Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 22

سورة ق

لَقَدۡ کُنۡتَ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مِّنۡ ہٰذَا فَکَشَفۡنَا عَنۡکَ غِطَآءَکَ فَبَصَرُکَ الۡیَوۡمَ حَدِیۡدٌ ﴿۲۲﴾

[It will be said], "You were certainly in unmindfulness of this, and We have removed from you your cover, so your sight, this Day, is sharp."

یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ بہت تیز ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Indeed you were heedless of this. Now We have removed from you, your covering, and sharp is your sight this Day! is directed at humanity. Allah said, لَقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا (Indeed you were heedless of this), i.e. of this Day, فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (Now We have removed from you, your covering, and sharp is your sight this Day!) `your sight is now clear and strong.' Everyone, including the disbelievers, will have clear sight on the Day of Resurrection. However, having sight will not be helpful to the disbelievers on that Day, for Allah the Exalted said, أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا How clearly will they (disbelievers) see and hear, the Day when they will appear before Us! (19:38), and, وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُواْ رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَأ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَـلِحاً إِنَّا مُوقِنُونَ And if you only could see when the criminals hang their heads before their Lord (saying): "Our Lord! We have now seen and heard, so send us back (to the world), that we will do righteous good deeds. Verily, we now believe with certainty. (32:12)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یعنی دنیا کی دلفریبیوں میں مست اور مگن رہا۔ محاسبہ کے دن کا تیرے سامنے ذکر ہوتا تو فوراً اس کا انکار کردیتا اور اس پر غور کرنا تو درکنار ایسی بات سننا بھی گوارا نہ کرتا تھا۔ آج ہم نے تیری آنکھوں کے سامنے سے غیب کے پردے اٹھا دیئے ہیں۔ اور آج تمہیں وہ سب باتیں ٹھیک نظر آرہی ہیں جن سے تو جان بوجھ کر غافل بنا رہا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لقد کنت فی عقلہ من ھذا :” غفلۃ “ میں تنوین تعظیم کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ” بڑی غفلت “ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ الفاظ محذوف ہیں کہ ” ہر کافر و مشرک سے کہا جائے گا کہ …۔ “ یہ آیت بھی دلیل ہے کہ ” کل نفس “ سے مراد کفار ہیں، کیونکہ وہی آخرت سے غافل ہیں، مومن تو آخرت کا یقین رکھتے ہیں اور اس کی فکر میں رہتے ہیں۔ کفار کو یہ بات ذلیل کرنے کے لئے طنز کے طور پر کہی جائے گی۔ (٢) فکشفنا عنک عطآء ک…: یعنی تیری آنکھوں پر پڑا ہوا غفلت کا پردہ، جس کی وجہ سے تو آخرت کا انکار کرتا تھا، وہ پردہ اب ہم نے دور کردیا ہے، اس لئے تیری نظر تیز ہوچکی ہے اور تو اپنی آنکھوں کے ساتھ ان تمام حقیقتوں کو دیکھ سکتا ہے جن کا انکار کرتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Unseen World Becomes Visible at Death فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُ‌كَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (Now We have removed your veil from you; so your sight today is sharp...50:22). There is a difference of opinion regarding the addressees of this verse. The preferred opinion is that Allah addresses mankind in general. This includes the believers, the unbelievers, the pious and the wicked. Ibn Jarir, Ibn Kathir and others have adopted this interpretation. The analogy drawn here is that this world is like the dream-world and the Hereafter is like the state of wakefulness. When man is in the dream-world, his eyes are closed and cannot perceive by his physical organs of sight the stark realities of the next world. When the physical organs of sight close, his dream-world ends and the state of wakefulness begins, and he is able to discern the stark realities of the Hereafter. Therefore, scholars have formulated the following aphorism: النَّاسُ نِیَامُ فَاذِا مَاتُوا اِنتَبَھُوا |"People are sleeping in this world; when they die, they will wake up.

