کے بیان کے لئے ہے کہ وہ انسان سے سر زد ہونے والے کسی بھی قول یا فعل کو لکھنے کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں، کسی لمحے۔ بھی ان کے الگ ہونے یا غفلت یا نیند کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ (٣) یہاں ایک سوال ہے کہ فرشتے تو دو ہیں مگر ان کی کیفیت بیان کرنے کے لئے لفظ ” قعید “ لایا گیا ہے جو واحد ہے، اسے تثنیہ بنا کر ” قعیدان “ کیوں نہیں کہا گیا ؟ مفسرین نے اس کے دو جواب دیئے ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ” کل واحد منھما “ ہے، یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک تیار بیٹھا ہے۔ دوسرا یہ کہ ” قعید “ ” فعیل “ کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے اور ” فعیل “ اور ” فعول “ واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مونث سب کے لئے اسی طرح استعمال کرلیا جاتا ہے۔ دونوں جواب درست ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Two Recording Angels with every Man إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ (when the two receiving angels receive (every human act to record it - 50:17) In the phrase idh yatalaqq al-mutalaqqiyani, (when the two receiving angels receive) the verb yatalaqqa is aorist from the infinitive talaqqi which denotes to take, to accept, to receive, to learn as in the verse فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّ‌بِّهِ كَلِمَاتٍ |" Thereafter &Adam received a few words from his Lord (2:37) |". The word mutalaqqiyani in the verse is the dual of al-mutalaqqi and refers to the two angels that accompany every human being all the time to receive and record the deeds of mankind. The phrase عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (seated [ one ] on the right and [ one ] on the left. 50:17) means that the angel sitting on the right records one&s good actions, and that on the left, his bad actions. The word qa` id is used in the sense of qa` id, like jalis in the sense of jalis - both meaning |"sitting|". The word qa` id is used for singular as well as plural. However, there is a difference in the usage of qa` id and jalis as opposed to qa` id and jalis in that the former means a person who is actually sitting. But qa` id and jalis are used in the general sense of the words, that is, he who accompanies someone whether sitting, standing or moving around. The word qa` id is used in the verse to describe the two angels, because they accompany human beings all the time and in every state - whether sitting or standing, whether moving or sleeping. The angels move out only when the humans undress their private parts for purposes of responding to the call of nature or having sexual intercourse. However, Allah has equipped them with a special innate sensing device, so that they realize the sins, or become aware of the sins that are being committed in their absence. Ibn Kathir states that, according to the narration of Ahnaf Ibn Qais, the angel sitting on the right records the good deeds, and he is also the supervisor over the angel on the left. If a person commits a sin, the angel on the right says to the one on the left, |"Do not write it yet; give him a chance; maybe he will repent; if he does, then let it go; otherwise record it in your record of deeds|". (Ibn-Abi Haim transmitted it) Explanation of Hasan Basri (رح) Hasan Bari (رح) recited the above verse containing the phrase عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (seated one on the right, and one on the left) and said: |"0 son of &Adam! Your record of deeds has been spread, and two honorable angels have been appointed. One on your right side and the other on your left. The one on your right side records your good deeds, and the one on your left records your evil deeds and sins. Focus on this reality, and do what you desire, increase it or decrease it. When you die, your record of deeds will be folded, and put around your neck. It will go with you in the grave, and remain there. When you will rise from your grave on the Day of Judgment, Allah will say: وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَ‌هُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِ‌جُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورً‌ا ﴿١٣﴾ اقْرَ‌أْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴿١٤﴾ |"And every human&s (deeds determining his) fate We have tied up to his neck, and We shall bring forth for him, on the day of Resurrection, a book he will receive wide open. [ 13] |"Read your book. This day you yourself are enough to take your own account.|" [ 14] (Surah Bani Isra&il - 13, 14). Then Hasan Basri رحمۃ اللہ علیہ said: |"By God! The Supreme Being has done a great justice in that He has appointed you to take account of your own actions|". (Ibn Kathir) Obviously the book or the ledger of deeds would not be made up of mundane paper, so that there should be any difficulty in understanding how it will go with him in the grave and remain there with him until the Day of Resurrection. It is a transcendental reality, the actual nature of which is known only to Allah. Therefore, it should not be surprising if the book is put as a garland round the neck and remains there until the Day of Resurrection.

ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے : (آیت) اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ ، تلقی کے لغوی معنی اخذ کرنے لے لینے اور حاصل کرلینے کے آتے ہیں (آیت) فتلقی آدم من ربہ کلمت ” یعنی لے لئے اور حاصل کر لئے آدم ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات “ اس آیت میں متلقیان سے مراد وہ دو فرشتے ہیں جو ہر انسان کے ساتھ اس کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اعمال کو اپنے صحیفوں میں لکھتے رہتے ہیں، عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ ” یعنی ان میں ایک اس کے داہنی طرف رہتا ہے ( جو اس کے اعمال صالحہ کو لکھتا ہے) دوسرا اس کے بائیں جانب (جو اس کی سیئات کو لکھتا ہے) قعید بمعنی القاعدہ ہے مفرد و جمع دونوں کے لئے لفظ قعید استعمال ہوتا ہے اگرچہ قعید بمعنی قاعد ہے، جیسے جلیس بمعنی جالس، مگر ایک فرق یہ ہے کہ قاعد اور جالس تو صرف بیٹھنے کی حالت میں بولا جاتا ہے اور قعید و جلیس عام ہے جو کسی کے ساتھ ہو خواہ بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے یا چلتے پھرتے ہوئے ان کو قعید و جلیس کہیں گے، ان دونوں فرشتوں کا یہی حال ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں انسان کے ساتھ رہتے ہیں، وہ بیٹھا ہو یا کھڑا، چلتا پھرتا ہو یا سو رہا ہو، صرف ایسی حالت میں جب کہ یہ پیشاب، پاخانہ یا جماع کی ضرورت سے ستر کھولے ہوتا ہے تو یہ فرشتے ہٹ جاتے ہیں، مگر اللہ نے ان کو اس کا ملکہ دے دیا ہے کہ اس حالت میں بھی وہ کوئی گناہ کریں تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے۔ ابن کثیر نے احنف بن قیس کی روایت سے لکھا ہے کہ ان دو فرشتوں میں سے صاحب یمین نیک اعمال لکھتا ہے اور وہ صاحب شمال یعنی بائیں جانب کے فرشتے کا بھی نگران و امین ہے، اگر انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو صاحب یمین صاحب شمال سے کہتا ہے کہ ابھی اس کو اپنے صحیفہ میں نہ لکھو اس کو مہلت دو اگر توبہ کرلی تو رہنے دو ورنہ پھر اعمالنامہ میں درج کرو (رواہ ابن ابی حاتم) اعمالنامہ لکھنے والے فرشتے : حضرت حسن بصری نے آیت مذکورہ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ تلاوت فرما کر کہا :۔ ” اے ابن آدم ! تیرے لئے نامہ اعمال بچھا دیا گیا اور تجھ پر دو معزز فرشتے مقرر کردیئے گئے ہیں، ایک تیری داہنی جانب دوسرا بائیں جانب، داہنی جانب والا تیری حسنات کو لکھتا ہے اور بائیں جانب والا تیری سیئات اور گناہوں کو، اب اس حقیقت کو سامنے رکھ کر جو تیرا جی چاہے عمل کر اور کم کر یا زیادہ، یہاں تک کہ جب تو مرے گا تو یہ صحیفہ یعنی نامہ اعمال پیٹ دیا جائے گا اور تیری گردن میں ڈال دیا جائے گا، جو تیرے ساتھ قبر میں جائے گا اور رہے گا، یہاں تک کہ جب تو قیامت کے روز قبر سے نکلے گا تو اس وقت حق تعالیٰ فرمائے گا (آیت) (وکل انسان الزمنہ طٓئرہ فی عنقہ و نخرج لہ یوم القیمة کتبا یلقہ منشورا اقرا کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا) یعنی ہم نے ہر انسان کا اعمالنامہ اس کی گردن میں لگا دیا ہے اور قیامت کے روز وہ اس کو کھلا ہوا پائے گا، اب اپنا اعمالنامہ خود پڑھ لے تو خود ہی اپنا حساب لگانے کے لئے کافی ہے “۔ پھر حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! اس ذات نے بڑا عدل و انصاف کیا، جس نے خود تجھ کو ہی تیرے اعمال کا محاسب بنادیا (ابن کثیر) یہ ظاہر ہے کہ اعمال نامہ کوئی دنیوی کاغذ تو ہے نہیں جس کے قبر میں ساتھ جانے اور قیامت تک باقی رہنے پر اشکال ہو ایک معنوی چیز ہے جس کی حقیقت حق تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اس لئے اس کا ہر انسان کے گلے کا ہار بننا اور قیامت تک باقی رہنا کوئی تعجب کی چیز نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ۝ ١٧ ( لقی) تلقی السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان/ 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء/ 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل/ 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل : 477- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے شمل الشِّمَالُ : المقابل للیمین . قال عزّ وجلّ : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] ، ويقال للثّوب الذي يغطّى به : الشِّمَالُ وذلک کتسمية كثير من الثّياب باسم العضو الذي يستره، نحو : تسمية كمّ القمیص يدا، وصدره، وظهره صدرا وظهرا، ورجل السّراویل رجلا، ونحو ذلك . والِاشْتِمَالُ بالثوب : أن يلتفّ به الإنسان فيطرحه علی الشّمال . وفي الحدیث : «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» والشَّمْلَةُ والْمِشْمَلُ : کساء يشتمل به مستعار منه، ومنه : شَمَلَهُمُ الأمر، ثم تجوّز بالشّمال، فقیل : شَمَلْتُ الشاة : علّقت عليها شمالا، وقیل : للخلیقة شِمَالٌ لکونه مشتملا علی الإنسان اشتمال الشّمال علی البدن، والشَّمُولُ : الخمر لأنها تشتمل علی العقل فتغطّيه، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالخمر لکونها خامرة له . والشَّمَالُ : الرّيح الهابّة من شمال الکعبة، وقیل في لغة : شَمْأَلٌ ، وشَامَلٌ ، وأَشْمَلَ الرّجل من الشّمال، کقولهم : أجنب من الجنوب، وكنّي بِالْمِشْمَلِ عن السّيف، كما کنّي عنه بالرّداء، وجاء مُشْتَمِلًا بسیفه، نحو : مرتدیا به ومتدرّعا له، وناقة شِمِلَّةٌ وشِمْلَالٌ: سریعة کا لشَّمال، وقول الشاعر : ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم قيل : أراد خلائق طيّبة، كأنّها هبّت عليها شمال فبردت وطابت . ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جائے اسے بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائتہ کو رجل سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سرا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» کہ اشتمال الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملۃ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی سے شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ الشمال ( بکسرالشین ) وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک لغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جیسے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جانا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو مشتمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد بالسیف ومتدرعا لہ کی طرح جاء مشتملا بسیفہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقۃ شملۃ و شمال ۔ باد شمالی کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لو گے اور تم پشیمانی اٹھاؤ گے لیکن وہ وقت پشیمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولۃ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنا دیا ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معنی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جب دو اخذ کرنے والے فرشتے انسان کے اعمال کو جو اس سے صادر ہوتے ہیں لکھتے رہتے ہیں جو اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے رہتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ ۔ } ” جبکہ لیتے جاتے ہیں دو لینے والے جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوتے ہیں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی ہر جگہ ‘ ہر آن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے ہر انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے ہر فعل اور عمل کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ سورة الانفطار ‘ آیت ١١ میں ان فرشتوں کو ’ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے تمام اچھے برے کاموں کو ریکارڈ کرنے کے لئے دو فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں جوہر وقت اسکے دائیں اور بائیں موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ انتظام صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انسان کے اعمال نامے کو قیامت کے دن خود اس کے سامنے حجت کے طور پر پیش کیا جاسکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے اعمال جاننے کے لئے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ ہر انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے خوب واقف ہے، اور انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ الترجمۃ مبنیۃ علی ان ’’ اذ‘‘ ظرف لہ ’’ اقرب‘‘ کما فی روح المعانی

