Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 27

سورة ق

قَالَ قَرِیۡنُہٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطۡغَیۡتُہٗ وَ لٰکِنۡ کَانَ فِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۲۷﴾

His [devil] companion will say, "Our Lord, I did not make him transgress, but he [himself] was in extreme error."

اس کا ہم نشین ( شیطان ) کہے گا اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ قَرِينُهُ ... His companion will say, refers to the devil who is entrusted to every man, according to Abdullah bin Abbas, Mujahid, Qatadah and several othes. He will say, .... رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ ... Our Lord! I did not push him to transgression, meaning, the devil will say this about the human who came on the Day of Resurrection as a disbeliever. The devil will dis... own him, saying, رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ (Our Lord! I did not push him to transgression) meaning, "I did not lead him astray," ... وَلَكِن كَانَ فِي ضَلَلٍ بَعِيدٍ but he was himself in error far astray. meaning, he himself was misguided, accepting falsehood and stubborn to the truth. Allah the Exalted and Most Honored said in another Ayah, وَقَالَ الشَّيْطَـنُ لَمَّا قُضِىَ الاٌّمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيْكُمْ مِّن سُلْطَـنٍ إِلاَّ أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِى فَلَ تَلُومُونِى وَلُومُواْ أَنفُسَكُمْ مَّأ أَنَاْ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَأ أَنتُمْ بِمُصْرِخِىَّ إِنِّى كَفَرْتُ بِمَأ أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ إِنَّ الظَّـلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ And Shaytan will say when the matter has been decided: "Verily, Allah promised you a promise of truth. And I too promised you, but I betrayed you. I had no authority over you except that I called you, and you responded to me. So blame me not, but blame yourselves. I cannot help you, nor can you help me. I deny your former act in associating me as a partner with Allah. Verily, there is a painful torment for the wrongdoers." (14:22) Allah the Exalted said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 اس لئے اس نے فوراً میری بات مان لی، اگر یہ تیرا مخلص بندہ ہوتا تو میرے بہکاوے میں ہی نہ آتا۔ یہاں قرین سے مراد شیطان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] اس ساتھی سے مراد غالباً اس کا وہ شیطان ساتھی ہے جو دنیا میں اس کے ساتھ رہتا تھا یا اس پر مسلط کردیا گیا تھا۔ وہ بارگاہ الٰہی میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کرے گا کہ مجھ میں ایسی کوئی طاقت نہ تھی کہ میں اسے تیری اور تیرے رسول کی اطاعت سے سرکش بناسکتا۔ ہوا صرف یہ تھا کہ میں نے اس کے دل میں وس... وسہ ڈالا تو یہ پہلے ہی مجرم ضمیر تھا۔ اس نے فوراً میری آواز پر لبیک کہی۔ میرا وسوسہ گویا اس کے اپنے دل کی آواز تھی۔ لہذا وہ گمراہی کے کاموں میں خود ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قال قرینہ ربنا ما اطغیتہ…: کافر جب یہ حکم سنے گا تو کہے گا، اے میرے رب ! میرا کئے گناہ نہیں۔ مجھے تو میرے قرین (ساتھی) کہے گا، اے مہارے رب ! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا، بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں مبتلا تھا، میں نے اس پر کوئی زبردستی نہیں کی۔ اگر یہ خود انتہائی گمراہ نہ ہونا تو میرے کہنے س... ے کبھی سرکشی اختیار نہ کرتا۔ ” قرین “ سے مراد وہ شیطان بھی ہے جو انسان کے ساتھ رہ کر اسے گمراہ کرتا رہتا ہے اور انسانوں میں سے برے ساتھی جو اسے برائی کا درس دیتے اور اس پر ابھارتے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن جب مجرم یہ بہا نہ بنائے گا کہ ان لوگوں نے مجھے گمراہ کیا تو وہ اس سے صاف برأت کا اظہار کردیں گے۔ ان گمراہ کرنے والے شیاطین الانس والجن کے اپنے گمراہ کردہ لوگوں سے بری ہونے کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة بقرہ (١٦٧) اعراف (٣٨، ٣٩) ، ابراہیم (٢١) ، سبا (٣١ تا ٣٣) اور سورة ص (٥٥ تا ٦١)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Man and Devil Dispute before Allah قَالَ قَرِ‌ينُهُ رَ‌بَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ (His (evil) companion (i.e. the Shaitan) will say, |"0 our Lord, I did not cause him to rebel,...50:27). The word qarin literally denotes a companion, that is, one who accompanies or associates with another. From this point of view, qarin in the preceding verse referred to the two angels that accompany human beings and...  record their deeds. Just as there are two angels in the company of man, there is a devil entrusted to every man, who calls him towards commission of sins, and thus leads him astray. In this verse qarin refers to that devil. When it will be ordered that the person be thrown into Hell, it seems that he will say that the devil had led him astray, otherwise he would have done righteous deeds. In response, the devil will disown him and say about the human who came on the Day of Resurrection as an unbeliever that |"I did not lead him astray. In fact he himself was misguided, paying no heed to the truth|". In response Allah will say what follows in the next verse.  Show more

(آیت) قَالَ قَرِيْنُهٗ رَبَّنَا مَآ اَطْغَيْتُهٗ ، لفظ قرین کے اصلی معنی پاس رہنے والے اور ملے ہوئے کے ہیں اس معنی کے اعتبار سے پچھلی آیت میں قرین سے مراد وہ فرشتہ یا فرشتے لئے گئے ہیں جو انسان کے اعمال لکھتے ہیں اور انسان کے ساتھ جیسے دو فرشتے قرین بنائے گئے ہیں اسی طرح ایک شیطان بھی ہر انسان کا ق... رین رہتا ہے، جو اس کو گمراہی اور گناہوں کی طرف بلاتا ہے، اس آیت میں قری سے یہی شیطان مراد ہے، جب اس شخص کو جہنم میں ڈالنے کا حکم ہوجائے گا تو یہ شیطان اس سے اپنی برات کا اظہار کرے گا کہ اس کو میں نے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی گمراہ تھا کہ گمراہی کی بات کو قبول کرتا اور نیک بات پر کان نہ دھرتا تھا ظاہر کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہنم میں جانے والا اس وقت یہ عذر کرے گا کہ مجھے تو اس شیطان نے بہکایا تھا، ورنہ میں نیک کام کرتا، اس کے جواب میں شیطان اپنی برات ظاہر کرے گا، ان دونوں کے جھگڑے کے جواب میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ قَرِيْنُہٗ رَبَّنَا مَآ اَطْغَيْتُہٗ وَلٰكِنْ كَانَ فِيْ ضَلٰلٍؚبَعِيْدٍ۝ ٢٧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خ... دا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قرین الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] . ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو : عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا وقال آخر : وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر : فکوني له کالسّمن ربّت بالأدم والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الحجر/ 2] . ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران/ 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات/ 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف/ 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف/ 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف/ 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة/ 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران/ 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران/ 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف/ 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء/ 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔ رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ سن کر وہ کافر کہے گا اے پروردگار اس فرشتے نے میری برائیاں لکھنے میں جلدی کی اور میرے کہنے اور کرنے ہی سے پہلے اس نے میرے نام پر برائیاں لکھ ڈالیں وہ کتاب سیئات فرشتہ کہے گا کہ پروردگار میں نے لکھنے میں کسی قسم کی کوئی جلدی نہیں کی جب تک کہ اس نے بات کہی اور کی نہ ہو یا یہ کہ اس قریب سے مراد وہ شی... طان ہے جو اس کے ساتھ رہتا تھا وہ اپنے پروردگار کے سامنے معذرت پیش کرے گا کہ اے پروردگار میں نے اسے جبرا گمراہ نہیں کیا تھا لیکن یہ تو خود ہی حق و ہدایت سے دور دراز کی گمراہی میں تھا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧{ قَالَ قَرِیْنُہٗ رَبَّـنَا مَآ اَطْغَیْتُہٗ وَلٰــکِنْ کَانَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ ۔ } ” اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا : پروردگار ! میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا ‘ بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔ “ گویا وہ چاہے گا کہ جو انسان اس کی تحویل میں دیا گیا تھا اسے سزا کے لیے وصول کر... لیا جائے اور خود اس کی جان بخشی کردی جائے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 Here by °companion" is meant the satan who was attached to the disobedient person in the world. And this also becomes evident from the style that both the person and his satan are disputing between themselves in the Court of AIIah. He says: "My Lord, this wretched one pursued me in the world and did not leave me until he succeeded in misleading me; therefore he alone should be punished. And the...  satan replies "Lord, I had no power over him. Had he not himself willed to become rebellious, I could not have seduced him forcibly. This wretched person himself fled from goodness and was fascinated by evil. That is why he did not like anything that the Prophets presented and went on yielding to every temptation and inducement presented by me."  Show more

سورة قٓ حاشیہ نمبر :34 یہاں فحوائے کلام خود بتا رہا ہے کہ ساتھی سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔ اور یہ بات بھی انداز بیان ہی سے مترشح ہوتی ہے کہ وہ شخص اور اس کا شیطان ، دونوں خدا کی عدالت میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ حضور ، یہ ظالم میرے پیچھ... ے پڑا ہوا تھا اور اسی نے آخر کار مجھے گمراہ کر کے چھوڑا ، اس لیے سزا اس کو ملنی چاہیے ۔ اور شیطان جواب میں کہتا ہے کہ سردار ، میرا اس پر کوئی زور تو نہیں تھا کہ یہ سرکش نہ بننا چاہتا ہو اور میں نے زبردستی اس کو سرکش بنا دیا ہو ۔ یہ کم بخت تو خود نیکی سے نفور اور بدی پر فریفتہ تھا ۔ اسی لیے انبیاء کی کوئی بات اسے پسند نہ آئی اور میری ترغیبات پر پھسلتا چلا گیا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یہاں (ہم نشین) ساتھی سے مراد شیطان ہے، کیونکہ وہ بھی ہر وقت انسان کو بہکانے کے لئے اسکے ساتھ رہتا تھا، کافر لوگ چاہیں گے کہ اپنے حصے کی سزا یہ کہہ کر اپنے سرداروں پر اور خاص طور سے شیطان پر ڈالیں کہ اس نے ہمیں گمراہ کیا تھا، اس کے جواب میں شیطان یہ کہے گا کہ میں نے گمراہ نہیں کیا، کیونکہ مجھے کو... ئی ایسا اختیار نہیں تھا کہ اسے زبردستی گمراہی کے راستے پر ڈالوں، زیادہ سے زیادہ میں نے انہیں ترغیب دی تھی، گمراہی میں تو یہ خود اپنے اختیار سے پڑا تھا، شیطان کے اس جواب کی تفصیل سورۂ ابرہیم (١٤۔ ٢٢) میں ملاحظہ فرمائیے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:27) قال قرینہ : قرین سے مراد یہاں شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اور یہ بات بھی انداز بیان ہی سے مترشح ہوتی ہے کہ وہ شخص اور اس کا شیطان دونوں خدائی عدالت میں ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حضور یہ ظالم میرے پیچھے پڑا ہوا تھا اور اسی نے آخر منجھے گمراہ کرکے چھوڑا۔ اس ... لئے سزا اس کو ملنی چاہیے اور شیطان جواب میں کہتا ہے کہ سرکار میرا اس پر کوئی زور نہیں تھا۔ کہ یہ سرکش نہ بننا چاہتا ہو اور میں نے اسے زبردستی سرکش بنادیا ہو یہ کمبخت تو خود نیکی سے نفور اور بدی پر فریفتہ تھا۔ اسی لئے انبیاء کی کوئی بات اسے پسند نہ آئی اور میری ترغیبات پر یہ پھسلتا چلا گیا۔ ما اطغیتہ۔ ماضی منفی واحد متکلم اطغاء (افعال) مصدر بمعنی شرارت اور سرکشی میں ڈالنا ہ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع وہ کافر شخص ہے، میں نے اس کو سرکشی میں نہیں ڈالا تھا ۔ (غوی مادہ) ضلل بعید : موصوف و صفت، پرلے دوجے کی گمراہی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 اس لئے اسے انبیاء کی کوئی بات پسند نہ آئی اور وہ میرے بھرے میں آگیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم ہونے کے ساتھ ہی اس کا ساتھی اس سے برأت کا اعلان کردے گا۔ جونہی جہنمی کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم ہوگا تو خوف کے مارے اس کا ساتھی پکار اٹھے گا کہ اے ہمارے رب ! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی صراط مستقیم سے بھٹک گیا تھا۔ اس کے جواب م... یں رب ذوالجلال فرمائے گا کہ میرے حضور بحث نہ کرو کیونکہ میں نے پہلے ہی تمہیں جہنم کے بارے میں انتباہ کردیا تھا۔ اب جہنم میں داخل ہوجاؤ اور یاد رکھو ! کہ میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر زیاتی کرنے والا ہوں۔ جہنمی کے ساتھی سے مراد اس کے برے ساتھی اور رشتہ دار ہیں جن میں سب سے برا ساتھی شیطان ہے جو انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا دینا ہے اور اسی کی وجہ سے انسان برے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوش رہتا ہے۔ قیامت کے دن شیطان ہر مجرم سے یہ بات کہہ کر منہ پھیرلے گا کہ بیشک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچ ثابت ہوا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا اس کی میں نے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تم کو کسی چیز کی طرف بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرنے والے ہو، یقیناً میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ (ابراہیم : ٢٢) دوسری طرف جہنمی اپنے ہاتھوں کو کاٹتے اور روتے ہوئے کہے گا کہ ہائے کاش ! کہ میں رسول کا راستہ چھوڑ کر فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا۔ اس نے مجھے اللہ کی نصیحت بھلادی۔ (الفرقان : ٢٨، ٢٩) شیطان کی برأت اور مجرم کے اعتراف کے باوجود اسے جہنم میں جانے کا حکم ہوگا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ بندے اپنے آپ پر زیادتی کرتے ہیں۔ لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گروہ در گروہ مجرموں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اسی طرح کئی ارب کھرب انسان جہنم میں داخل ہوں گے۔ با لآخر جہنم سے اللہ تعالیٰ استفسار فرمائے گا کیا تو بھر گئی ہے اور تیری اشتہاپوری ہوچکی ہے ؟ جواب میں جہنم بلبلا کر کہے گی کہ میرے رب ! ابھی میرا پیٹ نہیں بھرا اس لیے اور مجرموں کو مجھ میں داخل کیا جائے۔ اس پر جہنم میں اللہ تعالیٰ اپنا قدم مبارک رکھیں گے جس سے جہنم کی کی مزید چاہت ختم ہوجائے گی۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھاَ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْھَا قَدَمَہٗ فَیَنْزَوِیْ بَعْضُھَا اِلٰی بَعْضٍ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا یَزَالُ فِیْ الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰی یُنْشِئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا فَیُسْکِنُھُمْ فَضْلَ الْجَنَّۃِ ) (رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب النار لایدخلھا الا الجبارون) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم میں مسلسل لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور جہنم یہکہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور بھی ہے ؟ بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم جہنم میں رکھیں گے تو جہنم کا ایک حصہ دوسرے سے مل جائے گا۔ جہنم کہے گی تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم ! بس !۔ بس ! اس کے مقابلے میں جنت میں ہمیشہ وسعت اور فراخی ہوتی رہے گی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے جنہیں جنت کے وسیع علاقے میں آباد کیا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ جہنم کا حکم سنتے ہی شیطان اپنی برأت کا اظہار کرے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جہنم کے عذاب سے بار بار متنبہ کردیا ہے۔ ٣۔ رب ذوالجلال کے حضور کسی کو بحث و تکرار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ ” اللہ “ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبہ : ٧٠) (العنکبوت : ٤٠) (الروم : ٩) ٢۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٤٩) ٣۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٤۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا۔ (یٰس : ٥٤) (حٰم السجدۃ : ٤٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس مقام پر اس شخص کے ساتھ بھی خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور کانپ اٹھتے ہیں اور جلدی سے اپنے بارے میں کسی الزام کے سائے کو رد کرتے ہیں ، محض اس بنا پر کہ یہ اس جہنمی کا ساتھی تھا۔ قال قرینہ ۔۔۔۔۔ ضلل بعید (٥٠ : ٢٧) ” اس کے ساتھ نے عرض کیا خدا وندا ، میں نے اس کو سرکش نہیں بنایا بلکہ یہ خود ہی پرلے درجے کی گ... مراہی میں پڑا ہوا تھا “۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ساتھ وہ نہ ہو جس کا ذکر پہلے ہوا۔ جس نے اس مجرم کے کاغذات پیش کئے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ شیطان ہو وج اس کے ساتھ اسے گمراہ کرنے کے لئے لگا ہوا تھا۔ اور اب وہ یہاں اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے میں لگا ہوا ہے اور پورے قرآن مجید میں ایسے مشاہد اور مکالمے موجود ہیں جن میں گمراہ کرنے والے شیاطین اپنی برات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسا کہ یہاں ہے لہٰذا یہ بھی بعید از امکان نہیں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ قرین سے مراد اعمال نامہ تیار کرنے والا فرشتہ ہو اور اس ہولناک احکام الٰہی سے ڈر گیا ہو اور اپنی برات کا اظہار کر رہا ہو اور یہ بیان کر رہا ہو کہ بیشک میں تو اس بدبخت کا ساتھی تھا ، لیکن ان کی گمراہی میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے ، اس طرح اس بری الذمہ شخص کا اپنی برات ظاہر کرنا اس بات پر دلالت ہوگی کہ اس خوفناک اور کربناک منظر کو دیکھ کر فرشتے ساتھی نے یہ کہا۔ غرض اب آخری حکم آجاتا ہے اور بات ختم ہوجاتی ہے : قال لا تختصموا ۔۔۔۔۔ بالوعید (٥٠ : ٢٧) ما یبدل بظلام للعبید (٥٠ : ٢٩) ” ارشاد ہوگا ، میرے حضور جھگڑا نہ کرو میں تم کو پہلے ہی انجام بد سے خبردار کرچکا تھا “۔ میرے ہاں بات پلٹی نہیں جاتی اور میں اپنے بندوں پر ظلم توڑنے والا نہیں ہوں “۔ لہٰذا یہ جھگڑنے کی جگہ نہیں ہے ۔ اسے قبل تمہیں باربار خبردار کردیا گیا تھا کہ ہر عمل پر جزاء و سزا ملے گی ، تمام اعمال لکھ دئیے گئے ہیں۔ اب ان کے اندر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ہر کسی کو اس کے اعمال نامے کے مطابق بدلہ ملے گا۔ کسی پر ظلم نہ ہوگا کیونکہ جزا دینے والا حاکم عادل ہے۔ اس پر حساب و کتاب کا یہ منظر اپنی تمام ہولناکیوں اور شدت کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے لیکن ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کا ایک خوفناک پہلو ابھی باقی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ قَالَ قَرِيْنُهٗ رَبَّنَا مَاۤ اَطْغَيْتُهٗ ﴾ کافر کو جب دوزخ میں داخل کیے جانے کا حکم ہوگا تو اس کا قرین یعنی اس کا ساتھی (جس کے ساتھ رہنے اور برے اعمال کو مزین کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوا اور دوزخ میں جانے کا مستحق ہوا) یوں کہے گا کہ اے میرے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا یعنی میں نے اسے جبراً قہراً ... زبردستی کافر نہیں بنایا بلکہ بات یہ ہے یہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا اگر اس کا مزاج گمراہی کا نہ ہوتا اور اس کو گمراہی پسند نہ ہوتی تو میری مجال نہ تھی کہ میں اس کو کفر پر ڈالتا اور جمائے رکھتا، جب یہ گمراہ تھا تو میں نے اس کی گمراہی پر مدد کردی۔ قال صاحب الروح : فاعنتہ علیہ بالاغواء والدعوة الیہ من غیر قسر ولا الجاء فھو نظیر ” وما کان لی علیکم من سلطان۔ “ کافر کا جو قرین ہوگا وہ بھی کافر ہی تھا وہ دوزخ سے بچ جائے اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اس کے ما اطغیتہ کہنے کا کیا مقصد ہوگا ؟ اس کے بارے میں بعض اکابر نے فرمایا کہ وہ یہ چاہے گا کہ میری گمراہی کا اثر صرف مجھ پر پرے اور مزید فرد جرم مجھ پر نہ لگے اور دوسروں کی گمراہی کی وجہ سے عذاب میں اضافہ نہ ہو، لیکن ایسا نہ ہوگا۔ دوسروں کو گمراہ کرنے کی سزا بھگتنی ہوگی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اس کافر کا وہ ساتھی جو اس پر متعین تھا وہ کہے گا اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو زبردستی اور جبراً گمراہ نہیں کیا تھا لیکن یہ خود ہی پرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلا تھا۔ یہ وہی قرین یعنی شیطان ہے جو بدکرداری کی وجہ سے انسان پر مسلط کردیا جاتا ہے جس کا ذکر سورہزخرف میں گزر چکا ہے وہ اپنی صفائی میں ... یہ کہے گا کہ جناب میں نے اس کو زبردستی گمراہ نہیں کیا میں اس پر مسلط ضرور تھا اور اس کو برے کاموں پر بھی ابھارتا تھا لیکن میں نے اس پر کوئی زیادتی اور جبر نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی بہت دور کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا یعنی ایسی گمراہی جو راہ حق سے بہت دور تھی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ ساتھی شیطان ہے آپ کو بےگناہ کیا چاہتا ہے۔ جمہور کا قول یہی ہے البتہ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ قرین وہی کاتب اعمال فرشتہ ہے۔ یہ کافر اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر کہے گا اس فرشتے نے مجھ پر بڑی زیادتی کی کیونکہ میرے نامہ اعمال میں ایسی باتیں درج کردیں جن کا ارتکاب میں نے نہیں کیا وہ فرشتہ اپنی صفائی میں کہے گا اے ہمارے پروردگار میں نے تو کوئی زیادتی نہیں کی یہ ہی راہ حق ہے بہت دور کی گمراہ ی میں پڑا ہوا تھا یہ جو کچھ کرتا تھا میں تو وہی لکھا کرتا تھا۔ یہ قول حضرت ابن عباس (رض) کا ہے۔ بہرحال یہ کہنے والا کاتب اعمال فرشتہ ہو یا وہ شیطان مسلط اور متعین ہو جس کو ومن یعش من ذکر الرحمان نقیض لہ شیطانا میں فرمایا ہے آگے حضرت حق تعالیٰ کا جواب ہے۔  Show more