مرنے کے بعد آنکھیں وہ سب کچھ دیکھیں گی جو زندگی میں نہ دیکھ سکتی تھیں : (آیت) فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ (یعنی ہم نے تمہاری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا آج تمہاری نگاہ بڑی تیز ہے) اس کا مخاطب کون ہے، اس میں بھی مفسرین کے اقوال مختلف ہیں، مگر راجح یہی ہے کہ عام انسان مخاطب ہیں، جن میں مومن، کافر، متقی، فاسق، سب داخل ہیں، اسی تفسیر کو ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ نے اختیار فرمایا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ دنیا کی مثال خواب کی سی زندگی کی ہے اور آخرت کی مثال بیداری کی، جیسے خواب میں آدمی کی آنکھیں بند ہوتی ہیں کچھ نہیں دیکھتا اسی طرح انسان ان حقائق کو جن کا تعلق عالم آخرت سے ہے دنیا میں آنکھوں سے نہیں دیکھتا مگر یہ ظاہری آنکھیں بند ہوتے ہی وہ خواب کا عالم ختم ہو کر بیداری کا عالم آتا ہے جس میں وہ سارے حقائق سامنے آجاتے ہیں اسی لئے بعض علماء نے فرمایا الناس نیام فاذا ماتوا انتبھوا ( یعنی آج کی دنیا کی زندگی میں سب انسان سو رہے ہیں جب مریں گے اس وقت جاگیں گے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ۝ ٢٢ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ غطا الغِطَاءُ : ما يجعل فوق الشیء من طبق ونحوه، كما أنّ الغشاء ما يجعل فوق الشیء من لباس ونحوه، وقد استعیر للجهالة . قال تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] . ( غ ط و ) الغطآ ء کے اصل معنی طباق وغیرہ کی قسم کی چیز کے ہیں جو کسی چیز پر بطور سر پوش کے رکھی جائے جیسا کہ غشاء لباس وغیرہ کی قسم کی چیز کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرہ چیز کے اوپر ڈالا جائے اور بطور استعارہ غطاء کا لفظ ( بردہ) جہالت وغیرہ پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه «2» . - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه «3» . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . والحدید معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ. ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے حدید لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا } ” (اللہ فرمائے گا : اے انسان ! ) تو اس دن سے غفلت میں رہاتھانا ! “ { فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ ۔ } ” تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے ‘ تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہوگئی ہے۔ “ دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے حقائق تمہارے لیے پردہ غیب میں تھے۔ وہاں تجھ سے مطالبہ تھا کہ ان حقائق پر بغیر دیکھے ایمان لائو۔ آج غیب کا پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور اب تمہاری نظر ہرچیز کو دیکھ سکتی ہے ‘ حتیٰ کہ آج تم اپنے ساتھ آنے والے فرشتوں کو بھی دیکھ رہے ہو ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 That is, "You can clearly see that everything of which the Prophets foretold is present here. "

سورة قٓ حاشیہ نمبر :26 یعنی اب تو تجھے خوب نظر آ رہا ہے کہ وہ سب کچھ یہاں موجود ہے جس کی خبر خدا کے نبی تجھے دیتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:22) لقد کنت فی غفلۃ من ھذا ۔۔ الجنۃ استئناف ، بنی علی سوال نشأ مما قبلہ کانہ قیل : فما ذا یکون بعد النفخ ومحی کل نفس معھا سائق وشھید ؟ فقیل یقال للکافر الغافل ۔۔ نیا جملہ ہے جو پہلے مضمون سے ایک نئے سوال پر مبنی ہے جیسا کہ کہا جاوے صور پھونکنے اور ہر شخص کے بمعیت سائق و شہید (میدان قیامت میں) آنے کے بعد کیا ہوگا ؟ جواب ہوگا کہ ہر کافر غافل یا ہر شخص سے (خطاب عام ہونے کی صورت میں) یہ کہا جاوے گا۔ لقد کنت فی غفلۃ من ھذا ۔۔ حدید۔ لقد تحقیق کے معنی میں ہے کنت ای کنت فی الدنیا فی غفلۃ من ھذا۔ من ھذا۔ یعنی جو کچھ تو نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کشفنا۔ ماضی جمع متکلم ۔ کشف (باب ضرب) مصدر۔ ہم نے دور کردیا۔ ہم نے اٹھا دیا ۔ ہم نے کھول دیا۔ غطاء ک مضاف مضاف الیہ ۔ الغطاء کے اصل معنی طباق وغیرہ کی قسم کی چیز کے ہیں جو کسی چیز پر بطور سرپوش کے رکھی جائے۔ جیسا کہ غشاء لباس وغیرہ کی قسم کی چیز کو کہتے ہیں۔ جسے کسی دوسری چیز کے اوپر ڈالا جائے۔ بطور استعارہ غطاء کا لفظ (پردہ) جہالت وغیرہ پر بولا جاتا ہے جیسا کہ آیت ہذا میں ہے ۔ تیرا پردہ۔ تیری آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ۔ فبصرک : ف ترتیب کا ہے۔ بصرک مضاف مضاف الیہ تیری نظر ۔ تیری آنکھ۔ الیوم : آج۔ حدید تیز ۔ لوہا۔ لوہے کو بھی کہتے ہیں اور نیز ہر وپ چیز جو کہ بذاتہ باریک ہو۔ خواہ باعتبار خلقت کے خواہ باعتبار معنی کے۔ حدید کہلاتی ہے اس صورت میں یہ حدۃ سے ہے۔ جس کے معنی تیز ہونے کے ہیں۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ ترجمہ : ہم نے پردہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے (آج تو ہر چیز اس کے اصلی تناظر میں دیکھ سکتا ہے) فائدہ : اوپر جاءت (آیات 19:31) نفخ (آیت 20) اور کشفنا (آیت 22) تمام صیغے ماضی کے ذکر کئے گئے ہیں حالانکہ یہ واقعات مستقبل میں پیش آئیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعات یعنی ہیں ضرور پیش آئیں گے۔ ایسے موقع پر ماضی کا صیغہ استعمال کرنے سے اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ واقعات اتنے یقینی الوقوع ہیں کہ گویا ان کا وقوع ہو ہی گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اب تو تمہیں وہ حقیقت نظر آرہی ہے جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لقد کنت فی ۔۔۔۔ الیوم حدید (٥٠ : ٢٢) ” اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا۔ ہم نے پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا ، اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے “ ۔ آج تیری نظر بڑی تیز ہے اور پردوں کو پار کر کے بھی دیکھ رہی ہے ۔ کام کرنے کی جگہ میں تو نے غفلت برتی۔ تو نے اس وقت کا خیال ہی نہ رکھا ۔ یہ ہے وہ انجام جس کی تو توقع ہی نہ رکھتا تھا۔ آج دیکھتا جاتا۔ آج تیری نظر تیز ہے۔ اب اس کا ساتھی آگے بڑھتا ہے۔ راجح یہ ہے کہ یہ وہ گواہ ہے جس کے پاس اس کا اعمال نامہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس دن اس سے خطاب کر کے کہا جائے گا ﴿ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هٰذَا ﴾ (تو اس دن کے واقع ہونے کی طرف سے غافل تھا) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ خطاب کافر کو ہوگا۔ ﴿فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَآءَكَ ﴾ (سو ہم نے تیرا پردہ اٹھا دیا) جس نے تجھے ڈھانک رکھا تھا۔ ﴿فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ٠٠٢٢﴾ (سو اج تیری نظر تیز ہے) دنیا میں جو کچھ ایمان کی طرف دعوت دی جاتی تھی اور کفر و شرک سے روکا جاتا تھا اور معاصی کا عذاب بتایا جاتا تھا تو، تو متوجہ نہیں ہوتا تھا اور غفلت کے پردوں نے تجھے ڈھانپ رکھا تھا آج وہ پردے ہٹ گئے جو کچھ سمجھایا بتایا جاتا تھا سامنے آگیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” لقد کنت۔ الایۃ “ اس سے پہلے ” یقال لہ “ مقدر ہے (روح) ۔ ھذا سے کتاب اعمال (حضرت الشیخ) یا یوم حشر مراد ہے مجرم کے ہاتھ میں اس کا اعمالنامہ تھما کر اس سے کہا جائیگا کہ تو اب تک اس سے بیخبر رہا یا یوم حشر سے غافل رہا آج ہم نے تیری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا ہے اور تیری نظر تیز ہوچکی ہے اور تو اپنا اعمالنماہ خود پڑھ سکتا ہے اور شدائد حشر اور انواع عذاب کا خود مشہادہ کر رہا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر کافر کو بھی بصیرت حاصل ہوجائے گی اور وہ حق کو مان لیں گے لیکن باوجود کل احد یکون یوم القیامۃ مستبصرا حتی الکفار فی الدنیا یکونون یوم القیامۃ علی الاستقامۃ لکن لاینفعہم ذلک (ابن کثیر ج 4 ص 325) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) یقینا تو اس دن سے بیخبر اور بڑی غفلت میں تھا اب ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا سو آج تیری نگاہ بڑی تیز بیں ہے۔ یعنی تو انکار کرتا تھا اور مانتا نہ تھا قیامت کو جھٹلاتا تھا اور عالم برزخ کی کسی چیز کا قائل نہ تھا اب معائنہ کرلیا اور تجھ کو معلوم ہوگیا کہ پیغمبر جو کچھ کہا کرتے تھے وہ سب سچ تھا آج بڑا تیزبیں ہے کہ کوئی چیز مانع ادراک نہیں اگر دنیا ہی میں اس پردے کو ہٹا دیتا اور ان چیزوں پر ایمان لے آتا تو تیرے حق میں کیا اچھا ہوتا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے الناس نیام اذا ماتواذا نتبھوا یعنی لوگ سو رہے ہیں جب مرجائیں گے تو بیدار ہوجائیں گے دنیا میں انسان پر غفلت کی نیند طاری ہے جب مرجائے گا تب آنکھیں کھلیں گی۔