Surat Qaaf

Surah: 50

Verse: 3

سورة ق

ءَاِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِکَ رَجۡعٌۢ بَعِیۡدٌ ﴿۳﴾

When we have died and have become dust, [we will return to life]? That is a distant return."

کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے ۔ پھر یہ واپسی دور ( از عقل ) ہے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When we are dead and have become dust. That is a far return. They said, `after we die, disintegrate, with our organs torn apart and we become dust, how can we be brought back to our original shape and bodies,' ذَلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ (That is a far return). `it is not likely that it will ever occur.' They thought that Resurrection was far from happening and will never occur. Allah the Exalted responded to their statement by saying,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 حالانکہ عقلی طور پر اس میں بھی کوئی استحالہ نہیں ہے۔ آگے اس کی کچھ وضاحت ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] بعث بعد الموت :۔ یہ کفار مکہ کا دوسرا اعتراض یا انکار ہے جو بعث بعد الموت سے تعلق رکھتا ہے کہ جب انسان مر کر مٹی میں مل جائے گا اور مٹی ہی بن جائے گا تو اس کے دوبارہ جی اٹھنے کا معاملہ عقل سے بھی بعید ہے، قیاس کے بھی اور عادت کے بھی خلاف ہے۔ لہذا ہم اسے تسلیم نہیں کرسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ء اذا متنا و کنا تراباً :” اذا “ فعل محذوف کا ظرف ہے :” ای انرجع اذا متنا و کنا تراباً “” یعنی کیا ہم اس وقت دوبارہ لوٹیں گے جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے۔ “ مزید دیکھیے سورة رعد (٥) اور سورة صافات (١٦) ۔ (٢) ذلک رجع بعید : یہ لوٹنا تو عقل سے بہت دور ہے، یعنی ان کے خیال میں ممکن ہی نہیں۔ (٣) حقیقت یہ ہے کہ کفار نے جن باتوں کو باعث تعجب قرار دیا وہ قابل تعجب نہیں، بلکہ قابل تعجب کفار کی باتیں ہیں ۔ چناچہ انہوں نے اس بات کو قابل تعجب قرار دیا کہ انہیں خبردار کرنے اور ڈرانے والا خود ان میں سے آیا، حالانکہ اپنی جنس کا فرد ڈرانے اور آگاہ کرنے میں زیادہ مخلص اور خیر خواہ ہوتا ہے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ انسانوں کو خبردار کرنے کے لئے کوئی فرشتہ آتا، یا عربوں کی طرف کوئی چینی آتا۔ پھر وہ اس بات پر تعجب کر رہے ہیں کہ انسان رسول کیسے ہوگیا اور انہیں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ وہ پتھر کو رب مان کر اس کی پرستش کر رہے ہیں۔ پھر وہ مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کو عجیب کہہ رہے ہیں اور انہیں اس بات پر تعجب نہیں ہوتا کہ پہلی مرتبہ اسی مٹی سے انہیں پیدا کیا گیا اور زندگی عطا کی گئی ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قیامت کے انکار کی بات کو عجیب قرار دیا، فرمایا :(وان تعجب فعجب قولھم اذا کنا ترباً ء انا لفی خلق جدید) (الرعد : ٥)” اور اگر تو تعجب کرے تو ان کا یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ کیا ج ب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم یقینا ایک نئی پیدائش میں ہوں گے۔ “ (بقاعی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ءَ اِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا۝ ٠ ۚ ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِيْدٌ۝ ٣ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے بعد البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء/ 167] ( ب ع د ) البعد کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس پر کفار مکہ بالخصوص مذکورہ لوگ کہنے لگے کہ محمد جو کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، یہ عجیب بات ہے کہ جب ہم مرگئے اور مٹی و ریزہ ریزہ ہوگئے تو کیا دوبارہ زندہ ہوں گے، یہ محمد کی بات امکان سے بہت ہی بعید ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { ئَ اِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا } ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے (تو ہم پھر سے زندہ کیے جائیں گے ؟ ) “ { ذٰلِکَ رَجْعٌم بَعِیْدٌ ۔ } ” یہ لوٹایا جانا تو بہت دور کی بات ہے۔ “ مر کر مٹی ہوجانے کے بعد ہمارا دوبارہ زندہ ہونا بالکل انہونی سی بات ہے ‘ یہ بعید از قیاس دعویٰ کر کے یہ صاحب بہت دور کی کوڑی لائے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :3 یہ ان لوگوں کا دوسرے تعجب تھا ۔ پہلا اور اصل تعجب زندگی بعد موت پر نہ تھا بلکہ اس پر تھا کہ انہی کی جنس اور قسم کے ایک فرد نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں خبردار کرنے کے لیے آیا ہوں ۔ اس کے بعد مزید تعجب انہیں اس پر ہوا کہ وہ شخص انہیں جس چیز پر خبردار کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ تمام انسان مرنے کے بعد از سرنو زندہ کیے جائیں گے ، اور ان سب کو اکٹھا کر کے اللہ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا ، اور وہاں ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بعد جزا اور سزا دی جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(50:3) ء اذا متنا وکنا ترابا : ای ونبعث اذا متنا وکنا ترابا۔ کیا ہم دوبارہ نزدہ اٹھائے جائیں گے جب ہم مرگئے ہوں گے۔ اور مٹی بن چکے ہوں گے۔ (یہ کفار کے انکار اور ان کے انکار کی دوسری وجہ تھی) ذلک : ای بعث بعد الموت رجع بعید موصوف و صفت بعید : ای بعید عن الاوھام او العادۃ او امکان یعنی یہ واپسی (مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا) ۔ وہم و گمان سے بالاتر ، خرق العادت اور ناممکنات میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ہماری سمجھ میں نہیں آتا یا یہ عام عادت کے خلاف ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ء اذا متنا وکنا ترابا ذلک رجع بعید (٥٠ : ٣) ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور خاک ہوجائیں گے ! یہ واپسی تو عقل سے بعید ہے “۔ ان کی نظروں کی میں مسئلہ یہ ہے کہ مرنے اور خاک ہوجانے کے بعد زندگی کا دوبارہ پیدا ہونا مستعبد ہے اور یہ ایک نہایت ہی سادہ نظریہ ہے۔ کیونکہ ایک دفعہ جب مردہ مٹی میں زندگی ڈال دی گئی ہے تو دوبارہ مٹی میں اسی طرح زندگی ڈالنا کیا مشکل کام ہے جبکہ یہ معجزہ ان کے سامنے ہر لحظہ رو بعمل ہوتا رہتا ہے۔ اور اس کائنات کے ہر پہلو میں ہو رہا ہے۔ اس سورت میں قرآن کریم نے ان کو اس نکتے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ زندگی کی اس نمائش گاہ کے بارے میں ہم قرآن مجید کے اشارات اور تکوینی دلائل پر کوئی بات کریں۔ مناسب ہے کہ مرنے اور مٹی ہونے کی طرف انہوں نے جو اشارہ کیا اور جسے قرآن نے نقل کر کے اس پر تبصرہ کیا ، اس پر ذرا غور کریں۔ ء اذا متنا وکنا ترابا (٥٠ : ٣) ” کیا جب ہم مرجائیں گے اور خاک ہوجائیں گے “۔ ہاں ہم مر جائیں اور مٹی بھی ہوجائیں گے جو بھی قرآن کے ان الفاظ کو پڑھتا ہے جو قرآن نے کفار کے منہ سے لیے ہیں ، وہ اپنی ذات پر نگاہ ڈالتا ہے اپنے اردگرد دوسرے زندہ اشیاء کو دیکھتا ہے۔ اور وہ موت اور مٹی ہونے کے عمل پر ضرور غور کرتا ہے بلکہ جب وہ زندہ ہوتا ہے اور پھر رہا ہوتا ہے تو بھی وہ محسوس کرتا ہے کہ شاید مٹی ہونے کا عمل اس کے جسم میں جاری ہوچکا ہے۔ غرض موت کے سوا اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا تصور انسان کا دل ہلانہ دیتا ہو اور پھر قبر میں مٹی ہوجانے کے تصور ہی سے انسان کانپنے لگتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) کیا جب ہم مرگئے اور مر کر مٹی اور خاک ہوگئے تو کیا پھر لوٹ کر زندہ ہوں گے یہ دوبارہ پھر زندہ ہو کر لوٹنا بہت ہی بعید از عقل بات ہے۔ یعنی اول تو اس پر تعجب کہ ہماری ہی جنس سے یعنی بشر ہم کو ڈرانے کے لئے آیا پھر اس پر تعجب یہ کہ کہتا ہے کہ مرجانے اور مٹی ہوجانے کے بعد پھر تم کو دوبارہ زندہ ہونا اور زندہ ہوکر لوٹنا ہے تو یہ رجعت اور دوبارہ لوٹنا تو عقل وفہم سے بہت دور اور بعید بات ہے بھلا خاک ہوجانے کے بعد پھر ہمارا انسان بن جانا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ سورہ مومنون میں گزر چکا ہے ھیھات ھیھات لما توعدون اگرچہ یہ قول نوح (علیہ السلام) کی قوم کا ہے لیکن دین حق کے سب منکروں میں ایک ہی قسم کی ذہنیت کارفرما ہے جو بات ہزار ہابرس پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہی تھی وہی برس ہا برس کے بعد محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم یعنی کفار عرب نے کہا۔ ذلک رجع بعید یعنی بعید ازامکان