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:17) اذ یتلقی الم تلقین عن الیمین وعن الشمال قعید۔ اذ سے قبل فعل اذکر محذوف ہے۔ یعنی یاد کرو جب۔ (یا اذکر الامر اذ اس امر کو (بات) کو یاد کرو جب) یتلقی مضارع واحد مذکر غائب تلقی تفعل مصدر بمعنی ملاقات کرنا سامنے سے کسی چیز کو لے لینا۔ پالینا۔ یہاں لے لینے یا پالینے سے مراد لکھ کر کسی چیز کو لے لینا ۔ یا محفوظ کرلینا ہے۔ اسی سے المتلقیان اسم فاعل تثنیہ۔ وہ (لکھ کر) پالینے والے۔ مراد وہ دو فرشتے جو انسان کے دائیں بائیں تعینات ہیں اس کے اقوال و افعال کو لکھنے کے لئے۔ علامہ پانی پتی اس آیت کی ترکیب میں فرماتے ہیں کہ :۔ اذ یتلقی المتلقیان۔ جب لینے والے دو فرشتے جو انسان پر مقرر ہیں انسان کے عمل و قول کو لے لیتے ہیں۔ یتلقی کا مفعول محذوف ہے یعنی آدمی کے قول و عمل کو لے لیتے ہیں اور حفاظت کے ساتھ اس کو لکھ لیتے ہیں ۔ عن الیمین وعن الشمال قعید۔ جار مجرور کا تعلق قعید سے ہے اور قعید المتلقیان سے بدل ہے اور عن الیمین کے بعد قعید محذوف ہے۔ یعنی ایک فرشتہ دائیں طرف بیٹھا ہے اور ایک بائیں طرف بیٹھا رہتا ہے۔ (بعض کے نزدیک قعد محذوف نہیں ہے بلکہ قعید مذکور کا تعلق عن الیمین سے بھی ہے اور عن الشمال سے بھی۔ اور جو الفاظ فعیل کے وزن پر آتے ہیں ان کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور کثیر پر بھی۔ جیسے کہ آیت : والملئکۃ بعد ذلک ظھیر۔ میں ظھیر باوجود مفسر ہونے کے الملئکۃ کی خبر ہے کیونکہ بروزن فعیل ہے) قائم کی ضد قاعد آتا ہے بیٹھنے والا۔ اور قعید کا معنی ہے جم کر بیٹھنے والا۔ مجاہد نے کہا ہے کہ قعید کا معنی ہے گھات میں لگا ہوا۔ اذ یتلقی کا تعلق اذکر محذوف سے ہے۔ یا اقرب سے ہے۔ آخری صورت میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہم تو حبل الورید سے بھی جانتے ہیں جو فرشتوں سے بھی زیادہ پوشیدہ ہیں لیکن تقاضا کے حکمت ہے اور قیامت کے دن فرشتوں کو مامور کیا ہے۔ عن الیمین دائیں طرف کو عن الشمال بائیں جانب کو قعید صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر۔ جم کر بیٹھنے والا۔ ہم نشین، نگرانی کرنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مراد کرام کا تبین فرشتے ہیں جن میں سے دائیں طرف والا فرشتہ نیکیاں اور بائیں طرف والا برائیاں لکھتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ بندے کے تمام اعمال کے ریکارڈ رکھنے کا اہتمام اتمام حجت کے لئے ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے کسی عمل سے مکر نہ سکے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اذ یتلقی المتلقین عن الیمین وعن الشمال قعید (٥٠ : ١٧) ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید (٥٠ : ١٨) ” دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں۔ ہر چیز ثبت کر رہے ہیں ۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو “ ۔ یعنی جو نگران ہے وہ حاضر باش ہے۔ یعنی عتید رقیب کی صفت ہے۔ یہ مفہوم نہیں ہے جس طرح ذہن میں آتا ہے کہ دو نگرانوں میں سے ایک کا نام رقیب ہے اور دوسرے کا عتید ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح ریکارڈ کرتے ہیں ؟ اس سلسلے میں انسان کو اپنے تخیلات پیش نہ کرنا چاہئے ۔ یہ غیبی امور ہیں اور ان کو اسی طرح قبول کرنا چاہئے جس طرح قرآن میں مذکور ہیں۔ مفہوم پر ہمارا ایمان ہے اور کیفیت کا ہمیں پتہ نہیں ہے۔ اگر کیفیت کا پتہ لگ بھی جائے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پھر بعض کیفیات ہمارے تجربات کے دائرے ہی میں نہیں ہوتیں اور ہم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آج کے دور جدید میں ریکارڈنگ کے وہ طریقے ہم نے دیکھ لیے ہیں جن کا تصور بھی ہمارے آباء و اجداد نہ کرسکتے تھے۔ ان طریقوں سے انسان کی ہر حرکت اور ہر لفظ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ آڈیو ، وڈیو ، ٹیپ ، سینما کی ریل ، اور ٹیلی ویژن کے ٹیپ (اور اب کمپیوٹر اور اس کا نیٹ ورک) یہ تو وسعت آگئی ہے انسانی دائرہ ریکارڈ میں۔ جہاں اللہ اور اس کے عملے کا تعلق ہے تو ان کے پاس ایسے ذرائع اور ایسے طریقے ہوسکتے ہیں جن کا ہم ابھی تک تصور ہی نہیں کرسکتے۔ بس اللہ نے جو اطلاع کردی ہے اس پر یقین کرو۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس حقیقت کے دائرے کے اندر زندہ رہیں جس کی تصویر کھینچ دی گئی ہے۔ اور اس شعور کو تازہ کریں کہ ہم جو بات بھی کرتے ہیں جس فعل کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں اللہ کے کارندے بیٹھے ہوئے ہیں اور لکھ رہے ہیں تا کہ یہ ریکارڈ قیامت میں ہمارے خلاف پیش ہو یا ہمارے حق میں پیش ہو۔ اور یہ حساب ایسا ہے کہ اس سے کوئی بات نہیں چھوٹتی۔ اور ہمیں چاہئے کہ اس حقیقت کو ذہن میں تازہ رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ بس یہی ہمارے لئے کافی ہے اس کی کیفیت ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو۔ جس شکل و صورت میں بھی ہو یہ ریکارڈ تیار ہو رہا ہے۔ اور ہم کسی طرح اس سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ اللہ نے پیشگی اطلاع ہمیں دے دی ہے تا کہ ہم اس کا خیال رکھیں۔ رہی یہ بات کہ اس کی کیفیت کیا ہے تو یہ ایک عبث جدو جہد ہوگی۔ جن لوگوں نے اس قرآن اور اس کے حقائق اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات سے فائدہ اٹھایا ، ان کا انداز اور طریقہ یہی تھا کہ شعور کو پختہ کرو اور عمل کرو فقط۔ امام احمد نے روایت کی ، ابو معاویہ سے ، انہوں نے محمد ابن عمر ابن علقمہ لیثی سے انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے ان کے دادا سے اور انہوں نے حضرت بلال ابن حارث مزنی سے ، کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ایک آدمی ایک لفظ بولتا ہے جو اللہ کی رضا مندی کا لفظ ہوتا ہے۔ اسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ اس لفظ پر اللہ اس سے اپنی رضا مندی لکھ دیتا ہے تاقیامت۔ اور ایک دوسرا شخص ایک لفظ بولتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوتا ہے اور اس کو یقین نہیں ہوتا کہ یہ لفظ کہاں تک پہنچ گیا ۔ اللہ قیامت تک اس شخص سے ناراضگی لکھ دیتا ہے “۔ کہتے ہیں کہ علقمہ کہا کرتے تھے کہ کتنی ایسی باتیں ہیں جن کے کہنے سے میں بلال ابن حارث کی حدیث کی وجہ سے رک گیا۔ (ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ) ۔ امام احمد سے روایت ہے کہ وہ سکرات الموت میں فریاد کر رہے تھے انہوں نے سنا کہ یہ فریاد بھی لکھی جا رہی ہے تو خاموش ہوگئے اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ یوں یہ حضرات قرآنی ہدایات کو لیتے تھے۔ اور یوں تھی ان کی زندگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسانوں پر اعمال لکھنے والے فرشتے مقرر ہیں : دوسری آیت میں اعمال نامے لکھنے والے فرشتوں کا تذکرہ فرمایا اور اس میں یہ بتایا کہ انسان کی طبیعت اور احوال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ہی اس علم کے ساتھ ساتھ اس نے ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے بھی مقرر فرما رکھے ہیں جو انسان کے اعمال کو لکھتے ہیں جیسے ہی کوئی بات کرتا ہے یا کوئی عمل کرتا ہے اسے لے کر فرشتے لکھ لیتے ہیں ایک فرشتہ دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے۔ سورة الانفطار میں فرمایا ہے ﴿وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَۙ٠٠١٠ كِرَامًا كَاتِبِيْنَۙ٠٠١١ يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ٠٠١٢ ﴾ (اور تمہارے اوپر یاد رکھنے والے معزز لکھنے والے مقرر ہیں جو تمہارے سب افعال کو جانتے ہیں) یہ اعمال نامے جو فرشتے تیار کرتے ہیں قیامت کے دن انسان کے سامنے آجائیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا ﴿ هٰذَا كِتٰبُنَا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بالْحَقِّ ﴾ (یہ ہمارا لکھا ہوا نوشتہ ہے جو تم پر حق کے ساتھ بولتا ہے) ﴿ اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٠٠٢٩﴾ (بےشک ہم لکھوا لیتے تھے جو عمل تم کرتے تھے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) جب دولینے والے فرشتے لیتے رہتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں جانب بیٹھے رہتے ہیں۔ اپنے قرب کے بعد اور اتصال علمی کے بعد دو فرشتے جن کو کراماً کا تبین کہا جاتا ہے اور جو بندے کے اعمال پر نگراں ہیں اور ہر عمل لکھتے رہتے ہیں ان کا ذکر فرمایا جیسا کہ سورة جاثیہ میں گزرچکا ہے۔ انا کنا نستنسخ ماکنتم تعملون۔